AlJamiat

AlJamiat ماہنامہ الجمعیۃ راولپنڈی
(4)

22/06/2024

سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں جواب جمع کرادیا ہے۔ الیکشن کمیشن نے جواب میں کہا کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں، مخصوص نشستوں کی فہرست جمع کرانے کی آخری تاریخ 24 جنوری تھی۔ تب سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کےلیے فہرست جمع نہیں کرائی۔

امیدواروں سے تحریک انصاف نظریاتی کا انتخابی نشان دینے کا سرٹیفکیٹ مانگا گیا۔ بعد ازاں امیدوار تحریک انصاف نظریاتی کے انتخابی نشان سے خود دستبردار ہوئے، جس کے بعد یہ امیدوار آزاد قرار پائے اور انتخابات کے بعد یہ آزاد امیدوار سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، سنی اتحاد کونسل کو الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں نہ دینےکا 1-4 سے فیصلہ دیا۔پشاور ہائیکورٹ نےسنی اتحاد کونسل کی اپیل پر الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا کہ سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کےلیے اہل نہیں۔

الیکشن کمیشن نے عدالت عظمیٰ میں جمع کرائے گئے جواب میں مزید کہا کہ مخصوص نشستیں نہ دینے کے الیکشن کمیشن اور پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے میں کوئی سقم نہیں۔ مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کا فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔جس کی رو سے سنی اتحاد کونسل خواتین، اقلیتوں کی مخصوص سیٹوں کی اہل نہیں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کا فل کورٹ 24 جون کو مخصوص نشستوں کے محولہ بالا کیس کی سماعت کرے گا، بینچ کی سربراہی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔

‏طویل تعطل وانتظارکے بعدایک بار پھر ماہنامہ الجمعیۃ کی اشاعت کا آغاز، زیر نظر شمارہ مورخہ 18-19نومبر2023بروزہفتہ ،اتوار ...
16/11/2023

‏طویل تعطل وانتظارکے بعدایک بار پھر ماہنامہ الجمعیۃ کی اشاعت کا آغاز، زیر نظر شمارہ مورخہ 18-19نومبر2023بروزہفتہ ،اتوار مرکزی مجلس عمومی کے اجلاس منعقدہ پشاور کےموقع پر "الجمعیۃ"کےسٹال پر دستیاب ہوگا،ان شاء اللہ

13/11/2023

جمعیت علماء اسلام صوبہ سندھ نے
ایک نئ ،قابل تقلیدمثال قائم کردی۔

فلسطیین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کیلئے جاری جے یوآئی سندھ کی امدادی مہم میں اقلیتی برادری بھی شامل ہوگئی ، پنوعاقل کی ہندو برادری کی جانب سےقائد جمعیۃ مولانافضل الرحمن کی اپیل پر "غ زہ"متاثرین کیلئے امدادی مہم کا آغاز کردیا ہے،جے یوآئی سندھ کے ڈپٹی سیکرٹری اطلاعات مولانا سمیع الحق سواتی کے مطابق فنڈریزنگ کا آغاز ہندو برادری نے اپنی مذہبی تہوار دیوالی کے موقع پر پنوعاقل(ضلع سکھر) کے مندر سے کیا،جہاں ہندو برادری کےسرکردہ حضرات نے نقد رقوم جمع کیں جبکہ جے یوآئی سندھ کی اقلیتی ونگ کےروی کمار کھتری، پھلاج رام ، گنشام داس کھتری، پنچا رام سمیت ہندو برادری کےرہنماؤں نے فنڈریزنگ میں حصہ لیا
اس موقع پر جے یوآئی مینارٹی(اقلیتی) ونگ سندھ کے صدر روی کمار جنرل سیکرٹری پھلاج رام ودیگر رہنماؤں کا کہنا تھا کہ پاکستان کی ہندو برادری بھی مولانا فضل الرحمان کے حکم پر علامہ راشد محمود سومرو کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ہندوبرادری پورے صوبے میں جے یوآئی کی فنڈریزنگ میں بھرپور حصہ لے رہی ہے ہم فلس طین میں انسانیت کے قاتل اس رائیلی جارحیت کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں اور فلس طین کے مظلوم بھائیوں کی ہرممکن مالی اور اخلاقی مدد میں ان کیساتھ ہیں ان کا کہنا تھا ہم اپنی اس مہم کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مولانا فضل الرحمان اور علامہ راشد سومرو کی اپیل پر سندھ کے تمام ہندو برادری کے پاس جاکر امدادی مہم چلائیں گے ۔
دیگرصوبوں کےجماعتی ذمہ داران کوچاہئےکہ دستورمیں درج تمام شعبوں کےساتھ ساتھ اقلیتی ونگ کوبھی فعال کریں

جاری کردہ : مولانا سمیع الحق سواتی
ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات جے یوآئی سندھ
بتاریخ 2023-11-13

جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ نے نگراں وزیر اعلی صوبہ خیبر پختونخوا کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے...
13/11/2023

جسٹس (ر) ارشد حسین شاہ نے نگراں وزیر اعلی صوبہ خیبر پختونخوا کے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔

گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے نگراں وزیراعلیٰ سے عہدے کا حلف لیا۔ تقریب حلف برداری میں میئر پشاور حاجی زبیرعلی، سابق نگران صوبائی کابینہ کے اراکین،چیف سیکرٹری خیبرپختونخواندیم اسلم چوہدری، آئی جی پولیس اخترحیات گنڈاپور، کمشنر پشاورسمیت صوبائی محکموں کے انتظامی سربراہان نے شرکت کی۔

واضح رہے کہ سابق وزیراعلیٰ محمودخان اور اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کے درمیان صوبے کے نئے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے لیے وزیراعلی آفس میں مشاورت ہوئی تھی جس میں مختلف ناموں پر غور کیا گیا۔محمودخان اوراکرم درانی کی ملاقات میں جسٹس(ر) ارشد حسین کے نام پر بطورنگران وزیراعلی اتفاق کیا گیا۔ اتفاق رائے کے نتیجے میں نگران وزیر اعلی کی سمری گورنر کو بھیجی گئی۔ گورنر خیبرپختونخواحاجی غلام علی نے سمری پردستخط کیے تھے۔
واضح رہے کہ نئےریٹائرڈ جسٹس ارشد حسین گلگت بلتستان کے چیف جسٹس بھی رہ چکے ہیں،آپ سابقہ نگران کابینہ میں وزیر قانون تھے۔ نئی نگران کابینہ اعظم خان دورکے ارکان پرہی مشتمل ہوگی۔ طےپایاہے کہ سید ارشد حسین شاہ کی نگراِں کابینہ میں وزراء کے علاوہ مشیراورمعاون خصوصی بھی وہی ہوں گےجوسابق نگراں وزیراعلی اعظم خان کی کابینہ میں شامل تھے۔

اسلامی تعاون تنظیم  (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی سربراہی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں غزہ کا محاصر...
13/11/2023

اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی سربراہی اجلاس کا اعلامیہ جاری کردیا گیا جس میں غزہ کا محاصرہ ختم، انسانی امدادکی فراہمی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سعودی عرب کی میزبانی میں مقبوضہ فلسطین کے علاقے غزہ کی صورتحال پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) اور عرب لیگ کے مشترکہ ہنگامی سربراہی اجلاس ریاض میں ہوا جس میں ترکیہ کے صدر طیب اردوان، شامی صدر بشار الاسد، ایران کے صدر ابراہیم رئیسی اور امیر قطر سمیت اسلامی ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔

اجلاس میں اسلامی ممالک کے سربراہان نے غزہ کی صورتحال پر گفتگو کی اور اعلامیہ جاری کیا گیا۔

اعلامیے میں غزہ کا محاصرہ ختم، انسانی امداد کی فراہمی اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی برآمدات روکنے کا مطالبہ کیا گیا۔

اعلامیے میں غزہ میں اسرائیلی قابض حکومت کی جارحیت، جنگی جرائم اور غیرانسانی قتل عام کی شدید مذمت کی گئی اور اسرائیل کے حق دفاع کو غزہ میں جنگ کا جواز بنانے کو مسترد کیا گیا۔

‏گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے اعظم خان کی وفات کےبعدنگراں وزیراعلٰی کی تعیناتی کے لئےتحلیل شدہ اسمبلی کے اپوزیشن ...
13/11/2023

‏گورنر خیبرپختونخوا حاجی غلام علی نے اعظم خان کی وفات کےبعدنگراں وزیراعلٰی کی تعیناتی کے لئےتحلیل شدہ اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور سابق وزیر اعلٰی محمودخان کو باہمی مشاورت کے لئے 12نومبرکواجلاس بلانےکی ہدایت کردی۔

کیا واقعی مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ''خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے'' یہ ج...
11/11/2023

کیا واقعی مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے کہا تھا کہ ''خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے''

یہ جملہ دراصل منیر احمد منیر نے مفتی محمود رح کی طرف منسوب کیا تھا۔آئیے اس کی حقیقت جانئے۔ہوایوں کہ ہفت روزہ افریشیا لاہورکے نمائندہ نے (غالباً١٩٧٦ میں)مولانامفتی محمود رحمہ اللہ کاانٹرویوکیا۔آخری سوال یہ تھا کہ :
''آپ کے بارے میں یہ روایت مشہور کردی گئی ہے کہ آپ نے کسی موقع پر کہا ہے کہ: ''خدا کا شکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں تھے'' یہ بات کس حد تک درست ہے؟
مفتی محمودصاحب رحمہ اللہ نےجواب دیتے ہوئے فرمایاکہ : جو بات یہ لوگ کہتےہوئے نہیں شرماتے، میں سنتےہوئےبھی شرماتاہوں۔اس بات کی حقیقت اس قدر ہےکہ متحدہ جمہوری محاذ(UDF) کی میٹنگ میں محاذ کے بعض دوست آپس میں باتیں کرتے ہوئے مسلم لیگ کو کوس رہے تھے۔ چوہدری ظہور الٰہی (چوہدری شجاعت کےوالدمرحوم)بھی وہاں موجود تھے، بات خالصتاً مذاق میں ہو رہی تھی خود مسلم لیگ کے دوست کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ ہماری ماں تھی لیکن یہ ماں بدکار ہوگئی اور اس کے گناہوں کی کوئی حد نہیں۔ اس پر میں(مفتی محمود رح)نے ہنستے ہوئے کہا کہ:''
خدا کا شکر ہے کہ اس گناہ میں ہم شریک نہیں تھے۔'' یہ صرف مذاق کی بات تھی، اس پر ملک غلام علی اوکاڑوی نے کہا کہ ہم تو اس گناہ میں شریک تھے۔ میں نے کہا بہر حال میں خاموش ہوں، آپ ہی تبصرہ فرما رہے ہیں اور مزید تبصرہ فرما دیں میں اب بھی خاموش رہوں گا۔اس پر سب حضرات ہنس پڑے۔ (ہفت روزہ افریشیا لاہور بحوالہ ترجمان اسلام لاہور مفتی محمود نمبر…صفحہ نمبر٤٥٤،٤٥٥)
ملاحظہ کیجئے ایک مسلم لیگی نے خوداپنی جماعت (مسلم لیگ ،جوکہ پاکستان کی خالق جماعت ہونے کا دعویٰ رکھتی ہے اس)کو بدکار ماں کہااوریہ بھی کہ اس کےگناہوں کی کوئی حدنہیں، اس جملے پر توکسی کو اعتراض نہیں ہوا، لیکن جب مفتی صاحب نے اس حقیقت کا اظہارکیا کہ ہم تواس گناہ میں شریک نہیں تھے،تو یہ بات انہیں بری لگی۔یعنی اگر کوئی اپنی ماں کو گالی دے وہ تو کوئی جرم نہیں،لیکن دوسراشخص یہ کہہ کر اپنی برات ظاہرکردے کہ میراتواس بدکردارسے کوئی تعلق نہیں ،تو وہ مجرم ٹھہرے؟
بات ہورہی تھی مسلم لیگ کے کردارکی،برائ بیان کررہےتھےخودمسلم لیگی،اوراس میں پاکستان کاسرے سےذکر ہی نہیں ہوا،لیکن بیمارذہنیت نے اپنےمذموم مقصدکی خاطر اسے پاکستان سے جوڑکر مفتی محمودصاحب رحمہ اللہ کی طرف منسوب کردیا۔ لعنۃ اللہ علی الکاذبین۔
محمدزاھدشاہ

💐مولوی کی روزی روٹیمولانازاھد الراشدی ایک واقعہ نقل کرتےھیں کہ:" گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقر...
02/11/2023

💐مولوی کی روزی روٹی

مولانازاھد الراشدی ایک واقعہ نقل کرتےھیں کہ:" گوجرانوالہ میں یوسف کمال نام کے ایک ڈپٹی کمشنر صاحب مقرر ہوئے جو کافی رعونت پسند اور مولویوں کے بڑے خلاف تھے۔ ایک میٹنگ میں، جس میں صاحبزادہ فیض الحسن صاحب سمیت شہر کے بڑی شخصیات شریک تھیں، ڈی سی صاحب نے گفتگو شروع فرمائی کہ مجھے علماء کرام پر بہت ترس آتا ہے،میرا دل دکھتا ہے کہ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہوتا، ان کا روزگار لوگوں کی جیب سے وابستہ ہوتا ہے، وغیرہ۔
صاحبزادہ فیض الحسن صاحب مضطرب ہوئے اور زیر لب کہنے لگے کہ یہ بہت زیادتی ہے۔ والد گرامی نے کہا کہ اگر آپ فرمائیں تو میں ڈی سی صاحب کو جواب دوں؟ صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ ہونا تو چاہیے۔ خیر، اپنی باری آنے پر والدگرامی(شیخ الحدیث مولانا محمد سرفرازخان صفدر رحمہ اللہ) نےکہاکہ:"میں ڈی سی صاحب کا بہت ممنون ہوں کہ انھوں نے علماء کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا ہے، بس اتنی وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ روزگار آپ کا بھی لوگوں کی جیب سے ہی وابستہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تنخواہ ٹیکس کلکٹر ڈنڈے کے زور پر لوگوں کی جیب سے وصول کرتا ہے،اورعلماء کےپاس لوگ خودآ کر کہتے ہیں کہ حضرت، ہدیہ قبول فرمائیں اور ساتھ دعا کی درخواست بھی کرتے ہیں۔"

