25/08/2023
امام رضا علیہ السلام نے اپنے جد امام حسین علیہ السلام کی مجلس کا اہتمام کیا، اس طرح کہ آپ نے خود بہ نفس نفیس اپنے مقام سے اُٹھ کر پردہ آویزاں کیا اور مخدرات حرم سے فرمایا کہ پردے کے پیچھے بیٹھیں۔
پھر مشہور شاعر دعبل خزاعی کو حکم دیا کہ آج جد کی مصیبت کو بیان کرے۔
خود امام علیہ السلام نے یہ فرما کر فضائل کا آغاز کیا: ”يادعبل، مَن بكى على مصاب جدّي الحُسين غفر الله له ذنوبه البّتة...“
اے دعبل! جو شخص ہمارے جد امام حسین علیہ السلام کے غم میں روئے گا خدا اس کے گناہ بخش دے گا۔۔۔
اس کے بعد دعبل نے اپنا مرثیہ اس طرح شروع کیا۔۔
أَفاطِمُ لَوْ خِلْتِ الْحُسَيْنَ مُجَدَّلا
وَ قَدْ ماتَ عَطْشاناً بِشَطِّ فُراتِ
إِذاً لَلَطَمْتِ الْخَدَّ فاطِمُ عِنْدَهُ
وَ أَجْرَيْتِ دَمْعَ الْعَيْنِ فِي الْوَجَناتِ.
اے فاطمہ سلام الله علیها آپ جب بھی یہ تصور فرماتی ہیں کہ آپ کا لختِ جگر حسين علیہ السلام بیابان میں زخمی پڑا ہے اور وہ فرات کے کنارے اس دنیا سے پیاسا گزر گیا تو آپ اپنے چہرے پر طمانچے مارتی اور آنسو بہاتی ہیں۔۔۔
امام رضا علیہ اسلام نے یہ سُن کر بے اختیار گریا کیا۔ حرم کی بھی صدائے گریا بُلند ہوگئی۔۔
● الخصائص الحسينيّة - الشيخ جعفر التستري
● بحار الأنوار ج ٤٥، ص ٢٥٧
● المجالس السنية، ج١، ص٢١١