Khatm E Nabuwat Nisatta

Khatm E Nabuwat Nisatta This Page Is About Khatm_E_Nubowat.

14/02/2020
06/01/2020

(5)ختم نبوت کی تحریکیں

متحدہ ہندوستان میں انگریز اپنے جوروستم اور استبدادی حربوں سے جب مسلمانوں کے قلوب کو مغلوب نہ کرسکا تو اس نے ایک کمیشن قائم کیا جس نے پورے ہندوستان کا سروے کیا اورواپس جا کر برطانوی پارلیمنٹ میں رپورٹ پیش کی کہ مسلمانوں کے دلوں سے جذبہ جہادمٹانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی ایسے شخص سے نبوت کا دعویٰ کرایا جائے جو جہاد کو حرام اور انگریز کی اطاعت کو مسلمانوں پر اولوالامر کی حیثیت سے فرض قرار دے۔

ان دنوں مرزا غلام احمد قادیانی سیالکوٹ ڈی سی آفس میں معمولی درجہ کاکلرک تھا۔ اردو، عربی اور فارسی اپنے گھر میں پڑھی تھی۔ مختاری کا امتحان دیا مگر ناکام ہوگیا۔ غرضیکہ اس کی تعلیم دینی و دنیاوی دونوں اعتبار سے ناقص تھی۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے انگریزی ڈپٹی کمشنر کے توسط سے مسیحی مشن کے ایک اہم اور ذمہ دار شخص نے اس سے ڈی سی آفس میں ملاقات کی۔ گویا یہ انٹرویو تھا مسیحی مشن کااور ساتھ ہی یہ فرد انگلینڈ روانہ ہوگیااور مرزا قادیانی ملازمت چھوڑکر قادیان پہنچ گیا۔ با پ نے کہا کہ نوکری کی فکرکرو، جواب دیا کہ میں نوکر ہوگیا ہوں اور پھر بغیر مرسل کے پتہ کے منی آرڈر ملنے شروع ہوگئے۔ مرزا قادیانی نے مذہبی اختلافات کو ہوا دی۔ بحث و مباحثہ، اشتہار بازی شروع کردی۔ یہ تمام تر تفصیل مرزائی کتب میں موجود ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کام کے لئے برطانوی سامراج نے مرزا قادیانی کا کیوں انتخاب کیا۔ اس کا جواب خود مرزائی لٹریچر میں موجود ہے کہ مرزا قادیانی کا خاندان جدی پشتی انگریز کا نمک خوار خوشامدی اور مسلمانوں کا غدار تھا۔ مرزا قادیانی کے والدنے 1857ء کی جنگ آزادی میں برطانوی سامراج کو پچاس گھوڑے بمعہ سازو سامان مہیاکیے اور یوں مسلمانوں کے قتل عام سے اپنے ہاتھ رنگین کر کے انگریز سے انعام میں جائیداد حاصل کی۔ مرزا غلام احمد لکھتا ہے کہ میرے والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی مرزا غلام قادر خدمات سرکار میں مصروف رہا۔ ستارہ قیصریہ صفحہ 4 میں اپنے بارے میں لکھتا ہے کہ میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید و حمایت میں گذرا اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہار شائع کیے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھرسکتی ہیں (تریا ق القلوب صفحہ25)۔غرضیکہ مرزا قادیانی کے گوشت پوست میں انگریز کی وفاداری اور مسلمانوں سے غداری رچی بسی تھی۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس مقصد کے لئے انگریز کی نظر انتخاب مرزا قادیانی پر پڑی اور اس کی خدمات حاصل کی گئیں۔جن حضرات کی مرزائیت کے لٹریچر پر نظرہے وہ جانتے ہیں کہ مرزا قادیانی کی ہر بات میں تضاد ہے لیکن حرمت جہاد اور فرضیت اطاعت انگریز ایک ایسا مسئلہ ہے کہ اس میں مرزا قادیانی کی کبھی دورائیں نہیں ہوئیں کیونکہ یہ اس کا بنیادی مقصد اور غرض و غایت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو گورنمنٹ برطانیہ کا خود کاشتہ پودا قرار دیا۔ سرسید احمد خان مرحوم کی روایت جو ان کے مشہور مجلہ تہذیب الاخلاق میں چھپ چکی ہے کہ خود سرسید احمد خان سے انگریز وائسرائے ہند نے مرزا قادیانی کی امداد و اعانت کرنے کا کہا۔ بقول ان کے انہوں نے نہ صرف رد کردیا بلکہ اس منصوبہ کا راز افشاکردیا جس کے نتیجہ میں انگریز وائسرائے سرسید احمد خاں سے ناراض ہوگئے۔ مرزا قادیانی کے دعویٰ جات پر نظر ڈالیے۔ اس نے بتدریج خادم اسلام، مبلغ اسلام، مجدد، مہدی، مثیل مسیح، ظلی نبی، مستقل نبی، انبیاء سے افضل حتیٰ کہ خدائی تک کا دعویٰ کیا۔ یہ سب کچھ ایک طے شدہ منصوبہ، گہری چال اور خطر ناک سازش کے تحت کیا۔ قطب عالم حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے نور ایمانی اور بصیرت وجدانی سے مرزا قادیانی کے دعویٰ سے بہت پہلے پنجاب کے معروف روحانی بزرگ حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃاللہ علیہ سے حجاز مقدس میں ارشاد فرمایا کہ پنجاب میں ایک فتنہ اٹھنے والا ہے، اللہ سبحانہ وتعالیٰ اس کے خلاف آپ سے کام لیں گے۔ بیعت و خلافت سے سرفراز فرمایااور اس فتنہ کے خلاف کام کرنے کی تلقین فرمائی۔

