M Saqib Tasleem

M Saqib Tasleem Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from M Saqib Tasleem, Digital creator, Tabuk.

سورۂ فاتحہ سے متعلق شرعی مسائل:(1)… نماز میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا واجب ہے،امام اور تنہا نماز پڑھنے والا اپنی زبان سے ’...
02/12/2024

سورۂ فاتحہ سے متعلق شرعی مسائل:

(1)… نماز میں ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا واجب ہے،امام اور تنہا نماز پڑھنے والا اپنی زبان سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھے گا جبکہ مقتدی امام کے پیچھے خاموش رہے گا اور جہری نماز میں اس کی قراء ت بھی سنے گا اور ا س کا یہی عمل پڑھنے کے حکم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں تلاوت کے وقت مقتدی کو خاموش رہنے اور قراء ت سننے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

’’وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ‘‘(اعراف:۲۰۴)

ترجمۂ کنزالعرفان:اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔

اورحضرت ابو موسٰی اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جب امام قراءت کرے تو تم خاموش رہو۔(ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۲، الحدیث: ۸۴۷)

حضرت جابر بن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’جس شخص کا کوئی امام ہو تو امام کا پڑھنا ہی مقتدی کا پڑھنا ہے۔(ابن ماجہ،کتاب الصلاۃ،باب اذا قرء الامام فانصتوا، ۱ / ۴۶۴، الحدیث: ۸۵۰)ان کے علاوہ اور بہت سی احادیث میں امام کے پیچھے مقتدی کے خاموش رہنے کے بارے میں بیان کیا گیا ہے۔

امامِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا مناظرہ:

امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :’’مدینہ منورہ کے چند علماء امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے پاس اس غرض سے آئے کہ وہ امام کے پیچھے مقتدی کی قراء ت کرنے کے معاملے میں ان سے مناظرہ کریں۔امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا:سب سے مناظرہ کرنا میرے لئے ممکن نہیں ،آپ ایسا کریں کہ مناظرے کا معاملہ اس کے سپرد کر دیں جو آپ سب سے زیادہ علم والا ہے تاکہ میں ا س کے ساتھ مناظرہ کروں۔انہوں نے ایک عالم کی طرف اشارہ کیا تو امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا یہ تم سب سے زیادہ علم والا ہے؟انہوں نے جواب دیا:

’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:کیا میرا اس کے ساتھ مناظرہ کرنا تم سب کے ساتھ مناظرہ کرنے کی طرح ہے؟انہوں نے کہا :’’ہاں۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اس کے خلاف جو دلیل قائم ہو گی وہ گویا کہ تمہارے خلاف قائم ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:اگر میں اس کے ساتھ مناظرہ کروں اور دلیل میں اس پرغالب آ جاؤں تو وہ دلیل تم پر بھی لازم ہو گی؟انہوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے دریافت کیا:وہ دلیل تم پر کیسے لازم ہو گی؟انہوں نے جواب دیا:’’اس لئے کہ ہم اسے اپنا امام بنانے پر راضی ہیں تو اس کی بات ہماری بات ہو گی۔‘‘امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ جب ہم نے ایک شخص کو نماز میں اپنا امام مان لیا تو اس کا قراء ت کرنا ہمارا قراء ت کرناہے اور وہ ہماری طرف سے نائب ہے۔ امام ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ بات سن کر سب نے اقرار کر لیا(کہ امام کے پیچھے مقتدی قراء ت نہیں کرے گا)(تفسیرکبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ:۳۰، ۱ / ۴۱۲)

(2) …’’نماز جنازہ‘‘ میں خاص دعا یاد نہ ہو تو دعا کی نیت سے ’’سورۂ فاتحہ‘‘ پڑھنا جائز ہے جبکہ قراء ت کی نیت سے پڑھنا جائز نہیں۔(عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی والعشرون، الفصل الخامس، ۱ / ۱۶۴)

سورۂ فاتحہ کے مضامین:اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :(1) …اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان ہے۔(2) …...
02/12/2024

