05/11/2023
ایک جواں سالہ بیوہ خاتون اپنے اکلوتے بچے کے حوالے سے سکول میں شکایات کا انبار لے کر تشریف لائیں.
اسکول سٹاف جب خاتون کو مطمئن نہیں کر پایا تو انہیں پرنسپل صاحب کے پاس بھیج دیا جو کہ ایک پروفیسر تھے.
خاتون اندر آئیں اور غصے میں شروع ہو گئیں خوب گرجی ،برسیں اور اپنے بچے کو سکول میں درپیش مسائل کا بے باکانہ اظہار کیا.
پروفیسر صاحب پرسکون بیٹھ کر خاتون کی گفتگو سنتے رہے اور ایک بار بھی قطع کلامی نہیں کی.
جب خاتون اپنی بات مکمل کر چکیں تو پروفیسر صاحب کچھ یوں گویا ہوئے :
دیکھئے خاتون
مت سمجھئے گا کہ میں آپ کے حسن کے رعب میں آ گیا ہوں، یا یہ کہ آپ کے چاند جیسے چہرے نے مجھ پر جادو کر دیا ہے،
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ میں آپ کی جھیل جیسی نشیلی آنکھوں میں کھو گیا ہوں، اور نا ہی آپ کی ناگن جیسی زلفوں نے میرے دل کو ڈسا ہے.
آپ یہ سوچئے گا بھی مت کہ آپ کے گال کے کالے تل نے میری دل کے تار بجا دئیے ہیں، اور آپ کی مترنم آواز نے میری دھڑکنیں تہہ و بالا کر دی ہیں.
میں غالب نہیں ہوں جو آپ کے شیریں لبوں سے گالیاں کھا کر بد مزہ نہ ہوں اور نہ ہی میں میر ہوں کہ آپ کی لبوں کی نازکی کو گلاب کی پنکھڑی سے تشبیہ دے دوں.
نہ ہی میں نے آپ کی تمام تر گفتگو اس نیت سے سنی کہ آپ کو بولتے ہوئے سنتا رہوں، اور کچھ دیر آپ کو اپنے سامنے بٹھا کر تکتا رہوں.
میرا یہ مزاج نہیں ہے کہ میں کسی خاتون کو متاثر کرنے کی کوشش کروں. میں اپنے سٹاف سے پوچھوں گا کہ ایک حسین و جمیل خاتون کو برہم کیوں کیا گیا ؟.
خاتون جو اتنی دیر سے پروفیسر صاحب کو غور سے سن رہی تھی, خاموشی سے اٹھی اور باہر چلی گئیں.
آج وہ خاتون پروفیسر صاحب کی بیوی ہیں اور اسکول کی وائس پرنسپل ہیں.
بندہ ایویں ہی پروفیسر نہیں بن جاتا. 👌😄😄🥰