Kahani TV

Kahani TV Kahani TV focuses on inspirational, motivational speeches, Informational videos and many more for education as well as entertainment

10/04/2024
13/07/2023
*عزتِ نفس کی بہترین شکل وہ خاموشی ہے جو آپ عین ایسے وقت میں اختیار کرتے ہیں جب لوگ آپ سے دھماکہ خیز کلام کی اُمید کر رہے...
10/07/2023

*عزتِ نفس کی بہترین شکل وہ خاموشی ہے جو آپ عین ایسے وقت میں اختیار کرتے ہیں جب لوگ آپ سے دھماکہ خیز کلام کی اُمید کر رہے ہوں۔۔۔*

10/07/2023

اپنی سوچ کو صاف رکھو کیونکہ
جس طرح پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے
اسی طرح صاف سوچ سے ایمان بنتا ہے

کیا اسلام خواتین کے لیے محفوظ ہے؟جب بھی سڑکوں پہ چلتی پھرتی بے پردہ اور دوپٹے کو رسی کی طرح گلے میں لٹکائے خواتین کو دیک...
06/07/2023

کیا اسلام خواتین کے لیے محفوظ ہے؟
جب بھی سڑکوں پہ چلتی پھرتی بے پردہ اور دوپٹے کو رسی کی طرح گلے میں لٹکائے خواتین کو دیکھتی ہوں تو ان کی معصوم سی صورتوں پر جمی مصنوعی خوشی مجھے بہت کچھ کہتے کہتے خاموش کر دیتی ھے۔ سوچتی ہوں شائد یہ میری طرح دقیانوسی نہیں۔

ہینڈ بیگ میں محفوظ ان کے کاغذی نوٹ کتنے قیمتی ہیں؟ اس کا اندازاہ ان کی اپنے بیگز کی حفاظت میں رکھی مضبوط گرفت سے ہو رہا ہوتا ھے۔ وہ قیمتی زیور جو ان کی الماری ( یا اپنی سوچی ہوئی کوئی خفیہ جگہ ) کے کسی نہ نظر آنے والے گوشے میں محفوط ہوتے ہیں کیا وہ اپنی ذات ان زیورات سے بھی ارزاں سمجھ رہی ہیں۔

حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ھے۔
"دنیا ساری کی ساری مال و متاع بے اور سب سے مہنگی چیز دنیا میں نیک اور صالحہ عورت ھے"
دور جاہلیت جس میں بیٹیوں کی پیدائش پہ سر شرم سے جھک جاتے تھے۔ جہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا جی ہاں وہی دور جاہلیت ھے جس میں باپ کے مرنے کے بعد بیٹا ماں سے شادی کر لیتا تھا۔
اسلام نے جاہلیت کے تمام بت توڑ ڈالے۔

عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی وغیرہ کے نام پر وہ مضبوط قلعے دئے جن قلعوں کے اندر وہ محفوظ اعلی رتبوں پہ فائز نظر آتی ھے۔ کسی ایک رشتے کی کمی کی صورت میں باقی رشتے باپ،بیٹے،بھائی، شوہر، چچا یا ماموں کی سرپرستی کی شکل میں اس کی زندگی میں آنے والی مشکلات کے آگے دیوار بن کر کھڑے ہوتے ہیں۔

لیکن آج یہی مضبوط قلعے خواتین کو جیل خانے معلوم ہوتے ہیں۔ کہیں وہ میرا جسم میری مرضی کی گردان دہراتی نظر آتی ہے تو کہیں وہ مکمل لباس اور پردے کی حفاظت کو اپنے لئے پابندی کا نام دے کر آزادی کا نعرہ لگاتی دکھائی دیتی ھے۔

وہ ان سب کو دقیانوسیت قرار دے کر دوبارہ اسی جاہلیت کے دور میں جا رہی ھے اور ان سب کو وہ لبرلزم کا نام دے کر نہ صرف اپنے آپ کو دھوکا دے رہی ھے بلکہ دوسروں کی آنکھوں میں بھی دھول جھونکنا چاہتی ھے۔

شاعر نے شائد انہی حالات کو دیکھتے ہوئے یہ شعر کہہ ڈالا
سڑکوں پہ ناچتی ہیں کنیزیں بتول کی
اور تالیاں بجاتی ھے امت رسول کی