سورۂ فاتحہ کے مضامین:

اس سورت میں یہ مضامین بیان کئے گئے ہیں :

(1) …اس سورت میں اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کا بیان ہے۔

(2) …اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، اس کے رحمٰن اور رحیم ہونے،نیز مخلوق کے مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کئے جانے اور قیامت کے دن ان کے اعمال کی جزاء ملنے کا ذکر ہے۔

(3) …صرف اللہ تعالیٰ کے عبادت کا مستحق ہونے اوراس کے حقیقی مددگار ہونے کا تذکرہ ہے۔

(4) …دعا کے آداب کا بیان اور اللہ تعالیٰ سے دین حق اور صراط مستقیم کی طرف ہدایت ملنے،نیک لوگوں کے حال سے موافقت اور گمراہوں سے اجتناب کی دعا مانگنے کی تعلیم ہے۔

یہ چند وہ چیزیں بیان کی ہیں جن کا ’’سورہ ٔ فاتحہ‘‘ میں تفصیلی ذکر ہے البتہ اجمالی طور پر اس سورت میں بے شمار چیزوں کا بیان ہے۔امیر المؤمنین حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم فرماتے ہیں : ’’اگر میں چاہوں تو ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر سے ستر اونٹ بھروادوں۔ (الاتقان فی علوم القرآن، النوع الثامن والسبعون۔۔۔الخ، ۲ / ۵۶۳)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کا یہ قول نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں :’’ایک اونٹ کَے( یعنی کتنے ہی) من بوجھ اٹھاتا ہے اور ہر من میں کَے (یعنی کتنے) ہزار اجزاء (ہوتے ہیں ،ان کا حساب لگایا جائے تو یہ)حساب سے تقریباً پچیس لاکھ جز بنتے ہیں ، یہ فقط ’’سورۂ فاتحہ‘‘ کی تفسیر ہے۔(فتاوی رضویہ ، ۲۲ / ۶۱۹)

سورۂ فاتحہ کے فضائل:احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے4فضائل درج ذیل ہیں :(1) …حضرت ابو سعی...
02/12/2024

سورۂ فاتحہ کے فضائل:

احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے4فضائل درج ذیل ہیں :

(1) …حضرت ابو سعید بن مُعلّٰی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، میں نماز پڑھ رہا تھا تو مجھے نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے بلایا لیکن میں نے جواب نہ دیا۔(جب نماز سے فارغ ہو کر بارگاہ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں حاضر ہوا تو)میں نے عرض کی:’’یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، میں نماز پڑھ رہا تھا ۔تاجدار رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:’’اِسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ ‘‘ اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ جب وہ تمہیں بلائیں۔(انفال: ۲۴)پھر ارشاد فرمایا:’’ کیا میں تمہیں تمہارے مسجد سے نکلنے سے پہلے قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھاؤں ؟پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے میرا ہاتھ پکڑ لیا،جب ہم نے نکلنے کا ارادہ کیا تو میں نے عرض کی:یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ،آپ نے فرمایا تھا کہ میں ضرور تمہیں قرآن مجید کی سب سے عظمت والی سورت سکھاؤں گا۔ارشاد فرمایا: ’’وہ سورت ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘ ہے ، یہی ’’سبع مثانی‘‘ اور ’’قرآن عظیم ‘‘ہے جو مجھے عطا فرمائی گئی۔ (بخاری، کتاب فضائل القراٰن، باب فاتحۃ الکتاب، ۳ / ۴۰۴، الحدیث:۵۰۰۶)

(2) … حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں : ایک فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور اس نے سیدالمرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں سلام پیش کر کے عرض کی: یارسول اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ کو اُن دو نوروں کی بشارت ہو جو آپ کے علاوہ اور کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے اوروہ دو نور یہ ہیں : (۱)’’سورۂ فاتحہ‘‘ (۲)’’سورۂ بقرہ‘‘ کی آخری آیتیں۔(مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا، باب فضل الفاتحۃ۔۔۔الخ، ص۴۰۴، الحدیث: ۲۵۴(۸۰۶))

