11/12/2024
مدارس رجسٹریشن اور حکومتی چال:
مدارس رجسٹریشن کا معاملہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے جس کے لیے ہر دور میں حکومت کےساتھ مفاہمتی سلسلے چلتے رہے ہیں اور اہلیان مدارس نے ہمیشہ مثبت انداز میں ریاستی اداروں کے ساتھ گفتگو کی ہیں تاکہ مدارس دینیہ جو نظریہ پاکستان یعنی اسلام اور اسلامی تعلیمات کے محافظ اور پاسبان ہیں اس کے قانونی مسائل حل ہواور مدارس دینیہ یکسوئی کے ساتھ قرآن وسنت کی تعلیم کو جاری رکھ سکیں لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ روز اول سے مذہب اور مذہبی تعلیم ارباب اختیار کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے، بلکہ ستم بالائے ستم یہ کہ بیرونی دباو کی وجہ سے دینی مدارس کے ساتھ حکمرانوں کا رویہ غیر منصفانہ اور معاندانہ رہا ہے۔
حکمرانوں کا سمت قبلہ پوری قوم کو معلوم ہے کہ وہ مغرب اور سفید محل والوں کی خوشنودی کی خاطر ہمیشہ مذہبی تنظیموں، مذہبی جماعتوں، دینی مدارس کو تختہ مشق بنائے رکھتے ہیں۔ اہلیان مدارس جنہوں نے خون جگر سے ان مراکز کو آباد رکھا ہیں اور قوم کے نوجوانوں کو مکمل مفت تعلیم فراہم کر رہے ہیں، ان کی سب سے بنیادی ترجیح یہی ہے کہ فقہ وفتوی منبر ومحراب کو حکمرانوں کے تسلط سے بچا سکیں، یہ وہ مناصب ہیں جب آزاد رہتے ہیں تو قوم کو حکمرانوں کے صحیح وغلط سے آگاہ کرتے ہیں اور قوم کو قرآن وسنت کی روشنی میں درست سمت کی رہنمائی کرتے ہیں۔ اور جب یہ علماء کی نگرانی سے نکل کر حکمرانوں کے زیر اثر ہوجاتے ہیں تو پھر وہاں سے رسمی لکھے ہوئے خطبے اور حکمرانوں کے قصیدے وترانے سنائے جاتے ہیں۔
یہی وہ بنیادی وجہ کہ تمام مکاتب فکر کے دینی مدارس کے بورڈز نے ایگزیکٹیو آڈر کے تحت وزرات تعلیم سے منسلک ہونے کے بجائے ، سوسائٹی ایکٹ کے شق نمبر 21 کے تحت رجسٹریشن کو قبول کیا ہے، جس میں ان کو عوامی سطح پر فنڈنگ میں سہولت بھی حاصل رہتی ہے، اور ان کی آزادانہ حیثیت برقرار رہتی ہے، جبکہ وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونے کی صورت میں ان کی خود مختاری متاثر ہوگی اور ان کا نصاب تعلیم اور نظام تعلیم حکمرانوں کے زیر کنٹرول آئے گا، مغربی آقاؤں کی یہی خواہش ہے کہ ان مدارس کو قابو کیا جائے جو عالمی مغربی تہذیب کے راستے میں بڑی روکاوٹ ہے ۔
ان وجوہات کی بناء پر تمام مکاتب فکر کے چوٹی کے علماء مدارس کے بورڈز نے یہی مطالبہ رکھا ہے کہ وہ مدارس کو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کریں۔
ماضی قریب میں دینی مدارس کے ان قد آور مشائخ اور علماء کو حکمرانوں نے بہت قابو کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں ان کو ناکامی کا سامنا رہا جس کی وجہ سے انہوں نے یہ چال چلی کہ درجنوں بورڈ قائم کرکے اپنے ہم نوا علماء کو سونپ دی تاکہ عددی اکثریت کی بنیاد پر ان کے معاملات کو مینج کیا جاسکے، اور حکومتی مدعا کو ان کے زبان سے قوم کے سامنے رکھوا سکے۔
پہلے تمام مکاتب فکر کےتمام علماء ایک پیج پر نظر آتے تھے اور حکمران دوسری طرف جبکہ کل ہم نے وہ منظر دیکھا کہ ان علماء کی وحدت و ا تفاق کو پارہ پارہ کیا گیا، اب ایک طرف ملک کے وہ عظیم الشان اکابر اور دوسری طرف انہی مکاتب فکر میں سے چند علماء حکمرانوں کے ساتھ بیٹھ کر الگ موقف دے رہے تھے۔ ہمارے بڑوں نے آگاہ کیا تھا کہ ہمیں تقسیم کیا جارہا ہے، علماء کو آپس میں مد مقابل کیا جا رہا ہے، یہ لوگ مدارس کے بہی خواہ نہیں ہیں، بلکہ یہ مختلف تعلیمی بورڈ بنا کر ہمارے اتفاق کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ اور وہی ہو رہا ہے۔ اب ذہن میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ علماء اتنے سادہ ہیں کہ وہ ارباب اختیار کے ان چالوں کو نہیں سمجھ رہے ہیں یا وہ دانستہ طور پر اس عمل میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں؟ اس سوال کا جواب ہم قوم کی اجتماعی دانست پر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان علماء سے ہماری گزارش ہے اب بھی وقت ہے اپنے عمل پر نظر ثانی کریں اور اس دانستہ یا نا دانستہ عمل سے رجوع کرلیں اور اپنے اکابر واساتذہ کی طرف لوٹ جائیں وحدت اور اتفاق کے ساتھ آگے بڑھیں۔ اللہ تعالی ہمیں صحیح اور غلط کی پہچان عطا فرمائیں۔
مفتی محمد عمران اسلام آباد