ردقادیانیت کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے جن خوش نصیب و خوش بخت حضرات نے بڑی تندہی اورجانفشانی سے کام کیا۔ ان میں حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد علی مونگیری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمدحسین بٹالوی رحمۃ اللہ علیہ، جناب مولانا قاضی حمد سلیمان منصور پوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ، حصرت مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمۃ اللہ

علیہ،پروفیسر محمد الیاس برنی رحمۃ اللہ علیہ،علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا سیدمحمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا محمد داؤد غزنوی رحمۃ اللہ علیہ،حضرت مولانا ظفر علی خان رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مظہر علی اظہر رحمۃ اللہ علیہ، حافظ کفایت حسین رحمۃ اللہ علیہ، حضرت مولانا پیرجماعت علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔

علمائے لدھیانہ نے مرزا قادیانی کی گستاخ و بے باک طبیعت کو اس کی ابتدائی تحریروں میں دیکھ کر اس کے خلاف کفر کا فتویٰ سب سے پہلے دیا تھا۔ ان حضرات کاخدشہ صحیح ثابت ہوا اور آگے چل کر پوری امت نے علمائے لدھیانہ کے فتویٰ کی تصدیق و توثیق کی۔غرضیکہ پوری امت کی اجتماعی جدوجہد سے مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کو روکنے کی کوشش کی گئی یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی نے بھی اپنی تصانیف میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا نذیر حسین دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ،مولانا سید علی الحائری رحمۃ اللہ علیہ سمیت امت کے تمام طبقات کو اپنے سب و شتم کانشانہ بنایاکیونکہ یہی وہ حضرات تھے جنہوں نے تحریر و تقریر و مناظرہ و مباہلہ کے میدان میں مرزا قادیانی اور اس کے حواریوں کوچاروں شانے چت کیا اور یوں اپنے فرض کی تکمیل کر کے پوری امت کی طرف سے شکریہ کے مستحق قرارپائے۔