(3) … حضرت اُبی بن کعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،حضور پر نور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَ اٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے تورات اور انجیل میں ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ کی مثل کوئی سورت نازل نہیں فرمائی۔‘‘(ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ (الحجر)، ۵ / ۸۷، الحدیث: ۳۱۳۶)

(4) …حضرت عبد الملک بن عُمَیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ سورۂ فاتحہ ہر مرض کے لیے شفا ء ہے۔‘‘(شعب الایمان، التاسع عشر من شعب الایمان۔۔۔الخ، فصل فی فضائل السور والآیات، ۲ / ۴۵۰، الحدیث: ۲۳۷۰)

سورۂ فاتحہ کا تعارفمقامِ نزول:اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَ...
02/12/2024

سورۂ فاتحہ کا تعارف

مقامِ نزول:

اکثر علماء کے نزدیک’’سورۂ فاتحہ ‘‘مکہ مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔امام مجاہد رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں کہ ’’سورۂ فاتحہ‘‘ مدینہ منورہ میں نازل ہوئی ہے اور ایک قول یہ ہے: ’’سورۂ فاتحہ‘‘ دو مرتبہ نازل ہوئی ،ایک مرتبہ ’’مکہ مکرمہ‘‘ میں اور دوسری مرتبہ’’ مدینہ منورہ‘‘ میں نازل ہوئی ہے۔(خازن،تفسیرسورۃ الفاتحۃ، ۱ / ۱۲)

رکوع اور آیات کی تعداد:

اس سورت میں 1رکوع اور 7 آیتیں ہیں۔

سورۂ فاتحہ کے اسماء اور ان کی وجہ تسمیہ:

اس سورت کے متعددنام ہیں اور ناموں کا زیادہ ہونا ا س کی فضیلت اور شرف کی دلیل ہے،اس کے مشہور 15 نام یہ ہیں:

(1)…’’سورۂ فاتحہ‘‘ سے قرآن پاک کی تلاوت شروع کی جاتی ہے اوراسی سورت سے قرآن پاک لکھنے کی ابتداء کی جاتی ہے ا س لئے اسے ’’فَاتِحَۃُ الْکِتَابْ‘‘ یعنی کتاب کی ابتداء کرنے والی کہتے ہیں۔

(2)… اس سورت کی ابتداء’’اَلْحَمْدُ لِلّٰه‘‘ سے ہوئی ،اس مناسبت سے اسے ’’سُوْرَۃُ الْحَمدْ‘‘ یعنی وہ سورت جس میں اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی گئی ہے،کہتے ہیں۔

(3،4)…’’سورہ ٔفاتحہ‘‘ قرآن پاک کی اصل ہے ،اس بناء پر اسے ’’اُمُّ الْقُرْآنْ‘‘ اور ’’اُمُّ الْکِتَابْ‘‘ کہتے ہیں۔

(5)…یہ سورت نماز کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے یا یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ہے اس وجہ سے اسے ’’اَلسَّبْعُ الْمَثَانِیْ‘‘ یعنی بار بار پڑھی جانے والی یا ایک سے زائد مرتبہ نازل ہونے والی سات آیتیں ، کہا جاتا ہے۔

(6تا8)…دین کے بنیادی امور کا جامع ہونے کی وجہ سے سورۂ فاتحہ کو’’سُوْرَۃُ الْکَنزْ،سُوْرَۃُ الْوَافِیَہْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الْکَافِیَہْ‘‘ کہتے ہیں۔

(9،10)… ’’شفاء ‘‘ کا باعث ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الشِّفَاءْ‘‘ اور ’’سُوْرَۃُ الشَّافِیَہْ‘‘کہتے ہیں۔

(11تا15)…’’دعا‘‘ پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اسے’’سُوْرَۃُ الدُّعَاءْ،سُوْرَۃُ تَعْلِیْمِ الْمَسْئَلَہْ، سُوْرَۃُالسُّوَالْ، سُوْرَۃُ الْمُنَاجَاۃْ‘‘اور’’سُوْرَۃُ التَّفْوِیْضْ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ (خازن، تفسیرسورۃ الفاتحۃ،۱ / ۱۲، مدارک،سورۃ فاتحۃ الکتاب،ص۱۰، روح المعانی،سورۃ فاتحۃ الکتاب،۱ / ۵۱، ملتقطاً)

01/12/2024
And whoever put their trust in Allah.Then he is alone sufficient for them.
01/12/2024

And whoever put their trust in Allah.
Then he is alone sufficient for them.

