Nidaye haaq news

Nidaye haaq news Nidaye Haaq news

17/08/2024

*شیخ الہند ایجوکیشنل ٹرسٹ دھلی کے زیرِ اہتمام ۔ مدرسہ عربیہ ھدایت الا سلام ۔ و ماڈرن اسلامک اکیڈمی انعام وہار میں نہایت جوش و خروش کے ساتھ منایا گیا جشن یوم آزادی!* 🌹مزید پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں 👇👇👇👇👇
https://www.facebook.com/share/p/zah4Lci1hLiDJ6Us/?mibextid=oFDknk
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹

17/08/2024

*کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد :؟*

*🖋️: مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی :*
صدر مدرس :مدرسہ عربیہ ھدایت الاسلام انعام وہار سبھا پور دھلی. این. سی. آر :
[email protected] :
_____=====_____
محترم قارئین :
آج پورے ملک ھندوستان کی فضامسموم ہو چکی ہے ہمارا رشتہ خود اپنی تاریخ اور اپنے شاندار ماضی سے کٹ چکا ہے وقت کی ستم ظریفی کہئے یا ہماری لاپروائی کہ ہم اپنے کو دوسروں کی نگاہوں سے دیکھنے اور دوسروں کے بتائے ہوئے معیارات سے جانچنے لگے ہیں ستم ظریفوں نے مسلمانوں کو ان کے ماضی سے کاٹنے کی شاطرانہ چالیں چل رکھی ہیں حقائق پر سیاہی کے دبیز پردے ڈال دیئے ہیں اس لئے نئی نسل اپنے اسلاف کے کارناموں سے بالکل واقف نہیں آج ضرورت ہے اس بات کی کہ ہم تاریخ کے حقائق کو ان کے سامنے لائیں تاکہ وہ ان کے نقش قدم پر چل کر ملک و ملت کے لئے مفید سے مفید تر ثابت ہوں: اسی کے ساتھ ساتھ آج ھندوستان کی پوری اسلامی تاریخ کو جس طرح مسخ کرنے کی شرمناک کوشش بلکہ سازش کی جا رہی ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں چونکہ مسلمانوں نے اپنے خون جگر سے اس کی سینچائی کی تھی اس لئے قدرتی طور پر انھوں نے اس کی حفاظت کے لئے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جب فرنگی ہندوستان آئے اور ملک پر قبضہ کرنا شروع کیا تو مسلمان ہی یہاں کے حاکم تھے اور فرنگیوں نے ملک انہیں سے چھینا تھا اس لئے بھی فطری طور پر ان کے مقابلہ میں مسلمانوں کو آگے ہونا چاہیے تھا اور پھر اسلام کسی بھی طرح غلام رہنے کی اجازت نہیں دیتا اس لئے علماء سامراجیوں سے مقابلہ ضروری سمجھتے تھے اس بناء پر تحریک آزادی کے ہر دور میں انہوں نے مسلم عوام کی پوری قیادت کی اور ایک مخلص اور سمجھ دار رہنما کا پارٹ ادا کیا علماء کے استعمار مخالف موقف اور اس کے خلاف ان کی مسلسل جدوجہد نے فرنگیوں کو کبھی چین سے حکومت کرنے نہیں دیا اور مسلما نوں نے ہمیشہ اس ملک کو اپنا وطن آپنا گھر اور اپنی ابدی قیام گاہ سمجھا جس سے وہ کبھی اپنی نظریں پھیر نہیں سکتے تھے یہ مسلم قوم ہی ہے جس نے سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا جس مختلف تحریکوں کو جنم دیا جس کے مجاہدین نے ہندو بیرون ہند میں آزادی کے لیے ناقابلِ فراموش دوڑ دھوپ کی اور انگریز ہم ہی سے آزادی کے نعرہ کا زیادہ بدلہ لیتے رہے کیونکہ ملک مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اور پھر وطن سے محبت اس کے ایمان کا ایک حصہ ہے اس لیے اس کی جدوجہد لازمی اور ضروری تھی یہ دن،، جشنِ یوم آزادی،، ہمیں سوچنے سمجھنے اور کوئی لائحہ عمل تیار کر نے کا پیغام دیتا ہے یہ دن ہمیں اپنے اسلاف اور بزرگوں کی قربانیوں کو یاد کر کے ان سے سبق سیکھ کر زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے میں عرض کروں کہ جنگ آزادی کی دو سو سالہ تاریخ ہے اس تاریخ کی ابتداء اس وقت ہوگئی تھی جب 1756ء میں نواب سراج الدولہ جیسے جری بہادر بادشاہ کا دور حکومت آیا اور تاریخ کا یہ روشن باب اس وقت مکمل ہوگیا جب وہ معروف ومشہور تاریخ دوہرائی گئی جس میں خون ندیاں بہہ گئیں گاجر مولی کی طرح محبین وطن کو کاٹ کر رکھ دیا گیا تھا آج جسے غدر 1857ء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے پھر دوسرا دور اس وقت مکمل ہوا جب انگریزوں کی غلامی کی زنجیریں قانونی طور پر ہماری گردنوں سے نکالی گئیں اور وہ 1947ء کاوقت تھا
یہ ایک صدی کی تاریخ مسلمانوں کی بے نظیر اور بے لوث قربانیوں سے بھری پڑی ہے جسے کبھی بھلایا نہیں جاسکتا!
آزادی کی اس طویل ترین تاریخ میں ہماری عورتوں کو بھی بے حرمت کیا گیا اور ہمارے بچوں کو بھی ذبح کیا گیا ہمارے کار وبار بھی تباہ کئے گئے اور املاک پر بھی ڈاکہ زنی کی گئی ہمیں کالے پانی کی اذیتیں بھی برداشت کرنی پڑیں اور مالٹا کے زنداں خانوں میں بھی ہمارے صبر وضبط کا امتحان لیا گیا پانی پت وشاملی کے میدانوں میں بھی ہمارا خون جذب ہوا ہے اور احمد نگر کے قید خانوں کو بھی ہم ہی نے اپنے عزم و حوصلوں کا نظارہ کرایا ہے جلیا نوالہ باغ کے خونی منظر سے بھی ہم گزرے ہیں لاہور کی شاہی مسجد بھی ہماری قربانیوں کی شاہد وعادل ہے اور ہندوستان کے جس چپہ پر بھی آپ دیکھیں گے جس اینٹ کو اٹھائیں گے وہاں ہمارے خون کی مہک ہمارے بزرگوں کے گرم گرم راتوں کے آنسوؤں کی نمی اور ہمارے جیالوں کے ولولے اور عزائم و حوصلے ملیں گے -
*بہار اب جو ہند میں آئی ہوئی ہے*
*یہ سب پودا انہیں کی لگائی ہوئی ہے*
لیکن یہ کیسی وقت کی ستم ظریفی ہے کہ حریت کی سنگلاخ راہوں پر لہو لہو اور آبلہ پا کاروان آزادی کی تن تنہا ڈھائی سو سالہ مسافت طے کرنے کے بعد جب منزل سامنے آئی تو تمام خوابوں کی تعبیریں منافق اور حوصلہ شکن ہوگئیں، جمہوریت کا آئین مرتب ہوا،مگر اسی جمہوریت کی آڑ میں انہیں شہیدان آزادی اور کاروان آزادی کی نسلوں کے استحصال میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی گئی، فرقہ پرستی کا پودا کھڑا ہوا حکومت پروش کرتی رہی، ملک دوٹکڑے ہوا اور مسلمان اقلیت میں ہوکر بے یارومددگار ہوگئے نہ ان کے لیے کوئی قانون نہ ان کے تحفظ کی کوئی ضمانت، نہ ان کی تعلیم کا کوئی نظم، اور نہ ہی ان معاشیات کا کوئی انتظام، فسادات کے ذریعے ان کی معیشت کو برباد کردیا گیا، عصبیت کے زیر اثر سیاسی ایوانوں سے لیکر عام اداروں تک ان کی نمائندگی صفر کردی گئی، فرقہ وارانہ مزاج کی تنظیموں کو اس قدر شہ دی گئی کہ وہ ناقابل شکست قوت بن کر سیاہ وسفید کی مالک بن گئی،
پھر کیا تھا پوری فضا اسلام مخالف پروپیگنڈوں سے مسموم ہوگئی، اسلامی قانون پر شب خون مارا گیا،منصوبہ بند طریقے سے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے نام پر اغواء کر کے پوری زندگی تباہ کردی گئی،قوم کو ہر لحاظ سے ہراساں کیا گیا ستم یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ یہ بربریت اور احسان فراموشی کا سلوک سیکولر کی علمبردار جماعت کے عہد میں ہوتا رہا ہے’جس بنیادوں کے استحکام میں مسلمان قائدین نے اپنے جانوں کی بازی لگا دی تھی،
*جب گلستاں کو خوں کی ضرورت پڑی*
*سب سے پہلے ہماری ہی گردن کٹی*
*پھر بھی کہتے ہیں ہم سے یہ اہل چمن*
*،یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں۔*
دنیا کے کسی ملک نے اس قوم کے ساتھ ایسی بدترین قسم کی احسان فراموشی نہیں کی ہوگی، اس کے ساتھ عصبیت کا سلوک نہیں کیا ہوگا جس کے آباؤ اجداد کا لہو اس سرزمین کے سینے میں جذب ہو،لیکن یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہندوستان کی مفاد پرست سیاسی پارٹیوں نے اسی قوم کا زندگی کے ہر شعبے میں دیدہ و دانستہ استحصال کیا ہے جس کے اسلاف کے خون سے اس سرزمین کا ذرہ ذرہ لہو رنگ ہے’۔ لیکن باوجود اس کے مسلم دشمنی اور انتہا پسندی کے جنون میں فسطائی طاقتوں نے اسلامی تشخص،اسلامی علامتوں کے مٹانے میں مسلمانوں کو ہراساں کرکےانہیں خود اعتمادی سے محروم کرنے میں، مسلمانوں کو اقتصادی سیاسی اور تعلیمی اعتبار سے بے وزن اور بے دست وپا کرنے میں اپنی پوری طاقت جھونک دی ہے’،ماب لینچنگ کا معاملہ ہو یا معصوم نوجوانوں کی گرفتاریاں،گائے کے ذبیحہ کا مسئلہ ہو یا اسلامی قوانین کی تحریف کا تمام مراحل میں حکومت کے اقدامات سے واضح ہے’کہ ملک مکمل طور پر انتہا پسندی کی راہ پر جاچکا ھے، جمہوریت کا خون کرکے نازی ازم کی ہوائیں پورے ملک پر مسلط ہوچکی ہیں،ایسی دلخراش اور خوفناک صورت حال میں زخم زخم قلب و ذہن اور لہو لہو اجسام کس طرح وجود میں سرشاری کی کیفیت لائے، ملک کی ہفت رنگ فضاؤں میں ظاہراً چہروں پر مصنوعی مسکراہٹیں ایک لمحے کے لیے بکھر سکتی ہیں مگر وہ احساسات اور وہ جذبات جن میں کیف وانبساط کی لہریں موجزن رہتی ہیں انہیں ظلم وجبر کے پیدا نہیں کیا جاسکتا۔