ڈی سی صاحب کا تو جو حال ہوا، سو ہوا۔ خیال ہوا کہ جن دوستوں کو آج کل مسجد اور مولوی کے روزگار کے باہمی تعلق پر ہمدردی آئی ہوئی ہے، ان کو ذرا یاد دلا دیا جائے کہ پوری ریاستی مشینری اور اس کے کروفر والے عہدے دار (آرمی چیف، صدر وزیراعظم اور چیف جسٹس سمیت سب) لوگوں کی جیب سے روزگار پاتے ہیں جہاں سے مولوی کو ملتا ہے۔ آپ کو مذہب سے مسئلہ ہے تو اس کا غصہ مولوی کو زنانہ طعنے دے کر نہ نکالیں۔

جمعیۃعلماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عمومی کااجلاس 19-18نومبر2023ء کو مفتی محمودمرکز پشاورمیں منعقدہوگا۔
25/10/2023

جمعیۃعلماء اسلام پاکستان کی مرکزی مجلس عمومی کااجلاس 19-18نومبر2023ء کو مفتی محمودمرکز پشاورمیں منعقدہوگا۔

23/10/2023

پی ٹی آئی کے چیئرمین اور وائس چیئرمین
شاہ محمودقریشی پرفردِجرم عائدکردی گئی۔

آفیشل سیکریٹ ایکٹ عدالت کےجج ابوالحسنات ذوالقرنین نے اڈیالہ جیل میں سماعت کی۔خصوصی عدالت نے دونوں رہنماؤں پر فردِ جرم عائد کر دی۔عدالت نے کیس کے گواہان کے بیانات 27 اکتوبر کو طلب کر لیے۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی نے صحتِ جرم سے انکار کر دیا۔جج ابوالحسنات نے فردِ جرم روکنے کی چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آج تاریخ فرد جرم کے لیے رکھی تھی، فردِ جرم عائد کی جاتی ہے۔

عمران اور شاہ محمود قریشی کے وکلاء نے 265سی آرپی سی کی درخواست دائرکردی۔
سی آر پی سی 265 ڈی کے تحت الزامات ثابت نہ ہونے پر فرد جرم کی کارروائی روکنے کا کہا جاتا ہے۔

عدالت نے سائفر کیس کی سماعت 27 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔اس سے قبل 17 اکتوبر کو فردِ جرم عائد کرنے کی تاریخ مقرر کی گئی تھی تاہم اس وقت تحریک انصاف کے وکلاء کی جانب سے چالان کی کاپیاں فراہم نہ کرنے کا اعتراض اٹھایا گیا تھا۔

قاری محمد طیب صاحب رح سابق مہتمم دارالعلوم لکھتے ہیں کہ :”جب (نودرے کی) تعمیر کا مسئلہ سامنے آیا(تو) شب میں حضرت مولانا ...
21/10/2023

قاری محمد طیب صاحب رح سابق مہتمم دارالعلوم لکھتے ہیں کہ :
”جب (نودرے کی) تعمیر کا مسئلہ سامنے آیا(تو) شب میں حضرت مولانا رفیع الدین صاحب رح مہتمم ثانی دارالعلوم نے خواب میں دیکھا کہ اس کی بنیاد پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتشریف ارزانی فرمائی، دستِ مبارک میں عصا ہے، آپ نے فرمایا کہ جو یہ بنیاد کھودی گئی ہے، اس سے صحن مدرسہ چھوٹا اور تنگ رہے گا، یہ فرماکر آپ نے جانبِ شمال دس بیس گز آگے بڑھ کر عصائے مبارک سے نشان لگایا اور ایک لانبی لکیر کھینچ دی کہ اس جگہ بنیاد کھودی جائے۔ بیدار ہوتے ہی مولانا ممدوح اس جگہ پر گئے تو لکیر کا نشان اسی طرح موجود پایا، جس طرح حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے عصائے مبارک سے لگایا تھا۔ مولانا نے پھر نہ ممبران سے پوچھا نہ کسی سے مشورہ کیا؛ بلکہ نئی بنیاد اسی جگہ کھودوائی۔"
(مقدمہٴ تاریخ دارالعلوم دیوبند، ص۴۷)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وَلِيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِترجمہ؛جو آدمی پسن...
19/10/2023

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَلِيَأْتِ إِلَى النَّاسِ الَّذِي يُحِبُّ أَنْ يَأْتُوا إِلَيْهِ
ترجمہ؛جو آدمی پسند کرتا ہے کہ لوگ اس سے ملنےآئیں،اسےچاہیےکہ وہ لوگوں سےملنے آئے۔"

زندگی میں بے شمار کام ہم اپنے بجائے لوگوں کے لیے کرتے ہیں۔ آپ دعوت ولیمہ والوں ۔ پر مدعو ہیں تو خوبصورت ترین لباس زیب تن کرتے ہیں۔ آپ ایسا صرف اس لیے کرتے نہیں مل ہیں کہ لوگ آپ کی طرف متوجہ ہوں، آپ کو دیکھ کر پسندیدگی کا اظہار کریں۔ آپ یہ محسوس کرکےبہت خوش ہوتے ہیں کہ لوگوں کو آپ کی خوش لباسی یا خوش روئی پسند آئی ہے۔ ہم اس وقت خوشی سےپھولے نہیں سماتے جب کوئی ہمارے لباس اور گھر کی آرائش یا کھانے کی تعریف کرتا ہے۔

آپ کا دوست خوشنما لباس پہنے تو آپ اس کی تعریف کریں، کوئ آپ سے ملنے آتے ہیں۔ ان کے کپڑوں سے مسحور کن خوشبو پھوٹ رہی ہوتی ہے۔ آپ ان کی تعریف کریں۔ انھوں نے آپ ہی کی خاطر خوشبو لگائی ہے۔ اچھے الفاظ میں خوشبو کی ستائیش کریں،کوئی صاحب آپ کو کھانے پر مدعو کرتے ہیں تو کھانے کی تعریف کریں۔ اُن کے گھر والوں نے کھانا تیار کرنے میں اتنی تگ و دو کا مظاہرہ یقیناً آپ ہی کے لیے کیا ہے۔ انھیں محسوس ہو کہ آپ ان کے احسان مند ہوئے ہیں اور ان کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔لہذا اسکےاعلیٰ ذوق اورگھرکی خوب صورتی کی تعریف کریں۔(لیکن تعریف میں مبالغہ آرائی نہیں ہونی چاہیےتا کہ گھر والے اسے مذاق نہ سمجھیں۔)

