Malik Allah Ditta Aashi

  • Home
  • Malik Allah Ditta Aashi

Malik Allah Ditta Aashi Welcome

If you do not cut off the head of the snake, the Earth will never calm down.finishe Israel.اگر آپ سانپ کا سر نہیں کاٹیں ...
24/10/2023

If you do not cut off the head of the snake, the Earth will never calm down.finishe Israel.

اگر آپ سانپ کا سر نہیں کاٹیں گے تو زمین کبھی پرسکون نہیں ہوگی.

24/10/2023

*یہ 1945ء میں فلسطین پہنچے یہودی پناہ گزینوں کی ہے*
جب ایڈولف ہٹلر نے یہودیوں کو تباہ وتاراج کرکے جرمنی سے بھگایا تھا۔
اس وقت دنیا کا کوئی بھی ملک ان یہودیوں کو پناہ نہیں دے رہا تھا۔ امریکہ، فرانس، کیوبا، کینیڈا سمیت دیگر ممالک نے *یہودی پناہ گزینوں* سے کھچا کھچ بھرے جہازوں کو واپس کردیا تھا۔
بالآخر یہ اپنے بڑے بڑے جہازوں پر مرقوم تحریر "The German destroyed our families & Homes, don't you destroy our Hopes"
(جرمنی نے ہمارے گھر بار اور اہل و عیال کو تباہ کردیا ہے، آپ ہماری امید کو مت کچلنا)کا اشتہار لگائے*پناہ گزین* بن کر فلسطین سے مدد لینے کے لئے آئے۔
جسے انسانیت کی بنیاد پر فلسطین نے انھیں (یہودیوں کو) پناہ دیکر نئی زندگی بخشی، انھیں اپنی زمین، گھربار دیئے۔
یہی وہ صیہونی احسان فراموش پناہ گزین اسرائیلی یہودی ہیں جو اپنے محسن *فلسطینیوں* کومار کر احسان کابدلہ چکارہے ہیں۔
60لاکھ یہودیوں کو مارکر (ایک تہائی آبادی) ختم کرنے والے جرمن تانا شاہ *ایڈولف ہٹلر* نے کچھ یہودیوں کو زندہ چھوڑتے ہوئے *یہ تاریخی جملہ* کہا تھاکہ میں *ان کو زندہ اس لئے چھوڑ رہا ہوں تاکہ دنیا دیکھے کہ میں نے انھیں کیوں مارا تھا

24/10/2023

*‏ڈیڑھ ماہ کریک ڈاون کے نتائج*💕💞💕💞💕💞💕💞

*🇵🇰 پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ ٹل گیا*

🌷 روپے مستحکم ہوا اور ڈالر کی قیمت 64 روپے کم ہوئی

🌷 ڈیڑھ ماہ سے پاکستانی روپے دنیا کی نمبر ون کرنسی بنی ہوئی ہے

🌷 کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اوپن مارکیٹ میں 900 ملین ڈالر سرپلس ہوئے اور بینکوں میں جمع کرائے گئے

🌷 بجلی چوروں سے مجموعی طور پر 26 ارب روپے وصول کیے گئے

🌷 بیرونی قرضہ 6000 ارب روپے کم ہوا

🌷 سونا 221000 سے 179000 تک گر گیا یعنی فی تولہ 42000 کی کمی ہوئی

🌷 پٹرول کی قیمت میں دو بار کمی کی گئی اور پہلے 8 روپے فی لیٹر پھر 40 روپے فی لیٹر۔ یوں 331 سے 283 تک مجموعی طور پر 48 روپے کمی کی گئی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پٹرول کی قیمت میں سب سے بڑی کمی ہے ۔۔

🌷 مختلف اقسام کے گھی میں 50 سے 80 روپے فی کلو کمی ہوئی

🌷 چینی 220 سے 160 روپے فی کلو کمی ہوئی

🌷 دالوں کی قیمتوں میں بھی کمی ہوئی ہے

🌷 اچھا چاول کی فی من قیمت 15000 روپے سے 11000 روپے تک کم ہوا

🌷 اب اس کریک ڈاؤن کا سب سے اہم حصہ شروع ہونے والا ہے یعنی افغانیوں کا انخلا۔ اس پر پوری قوم یکجا ہوئی اور یہ کر گئی تو پراپرٹی سے لے کر آٹے تک ہر چیز پر اثر پڑے گا۔ شائد صرف اسی سے ہم کئی بحرانوں سے نکل آئیں!

ان شاءاللہ مہنگائی کا جن بھی قابو آجائے گا ۔۔ سب مافیاز پر ہاتھ ڈالنے کا اثر ہے ۔۔

*حافظ صاحب تن کے رکھو!*

🌹 پاکستانی عوام ہمیشہ کی طرح افواج پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں 🇵🇰🌹

