پرانے دوست خاص کر جب کلاس فیلوز ملتے ہیں تو ایسے لگتا ہے جیسے بندہ بیٹری کی طرح فل چارج ہوا ہو۔پروفیسر حافظ احسان الحق، ڈاکٹر احترام شبیر صاحب 50 سے 46 سال پہلے ہم کلاس فیلوز رہے۔لیکن عمر کے لحاظ سے میں دونوں سے دو تین سال بڑا ۔
پروفیسر اعجاز کھیتران صاحب کے ساتھ مل کر ہم نے پچاس سال پرانے اپنے واقعات ۔اساتذہ کے قصے، یاد کیئے۔بڑا مزہ آیا۔اور پروگرام بنایا کہ ایک دو روز بعد اپنے اسکول کا بھی دورہ کریں گے جہاں ہم چھٹی سے میٹرک تک زیر تعلیم رہے۔
سبی بلوچستان کا ایک مشہور گاؤں۔مل گشکوری جو کہ میرا آبائی گاؤں ہے۔
شہد کی مکھیاں کبھی بھی نہیں ڈستی ہیں اگر انھیں پیار سے ہاتھ لگایا جائے۔لوگ پیار سے کوبرا سانپ پکڑ لیتے ہیں۔بچھو کی فطر میں ہے ڈسنا لیکن پیار سے وہ بھی نہیں ڈستا۔
ہم پیار مانگتے ہیں دیتے نہیں۔
جو بھی کہتا ہے کہ وہ دم کرتا ہے اسی لیئے مکھیاں اسے نہیں ڈستی بالکل جھوٹ بولتا ہے۔ اس کو میرا چیلنج ہے وہ میرے پاس آئے میں اسے انھی مکھیوں سے جنہیں میں ہاتھ لگا رہا ہوں اس چھوٹے سے جتھے کو چھیڑوں گا پھر وہ دم کر کے ان کو ہاتھ لگا کر دکھائے۔
سبی بلوچستان،کھیل کے میدان۔
سبی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں کا ایک کھلاڑی پاکستان کبڈی ٹیم میں بھی شامل ہے
اپنے مہمان شکاری دوستوں کے ساتھ دیگر ساتھیوں کے انتظار میں ۔
2 نومبر کو ایک وڈیو اپ لوڈ کیا تھا جس میں ملکی صابن دکھایا تھا۔دوستوں نے فرمائش کی کہ اصل جڑی بوٹی بھی دکھاؤں جس سے یہ صابن" کھال یا کھار " تیار ہوتا ہے۔
کھال کے علاوہ اور بھی بہت سے فوائد ہیں ان جڑی بوٹیوں میں۔وڈیو غور سے دیکھیں بڑی معلومات والی وڈیو ہے
سنا ہے کہ کچھ تاجر حضرات لانڑیں کے کونپلز خرید کر چائے کے پتی میں ملا رہے ہیں۔کیونکہ اس کا خوشنما رنگ چائے پتی کو مزید رنگین اور خوش ذائقہ بناتا ہے اور پتی کا وزن بھی بڑھایا جاتا ہے
میں اپنے بہت ہی پیارے دوستوں کیلیے کبھی کبھی ایسی اوُٹ پٹانگ حرکتیں کرتا ہوں۔ اگر پسند آئیں تو صرف دیکھ کر آگے نہ جائیں بلکہ لائیک اور شیئر بھی کریں۔تاکہ زیادہ سے زیادہ دوست دیکھ سکیں۔
نوٹ》 دوستو میں کوئی میکنک یا مستری نہیں ہوں۔صرف آپ دوستوں کو سکھانے کی غرض سے ایسی وڈیوز بناتا ہوں تاکہ ایسی چھوٹی موٹی خرابی کو آپ خود درست کر سکیں۔
Doppelganger of Rajnikanth Mr Rehmatullah Gishkori
صدیوں پرانی بلوچی صابن جو آج بھی رائج ہے۔یہ دو خاص قسم کے خود رو پودوں سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ پودے کاٹ کر ایک ڈھیر کی صورت میں جمع کیئے جاتے ہیں۔خشک ہونے پر ایک درمیانہ گڑھا کھود کر اس کے اوپر تھوڑا تھوڑا کر کے رکھ کر انھیں آگ لگائی جاتی ہے۔ یہ پودا آگ لگنے پر پگھل کر سرخ دھار کی طرح کھڈے میں ٹپکنا شروع کرتا ہے۔سارے پودے جلانے کے بعد کھڈے پر مٹی ڈال کر بند کیا جاتا ہے۔ تین چار دن کے بعد نکال کر بازار میں بیچا جاتا ہے۔جو کپڑے دھونے کے علاوہ نہ معلوم بہت سے دیگر کام بھی آتا ہے۔ آج کل سندھ سے لوگ آتے ہیں اور ٹرک۔مزڈا بھر بھر کر لے جاتے ہیں
اللہ تعالٰی نے کھانے کی چیزوں میں واحد خوراک شہد ہے جسے انسانوں کیلیے شفاء قرار دیا ہے۔ جب دن سخت گرم ہوتے ہیں یا بہت ٹھنڈ پڑتی ہے تو شہد کی مکھیاں پھل پھولوں کے رس چوسنے دور تک نہیں جاتے ہیں۔ اللہ کی بہت بڑی فوج ہے جس قدر ممکن ہو ایسے دنوں میں ان کی خدمت کی جائے
