Asim ali

Asim ali Follow my page for latest videos and updates

09/04/2024

عالمِ اسلام نے بہت سے عظیم الشان مجاہدین کو جنم دیا جو مظبوط ایمان ،اعلیٰ کردار اور بہادری میں بے مثال تھے ان میں سے ایک سلطان یوسف صلاح الدین بن نجم الدین ایوب رحمتہ اللّٰہ علیہ میرے پسندیدہ ہیں ۔بچپن سے کتابوں سے بے حد لگاؤ تھا عسکری تعلیم کی طرف کوئی لگاؤ نہیں تھا ۔والد اور اپنے چچا شیر کوہ کے اصرار پر تلوار بازی ،تیر اندازی اور گھڑ سواری کی تربیت حاصل کی مگر کتاب اور گوشہ نشینی کی طرف رغبت رہی ۔والد چھوٹی عمر میں دربار میں اپنے ساتھ لے کر جاتے تھے وہاں آہستہ آہستہ نور الدین زنگی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی توجہ حاصل ہوئی ۔نور الدین زنگی صلاح الدین کو اپنے بیٹے کر طرح محبت کرتے تھے اور ان کا خاص خیال رکھتے ۔نور الدین زنگی کے کہنے پر سپاہ گری کی طرف آۓ اور جلد ہی اپنی قابلیت کا لوہا منوایا ۔پھر اپنے چچا شیر کوہ کے ساتھ مصر کی مہم پر گںٔے ابتدا میں کچھ غلطیاں ہوتی تھیں مگر اس کے بعد ان کی قابلیت اور رجحان میں واضح انقلاب آیا۔ شیر کوہ مصر کے وزیر اعظم مقرر ہوئے مگر چند ماہ بعد ان کا انتقال ہوگیا ان کے بعد مصر کے خلیفہ العاضد نے یوسف صلاح الدین کو وزیراعظم مقرر کر دیا ۔اس وقت ان کی عمر بائیس تئیس برس تھی۔یہ ایک بڑی ذمہ داری تھی جو انہوں نے عمدہ طریقے سے ادا کی۔اس کے بعد نور الدین زنگی کے زیرِ اثر کںٔی اسلام دشمنوں کو زیرِ کیا ۔مصر میں صرف بیرونی دشمنوں سے نہیں بلکہ خطر ناک اندرونی سازشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔نور الدین زنگی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی وفات کے بعد کچھ سازشی امراء نے سلطان کے کم عمر بیٹے کو تخت نشین کر دیا تب امیرِ مصر نے خود مختاری کا اعلان کیا کیونکہ نور الدین زنگی کا بیٹا سلطنتِ اسلامیہ کے دشمنوں کے لیے کٹ پتلی بن گیا تھا اس لیے ضروری تھا کہ خودمختاری کا اعلان کیا جائے اس کے برعکس ان کے حکم کا پابند ہونا پڑنا تھا ۔اس کے بعد بھی ان کے مقصد میں بے شمار رکاوٹیں آئیں جو زیادہ تر اپنے ہی سازشی ،لالچی اور عیش پرست امراء کی پیدا کیں ہوئی تھیں ۔ صلاح الدین پر پانچ قاتلانہ حملے ہوئے ہر بار اللّٰہ تعالیٰ نے اس عظیم مجاہد کو محفوظ رکھا یہاں تک کہ اپنے مقدس مقصد میں کامیاب ہوئے ❤️
سیرز میں ان کا ابتدائی کردار بالکل صحیح دکھایا جا رہا ہے ❤️ امید ہے مصر کی وزارت ملنے کے بعد حقیقی رعب و جلال دیکھنے کو ملے گا ۔

Hero's forever!اس جیسا نشانہ باز نہ پہلے کوئی پیدا ہوا نہ کوئی آئندہ پیدا ہو گا فقیر کالا خان مری بلوچ صوفی تھے.انگریزوں...
27/05/2023

Hero's forever!
اس جیسا نشانہ باز نہ پہلے کوئی پیدا ہوا نہ کوئی آئندہ پیدا ہو گا
فقیر کالا خان مری بلوچ صوفی تھے.
انگریزوں نے 1870 میں جب بلوچستان پر حملہ کیا تو فقیر کالا خان نے تسبیح چھوڑ کر بندوق اُٹھائی۔ پھر مزاحمت کی تاریخ رقم کر ڈالی۔ موجودہ بلوچستان کے ضلع کوہلو کی تحصیل کاہان کیایک 1 پہاڑی پر انگریز آرمی کو چار سال روکے رکھے برٹش آرمی توپوں بندوقوں سے مسلح گھرا تنگ کرتی رہی مہینوں کے محاصرے سینکڑوں فوجیوں کی ہلاکت کے بعد پہاڑی پر قبضہ کیا گیا تو بھوک سے نڈھال کالا خان مری بلوچ اپنے دو ساتھیوں جلامی بلوچ اور رحیم علی بلوچ سمیت پکڑا گیا مقدمہ چلا
پھانسی کی سزا دی گی یہ تصویر 1891 میں پھانسی سے پہلے لی گی جس میں کالا خان مری بلوچ اپنے ساتھیوں سمیت پکڑا گیا
سوال یہ یے ہم اپنے ہیروز سے لا علم کیوں ہیں جان بوجھ کر انکی تاریخ قوم سے کیوں چھپائی گی ؟ ان پر فلمیں ڈرامے کیوں نہیں بنے ؟
کالا خان بلوچ کو پھانسی کے بعد کلکتہ جو تار بھیجا گیا اس میں لکھا تھا
اس جیسا نشانہ باز نہ پہلے کوئی پیدا ہوا نہ کوئی آئندہ پیدا ہو گا۔

برطانیہ میں ٹیپو سلطان کی تاریخی تلوار کو نیلامی کے لیے پیش کیا گیا جو 14 ملین پاؤنڈز میں فروخت ہوئی۔جنگ آزادی کے ہیرو...
26/05/2023

برطانیہ میں ٹیپو سلطان کی تاریخی تلوار کو نیلامی کے لیے پیش کیا گیا جو 14 ملین پاؤنڈز میں فروخت ہوئی۔

جنگ آزادی کے ہیرو، مزاحمت و بہادری کا استعارہ اور میسور کے ٹائیگر کے نام سے مشہور ٹیپو سلطان کی تلوار فنِ ثقافت اور اسلحہ سازی کی مہارت کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔

یہ تلوار 18 ویں صدی میں میسور کے حکمراں ٹیپو سلطان کے نجی کوارٹر سے ملی تھی۔

تاہم نیلامی کے منتظموں کو امید نہ تھی کہ تلوار کی قیمت اتنی لگ جائے گی تاہم بولی کا آغاز ہی کانٹے دار ہوا۔

ٹیپو سلطان کی یہ تلوار 14 ملین پاؤنڈز یعنی 4 ارب 93 کروڑ اور 90 لاکھ روپے میں فروخت ہوئی۔

اللّٰہ نے دودھ فروش کو نوازا ۔۔۔۔تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔۔۔۔ !بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر...
23/05/2023