لیکن مجھے شاعر کی بات سے اتفاق نہیں۔ کیونکہ جو خواتین بھی یہ سب کر رہی ہیں وہ دین اسلام سے واقف نہیں۔

میں تو اپنے دین کی تاریخ میں ایسی خواتین کو جانتی ہوں کہ جن کی شرم وحیا کبھی میدان جہاد میں بھی کم نہ ہوئی تھی۔

ہمارے دین میں تو ام المؤمنین حضرت خدیجتہ الکبریٰ رضی اللّٰہ عنہا جیسی عظیم خاتون کی مثال ھے کہ جنہیں خود اللّٰہ تعالیٰ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سلام بھیج رہا ھے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا کی مثال کہ جنہیں حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے ذریعے سلام کہہ رہے ہیں۔

ان صحابیہ کی مثال کہ جب وہ اپنے بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر میدانِ جہاد میں پہنچتی ہیں تو کسی نے کہا کہ بیٹے کی شہادت کی خبر سن کر بھی پردے میں آئی ہو تو انہوں نے فرمایا کہ بیٹا شہید ہوا ھے حیا تو شہید نہیں ہوئی۔

یہاں میں حیا پر چند احادیث مبارکہ پیش کروں گی۔
1) حیا صرف خیر ھے۔
2) حیا اور ایمان کو ایک جگہ رکھا گیا ھے (یعنی ایک دوسرے سے وابستہ ہیں) ان میں سے جب ایک کو اٹھایا جاتا ھے تو دوسرا بھی اٹھا لیا جاتا ھے۔
3) جب تو نے شرم کو اٹھا کر رکھ دیا تو اب جو دل چاہے کر۔

عورت کا مقام ومرتبہ ہی تو ھے کہ جب خولہ بنت حکیم رضی اللّٰہ عنہا ظہار (شوہر کا بیوی کو ماں کہہ دینا) کا معاملہ لے کر حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لاتی ہیں۔ آپ اپنی شکایت کا ذکر حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے سامنے آہستہ آہستہ بیان فرما رہی تھیں کہ پاس موجود حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا بھی نہ سن پائیں مگر اللّٰہ تعالیٰ نے فوراً جبرائیل علیہ السلام کو حضرت خولہ بنت حکیم کی دلی کیفیت کےپیش نظر یہ آیات (احکام کی شکل میں ) دے کر بھیج دیا۔

یقیناً اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی بات سنی جو تجھ سے اپنے شوہر کے بارے میں تکرار کر رہی تھی اور اللہ کے آگے شکایت کر رہی تھی، اللہ تعالیٰ تم دونوں کے سوال وجواب سن رہا تھا، بیشک اللہ تعالیٰ سننے
دیکھنے واﻻ ہے۔

سورةالمجادلة آیت 01
تم میں سے جو لوگ اپنی بیویوں سے ﻇہار کرتے ہیں (یعنی انہیں ماں کہہ بیٹھتے ہیں) وه دراصل ان کی مائیں نہیں بن جاتیں، ان کی مائیں تو وہی ہیں جن کے بطن سے وه پیدا ہوئے، یقیناً یہ لوگ ایک نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں۔ بیشک اللہ تعالیٰ معاف کرنے واﻻ اور بخشنے واﻻ ہے.

سورةالمجادلة آیت 02

دعا ھے کہ اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو دین اسلام کی سمجھ دے اور اپنا اصل مقام ومرتبہ پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین
Copied