غریب عوام کیلیے دیئے گئے تحفے تحائف بھی سر عام بکتے ہیں۔
کچھ دوست کبھی کبھی ایسا نخرہ دکھاتے ہیں جیسے وہ دوست نہیں بلکہ گرل فرینڈ ہیں۔۔ایسے دوستوں سے بہتر ہے کہ اپنے بچوں کو کھلایا پلایا جائے۔
سردیاں شروع ہوتے ہی کوئٹہ۔پشین۔چمن۔مستونگ وغیرہ سرد علاقوں کے بلوچ پشتون مالدار بھیڑ بکریوں سمیت گرم علاقے سندھ۔کچھی۔نصیر آباد اور سبی کا رخ کرتے ہیں۔ اسی طرح سبی میں پھر مل گشکوری گواران، گشکوری دامانان ان کا پسندیدہ جگہ ہے۔ یہاں بے خوف وخطر نہ صرف مال چرائی کرتے ہیں بلکہ مقامی زمینداروں سے لاکھوں روپوں کے کھڑے فصل خریدتے ہیں۔
ان کو صرف ایک تکلیف ہوتی ہے وہ ہے پانی کا۔ میرے مرحوم بھائی میر مراد بخش نے اپنی زمین پر ایک بہت بڑا تالاب بنوایا تھا۔ دوسرا تالاب میں نے اپنی زمین پر بی این پی مینگل گروپ کے یعقوب گشکوری کے تعاون سے بنوایا تھا۔لیکن یہ تالاب ضرورت پوری کرنے کیلئے کم تھے۔ اسی سیاسی پارٹی پی این پی مینگل گروپ کے تعاون سے ایک اور تالاب گاؤں کے لوگوں کی سہولت کیلیے اپنے گھر کے قریب بنوایا۔
یہ کام تو ان لوگوں کو کرنے چاہیے تھے جن کو ہم گشکوری قبیلہ اکثریتی طور پر ووٹ دیتے ہیں۔
مجھے پشتو نہیں آتی۔دوست کمنٹ کریں میرا پشتو بولنا انھیں کیسے لگا۔
تندرست رہنے کا فارمولا
میرے کچھ عزیز و اقارب میری غیبت کرتے رہتے ہیں جب انھیں میری کوئی برائی نظر نہیں آتی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اتنا بڑا آفیسر ہو کر ویرانوں میں اونٹ اور بکریاں چرانے والے چرواہوں کے ساتھ کیوں ملتا رہتا ہے
میں یہ سمجھتا ہوں کہ منافق رشتہ داروں کے درمیان بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ان بےضرر قسم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا جائے۔
تندرست رہنے کا فارمولا
میرے کچھ عزیز و اقارب میری غیبت کرتے رہتے ہیں جب انھیں میری کوئی برائی نظر نہیں آتی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ اتنا بڑا آفیسر ہو کر ویرانوں میں اونٹ اور بکریاں چرانے والے چرواہوں کے ساتھ کیوں ملتا رہتا ہے
میں یہ سمجھتا ہوں کہ منافق رشتہ داروں کے درمیان بیٹھنے سے بہتر ہے کہ ان بے ضرر قسم کے لوگوں کے ساتھ بیٹھا جائے۔
مل گشکوری "گواران" کے کھٹے میٹھے بیر دیکھتے ہی منہ میں پانی آتا ہے۔ یہاں تین چار قسم کے بیر ہوتے ہیں۔جنگلی "کرکنڑان" جو سائیز میں بہت چھوٹے انتہائی سرخ رنگ کے کھٹے میٹھے ہوتے ہیں سب سے پہلے وہ پک جاتے ہیں۔ان کا درخت بڑا نہیں ہوتا بلکہ جھاڑی نما ہوتا ہے۔ دوسرا نسل یہی ہے جو درخت نظر آرہا ہے۔تیسری قسم بیر کا دانہ قدر بڑا ہوتا ہے نومبر کے آخر اور دسمبر تک پک جاتے ہیں۔چوتھی قسم فروری اور مارچ تک پک جاتے ہیں۔یہ سائز میں بڑے ہوتے ہیں اس نسل کو ہم باغی کہتے ہیں یعنی یہ پودا اگایا جاتا ہے۔اس کو باقاعدہ پانی دیا جاتا ہے
خالی کارتوس کا نشانہ۔ داماد مجھ سے نمبر لے گیا۔پہلا فائر میرا۔دوسرا داماد کا۔اور تیسرا فائر میرا۔ آخری فائر نے حوصلہ دیا کہ" ابھی تو میں جوان ہوں"
جنگلی سوروں کے شکار سے پہلے، جنگلی بیر کا مزہ لیا۔
جونیئر دوستوں کیلیے بھورے تیتر کو کیسے ڈھونڈا جاتا ہے۔