28/11/2024

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا ہوا اور نوبت طلاق تک پہنچ گئی، اگر میرے بیٹے بڑے نہ ہوتے اور وہ مجھے کنٹرول نہ کرتے تو میرا گھر ٹوٹ جاتا‘ ہم دونوں میاں بیوی اب اکٹھے رہ رہے ہیں لیکن ہماری بات چیت نہیں ہوتی‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی میں کیا کروں‘‘ وہ اداس لہجے میں بتا رہے تھے اور میں حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا‘ ان کی کہانی دل چسپ تھی‘ ان کی لو میرج ہوئی تھی‘ میاں بیوی پوری زندگی خوش رہے۔

اﷲ تعالیٰ نے صحت مند بچے دیے‘ وہ پڑھ لکھ کر سیٹل ہو گئے‘ گھربار‘ گاڑی بلکہ گاڑیاں اور کاروبار بھی ٹھیک تھا‘ اسٹیٹس بھی تھا لہٰذا ان کی زندگی میں مسئلہ کوئی نہیں تھا‘ بیگم صاحبہ بھی نہایت عاجز اور ہمدرد تھیں‘ یہ ہمیشہ خوش رہتی تھیں لیکن پھر شادی کے 32سال بعد ان کا خوف ناک جھگڑا ہوا اور آخر میں دونوں کے درمیان بات چیت بند ہو گئی۔

یہ ہفتے میں ایک دن میرے ساتھ ملاقات کرتے ہیں‘ کل تشریف لائے تو ان کی جذباتی حالت خراب تھی‘ آنسو ٹھوڑی تک آ رہے تھے اور آہیں رک نہیں رہی تھیں‘ میں نے انھیں پانی کی بڑی بوتل اور گرین ٹی کے تین کپ پلائے‘ جب ان کی حالت سنبھلی تو میں نے جھگڑے کی وجہ پوچھی‘ لڑائی کی وجہ انتہائی مزاحیہ تھی‘ انھوں نے بتایا پندرہ دن قبل میں شام کے وقت گھر گیا تو میری بیوی کا منہ پھولا ہوا تھا‘ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے شکوہ کیا جب ہماری شادی ہوئی تھی تو آپ نے مجھے منہ دکھائی کیوں نہیں دی تھی؟

میں نے حیرت سے پوچھا‘ منہ دکھائی کیا ہوتی ہے؟ اس کا جواب تھا اچھا اب آپ کو یہ بھی معلوم نہیں!مجھے واقعی پتا نہیں تھا‘ میں نے اسے بڑی مشکل سے یقین دلایا میں اس واہیات چیز کے بارے میں بالکل نہیں جانتا‘ مجھے اس نے بتایا‘ خاوند شادی کی پہلی رات بیوی کو جو تحفہ دیتا ہے وہ منہ دکھائی ہوتی ہے اور آپ نے مجھے کوئی تحفہ نہیں دیا تھا‘

میں نے جواب دیا‘ میں تمہیں پوری زندگی تحفے دیتا رہا‘ ان تحفوں کے سامنے منہ دکھائی کی کیا حیثیت تھی لیکن اس کا کہنا تھا منہ دکھائی زندگی کا اہم ترین تحفہ ہوتا ہے‘ عورتیں اسے پوری زندگی سنبھال کر رکھتی ہیں‘ اس چھوٹی سی بات پر ہماری تکرار ہوئی‘ میں اس وقت ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھا تھا‘ میں نے غصے سے سالن کا ڈونگا اٹھا کر دیوار پر مار دیا‘ میری بیوی نے چاولوں کی ڈش میرے اوپر انڈیل دی اور اس کے بعد ہم دونوں کے درمیان دھینگا مشتی شروع ہو گئی‘ ہم نے ایک دوسرے کا سر کھول دیا۔