👉Kahani TV

06/07/2023

ایک کہانی ایک سبق
تحریر : نامعلوم

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک تفریحی بحری جہاز سمندر میں حادثے کا شکار ہو گیا، جہاز پر ایک میاں بیوی کا جوڑا بھی سوار تھا، لائف بوٹ کی طرف جانے کے بعد انہیں احساس ہوا کہ اس میں صرف ایک شخص کی گنجائش باقی ہے۔
اس وقت اس شخص نے عورت کو اپنے پیچھے دھکیل دیا اور خود لائف بوٹ پر چھلانگ لگا دی۔
خاتون نے ڈوبتے ہوئے جہاز پر کھڑے ہو کر اپنے شوہر سے ایک جملہ کہا۔
یہاں استانی نے توقف کیا اور پوچھا، "آپ لوگوں کا کیا خیال ہے کہ وہ کیا بات چلائی تھی؟"
زیادہ تر طلباء نے پرجوش ہو کر جواب دیا، "میں تم سے نفرت کرتی ہوں! میں اب تک اندھی تھی!"
اب استانی نے ایک لڑکے کو دیکھا جو اس تما تر قصے کے دوران خاموش رہا تھا، استانی نے اسے جواب دینے کے لیے کہا اور اس نے جواب دیا، "استانی صاحبہ، مجھے یقین ہے کہ وہ چیخی ہوگی - "ہمارے بچے کا خیال رکھنا!"
استانی نے حیرانی سے پوچھا کیا تم نے یہ کہانی پہلے سنی ہوئی ہے؟
لڑکے نے سر ہلایا، "نہیں، لیکن یہ بات میری ماں نے میرے والد کو بیماری سے مرنے سے پہلے بتائی تھی"۔
استانی نے افسوس کرتے ہوئے کہا، "جواب صحیح ہے"۔
تفریحی بحری جہاز ڈوب گیا، وہ شخص بخیریت گھر پہنچ گیا اور اپنی بیٹی کو تن تنہا ہی پالا۔
اس شخص کی موت کے کئی سال بعد، ان کی بیٹی کو اپنا سامان صاف کرتے ہوئے اس کی ایک ڈائری ملی۔
اس ڈائری سے یہ راز آشکار ہوتا ہے کہ جب اس کے والدین تفریحی جہاز پر گئے تھے، تو ماں کو پہلے سے ہی ایک لاعلاج بیماری کی تشخیص کی گئی تھی.
اس نازک لمحے میں، باپ زندہ بچ جانے کے واحد موقع سے فایدہ اٹھا کر بھاگ نکلا۔
اس نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا، "میری کس قدر تمنا تھی کہ تمہارے ساتھ سمندر کی تہہ میں ڈوب مروں، لیکن اپنی بیٹی کی خاطر میں تمہیں ہمیشہ کے لیے سمندر کی گہرائیوں میں اکیلا رہنے کے لیے چھوڑ آیا ہوں"۔
کہانی ختم ہوئی، کلاس میں خاموشی چھا گئی۔
استانی جانتی ہے کہ طلباء کہانی کے اخلاقی سبق کو سمجھ چکے ہیں کہ دنیا میں اچھائی اور برائی کا وجود ہے، لیکن ان کے پیچھے بہت سی پیچیدگیاں ہیں جن کو سمجھنا مشکل ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہمیں کبھی بھی صرف سطحی حالات پر توجہ نہیں دینی چاہئے اور دوسروں کو پہلے سمجھے بغیر فیصلہ صادر نہیں کرنا چاہئے۔
جو لوگ بل ادا کرنا پسند کرتے ہیں، وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ دولت مند ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ دوستی کو پیسے پر ترجیح دیتے ہیں۔
جو لوگ کام میں پہل کرتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ بیوقوف ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ ذمہ داری کے تصور کو سمجھتے ہیں۔
جو لوگ جھگڑے کے بعد پہلے معافی مانگتے ہیں وہ اس لیے نہیں کرتے کہ وہ غلط ہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اپنے اردگرد کے لوگوں کی قدر کرتے ہیں۔
جو لوگ آپ کی مدد کرنے کو تیار ہیں، ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ وہ آپ کی کسی بھی چیز کے مقروض ہیں بلکہ اس لیے کہ وہ آپ کو ایک سچے دوست کے طور پر اہمیت دیتے ہیں۔
جو لوگ اکثر آپ کو میسج کرتے ہیں، ایسا اس لیے نہیں کرتے کہ ان کے پاس کرنے کے لیے کچھ بہتر کام نہیں ہے بلکہ اس لیے کہ آپ ان کے دل میں بستے ہیں۔
ایک دن ہم سب ایک دوسرے سے بچھڑ جائیں گے۔ ہم ہر موضوع اور کوئی بھی موضوع نہ ہونے کے بارے میں ہماری گفتگو کو یاد کریں گے۔اور ان خوابوں کو جو ہم نے مل کر دیکھے تھے۔ دن، مہینے، سال گزرتے جائیں گے، یہاں تک کہ یہ رابطہ نایاب ہو جائے گا... ایک دن ہمارے بچے ہماری تصویریں دیکھیں گے اور پوچھیں گے کہ یہ کون لوگ ہیں؟ اور ہم پوشیدہ آنسوؤں کے ساتھ مسکرائیں گے کیونکہ ایک مضبوط لفظ دل کو چھو لیتا ہے اور آپ کہیں گے: 'یہ وہی تھے جن کے ساتھ میں نے اپنی زندگی کے بہترین دن گزارے دعاؤں میں یاد رکھنااپکا پیارا دوست عدیل عباس....
👉 Kahani TV

04/07/2023

شیخ صاحب منبر پر چڑھے، مائیک تھاما اور سامعین کو مخاطب کرتے ہوئے صبر و استقامت کی تلقین اور اسراف نہ کرنے کے متعلق وعظ کرنے لگے.