*کتنی بربادی مقدر میں تھی آبادی کے بعد*
*کیا بتائیں ہم پہ کیا گذری ہے آزادی کے بعد*

20/09/2023
*مسلمان اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم ضرور دلائیں!  مولانا اویس صاحب قاسمی*                 _____======______محترم قارئین! ...
12/02/2023

*مسلمان اپنے بچوں کو قرآن کی تعلیم ضرور دلائیں! مولانا اویس صاحب قاسمی*
_____======______
محترم قارئین!
قرآن کریم کے پڑھنے اور پڑھانے والے محافظوں کی بھی اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے گا مذکورہ باتیں پرانا کٹرہ الہ آباد کے قلب میں واقع مدرسہ عربیہ نعمانیہ پرانا کٹرہ الہ آباد پریا گراج میں جلسہ دستارِ فضیلت کے موقع پر مولانا اویس صاحب قاسمی نے اپنے خطاب میں کہا. انہوں نے کہا کہ قرآن کریم تمام انسانوں کی ھدایت و رہنمائی کے لئے نازل کیا گیا ہے. جن لوگوں نے قرآن کریم کو اپنے سینوں سے لگایا اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ایسے لوگوں کی عظمت میں چار چاند لگا دیا. اس جلسہ کا باضابطہ آغاز حافظ محمد حسن صاحب غفرلہ کی تلاوت سے ہوا، نظامت کے فرائض مولانا عبید صاحب نعمانی نے انجام دیا. اس موقع پر مولانا نے کہا کہ قرآن کریم ایسی بابرکت کتاب ہے جس نے پڑھایا اور پڑھا. چھوا اور بوسہ لیا. اس کو محبت سے دیکھا. یا سینے لگایا بھی تو یہ عبادت ہے. قرآن مجید کو پڑھنے کے ساتھ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی سعی کرنی چاہیے اور تمام مسلمانوں کو رب العالمین کے محبوب ترین کلام سے اپنا رشتہ جوڑ لینا چاہیے. قرآن مجید نے اسی لئے دین کے ساتھ دنیا کی بھلائی کی دعا مانگنے کی تلقین کی اور یہ تنبیہ کی کہ صرف طلبگارِ دنیا نہیں یا صرف دین نہیں کہ تارک الدنیا بن جاؤ. : ۔ بعدہٗ مولانا اویس صاحب قاسمی : مولانا مسعود صاحب مہتمم مدرسہ ھٰذا : ڈاکٹر حافظ محمد احمد صاحب : حافظ محمد علی امام صاحب استاد مدرسہ ھٰذا ۔ اور ان کے علاوہ معزز شخصیات کے ہاتھوں سر پر دستارِ فضیلت باندھی گئی ۔ اس جلسے کا اختتام زیرِ صدارت فرما رہے حضرت ڈاکٹر حافظ محمد احمد صاحب کے دعا سے ہوا ۔ اہم شرکاء ہیں. مولانا اویس صاحب : حافظ محمد احمد صاحب : حافظ محمد علی امام صاحب : اور مدرسہ ھٰذا کے فارغين حفاظ کرام حافظ محمد امداد صاحب :حافظ محمد ریاض صاحب :حافظ محمد احتشام صاحب :حافظ محمد توفيق صاحب ؛کے نام قابل ذکر ہیں ان کے علاوہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اخیر میں مدرسہ ھٰذا کے مہتمم مشہور و معروف عالم دین حضرت مولانا مسعود صاحب نے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا …….