مقدمہ بہاولپور:
تحصیل احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ایک شخص مسمی عبدالرزاق مرزائی ہو کر مرتد ہوگیا اس کی منکوحہ غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش نے سن بلوغ کو پہنچ کر 24جولائی 1926ء کو فسخ نکاح کا دعویٰ احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں دائر کردیا جو 1931ء تک ابتدائی مراحل طے کر کے پھر 1932ء میں ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کی عدالت میں بغرض شرعی تحقیق واپس ہوا۔ آخر کار 7 فروری 1935ء کو فیصلہ بحق مدعیہ صادر ہوا۔ بہاولپور ایک اسلامی ریاست تھی، اس کے والی نواب جناب صادق محمد خاں خامس عباسی مرحوم ایک سچے مسلمان اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور کے معروف بزرگ کے عقیدت مند تھے۔ خواجہ غلام فرید رحمۃ اللہ علیہ کے تمام خلفاء کو اس مقدمہ میں گہری دلچسپی تھی۔ اس وقت جامعہ عباسیہ بہاولپور کے شیخ الجامعہ مولانا غلا م محمد گھوٹوی مرحوم تھے جو حضرت پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ کے ارادت مند تھے۔ لیکن اس مقدمہ کی پیروی اور امت محمدیہ کی طرف سے نمائندگی کے لئے سب کی نگاہ انتخاب دیو بند کے فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر پڑی، مولانا غلام محمد صاحب کی دعوت پر اپنے تمام تر پروگرام منسوخ کر کے مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ بہاولپور تشریف لائے تو فرمایا کہ جب یہاں سے بلاوا آیا تو میں ڈابھیل کے لے بارکاب تھا مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی شاید یہی بات مغفرت کا سبب بن جائے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جانبدار بن کر بہاولپور آیا تھا، اگر ہم ختم نبوت کی حفاظت کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔ ان کے تشریف لانے سے پورے ہندوستان کی توجہ اس مقدمہ کی طرف مبذول ہوگئی، بہاولپور میں علم کی موسم بہار شروع ہوگئی۔ اس سے مرزائیت کو بڑی پریشانی لاحق ہوئی۔ انہوں نے بھی ان حضرات علماء کی آ ہنی گرفت اور احتسابی شکنجے سے بچنے کیلئے ہزاروں جتن کئے۔ مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین کولوتارڑوی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابو الوفاشاہ جہان پوری اور مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمہم اللہ تعالیٰ علیہم و شکراللہ سعیہم کے ایمان افروز اور کفر شکن بیانات ہوئے۔ مرزائیت بوکھلا اٹھی۔ ان دنوں مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ پر اللہ رب العزت کے جلال اور حضور سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وبارک وسلم کے جمال کا خاص پر تو تھا۔ وہ جلال و جمال کا حسین امتزاج تھے، جمال میں آکر قرآن و سنت کے دلائل دیتے تو عدالت کے درودیوارجھوم اٹھتے اور جلال میں آکر مرزائیت کو للکارتے تو کفر کے ا یوانوں میں زلزلہ طاری ہوجاتا، مولانا ابوالوفا شاہ جہان پوری نے اس مقدمہ میں مختار مدعیہ کے طور پر کام کیا۔ایک دن عدالت میں مولانا محمد انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر فرمایا کہ اگر چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہو کر دکھاسکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے مرزائی کانپ اٹھے۔ مسلمانوں کے چہروں پر بشاشت چھاگئی اور اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ نہیں بلکہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔
علمائے کرام کے بیانات مکمل ہوئے