ہمارے بچے پہنچے تو ہم دونوں زخمی حالت میں دیواروں کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور ایک دوسرے کو بددعائیں دے رہے تھے‘ مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہم میں 32 سال بعد اتنا غصہ اور نفرت کہاں سے آگئی؟ ہم دونوں ایک جان اور دو قالب ہوتے تھے‘ ہم اچانک ایک دوسرے کے دشمن کیسے بن گئے؟‘‘۔

میں نے اطمینان سے ان کی بات سنی اور اس کے بعد ان سے پوچھا‘ آپ سوچ کر بتائیں اس دن آپ کی بیوی سے کس کی ملاقات ہوئی تھی؟ وہ سوچتے رہے لیکن انھیں یاد نہ آیا‘ ان کی بیگم میری منہ بولی بہن تھی‘ میں نے انھیں فون کر دیا‘ انھوں نے بتایا اس دن میری ایک پرانی سہیلی مجھ سے ملاقات کے لیے آئی تھی‘ میں نے ان سے پوچھا‘ کیا منہ دکھائی کی بات اس نے آپ سے کی تھی؟ بھابھی نے تھوڑا سا سوچ کر ہاں میں جواب دے دیا‘۔

میں نے فون اسپیکر پر شفٹ کیا‘ بھابھی کو رانا صاحب کی موجودگی کا بتایا‘ رانا صاحب کو فون کے قریب بٹھایا اور پھر دونوں سے عرض کیا ’’ہماری زندگی میں رحمان اور شیطان دونوں انسانوں کے روپ میں آتے ہیں‘ ہمیں روز بعض ایسے بابرکت لوگ ٹچ کرتے ہیں جن پر اﷲ مہربان ہوتا ہے‘یہ لوگ رحمت ہوتے ہیں‘ ان کی ذات دوسروں کے لیے رحمت‘ برکت‘ آسانی اور خوشی کا سبب بنتی ہے‘ یہ لوگ تصوف کی دنیا میں رحمانی کہلاتے ہیں‘ ان کی خاص نشانی شکر اور ماشاء اﷲ ہے‘ یہ جب بھی دوسروں سے ملیں گے ان کی اچیومنٹ‘ ان کی خوشیوں اور ان کی کام یابیوں پر دل سے ماشاء اﷲ کہیں گے‘ یہ انھیں شکر کرنے اور اﷲ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کی تلقین کریں گے۔

رحمانی لوگوں سے ملاقات کے بعد آپ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرتے ہیں‘ آپ کو اپنے سر‘ اپنے کندھوں کا بوجھ ہلکا محسوس ہوتا ہے جب کہ ان کے برعکس کچھ لوگ شیطان کے ایجنٹ ہوتے ہیں‘ یہ اپنی ذات سے شیطانیت‘ بے چینی‘ فساد‘ جھگڑا اور تلخی ٹرانسمٹ کرتے ہیں‘ یہ جب آپ کے قریب آتے ہیں تو آپ کا سکھ‘ چین‘ آرام‘ آسائش‘ امن اور خوشی ختم ہو جاتی ہے‘ اہل تصوف ان لوگوں کو شیطانی کہتے ہیں‘ شیطانوں کا سب سے بڑے ہتھیار حقارت اور کیوں ہوتا ہے‘ شیطان کا جنم حقارت اور کیوں سے ہوا تھا‘ شیطان نے اﷲ تعالیٰ سے کہا تھا انسان مجھ سے حقیر ہے‘ میں اسے سجدہ کیوں کروں۔