*جمعیتہ علما ٕ ھند شہر لونی کے زیرِ اھتمام” تیرہ روزہ اصلاحِ معاشرہ“کانفرنس کے تیرہویں اور آخری عظیم الشان اجلاس کا انعق...
08/01/2023

*جمعیتہ علما ٕ ھند شہر لونی کے زیرِ اھتمام” تیرہ روزہ اصلاحِ معاشرہ“کانفرنس کے تیرہویں اور آخری عظیم الشان اجلاس کا انعقاد* !
(پریس ریلیز لونی )
جمعیتہ علماءِ ھند شہر لونی کے ذمّہ داران کے ذریعہ پورے علاقہ میں ترتیب وار تشکیل دئے گئے ”بارہ روزہ اصلاحِ معاشرہ کانفرنس“ کا تیرہواں عظیمُ الشّان پروگرام بعنوان " فتنہ ارتداد اور مسلم بچیاں " بتاریخ 6/ جنوری بروز جمعہ بعد نمازِ مغرب تاخیر عشاء زیرِ سرپرستی حاجی عبدالعزیز صاحب قریشی صدر جمعیتہ علما ٕ ہند شہرلونی” سنہری مسجد بدھ نگر نسبندی کالونی لونی میں بڑے ہی تزک واحتشام کے ساتھ منعقد ہوا۔ جس کی صدارت مولانا احمد علی صاحب ناٸب صدر جمعیتہ علما ٕ شہر لونی، جب کہ قیادت مولانا قاری فیض الدین عارف صاحب جنرل سکریٹری جمعیتہ علما ٕ ہند شہر لونی نے فرماٸی۔اور حمایت مولانا شماٸل اختر صاحب سکریٹری حلقہ علوی نگر لونی جب کہ نگرانی مولانا کلیم احمد صاحب ناٸب سکریٹری جمعیتہ علما ٕ حلقہ علوی نگر کی رہی۔
اور نظامت کے فراٸض جناب مولانا نزاکت حسین صاحب قاسمی ناٸب صدر جمعیتہ علما ٕ شہر لونی نے انجام دیٸے۔
بعد حمد و ثنا کے مشہور عالم دین حضرت مولانا مفتی خالد صاحب قاسمی امام و خطیب جامع مسجد ثمر گارڈن میرٹھ نےافتتاحی خطاب میں فرمایا کہ اتباع رسولﷺ فلاح و کامیابی کی دلیل ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالٰی ہے: جو بھی اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کی اس نے بڑی کامیابی پالی۔ اسی طرح دوسری جگہ ارشاد الٰہی ہے کہ جو اللہ اور رسولﷺ کی فرماں برداری کرے گا۔ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا۔ جن پر اللہ تعالٰی نے انعام کیا ہے۔ جیسے نبی، صدیق، شہید،اور نیک لوگ ،یہ بہترین رفیق ہیں۔
بعدہٗ پروگرام میں بطور مہمان خصوصی تشریف لاٸے معروف و مشہور عالم دین نبیرہ شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حبیب اللہ مدنی صاحب ناظم اصلاح معاشرہ کمیٹی جمعیت علما ٕ اترپردیش نےاس اہم موضوع پر قرأن و حدیث کی روشنی میں مفصّل اور واضح انداز میں خطاب کرتے ہوٸے کہا کہ ملک کےحالات روز بروز بگڑتے جا رہےہیں۔ امت مسلمہ دین سے دور ہو رہی ہے ۔ جس تیزی کے ساتھ یہ ارتداد ہماری نسلوں کو تباہ کر رہاہے۔ اس کے واقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ملک کے تقریباً ہر شہروں سے ارتداد کی خبریں آرہی ہیں۔ آج امت مسلمہ جن بڑے بڑے مساٸل سے دو چار ہے ان میں سے ایک بڑا ور سنگین مسٸلہ غیر مسلموں سے مسلم لڑکے اور لڑکی کا شادی کرنا ہے۔ یہ فعل ایک مسلمان کو ارتداد کی دہلیز پر لاکھڑا کردیتاہے۔ ہندوستانی مسلمان اس سنگین مسٸلہ سے شدید متأثر ہیں۔ ملک کے طول و عرض سےآٸے دن یہ روح فرسا واقعات سننے اور پڑھنے کو ملتے رہتے ہیں کہ فلاں مسلم لڑکے یا لڑکی نے فلاں غیر مسلم لڑکی یا لڑکے سے شادی رچالی ۔ ان روح فرسا اور دل کو چھلنی کردینے والے واقعات کا سب سے زیادہ دل دہلا دینے والا پہلو یہ ہے کہ مسلم لڑکے اور لڑکی اپنی رضامندی اور خوش دلی سے ایسا کر رہے ہیں اور انھیں اس پر ذرا بھی افسوس نہیں اور اس پر دشمن کی چالیں اور سازشیں مستزاد ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سب کی حفاظت فرماٸےاور ہم سب کو سیدھے راستے کی طرف رہنماٸی فرماٸے۔ آمین۔۔
تاہم اس اجلاس کی خصوصیت یہ رہی کہ ناظم جمعیتہ شہر لونی مولانا قاری فیض الدین عارف نے ایک اعلامیہ پیش کیا جس میں انھوں نے کہا کہ اصلاح معاشرہ کے ان پروگراموں کے بہت مثبت اثرات مرتب ہوٸےہیں ۔ سب سے بڑا فاٸدہ یہ ہوا ہے کہ مسلم نوجوانوں میں جمعیتہ علما ٕ ہند سے وفاداری اور تعلق میں استحکام اور ملی بیداری پیدا ہوٸی ہے ۔ اسی کے ساتھ لوگوں میں بےخوفی و بے باکی اور خود اعتمادی بھی بیدار ہوٸی ہے۔اور عوام میں کافی جوش و خروش دیکھے جارہے ہیں۔ نیز
علما ٕ و اٸمہ اور مدارس کے صدور و نظما ٕ میں جمعیتہ علما ٕ شہر لونی کے شعبہ نشر و اشاعت سے چھپے ہوٸے کچھ رساٸل و کتابچے اور فاٸلیں بھی تقسیم کی گٸی ہیں۔