، نواب صاحب مرحوم پر گورنمنٹ برطانیہ کا دباؤ بڑھا۔ اس سلسلہ میں مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری مرحوم نے راقم الحروف سے بیان کیا کہ خضرحیات ٹوانہ کے والد نواب سر عمر حیات ٹوانہ لندن گئے ہوئے تھے۔ نواب آف بہاولپور مرحوم بھی گرمیاں اکثر لندن گزارا کرتے تھے۔ نواب مرحوم سر عمر حیات ٹوانہ لندن میں ملے اور مشورہ طلب کیا کہ انگریز گورنمنٹ کا مجھ پر دباؤ ہے کہ ریاست بہاولپور سے اس مقدمہ کو ختم کرادیں تو اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ سر عمر حیات ٹوانہ نے کہا کہ ہم انگریز کے وفادار ضرور ہیں مگر اپنا دین، ایمان اور عشق رسالت مآب کا توان سے سودا نہیں کیا، آپ ڈٹ جائیں اور ان سے کہیں کہ عدالت جو چاہے فیصلہ کرے میں حق و انصاف کے سلسلہ میں اس پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہتا۔ چنانچہ مولانا محمد علی جالندھری نے یہ واقعہ بیان کر کے ارشاد فرمایا کہ ان دونوں کی نجات کے لئے اتنی بات کافی ہے۔ جناب محمد اکبر جج مرحوم کو ترغیب و تحریص کے دام تزویر میں پھنسانے کی مرزائیوں نے کوشش کی لیکن ان کی تمام تدابیر غلط ثابت ہوئیں، مولانا سید محمد انور شاہ کشمیر ی رحمۃ اللہ علیہ اس فیصلہ کے لیے اتنے بے تاب تھے کہ بیانات کی تکمیل کے بعد جب بہاولپور سے جانے لگے تو مولانا محمد صادق مرحوم سے فرمایا کہ اگر زندہ رہا تو فیصلہ خود سن لوں گا اور اگر فوت ہوجاؤں تو میری قبر پر آکر یہ فیصلہ سنا دیا جائے۔ چنانچہ مولانا محمد صادق نے آپ کی وصیت کو پورا کیا۔ آپ نے آخری ایام علالت میں دارالعلوم دیوبند کے اساتذہ و طلبہ اور دیگر بہت سے علماء کے مجمع میں تقریر فرمائی تھی، جس میں نہایت درد مندی و دل سوزی سے فرمایا تھا۔ وہ تمام حضرات جن کو مجھ سے بلا واسطہ یا بالواسطہ تلمذ کا تعلق ہے اور جن پر میرا حق ہے کہ میں ان کو خصوصی وصیت اور تاکید کرتا ہوں کہ وہ عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت و پاسبانی اورفتنہ قادیانیت کے قلع قمع کو اپنا خصوصی کام بنائیں اور جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی شفاعت فرمائیں، ان کو لازم ہے کہ ختم نبوت کی پاسبانی کا کام کریں۔

یہ مقدمہ حق و باطل کا عظیم معرکہ تھا۔ جب7 فروری 1935ء کو فیصلہ صادر ہوا تو مرزائیت کے صحیح خدوخال آشکارا ہوگئے۔ بلاشبہ پوری امت جناب محمدا کبر خان جج صاحب مرحوم کی مرہون منت ہے کہ انہوں نے کمال عدل و انصاف محنت و عرق ریزی سے ایسافیصلہ لکھا کہ اس کا ایک ایک حرف قادیانیت کے تابوت میں کیل ثابت ہوا۔ قادیانیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزا بشیر کی سربراہی میں سرظفراللہ مرتد سمیت جمع ہو کر اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنے کی سوچ و بچار کی لیکن آخر کار اس نتیجہ پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی۔ اللہ رب العزت کی قدرت کے قربان جائیں، کفر ہار گیا، اسلام جیت گیا۔ ایک دفعہ پھرجاء الحق وزھق الباطل کی عملی تفسیر اس فیصلہ کی شکل میں امت کے سامنے آگئی اور مرزائی فبھت الذی کفر کا مصداق ہوگئے، اس تاریخ سازفیصلہ نے چار دانگ عالم میں تہلکہ مچا دیا۔مرزائیوں کی ساکھ روز بروز گرنا شروع ہوگئی۔