24/10/2023

لیڈر چاہیے یا ڈیلر
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان کی سیاست اور معیشت دونوں آج ڈیلروں کے ہاتھ میں ہے جو ہر کام میں اپنا مفاد پہلے رکھتے ہیں اس کے بعد اگلی بات طے ہوتی ہے اسی لیے تو سیاست میں سیاستدان ختم ہوگئے جو رہ گئے تھے انہیں چلہ کشی کے بعدسیاستدان سے ڈیلر بننے پر مجبور کیا جارہا ہے ایک سیاسی لیڈر جب جلسہ کرتا ہے تو پھر اسے کروڑوں روپے خرچ کرکے عوام اکھٹی کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ لوگ خود ہی نکلتے ہیں اپنے لیڈر کو دیکھنے کے لیے،سننے کے لیے اور اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے اور ایسے جلسوں میں کسی کو پیسوں کا لالچ ہوتا ہے اور نہ ہی بریانی کے ڈبے کا بلکہ لوگ اپنے خرچے پر جلسہ گاہ آتے ہیں مینار پاکستان میں ہونے والے جلسہ میں حکومتی سرپرستی تو تھی ہی ساتھ میں پیسہ بھی تقسیم کیا گیا جو ایک اچھی بات تھی ویسے بھی ہمارے پاس اب روزگار تو ہے نہیں مہنگائی نے جینا مشکل کررکھا ہے ان حالات میں اگر میڈیا انڈسٹری،ٹرانسپورٹ انڈسٹری اور عام آدمی کا بھلا ہوگیا کسی کو ایک دن کا راشن مل گیا تو کسی کو ایک ماہ کا خرچہ مل گیا اور کسی نے تو سال بھر کی کسر نکال لی یہ ماحول پہلے الیکشن کے دنوں میں ہوا کرتا تھا پیسے دیکر شناختی کارڈ رکھ لیے جاتے تھے اور پھر ان ووٹوں کو اپنے حق میں ڈلوایا جاتا تھا پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ووٹوں کی خریدو فروخت میں جتنے ماہر ہیں اس سے زیاد ہ یہ لوگ بندے خریدنے میں بھی ماہر ہیں لاہور کی آبادی اس وقت سوا کروڑ سے زائد ہے اگر میاں نواز شریف کے استقبالیہ جلسے میں صرف لاہور سے ہی 2فیصد لوگ شامل ہوتے تودو لاکھ سے زائد کا مجمع صرف لاہوریوں کا ہی ہوجانا تھا لیکن اس جلسے میں لوگوں کو لانے کے لیے ملک بھر سے خصوصی ٹرینیں چلیں ہر ضلع کی انتظامیہ نے بسوں کو پکڑ پکڑ کر ن لیگیوں کے حوالے کیا پیسوں کا لالچ دیا گیا اور نہ جانے کیا کیا وعدے کیے گئے لیکن اسکے باوجود اتنا بڑا جلسہ نہ ہوسکا جتنا بڑا انتظام کیا گیا تھا کچھ لوگوں نے اس جلسے کو عمران خان کے جلسے سے بھی ملانے کی کوشش کی اور انکا خیال ہے کہ 2011 میں تحریک انصاف کا جلسہ جنرل پاشا نے کامیاب کروایا تھا میں صرف انہیں اتنا کہوں گا کہ وہ 21 اکتوبر کے اس جلسے کوبغور دیکھیں اور سوچیں کہ 3 ماہ کی میڈیا مارکیٹنگ، ساری ریاستی مشینری کا آزادنہ استعمال، عوام کو پیسے اور کھانے کا لالچ،سیکورٹی فورسز کے سیلوٹ اور درجہ چہارم کے سرکاری ملازمین کی حاضری یہ سب مل کر 4 بار حکومت کرنے والی جماعت کا جلسہ کامیاب نہیں کروا سکے تو 2011 کے جلسے سے پہلے تحریک انصاف کی کبھی حکومت بھی نہیں تھی تو جنرل پاشا اکیلے نے جلسہ کامیاب کیسے کروا دیا میاں نواز شریف کے جلسے کا اگر محتاظ انداز میں تخمینہ لگایا جائے تو پرنٹ میڈیا پر اشتہارات تقریبا 6 کروڑ،الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات تقریبا 14 کروڑ،لوکل کیبل ٹی وی پر اشتہارات تقریبا 4.5 کروڑ،پروڈکشن ہاؤس کے ذریعے ویڈیو پروڈکشن کے اخراجات تقریبا ڈیڑھ کروڑ،فلیکس بینرز وغیرہ کے اخراجات تقریبا 8 لاکھ فی ڈسٹرکٹ اوسطاً 5کروڑ،سوشل میڈیا مہم کے اخراجات تقریبا 1.3 کروڑ،بسوں ٹرینوں ویگنوں اور دیگر ٹرانسپورٹ کے اخراجات تقریبا 27 کروڑ،پرائیویٹ گاڑیوں کے اخراجات تقریبا 60 لاکھ،جلسے کے انتظامات وغیرہ تقریبا 5 کروڑ،کھانے پینے کا انتظام تقریبا 5 کروڑیہ کم و بیش تقریبا 72 سے 73 کروڑ کے لگ بھگ رقم بنتی ہے جبکہ اصل رقم اس سے بھی کہیں زیادہ ہے اور حکومتی ایجنسیوں کی اندر کھاتے والی رپورٹ کے مطابق جلسے میں 40 سے 42 ہزار لوگ تھے یعنی ایک بندے پر اٹھنے والا خرچ تقریباً 17 ہزار روپے بنتا ہے ان اخراجات میں وہ 2000 سے 5000 فی کس جو نقد دیے گئے ہیں ان لوگوں کو وہ بھی اگر شامل کر لیں تو جلسے کے اندازاً اخراجات ایک ارب کے لگ بھگ بنتے ہیں اور فی بندہ خرچہ 20 سے 22 ہزار بن جاتا ہے یہ تمام اخراجات کم از کم تخمینہ لگایا گیا ہے اس کے علاوہ چارٹرڈ فلائٹس، ہیلی کاپٹر کے اخراجات، پھولوں کی پتیاں اور دیگر ششکوں کے خرچے وہ الگ ہیں جو اس میں شامل نہیں جسکا نتیجہ یہ ہے کہ پورے پاکستان سے ایک لاکھ لوگ بھی جلسے میں شریک نہیں ہوئے اگر میاں نواز شریف عوامی لیڈر ہوتے تو پھر ہرشہر سے صرف 5 ہزار لوگ بھی نکلتے تو صرف پنجاب سے پانچ لاکھ سے زائد بندہ ہونا چاہیے تھا سندھ کے پی کے اور دیگر علاقوں سے لائے گئے لوگوں کی تو بعد میں گنتی شروع ہونا تھی کیونکہ پنجاب کے اضلاع کی آبادی اوسطا 35 لاکھ ہے لاہور کی آبادی ایک کروڑ 12 لاکھ ہے اوراسکے اردگرد کے 5 اضلاع کی کل آبادی 2 کروڑ سے زائد بنتی ہے ا ب آپ جلسے میں لائے جانے والوں کی تعداد دیکھ کر میاں صاحب کی مقبولیت اور قبولیت کااندازہ لگالیں رہی بات انکی تقریر کی جس میں انکے چہرے پر مایوسی کے علاوہ کچھ نظر نہیں آرہا تھا نہ ہی انہوں نے ماڈل ٹاؤن واقعہ کا ذکر کیااور نہ ہی انہوں نے بے گناہ افراد کی گرفتاریوں کی مذمت کی لیکن مہنگائی کا رونا روتے رہے اور ساتھ میں اپنا اور بھائی کا دور بھول گئے اصل میں اس سارے کھیل کا مقصدایک سزا یافتہ مجرم کو پروٹوکول کے ساتھ لانے والے طاقتوروں کا پیغام بھی ہے مجھے تومحسن پاکستان ڈاکٹر عبد القدیرخان کی بے بسی بھی یاد ہے اور انکی ملک کے لیے خدمات کا اعتراف بھی ہے جبکہ دوسری طرف دیکھتا ہوں تو ایسے شخص پر پھول کی پتیاں نچھاور کرنے سے پہلے ہماری ایوی ایشن اتھارٹی میاں صاحب کا طیارہ فضا میں دیکھتے ہی خوش آمدید کا نعرہ لگاتی ہے جس نے کارگل سے لے کر اپنے آرمی چیف پرویز مشرف کا طیارہ دشمن ملک اتارنے کا حکم دیا، ممبئی حملوں کا الزام اپنی فوج پر لگایا ڈان لیکس کے زریعے ملکی سلامتی سے کھیلا اور اب اسی شخص کو چوتھی بار حکمرانی دینے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے میاں نواز شریف پاکستان سے اپنا علاج کروانے باہر گئے تھے اور پھر لندن، دوبئی، جدہ سے کلیرنس اور سب یقین دہانیوں کے بعدانکی ملک واپسی ممکن ہوئی جبکہ دہلی اور واشنگٹن سے blessings بھی آ چکی ہے اورمقامی یقین دہانی بھی بھر پور ہے اسی ڈیل کے نتیجہ میں میاں صاحب پاکستان واپس تشریف لائے اب چھانگا مانگا سیاست کے بانی کو دیکھتے ہیں وہ کیا نئی حکمت عملی اپناتے ہیں کیونکہ اس وقت انکے مقابلہ میں بھی کوئی نہیں اورمیدان بھی صاف ہے لیڈروں کے اس بحران میں جہاں ڈیلر ہی ڈیلر ہوں وہاں پیپلز پارٹی تو ویسے بھی اپنے زخم چاٹ رہی ہے اور سمجھتی ہے کہ میثاق جمہوریت کا اصل فائدہ تو میاں نوازشریف نے اٹھایاجبکہ جنہوں نے سب سے زیادہ نقصاناٹھایا وہ عوام ہے جنہیں اب دیکھنا چاہیے کہ انہیں لیڈر چاہیے یا ڈیلر۔(تحریر۔روہیل اکبر00923004821200)

24/10/2023

ایسا ہے میرا پاکستان، جہاں ایک اشتہاری کو ایک اعلیٰ پولیس آفیسر سلیوٹ کر رہا ہے۔۔۔😞

24/10/2023

بی بی سی ریکارڈ لندن نیوز کا تہلکہ خیز انکشاف

عزیز / معزز شہری
پاکستان
اگر اس ملک میں تبدیلی چاہتے تو پھر یہ جنگ آپکو لڑنی ہو گی

آپ سے درخواست ہے کہ آپ اس میسج کو پڑھیں اور اگر آپ اتفاق کرتے ہیں تو اپنی کنٹیکٹ لسٹ میں کم ازکم 20 افراد کو لازمی سینڈ کریں اور بعد میں ان کی رائے لیں.
تین دنوں میں، پاکستان میں زیادہ تر لوگ یہ پیغام پڑھ لیں گے ۔

پاکستان میں ہر شہری کو آواز بلند کرنا چاہئے.
2023 کی اصلاحات ایکٹ

1. پارلیمنٹ کے ارکان کو پنشن نہیں ملنا چاہئے کیوں کہ یہ نوکری نہیں ہے بلکہ یہ لوگوں کی خدمت کے جذبے کے تحت ایک انتخاب ہے اور اس کے لئے ریٹائرمنٹ نہیں ہوتی ہے مزید یہ کہ سیاستدان دوبارہ سے سیلیکٹ ہو کے اس پوزیشن پر آسکتے ہیں

2. مرکزی تنخواہ کمیشن کے تحت پارلیمنٹ کے افراد کی تنخواہ میں ترمیم کرنا چاہئے. ان کی تنخواہ ایک عام مزدور کے برابر ہونی چاہیئے

(فی الحال، وہ اپنی تنخواہ کے لئے خود ہی ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی مرضی سے من چاہا اضافہ کر لیتے ہیں

3. ممبران پارلمنٹ کو اپنی صحت کی دیکھ بھال کے لیے سرکاری ہسپتال میں ہی علاج کی سہولت لینا لازم ہو جہاں عام پاکستانی شہریوں کا علاج ہوتا ہے

4. تمام رعایتیں جیسے مفت سفر، راشن، بجلی، پانی، فون بل ختم کیا جائے یا یہ ہی تمام رعایتیں پاکستان کے ہر شہری کو بھی لازمی دی جائیں

(وہ نہ صرف یہ رعایت حاصل کرتے ہیں بلکہ ان کا پورا خاندان ان کو انجوائے کرتا ہے اور وہ باقاعدہ طور پر اس میں اضافہ کرتے ہیں - جوکہ سراسر بدمعاشی اور بے شرمی بےغیرتی کی انتہا ہے.)

5. ایسے ممبران پارلیمنٹ جن کا ریکارڈ مجرمانہ ہو یا جن کا ریکارڈ خراب ہو حال یا ماضی میں سزا یافتہ ہوں موجودہ پارلیمنٹ سے فارغ کیا جائے اور ان پر ہر لحاظ سے انتخابی عمل میں حصہ لینے پر پابندی عائد ہو اور ایسے ممبران پارلیمنٹ کی وجہ سے ہونے والے ملکی مالی نقصان کو ان کے خاندانوں کی جائیدادوں کو بیچ کر پورا کیا جائے۔.