اللّٰہ نے دودھ فروش کو نوازا ۔۔۔۔تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔۔۔۔ !
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد کے ڈائریکٹر ملک معراج خالد تھے۔ وائس چانسلر ہی کہہ لیجیے۔ میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں ایم اے انگریزی کے دوسرے سمسٹر کا طالب علم تھا۔یونیورسٹی نے فیسوں میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا۔ میں نے ملک معراج خالد کے خلاف ایک مقامی روزنامے میں کالم لکھ دیا۔ میں نے لکھا کہ ایک دودھ بیچنے والا ڈائریکٹر بن جاتا ہے تو اس کی گردن میں سریا آ جاتا ہے اور وہ اپنا ماضی بھول جاتا ہے۔ یاد نہیں اور کیا کچھ لکھا لیکن وہ بہت ہی نا معقول تحریر تھی۔
اگلے روز میں کلاس میں پہنچا تو ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ جناب ایس ایم رؤوف صاحب نے مجھے اپنے دفتر میں بلا کر کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہیں ڈائریکٹر صاحب نے طلب کیا ہے۔ مجھے خوب یاد ہے جب میں ان کے کمرے سے نکل کر جا رہا تھا تو انہوں نے غصے سے کہا: جنٹل مین گو اینڈ فیس دی میوزک۔
خیر میں ڈائریکٹر آفس کی جانب چل پڑا اور راستے میں یہی سوچتا رہا کہ یہ تو طے ہے آج یونیورسٹی میں میرا آخری دن ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ آج یونیورسٹی سے نکالا جاؤں گا تو گھر والوں سے کیا بہانہ بناؤں گا کہ کیوں نکالا گیا۔
وہاں پہنچا تو ڈائریکٹر کے پی ایس اسماعیل صاحب کو بتایا میرا نام آصف محمود ہے، مجھے ڈائریکٹر صاحب نے بلایا ہے۔ مجھے شدید حیرت ہوئی جب اسماعیل کے سپاٹ چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی اور کہنے لگے جائیے وہ آپ کے منتظر ہیں۔ لیکن اندر داخل ہوا توحیرتوں کے جہان میرے منتظر تھے۔ ملک صاحب اکیلے بیٹھے تھے۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا: سر میں آصف، آپ نے بلایا تھا؟
آپ ہی نے کالم لکھا تھا؟
جی سر میں نے لکھا تھا۔
تشریف رکھیے مجھے آپ سے کچھ باتیں کرنا ہیں۔۔۔۔اور میں جل تو جلال تو کا ورد کرتے ہوئے بیٹھ گیا۔
کافی دیر یونہی گزر گئی۔
ملک صاحب ولز کی ڈبیا گھماتے رہے۔ ایک ایک لمحہ اعصاب پر بھاری تھا۔ پھر ملک صاحب نے خاموشی کو توڑا اور کہا: کالم تو آپ نے اچھا لکھا لیکن آ پ کی معلومات ناقص تھیں۔ میں صر ف دودھ فروش نہیں تھا۔میرے ساتھ ایک اورمعاملہ بھی تھا۔ میں نے اسی لیے آپ کو بلایا ہے کہ آپ کی معلومات درست کر دوں۔ میں صرف دودھ نہیں بیچتا تھا۔ میرے ساتھ یہ مسئلہ بھی تھا کہ جوتے نہیں تھے۔ میں دودھ بیچ کر کالج پہنچتا اور سائیکل وہیں کھڑی کر دیتا۔ گھر میں جوتوں کا ایک ہی جوڑا تھا جو والد صاحب کے زیر استعمال تھا۔ اس کا حل میں اور میرے ابا جی نے مل کر نکالا۔ ہمارے درمیان یہ طے ہوا کہ صبح میں یہ جوتے پہن کر جایا کروں اور جب میں واپس آ جاؤں تو یہی جوتے پہن کر ابا جی چوپال میں جا کر بیٹھا کریں۔ اب ڈر تھا کہ سائیکل چلانے سے جوتا ٹوٹ نہ جائے۔ اس لیے میں انہیں سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا تھا۔جب دودھ گھروں میں پہنچا کر کالج کے گیٹ کے پاس پہنچتا تو جوتا پہن لیتا۔ واپسی پر پھر سائیکل کے ساتھ لٹکا لیتا اور ننگے پاؤں سائیکل چلاکر گھر پہنچتا۔
ملک صاحب پھر خاموش ہو گئے۔ یہ دورانیہ خاصا طویل رہا۔پھر مسکرائے اور کہنے لگے: سریے والی بات تم نے ٹھیک کہی۔ واقعی ،اللہ نے دودھ فروش کو نوازا تو اس کی گردن میں سریا آ گیا۔ بار بار دہراتے رہے: اللہ نے دودھ فروش کو نوازا لیکن اس کی گردن میں سریا آ گیا۔
پھر اسماعیل کو بلایا اور پوچھاکہ کیا قواعد و ضوابط کے مطابق میں فیس میں کیا گیا یہ اضافہ واپس لے سکتا ہوں۔اسماعیل نے کہا سر ڈائریکٹر کے اختیار میں نہیں ہے۔ کہنے لگے اختیار میں تو نہیں ہے لیکن اگر میں نوٹیفیکیش جاری کر دوں تو پھر؟ اسماعیل کہنے لگے: سر آپ نوٹی فیکیشن جاری کر دیں تو ظاہر ہے اس پر عمل ہو گا۔ملک صاحب نے کہا جلدی سے نوٹیفیکیشن بنا لاؤ، فیسوں میں اضافہ نہیں ہو گا۔ میں کمرے سے باہر نکلا تو اس حکم نامے کی کاپی میرے ساتھ تھی، دل البتہ وہیں چھوڑ آیا تھا۔
ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو ایس ایم اے رووف صاحب نے پوچھا، ہاں کیا ہوا؟ میں نے نوٹی فیکیشن آگے رکھ دیا، سر یہ ہوا۔ رووف صاحب کی آنکھوں میں جو حیرت تھی، مجھے آج بھی یاد ہے۔ آج اگر کوئی مجھ سے پوچھے: وائس چانسلر کیسا ہونا چاہیے؟ تو میں کہوں گا اسے ملک معراج خالد مرحوم جیسا ہونا چاہیے۔. آپ ملک کے اعلی ترین عہدے پر فائز رہے جب انتقال ھو ایک کرایہ کے مکان میں رھتے تھے اللہ تعالیٰ انکو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین
منقول