اخیر میں اصلاح معاشرہ کا یہ پروگرام بزرگ عالم دین حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب مدنی دامت برکاتہم ناظم اصلاح معاشرہ کمیٹی جمعیتہ علما ٕ اترپردیش کی رقت أمیز دعا ٕپر بحسن و خوبی اختتام پذیر ہوا۔

پروگرام میں ارکان عاملہ و منتظمہ کی اکثریت اور اطراف و اکناف کے بیشتر علما ٕ واٸمہ کے ساتھ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی !

*میڈیا انچارج: مفتی فہیم الدین رحمانی۔ سکریٹری جمعیتہ علما ٕ ہند شہر لونی* !

*کل ھند مسابقہ حفظ القرأن الکریم کا انعقاد* ۔( 26/نومبر پریس ریلیز دہلی )المعراج ایجوکیشنل اینڈ چیر ٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے...
26/11/2022

*کل ھند مسابقہ حفظ القرأن الکریم کا انعقاد* ۔
( 26/نومبر پریس ریلیز دہلی )
المعراج ایجوکیشنل اینڈ چیر ٹیبل ٹرسٹ کی جانب سے کل ھند مسابقة القرأن الکریم 24 نومبر 2022 ٕ بروز جمعرات انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر لودھی روڈ نٸی دہلی میں منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے کثیر تعداد میں مساہمین کے ساتھ ساتھ ان کے سرپرستان اور دیگر مدارس کے علماءکرام و اٸمہ حضرات نیز سینکڑوں کی تعداد میں عوام نے بھی شرکت کی. مسابقہ سےجہاں طلبا ٕ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو بیدار کیا جاتاہے وہیں اس بات کا بھی احساس دلا یا جاتا ہے کہ قرأن کریم کتاب ھدایت اور قوم و ملت کے لٸے عظیم سرمایہ ہے۔ چنانچہ اس کی تعلیمات کو عام کرنے کی أج کے اس پر فتن دور میں سب سے زیادہ ضرورت ہے تاکہ قرآنی تعلیمات واحکامات کو عام کیا جاسکے ۔ آج کے حالات میں اس کے علمی انکشافات کو بھی واضح کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ مسابقہ میں تشریف لاٸے مہمانان خصوصی عالی جناب ڈاکٹر محمد علی ربانی صاحب، کلچرل کاٶنسلر اسلامی جمہوری ایران نٸی دہلی، مولانا محمد مسلم صاحب صدر جمعیۃ علماء ہند صوبہ دہلی قاسمی،مولانامحمدعابدقاسمی صاحب صدر جمعیتہ علما ٕ ہند صوبہ دہلی ، مولانا مفتی عبدالرازق صاحب قاسمی، ناظم اعلی جمعیتہ علمإ ہند صوبہ دہلی، مولانا محمد انصار احمد صاحب قاسمی، رام پور یوپی کے نام قابل ذکر ہیں جب کہ حکم کی حیثیت ملک کے معروف و مشہور اور عالمی شہرت یافتہ قراء عظام جناب قاری أفتاب عالم صاحب قاسمی، استاذ تجوید و قرأت دارالعلوم دیوبند، جناب مفتی قاری انیس الرحمن قاسمی صاحب استاذ تجوید وقرأت جامعہ مظاہر علوم سہارنپور, جناب قاری عنایت الرحمان صاحب قاسمی، مہتمم مدرسہ روح العلوم میرٹھ نے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا
نیز ان تمام مساہمین میں سے منتخب ہوکر چھ طلبہ نے فاٸنل راٶنڈ میں شرکت کی اور ان میں سے امتیازی نمبرات سے کامیابی حاصل کرنے والے طلباء کے نام کا اعلان کیا گیا۔
جن کی ترتیب یہ ہے کہ جن چھ طلبا ٕنے شرکت کی ان میں اول پوزیشن حاصل کی محمد شعیب ابن محمد اکرم بجنوری ۔ جبکہ دوسری پوزیش حاصل کی محمد عدنان ابن مولانا نزاکت حسین قاسمی،دہلوی اور تیسری پوزیش حاصل کی عبید اللہ ابن اسرار احمد سہارنپوری نے جنکو امتیازی اسناد اور گراں قدر انعامات سے نوازا گیا۔ البتہ اس مسابقہ کی یہ خصوصیت رہی کہ اول، دوم، اور سوم پوزیشن حاصل کرنے والے تینوں طالب علموں کو عمرہ پر بھیجا جاٸے گا۔ ان کے علاوہ چہارم اور پنجم پوزیش حاصل کرنے والے طلباء کو شیلڈ و اسناد اور نقد انعامی رقم سے نوازا گیا۔ ساتھ ہی ساتھ مسابقة القرأن الکریم میں دیگر مساہمین طلبا ءکو بھی توصیفی اسناد، شیلڈ، اور انعامات پیش کٸے گٸے۔ تاہم پروگرام کے کنوینر اور المعراج ایجوکیشنل اینڈ چیر ٹیبل ٹرسٹ کے صدر مولانا نزاکت حسین صاحب قاسمی نے مسابقہ کے اہداف و مقاصد بیان کرتے ہوٸے کہاکہ مسابقہ حفظ قرأن کریم کے انعقاد کا اہم مقصد یہ ہے کہ ہماری نٸی نسل قرأن سے وابستہ ہوجاٸے اور انسان صحیح معنوں میں انسان بن جاٸے۔ اس کی روح و وجدان قرأن کی خوشبو سے معطر و معمور ہو اور وہ اسلامی طرز زندگی سے بہرہ ور ہو ۔ جب کہ دوسرے کنوینر جناب مولانا محمد راشد جامعی نے پروگرام کی کامیابی پر آنے والے تمام مہمانوں کا شکریہ ادا کیا مولانا محمد مسلم قاسمی کی دعا پر اختتام ہوا۔
اہم شرکا ٕ میں وجاہت حبیب اللہ صاحب، سابق چیرمیںن اقلیتی کمیشن، پدم شری پروفیسر اخترالواسع صاحب، معروف رضا صاحب ایڈیٹر ان چیف نیوز ورلڈ انڈیا، سراج الدین قریشی صاحب، صدر انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر دہلی ، جناب عمران خان صاحب ، ڈاٸریکٹر لسانی ایجوکیشنل سولوشن پراٸیویٹ لمیٹیڈ ، مفتی انتظار حسین صاحب مظاہری، مفتی نثار احمد الحسینی، مولانا دلشاد قاسمی ابو الفضل وسندھرا ، مفتی کفیل الرحمان صاحب دہلی، مفتی محمد حسن صاحب قاسمی لونی، قاری فیض الدین عارف صاحب لونی، مفتی فہیم الدین رحمانی صاحب لونی، مفتی صبیح اختر صاحب ان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔۔

*مفتی محمد رفیع عثمانیؒ صاحب عالم اسلام کی ایک عبقری شخصيت تھی۔ ان کی وفات عالم اسلام کےلٸے ایک عظیم سانحہ ہے*!*مفتی فہی...
21/11/2022

*مفتی محمد رفیع عثمانیؒ صاحب عالم اسلام کی ایک عبقری شخصيت تھی۔ ان کی وفات عالم اسلام کےلٸے ایک عظیم سانحہ ہے*!

*مفتی فہیم الدین رحمانی۔چیرمین۔ شیخ الھند ٹرسٹ دہلی*
= حیات و خدمات =
مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب 21 جولاٸی 1936 ٕ کو ہندوستان کی ریاست اترپردیش کے مشہور قصبہ دیوبند کے خانوادہ عثمانی میں پیدا ہوٸے۔ ان کا نام مولانا اشرف علی تھانوی ؒنے محمد رفیع رکھا۔ أپ کے والدگرامی مفتی شفیع احمد دیوبندی ؒ دارالعلوم دیوبند کے مفتی اعظم اور تحریک پاکستان کی سرخیل شخصيات میں سے ایک تھے۔ مفتی رفیعؒ یہ مفتی تقی عثمانی کے بڑے بھاٸی تھے۔
" تعلیمی زندگی "
مفتی عثمانی نے نصف قرأن دارالعلوم دیوبند میں حفظ کیا۔ اور یکم مٸی 1948 ٕ کو ہجرت کرکے پاکستان أگٸے۔ انھوں نے أرام باغ میں مسجد باب الاسلام میں قرأن حفظ مکمل کیا۔اور أخری سبق فلسطينی مفتی اعظم امین الحسینی سے پڑھا۔اور 1951 ٕ میں دارالعلوم کراچی میں ان کا داخلہ ہوا۔اور 1960 ٕ میں انھوں نے روایتی " درس نظامی " میں سند فضیلت حاصل کی۔ 1378 ھ میں،انھوں نےجامعہ پنجاب سے" مولوی " اور " منشی " { جسے مولوی فاضل } بھی کہاجاتاہے۔ کے امتحانات پاس کٸےجب کہ انھوں نے 1960 ٕ میں دارالعلوم کراچی سے تخصص فی الافتا ٕ کی سند حاصل کی۔ مفتی عثمانی نے صحیح بخاری رشید احمد لدھیانوی سے۔ صحیح مسلم اکبری علی سہارن پوری سے۔ موطأ امام محمد اور سنن نساٸی سحبان محمود کے ساتھ۔ سنن ابو داٶد رعایت اللہ سے اور جامع ترمذی سلیم اللہ خان سے پڑھی۔اور سنن ابن ماجہ کے بعض حصے محمد حقیق سے۔اور تکمیل ریاضت اللہ نے کراٸی۔ انھیں حسن بن محمد المشاط۔ محمد ادریس کاندھلوی۔ محمد شفیع دیوبندی۔ محمد طیب قاسمی۔ محمد زکریا کاندھلوی اور ظفر احمد عثمانیؒ سے اجازتِ حدیث حاصل تھی۔
" عملی زندگی "
مفتی عثمانی پاکستان علما ٕ کونسل۔ اسلامی نظریاتی کونسل۔ رویت ہلال کمیٹی۔ پاکستان اور حکومت سندھ کی زکوٰة کونسل کے رکن تھے۔ وہ شرعی عدالتی بنچ۔ عدالت عظمٰی پاکستان کے مشیر تھے۔ انھوں نے وفاق المدارس العربیہ کی مجلس ممتحنہ کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ این، ای،ڈی، یونيورسٹی أف انجینٸرنگ اینڈ ٹیکنالوجی اور جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ کے رکن، اور وفاق المدارس العربیہ کی مجلس منتظمہ کے بھی رکن تھے۔انھوں نے عبدالحٸی عارفی کے بعد دارالعلوم کراچی کے رٸیس الجامعہ کی حیثیت سے خدمات انجام دی۔
مفتی موصوف نے دارالعلوم کراچی میں 1380 ھسے1390ھ تک درس نظامی سے متعلق تمام کُتب پڑھاٸیں۔اور 1391 ھ سے أپ موصوف نے مدرسہ میں حدیث و فقہ اور افتا ٕ کی کتابیں پڑھاٸی۔ انھوں نے دارالعلوم کراچی میں صحیح مسلم شریف کا درس بھی دیاہے۔ مفتی عثمانی نے1980 ٕ کی دھاٸی کے أخر میں سوویت کے خلاف جہاد میں جماعت حرکت الجہاد الاسلامی کے ساتھ حصہ لیاتھا۔ نیز انھوں نے ہمیشہ طلبا ٕ کو سیاست سے دور رہنے کی تاکید فرماتے رہے۔
" مفتی اعظم "
1995 ٕ میں مفتی اعظم پاکستان ولی حسن ٹونکی کے انتقال کے بعد فقہ و فتاویٰ کی اعلیٰ ترین خدمات کی بنا ٕ پر مفتی عثمانی کو باتفاقِ علماٸے دیوبند پاکستان مفتی اعظم پاکستان کے لقب سے نوازا گیا تھا۔
" قلمی خدمات "
مفتی عثمانیؒ نے اردو اور عربی میں تقریباً ڈھاٸی درجن کتابیں تصنیف کیں ہیں۔ 1988 ٕ سے 1991 ٕ تک انھوں نے ایچ، یو،جے، أٸی سے متعلق اپنی یادوں کو دارالعلوم کراچی کے اردو ماہنامہ البلاغ کے علاوہ اردو روزنامہ جنگ اور ماہنامہ الارشاد میں شاٸع کروایا۔جو بعد میں " یہ تیرےپُراَ سرار بندے " کے عنوانسے مستقل کتاب میں بھی شاٸع ہوٸیں۔ان کے علاوہ دیگر بعض کُتب کے نام درج ذیل ہیں۔
احکامِ زکوٰة۔
علامات قیامت اور نزولِ مسیح
التعلیقات النافعہ علی فتح الملھم۔
بیع الوفا۔
یورپ کے تین معاشی نظام، جاگیرداری، سرمایہ داری، اشتراکیت اور ان کا تاریخی پسِ منظر۔
علم الصیغہ، یہ کتاب ھندوستان و پاکستان، بنگلہ دیش، انگلینڈ ، جنوبی افریقہ، امریکہ اور ملک بھرکے مدارس میں " درسِ نظامی " کے نصاب میں پڑھاٸی جاتی ہے۔
اسلام میں عورت کی حکمرانی۔
حیات مفتی اعظم۔
کتابات حدیث عہد رسالت و عہد صحابہ میں۔
میرے مرشد حضرت عارفی۔
نوادر الفقہ وغیرہ۔
" وفات "
حضرت مفتی عثمانی رحمة اللہ واسعہ کی ذات ستودہ صفات محتاج تعارف نہیں ہے۔حضرت کی ذات سے کون واقف نہیں۔ أپ کی ذات اقدس میں مومنانہ جمال، زاہدانہ جلال ، درویشانہ سادگی، اور عارفانہ نور بیک وقت موجود رہتا تھا۔
أہ وہ أفتاب و ماہتاب علم و عمل جس کی روشنی چار دانگ عالم میں پھیلی ہوٸی تھی۔ 18 نومبر 2022 ٕ ۔٢٢ ربیع الثانی ١٤٤٤ھ بروز جمعہ کو شہر کراچی میں غروب ہوگیا، ہر سمت غم و اندوہ کی تاریکی چھاگٸی، عقیدت کیش نگاہوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا اور علمی دنیا میں صفِ ماتم بچھ گٸی۔بالأخر یہ گنجینٸہ فضل و کمالات سپردِ خاک کر دیا جاٸے گا*۔
*شعبہ نشر و اشاعت۔ از دفتر شیخ الھند ٹرسٹ دہلی۔انڈیا*