6. پارلیمنٹ ممبران کو عام پبلک پر لاگو ہونے والے تمام قوانین کی پابندیوں پر عمل لازمی ہونا چاہئے.

7. اگر لوگوں کو گیس بجلی پانی پر سبسڈی نہیں ملتی تو
پارلیمنٹ کینٹین میں سبسایڈڈ فوڈ کسی ممبران پارلیمان کو نہیں ملنی چائیے

8.ریٹائرمنٹ کی عمر 60 سال سیاستدانوں کے لئے بھی ہونا چاہئے. اور میڈیکل ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہونا چاہئے اگر میڈیکلی ان فٹ ہو تو بھی انتخاب میں حصہ لینے کا اہل نہیں ہے

* پارلیمان میں خدمت کرنا ایک اعزاز ہے، لوٹ مار کے لئے منافع بخش کیریئر نہیں *

9. ان کی تعلیم کم از کم ماسٹرز ہونی چاہئے اور دینی تعلیم بھی اعلیٰ ہونی چاہیئے اور پروفیشنل ڈگری اور مہارت بھی حاصل ہو
اور NTS ٹیسٹ پاس کرنا لازمی ہو.

10.ان کے بچے بھی لازمی سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کریں

11. سیکورٹی کے لیے کوئی گارڈز رکھنے کی اجازت نہ ہو

🔴
اگر ہر شخص کم سے کم بیس افراد کو سینڈ کرے تو یہ پاکستان میں زیادہ تر لوگوں تک صرف تین دن میں پہنچ جائے گا

کیا آپ نہیں سوچتے کہ اس مسئلے کو اٹھاے جانے کا وقت ہے؟

اگر آپ اس سے متفق ہیں تو، اس کو شئیر کریں اپنے لیے اپنی آنے والی نسلوں کے لیے✌✌
کیا پاکستان میں اس پر عمل ہوسکتا ہے۔