19/05/2023

بی یم ڈبلیو (BMW) دنیا کی بہترین کار ساز کمپنی کی تاریخ!!
جرمنی کی لگژری کاریں تیار کرنے والی کمپنی بی ایم ڈبلیو اپنے قیام کے سو سال منا رہی ہے۔ تاہم معروف ترین کار ساز اداروں میں شمار ہونے والی بی ایم ڈبلیو کمپنی نے 100 سال میں بہت سے اتار چڑھاؤ بھی دیکھے ہیں۔
جرمن شہر میونخ میں قائم بی ایم ڈبلیو کے ہیڈکوارٹرز میں اس دن کے موقع پر خصوصی تقریب منتعقد کی گئی ہے۔ میونخ میں اس کمپنی کے ہیڈکوارٹر کے علاوہ وہاں ایک بڑا پلانٹ اور میوزیم بھی موجود ہے۔ اس جنوبی شہر میں بی ایم ڈبلیو سب سے بڑی پرائیویٹ ملازمت فراہم کرنے والی کمپنی ہے اور یہاں اس کے ملازمین کی تعداد 41,000 ہے۔
پہلی عالمی جنگ کے دوران شروع ہونے والی یہ کمپنی اب ایک بین الاقوامی کمپنی بن چکی ہے۔ اس وقت BMW کے پلانٹس دنیا کے 14 ممالک میں موجود ہیں جبکہ اس کے ملازمین کی مجموعی تعداد 116,000 سے زائد ہے۔ بی ایم ڈبلیو کی سالانہ فروخت 80 بلین یورو ہے جو 88 بلین امریکی ڈالرز کے برابر بنتی ہے۔ آج بی ایم ڈبلیو کاروں کے علاوہ موٹر سائیکل بھی بناتی ہے اور اس کمپنی کے برانڈز میں رولس رائس اور مِنی بھی شامل ہیں۔
اس وقت کارساز صنعت کے بڑے ادارے بی ایم ڈبلیو نے 17 مارچ 1916ء میں جرمنی کی ’باویرین ایئرکرافٹ فیکٹری‘ میں جہازوں کے انجن بنانے سے آغاز کیا تھا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد جب شکست خوردہ جرمنی پر پابندی عائد کر دی گئی کہ وہ جہاز تیار نہیں کر سکتا تو اس کمپنی نے 1922ء میں اپنا نام تبدیل کر کے Bayerische Motoren Werke رکھ لیا جس کا مطلب ’باویرین انجن فیکٹری‘ بنتا ہے۔
بی ایم ڈبلیو نے پروپیلر کی شکل کا لوگو اپنایا جس کا مقصد ایرو اسپیس کی صنعت سے اپنے آغاز کو خراج تحسین پیش کرنا تھا۔ کمپنی کی تاریخ مرتب کرنے والے بی ایم ڈبلیو کے ہی تاریخ دان مانفرڈ گرونرٹ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’بی ایم ڈبلیو اس وقت جس حوالے سے شہرت رکھتی ہے، یعنی کار سازی یہ اس کی ترجیحات میں سب سے آخر میں شامل کی گئی۔‘‘
1923ء میں بی ایم ڈبلیو نے اپنا پہلا موٹر سائیکل بنایا تاہم اس نے کار سازی کی ابتدا 1928ء میں کی۔ 1930ء کی دہائی میں اس نے اپنے ڈیزائن متعارف کرائے جن میں 326 لیموزین اور 328 روڈسٹر وغیرہ شامل تھے۔
جرمنی میں جب نازی طاقت میں آ گئے تو اس کمپنی نے ایک بار پھر جہازوں کے انجن تیار کرنا شروع کر دیے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد جب جرمنی تباہ و برباد ہو چکا تھا تو بی ایم ڈبلیو نے گھریلو استعمال کی چیزیں تیار کر کے گزارا کیا۔ 1948ء میں ایک بار پھر موٹرسائیکل سازی اور 1952ء میں کار سازی کی ابتدا کی گئی۔
تاریخ دان گرونرٹ کے مطابق ’’1950ء کی دہائی میں کمپنی شدید مالی مشکلات کا شکار رہی۔۔۔ بی ایم ڈبلیو نے جرمنی کے بعد از جنگ معاشی معجزے میں شرکت نہیں کی۔‘‘
1959ء میں یہ گروپ اپنی حریف کمپنی ڈائملر بینز کے ہاتھ فروخت ہونے کے قریب ہی تھا جب اس کمپنی کے حصہ داروں کے ایک گروپ نے یہ فیصلہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ انہی میں سے ایک ہیربرٹ کوانڈٹ Herbert Quandt نے جو ایک معروف صنعت کار کے بیٹے تھے، بی ایم ڈبلیو کو بچانے کے لیے آگے بڑھے اور اس میں بڑی سرمایہ کاری کی۔ گرونرٹ کے بقول۔، ’’ان کی مدد کے بغیر بی ایم ڈبلیو آج محض ڈائملر کی ایک فیکٹری ہوتی۔‘‘ خیال رہے کہ ڈائملر بینز ہی دراصل مرسیڈیز کاریں تیار کرتی ہے۔ اس کے بعد بی ایم ڈبلیو مسلسل کامیابیوں کی منزلیں طے کرتی چلی گئی۔۔ اور آج دنیا بھر میں اپنی لگژری کاریں بنانے کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے۔

07/02/2023

فرسٹ پاکستان

وہ سید گھرانے میں پیدہ ہوا..
کہتے ہیں جب پاکستان بنا تھا تب اسکے والد ایک اعلیٰ سرکاری افسر کے ماتحت تھے اور جب تقسیم کا عمل شروع ہوا تو اسکے والد کو ایک ذمہ داری سونپی گئی کہ بھارتی لوٹ مار سے بچاتے ہوئے ایک خطیر رقم پاکستان پہنچانی تھی...
یہ ذمہ داری اسکے والد نے اپنی اہلیہ کے ساتھ مل کر احسن طریقے سے نبھائی...

عالم اسلام سے وفا اسکے خمیر میں شامل تھی اور جرات و بہادری میں اپنی مثال آپ تھا...

1965 کی جنگ میں وہ سیالکوٹ سیکٹر پر توپ خانے کا انچارج تھا...
دوران گولہ باری دشمن کی توپ کا گولہ ٹھیک ایک پاکستانی توپ پہ آن گرا جسکی وجہ سے اس توپ کا مختصر عملہ موقع پر ہی شہید ہوگیا اور توپ کو دھیرے دھیرے سے آگ لگنے لگی، پاس ہی اسی توپ کا ایمونیشن موجود تھا اگر آگ اس ایمونیشن تک پہنچ جاتی یا آگ کی تپش سے وہ ویمونیشن پھٹ جاتا تو قوئ امکان تھا اس محاذ پر موجود سارا توپ خانہ فنا ہوجاتا...
ایسی گھمبیر صورتحال کے پیش نظر جب اس جگہ کے سارے جوان اپنی جان بچانے کی حکمت عملی کے تحت بھاگ کھڑے ہوئے تب اسنے سب سے پہلے بھڑکتی آگ کے اندر سے سب سے پہلے اس توپ کے شہید عملے کے جسد خاکی کو آگ کی تپش سے محفوظ مقام پہ منتقل کیا اور پھر اپنی شرٹ اتار کر ہاتھوں کو لپیٹ کر گرم دہکتے ہوئے بھاری بھرکم ایمونیشن کو اور مقام پہ منتقل کیا تاکہ مزید توپیں تباہ نہ ہوں...

کرنا تو یہ چاہیے تھا کہ اسے اس کے اس عظیم کارنامے پہ اعزازات سے نوازا گیا جاتا پر اسنے کریڈٹ لینے سے انکار کردیا اور اسے اپنے فرض کا حصہ قرار دیا...

اسکے بعد ایس ایس جی جیسے قابل فخر شیروں کے جتھے کا فخر بنا اور رب العالمین نے اسے ایسے شرف سے نوازا کہ پوری امت مسلمہ اس کی اس خوش بختی پہ عش عش کر اٹھی...
خانہ کعبہ میں ابراہا کے لشکر ایک بار پھر گھس چکے تھے اور پوزیشنز کے حساب سے بہت سیف تھے جنہیں ملت اسلامیہ کی فورسز کا کوئی بھی دستہ ہٹ نہ کر سکا...

آخر یہ سعادت پاکستان کی ایس ایس جے کے نصیب میں آئی اور تب وہ اس اس سعادت میں شامل غازیوں کا کپتان تھا...
اور اسکی حکمت عملی نے ایسا تاریخ ساز آپریشن کیا کہ بنا خون کا ایک قطرہ بہائے اور بنا حرم پاک کے تقدس کو پامال کئے اسنے ابراہا کے عزائم کو نیست و نابود کیا...

پھر وہ کامیابی سے افواج پاکستان میں رہتے ہوئے ترقی کی منزلیں طے کرتا گیا اور ایک وقت آیا کہ وزیراعظم کی منشا کے برخلاف کشمیر حاصل کرنے کے لیے کشمیر میں افواج گھسا دیں اور خود چیف آف آرمی سٹاف ہونے کے باوجود قیادت کرتے ہوئے دو دن بھارتی حدود میں گزارے...

اسکا ایک احسان پاکستان پر یہ بھی ہے کہ سری لنکا میں بھارتی ایما پر تامل ٹائگرز تقریباً ستر فیصد تک قبضہ کر چکے تھے... اسنے سری لنکن قیادت کے ساتھ پچاس سالہ دفاعی معاہدہ کیا جس کے تحت سری لنکا کا ایک بہت بڑا جزیرہ پاکستان عسکریوں کے زیر انتظام رہے گا جس میں یہ اپنے زمینی، فضائی اور بحری اڈے قائم کریں گے جو کہ بھارت کی بالکل پیٹھ پہ ہے اگر بھارت پاکستان پہ حملہ کرتا ہے تو...

یہ چیز اس وقت کے وزیر اعظم کے آقاؤں کو بری لگی اور اسنے چیف آف آرمی سٹاف کو برطرف کرنے کی ناکام کوشش کی...

ملکی قیادت اسنے اس طرح سے سنبھالی کہ لوگوں کو انتشار سے بچایا اور نہ ہی فوج کو سڑکوں پر گشت کرایا...

صنعت و زراعت میں ملکی عوام کو خوشحال کرتا چلا گیا اور اس وقت کی سب سے بہترین سروس 1122 شروع کرائی جسکے جوان آج بھی دن رات دیکھے بنا عوام الناس کی خدمت کی خاطر چاک و چوبند نظر آتے ہیں...