*نوجوانوں کی ذمہ داریاں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں!*  مسجد یامینیہ علوی نگر میں نماز جمعہ سے قبل مولان...
18/11/2022

*نوجوانوں کی ذمہ داریاں تعلیمات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں!*
مسجد یامینیہ علوی نگر میں نماز جمعہ سے قبل مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی کا خطاب!
______=====______
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا

تقدیر ملت کے ان ستاروں کی روشنی اور اس کی کرنیں اس وقت تک آب وتاب اور پورے چمک دمک کے ساتھ برقرار رہتی ہیں، جب تک یہ عہد شباب کی منزلوں کے رہ گذر میں واقع کہکشاؤں کے مسافر ہوں جس طرح آسمان کی بلندیوں پر تابندہ روشن ستاروں کی تابندگی ان کی ذاتی نہیں بلکہ سورج کی روشنی سے مستفاد ہوتی ہے ان خیالات کا اظہار مدرسہ عربیہ ھدایت الا سلام انعام وہار کے صدر مدرس مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی نے قصبہ علوی نگر کے مسجد یامینیہ میں نماز جمعہ سے قبل خطاب میں کیا انہوں نے کہا کہ ۔ بعینہ اسی طرح تقدیر ملت کے ان ستاروں کی روشنی بھی اس کی ذاتی نہیں ہوسکتی اس کے لئے استفادئہ نور کا کوئی ”منبع ومرکز“ اگر ممکن ہے تو وہ نورِ نبوت اور مشکوٰة نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) ہوسکتا ہے یہی وہ چراغ اور سراج منیر ہے جس سے نورِ ہدایت پھوٹتے ہیں اور جس سے نورِ ہدایت اور جس کی دمکتی ہوئی روشنی میں صراط مستقیم کو حاصل کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ بحر ذخار ہے جس سے زندگی کی خشک وبنجر زمین کو سیراب کرکے قابل کاشت بنایا جاسکتا ہے یہی مقام انسانیت کے خزاں رسیدہ چمن کے لیے غازہ بہار ہے اور مایوس انسانیت کے لئے آس وامید کی کرن ہے اور فقط نبوت ہی ہے جس کے خورشید منور کی ضیاپاش کرنوں سے بزم انسانیت کی تاریکیوں اور ظلمتوں کا دور ختم ہوکر صبح سعادت کا آغاز ہوتا ہے۔
درفشانی نے تیری قطروں کو دریا کردیا دل کو روشن کردیا آنکھوں کو بینا کردیا
جو نہ تھے خود راہ پر غیروں کے رہبر بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا
نبوت کا یہ چراغ اپنی تمام تر روشنیوں کے ساتھ حیات انسانی کے ہر شعبوں میں اور ہر شعبوں کی ہر جہت اور ہر ہر پہلو میں مینارئہ نور بن کر اسوئہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل وصورت میں انسانوں کی صحیح رہنمائی کے لئے اپنے تمام تر برکات کے ساتھ موجود ہے جو چاہے اور جب چاہے اس سے اپنی ہدایت ورہنمائی کا سامان فراہم کرسکتا ہے ”لقد کان لکم فی رسول اللّٰہ اسوة حسنة“ کہہ کر اللہ رب العزت نے کامیابی وکامرانی کے متلاشی ساری دنیا کے انسانوں کو خبر دے دی کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منبع البرکات ذات بہترین نمونہ ہے اس لئے ہدایت کے خواستگار کو چاہئے کہ ہر معاملہ ہر ایک حرکت وسکون نشست و برخاست، سیادت و قیادت، امارت وحکومت اخلاق و کردار، معاشرت، معیشت و تجارت، صبر وقناعت، زہد وعبادت، مروت و شجاعت، بلکہ ہرہر عمل کے اندر کامیابی وکامرانی کے لئے نبی اکرم صلی اللہ وسلم کے طور طریق کو بطور نمونہ اپنے پیش نظر رکھیں۔ کائنات کی تاریخ میں صحابہ کرام کی مقدس جماعت نے نبی کریم صلی اللہ وسلم کے طور طریق بطور اسوہ اپناکر ہر میدان میں فتح مندی کا وہ پرچم لہرایا دنیا جس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی لئے سرورکائنات صلی اللہ وسلم کے طرز حیات کے مقابلے میں دنیا کی کوئی تہذیب وتمدن کوئی ثقافت ومعاشرت ان کی آنکھوں کو خیرہ اور دلوں کو فریفتہ نہ کرسکی۔ تقدیر ملت کے ستاروں کی روشنی اس وقت تک ماند نہیں پڑسکتی جب تک اس ملت کے ہاتھوں میں ”اسوئہ حسنہ“ کی مشعل اپنے پورے استحکام کے ساتھ باقی رہے گی۔ ملت کے افراد کو اسوئہ نبوی سے کیا ضابطے اور حیاتِ انسانی کے کیا کیا اصول ملتے ہیں وہ کون سی ذمہ داریاں ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی روشنی میں ملت کے ریڑھ کی ہڈی کہے جانے والے افراد، یعنی نوجوانوں پر عائد ہوتی ہے جس پر چل کر چین وسکون کا غلبہ ہو اور پورا مسلم معاشرہ بلکہ پوری دنیا امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔یہ ایک تفصیل طلب موضوع ہے اور اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ملت کے نوجوانوں کی حیثیت کیا ہے۔ دراصل نوجوانانِ ملت کی مختلف حیثیتیں ہیں اور مختلف حیثیت سے مختلف حالات میں اس کی مختلف ذمہ داریاں ہیں ہم اس وقت حالات وواقعات کے پیش نظر چند حیثیتوں کی تعیین کرکے تعلیمات نبوی اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ہر ایک کو الگ الگ تحریر کرتے ہیں کہ کس حیثیت سے نوجوان کے اوپر کیا ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ {نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے نوجوان اہل قرابت و رشتہ داروں کے ایک فرد کی حیثیت سے
نوجوان معاشرے کے ایک فرد کی حیثیت سے نوجوان ملک کے ایک فرد کی حیثیت سے
نوجوان اپنے ذاتی کردار کی حیثیت سے
نوجوان اپنے جذبات کی حیثیت سے
اگرنوجوانان ملت اپنی حیثیت کو شریعت محمدیہ علی صاحبہا الصلوٰة والسلام کی روشنی میں سمجھیں اور اس پر عمل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں تو یقینا ہمارا بگڑا ہوا معاشرہ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے اور گھر، خاندان، اور معاشرہ چین وسکون اور امن وامان کا گہوارہ بن جائے۔ کسی شاعر نے بڑے ہی درد کے ساتھ کہا ہے کہ۔}
اگر ہم اپنی روش بدل کر رہ ہدایت پہ ہوں روانہ
خدائی نصرت بھی ساتھ ہوگی مٹے گا یہ دور جابرانہ