جنگلی سوروں نے علاقہ میں تباہی مچائی ہوئی ہے۔ ان کے تدارک کیلیے سندھ سے میرے شکاری دوست میری مدد کیلیے پہنچے ہیں۔ آج پہلا دن ہے۔ تین گھنٹے گزر چکے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔
سوروں نے ہمارے موضع وشین کی جواری تقریبا چٹ کر دی۔ سندھ کا ایک شکاری دوست مدد کو پہنچنے والا ہے۔
فصل کی سروے کے بعد دودھ پتی چائے اور چرواہے کو جس نے اپنی بھیڑ بکریوں سے دودھ دی اسے شاباشی دی۔۔
جتک شکاری گروپ کے ساتھ۔ شکار کا آغاز شکاری علی نواز جتک کی خوبصورت اذان کے ساتھ۔
دشت کی برفانی ہوائیں اور ہم شکاری۔
شکار کا وقفہ گرم گرم قہوہ نے دوبالا کردیا
خوبصورت ترین وڈیو ہے۔آخر تک دیکھیں۔
قسط۔8۔
گلگت بلتستان ہنزہ ویلی کی سیر۔کئی ہزار فٹ اونچائی سے نیچے بکریاں نقطہ جیسے لگ رہی ہیں۔
8 اکتوبر کو شہد کا ایک پرانا چھتہ جو 15 ستمبر کو دیکھا تھا بوجہ گرمی ایک تو اس وقت کڑوا تھا دوسری چھتہ میں شہد نہیں تھا۔ لیکن 25 دن گزرنے کے باوجود چھتہ شہد سے خالی ملا ۔موسم کی تبدیلی کی وجہ سے چھتہ کو اس جگہ سے اڑانا ضروری تھا۔اب جہاں بھی بیٹھے گا شہد بنائے گا۔یاد رہے اسی ایک جگہ سات چھتے دیکھے تھے۔باقی جگہ تبدیل کر چکے تھے یہ ایک باقی رہ گیا تھا۔
قسط۔7۔
وادی ہنزہ گلگت بلتستان(کریم آباد) خوبصورت اور نایاب پھول جو آپ نے نہیں دیکھے ہوں گے۔ایک نایاب درخت جس کا تیل الرجی کیلیے موثر ہوتا ہے۔
دوستو آج کی وڈیو ایک ایسے شکاری کی ہے جو پرندوں کی بجائے انسانوں کو شکار کرتا ہے۔اس خونخوار کو بے نقاب کرنے کیلیے ہم سب نے اپنا فرض نبھانا ہے۔ بے گناہ شہریوں کو اس کے شکار ہونے سے بچانا ہے۔
پاکستان ایسے لاکھوں فراڈیوں کا آماجگاہ بن چکا ہے۔ماضی میں پاکستان کبھی بھی ایسے غیر محفوظ نہیں تھا جتنا اب بن چکا ہے۔
اسسٹنٹ کمشنر۔ڈپٹی کمشنر اور کمشنرز جو کہ صوبوں میں حکومت کے اصل نمائندے تھے ان سے ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ان کے جوڈیشل
اختیارات چھین کر حکومت کے ان نمائندوں کو بے دست و پا کر دیا آج کوئی کسی سے پوچھنے والا نہیں رہا۔
ایک دن شہد نواب محمد اکبر خان بگٹی نے دوران گفتگو کہا کہ جب ایک نائب تحصیلدار کے اختیارات صوبہ کا وزیراعلی استعمال کرے گا تو بدامنی اور لاقانونیت میں اضافہ ہی ہوگا۔
2 اکتوبر 2023۔
میری نواسی عائشہ کو اسکی دوسری سالگرہ بہت بہت مبارک ہو۔
وہ مجھے کھانا کھلانے کیلیے جس انداز میں بلا رہی ہے۔ سبحان اللہ۔ دل کرتا ہے اڑ کر اس کے پاس پہنچ جاوں۔
قسط 6۔
ہنزہ گلگت بلتستان کی خوبصورت وادی اور برف پوش پہاڑوں کا نظارہ۔ ایک 53 سالہ شخص اتنی اونچائی اور خطرناک پہاڑوں پر آپ کے لیے وڈیو بنا رہا ہے
شکاری دوستوں کی معلومات کے لیے کہ شکاری سے پرندہ کا فاصلہ کتنا ہونا چاہیے۔کونسا چوک بہتر ہے۔ کونسے کارتوس کتنے فاصلہ پر موثر ہیں۔
اس وڈیو میں سب سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی ہے۔
نوٹ۔سب شکاریوں کا میرے معلومات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ ہر شکاری اپنے اپنے تجربات کے مطابق فاصلہ۔چوک۔اور کارتوس استعمال کرسکتے ہیں۔
قسط نمبر 5
ہنزہ گلگت بلتستان کی برف پوش پہاڑی علاقوں کی سیر کریں۔اس علاقہ میں چیتے بھی پائے جاتے ہیں۔ جو اس علاقہ کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں۔