جب امریکہ نے افغانستان پہ حملہ شروع کیا تو وہ اس میں پاکستان کو بھی ساتھ نشانہ بنانا چاہتا تھا مگر اسکی بھیڑیے والی حکمت عملی کہ "گھیر کر مارنا" اتنی کامیاب رہی کہ بیس سال تک امریکہ اسے اپنا بندہ سمجھتا رہا اور جب جنگ ہار کے نکلا تب اسے پتہ چلا کہ ہمارے ساتھ اس جرنیل نے ہاتھ کردیا...

ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے دوست ڈاکٹروں کے ساتھ افغانستان میں میڈیکل کیمپ چلا رہی تھیں، ڈاکٹر عافیہ صدیقی میڈیکل کی نہیں بلکہ الیکٹریکل سائنس کی ڈاکٹر ہیں جو اس وقت اپنے حلقہ احباب کے ساتھ افغانستان میں فلاح کی خاطر موجود تھیں اور وہیں سے سی آئی اے کے ایجنٹوں نے انہیں اغوا کر لیا جسکا الزام اس ہیرو پہ ڈالا جاتا ہے...

اسنے خوارج کے خلاف اس وقت سب سے پہلے جہاد شروع کرایا جب ہمارے علما ان خوارج کو اپنا دینی بھائی کہتے تھے اور انکی مزموم حرکتوں "بم دھماکوں، سکولوں، بازاروں میں دہشت گردی کے حملوں کو اسلام نافذ کرنے والے قرار دیتے تھے...
اسنے اس وقت لال مسجد" جو مسجد ضرار طرز کی تھی"
پہ آپریشن شروع کیا جب وہ کھلم کھلا عام لوگوں کو اصلاح کی خاطر انکا قتل عام کرنے کا درس دیتے تھے...

اس نے اس وقت پاکستان کو بچایا جب بے نظیر بھٹو کا قتل ہوا اور پوری بھارتی افواج پاکستانی بارڈر پہ حملے کی منتظر تھی اور امریکہ افغانستان کی طرف سے اور اندر سے یہ سازش رچائی گئی کہ لوگوں کو افواج پاکستان کے خلاف مشتعل کیا گیا تاکہ فوج و عوام آپس میں دست و گریباں ہوں اور انہیں پاکستان پہ حملے کا موقع ملے جسکی پلانگ مشہور ہالی وڈ مووی "دی جی آئی جیوز" میں دیکھی جا سکتی ہے....

اسنے نواب اکبر بگٹی کا اس وقت کریک ڈاؤن کیا جب بلوچستان کی علیحدگی کے لیے اسنے بھارت سے بھاری امداد لی....

اسکے کارناموں سے نظریں چرا کر اسے ہمیشہ اپنی جہالت اور زاتی عناد کی بنا پر ہمیشہ اسکی تزلیل کی گئی اور ہماری عوام جو کہ ہمیشہ ٹرک کی بتی کے پیچھے چلنے میں ماہر ہے اس عظیم ہیرو کے کارناموں کو سراہنے کی بجائے اسکی وفات سے متعلق جو جو لغویات بکنے میں مشغول ہے وہ سب اللہ دیکھ رہا ہے...

اور اس سب سے ہمارے عظیم غازی جرنیل کو رتی برابر فرق نہیں پڑتا....

اے عظیم انسان ہم تجھے سلام پیش کرتے ہیں اور یہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ رب العالمین تجھ سے راضی رہے اور ہم بھی تجھ سے راضی ہیں....

گوک بورو

سعودی عرب کی وادی بیضا ءالمعروف وادی جن سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی جانب 35کلو میٹر کے فاصلے پر وا...
29/01/2023