تحریک ختم نبوت 1953ء
ہندوستا ن تقسیم ہوا، خدادداد مملکت پاکستان معرض وجود میں آئی، بدنصیبی سے اسلامی مملکت پاکستان کا وزیر خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان قادیانی کو بنایا گیا۔ اس نے مرزائیت کے جنازہ کو اپنی وزرات کے کندھوں پر لاد کر اندرون و بیرون ملک اسے متعارف کرانے کی کوشش تیز سے تیز ترکردی، ان حالات میں حضرت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ، امیر کاروان احرار کی رگ حمیت اور حسینی خون نے جوش مارا، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا، مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مجاہد اسلام مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ آپ کا پیغام لے کر ملک عزیز کی نامور دینی شخصیت اور ممتاز عالم دین اسلام مولانا ابوالحسنات محمد احمد قادری رحمۃ اللہ علیہ کے دروازے پر گئے اور اس تحریک کی قیادت کا فریضہ انہوں نے ادا کیا۔ مولانا احمد علی لاہوری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ علیہ، مولانا خواجہ قمر الدین سیالوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر غلام محی الدین گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحامد بدایونی رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احمد سعید کاظمی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا پیر سر سینہ شریف رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، ماسٹر تاجدین انصاری رحمۃ اللہ علیہ، شیخ حسام الدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمۃ اللہ علیہ، مولانا اختر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ کراچی سے لے کر ڈھاکہ تک کے تمام مسلمانوں نے اپنی مشترکہ آئینی جدوجہد کا آغاز کیا۔ بلاشبہ برصغیر کی یہ عظیم ترین تحریک تھی۔ جس میں دس ہزار مسلمانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ایک لاکھ مسلمانوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ دس لاکھ مسلمان اس تحریک سے متاثر ہوئے۔ ہر چند کہ اس تحریک کو مرزائی اور مرزائی نواز اوبا

