13/01/2025
حکمران عوام کی مشکلات کم کرنے اور مسائل حل کرنے کے لیے برسر اقتدار آتے ہیں عوامی مفاد مقدم جانا جاتا ہے عوامی فلاح و بہبود اور خوشحالی کے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہچایا جاتا ہے تاکہ ملک میں ترقی کا یپہہ تیزی سے گھومے جوکہ عوام کے روشن مستقل کا ضامن ہو اور عوام کا اپنے حکمرانوں پر اعتماد بڑھے ۔۔
لیکن بد قسمتی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اور اس میں بسنے والے 25 کروڑ ژندہ لاشوں کی جن کو قیام پاکستان سے لے کر تاحال نہ بنیادی حقوق ملے اور نہ ہی بنیادی مسائل حل ہوئے ۔
حکومتیں بدلتی رہی ۔۔نام نہاد جہموری دور بھی آیا اور مارشلا کا ڈنڈا بھی چلتا رہا مگر عوامی مسائل کی دلدل پھیلتی گئی اور عوامی مشکلات کی خلیج بڑھتی گئی
عوام نے جمہوری بچوں کو بھی اپنا مسیحا سمجھ کر ۔فلاں آوے آوے ہی ۔۔ساڈا لیڈر شیر اے۔ باقی سب ہیر پھیر اے ۔۔۔اور مرد مومن مرد حق
کے نعرے مستانے لگائے۔ مگر مقدر نہ بدلنا تھا نہ بدلا
چاروں صوبوں کی زنجیر میں بھی پاکستانی عوام کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر باندھا گیا
شیر اک واری پھیر کے سامنے ننگ ڈھرنگ جنتا کو ڈھیر کیا گیا
مگر مسائل کا طوق عوام کے گلے کا ہار بنا رہا ۔بحران جنم لیتے رہے ۔۔ان مسائل کا مستقل حل تلاش کرنے ۔۔بحرانوں کے اسباب کی بیخ کنی کرنے کی بجائے طوطا چشم پالیسی اختیار کرتے ہوئے ہر دور کے حکمرانوں نے اپنا دنگ ٹپانے کی کوشش کی
جوکہ ملک وقوم کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوا
پاکستان سب سے پہلے ۔۔کے پر کشش نعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے قوم نے آنکھیں بند کرکے ۔۔پرویز مشرف ۔۔مرحوم کا ساتھ دیا ۔۔
مگر افسوس عوام کے بنیادی مسائل پھر اڑدھا بن کر سامنے کھڑے تھے ۔۔
پھر ایک بار سلطانی جمہور کا زمانہ آیا ۔۔عوام نے ۔۔تیر اور شیر کی حکمرانی میں خود کو محفوظ سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے شریفوں اور زرداری کے دامن میں پناہ لی ۔۔
پھر قوم کو پتہ چلا کہ ایک بار پھر ان کے ساتھ ہاتھ ہوگیا ہے وہ جو عوام کا دکھ بانٹنے آئے تھے وہ تو مزید دکھوں کے پہاڑ تلے دفن کر گئے ہیں ۔۔
اسی اثنا میں پاکستانی عوام کے کانوں میں تبدیلی کی پر کیف اور پر سرور آواز رس گھولنے گی تو مستی کے عالم اور بے خودی کی کیفیت میں مرد و خواتین جوان اور بچے سبھی اس آواز کی طرف دوڑنے لگے ۔۔
پھر قوم نے تبدیلی کے دو تین سال دیکھے شکووں شکایات کا سلسلہ جاری تھا کہ تبدیلی کا نعرہ لگا کر وزیر اعظم بننے والے کا تختہ ہی الٹ دیا گیا
پھر سیاست قربان کرکے ریاست کو بچانے کا راگ الاپتے ہوئے ماضی میں ایک دوسرے کو سکیورٹی رسک کہنے والے آپس میں شیر و شکر ہو کر ایک پلیٹ فارم اکٹھے ہوگئے اور مل کر ریاست بچانے کے لیے کمر بستہ ہوگئے
اب تقریبا تین سال گزر چکے ہیں ۔تبدیلی کا نعرہ لگا کر گناہ کبیرہ کا مرتکب ہونے والا اڈیالہ جیل میں بیٹھا ہوا ہے
جبکہ تجربہ کار سیاست دان باجماعت قصر اقتدار میں موج مستیاں کررہے ہیں
ملک ترقی کی شاہراہ پر ڈور رہا ہے ۔۔ہر طرف چہل پہل ہے ریاست خوش ہے کہ ڈیفالٹ ہونے سے بچ گئی حکمرانوں کے بقول
عوام کے گھروں میں شہنائیاں بج رہی ہیں
جبکہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں
بجلی کے بل آسمان سے باتیں کررہے ہیں روز مرہ کی زندگی میں استعمال ہونے والی اشیاء خور نوش پہنچ سے دور ہو چکی ہیں ۔مسائل قطار در قطار ہر گھر کے آنگن میں پہاڑ بن کرکھڑے ہیں ۔مشکلات کی دیوی ہر در پر برہنہ پا رقص کررہی ہے ۔ چولہے ٹھنڈے اور پیٹ گرم ہو رہے ہیں ۔۔
شہری بجلی اور گیس کے بھاری بھر کم بل جمع کرانے کے لیے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی فروخت کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں
دو وقت کی روٹی اب ایک وقت پر بمشکل میسر آرہی ہے ہر شہری پریشان اور ہر چہرے پر پشیمانی کے آثار واضح دکھائی دیتے ہیں ۔۔
عوامی مشکلات سے نا واقف نا اہل حکمران ٹولہ کہہ رہا ہے کہ مہنگائی کم ہو رہی ہے عوامی مسائل میں کمی آرہی ہے
اب ان کو کون بتائے کہ قومی وسائل پر عیش کرنے والے بے حس اور مسخرے حکمرانوں کا جہاں اور ہے اور غربت کی آگ میں جلتے اور مہنگائی کی چکی میں پستے غریب عوام کا جہاں اور ہے
ان دونوں جہانوں میں زمین آسمان جتنا فرق موجود ہے
اقتدار کے سورج کو رات کا دکھ کہاں معلوم ۔۔
محمداسلم وٹو۔
03143580091
13/1/2025