سعودی عرب کی وادی بیضا ءالمعروف وادی جن

سعودی عرب کے مقدس شہر مدینہ منورہ سے شمال مغرب کی جانب 35کلو میٹر کے فاصلے پر واقع مقام ’’وادی جن‘‘ جنس و نسل کی قید سے آزاد ہر فرد کو اپنی طرف متوجہ کئے ہوئے ہے۔ یوں تو عرب کے تپتے صحراؤں میں بچھا ہوا سعو دی عرب، ہر مسلما ن کے لئے تاریخی اور مذہبی حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے مگر ہر سال یہاں حج و دیگر ایام میں بھی عمرہ کی ادائیگی کے لئے دنیا بھر سے آنے والے لاکھوں مسلمانوں کے لئے اپنے مذہبی فرائض کی انجام دہی کے علاوہ پر سرار’’وادی جن‘‘ کو دیکھنا اور اس کی حقیقت کے بارے میں جاننے کی جستجو اپنی جگہ موجود رہتی ہے۔ وادی جن کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ یہاں آپ اگر اپنی گاڑی کے انجن کو بند کر دیں اور اس کے گیئر کو نیوٹرل پر رکھ دیں تو آپ کی گاڑی خود بخود 120کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چڑھائی پر چلنا شروع ہو جاتی ہے اور یہ سلسلہ 14کلو میٹر تک مسلسل جاری رہتا ہےماہرین کا کہنا ہے کہ کشش ثقل کی مخالف سمت میں حرکت کا گہرائی سے جائزہ لیاگیا۔ وہ وادی بیضا ھدا اور عمان میں صلالہ کے قریب مقامات کا متعدد مرتبہ دورہ کرکے جائزہ لے چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشش ثقل کی مخالف سمت میں حرکت کا بغور مشاہدہ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ ان مقامات میں کشش ثقل کی کمی نہیں بلکہ یہ چیزیں نظر کے دھوکے کے ضمن میں آتی ہیں۔جغرافیائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہمیں دیکھنے میں لگتا ہے کہ گاڑی نشیبی علاقے سے اوپر کی جانب سے جارہی ہے حالانکہ یہ جغرافیائی نظر کا دھوکہ ہے۔ جس طرح صحراء میں مسافر سراب دیکھتا ہے اسی طرح اسے نظر آتا ہے کہ اشیاء مخالف سمت حرکت کررہی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل مظہر عباس خان صاحب کے فیس بک پر ایک تحقیقی آرٹیکل "وادی جن کی سائنسی حقیقت فریبِ نظر" پڑھا تھا (مصنف کون ھے؟ معلوم نہیں) جس کے مطابق "اس سے قبل کہ میں اس کی سائنسی حقیقت سے آگاہ کروں میں مقناطیسی پہاڑوں (Magnetic Hills) کے بارے میں بتانا چاہوں گا ان پہاڑوں کو گریویٹی ہلز Gravity Hills بھی کہا جاتا ہے یہ پہاڑ عربی میں تلۃ مغناطیسیۃ کہلاتے ہیں
مقناطیسی پہاڑوں کو پراسرار پہاڑ بھی کہا جاتا ہے یہی وہ سیاہی مائل پہاڑ ہیں جو نظروں کو دھوکے میں ڈالتے ہیں اسی کی وجہہ سے التباس بصارت پیدا ہوتی ہے
اس کو انگریزی میںOptical illusion کہا جاتا ہے اس کو عربی میں خداع بصری اور فارسی میں خطا ی دید کہا جاتا ہے یعنی ان پہاڑوں کی مقناطیسیت کے باعث اشیاء اپنی حقیقی صورت میں نظر نہیں آتیں یعنی یہ علاقہ انسانوں میں فریب نظر پیدا کرتا ہے نظروں کو فریب دینے والے یہ پہاڑ صرف وادی جن ہی میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے بہت سارے مقامات پر موجود ہیں خود ہندوستان کے دو علاقوں میں ایسے پہاڑ موجود ہیں جو نظروں کو فریب میں مبتلا کردیتے ہیں اور سڑک کے در حقیقت ڈھلان کو اونچائی میں ظاہر کرتے ہیں جس کی وجہہ سے سڑک کا حقیقی ڈھلان بھی اونچا دکھائی دیتا ہے چونکہ اونچی دکھائی دینے والی سڑک پر موٹر گاڑی بند ہونے کے باوجود چڑھتی چلی جاتی ہے اسی لئے اس کو دنیا جنوں کی حرکت قرار دیتی ہے
ہندوستان میں علاقہ لداخ کے مقام لیہہ (Leh) سے تقریباً 50 کلو میٹر دور سمندر سے 11000فٹ کی اونچائی پر موجود لیہہ کارگل سری نگر ہائی وے پر یہ علاقہ ہے جہاں انجن کے بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی اونچائی پر چڑھ جاتی ہے اور کچھ لمحوں بعد تیزی اختیار کرکے بھاگنے لگتی ہے
ہندوستان کی ریاست گجرات کے علاقہ تلسی شیام Tulsishyam ضلع امریلی (Amreli)میں بھی گذشتہ برسوں ایسی سڑک دریافت ہوئی ہے جہاں گاڑی کا انجن بند ہونے کے باوجود موٹر گاڑی کشش ثقل کے برخلاف Up Hillپر چڑھنے لگتی ہے
Lake Wales فلوریڈا میں Spook Hills ہیں جنہیں Magnetic Hills کہا جاتا ہے
اس علاقے میں بھی اشیاء الٹی جانب جاتی ہیں اسی لئے امریکہ کی عوام انہیں بد روحوں کا مسکن یعنی Spook Hillکہتی ہیں
کینڈا میں نیاگرا آبشار کے قریب Ontario کے Burlington میں بھی ایسے پہاڑ واقع ہیں جہاں کی سڑکوں پر موٹر کار الٹی جانب یعنی نشیب سے فراز کی جانب سفر کرتی ہے
رچمنڈRichmond آسٹریلیا کے Mountain Bowen روڈ پر ایسے پہاڑ موجود ہیں جہاں قدرت کی نشانیوں کو دیکھا جاسکتا ہے تاکہ اس کی خلاقی پر ایمان لاسکیں
اس سڑک پر صرف 50 میٹر کا علاقہ ہی ایسا ہے جہاں موٹر گاڑی اونچائی کی جانب چلنے لگتی ہے
ان کے علاوہ امریکہ کے علاقہ Shullsburg, Wisconsin کے مقناطیسی پہاڑ، یونان کے MountPenteli اسکاٹ لینڈ کے Electric Brae پہاڑ،مشی گن امریکہ کا Mystery Spot وغیرہ بھی شہرت رکھتے ہیں
دنیا کے سینکڑوں مقامات پر ہمیں ایسے پہاڑ مل جائیں گے جہاں نظروں کا دھوکا حقیقت کو بدل دیتا ہے اور سچ جھوٹ کے پردے میں گم ہو جاتا ہے
جس کی وجہہ سے ڈھلان سڑک بھی اونچی دکھائی دینے لگتی ہے اور عام آدمی کو اچھنبے میں ڈال دیتی ہے
میں یہاں بالخصوص ایک جدید سائنسی تجربے کا ذکر کرون گا جو ہمارے ذہنوں کو کھول کر اس میں حقیقت شناسی کے جذبے کو بھر دیتا ہے یہ تجربہ عراق کی سلیمانی یونیورسٹی میں کیا گیا عراق کی ایک ریاست خردستان ہے جہاں کے علاقہ کویا (Koya) میں بھی ایسے پہاڑ موجود ہیں ان پہاڑوں پر سلیمانی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر Perykhan M.Jaf نے تحقیق کی اور ثابت کیا کہ کسی بھی Magnetic Hillsکے اطراف موٹر گاڑی کی کشش ثقل کے خلاف محیر العقل حرکت نظروں کا دھوکہ ہے ان کے پیش کردہ مقالے میں کافی وضاحت سے التباس بصری اور مقناطیسی پہاڑوں کو سمجھایا گیا اس محقق نے کئی اقسام کے التباس بصری یعنی فریب نظر کا ذکر بھی کیا ہے جو ہماری عام زندگی سے متعلق ہیں جیسے Illusions of length اور Illusions of shape وغیرہ
مدینہ کی وادی جن عجیب و غریب خوبصورتی رکھنے والی جگہ ہے
گول پہاڑوں سے گھرا ہوا یہ علاقہ زائد از سات میل کے علاقے پر پھیلا ہوا ہے یعنی اس علاقے کی سات کلو میٹر لمبی سڑک ہمیں فریب نظر میں مبتلا کرتی ہے ایسی خصوصیت رکھنے والی اس قدر لمبی سڑک دنیا کے دوسرے مقامات پر بہت کم دکھائی دیتی ہے
وادی میں سڑک کی آخری حد تک جانے کے لئے موٹر گاڑیاں بڑی زور آزمائی کے ساتھ گذرتی ہیں
یہاں غور کرنے کی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر آنکھوں کو ڈھلان دکھائی دینے والی اس سڑک پر موٹر گاڑی یا بس (Bus) کے انجن کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے جو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ ڈھلوان دکھائی دینے والی سڑک در حقیقت ڈھلوان نہیں ہے اور جب وادی کی آخری حد سے یہ بس پلٹتی ہیں تو بس کا ڈرائیور موٹر گاڑی کے انجن کو چالو رکھتاہے لیکن ایکسلیٹر (Accelerator)سے پاؤں اٹھا لیتاہے گاڑی نیوٹرل گیر(Neutral Gear) میں آگے بڑھتی چلی جاتی ہے یعنی دوسرے الفاظ گاڑی کا انجن بند ہوتا ہے لیکن گاڑی چلتی رہتی ہے اور یہ یقیناً تعجب خیز بات ہے کہ ایکسلیٹر پر پاؤں کا دباؤ نہ ہونے کے باوجود گاڑی سڑک کے نشیب و فراز میں تیزی سے آگے بڑھتی جاتی ہے رفتہ رفتہ بس(Bus) کی رفتار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے یہ خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ بس (Bus) کی رفتار ایک مرحلے پر ایک سو پچاس تک پہنچ گئی تھی اور ڈرائیور کے پیر ایکسلیٹر پر رکھے ہوئے نہیں تھے بلکہ وہ اپنے پیروں کو سکوڑ کرسیٹ پر رکھے ادب سے بیٹھا اسٹیرنگ کنٹرول کر رہاتھا
ہاں کبھی کبھی جب رفتار حد سے بڑھ جاتی تو ڈرائیور کے پیر بریک پر پہنچ جاتے اور وہ گاڑی کے بریک لگا دیتاتاکہ گاڑی قابو میں رہے
نظروں کا دھوکہ Optical illusion دراصل حسی تجربات یا حس کو سمجھنے کی غلطی کا نتیجہ ہیں یعنی دکھائی دینے والی شئے سے متعلق آگاہی (Perception) کی غلطی غیر حقیقی صورت حال کو پیدا کرتی ہے وادی جن میں بھی انسانی دماغ کی ادراکی صلاحیت حقیقت سے بعید ہوجاتی ہے آنکھوں کے ذریعہ حاصل کی جانے والی معلومات کا جب دماغ میں تجزیہ انجام پاتا ہے تو دماغ اور آنکھوں کے مابین کشمکش بصری قوت پر اثر انداز ہوتی ہے اور ان مقناطیسی پہاڑوں سے نکلتی لہروں کے جلو میں انسان تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے اس کا ادراک صحیح فیصلہ نہیں کرپاتا کہ وہ کیا دیکھ رہا ہے اور وہ بالآخر غلط دیکھنے لگتا ہے وادی جن میں بھی یہی اصول کارفرما ہے علاوہ اس کے اس علاقے میں پائے جانے والے مقناطیسی پہاڑوں کے پھیلاؤ اور رفعت کے باعث افق (Horizon) واضح نظر نہیں آتا جو انتشار بصری کی اہم وجہ ہے
Horizon
یعنی وہ واضح خط جو زمین کو آسمان سے جدا کرتا ہے اسی لئے اس علاقے میں سڑک ڈھلان ہونے کے باوجود بھی اونچائی کی طرف جاتی ہوئی نظر آتی ہے
اس کیفیت سے انسان عجیب عقیدت میں ڈوب جاتا ہے اور ان پہاڑیوں پر اس کو اللہ کے حروف دکھائی دینے لگتے ہیں
کہیں بظاہر ایسا محسوس کرنے لگتا ہے جیسے پتھر سجدہ ریز ہیں
نظر کے اس دھوکے کو طبعیات کے سادہ اصولوں سے بآسانی سمجھا جاسکتا ہے ہم زندگی میں نظروں کے دھوکے کی کیفیت سے کئی ایک بار دو چار ہوتے ہیں جیسے اونچا درخت جو کھڑا ہوا ہے لمبا دکھائی دیتا اگر اسی درخت کو کاٹ کر زمین پر رکھ دیں تو زمین پر رکھا ہوا درخت نسبتاً چھوٹا دکھائی دیتا ہے جہاں تک وادی جن مدینہ المنور کی بات ہے نہ صرف سائنسداں بلکہ عام افراد نے بھی اس کی حقیقت جاننے کے لئے تجربات کئے ہیں
اگر ہم گوگل ارتھ کے ذریعہ اس علاقے کا مشاہدہ کریں تو ایسی خصوصیت رکھنے والی یہ سڑک تقریباً 7کلو میٹر لمبی نظر آئے گی
اور ان 7 کلو میٹر فاصلے کے دوران سڑک کے ڈھلان کا زاویہ 11.5 ڈگری ہو گا اور سڑک کے دونوں حدوں کے بیچ 310 میٹر ڈھلان موجود ہو گا لیکن واہ رے قدرت کہ اس قدر ڈھلان کے باوجود انسانی آنکھ کو یہ ڈھلان اونچائی بن کر دکھائی دیتا رہتا ہے اسی لئے ایسی وادیاں یا وادی جن مافوق الفطرت اور پراسرار قوتوں کا مرکز دکھائی دیتی ہیں

