20/06/2024
آہ نصف صدی بیت گئی، تربیلہ جھیل تجھے ! (آرٹیکل-9)
تحریر: محمد آصف خان
جولائی 1974ء کا دوسرا ہفتہ تھا۔ دریائے سندھ گرمی کے موسم میں اپنے جوبن پر تھا۔ اچانک اسے روک دیا گیا۔ نتیجتاً تربیلہ جھیل میں پانی بھرنا شروع ہو گیا۔ متاثرین تربیلہ ڈیم انخلاء کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے کہ متبادل آباد کاری کا بندوبست ہونا تھا۔
اچانک پانی چڑھ دوڑا اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ڈوب گیا۔ تینوں بہتے دریا دوڑ، سرن اور سندھ جھیل کی شکل دھارنے لگے۔ چند دنوں میں بستیوں کی بستیاں ڈوب گئیں:
مساجد، حجرے، سکولز، تھانہ، چوکی، ڈاک بنگلے، کھیل کے میدان، خوبصورت زرعی زمینیں، باغات، جندر، کاروبار، مارکیٹیں، مقامی صنعت، ہوٹل، دکانیں، سڑکیں، پْل، سرسبز و شاداب پہاڑ، معدنیات، جنگلات، بیلے، خوبصورت درے، سیرگاہیں، ندیاں، دریا، آبی راستے، گدر، آبائی قبرستان، خانقاہیں، عیدوں کے میلے، کلچرل کھیل اور کلچر سب کچھ ہی ڈوب گیا۔
رشتے دار، بہین بھائی اور یار بیلی در بدر ہو گئے۔ صدیوں سے اکٹھے بستے لوگ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے علیحدہ ہو گئے۔ بعض تو آج نصف صدی ہو گئی ہے دوبارہ ایک دوسرے کو دیکھ تک نہیں سکے۔ افسوس، کچھ پیاروں کی شکلیں تک بھول گئی ہیں جو بچپن میں ہمارے ساتھ کھیلا کرتے تھے!
چند ہی دنوں میں بستیوں کے بدلے ہر طرف خوف ناک سمندر نما جھیل تھی۔ ارد گرد پہاڑی بستیوں کے سامنے آبادیوں کے بدلے بپھری جھیل تھی۔ ان سے تمام راستے چھن چکے تھے۔ وہ بیچارے تو پھنس کر رہ گئے۔ کوئی میدانی علاقہ, گاؤں، قصبہ، شہر، راستہ بچا نہ کوئی سڑک کہ وہ کہیں رسائی کریں۔ اف اف کیا کرب تھا۔
خوش خوشحال بستے عوام جولائی 1974 میں اچانک انٹرنل ڈسپلیسڈ پرسن (IDPs) بن گئے۔ جو ایک دن پہلے اپنے گھروں اور خاندانی علاقوں میں آباد تھے وہ اگلے دن بے گھر تھے۔ مال مویشی کوڑیوں کے بھاؤ فروخت ہوئے۔ کیا کرتے اپنے بچوں کو سنبھالتے یا مال مویشی!
خیر، جن آنکھوں نے اس جنت نظیر دریاؤں سے بھری سر سبز وادیوں کے یہ خوبصورت مناظر دیکھ رکھے تھے وہ ابدی نیند سو چکے ہیں البتہ چند جنھوں نے بچپن اور لڑکپن میں یہ جنت نظیر وادیاں دیکھ رکھی ہیں بچے ہیں اور یہ آنکھیں بھی ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔
ایک ہفتہ بعد جولائی 2024، تربیلہ جھیل کی عمر نصف صدی ہو جائے گی مگر متاثرین تربیلہ ڈیم کو متبادل اراضی اور پلاٹوں کا ابھی تک بندوبست نہ ہو سکا۔ بیچارے اپنے بچوں کے لیے پانچ مرلہ رہائشی مکان کی جگہ کے لیے محتاج ہیں۔ ڈیم نہ ہوتا تو یہ محتاجی تو نہ ہوتی! خیر۔۔۔
ماسٹر پلان کے مطابق دس سال بعد چھپر روڈ اور تربیلہ غازی سری کوٹ روڈ تو بنے مگر رائیٹ بنک پر آج تک کوئی سڑک نہ بن سکی اور جھیل پار پھنسے ہوئے عوام آج تک مائیگریشن کرتے چلے آ رہے ہیں۔
ملک عزیز کی ترقی و خوشحالی کے لیے متاثرین نے قربانیاں دیں مگر اپنا کچھ نہ بچا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
اسماعیل برگوی کے اشعار جو انھوں نے کمنٹ میں بھیجے ہیں۔
مہابن، تیری فلک بوس چوٹیوں نے کیا خوب نظارہ ہے
تیرے دامن میں دریائے سندھ کا بہتا دھارا ہے
بتا دے تربیلہ جھیل بارے جو تو ہے جانتا
جان جائے ہر وہ جو نہیں جانتا !