چناں چہ یہ لوگ جب بھی آپ سے ملیں گے یہ آپ کو کیوں کے ہتھیاروں سے حقیر ثابت کر دیں گے اور یوں آپ کی زندگی کا چین اور امن ختم ہو جائے گا‘‘ میں نے بھابھی سے عرض کیا ’’بھابھی آپ کی وہ سہیلی بھی شیطان کی ایجنٹ تھی‘ اس نے صرف ایک فقرے سے یعنی تمہارے خاوند نے تمہیں منہ دکھائی کیوں نہیں دی؟ آپ کی ازدواجی زندگی کا بیڑہ غرق کر دیا‘ یہ شیطان کا وار تھا‘ اﷲ نے آپ پر کرم کیا‘ آپ لوگ بچ گئے‘ میں نے سیکڑوں لوگوں کو اس وار کے ذریعے برباد ہوتے دیکھا لہٰذا آپ لوگ ایسے لوگوں سے بچ کررہا کریں‘‘ بھابھی نے لمبی اور ٹھنڈی آہ بھری‘ اﷲ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور رانا صاحب سے معذرت کر لی‘ رانا صاحب نے بھی بیگم سے اپنا تلخ نوائی پر معافی مانگ لی اور یوں دونوں دوبارہ شیروشکر ہو گئے۔

میری اپنی زندگی شیطان کے ایجنٹوں سے بھری پڑی ہے‘ میں نے 1996میں پہلی گاڑی خریدی تھی‘ وہ زیرو میٹر مہران تھی‘ میں نے بڑی مشکل سے دن رات کام کر کے تین لاکھ روپے جمع کیے اور مہران خرید لی‘ میں نے ابھی اسے اپنے دروازے پر کھڑا ہی کیا تھا کہ مجھے ایک شیطان ٹکر گیا‘ اس نے گاڑی کے گرد چکر لگایا‘ قیمت پوچھی اور پھر مسکرا کر کہا‘ آپ نے سوئفٹ کیوں نہیں خریدی‘ وہ اس سے کہیں زیادہ ا چھی‘ آرام دہ اور بڑی ہے اور مہران اور اس کی قیمت میں بھی صرف ڈیڑھ لاکھ روپے کا فرق ہے۔

آپ یقین کریں یہ فقرہ سن کرمجھے میری گاڑی بری لگنے لگی‘ میں اس کے بعد جہاں بھی جاتا تھا مجھے سوئفٹ نظر آتی تھی اور مجھے اپنی حماقت پر افسوس ہوتا تھا‘ یہ افسوس مہران کے بکنے تک جاری رہا‘ میں آج بھی جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی بے وقوفی پر افسوس ہوتا ہے‘ اﷲ تعالیٰ نے مجھے 27 سال کی عمر میں اپنی کمائی سے زیرو میٹر گاڑی خریدنے کی توفیق دی تھی لیکن میں اس خوشی کو چھوڑ کر دوسری گاڑی کے تاسف میں گھلنے لگا‘ مجھ سے زیادہ بے وقوف کون تھا،

اسی طرح میں 2000میں ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کاپی رائیٹنگ کرتا تھا‘ میں وہاں صرف دو گھنٹوں کے لیے جاتا تھا اور مجھے وہاں سے ماہانہ پچاس ہزار روپے ملتے تھے‘ یہ اس زمانے میں بڑی رقم تھی‘ یہ میرے بچوں کی فیس اور گھر کی گروسری کور کرتی تھی لیکن پھر ایک دن میرا ایک پرانا دوست وہاں آیا‘ اس نے میرا ڈیسک دیکھا اور طنزاً مسکرا کر کہا‘ تم اپنا اسٹیٹس دیکھو‘ تم اے پی این ایس سے بیسٹ کالمسٹ کا ایوارڈ لے چکے ہو اور تم اس وقت دو بائی تین فٹ کے ڈیسک پر بیٹھے ہو‘ تم اپنی بے عزتی کیوں کرا رہے ہو؟۔