قدرت کے فیصلے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں یہ صاحب اسلام کے کٹر مخالف تھے اور آج ان کا شمار 2023ء کی بااثر ترین مسلم ش...
27/01/2023

قدرت کے فیصلے بڑے عجیب ہوتے ہیں۔ ایک وقت میں یہ صاحب اسلام کے کٹر مخالف تھے اور آج ان کا شمار 2023ء کی بااثر ترین مسلم شخصیات میں ہونے لگا ہے۔ یہ دنیا کے گنے چنے عظیم مسلم مفکرین میں سے ایک ہیں۔پروفیسر جویل ہایوارڈ Joel Hayward کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ یہ 1964ء میں نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں پیدا ہوئے۔ جہاں مسجد پر حملہ ہوا تھا اور 50 نمازی شہید ہوئے تھے۔ University of Canterbury سے ماسٹر اور Massey University سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد نیوزی لینڈ کے فوجی ادارے Officer Cadet School میں استاذ لگ گئے۔ پھر 2014ء میں برطانیہ کے مشہور فوجی ادارے Joint Services Command and Staff College میں استاذ مقرر ہوئے۔ ایک سال بعد ہی انہوں نے اسلام قبول کرلیا اور UK Armed Forces Muslim Association کا رکن بن گئے۔ 2012ء میں امارات منتقل ہوئے اور خلیفہ یونیورسٹی ابوظبی میں International and Civil Security کے پروفیسر ہیں۔ ان کا شمار جامعہ کے بہترین اساتذہ میں ہوتا ہے۔ پروفیسر صاحب نے کئی اہم کتابیں لکھی ہیں۔ صرف نبی کریمؐ کے جہادی معرکوں پر 17 کتابیں لکھ چکے ہیں۔ ان کی تازہ کتاب گزشتہ برس شارجہ کتب میلے میں سب سے زیادہ تعداد میں فروخت ہوئی۔ اس کتاب کا نام ہے:
The Warrior Prophet: Muhammad ﷺ and War
اس پر امریکی اخبارات میں بھی تبصرے شائع ہوئے ہیں۔ خیال رہے warrior کا معنی نبی الملاحم ہے۔ پروفیسر صاحب بہت بڑے مؤرخ، انگریزی کے اچھے شاعر اور ڈیبیٹر بھی ہیں۔ اکثر و بیشتر مغربی میڈیا میں انہیں مدعو کیا جاتا ہے۔ یہ خلیجی اخبارات کے ساتھ ایک امریکی اخبار کے بھی باقاعدہ کالم نگار ہیں اور نہایت موثر انداز میں اسلام کا مقدمہ پیش کرتے ہیں۔ اللہ نے بالکل سچ فرمایا ہے کہ اگر تم دین کا کام چھوڑ دو گے تو اللہ تمہاری جگہ دوسری قوم لے آئے گا اور وہ تمہاری طرح نہیں ہوں گے۔

21/01/2023

سونے کی خرید و فروخت کو سمجھنے کا حساب!

ایک تولہ سونا میں 11.664 گرام ھوتے ہیں
اسی طرح 1 تولہ سونے میں 12 ماشے ھوتے ہیں

اگر آپ 1 تولہ زیور بنا سونا فروخت کرتے ہیں تو سنیارا اگر تو اس نے زیور آپ کو خود بنا کر دیا ھے 2 ماشے کٹوتی کرتا ھے اور اگر آپ نے کسی اور سے بنوایا اور فروخت کسی اور سنیارے کو کر رھے تو وہ ایک تولہ سونے کی 3 ماشے کٹوتی کرے گا

نوٹ: اس اوپر بیان کیے گئے داو کو سنیارا ایک رتی ماشہ یا 2 رتی ماشے کا نام دے گا

آپ نے اگر 1 تولہ سونا زیور فروخت کیا تو کٹوتی کے نام پہ آپ کے زیور سے 3 ماشے گئے آج کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے 1 تولہ سونے کی قیمت 180000 رپے ہے، یعنی
ایک ماشے کی اندازہ قیمت15000 روپے ھے آج کل
یعنی ایک تولہ سونا زیور بیچنے سے سنیارے نے آپ کے 45000 کٹوتی کے نام پہ کاٹ لیے

اب دوسری طرف آتے ہیں یعنی اگر آپ زیور بنواتے ہیں تو 👇
ایک تولہ سونا 24 قیراط ھوتا ھے
پہلے آپ کو سمجھاتا ھوں کہ قیراط کس بلا کا نام ھے
قیراط
قیراط (Carat) سونے کے خالص پن کو ناپنے کا معیار کا نام ھے۔
تقریبا سو فیصد خالص سونا 24 قیراط ھوتا ھے جتنے قیراط کم ھوں گے مطلب اتنی اس سونے میں ملاوٹ شامل ھے
ویسے یہ 99.99 ٪ خالص ہوتا ھے۔
12 قیراط مطلب 50 فیصد ملاوٹ اور 18 قیراط 75 فیصد خالص اور 25 فیصد ملاوٹ ھے۔
قیراط کمیت (وزن) کے پیمانے کے لیے بھی استعمال ہوتا ھے
ہیرے جواہرات اور قیمتی پتھروں کا وزن عام طور پر قیراط میں ناپا جاتا ہے۔

اب آتے ہیں اصل بات کی جانب کہ جب آپ سونا بنواتے / خریدتے ہیں تو
سنیارے عام طور پہ 15 یا 18 قیراط سونا بنا کے دیتے ہیں اور پاکستان میں چند ایک بڑے جیولرز کو چھوڑ کر کسی کے پاس 21 قیراط سے زیادہ سونا بنانے کی مشین نہیں ہیں
22 قیراط بس کراچی میں ایک 2 جیولرز بنا کے دیتے ہیں

اگر سنیارے نے آپ کو 18 قیراط زیور بنا کر دیا ھے تو اس نے سونے میں 25 فیصد ملاوٹ کی ھے
مطلب اگر ایک تولہ زیور بنا کر دیا ھے تو مثلا ایک تولہ ایک لاکھ اسی ہزار کا ھے تو سنیارا آپ کو 135000 کا سونا دے کر ریٹ 180000 روپے لگا رھا ھے

اسی طرح اگر سنیارے نے آپ کو 21 قیراط زیور بنا کر دیا ھے تو اس کا مطلب یہ ھے کہ زیور آپ کو 158000 کا دے رھا جبکہ قیمت آپ کو 180000 سونے کی لگا رھا ھے

