
31/12/2024
تعریف اور مکھن کا فرق
مہنگائی جتنی بھی بڑھ جائے مکھن کی قیمت آج بھی ضرورت ہی ہے۔ جہاں تک سوال ہے تعریف کا تو وہ ہم تب کرتے ہیں جب کوئی انسان سامنے موجود ہو۔ اس سب کا یہ نقصان ہوا ہے کہ اب تعریف اور مکھن کا فرق کرنا اتنا ہی مشکل ہو گیا ہے جتنا پٹرول کی قیمتیں کنٹرول کرنا۔
لیکن اس سب کے باوجود تعریف ہو یا مکھن ہماری مرغوب ہے۔ اگر آپ کلیسٹرول کے مریض بھی ہیں تب بھی مکھن آپ پہ مثبت اثرات مرتب کرے گا ۔
ان دونوں کے درمیان فرق اتنا باریک ہے کہ اگر آپ کو موٹے عدسے کی عینک لگی ہے تو دونوں ایک سے ہی لگیں گے۔ کہتے ہیں جو کام پھنس گیا ہو اور کسی طرح بھی نکل نہ رہا ہو تو مکھن وہاں کارآمد ہوتا ہے۔ اور یہی وہ باریک لائن ہے جو ان دونوں کا فرق واضح کر دیتا ہے۔
مارکیٹ میں ایک چیز اصل ابھی آتی نہیں کہ اس کی نقل کے ڈھیر لگ جاتے ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے اصل نقل کی پہچان مر جاتی ہے اور ہر ایرا غیرا اسی ڈیزائن میں نظر آتا ہے۔ اس سے جہاں اصل کی قیمت گر جاتی ہے وہیں شکوک و شبہات بھی بڑھ جاتے ہیں۔
ہر دوسرا جوڑا نقل ہی لگتا ہے۔ دس لوگ اگر ایک سے لباس میں نظر آئیں تو پہلے نو نقل سے نمٹ کر آپ دسویں کو یہ کہتے کھری کھری سنائیں گے کہ دنیا سے اصل ختم ہو چکا اب جو بچا ہے وہ فقط دھوکا ہے۔ تو ایسے میں اس ایک کا کیا جو حیرت سے اس قطار میں پیچھے رہ گیا۔
کسی سے مشورہ ہو تب بھی یہی مسلہ درپیش ہوتا ہے کہ کھرا مشورہ تب ملتا ہے جب آپ باقی مشوروں سے ڈسے جا چکے ہوتے ہیں۔ اب اس میں قصور کس کا ؟؟
صحیح مشورہ دینے والے کا یا پھر غلط مشوروں پہ اعتبار کرنے والے کا ؟؟
تعریف تب بھی قابل قبول نہیں ہوتی جب آپ کسی قسم کے پریشر کا شکار ہوں۔
تعریف کو تب بھی مکھن قرار دیا جاتا ہے جب آپ اس کے خالص ہونے کی تصدیق چاہ رہے ہوں۔
شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔
مکھن کہا گیا میری تعریف کو
سمجھائے کوئی اس بندہ شریف کو
شریفوں سے تو قوم کا ویسے بھی اعتبار اٹھ چکا ہے۔ کیا کیا جائے کہ اعتبار تو ہر دوسرے نعرے لگوانے سے اٹھ چکا ہے۔ کہ جو بھی تعریف کر رہا ہو اس کی مٹھی چیک کرنے کا دل چاہتا ہے کہیں کوئی لال نیلا نوٹ تو نہیں دبا ہوا مٹھی میں۔ کہ نوٹوں نے انسانی الفاظ کو بھی بے وقعت کر دیا ہے۔ کسی کی مٹھی سے اپنی مٹھی میں منتقل کرنے کو جو الفاظ ادا کیے جاتے ہیں مکھن کہلاتے ہیں۔
اگر کوئی نیچے والی سیڑھی سے اوپر والے کی تعریف کرے تو بھی مکھن ہے۔
ہاں اوپر والوں کی تعریف، تعریف ہی مانی جائے گی چاہے وہ سیاہ کو سفید ہی کیوں نہ کہیں۔
تو میرا مشورہ یہی ہے کہ تعریف کرتے احتیاط سے کام لیں اور تب تک اجتناب کریں جب تک آپ اوپر والی سیڑھی پہ قدم نہ جما لیں۔