یہ ایک حقیقت ہےکہ آدمی کامیابی کی کتنی ہی منزلیں طےکر لے،بہر حال وہ انسان ہے اور اپنی تعریف سن کرخوش ہوتاہے۔لیکن ہمارا معاملہ بڑاعجیب ہے،ہم خودتودوسروں سے تعریف کی توقع رکھتےہیں اورکچھ عرصہ بعد اس حوالےسے سردمہری کااحساس ہوتوفرینڈ لسٹ کی چھانٹی شروع کردیتےہیں،جیساکہ بعض دوست وقتافوقتااس کااعلان بھی کرتے رہتے ہیں،لیکن سوال یہ ہے کہ کسی دوسرے کی قابل تعریف بات پرحوصلہ افزائ کےدو لفظ یاLike دینےسےہمیں کیوں موت پڑتی ہے؟
اس طرزعمل۔پہ غوراورنظرثانی کی ضرورت ہے کسی کی قابل تعریف کاوش کونظرانداز نہ کریں بلکہ باہمی احترام ومحبت کےجذبات کےساتھ ایک دوسرےکی مناسب اندازمیں تحسین کریں۔اس سےالفت ومودت اورمحنت کا جذبہ بڑھےگااورصلاحیتیں نکھریں گی۔
محمدزاھدشاہ

علمائے کرام! اسلام پکاررہا ہے…… (تحریر؛محمدادریس اپل مرحوم)ہمارے مذہب میں علماء کا ایک اعلیٰ وارفع مقام ہے اور یہ مقام ن...
19/10/2023

علمائے کرام! اسلام پکاررہا ہے……
(تحریر؛محمدادریس اپل مرحوم)