حاضرین میں موجود ایک خاکروب بھی تھا، وہ اپنی جگہ پر کھڑا ہوا اور کچھ کہنے ہی لگا تھا کہ حاضرینِ مجلس نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ دوران خطبہ اپنی حاجت نہیں پیش کی جاتی، صبر کرو، وعظ مکمل ہو لینے دو۔

خاکروب کہنے لگا کہ وہ عرصہ دراز سے محترم شیخ کی اقتدا کر رہا ہے لہذا اسے بولنے دیا جائے۔ کیوں کہ اس سے بہتر موقع میسر ہونا مشکل ہے.

خاکروب نے اجازت کا اشارہ پاتے ہی کہنا شروع کردیا:

جناب شیخ: آپ ابھی ابھی لگژری گاڑی سے اترے، عمدہ ترین لباس زیب تن کیے، اور پوری مجلس کو معطر کردینے والی خوشبو میں رچے بسے یہاں تشریف لائے۔ آپ کے ہاتھ میں چار انگوٹھیاں ہیں، ہر انگوٹھی کی قیمت میری تنخواہ کے برابر ہے، اور آپ کا فون آئی فون ہے۔ ہر سال آپ عمرے کی ادائیگی کے لیے سفر کرتے ہیں.

شیخ صاحب! ایک دن میرے ساتھ میرے کمرے میں چلیں جس کی چھت لوہے کی چادروں سے بنی ہوئی ہے، میری خواہش ہےکہ آپ وہاں ایک رات میرے ساتھ قیام کریں، اور ایئر کنڈیشن کے بغیر سوئیں .. پھر آپ تہجد کے وقت اٹھ کر بھوکے پیٹ میرے ساتھ کام کے لیے نکلیں، میرے ساتھ اس شدید گرمی میں شاہراہوں کو صاف کرنے کے لیے جھاڑو لگائیں، تاکہ آپ کو صبر اور روزے کا حقیقی مطلب معلوم ہوجائے. میں یہی کام ہر روز بلا ناغہ کرتا ہوں تاکہ مہینے کے آخر میں تھوڑی سی رقم مل سکے جو آپ کی خریدی ہوئی عطر کی شیشی کی قیمت کے برابر بھی نہیں ہوتی..!

معاف کیجیے جناب! ہمیں صبر سیکھنے کی ضرورت نہیں کیونکہ یہ تو ہمارا روز اول سے رفیق ہے. بلکہ اس منبر کا تقاضا ہے کہ آپ، سفید لبادوں میں ملبوس کاروباری حضرات کے ظلم و ستم اور اہل علم و دانش کی منافقت کے بارے میں کھل کر بیان کریں ...
بے روزگاری اور بھوک کے بارے میں بتائیں، جو معاشرے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ہوئی ہے. مظلوم لوگوں کے استحصال اور غریب کی فاقہ کشی کی بارے میں بتائیں کہ ان کے لیے اہل ثروت کے پاس کیا پالیسی ہے. کرپشن اور عوام کے پیسے کی لوٹ مار کے بارے میں بتائیں. ہمیں طبقاتی تقسیم اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم میں انصاف کی عدم موجودگی کے بارے میں بتائیں. ہمیں اقربا پروری، موروثیت، اور اپنے کرم فرماؤں کو نوازنے کے بارے میں بتائیں. ورنہ ہمیں آپ کے عمل سے خالی وعظ کی مزید ضرورت نہیں ہے!

ایک عربی بلاگ کا اردو قالب۔
Copied Kahani TV

Address

Cyber Graphics Badwan

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Kahani TV posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Kahani TV:

Videos

Shortcuts

  • Address
  • Telephone
  • Alerts
  • Contact The Business
  • Videos
  • Claim ownership or report listing
  • Want your business to be the top-listed Media Company?

Share