24/01/2024
سربراہ / عبداللہ بن زبیر
“انکل ! میری امی بیمار ہیں ان کے لئے دوائی لینی ہے
پلیز تھوڑی سی برفی لے لیں نا “
“اوکے بیٹا کتنے کی دو گے یہ سب ؟؟”
“ایک سو پچاس روپے کی ____اور مجھے پچیس روپے ملیں گے”
“روزانہ چار پانچ تھالی بیچ لیتا ہوں “
“ یہ کہاں سے لے کے آتے ہو ؟ “
“وہ مٹھائی والے انکل سے “
“ بیٹا آپ سکول نہیں جاتے ؟ “
“ جب پاپا تھے اس وقت جاتا تھا اب میں بڑا ہوگیا ہوں نا اس لئے نہیں جاتا “
“ تم ابھی بہت چھوٹے ہو کس نے کہا بڑے ہوگئے ہو ؟”
“مما کہتی ہیں اب بڑے ہوگئے ہو کیونکہ رابی اور عاشی مجھ سے چھوٹی ہیں “
“ بیٹا رابی عاشی کون ہیں ؟ “
“میری بہنیں ہیں نا “
“اچھا یہ ہونٹ پہ کیا لگا ہے ؟ تھوڑی بلیڈنگ ہو رہی ہے “
“انکل ! وہ نا ادھر ( ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے ) کچھ لڑکے کھڑے ہوئے تھے مجھ سے ایک تھالی برفی کی لی ، پیسے بھی نہیں دئیے جب پیسے مانگے تو مجھے مارا انہوں نے “
“ اچھا انکل برفی لے لیں نا ۔۔۔”
“بیٹا ! اس قدر سردی ہے چلو تمہیں بند شوز لے دیتا ہوں “
“ نہیں ! مما کہتی ہیں کسی سے کوئی چیز نہیں لیتے ، انہوں نے کہا تھا جمعہ کے دن لے دوں گی “
انکل یہ موبائل میں کیا کر رہے ہو ؟ میری ویڈیو نہیں بنانا مجھے اچھا بھی نہیں لگتا میرا منہ میلا ہوگیا ہے نا صابن سے دھو لوں گا فِر ویڈیو بنانا “
“اچھا انکل برفی لے لیں نا پلیز ۔۔”
گھر کے اس سربراہ کو عقیدت بھرا سلام
اور معاشرے کے غلیظ اور بد بودار چہرے پر ایک زناٹے دار تھپڑ