ہمارے مذہب میں علماء کا ایک اعلیٰ وارفع مقام ہے اور یہ مقام نیابت رسول اللہ ۖ کا ہے، اس لحاظ سے علماء دین ہمارے مقتدا وامام ہیں۔ یہی نہیں کہ وہ نماز میں امامت کراتے ہیں، زکوٰة،روزہ کے مسائل سے آگاہ کرتے ہیں، قرآن وحدیث کے تشریحی نکات کو بیان کرتے ہیں،نکاح و طلاق کے مسائل کا ادراک رکھتے ہیں، زکوٰة وحج کے فضائل و مسائل سے آشنا ہیں بلکہ وہ امامت صغریٰ سے لے کر امامت کبریٰ یعنی سیاست وحکومت میں بھی ہمارے امام ہیں۔
اسلام کے ہاں محض علم اور معلومات کا خزانہ ذہن میں جمع کرلینا کوئی فضیلت کی بات نہیں، فضیلت کی بات عمل اور تقویٰ ہے۔ اسلام کا بنیادی فلسفہ ''اقرار باللسان ،تصدیق بالقلب اورعمل بالجوارح'' ہے ،عمل کے بغیر بہت سارے علم کی مثال گدھے پر کتابیں لادنے کی سی دی گئی ہے اوربغیر علم کے محض عمل اندھیرے میں تلوار چلانے کے مترادف ہے، علم کی فراوانی اور ذہن میں نکتہ آوری کی کثرت پر کسی فیصلے پر نہ پہنچنے والا خود پکار اٹھتا ہے کہ اس علم نے میرے یقین کو متزلزل کردیا ہے ، کاش کوئی مجھے جہالتوں میں لے چلے کہ وہ بے یقینی کے اندھیروں سے جہالت کی تاریکیوں کو بہتر پا رہا ہے کہ علم کی قیل وقال میں عمل کے جذبے موت سے ہمکنار ہو جاتے ہیں۔
ہماری قومی زندگی میں اگر دیانتدارانہ رائے قائم کی جائے تو جو کمیاں اور کوتاہیاں ہمارے معاشرے کو روز بروز زوال کا شکارکر رہی ہیں ، وہ علم وعمل کی خلیج ہے ۔ علماء کرا م یا اپنے علم میں اس قدر گہرے ہیں کہ معاشرے میں ان کا کوئی کردار ہی نہیں اور وہ بے عملی کی زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ لوگ محض تقویٰ وللہیت کے حصول میں اندھا دھند عمل کررہے ہیں کہ انہیں دنیا کے اور دین کے مسائل کی خبر ہی نہیںکہ معاشرے میں کیا ہو رہا ہے ؟ بین الاقوامی سطح پر کیا سازشیں ہو رہی ہیں؟ ملک میں سیاسی ومعاشی طور پر کیا تبدیلیاں آرہی ہیں ؟ اور ان کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟ مغربی منصوبہ ساز ہمیں کہاں لے جا رہے ہیں ؟ ہماری نسلوں کو قتل کیا جارہا ہے اور ہمارے تعاقب میں اس طرح بھاگ رہے ہیں جس طرح ایک شکاری اپنے شکار کے پیچھے بھاگ رہا ہوتا ہے اسے ہماری زندگی سے غرض نہیں، ہماری چال وڈھال سے سروکار نہیں، وہ اپنی صبح و شام کی بھوک ہم سے مٹانا چاہتا ہے …لیکن ہم بالکل بے خبر کہ ہم نے اپنے معاشرے کو بچانا ہے مذہب کو بچانا ہے ، اپنی تہذیب کی حفاظت کرنی ہے اور مسلمان بن کر زندہ رہنا ہے۔
اس وقت ہمارے مخاطب وہ علماء ہیں کہ جن کا تاریخی تسلسل ان مجاہدین اسلام سے ہے جنہوں نے وقت کی سنگینوں کے سامنے اپنے سر اور سینے پیش کردیئے تھے۔ ہم ان سے کچھ کہنا چاہیں گے جن کا تعلق ان فدایان اسلام سے ہے جنہوں نے ہندوستان کے ظلمت کدہ میں اسلامی تحریک کی شمع روشن کی تھی۔ ہم ان سے کچھ عرض کرنا چاہیں گے جو ان جانثاران اسلام کے سلسلة الذہب کی کڑی ہیں جنہوں نے اپنی کل متاعِ دنیا قربان کرکے اپنی آرام دہ زندگی پر جیل کی تکالیف سے بھرپور زندگی کو ترجیح دی تھی کہ اسلام کو اپنی آنکھوں کے سامنے رسوا ہوتا دیکھ نہ سکتے تھے۔
جس طرح ایک غیرت مند، جرأت مند اور جوانمرد قافلے کی باقیات اور اس کے افراد کی اولاد کو کوئی کمزور ونحیف پکارا کرتا ہے، ہم اسی طرح ان علماء کو آواز دے رہے ہیں جن کا تعلق ایک غیرت مند اور جرأت مند قبیلے سے ہے، یا وہ اس قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں…ہاں وہی قبیلہ! وہی قافلہ جس کے فکری مؤسس شاہ ولی اللہ دہلوی تھے، وہی قبیلہ جس کے مردان حر بالا کوٹ میں شہادت کی قبائیں پہن کر سوچکے ہیں ، وہی قافلہ وقبیلہ جس نے 1857ء کی جنگ آزادی میں ہزاروں علماء حق کی جماعت پیش کی تھی اور جن کی لاشیں درختوں سے لٹکتی رہیں۔ وہی قبیلہ وقافلہ جس نے شیخ الہند اور عبید اللہ سندھی کی قیادت میں حجروں سے نکل کر آزادی ٔ ہند کی بنیاد رکھ دی۔ وہی قافلہ وہی قبیلہ جس نے خانقاہوں سے نکل کر رسم شبیری ادا کی۔ وہی قافلہ ،وہی قبیلہ جس کے ختم نبوت کے لیے دس ہزار جانثار شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے۔ وہی قافلہ ، وہی قبیلہ جس نے تحریک نظام مصطفی کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ ہم اسی قافلے وقبیلہ کے فرزندوں اور ان سے تعلق رکھنے والوں سے سوال کرتے ہیں۔
امریکہ ویورپ یہ چاہتے ہیں کہ صدیوں سے اسلام کا تصور ،اسلام کی محبت مسلمانوں کے دلوں میں ہے، وہ نکال دی جائے اور اسلامی تہذیب وتمدن کا جنازہ نکال دیا جائے ۔ اور اس کے غلبے کی تحریکوں کو دفن کردیا جائے اور بحیثیت نظام اسلام کے نفاذ کے تصور کو مٹا دیا جائے، ان سے آزادی کا فلسفہ چھین لیا جائے اور ایک ایسا مکمل معاشی حیوان بنا کر رکھ دیا جائے کہ جو مشین کی طرح دن رات ان کے لیے وسائل پیدا کرتا رہے۔ اس کیلئے منصوبہ بندی کی گئی ہے ،امریکہ کی مخالفت کے سیاسی مواقع ختم کیے جارہے ہیں۔
مذہبی اقدار کو معاشرے سے نکالنے کیلئے مادہ پرستی کا سہارا لیا جارہا ہے، عریانی فحاشی ایک منصوبہ بندی کے تحت پھیلائی جارہی ہے اور حالات ایسے بنائے جارہے ہیں کہ ہر شخص کی اولین ترجیح اس کا شاہانہ طرز زندگی ہو اور شاہانہ طرز زندگی کے لیے حلال وحرام کی تمیز تو کیا اگر اپنے مذہب کا سودا کرنا پڑے ،اپنی عزت وغیرت کا سودا کرنا پڑے، اپنی ناموس بیچنی پڑے تو وہ اس کو گوارا کرلے گا۔ بودو باش پوری کی پوری اس طرز پر بنانے کے منصوبے ہیں اور اسے خوشحالی وترقی کا نام دیا جارہا ہے۔ یوں پاکستان کا آئندہ خاکہ اس طرح ترتیب دیا جارہا ہے کہ پاکستان کی سیاست سے مذہب کا عنصر نکال دیا جائے اور کسی حد تک یہ ہوچکا ہے۔ اسلام کی فطرت اس بات کو گوارہ نہیں کرتی کہ مذہب وسیاست میں تفریق ہو، لیکن عیسائیت نے مذہب وسیاست کی تفریق کو گوارہ کرلیا ہے۔مگر یہاں ہمارے ملک میں نظریاتی طور پر مذہب وسیاست کی تفریق پیدا کرنا ممکن نہیں تھا کہ یہ ملک لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا تھا۔ لہٰذا یہاں عملاً سیاست ومذہب میں تفریق پیدا کردی گئی ہے۔ سیاست کو چند سرمایہ داروں تک محدود کردیا گیا ہے اور اگر مزید اس کو محدود کیا گیا تو ابتدائی سطح پر جمعہ کے روز لوگ اسی طرح مسجدوں میں پہنچیں گے جس طرح کلیسا میں اتوار کے روز عیسائی جمع ہوتے ہیں۔ ان کے کاروبار میں اسلام رخصت ہوگا، ان کی ملازمت میں قرآنی تعلیمات کی موافقت نہ ہوگی، ان کی شادی بیاہ میں مذہب کا عنصر شامل نہیں ہوگا۔ جائیداد کی تقسیم میں اسلام سے راہنمائی نہیں لی جائے گی ،ان کے کھانے پینے اور پہننے میں اسلامی تعلیمات کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا ۔بس ہفتہ میں ایک روز دعا میں شریک ہوں گے،تب ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ اسلام ایک ضابطہ حیات ہے۔