نوجوان خاندان کے ایک فرد کی حیثیت سے: نوجوان اپنے والدین کا لاڈلا ان کی امیدوں و آرزؤں کا مرکز ان کی تمناؤں کا مظہر اور ان کی ضعیفی کا سہارا اور بڑھاپے کی لاٹھی ہوتا ہے۔ مذہب اسلام نے والدین کے حقوق کی رعایت اور ان کے حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسن سلوک کی بڑی تاکید بیان کی ہے والدین کی اہمیت اور ان کی عظمت کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم نے توحید جیسے بنیادی عقیدے کا تذکرہ کیا اسی کے ساتھ ساتھ فوراً والدین کے ساتھ حسن سلوک، ان سے مخاطب کے وقت لہجے کی نرمی، اور ان کے سامنے عاجزی ونیازمندی اور ان کے لئے دعاء وغیرہ کے اہتمام کا حکم دیا سورئہ بنی اسرائیل کے اندر باری تعالیٰ کا ارشاد ہے *{وَقَضٰی رَبُّکَ اَلاَّ تَعْبُدُوْآ اِلاَّ اِیَّاہُ وَبِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُہُمَا اَوْ کِلٰہُمَا فَلاَ تَقُلْ لَّہُمَا اُفٍّ وَّلاَ تَنْہَرْ ہُمَا وَقُلْ لَّہُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَہُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ․ وَقُلْ رَبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا}* اور تمہارے پروردگار نے حکم دیا کہ اس کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کرو، اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو کبھی اُف بھی نہ کہو، اور نہ ان کو جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے بات کرنا، اور ان کے سامنے شفقت سے عاجزی کے ساتھ جھکے رہنا اور ان کے لئے یوں دعاء کرتے رہنا اے میرے پروردگار ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی۔امام قرطبی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ رب العزت نے والدین کے ادب واحترام اور ان کے ساتھ حسن سلوک کو اپنی عبادت کے ساتھ ملاکر واجب فرمایا جیسا کہ سورہ لقمان کے اندر اپنے شکر کے ساتھ والدین کے شکر کو ملاکر لازم فرمایا ”ان اشْکُرْلِی وَلِوَالِدَیْکَ“ (میرا شکر ادا کر اور اپنے والدین کا بھی) اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ جل شانہ کی عبادت کے بعد والدین کی اطاعت سب سے اہم اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرح والدین کا شکر گذار ہونا واجب ہےمذہب اسلام نوجوانوں کو والدین کا خدمت گار، مطیع وفرمانبردار، ان کی ضروریات کا خیال اور راحت رسانی کی فکر کرنے والا، ان کی کسی طرح کی ناگواری سے اجتناب کرنے والا ان کے سامنے عاجزی وانکساری کے ساتھ پیش آنے والا اور ان کے ساتھ ادب و نرمی کا معاملہ کرنے والا نیک، صالح وسعادت مند بیٹے کی حیثیت سے دیکھنا پسند کرتا ہے، جو معاشرے کا سب سے اہم عنصر ہونے کے ساتھ ساتھ افراد، گھر، خاندان، محلہ اور معاشرے کے امن وامان اور چین وسکون کا باعث بھی ہے۔

*قرآن کریم ھدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے !*حافظ محمد فرحان کے تکمیل حفظ قرآن کریم کے موقع پر مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی ک...
31/10/2022