سیدھی سے بات ھے کہ ایک تولہ زیور ملاوٹ کر کے آپ کو بس 135000 سے158000 کا دیں گے اور قیمت پورے تولے کی 180000 لگائیں گے

دوسرا داو ان کا پالش کے نام پہ ھوتا ھے ایک آدھ ماشہ الگ سے لگا لیں گے کہ اتنا ہمارا سونا زیور بناتے ھوئے ضائع ھو گیا ھے جس کی ایک تولے کے پیچھے قیمت 9000 سے 10000 ھو گی
یاد رھے کہ سنیارے کی دوکان کا کوڑا بھی لاکھوں میں بکتا ھے اور ان کا کچھ ضائع نہی ھوتا

آخر پہ انہوں نے مزدوری ڈالی ھوتی ھے
آپ کے بہت زیادہ اصرار پہ آپ کو مزدوری کا 2000 سے 4000 چھوڑ کر آپ پہ بہت بڑا احسان کریں گے اور کہیں گے آپ نے ہمیں بچنے کچھ نہی دیا اور یہ مزدوری بس آپ کو چھوڑ رھے ہیں کیونکہ آپ کے ساتھ ہمارا دوسری یا تیسری نسل سے تعلق ھے بلا بلا بلا بلا

سونا بیچتے وقت سونے کی ڈلی بنوائیں (وہ بھی اعتماد والے بندے سے ۔ رعایت خیر وہ بھی نہی کرتا) مطلب ملاوٹ نکال دی جاتی ھے اور خالص 24 قیراط سونا رہ جاتا ھے

پھر اس ڈلی یعنی خالص 24 قیراط سونے کو اس دن کے سرکاری ریٹ پہ بیچیں
ورنہ آپ کو بہت بڑا چونا لگ جائے گا

زیور بنواتے وقت پہلے طے کریں کہ سونا 21 قیراط بناو گے 18 یا 15
جتنا خالص وہ سونا بنائے اس حساب سے 15، 18 یا 21 قیراط کے مطابق قیمت دیں نا کہ 24 قیراط کی قیمت ادا کریں

ساتھ دھمکی دیں کہ میں ابھی اسی مشین پہ چیک بھی کرواوں گا کہ یہ 15، 18 ھے یا 21 قیراط
اور وقت یا سہولت میسر ھو تو اس کو مشین پہ چیک بھی کروا لیں کے کتنے قیراط بنا اور آپ نے کتنے قیراط کے حساب سے قیمت ادا کی

میری ان سب باتوں سے ھو سکتا میرے چند دوست ناراض ھوں لیکن میرا بتانا فرض تھا تاکہ لوگ Educate ھوں
یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کے سارے انگلیاں برابر نہی چند ایک اچھا کاروبار کرنے والے بھی ھوں گے لیکن میرے خیال میں ان کی تعداد شاید 1 فیصد سے زیادہ نا ھو۔۔
©

19/01/2023

ترکی کے خلیفہ سلطان مراد کی ﻋﺎﺩﺕ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺑﮭﯿﺲ ﺑﺪﻝ ﮐﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﮔﯿﺮﯼ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ، اس نے ایک رات اپنے ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ کو کہا کہ ،
ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﻭﻗﺖ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺍﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ _
ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ ﭘﮩﻨﭽﮯ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﯾﮏ ﺁﺩﻣﯽ گرﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺮﺩﮦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ . ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮐﺮ ﺟﺎﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ .

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ،
ﺍﺩﮬﺮ ﺁﺅ ﺑﮭﺎﺋﯽ _

ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﮔﮱ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﮐﻮ ﭘﮩﭽﺎﻥ ﻧﮧ ﺳﮑﮯ . ﭘﻮﭼﮭﺎ : ﮐﯿﺎ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ ؟_

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﺁﺩﻣﯽ ﻣﺮﺍ ﭘﮍﺍ ﮨﮯ . ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ . ﮐﻮﻥ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﮩﺎﮞ ﮨﯿﮟ .

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﯾﮧ ﺑﮩﺖ ﺑﺮﺍ ﺍﻭﺭ ﮔﻨﺎﮦ ﮔﺎﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮨﮯ _

ﺗﻮ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﮐﯿﺎ ﯾﮧ ﺍﻣﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ . ﭼﻠﻮ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﭨﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﮯ ﮔﮭﺮ ﻟﮯ ﭼﻠﯿﮟ _

ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﻣﯿﺖ ﮔﮭﺮ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺩﯼ _

ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮐﯽ ﻻﺵ ﺩﯾﮑﮭﯽ ﺗﻮ ﺭﻭﻧﮯ ﻟﮕﯽ .

ﻟﻮﮒ ﭼﻠﮯ ﮔﮱ _

ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮑﺎ ﺳﮑﯿﻮﺭﭨﯽ ﺍﻧﭽﺎﺭﺝ ﻭﮨﯿﮟ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺭﻭﻧﺎ ﺳﻨﺘﮯ ﺭﮨﮯ .

ﻭﮦ کہہ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ،
ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﻮﮞ ، ﺑﯿﺸﮏ ﺗﻮ ﺍﻟﻠّﻪ ﮐﺎ ﻭﻟﯽ ﮨﮯ . ﺍﻭﺭ ﻧﯿﮏ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﮯ .

ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﺑﮍﺍ ﻣﺘﻌﺠﺐ ﮨﻮﺍ _ ﯾﮧ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ . ﻟﻮﮒ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﯾﮧ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻣﯿﺖ ﮐﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﮐﻮ ﺗﯿﺎﺭ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ .

ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ : ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺗﻮﻗﻊ ﺗﮭﯽ _ ﺍﺻﻞ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺧﺎﻭﻧﺪ ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﺎ ، ﺟﺘﻨﯽ ﮨﻮ ﺳﮑﮯ ﺷﺮﺍﺏ ﺧﺮﯾﺪﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﺮ ﻻ ﮐﺮ ﮔﮍﮬﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺎ ﺩﯾﺘﺎ . ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ﭼﻠﻮ ﮐﭽﮫ ﺗﻮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﺑﻮﺟﮫ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﮨﻠﮑﺎ ﮨﻮ .
ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺑﺮﯼ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺟﺎﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﯾﮏ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺍﺟﺮﺕ ﺩﮮ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﺍﭘﻨﺎ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﺑﻨﺪ ﮐﺮ ﻟﮯ . ﮐﻮﺋﯽ ﺗﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﻧﮧ ﺁﺋﮯ _
ﮔﮭﺮ ﺁﮐﺮ ﮐﮩﺘﺎ ، ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠّﮧ ! ﺁﺝ ﺍﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻣﺴﻠﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﻮﺟﮫ ﮨﻠﮑﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮨﮯ .
ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺟﮕﮩﻮﮞ ﭘﺮ ﺁﺗﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺗﮭﮯ _
ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮐﮩﺘﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮫ ! ﺟﺲ ﺩﻥ ﺗﻮ ﻣﺮ ﮔﯿﺎ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺠﮭﮯ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﻨﺎ ﮨﮯ ﻧﮧ ﺗﯿﺮﯼ ﻧﻤﺎﺯ ﭘﮍﮬﻨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﻓﻨﺎ ﻧﺎ ﮨﮯ _
ﻭﮦ ﻣﺴﮑﺮﺍ ﺩﯾﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﮐﮩﺘﺎ ﮐﮧ ، ﮔﮭﺒﺮﺍ ﻣﺖ _ ﺗﻮﺩﯾﮑﮭﮯ ﮔﯽ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ، ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎ ﭘﮍﮬﯿﮟ ﮔﮯ .

ﯾﮧ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺭﻭ ﭘﮍﺍ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ : ﻣﯿﮟ ﺳﻠﻄﺎﻥ ﻣﺮﺍﺩ ﮨﻮﮞ . ﮐﻞ ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﻮ ﻏﺴﻞ ﺩﯾﮟ ﮔﮯ . ﮨﻢ ﺍﺱ ﮐﯽ ﻧﻤﺎﺯِ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺪﻓﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮨﻢ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ ﮔﮯ .

ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺟﻨﺎﺯﮦ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﻋﻠﻤﺎﺀ ﺍﻭﻟﯿﺎﺀ ﺍﻭﺭ ﮐﺜﯿﺮ ﻋﻮﺍﻡ ﻧﮯ ﭘﮍﮬﺎ .

ﺁﺝ ﮨﻢ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﮐﭽﮫ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﯾﺎ ﻣﺤﺾ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺍﮨﻢ ﻓﯿﺼﻠﮯ ﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ ۔ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻥ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﺑﺎﻧﯿﮟ ﮔﻮﻧﮕﯽ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ۔۔۔

زاہد نگاہِ کم سے کسی رند کو نہ دیکھ
نہ جانے اس کریم کو تو ہے کہ وہ پسند

دراوڑ قلعہروہی چولستان کی جان اور شان۔اس کا شروع میں نام دیر اول تھا جو بعد میں دراوڑ ہو گیا9 صدی عیسوی میں تعمیر کردہ ی...
16/01/2023

دراوڑ قلعہ

روہی چولستان کی جان اور شان۔اس کا شروع میں نام دیر اول تھا جو بعد میں دراوڑ ہو گیا
9 صدی عیسوی میں تعمیر کردہ یہ قلعہ یوں تو چولستان قلعوں اور پرانی عمارتوں کو مرکز ہے لیکن اپنی پہچان آپ یہ قلعہ چولستان کا سب سے مشہور قلعہ ہے۔ریت کے سمندر میں کسی عظیم بحری جہاز کی طرح کھڑا یہ قلعہ آپ کو کسی اور ہی دنیا میں لے جاۓ گا جس نے یہاں صبح دیکھی دوپہر دیکھی یا شام دیکھی پھر زندگی میں ایسے لمحے کبھی نا دیکھے اس علاقے میں گزرا اک اک پل امر ہو جاتا ہے کسی حسین یاد کی طرح ہمیشہ آپکو اپنے سحر میں رکھتا ہے
قلعہ دراوڑ جنوبی پنجاب کے ضلع بہاول پور سے 100 کلومیٹر تحصیل احمد پور شرقیہ میں شہر سے شمال کی طرف واقع ہے۔قلعہ دراوڑ کی 30میٹر بلند بل کھاتی مربع شکل کی دیواریں، قلعہ کے جاہ و جلال کی ایک عظیم داستان بیان کرتی ہیں۔قلعہ دراوڑ کا آرکیٹیکچراس ثقافتی میل ملاپ کا سنگم ہے، جو مغل اس برصغیر میں اپنے ساتھ لائے۔مغل طرزِ تعمیر کے اس شاہکار قلعہ میں آپ کوفارس، تیموری اورہندو طرزِ تعمیر کی مشترک خوبیاں نظر آئیں گی۔نظری اعتبار سے اسے آپ دیوارِ سندھ رنی کوٹ سےمشابہ قلعہ قرار دے سکتے ہیں۔ صحرائے چولستان کے عین درمیان واقع اس قلعے کا طلسمی نظارہ دیکھنے والوں کو حیران کر دیتا ہے۔اس کی سرمئی، کتھئی اور سنہری رنگت ماحول کو سحر زدہ کر دیتی ہے۔
قلعہ میں 40 پلوں سمیت ایک کنواں، ایک مرکزی دروازہ اور ایک بڑا تالاب ہے، جو سیاحوں کی خصوصی دلچسپی کا مرکز ہے۔ تالاب اب خشک ہو چکا ہے۔ قلعہ میں موجود اکثر کمروں کی دیواریں اور چھتیں گر چکی ہیں جبکہ مرکزی دیواریں بھی کمزور پڑ چکی ہیں، جن کے کسی بھی وقت گرنے کا خدشہ ہے۔ قلعہ کے صحن نما میدان میں ایک قدیم اور تاریخی توپ بھی موجود ہے، جو جنگ کے دوران دشمنوں کے خلاف استعمال کی جاتی تھی مگر آج یہ توپ بھی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے۔ توپ کے ساتھ ایک سرنگ بھی بنائی گئی تھی، جو قلعہ کے خفیہ راستوں سے ہوتی ہوئی جیسلمیر تک جاتی تھی، جسے بعد میں بند کر دیا گیا تھا

قلعہ دراوڑ کو چولستان میں داخل ہونے کا دروازہ، ’’بابِ چولستان‘‘ بھی کہا جاتا ہے
برطانوی ادوار میں یہاں قیدیوں کوقید رکھا جاتا تھا اور یہی وہ جگہ ہے جہاں کچھ مکینوں کو پھانسی بھی دی گئی۔
صحرائے چولستان کے دل میں واقع یہ قلعہ اپنے آپ میں ایک تاریخ سموئے ہوئے ہے ۔ قلعے کی دیواریں اور عالی شان تعمیرات ماضی کی عظیم تہذیب کی گواہی دیتی ہیں
اس تعمیر کے بارے میں مورخین کی آرا مختلف ہیں۔ کچھ مورخین کا خیال ہے کہ اس قلعہ کو نویں صدی میں رائے ججہ بھاٹیہ نے تعمیر کروایا بعض مورخین کے مطابق قلعہ کو راول دیو راج بھاٹیہ نے تعمیر کروایا، جو جیسلمیر اور بہاولپور ریاست کا خودمختار راجپوت حکمران تھا۔یہ برصغیر میں سلطنتِ درانی کے زوال کے دن تھے۔ عباسی خاندان نے اُچ شریف کے ارد گرد کا علاقہ فتح کر کے یہاں بہاولپور ریاست کی بنیاد رکھی۔
بہاولپور کا شمار برصغیر پاک و ہند کی خوشحال ریاستوں میں ہوتا تھا۔ 18ویں صدی کے اوائل سے قریباً ڈھائی صدیوں تک یہاں کے حکمران رہے
موجودہ قلعہ 1733میں عباسی حکمران نواب صادق محمد خان اول نے تعمیر کروایا یہ قلعہ مختلف ادوار میں 1966 تک اس خاندان کے استعمال میں رہا اس قلعہ کی دیواریں 674 سے 684 فٹ تک لمبی ہیں اور زمین سے 100 فٹ تک اونچی ہیں اس میں موجود 39 برج تعمیر کیے گۓ ہیں جن کو چھوٹی اینٹوں سے تعمیر کیا گیا ہے جبکہ دیواروں کی موٹاٸی میں چھوٹے ساٸز کی کچی اینٹوں کی چناٸی کی گٸ اور چناٸی کے لیے مٹی کے گارے کا استعمال کیا گیا قلعہ کے بیرون مشرقی جانب شاہی قبرستان واقع ہے اس کے ساتھ ہی سنگ مرمر سے تعمیر کی گٸ شاہی مسجد واقع ہے نوادرات ایکٹ 1975 میں قلعہ کو محفوظ قرار دیا گیا تھا 2016 میں اقوام متحدہ زیلی ادارے ینیسکو نے اس قلعہ کو عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کیا
1966 میں نواب صادق خان عباسی کی وفات کے بعد قلعہ انتہاٸی خستہ حالت کا شکار ہوا بعدازاں 2017 میں محکمہ آثار قدیمہ نے اس کی مناسب دیکھ بھال اور مرمت کا کام کیا جس میں مرکزی و بیرونی دیوروں بارہ دری مرکزی دروازہ گودام کو مناسب طریقہ سے مرمت کیا گیا۔
لیکن اب بھی قلعہ بہت توجہ کا طالب ہے تاکہ اس قومی و تاریخی ورثہ کو محفوظ بنایا جا سکے اس کی اہمیت کو بحال کیا جاسکے اور پوری دنیا میں اس کی پہچان کراٸی جاسکے۔
کیونکہ یہ سحر انگیز اور رومانوی قلعہ ہے جہاں ہزاروں کی تعداد میں سیاح اور تاریخ دان آتے ہیں اور اس کی محبت بار بار یہاں کھینچ کے لاتی ہے

Address

Okara

Telephone

+923454387701

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Asim ali posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Asim ali:

Videos

Share

Category


Other Media in Okara

Show All