پاکستانی معاشرے کا نقشہ ہو بہو یورپی معاشرے کے طور پر ترتیب دیا جارہا ہے اور دنیا داری کی دوڑ ، معاشرت کی تنگی اور پیچھے رہنے کا غم مذہب کی اہمیت کو کم کر دے گا اور اس طرح ہم شاید اس دور کی طرف سفر شروع کردیں جس کا نقشہ رسول اللہ ۖ نے پیش فرمایا۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود سے روایت ہے کہ سرور کائنات ۖ نے ارشاد فرمایا کہ لوگوں پہ ایسا زمانہ ضرور آئے گا جب کسی دیندار کی دینداری محفوظ نہ رہے گی سوائے اس کے کہ کوئی شخص اپنے دین کو لے کر ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں اور ایک بلند پہاڑ سے لے کر دوسرے پہاڑ کی طرف اور ایک سوراخ سے دوسرے سوراخ کی طرف بھاگے گا جس طرح لومڑی چھپ کر بھاگتی پھرتی ہے ،لوگوں کو گناہوں کے سوا کسی اور طریقے سے معاش حاصل نہیں ہو سکے گا۔ ایسا زمانہ آجائے گا اس وقت مجرد رہنا حلال ہوگا۔'' لوگوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، آپ ۖ نے تو ہمیں نکاح کرنے کا حکم فرمایا ہے؟ آپ ۖ نے فرمایا: اس زمانے میں انسان کی ہلاکت اپنے والدین کے ہاتھوں سے ہوگی، اگر والدین نہیں تو اس کی بیوی اور اس کی اولاد کے ہاتھوں ہوگی ،اگر بیوی بچے نہ ہوں گے تو یہ ہلاکت اسکے رشتہ داروں کے ہاتھوں ہوگی'' لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ۖ یہ کیسے ہوگی؟ آپ ۖ نے فرمایا وہ لوگ اسے تنگی معاش پہ شرم دلائیں گے تو وہ اپنی طاقت سے زیادہ کام کرے گا اس طرح وہ اسے مقام ہلاکت تک پہنچا دیں گے ۔ (عوارف المعارف ۔صفحہ نمبر 428ترجمہ حافظ رشید احمد)
یہ ہے مادری دور کا انجام کہ ایک شخص کیلئے معاش گناہوں کے سوا کسی اور طریقے سے حاصل نہ ہوگا اور آج سابق وزیر اعظم بڑے فخر سے سے کہتے ہیں کہ ہم نے 20 لاکھ خاندانوں یعنی ایک کروڑ افراد کو رزق حلال سے محروم کرکے انہیں حرام ذریعہ معاش دے دیا ہے پیلی ٹیکسی کے ذریعے،قوم نعرے لگا رہی ہے اور اس کارنامے پر دھن رہی ہے۔ اس طرح پھر معاشرے کے ہر فرد کی کہانی اس روسی کہانی کے مشابہ ہو جاتی ہے کہ ایک بادشاہ معظم ایک غرب سے خوش ہوگیا اور اسے کہا کہ میں تم سے خوش ہوں تو نے میرا دل جیت لیا ہے، اب میری کرم عنایت دیکھ ،جا میری زمین میں سے جہاں تک تو دوڑ سکتا ہے دوڑ لے اور واپس میرے تک پہنچ جا،جتنی زمین کا تو احاطہ کرلے گا وہ تیری ہو جائے گی۔ اس شخص نے دوڑنا شروع کیا،بہت تیز دوڑ لگائی ایک مقام پر اسے بھوک لگی، اس نے کہا کہ زندگی میں کھانا ہر روز کھانا ہی ہے ،آج غنیمت ہے کہ کھانے کو قربان کرکے اپنے مستقبل کے لیے کچھ سنوار لوں ، اس نے قدم آگے بڑھا دیئے ،پھر اس کی ٹانگیں تھک گئیں، پاؤں جواب دینے لگے اس کے دل نے کہا کہ یہ تھکاوٹ روز روز تو نہ ہوگی آج جتنا زیادہ احاطہ کرلے گا اتنا ہی خوشحال رہے گا۔ اس نے ہمت کی اور بھاگتا رہا یہاں تک کہ سورج زمین سے آلگا اور غروب ہوگیا جب سورج غروب ہو رہا تھا یہ بادشاہ کے پاس پہنچ گیا اور اسکے قدموں میں گر کر اس دنیائے فانی سے رخصت ہوگیا خسر الدنیا والاخرة کی اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے؟
ان مثالوں سے غرض اس بات کو آشکار کرنا ہے کہ یہ مصیبت کس انداز سے، کس راستے سے آ رہی ہے تا کہ ہم اپنا لائحہ عمل طے کرتے وقت اسے مدنظر رکھ سکیں۔ پاکستان کے بارے میں جو نقشہ تیار ہو رہا ہے اس میں رزق حلال مفقود ، کوئی کتنا بڑا دیندار اگر کہے کہ وہ رزق حلال کما لے تو وہ نہیں کما سکے گا اور رزق اس کی دو وقت کی روٹی کا ذمہ تو اللہ نے لیا ہے لیکن وہ رزق حرام سے عیاشیاں کرے گا ،مسجدیں کلیساؤں کا منظر پیش کریں گی اورشاید وہ اسی طرح ویران ہو جائیں جس طرح روس میں ویراں ہوگئیں ۔یہ بات بڑی بعید نظر آتی ہے لیکن سارا دن رزق کی تلاش میں سرگردان رہنے والے رات کو تفریح کیلئے کیبل اورانٹرنیٹ پر ذہنی عیاشی سے دل بہلانے والے مسجد کا منہ کب دیکھیں گے۔ عورتیں ملازمت کریں گی، وہ دوپٹے تو اتار چکی ہیںاب مغربی طرز پر عریانی وفحاشی کا مظاہرہ ہوگا۔ نائٹ کلب کھلیں گے اور شراب کا دور دورہ ہوگا۔ مغربی معاشرے میں اور پاکستان معاشرے میں کوئی سرموفرق بھی نہ رہے گا۔ اور شاید وہ وقت بھی آجائے کہ جب کسی سے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے تو وہ لوگ کہیں کہ ہاں ہمارا پردادا اسی قسم کی حرکات کیا کرتا تھا۔ یہ باتیں ہوا میں نہیں کہی جارہی بلکہ ایسے تجربات ہوئے ہیں اور تاریخ میں ایسی مثالیں ہیں کہ جہاں مذہب کے پیشواؤں نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس نہ کیا تو خدا کی بات سچی ہوگئی کہ وہ کسی دوسری قوم کو تمہاری جگہ لے آئے گا ۔
غرض پاکستان کو سیکولر سٹیٹ بنانے کے تمام منصوبے بن چکے ہیں، ہوم ورک ہو چکا ہے ۔ یہ مستقبل کا فیصلہ ہوچکا ہے ،سوال یہ ہے کہ اے داعیان دین اسلام! اس سازش کا راستہ روکنے کے لیے تم نے کیا سوچا ہے ؟ اس منصوبہ بندی کو توڑنے کے لیے تم نے کیا پروگرام بنایا ہے؟ تمہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس کب ہوگا؟ اور کب قوم کو اپنا لائحہ عمل دو گے؟ کیا یہی لائحہ عمل ہے کہ ایک ہی برائی کے دو حصے سمجھ لیے جائیں اور بزعم خود ایک کو بڑی برائی کہہ لیا جائے اور دوسری کو چھوٹی برائی قرار دیا جائے اور چھوٹی برائی کو قبول کرلینے کو دین کا تقاضا اور اسلام کی تعلیم سمجھ لیا جائے۔ حیرت ہے ان حضرات کی دینی وفقہی بصیرت پر کہ وہ نیکیوں کے فروغ کی بجائے برائیوں کے فروغ میں لگے ہوئے ہیں ، خود اپنے ہاتھوں سے کنواں کھود رہے ہیں اور غیر مسلموں کی سازش کو مرحبا کہہ رہے ہیں، نیکیوں کا راستہ بنانے کی بجائے برائیوں پر اکتفا کیے بیٹھے ہیں۔