26/09/2023

آخری ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﻻﺋﻦ ﭘﮍﮪ ﻟﯿﮟ ﻣﻘﺎﻡ ﻋﺒﺮﺕ ﮬﮯ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ *******************
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺷﮩﻨﺸﺎﮦ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﻮ ﻣﯿﮑﻨﻦ ﻣﯿﮑﻨﺰﯼ ﺑﺤﺮﯼ ﺟﮩﺎﺯ ﻣﯿﮟ ﺑﭩﮭﺎ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ‘ ﯾﮧ ﺟﮩﺎﺯ 17 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1858 ﺀ ﮐﻮ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﯿﺎ ‘ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ 35 ﻣﺮﺩ ﺍﻭﺭ ﺧﻮﺍﺗﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺗﺎﺝ ﺩﺍﺭ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮈﯾﻮﺱ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﮐﺎ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﺗﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﺑﻨﺪﺭ ﮔﺎﮦ ﭘﮩﻨﭽﺎ ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﺭﯾﻮﮞ ﮐﻮ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﯿﺎ ‘ ﺭﺳﯿﺪ ﻟﮑﮫ ﮐﺮ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺗﯿﺴﺮﯼ ﺑﮍﯼ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﻓﺮﻣﺎﻧﺮﻭﺍ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﺗﮭﺎ ‘ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﮔﻮﺍﺭﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﻭﮦ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺟﯿﻞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﮮ ﻣﮕﺮ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﯾﺴﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﻮ ﺭﮐﮭﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ‘ ﻭﮦ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻼ ﺟﻼ ﻭﻃﻦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺗﮭﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮈﯾﻮﺱ ﻧﮯ ﭼﻨﺪ ﻟﻤﺤﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﺩﻟﭽﺴﭗ ﺣﻞ ﻧﮑﺎﻝ ﻟﯿﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﺎ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮﺍﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭ ﮨﻨﺪ ‘ ﻇﻞ ﺳﺒﺤﺎﻧﯽ ﺍﻭﺭ ﺗﯿﻤﻮﺭﯼ ﻟﮩﻮ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﭼﺸﻢ ﻭ ﭼﺮﺍﻍ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ‘ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ 17 ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ 1858 ﺀ ﮐﻮ ﺍﺱ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺍﻭﺭ 7 ﻧﻮﻣﺒﺮ 1862 ﺀ ﺗﮏ ﭼﺎﺭ ﺳﺎﻝ ﻭﮨﺎﮞ ﺭﮨﺎ ‘ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﻏﺰﻝ ﻟﮕﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺟﮍﮮ ﺩﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ‘ ﮐﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﯽ ﮨﮯ ﻋﺎﻟﻢ ﻧﺎﭘﺎﺋﯿﺪﺍﺭ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﺭﮐﺘﻨﺎ ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﮨﮯ ﻇﻔﺮﺩﻓﻦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ‘ ﺩﻭ ﮔﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﻣﻠﯽ ﮐﻮﺋﮯ ﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ‘ ﺍﺳﯽ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﯾﮧ ﺁﺝ 7 ﻧﻮﻣﺒﺮ ﮐﺎ ﺧﻨﮏ ﺩﻥ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻦ ﺗﮭﺎ 1862 ﺀ۔
ﺑﺪﻧﺼﯿﺐ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﻧﮯ ﺷﺪﯾﺪ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮈﯾﻮﺱ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺩﺳﺘﮏ ﺩﯼ ‘ ﺍﻧﺪﺭ ﺳﮯ ﺍﺭﺩﻟﯽ ﻧﮯ ﺑﺮﻣﯽ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺑﺪﺗﻤﯿﺰﯼ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﭘﻮﭼﮭﯽ ‘ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﻧﮯ ﭨﻮﭨﯽ ﭘﮭﻮﭨﯽ ﺑﺮﻣﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ‘ ﻇﻞ ﺳﺒﺤﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﺳﺎﻧﺲ ﺍﮐﮭﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ‘ ﺍﺭﺩﻟﯽ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ‘ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﺘﮯ ﮐﻮ ﮐﻨﮕﮭﯽ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮭﯿﮟ ﮈﺳﭩﺮﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ‘ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﻧﮯ ﺍﻭﻧﭽﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ‘ ﺍﺭﺩﻟﯽ ﺍﺳﮯ ﭼﭗ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﻣﮕﺮ ﺁﻭﺍﺯ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﯽ ‘ ﻭﮦ ﻏﺼﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﻧﮑﻼ ‘ ﺧﺎﺩﻣﮧ ﻧﮯ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻭﮦ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺮ ﮔﺌﯽ ‘ ﻭﮦ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﮐﯽ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮐﮭﻠﻮﺍﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻠﯽ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮔﮭﻮﻧﭧ ﺑﮭﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭘﺴﭩﻞ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ‘ ﮔﺎﺭﮈﺯ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ‘ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺁﺭﺍﻡ ﮔﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺑﻮ ‘ ﻣﻮﺕ ﮐﺎ ﺳﮑﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﺗﮭﺎ ‘ ﺍﺭﺩﻟﯽ ﻟﯿﻤﭗ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺳﺮﮨﺎﻧﮯ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮬﺎ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﮐﻤﺒﻞ ﺁﺩﮬﺎ ﺑﺴﺘﺮ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬﺎ ﻓﺮﺵ ﭘﺮ ‘ ﺍﺱ ﮐﺎ ﻧﻨﮕﺎ ﺳﺮ ﺗﮑﯿﮯ ﭘﺮ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﺮﺩﻥ ﮈﮬﻠﮑﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﮯ ﮈﮬﯿﻠﮯ ﭘﭙﻮﭨﻮﮞ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺍﺑﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﮔﺮﺩﻥ ﮐﯽ ﺭﮔﯿﮟ ﭘﮭﻮﻟﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺧﺸﮏ ﺯﺭﺩ ﮨﻮﻧﭩﻮﮞ ﭘﺮ ﻣﮑﮭﯿﺎﮞ ﺑﮭﻨﺒﮭﻨﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﮨﺰﺍﺭﻭﮞ ﭼﮩﺮﮮ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮯ ﭼﺎﺭﮔﯽ ‘ ﺍﺗﻨﯽ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻟﻮﻃﻨﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺑﮭﮑﺎﺭﯼ ﮐﺎ ﭼﮩﺮﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺁﺯﺍﺩ ﺳﺎﻧﺲ ﺟﯽ ﮨﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﺁﺯﺍﺩ ﺳﺎﻧﺲ ﮐﯽ ﺍﭘﯿﻞ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﺍﭘﯿﻞ ﭘﺮﺍﻧﮯ ﮐﻨﻮﺋﯿﮟ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺳﮯ ﻟﭙﭩﯽ ﮐﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﺮ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﮔﺮﻓﺖ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﮔﺮﺩﻥ ﭘﺮ ﮨﺎﺗﮫ ﺭﮐﮭﺎ ‘ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ ﻗﺎﻓﻠﮯ ﮐﻮ ﺭﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﻣﺪﺕ ﮨﻮ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﺎ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺣﺪ ﻋﺒﻮﺭ ﮐﺮ ﭼﮑﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﻟﻮﺍﺣﻘﯿﻦ ﮐﻮ ﺑﻼﻧﮯ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ‘ ﻟﻮﺍﺣﻘﯿﻦ ﺗﮭﮯ ﮨﯽ ﮐﺘﻨﮯ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺟﻮﺍﻥ ﺑﺨﺖ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ‘ ﻭﮦ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺁﺋﮯ۔
ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﺎ ‘ ﮐﻔﻦ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﯿﺴﮯ ﺗﯿﺴﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﭘﮍﮬﯽ ‘ ﻗﺒﺮ ﮐﺎ ﻣﺮﺣﻠﮧ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﮮ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺁﺧﺮﯼ ﺗﺎﺟﺪﺍﺭ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺩﻭﮔﺰ ﺯﻣﯿﻦ ﺩﺳﺘﯿﺎﺏ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ‘ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﻧﮯ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎﺋﺶ ﮔﺎﮦ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮯ ﻣﯿﮟ ﻗﺒﺮ ﮐﮭﺪﻭﺍﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺧﯿﺮﺍﺕ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﭩﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ‘ ﻗﺒﺮ ﭘﺮ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﺎ ﭼﮭﮍﮐﺎﺅ ﮨﻮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﮔﻼﺏ ﮐﯽ ﭘﺘﯿﺎﮞ ﺑﮑﮭﯿﺮﯼ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﮞ ﺭﺳﯿﺪﮦ ﺫﮨﻦ ﻣﯿﮟ 30 ﺳﺘﻤﺒﺮ 1837 ﺀ ﮐﮯ ﻭﮦ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﺩﻭﮌﻧﮯ ﺑﮭﺎﮔﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﺟﺐ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﻻﻝ ﻗﻠﻌﮯ ﻣﯿﮟ 62 ﺑﺮﺱ ﮐﮯ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﻮ ﺗﺎﺝ ﭘﮩﻨﺎﯾﺎﮔﯿﺎ ‘ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﻧﺌﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﺳﻼﻣﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻣﻠﮏ ﺳﮯ ﻻﮐﮫ ﻟﻮﮒ ﺩﻟﯽ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺟﺐ ﻟﺒﺎﺱ ﻓﺎﺧﺮﮦ ﭘﮩﻦ ﮐﺮ ‘ ﺗﺎﺝ ﺷﺎﮨﯽ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺍﻭﺭ ﻧﺎﺩﺭ ﺷﺎﮨﯽ ﺍﻭﺭ ﺟﮩﺎﻧﮕﯿﺮﯼ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﻟﭩﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﻋﺎﻡ ﻣﯿﮟ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﭘﻮﺭﺍ ﺩﻟﯽ ﺗﺤﺴﯿﻦ ﺗﺤﺴﯿﻦ ﮐﮯ ﻧﻌﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﺞ ﺍﭨﮭﺎ ‘ ﻧﻘﺎﺭﭼﯽ ﻧﻘﺎﺭﮮ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ‘ ﮔﻮﯾﮯ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﻧﯿﮟ ﺍﮌﺍﻧﮯ ﻟﮕﮯ ‘ ﻓﻮﺟﯽ ﺳﺎﻻﺭ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﺑﺠﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺭﻗﺎﺻﺎﺋﯿﮟ ﺭﻗﺺ ﮐﺮﻧﮯ ﻟﮕﯿﮟ ‘ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﺮﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﻮ ﯾﺎﺩ ﺗﮭﺎ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﯽ ﺗﺎﺝ ﭘﻮﺷﯽ ﮐﺎ ﺟﺸﻦ ﺳﺎﺕ ﺩﻥ ﺟﺎﺭﯼ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﻥ ﺳﺎﺕ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻟﯽ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺷﺎﮨﯽ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﻣﮕﺮ ﺳﺎﺕ ﻧﻮﻣﺒﺮ 1862 ﺀ ﮐﯽ ﺍﺱ ﭨﮭﻨﮉﯼ ﺍﻭﺭ ﺑﮯ ﻣﮩﺮ ﺻﺒﺢ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺵ ﺍﻟﺤﺎﻥ ﻗﺎﺭﯼ ﺗﮏ ﻧﺼﯿﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺣﺎﻓﻆ ﻣﺤﻤﺪ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁ ﮔﺌﮯ ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮﺗﮯ ﺍﺗﺎﺭﮮ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﭘﺎﺋﯿﻨﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭۃ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮ ﺩﯼ ‘ ﺣﺎﻓﻆ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﺳﮯ ﺳﻮﺯ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﺑﮩﻨﮯ ﻟﮕﮯ ‘ ﯾﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﮐﯽ ﺗﻼﻭﺕ ﮐﺎ ﺍﻋﺠﺎﺯ ﺗﮭﺎ ﯾﺎ ﭘﮭﺮ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺍﺑﺮﺍﮨﯿﻢ ﺩﮨﻠﻮﯼ ﮐﮯ ﮔﻠﮯ ﮐﺎ ﺳﻮﺯ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮈﯾﻮﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ ﺁ ﮔﺌﮯ ‘ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻏﺮﯾﺐ ﺍﻟﻮﻃﻦ ﻗﺒﺮ ﮐﻮ ﺳﯿﻠﻮﭦ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺁﺧﺮﯼ ﺳﯿﻠﻮﭦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮨﯽ ﻣﻐﻞ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﺭﺝ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻏﺮﻭﺏ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ‘ ﺁﭖ ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﻮ ﮈﯾﮕﻦ ﭨﺎﺅﻥ ﺷﭗ ﮐﯽ ﮐﭽﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﺪﺑﻮﺩﺍﺭ ﺟﮭﮕﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﮐﯽ ﻧﺴﻞ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ‘ ﯾﮧ ﺁﺧﺮﯼ ﻣﻐﻞ ﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺍﺻﻞ ﺍﻭﻻﺩ ﮨﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺍﻭﻻﺩ ﺁﺝ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﮐﮯ ﻭﻇﯿﻔﮯ ﭘﺮ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﮐﭽﯽ ﺯﻣﯿﻦ ﭘﺮ ﺳﻮﺗﯽ ﮨﮯ ‘ ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭘﮭﺮﺗﯽ ﮨﮯ ‘ ﻣﺎﻧﮓ ﮐﺮ ﮐﮭﺎﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﭨﯿﻦ ﮐﮯ ﮐﻨﺴﺘﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﻧﻞ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﺑﮭﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﺴﻤﭙﺮﺳﯽ ﮐﮯ ﺑﺎﻭﺟﻮﺩ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﯾﺎﮞ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﯾﮧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻋﮩﺪ ﺭﻓﺘﮧ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ ﺳﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻟﻮﮒ ﻗﮩﻘﮩﮯ ﻟﮕﺎ ﮐﺮ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔
ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ‘ ﯾﮧ ﺷﮩﺰﺍﺩﮮ ﺍﻭﺭ ﺷﮩﺰﺍﺩﯾﺎﮞ ﮐﻮﻥ ﮨﯿﮟ؟ ﯾﮧ ﮨﻨﺪﻭﺳﺘﺎﻥ ﮐﮯ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺳﯿﺎﺳﯽ ﻏﻠﻄﯿﺎﮞ ﮨﯿﮟ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﺮﺩ ﻧﺎﺍﮨﻞ ‘ ﺧﻮﺷﺎﻣﺪﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﺮﭘﭧ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﻟﺸﮑﺮ ﺟﻤﻊ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺗﮭﮯ ‘ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺿﻤﯿﺮ ﺑﮭﯽ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﺩﻭ ﺑﯿﭩﻮﮞ ﻧﮯ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﺁﭘﺲ ﻣﯿﮟ ﺗﻘﺴﯿﻢ ﮐﺮ ﻟﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺍﯾﮏ ﺷﮩﺰﺍﺩﮦ ﺩﺍﺧﻠﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﺎ ﻣﺎﻟﮏ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺧﺎﺭﺟﯽ ﺍﻣﻮﺭ ﮐﺎ ﻣﺨﺘﺎﺭ ‘ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻥ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﮨﺮ ﻏﻠﻄﯽ ‘ ﮨﺮ ﮐﻮﺗﺎﮨﯽ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﻧﺎﮔﻔﺘﮧ ﺑﮧ ﺗﮭﯽ ‘ ﻣﮩﻨﮕﺎﺋﯽ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﮐﻮ ﭼﮭﻮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺧﻮﺭﺍﮎ ﻣﻨﮉﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﭩﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﻣﻮﺳﻤﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻏﺎﺋﺐ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﺳﻮﺩﺍﮔﺮ ﻣﻨﮧ ﻣﺎﻧﮕﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﭘﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﻨﺪﻡ ‘ ﮔﮍ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﮐﺎﺭﯼ ﺑﯿﭽﺘﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﭨﯿﮑﺴﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﻭﺯ ﺍﺿﺎﻓﮧ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺷﮩﺰﺍﺩﻭﮞ ﻧﮯ ﺩﻟﯽ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺒﻮﺗﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﺍﻧﮯ ﺗﮏ ﭘﺮ ﭨﯿﮑﺲ ﻟﮕﺎ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﻃﻮﺍﺋﻔﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﻤﺎﺋﯽ ﺗﮏ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺣﺼﮧ ﺷﮩﺰﺍﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﻼ ﺟﺎﺗﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﮯ ﻟﻮﮒ ﻗﺘﻞ ﺑﮭﯽ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻥ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺭﯾﺎﺳﺖ ﺷﺎﮨﯽ ﺩﺭﺑﺎﺭ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﻧﻮﺍﺏ ‘ ﺻﻮﺑﯿﺪﺍﺭ ‘ ﺍﻣﯿﺮ ﺍﻭﺭ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﻐﻞ ﺳﻠﻄﻨﺖ ﮐﻮ ﻣﺎﻧﻨﮯ ﺗﮏ ﺳﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭﯼ ﺗﮭﮯ ‘ ﻓﻮﺝ ﺗﻠﻮﺍﺭ ﮐﯽ ﻧﻮﮎ ﭘﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﮯ ﺟﻮ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﻣﻨﻮﺍ ﻟﯿﺘﯽ ﺗﮭﯽ ‘ ﻋﻮﺍﻡ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺳﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﯾﮧ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺯﺍﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﻧﻨﮕﯽ ﮔﺎﻟﯿﺎﮞ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺗﻮﺍﻝ ﭼﭗ ﭼﺎﭖ ﺍﻥ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﻣﻀﺒﻮﻁ ﮨﻮﺗﮯ ﺟﺎ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ‘ ﯾﮧ ﺭﻭﺯ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﺗﻮﮌﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻭﺳﯿﻊ ﺗﺮ ﻗﻮﻣﯽ ﻣﻔﺎﺩ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﻭﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻧﯿﺎ ﻣﻌﺎﮨﺪﮦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﮯ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭﻭﮞ ﮐﻮ ﻗﺘﻞ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﺟﺐ ﺍﺣﺘﺠﺎﺝ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺑﺘﺎ ﮐﺮ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﺗﮭﺎ ’’ ﻇﻞ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻭﮦ ﺷﺨﺺ ﺁﭖ ﮐﺎ ﻭﻓﺎﺩﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ‘ ﻭﮦ ﻧﻨﮓ ﺍﻧﺴﺎﻧﯿﺖ ﺁﭖ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺳﺎﺯﺵ ﮐﺮ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‘‘ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﺱ ﭘﺮ ﯾﻘﯿﻦ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻃﻮﯾﻞ ﻋﺮﺻﮯ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﻓﻮﺝ ﺑﮭﯽ ﭨﯿﺴﭧ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ ﺗﮭﯽ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺟﺐ ﻟﮍﻧﮯ ﮐﺎ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﻓﻮﺟﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺗﻠﻮﺍﺭﯾﮟ ﺗﮏ ﻧﮧ ﺍﭨﮭﺎﺋﯽ ﮔﺌﯿﮟ ‘ ﺍﻥ ﺣﺎﻻﺕ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﺁﺯﺍﺩﯼ ﮐﯽ ﺟﻨﮓ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮔﺮﺗﺎ ﭘﮍﺗﺎ ﺷﺎﮨﯽ ﮨﺎﺗﮭﯽ ﭘﺮ ﭼﮍﮬﺎ ﺗﻮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﻻﺗﻌﻠﻖ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﺎ ﺍﻋﻼﻥ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ‘ ﻟﻮﮒ ﮐﮩﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻟﯿﮯ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﯾﺎ ﺍﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭﺍ ﻭﮐﭩﻮﺭﯾﺎ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﯿﮟ ‘ ﻣﺠﺎﮨﺪﯾﻦ ﺟﺬﺑﮯ ﺳﮯ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﺗﮭﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﻗﯿﺎﺩﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ۔
ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮈﺑﻞ ﻣﺎﺋﯿﻨﮉﮈ ﺗﮭﺎ ‘ ﯾﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰ ﺳﮯ ﻟﮍﻧﺎ ﺑﮭﯽ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺪﺕ ﺷﺎﮨﯽ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﺟﻨﮓ ﮐﺎ ﻭﮨﯽ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﻧﮑﻼ ﺟﻮ ﮈﺑﻞ ﻣﺎﺋﯿﻨﮉ ﮨﻮ ﮐﺮ ﻟﮍﯼ ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺟﻨﮕﻮﮞ ﮐﺎ ﻧﮑﻠﺘﺎ ﮨﮯ ‘ ﺷﺎﮨﯽ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﮐﻮ ﺩﻟﯽ ﻣﯿﮟ ﺫﺑﺢ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺟﺐ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺟﻼﻭﻃﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ‘ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﯿﭙﭩﻦ ﻧﯿﻠﺴﻦ ﮈﯾﻮﺱ ﮐﮯ ﮔﯿﺮﺍﺝ ﻣﯿﮟ ﻗﯿﺪ ﺭﮨﺎ ‘ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﺣﺎﻃﮧ ﻣﯿﮟ ﺩﻓﻦ ﮨﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺁﺝ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﯽ ﻋﻈﻤﺖ ﺭﻓﺘﮧ ﮐﺎ ﭨﻮﮐﺮﺍ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺍﭨﮭﺎ ﮐﺮ ﺭﻧﮕﻮﻥ ﮐﯽ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ‘ ﯾﮧ ﻟﻮﮒ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮑﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﺍﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﺮ ﺻﺎﻑ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﺟﻮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﭘﻨﯽ ﺳﻠﻄﻨﺖ ‘ ﺍﭘﻨﮯ ﻣﯿﻨﮉﯾﭧ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺗﮯ ‘ ﺟﻮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﺎ ﺍﻋﺘﻤﺎﺩ ﮐﮭﻮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﺍﻥ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩﯾﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺧﻮﺍﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﯿﮟ ‘ ﯾﮧ ﻋﺒﺮﺕ ﮐﺎ ﮐﺸﮑﻮﻝ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺗﺎﺭﯾﺦ ﮐﮯ ﭼﻮﮎ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯿﮏ ﻣﺎﻧﮕﺘﯽ ﮨﯿﮞﻠﯿﮑﻦ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺣﮑﻤﺮﺍﻧﻮﮞ ﮐﻮ ﯾﮧ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﯽ ‘ ﯾﮧ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ ﺑﮩﺎﺩﺭ ﺷﺎﮦ ﻇﻔﺮ ﺳﮯ ﺑﮍﺍ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺳﻤﺠﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ

قوم کی حقیقی آزادی کی خاطر تمام تر فسطائیت برداشت کرنے والی پی ٹی آئی لیڈرشپ اور کارکنان وفاداری اور بہادری کی زندہ مثال...
14/09/2023

قوم کی حقیقی آزادی کی خاطر تمام تر فسطائیت برداشت کرنے والی پی ٹی آئی لیڈرشپ اور کارکنان وفاداری اور بہادری کی زندہ مثال ہیں،
قوم اپنے ان عظیم رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔

#
سیاسی_قیدی_رہا_کرو
804

پاکستان کو اپنی کرنسی تبدیل کردینی چاہیے مطلب نوٹ کی شکل و صورت سب تبدیل کردینا چاہیے جس طرح انڈیا نے اپنی کرنسی تبدیل ک...
14/09/2023

پاکستان کو اپنی کرنسی تبدیل کردینی چاہیے مطلب نوٹ کی شکل و صورت سب تبدیل کردینا چاہیے
جس طرح انڈیا نے اپنی کرنسی تبدیل کی تھی
جو کرنسی تبدیل کرنے آئے اس شحص کو نقد دینے کی بجائے اس کا اسی وقت بنک میں اکاونٹ کھولا جائے اور رقم بنک میں رکھی جائے ساتھ ہی FBR میں اسی وقت رجسٹرڈ کیا جائے فائلر بنایا جائے جو شحص اپنے زرائع آمدن نہ بتائے اس پر جرمانہ کیا جائے
یقین کریں پاکستان کے بنکوں میں روپوں کے انبار لگ جائیں گے اور تمام لوگ فائلر بھی ہوجائیں گے
پاکستان کی توقع سے بھی زیادہ ریونیو اکٹھا ہوگا لوگوں نے کروڑوں اربوں روپیہ گھروں میں رکھا ہوا ہے اگر ملک کو درست حالت میں لانا ہے تو پھر یہ کام بھی کرنا ہوگا
یاد رہے انڈیا نے جب کرنسی تبدیل کی تھی تو انڈیا کا سارا بلیک منی کا پیسہ بوریوں سے نکل کر حکومت کے پاس خود چل کر آ گیا تھا،,,

14/09/2023

تمام شادی شدہ جوڑوں کے لیے ان کے نوزائیدہ بچوں سے متعلق بہت بنیادی اور اہم معلومات!!!
براہ کرم اپنے بچوں کو ان پرانے طور طریقوں سے بچائیں جو فائدہ دینے کے بجائے الٹانقصان پہنچا سکتے ہیں۔

1. یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سرمہ لگانے سے بچے کی آنکھیں بڑی ہوجاٸیں گی لیکن حقیقت میں سرمہ لیڈ یا سیسے کی ملاوٹ کی وجہ سے بچوں کے دماغ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
2. نوزائیدہ بچوں کے جسم پر پاؤڈر لگایا جاتا ہے تاکہ خوشبو آۓ۔ یہ مرطوب گرم درجہ حرارت کے دنوں میں پسینے کی وجہ سے جسم پر دانوں اور ریشز کا باعث بن سکتا ہے۔ پاؤڈر کے ذرات سانس لینے سے پھیپھڑوں میں پہنچ کر ان کو نقصان پہنچاسکتے ہے۔
3. تیل، ہلدی کو نوزاٸیدہ بچے کی ناف پر لگایا جاتا ہےتاکہ جلدی ٹھیک ہو لیکن یہ چیزیں ناف کے تاخیر سے گرنے کا سبب بن سکتی ہیں اور انفیکشن بھی کرواسکتی ہیں
4. نوزائیدہ بچوں کی ناک کو دبایا جاتا ہے تاکہ ناک پتلی ہوجاۓلیکن دراصل یہ کام ناک کی نرم اور نازک ہڈی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
5. بچوں میں سخت چیزوں کے ساتھ سربنانا فلیٹ ہیڈ سنڈروم کا باعث بن سکتاہے جو مستقبل میں بچے کی سیکھنے کی مہارت کو متاثر کرسکتا ہے۔
6. نوزائیدہ بچے کا سر مونڈوانے سے گھنے بالوں کو بڑھنے میں مددہرگز نہیں ملے گی۔ بچے کےبال کتنے آٸیں گے اسکا تعین جینیاتی صلاحیت کے مطابق ہی ہوتا ہے۔
7. نوزائیدہ کے جسم کے بال خود ہی گر جاتے ہیں اس لیے بیبی ویکس یا آٹا کے پیڑا کے استعمال سے انہیں اتارنے سے گریز کریں۔
8. نوزائیدہ بچے کو صرف دودھ اور خاص طور پر ماں کا دودھ دینا چاہیے۔ عرق اور گھٹی کبھی دودھ کا متبادل نہیں ہو سکتے اور بچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
9. بچے کی نشوونما کا انحصار خوراک پر ہوتا ہے۔ بازاری اشیاء جیسے گراٸپ واٹر، نونہال وغیرہ بچے کو وزن بڑھانے میں مدد نہیں دے سکتی بلکہ نقصان کا باعث بن سکتی ہیں۔
10.ناف گرنے کے بعد بچے کوہفتے میں دودن نہلاناچاہیے ۔یہ سوچ کر نہ نہلانا کہ بچے کو سردی یاہوا لگ جاۓ گی بالکل غلط ہے۔

10/09/2023

16
ماہ میں دس ارب روپے میڈیا کو دے کر قوم کو یہ بتایا
کہ
گھڑی 5 کروڑ کی تھی۔

09/09/2023

رشتے اور جُدائیاں

ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جب گاوں کے ایک گھر تنور گرم کیا جاتا تو گھر والی خاتون اپنی بچی کو پڑوس کے گھر بھجواتی کہ آ کے روٹیاں لگا لیں۔اور خواتین اپنا آٹا لے کر پہنچ جاتیں۔ ایک تو سب کا بھلا ہو جاتا دوسرا تنور میں جو آگ جلائی جاتی وہ ایندھن ضائع ہونے سے بچ جاتا کیونکہ ایک دفعہ آپ تنور گرم کر لیں تو پانچ گھروں کی روٹیاں پکا سکتے ہیں۔پھر تنور کے اندر بینگن سیخ میں پرو کر ڈالے جاتے اور بھون لیے جاتے اس کے بعد بھی آگ اتنی ہوتی کہ بڑے پتیلے میں پانی بھر کر چنے۔گندم۔باجرہ بمع گڑ ڈال دیتے اور کچھ دیر میں گھگھنیاں تیار ہو جاتیں۔ ہماری مائیں گھگھنیاں خیرات کے طور پر پکاتی تھیں۔جس خاتون نے قران کا اس دن ختم کیا ہوتا وہ گھنگنیاں پکا کے خیرات کرتی۔ صبح جب مکھن کے لیے دودھ بلویا جاتا تو پڑوسی بچے اس گھر لسی لینے پہنچ جاتے اور ایک ایک لیٹر لسی سب کو فری ملتی۔ گاٶں والی ماسیاں چھوٹا سا مکھن کا پیڑا بھی ڈال دیتیں۔ اگرچہ غریبی کا زمانہ تھا مگر لوگوں کے دل بہت بڑے تھے۔ گاوں کے گھروں میں بچے ایک دوسرے کے گھر سے نمک۔مرچ۔لہسن۔پیاز۔ مانگنے آتے تو پیار محبت سے دے دئیے جاتے اور یکجہتی میں اضافہ ہوتا۔ پکے ہوے سالن کی مُنگری تو ساتھ کے ایک دو گھر ضرور جاتی۔ شروع میں جب میں لاھور سے ایک الارم والی گھڑی جو تین انچ گولائی میں ہوتی لے آیا۔ گاوں والے نہر کا پانی اپنی باری کے حساب سے لگاتے تو بہت خوش ہوۓ کہ چلو اب ٹایم دیکھ کے پانی لگایا کریں گے۔گاوں کے کارپینٹر سے اس کا شیشم کی لکڑی کا ڈبے نما فریم بنایا گیا پالش ہوئی اس کو پکڑنے کے لیے اوپر ہینڈل لگا دیا۔ گاٶں کے کسان ایک ہاتھ میں گھڑی اور دوسرے میں کہی اٹھاے خوشی خوشی پھرتے اور اپنے نمبر پر کھیت کو پانی دیتے۔ بعض تو اتنا سادہ تھے کہ پہلے ان کو سمجھانا پڑتا کہ بڑی سوئی جب 12 بجے پہنچے گی تمھاری پانی لگانے کی باری شروع ہو گی۔ یہ گھڑی 24 گھنٹے میں ایک دفعہ ہمارے گھر اس لیے واپس آتی کہ ہم اس کو چابی دے دیں۔اب ویسی گھڑیاں کہیں نظر نہیں آتیں۔جب گاوں میں شادی کی تقریب ہوتی ہر گھر سے لڑکے ایک ایک چارپائی جمع کرتے رنگدار پانی کے ساتھ گھر والے کا نام لکھا جاتا اور شادی مکمل ہونے پر واپس کرتے۔سردیوں میں ایک ایک بستر بھی جمع کیا جاتا۔ شروع میں جب ریڈیو اور پھر ٹی وی ہمارے گھر آیا تو شام کو بچوں کی پوری کلاس بیٹھ کے ریڈیو سنتی اور ٹی وی دیکھتے کیونکہ پورے گاوں میں ٹی وی ایک دو گھر تھا۔اس کے لیے زمین پر دریاں بچھائی جاتیں۔ ہمارے مکان کچے تھے ہر سال ساون کے مہینے سے پہلے لپائی کرنی ہوتی۔اس کے لیے گاوں کے پندرہ بیس آدمی بلاۓ جاتے جس کو وِنگار کہتے۔ یہ سب بلا معاوضہ گھر کی لپائی کر دیتے صرف کھانا اور چاے ان کو مہیا کی جاتی۔ اسی طرح عورتیں پنگھٹ پر یا کنویں سے گھڑوں میں پانی بھرنے اکٹھی ہوتیں تو یہ ایک قسم کی کیمونٹی میٹنگ ہوتی۔ایک دوسرے کے دکھ درد۔بیماری خوشی۔کا پتہ چلتا اور لوگ ایک دوسرے کی مدد کو تیار رہتے۔ یہ سب پیار سب یکجہتی اس وقت ختم ہونا شروع ہوئی جب باھر کے لوگ ہمارے گاوں پہنچے۔پہلے پہل ہمیں قومی اور نسلی تفاخر کا سبق پڑھایا گیا کہ یہ تورانی۔یہ افغانی یہ فلاں یہ فلاں ہم سے کمتر اور ہم بہتر ہیں۔ جب یہ فارمولا پورا کامیاب نہ ہوا تو جمھوریت نے حملہ کر دیا۔ گاوں میں گروپ بن گئیے کون کونسلر بنے گا کس کے ووٹ زیادہ ہیں۔ بس اب ہم جدا ہونا شروع ہوۓ۔ابھی یہ سلسلہ جاری تھا کہ باہر سے کچھ پڑھے لکھے عالم تشریف لاے ۔انہوں نے ہمیں واضع کیا کہ آپ کا باپ بریلوی ۔بھائی دیوبندی۔کزن شیعہ۔ماموں وہابی۔چچا پتھری۔ خالو ض صحیح نہیں پڑھتا۔ پھوپھا تبلیغی ہے۔بس پھر تو وہ گرد اڑی کی خدا کی پناہ ہم نے مسجدیں جدا جدا بنا کر اپنا مسلک لکھ دیا ۔میناروں پر چار پانچ لاوڈسپیکرز لگا لیے ۔امام صاحب علیحدہ۔نمازیں الگ۔جنازے الگ۔عیدیں الگ۔ پھر فرقہ واریت کا جو نتیجہ نکلا اور خون کی ہولی کھیلی گئی سب کے سامنے ہے۔ ابھی کچھ کسر باقی تھی کہ سیاسی پارٹیاں نمودار ہو گئیں پھر ایک بار ہم فلاں زندہ باد فلاں مردہ باد نعرے لگاتے باہم ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گیے۔ ہمارے لیڈر ہم سے ووٹ لے کر پانچ سال کے لیے غائیب ہو جاتے ہیں مگر ہم ووٹر روز لڑتے رہتے ہیں۔ان تمام عوامل کا اثر یہ ہوا کہ آج ہمارے گاوں میں بھائی اپنے بھائی سے جدا ہے اور جمھوریت ۔ فرقہ بندی ۔ نااتفاقی۔لڑائی جھگڑوں۔ نسلی فخر اور غرور کے جہنم کے گڑھے میں جل رہا ہے اور یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ اس آگ کو بھڑکانے والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کہاں غائیب ہو جاتے ہیں