شوں نے سنگینوں کی سختی سے دبانے کی کوشش کی مگر مسلمانوں نے اپنی ایمانی جذبہ سے ختم نبوت کے اس معرکہ کو اس طرح سر کیا کہ مرزائیت کا کفر کھل کر پوری دنیا کے سامنے آگیا۔ تحریک کے ضمن میں انکوائری کمیشن نے رپورٹ مرتب کرنا شروع کی۔ عدالتی کاروائی میں حصہ لینے کی غرض سے علماء اور وکلا کی تیاری، مرزائیت کی کتب کے اصل حوالہ جات کو مرتب کرنابڑاکٹھن مرحلہ تھا اور ادھر حکومت نے اتنا خوف و ہراس پھیلا رکھا تھاکہ تحریک کے رہنماؤں کو لاہور میں کوئی آدمی رہائش تک دینے کے لیے تیار نہ تھا۔ جناب عبدالحکیم احمد سیفی نقشبندی مجددی رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ مجاز خانقاہ سراجیہ نے اپنی عمارت 7 بیڈن روڈ لاہور کو تحریک کے رہنماؤں کے لیے وقف کردیا۔ تمام تر مصلحتوں سے بالائے طاق ہو کر ختم نبوت کے عظیم مقصد کے لیے ان کے ایثار کا نتیجہ تھا کہ مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحیم اشعر رحمۃ اللہ علیہ اور رہائی کے بعد مولانا محمد علی جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا قاضی احسان احمدشجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے رہنماؤں نے آپ کے مکان پر انکوائری کے دوران قیام کیا اور مکمل تیاری کی۔ ان ایام میں شیخ المشائخ قبلہ حضرت مولانا محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ بھی وہیں قیام پذیر رہے اور تمام کام کی نگرانی فرماتے رہے۔ 1953ء کی تحریک ختم نبوت کے بعد مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا لال حسین اختر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالرحمن میانوی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف بہاولپوری رحمۃ اللہ علیہ، سائیں محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ اور مرزا غلام نبی جانباز رحمۃ اللہ علیہ کا یہ عظیم کارنامہ تھا کہ انہوں نے الیکشنی سیاست سے کنارہ کش ہو کر خالصتاً دینی و مذہبی بنیاد پر مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کی بنیاد رکھی۔ اس سے قبل مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ، چوہدری افضل حق رحمۃ اللہ علیہ اور خود حضرت امیر شریعت رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے گرامی قدر رفقاء نے مجلس احرار اسلام کے پلیٹ فارم سے قادیانیت کو جو چرکے لگائے وہ تاریخ کا ایک حصہ ہیں۔ قادیان میں کانفرنس کر کے چور کا اس کے گھر تک تعاقب کیا۔ نیز مولانا ظفر علی خاں رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ محمداقبال رحمۃ اللہ علیہ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ ردِّمرزائیت میں غیر فانی کردار ادا کیا۔ مجلس احرار اسلام کی کامیاب گرفت سے مرزائیت بوکھلا اٹھی، مجلس احراراسلام پر مسجد شہید گنج کا ملبہ گرا کر اسے دفن کرنے کی کوشش کی گئی۔حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ صدر مجلس احرار نے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا کہ تحریک مسجد شہید گنج کے سلسلہ میں پورے ملک سے دو اکابر اولیاء اللہ ایک حضرت اقدس مولانا ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے حضرت شاہ عبدالقادر رائے پوری رحمۃ اللہ علیہ نے ہماری رہنمائی کی اور تحریک سے کنارہ کش رہنے کا حکم فرمایا، حضرت اقدس ابوالسعد احمد خاں رحمۃ اللہ علیہ بانی خانقاہ سراجیہ نے یہ پیغام بھجوایا تھاکہ مجلس احرار تحریک مسجد شہید گنج سے علیحدہ رہے اور مرزائیت کی تردیدکا کام رکنے نہ پائے اسے جاری رکھا جائے اس لیے اگر اسلام باقی رہے گا تو مسجدیں باقی رہیں گی، اگر اسلام باقی نہ رہا تو مسجدوں کو باقی کون رہنے دے گا؟
مسجد شہید گنج کے ملبہ کے نیچے مجلس احرار کو دفن کرنے والے انگریز اور قادیانی اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔ اس لیے کہ انگریز کو ملک چھوڑنا پڑا جبکہ مرزائیت کی تردید کے لئے مستقل ایک جماعت مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے نام سے تشکیل پا کر قادیانیت کو ناکوں چنے چبوارہی ہے۔ ان حضرات نے سیاست سے علیحدگی کا محض اس لئے اعلان کیا کہ کسی کو یہ کہنے کا موقعہ نہ ملے کہ مرزائیت کی تردید اور ختم نبوت کی ترویج کے سلسلہ میں ان کے کوئی سیاسی اغراض ہیں۔ چنانچہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان نے مرزائیت کے خلاف ایسا احتسابی شکنجہ تیار کیا کہ مرزائیت مناظرہ، مباہلہ، تحریر و تقریر اور عوامی جلسوں میں شکست کھاگئی۔ جگہ جگہ ختم نبوت کے دفاتر قائم ہونے لگے، مولانا لال حسین اختررحمۃاللہ علیہ نے برطانیہ سے آسٹریلیا تک قادیانیت کا تعاقب کیا۔ مرزائیت نے عوامی محاذ ترک کرکے حکومتی عہدوں اور سرکاری دفاتر میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش و کاوش کی اور وہ انقلاب کے ذریعہ اقتدار کے خواب دیکھنے لگے۔

تحریک ختم نبوت1974ء
1970ء کے الیکشن میں چند سیٹوں پر مرزائی منتخب ہوگئے۔ اقتدار کے نشہ اور ایک سیاسی جماعت سے سیاسی وابستگی نے انہیں دیوانہ کردیا۔ وہ حالات کو اپنے لیے سازگار پا کر انقلاب کے ذریعہ اقتدار پر قبضہ کی سکیمیں بنانے لگے۔ قادیانی جرنیلوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں۔ اس نشہ میں دھت ہو کر انہوں نے 29مئی 1974ء کو ربوہ ریلوے سٹیشن پر چناب ایکسپریس کے ذریعہ سفر کرنے والے ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء پر قاتلانہ حملہ کیا۔ جس کے نتیج