محترم علماء کرام! کہاں دوڑے جارہے ہو ، کسی آواز سننے کے لئے تیار نہیں، آپ وارثین انبیاء ہیں۔ قوم کو اس گرداب سے کون نکالے گا، خدا کے لیے اس کا راستہ بتائیے کہ ہم اس جال سے کس طرح نکل سکتے ہیں،زرداری،نواز شریف اور عمران خان کے ذریعے جو کفر مسلط ہوتا چلا آرہا ہے اور مسلمانوں کی بربادی کے فیصلے جو باطل کے ایوانوں میں ہو چکے ہیں ان کے مقابلے کا راستہ بتائیے۔سوال یہ ہے کہ ہم قوم کی راہنمائی کیوں نہیں کرتے؟ اپنے بچاؤ کے راستے کی بجائے اپنی بربادی کا راستہ کیوں اپنا یا جارہا ہے؟
ہم آواز دیتے ہیں ان کے نام لیواؤں کو، کہ جنہوںنے انگریز کے عزائم کو اپنے حجروں سے نکل کر خاک میں ملا دیا تھا؟ کیاآج امریکہ ویورپ کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لیے حجروں سے نہیں نکلنا ہو گا،کیا قربانی کے بغیر لادینی قوتوں کا راستہ روکا جاسکے گا؟ ہر گز نہیں، پھر تو میدان عمل میں نکل کر یہ نعرہ لگانا ہوگا کہ: اے دین برحق …!
تیرے غازی ، تیرے جانباز چلے آتے ہیں
آج جب ہم حجروں سے نکلنے کی بات کررہے ہیں تو ممکن ہے کئی حضرات کے دل تنگ ہوں کہ ہم حجروں میں نہیں بیٹھے ہوئے ۔ حجروں سے ہماری مراد محدود ماحول ہے کہ جس میں بیٹھ کر ہم اپنے پاس جام جم رکھنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک خطیب محترم ،ایک امام ذی وقار، امامت اور خطابت کو دین کی خدمت عظیم قرار دے رہا ہے لیکن اسکے ساتھ وہ اپنی مسجد کی انتظامیہ کے سیاسی ذہن کیخلاف بات نہیں کرسکتا اور مسجد کے خطبات ودرس میں اس معاشرے پر اور اس کی برائیوں پر تنقید نہیں کرتا کہ اس پر سیاست میں حصہ لینے کا الزام لگ جائے گا اور انتظامیہ چھٹی کرادے گی ۔اسی خوف سے وہ اپنے آپ کو محدود کیے ہوئے ہے۔ نوروبشر، حاضر و ناظر کے جھگڑوں میں پڑنا اس کے لیے آسان ہے لیکن عوام کی سیاسی ذہن سازی اس کے لیے مشکل ہے۔ اس طرح سرمایہ دار مسجدوں میں مسلط ہوگئے ہیں۔ یہ سب جانتے ہیں لیکن اس خ*ل سے باہر نکلنے کیلئے کوئی راستہ نہیں۔
ایک بار پھر بڑی ہی معذرت کیساتھ… کہ جس شخص نے اپنا رازق ان سرمایہ داروں کو سمجھ لیا ہے، جن کے چندے سے اس کی تنخواہ بنتی ہے اور حق بات کو چھپا لیا ہے۔ اسے امامت کا کوئی حق نہیں اور نہ خطابت کا ہی کوئی حق ہے۔ جسے خدا کے رازق ہونے پر یقین نہیں اور اپنی چند روپوں کی نوکری کے لیے حق بات چھپا رہا ہے وہ امام نہیں ملازم ہے ، خطیب نہیں کاروباری ہے ، اسے جان لینا چاہیے کہ خدا کا مقدس گھر کاروبار اور ملازمت کے لیے نہیں ہوتا۔
ہمارا منشاء اس سے یہ نہیں کہ سب لوگ اپنی مساجد چھوڑ دیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ سیاسی طور پر کسی جماعت کی حمایت سے عاری ہوں تو کم از کم اس معاشرے میں ہونے والی برائیوں کیخلاف لوگوں کو ابھاریں تو سہی اور سیاسی طور پر مکروہ چہروں اور مکروہ عزائم کیساتھ سامنے آنے والوں کی حیثیت اور عزائم سے تو لوگوں کو آگاہ کریں ، اسلام کی ڈالی گئی ذمہ داریوں کا احساس تو دلائیں اور امریکہ ویورپ کی سازشوں کو بے نقاب کریں۔ عوام کی ذہن سازی حکمت و تدبر سے کرتے رہیں تو پھر تبدیلی کی توقع ہو سکتی ہے۔
اسی طرح ہمارے مدارس عربیہ ہیں، ان کا طرز عمل اس سے مختلف نہیں ، اگر سیاسی میدان میں نکلیں تو زکوٰتیں بند ہو جاتی ہیں، معاونین بکھر جاتے ہیں اور پھر وہاں سیاست پر گفتگو ممنوع ہو جاتی ہے۔ صرف تعلیم کی رٹ لگائی جاتی ہے اور شاہین بچوں کو آزادی کی بجائے خاکبازی کا سبق مل رہا ہے کہ وہ محض اپنے ادارہ کی مصلحتوں کی خاطر سیاسی رائے کا اظہار نہ کریں کہ سرمایہ دار چندہ بند کردیں گے۔
خدارا یہ بتائیے کہ اس طرز عمل سے ہم دین پر ٹوٹنے والی مصیبتوں کا مقابلہ کرسکیں گے؟ ہم امریکہ ویورپ کے پروگراموں کو ناکام بنا سکیں گے؟ ملک میں کوئی تبدیلی لاسکیں گے ؟ اگر ائمہ مساجد اور مدارس اس قوم کی راہنمائی نماز، روزے، زکوٰة اور حج کے مسائل پر کرسکتے ہیں تو پھر امامت کبریٰ یعنی حکومت کی تشکیل، سیاسی نظام ، اقتصادی اصول اور معاشرتی ضابطوں کی طرف اسلام کے مطابق راہنمائی کیوں نہیں کرتے؟ بات پھر تلخ ہوگی کہ انہوں نے اسلام کو عیاشیت کا لبادہ اڑھا دیا ہے، مذہب وسیاست کی جدائی کا کلیسائی تصور کو اجاگر کیا ہے۔ جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ لوگ زیادہ سے زیادہ نماز کے لیے مسجد میں آئیں، لوگ زیادہ سے زیادہ زکوٰة ادا کرنے والے بن جائیں، زیادہ سے زیادہ علم دین حاصل کریں۔ ان کو یہ سوچ کیوں نہیں آتی کہ اسلام کا نظام عدل بھی رائج ہو جائے ، اسلام کا اقتصادی نظام لوگ قبول کرلیں اور حکومت بھی اسلام ہی کی ہو؟ اسلام نے جماعت کا فلسفہ دیا ہے اور کہا ہے کہ جماعت کیساتھ اللہ کی تائید شامل حال ہوتی ہے، پھر وہ جماعت میں آنا گوارہ کیوں نہیں کرتے اور جماعت سے نکل کر وہ کیا خدمت انجام دیں گے؟
بہر حال ملک میں الیکشن ہو جائیں گے کوئی جماعت اکثریت حاصل کرلے گی لیکن اصل کام تو الیکشن کے بعد شروع ہوگا، وہ کام کیا ہے؟ وہ امریکہ ویورپ کے پروگراموں کے خلاف ڈٹنے کا ہے۔ اپنے اندر اتحاد پیدا کرکے منظم ہو کر سیکولرازم کا راستہ روکنے کا ہے۔ اسمبلیوں میں اگر چند علماء پہنچے تو بھی عوامی میدان میں جدوجہد کا راستہ اپنانا ہوگا ۔پھر ہر مسجد سے ،ہر مدرسہ سے حق کی آواز بلند ہونی چاہیے اور اپنے مقام کو پہچاننا چاہیے ۔ورنہ آنے والا دور اس تیزی کے ساتھ تبدیلی لارہا ہے کہ اس میں ہم اور ہمارا نظریہ اگر جدوجہد سے خالی رہا تو تنکوں کی طرح بہہ جائیں گے ۔ لہٰذا ہم علماء کرام سے کہیں گے کہ جماعت کو اپنے اوپر لازم کرلیجئے، جماعت کے لیے اپنی توانائیاں صرف کیجئے اور قائد تحریک کے شانہ بشانہ چلئے اور علم وعمل کی زندگی بسر کیجئے … نہ محض علم پر تکیہ کیجئے ،نہ بغیر علم کے ٹامک ٹوئیاں مارئیے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