بس ان چند فقروں کی دیر تھی اور مجھے وہ جاب بری لگنے لگی‘ میں نے اپنے ’’اسٹیٹس‘‘ کے چکر میں وہ جاب چھوڑ دی اور اس کے بعد مجھے اس سے آدھی رقم کے لیے روزانہ چھ چھ گھنٹے اضافی کام کرنا پڑا‘ یہ صرف دو مثالیں نہیں ہیں‘ میری زندگی کی ہر اچیومنٹ کے بعد شیطان کا کوئی نہ کوئی ایجنٹ میری زندگی میں ضرور آیا اور اس نے چند لمحوں میں میری اس کام یابی کا مزہ کرکرا کر دیا‘ اﷲ نے کرم کیا اور زندگی کے مختلف مراحل کے دوران مجھے رحمان اور شیطان کا فرق سمجھ آ گیا‘ میرے پاس اب جب بھی کوئی ایسا شخص آتا ہے جو دائیں بائیں دیکھ کر برا سا منہ بناتا ہے اور پھر کہتا ہے سر یہ آپ نے کیا کر دیا‘ آپ اگر اس کی جگہ یہ لے لیتے تو کتنا اچھا ہوتا یا آپ نے یہ کیوں نہیں لیا تو میں مسکرا کر دل ہی دل میں سورۃ الناس پڑھتا ہوں اور پھر اپنے کان بند کر کے بیٹھ جاتا ہوں۔

آپ کی زندگی میں بھی روزانہ ایسے لوگ آتے ہوں گے ‘آپ بس ان سے بچ جائیں‘ یہ شیطان کے ایجنٹ ہیں‘ یہ آپ کی خوشیاں اور کام یابیاں برباد کرنے کے لیے آتے ہیں‘ یہ آپ کا سکھ اور چین مارنے کے لیے آتے ہیں چناں چہ آج سے جب بھی کوئی شخص آپ سے پوچھے‘ تمہارے خاوند نے منہ دکھائی میں تمہیں کیا دیا تھا‘ تم نے ورکنگ وومن کے ساتھ شادی کیوں کی‘ تمہارا خاوند روزانہ لیٹ کیوں آتا ہے‘ تمہارے بچے تمہاری کیوں نہیں سنتے‘ تمہیں دفتر سے اتنی کم تنخواہ کیوں ملتی ہے‘ تمہارے بیٹے نے اتنے کم نمبر کیوں لیے‘ تم نے اپنے بچوں کو آئی فون کیوں نہیں لے کر دیا‘ تمہارے ابو تمہیں نیا لیپ ٹاپ لے کر کیوں نہیں دیتے‘ تم اپنی گاڑی کیوں نہیں بدل رہے‘ تم اس محلے میں کیوں رہ رہے ہو‘ تم یورپ میں امیگریشن کیوں نہیں لیتے‘ تم اتنے کم پیسوں میں گزارہ کیسے کرتے ہو‘ تم اپنے فضول باس کی فضول باتیں کیوں سن لیتے ہو‘ تم اپنے بچوں کے ساتھ کیوں نہیں رہتے‘ تمہارے بچے تمہارے ساتھ بدتمیزی کیوں کرتے ہیں‘ تم اتنا کام کیوں کرتے ہو‘ تم پتلے کیوں ہو گئے ہو‘ تمہارا رنگ کیوں پیلا پڑ رہا ہے اور تم اس مسجد میں نماز کیوں پڑھتے ہو تو آپ اس کی طرف مسکرا کر دیکھیں‘ اﷲ تعالیٰ سے شیطان سے پناہ کی دعا کریں اور وہاں سے جلد سے جلد نکل جائیں‘کیوں؟ کیوںکہ شیطان آپ تک پہنچ چکا ہے اور آپ اب جتنا عرصہ اس کے قریب رہیں گے آپ کا امن‘ سکون‘ شانتی اور سکھ کا دریا خشک ہوتا رہے گا یہاں تک کہ آپ بنجر ہو جائیں گے لہٰذا اٹھیں اور بھاگ جائیں‘ اسی میں عافیت ہے۔
Copied

Address

Tabuk
3800

Opening Hours

Monday 9am - 9pm
Tuesday 9am - 9pm
Wednesday 9am - 9pm
Thursday 9am - 9pm
Friday 9am - 9pm
Saturday 9am - 9pm
Sunday 9am - 9pm

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when M Saqib Tasleem posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share