08/09/2023

موت کے بعد انسان کی 9 آرزوئیں جن کا تذکرہ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﺠﯿﺪ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ:
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۱- يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻣﭩﯽ ﮨﻮﺗﺎ (ﺳﻮﺭة النبأ 40 #)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۲- * يَا لَيْتَنِي قَدَّمْتُ لِحَيَاتِي *
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ ( ﺍﺧﺮﯼ ) ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﮯ لئے ﮐﭽﮫ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺗﺎ
( ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺠﺮ #24 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۳- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُوتَ كِتَابِيَهْ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻣﮧ ﺍﻋﻤﺎﻝ ﻧﮧ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﺤﺎﻗﺔ #25)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۴- يَا وَيْلَتَىٰ لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻓﻼﮞ ﮐﻮ ﺩﻭﺳﺖ ﻧﮧ ﺑﻨﺎﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #28 )
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۵- يَا لَيْتَنَا أَطَعْنَا اللَّهَ وَأَطَعْنَا الرَّسُولَا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮨﻢ ﻧﮯ ﺍللہ ﺍﻭﺭ اس کے ﺭﺳﻮﻝ ﮐﯽ ﻓﺮﻣﺎﻧﺒﺮﺩﺍﺭﯼ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﺣﺰﺍﺏ #66)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۶- يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺭﺳﻮﻝ ﮐﺎ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﯿﺘﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻔﺮﻗﺎﻥ #27)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۷- يَا لَيْتَنِي كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ان کے ﺳﺎﺗﮫ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﯼ ﮐﺎﻣﯿﺎﺑﯽ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻨﺴﺎﺀ #73)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۸- يَا لَيْتَنِي لَمْ أُشْرِكْ بِرَبِّي أَحَدًا
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺷﺮﯾﮏ ﻧﮧ ٹھہرایا ﮨﻮﺗﺎ
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻟﻜﻬﻒ #42)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
۹- يَا لَيْتَنَا نُرَدُّ وَلَا نُكَذِّبَ بِآيَاتِ رَبِّنَا وَنَكُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ
ﺍﮮ ﮐﺎﺵ ! ﮐﻮﺋﯽ ﺻﻮﺭﺕ ﺍﯾﺴﯽ ﮨﻮ ﮐﮧ ﮨﻢ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻭﺍﭘﺲ ﺑﮭﯿﺠﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﯽ ﻧﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻧﮧ ﺟﮭﭩﻼﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﻧﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺷﺎﻣﻞ ﮨﻮﮞ۔
(ﺳﻮﺭﺓ ﺍﻷﻧﻌﺎﻡ #27)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
ﯾﮧ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺁﺭﺯﻭﺋﯿﮟ جن کا ﻣﻮﺕ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺣﺎﺻﻞ ﮨﻮﻧﺎ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ، ﺍسی لئے ﺯﻧﺪﮔﯽ میں ہی اپنے عقائد و عمل کی ﺍﺻﻼﺡ کرنا ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ۔
ﺍللہ ﺗﻌﺎﻟﯽ ہمیں سوچنے ﺳﻤﺠﮭﻨﮯ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎﺀ ﻓﺮﻣﺎئے ۔

*آﻣِﻴﻦ ثم آمین ﻳَﺎ ﺭَﺏَّ ﺍﻟْﻌَﺎﻟَﻤِﻴْﻦ*

19/08/2023

پڑھنا ضرور اپنی نسلیں سنوارنے کیلئے۔۔۔
تحریر تھوڑی لمبی ضرور ہے مگر قابل غور ہے۔۔۔

دس لاکھ کا جہیز۔۔۔
پانچ لاکھ کا کھانا۔۔۔
گھڑی پہنائی۔۔۔
انگھوٹھی پہنائی۔۔۔k
ولیمے والے دن ناشتہ۔۔۔
مکلاوہ کھانا دیگیں۔۔۔
بچہ پیدا ہونا پر خرچہ۔۔۔
بیٹی ہے یا سزا ہے کوئی۔۔۔؟

مرد ہو ناں۔۔۔آگے بڑھو۔۔۔کرو یہ سب خرچہ خود۔۔۔اور کرو چار شادیاں۔۔۔!!
سنت کیا صرف چار شادیوں پر ہی یاد ہے۔۔؟
باقی سنتوں پر عقل کام کرنا چھوڑ دیتی ہے کیا۔۔؟

وہ اکثر اس لیے باپ سے فرمائشیں نہیں کرتی تھی کہ پہلے ہی اسکی شادی کا خرچ اور جہیز بناتے بناتے اسکا باپ مقروض ہونے والا تھا۔۔۔!!

منگنی کے بعد اکثر لڑکے والے آتے رہتے تھے اور مہمان نوازی کرتے کرتے اس کی ماں تھک چُکی تھی۔۔۔مگر پھر بھی خالی جیب کے ساتھ مسکراہٹ چہرے پر سجائے ہر آنے والے کو اعلیٰ سے اعلیٰ کھانے کھلاتی اور خوش کر کے بھیجتی تھی

کبھی نند ، کبھی جیٹھانی ، کبھی چاچی ساس تو کبھی مامی ساس۔۔۔ہر رشتے کو یکساں احترام دلانے کے لیے وہ الگ الگ ٹولیوں میں آتے رہتے۔۔۔!!

ایسے میں شام کو اسکے بابا جب گھر آتے تو انکے پاس خاموش بیٹھ کر انکا سر دبانے لگتی ، مانو جیسے باپ کو ہمت دلا رہی ہو یا یہ کہنا چاہ رہی ہو کہ سوری بابا میری وجہ سے آپ قرض لینے پر مجبور ہیں۔۔۔!!

شادی کی تاریخ فکس کرنا ایک تہوار بن چکا ہے، لڑکی والوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کتنے لوگ آئیں گے، انکے کھانے پینے کے علاوہ سب کیلیئے کپڑے خرید کر رکھنے ہوتے ہیں چاہے 5 لوگ ہوں یا 50۔۔۔!!

پھر بارات پر لڑکی کے باپ کو 10 بندے گھیر کر پوچھتے ہیں، جی کتنے بندے آ جائیں۔۔۔؟؟؟ کیا بولے گا وہ۔۔۔؟؟؟

اگر 100 کہے تو جواب ملتا ہے 200 تو ہمارے اپنے رشتہ دار ہیں پھر محلے دار لڑکے کے دوست....!!کچھ نہیں تو 400 افراد تو مجبوراً لانے پڑیں گے ساتھ........!!
اب لڑکی کا باپ کیا کہے۔۔؟ مت لانا۔۔؟ میرے پاس پیسے نہیں ہیں۔۔۔؟؟؟

پھر فرسودہ نظام میں بارات والے دن لڑکی کے ساتھ 2 دیگیں کھانا بھی بھیجنا ہے، جہیز بھی خود بنا کر چھوڑ کر آنا ہے .....!!

لو مسلمان پاکستانیوں....!! یوں ہوتی ہے ایک بیٹی گھر سے رُخصت...!! اب اس کا آگے سسرال میں کیا مول ہوگا، یہ اکثر ہم سنتے ہی رہتے ہیں۔۔۔!!

ہاتھ جوڑ کر التجا ہے 🙏 مت کریں ایسا، توڑ دیں یہ رسمیں جن سے ایک باپ توبہ کرے کہ اسکو بیٹی نہ پیدا ہو....😥

چھوڑ دیں یہ ہندوانہ رسمیں کہ بیٹیاں ماں باپ کی غربت دیکھ کر اپنی شادی کا خیال ہی دل سے نکال دیں....!!

