18/11/2023
ابھی کچھ اور کرشمے غزل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
جدائیاں تو مقدر ہیں پھر بھی جان سفر
کچھ اور دور ذرا ساتھ چل کے دیکھتے ہیں
رہ وفا میں حریف خرام کوئی تو ہو
سو اپنے آپ سے آگے نکل کے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ بار بار جو آنکھوں کو مل کے دیکھتے ہیں
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
جو لالچوں سے تجھے ، مجھ کو جل کے دیکھتے ہیں
یہ قرب کیا ہے کہ یک جاں ہوئے نہ دور رہے
ہزار ایک ہی قالب میں ڈھل کے دیکھتے ہیں
نہ تجھ کو مات ہوئی ہے نہ مجھ کو مات ہوئی
سو اب کے دونوں ہی چالیں بدل کے دیکھتے ہیں
یہ کون ہے سر ساحل کے ڈوبنے والے
سمندروں کی تہوں سے اچھل کے دیکھتے ہیں
ابھی تلک تو نہ کندن ہوئے نہ راکھ ہوئے
ہم اپنی آگ میں ہر روز جل کے دیکھتے ہیں
بہت دنوں سے نہیں ہے کچھ اسکی خیر خبر
چلو فراز کوئے یار چل کے دیکھتے ہیں
احمد فراز