*قرآن کریم ھدایت اور رحمت کا ذریعہ ہے !*
حافظ محمد فرحان کے تکمیل حفظ قرآن کریم کے موقع پر مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی کا خطاب!
____====____
محترم قارئین!
قصبہ علوی نگر لونی میں واقع مدرسہ دارالعلوم سبیل سلام میں جناب محمد عارف صاحب کے صاحبزادے محمد فرحان کے قرآن کریم حفظ مکمل کرنے پر ایک دعائیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں شہر کے سر کردہ افراد نے شرکت کی ۔ اس موقع پر مدرسہ عربیہ ھدایت الا سلام انعام وہار کے صدر مدرس ۔ مولانا فیاض احمد صدیقی رحیمی نے محمد فرحان اور اس کے والدین اور استاذ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے قرآن عظیم اور حفاظ کرام کی عظمت پر روشنی ڈالی ۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ لوگوں کو قرآن کریم کی عظمت اور فضیلت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اے لوگو تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی کتاب ہے جو سراپا نصیحت ہے اور وہ سینوں میں پائی جانے والی بیماریوں کو شفادینے والی ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے ھدایت اور رحمت ہے ۔اے نبی صل اللہ علیہ و سلم لوگوں کو آگاہ کرو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے عطا ہوئی ہے ۔پس اس نعمت کے حصول پر انہیں خوش ہونا چاہئے کیونکہ یہ کتاب اس مال سے جو وہ جمع کر رہے ہیں بہت بہتر ہے ۔قرآن مجید کی تلاوت کرنا باعث برکت اور ثواب ہے ۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ ہماری اکثریت تلاوت قرآن پاک سے غافل ہے ۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن پڑھا اور اس کو پڑھایا ۔قرآن کو جو لوگ مضبوطی سے تھام لیتے ہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کو بلند کر دیتا ہے ۔ وہ دنیا میں بھی عزت حاصل کرتا ہے اور آخرت میں بھی جنت میں داخل ہوگا ۔ آخر میں مولانا نے بچوں کے والدین سے کہا کہ وہ بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم ضرور دلائیں ۔یہ ہی تعلیم نجات کا ذریعہ بنے گی ۔اس موقع پر شہر کے معزز علماء کرام کے ساتھ عوام الناس کی ایک کثیر تعداد نے شرکت فرمائیں ::::::::::::

*دارالعلوم سبیل السلام علوی نگر لونی میں تکمیل قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد*! *دارالعلوم سبیل السلام شہر لونی کا ...
28/10/2022

*دارالعلوم سبیل السلام علوی نگر لونی میں تکمیل قرآن کریم پر دعائیہ تقریب کا انعقاد*!

*دارالعلوم سبیل السلام شہر لونی کا ایک معروف و مشہور ادارہ ہے۔جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم بھی دی جاتی ہے۔ وہیں ایک کمسن بچہ نے جن کا نام محمد فرحان ابن محمد عارف وجے نگر، علوی نگر لونی جس کی عمر دس سال کی ہے اس بچہ نے صرف سترہ ١٧/مہینے کی قلیل مدت میں قرآن مقدس حفظ مکمل کیا۔ جس کی خوشی میں آج صبح دعائیہ تقریب منعقد کی گئیں ۔ جس کی صدارت حضرت مولانا احمد علی صاحب نائب صدر جمعيت علماء شہر لونی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض مولانا قاسم صیاد مظاہری رکن عاملہ جمعیت علماء شہر لونی نے انجام دیئے جب کہ پروگرام کا آغاز قاری امروز صاحب مدرس مدرسہ ھٰذا کی تلاوت اور محمد عیان سلمہٗ متعلم مدرسہ ھٰذا کی نعتیہ کلام سے ہوا۔ بعدہ پروگرام میں بطور مہمان خصوصی خطیب ذیشان حضرت مولانا و مفتی فہیم الدین رحمانی و نائب جنرل سیکریٹری جمعیت علماء شہر لونی مہتمم مدرسہ عربیہ ھدایت الا سلام انعام وہار نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مدارس اسلاميہ کا وجود کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ بلکہ ان مدارس کاشجرہ نبی ﷺ کے اس چبوترے سے ملتا ہے جو مسجد نبوی میں آج بھی موجود ہے جسے دنیا صفّہ یا اصحابِ صفّہ کےنام جانتی ہے۔مزیدکہاکہ*
*آج ہم اپنے بچوں کی دنیاوی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں، انہیں عصری علوم کی تعلیم دینے پر اپنی تمام محنت وتوجہ صرف کرتے ہیں اور ہماری نظر صرف اور صرف اس عارضی دنیا اور اس کے آرام وآسائش پر ہوتی ہے اور اُس ابدی ولافانی دنیا کے لیے کوئی خاص جدوجہد نہیں کرتے۔*
*بعدہٗ خطیب بے مثال حضرت مولانا نزاکت حسین صاحب قاسمی امام و خطیب مسجد شیر شاہ سوری دہلی ہائی کورٹ و نائب صدر جمعیت علماء شہر لونی نے اپنے خطاب میں کہاکہ قرآن مقدس جو تمام انسانوں کو حقيقی راستے کی طرف رہنمائی کرنے کےلئے نازل کیا گیا ہے اس کے نزول کےلئے اللہ تعالٰی نے رمضان المبارک کے مہینہ کو منتخب کیا اور رمضان میں سب سے بہترین اور عظیم رات شب قدر کا انتخاب فرمایا۔ قرآن کریم ایک عظیم و بے مثال کتاب ہے،اس عظمتوں اور رفعتوں کی کوئی انتہا نہیں، ہدایت و اصلاح و انقلاب اورتبدیلی ظاہر وباطن کی درستگی اور دنیاو آخرت کی تمام تر بھلائیوں اور کامیابیوں کو اللہ تعالی نے اس میں جمع کر رکھا ہے۔ علوم ومعارف، اسرار و حکم کی تمام باتیں بیان کی گئی ، اختصار کے ساتھ اس کی عظمت کے چند پہلو۔ اس کے خیر و برکات کا کچھ تذکرہ کیا کیا گیاہے تاکہ قرآن کریم سے تعلق پیدا ہو اور اس کی حقیقی عظمت دلوں میں جاگزیں ہوجائ*۔
*وہ معزز تھے زمانہ میں مسلماں ہوکر۔*
*اور ہم خوار ہوٸے تارک قرأں ہوکر۔*

*نیز بچہ کا آخری سبق مفتی اسرار احمد سیکریٹری جمعیت علماء صوبہ دھلی اور قاری عبدالجبار خازن جمعیت علماء شہر لونی صاحبان نےسنا ۔ آخیر میں یہ تقریب حضرت مولانا احمد علی صاحب کی رقت آمیز دعاء پر اختتام پذیر ہوئی ۔ تاہم ادارہ کے روح رواں و میر قافلہ مولانا قاری فیض الدین عارف صاحب نے تمام مہمانوں کو شکریہ کے ساتھ رخصت فرمایا* *واضح رہے کہ اس میں علماء اور عوام کی ایک کثیر تعداد نے شرکت فرمائی ۔*

*توصیف احمد صدر مدرس مدرسہ ھٰذا*
*رابطہ نمبر 9990205061*

Address

Loni

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Nidaye haaq news posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share


Other Media/News Companies in Loni

Show All