19/10/2023

واٹس ایپ چینل کالنک پیش خدمت ہے۔
اگرمناسب سمجھیں توFollowکردیں

حضرت شیخ الہند حمہ اللہ خطبہ صدارت میں علماء کوتلقین فرماتے ہیں : *۔۔۔۔۔۔''اگر تم کومیدان محشر میں خدا کے سامنے پیش ہونا...
18/10/2023

حضرت شیخ الہند حمہ اللہ خطبہ صدارت میں علماء کوتلقین فرماتے ہیں :
*۔۔۔۔۔۔''اگر تم کومیدان محشر میں خدا کے سامنے پیش ہونا ہے، اگر تم کو رسول پاک ۖ کی شفاعت کی آرزو ہے تو اس کے پاک دین کی حفاظت کرو، اس کے مقدس احکامات کی اطاعت کرو ، اس کی امانت توحید کو برباد نہ ہونے دو اور اس کی دی ہوئی عزت کو حقیقی عزت سمجھو۔ "
*۔۔۔۔۔۔ "اسلام صرف عبادات کا نام نہیں ہے بلکہ وہ تمام مذہبی ، تمدنی ، اخلاقی ، سیاسی ضرورتوں کے متعلق ایک کامل ومکمل نظام رکھتا ہے ۔جو لوگ زمانہ موجودہ کی کشمکش میں حصہ لینے سے کنارہ کشی کرتے ہیں اور صرف حجرہ میں بیٹھ رہنے کو اسلامی فرائض کی ادائیگی کیلئے کافی سمجھتے ہیں ،وہ اسلام کے پاک وصاف دامن پر ایک بدنما دھبہ لگاتے ہیں ،ان کے فرائض صرف نماز روزہ پر منحصر نہیں بلکہ اس کے ساتھ ہی اسلام کی عزت برقرار رکھنے اور اسلامی شوکت کی حفاظت کرنے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے ۔ ''

‏اسلام آباد: چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی کی وفدکےہمراہ قائدجمعیۃ کی رہائشگاہ آمد چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے قائد جمعیۃ م...
17/10/2023

‏اسلام آباد: چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی
کی وفدکےہمراہ قائدجمعیۃ کی رہائشگاہ آمد


چئیرمین سینٹ صادق سنجرانی نے قائد جمعیۃ مولانا فضل الرحمن سے ان کی خوشدامن کے انتقال پر اظہار تعزیت کیا۔اورمرحومہ کے بلند ی درجات کیلئےدعاکی۔

اس موقع پرسینیٹر عبدالقادر، سینیٹر دلاور خان، سنیٹرمولانا عبدالغفور حیدری، سنیٹر مولانا فیض محمد، اسلم غوری، سابق ڈپٹی سپیکرزاہد اکرم درانی بھی موجودتھے۔

قائدجمعیۃ کے دورہ بلوچستان کا شیڈول جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس صوبائی امیر مولانا عبدالواسع صاحب ...
17/10/2023

قائدجمعیۃ کے دورہ بلوچستان کا شیڈول

جمعیت علماء اسلام بلوچستان کی مجلس عاملہ کا اجلاس صوبائی امیر مولانا عبدالواسع صاحب کی صدارت میں صوبائی سکریٹریٹ کوئٹہ میں منعقد ہوا ، جس میں مجلس عاملہ کے ارکان نے شرکت کی ،اجلاس میں طے پایاکہ قائد جمعیت مولانا نا فضل الرحمن مدظلہ نے سابقہ شیڈول کے مطابق جے ٹی آئی کے زیرانتظام ڈاکٹر سرفراز شہید کانفرنس سے خطاب کرنا تھا ،تاہم فلسطین میں اسرائیل کی بربریت ، حماس کی تاریخی مزاحمت اور مسئلہ فلسطین کی اہمیت کے پیش نظر قائد جمعیت کےدورہ بلوچستان کے سابقہ شیڈول میں رد و بدل کیا گیا ، جس کے مطابق اب 29 اکتوبر کو ہاکی گراؤنڈ کوئٹہ میں صبح 11 بجے جمعیۃ علماء اسلام بلوچستان کے زیراہتمام طوفان اقصی کانفرنس اور 30 اکتوبر کو دن 12 بجے جنت پیلیس ہال میں جمعیۃ طلباء اسلام کے زیراہتمام ڈاکٹر سرفراز شہید کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔
یوم اقصی کانفرنس میں حماس کے راہنما اور فلسطینی نمائندہ بھی شرکت کریں گے ۔
اجلاس سے گفتگو کرتے ہوئے صوبائی امیر مولانا عبدالواسع صاحب نے کہا کہ طوفان اقصی کانفرنس تاریخی ہوگی ، انہوں نے کہا یہ کانفرنس حماس کی مزاحمت اور فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے مظالم کے خلاف اہلیان بلوچستان کی اظہار یکجہتی کی علامت ہوگی ، جمعیت علماء اسلام بلوچستان نے ماضی میں بھی قائد جمعیت کی آمد پر ہمیشہ فقیدالمثال ملین مارچ ، کانفرنسز اور جلسے منعقد کیے ہیں ہماری کوشش ہوگی کہ یہ کانفرنس ان سب سے بڑھ کر ہو ، تاکہ دنیا کے سامنے حماس کی مزاحمت اور فلسطین کے ساتھ اسرائیل کے غیر انسانی سلوک کو اجاگر کرکے انہیں اہلیان فلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا پیغام پہنچایا جاسکے ، اجلاس میں جمعیت علماء اسلام نے تمام اضلاع کو کو ہدایت جاری کیں کہ وہ طوفان اقصی کانفرنس کی تیاریوں میں تیزی لائیں اور تحصیل و یونٹ سطح تک طوفان اقصی کانفرنس کا پیغام عام لوگوں تک پہنچائیں ، اجلاس میں کانفرنس کی تیاریوں کےلیے حتمی مشاورت کے بعد مختلف انتظامی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔

Address

ادارہ الجمعیۃ راولپنڈی
Rawalpindi

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when AlJamiat posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to AlJamiat:

Videos

Share

Category