اپنے بیٹے کیلیئے سادگی سے نکاح کر کے بہو لا کر دیکھیں، اپنی بیٹی بھی یونہی سادگی سے رخصت کرکے دیکھیں، سکون ملے گا...!!
اور آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ بیٹیاں حضرت فاطمہ (رض) جتنی لاڈلی نہیں ہیں، نا یہ بیٹے حضرت علی(رض) جتنے محترم....!!

آنے والی نسل کہ زندگی آسان بنا دو یارو۔۔۔!! 🙏
لڑکوں سے کہتاہوں 🙏 جہیز مت لینا۔۔۔!!

اپنی ہونے والی بیٹی پر ترس کھانا جو کل کو تمہارے خراب حالات سے اتنی ہی پریشان ہوسکتی ہے جتنی آج تمہاری ہونے والی بیوی پریشان ہے....!!

اللہ نے تمہیں مرد پیدا کیا ہے،
کما کر اپنی بیوی کو خوشیاں خرید کر دینا......!!

آپ کا ایک سیکنڈ اس تحریر کو دوسرے گروپوں تک پہنچانے کا زریعہ ہے
10 یا 15 گرپوں میں شیئر کریں
میری آپ سے عاجزانہ اپیل ہے کہ لاحاصل اور بے مقصد پوسٹس ہم سب شیئر یا کاپی کرتے ہیں۔۔۔!!
آج اپنے معاشرے کا یہ تلخ پہلو کیوں نہ شیئر کریں۔۔۔؟

14/08/2023

دنیا کی ٹاپ 10سیاسی جماعتیں
میری بات/روہیل اکبر
پاکستان میں اس وقت الیکشن کمیشن کے پاس 168سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جنہیں انتخابی نشانات الاٹ ہو چکے ہیں لسٹ میں پہلے نمبرپر عام آدمی تحریک سے لیکر آخری نمبر کی پارٹی جدید عوامی پارٹی تک کتنی پارٹیاں ہونگی جنکے نام سے لوگ واقف ہونگے سوائے چند ایک کے باقی پارٹیوں کے لوگ بھی اپنی اپنی جگہ محنت کرتے ہیں لیکن عوام میں شناسائی نہیں ہوپاتی اسکی وجہ ایک تو سرمائے کی کمی اور دوسری اسٹبلشمنٹ سے رابطوں کا فقدان ہے جبکہ تیسری اور آخری بات یہ ہے کہ انکے پاس امیدوار ہی نہیں ہوتے اگر ہوں بھی تو وہ خرچ کرنے والے نہیں ہوتے جسکی وجہ سے سرمایہ دار لوگ اوپر آجاتے ہیں ان لوگوں کے اوپر آنے سے غریب طبقہ مزید پس جاتا ہے کہنے کو تو پاکستان میں جمہوریت ہے لیکن اس جمہوریت کی آڑ میں آمریت ہم پر مسلط ہے پی ڈی ایم اپنی باری لینے کے بعد اقتدار سے فارغ ہوگئی ہے پی ڈی ایم مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا مجموعہ تھا یوں پاکستان میں ایک کثیر الجماعتی جمہوریت رہی 1990 تک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) پاکستان کی واحد بڑی جماعت تھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھال لیا 1990 میں اسلامی جمہوری اتحاد (IJI) کے نواز شریف نے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اس وقت پاکستان میں دو بڑی جماعتیں تھیں IJI تحلیل ہونے کے بعد نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بنیاد رکھی 1993 میں پیپلز پارٹی دوبارہ الیکشن جیت گئی 1996 میں پاکستان تحریک انصاف کا قیام عمل میں آیا 2013 میں، پی ٹی آئی نے انتخابات میں حصہ لیا اور پاکستان کی قومی اسمبلی کی 35 نشستیں جیتیں 2018 کے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت بنی اور پاکستان کی تین بڑی جماعتوں میں سے ایک بن گئی اس وقت ملک میں بہت سی غیر رجسٹرڈ جماعتیں بھی ہیں ماضی میں کئی بار ملک میں مخلوط حکومت بھی رہی ہے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو اقتدار بھی ملا وہ بھی بلا شرکت غیرے لیکن ان جماعتوں نے عوام کو خوشحال کرنے کی بجائے اپنے آپ کو ہی خوشحال کرلیا دنیا بھر میں جائیدادیں بنا لی اور پاکستانیوں کو اپنے ہی گھروں سے بے گھر کردیا پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ختم کرنے سے پہلے پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے مہنگائی کے خلاف اسلام آباد پر چڑھائی کی پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لانگ مارچ کیا اور ن لیگ نے اندر کھاتے ڈیلیں کی عوام کو سب باغ دکھائے گئے اور آخر کار پی ڈی ایم کی سرکار بن گئی جسکے بعد انہوں نے وہی کھیل کھیلا جو پیپلز پارٹی اور ن لیگ آپس میں کھیلا کرتے تھے شہباز شریف ہر تقریر میں آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں کرتے ایک دوسرے کے پیٹ پھاڑ کر لوٹی دولت نکالنے کی باتیں کرتے اور علی بابا چالیس چور وں کا ٹولہ کہا کرتے وہی کام انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد شروع کردیا عمران خان پر حملے ہوئے کارکنان کو پکڑا گیا لیڈروں کے ضمیر تبدیل کروائے گئے اور پھر عمران خان کو اٹک جیل میں بند کردیا وہ بھی توشہ خانہ کی گھڑی کے کیس میں اب توشہ خانہ کا کیس لاہور ہائیکورٹ میں بھی شروع ہوگیا ہے بہت سے افراد جن میں میاں نواز شریف،میاں شہباز شریف اورآصف علی زرداری درجنوں افراد ہیں اب بھگتیں گے اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اور بھی بہت سے رازوں سے پردہ اٹھے گا پی ڈی ایم نے عمران خان اور اسکی پارٹی کو جتنا دیوار سے لگانے کی کوشش کی وہ اتنی ہی زیادہ مقبول جماعت بنتی گئی پشاور کا الیکشن سب کے سامنے ہے او ر تو اور آپ ذرا ورلڈ آف اسٹیٹسکس نامی ادارے کی رپورٹ ملاحظہ فرمالیں جس نے دنیا کی بڑی سیاسی جماعتوں کی فہرست شائع کی ہے جس میں پی ٹی آئی 10بڑی جماعتوں کی فہرست میں شامل ہے اس لسٹ میں پاکستان کی صرف ایک سیاسی جماعت پی ٹی آئی کا نام شامل ہے اور وہ اس فہرست میں دسویں نمبر پر ہے ورلڈ آف اسٹیٹکس کی جانب سے یہ درجہ بندی سیاسی جماعتوں کے رجسٹرڈ کارکنوں کی تعداد کی بنیاد پر کی گئی ہے اور سر فہرست 10سیاسی جماعتوں میں 4کا تعلق بھارت، 2کا تعلق امریکا سے ہے جب کہ چین، پاکستان، ترکیہ اور ایتھوپیا کی ایک ایک سیاسی جماعت شامل ہے اس فہرست کے مطابق دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پڑوسی ملک کی حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی ہے جس کے کارکنوں کی تعداد 180ملین ہے دنیا کی دوسری بڑی سیاسی جماعت چین کی چائنا کمیونسٹ پارٹی ہے جس کے پارٹی کارکنوں کی تعداد 98.04ملین ہے تیسرے نمبر پر بھی بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت انڈین نیشنل کانگریس براجمان ہے جس کے کارکنوں کی تعداد 50ملین ہے امریکا کی موجودہ حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی دنیا کی چوتھی بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے کارکنوں کی تعداد 47.13ملین سابق امریکی صدر ٹرمپ کی جماعت ری پبلیکن پارٹی 36.01ملین پارٹی کارکنوں کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے بھارتی ریاست تامل ناڈو کی جماعت آل انڈیا انا دراوڈا منیٹرا کژاگم اس فہرست میں چھٹے نمبر پر ہے جس کے پارٹی ورکرز 16 ملین ہیں ترکی کی حکمران جماعت اے کے پارٹی 11.24ملین پارٹی ورکرز کے ساتھ دنیا کی ساتویں بڑی جماعت ہے افریقی ملک ایتھوپیا میں 2019میں تشکیل دی گئی پراسپیرٹی پارٹی(خوشحالی پارٹی)اپنے عوامی منشور کے باعث اتنی مقبولیت حاصل کرچکی ہے کہ چار سال میں 11ملین پارٹی کارکنوں کے ساتھ یہ دنیا کی آٹھویں بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہے نویں نمبر پر بھارتی دارالحکومت دہلی کی ریاستی حکمران جماعت عام آدمی پارٹی ہے جس کے پارٹی کارکنان کی تعداد 10.5ملین ہے جب کہ دسویں نمبر پر پاکستان کی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف ہے جسکے کارکن آجکل حکومتی تشدد کا شکار ہیں اور اسکے کارکنوں کی تعداد 10ملین سے زائد ہے۔
(تحریر۔روہیل اکبر00923004821200)

Address

Kotli. Azad Jammu And Kashmir

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Malik Allah Ditta Aashi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Malik Allah Ditta Aashi:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share