ہ میں تحریک چلی۔ مولاناسید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کے امیر تھے۔ ان کی دعوت پر امت کے تمام طبقات جمع ہوئے۔ آل پارٹیز مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان تشکیل پائی۔ جس کے سربراہ حضرت شیخ بنوری رحمۃاللہ علیہ قرار پائے۔ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش نصیبی کہ اس وقت قومی اسمبلی میں تمام اپوزیشن متحد تھی۔ چنانچہ اپوزیشن پوری کی پوری مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان میں شریک ہوگئی۔
رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا اعجاز ملاحظہ ہو کہ مذہبی و سیاسی جماعتوں نے متحد ہو کر ایک ہی نعرہ لگایا کہ مرزائیت کو غیر مسلم قرارد یا جائے۔ اس وقت قومی اسمبلی میں مفکر اسلام مولانا مفتی محمودرحمۃ اللہ علیہ، مولاناغلام غوث ہزاروی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالحق، پروفیسر غفور احمد، مولانا عبدالمطفی ازہری، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے رفقا نے ختم نبوت کی وکالت کی۔ متفقہ طور پر اپوزیشن کی طرف سے مولانا شاہ احمد نورانی رحمۃ اللہ علیہ نے مرزائیوں کے خلاف قرار داد پیش کی اور برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی یعنی حکومت کی طرف سے دوسری قرار داد جناب پیر عبدالحفیظ پیرزادہ نے پیش کی جو ان دنوں وزیر قانون تھے، قومی اسمبلی میں مرزائیت پربحث شرو ع ہوگئی۔ پورے ملک میں مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ، نوابزادہ نصراللہ خان رحمۃ اللہ علیہ، آغا شورش کاشمیری رحمۃ اللہ علیہ، علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالقادر روپڑی رحمۃ اللہ علیہ، مفتی زین العابدین رحمۃ اللہ علیہ، مولانا تاج محمود رحمۃ اللہ علیہ، مولانا محمد شریف جالندھری رحمۃ اللہ علیہ، مولانا عبدالستار خان نیازی رحمۃ اللہ علیہ، مولانا صاحبزادہ فضل رسول حیدر، مولانا صاحبزادہ افتخار الحسن، سید مظفر علی شا ہ رحمۃ اللہ علیہ، مولانا علی غضنفر کراروی، مولانا عبدالحکیم رحمۃ اللہ علیہ، پیر شریف، حضرت مولانا محمد شاہ امروٹی رحمۃ اللہ علیہ، غرضیکہ چاروں صوبوں کے تمام مکاتب فکر نے تحریک کے الاؤ کو ایندھن مہیا کیا۔ اخبارات و رسائل نے تحریک کی آواز کوملک گیر بنانے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو دباؤ بڑھتا گیا۔ ادھر قومی اسمبلی میں قادیانی و لاہوری گروپوں کے سربراہوں نے اپنا اپنا موقف پیش کیا۔ ان کا جواب اور امت مسلمہ کا موقف مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی قیادت میں مولانا محمد حیات رحمۃ اللہ علیہ، مولانا سمیع الحق، مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور مولانا سید انور حسین نفیس رقم نے مرتب کیا۔ اسے قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے چودھری ظہور الٰہی کی تجویز اور دیگر تمام حضرات کی تائید پر قرعہ فال مولانا مفتی محمود رحمۃا للہ علیہ کے نام نکلا۔ جس وقت انہوں نے یہ محضر نامہ پڑھا، قادیانیت کی حقیقت کھل کراسمبلی کے ارکان کے سامنے آگئی۔ مرزائیت پر اوس پڑگئی۔ نوے دن کی شب و روز مسلسل محنت و کاوش کے بعد جناب ذوالفقارعلی بھٹو کے عہد اقتدار میں متفقہ طور پر 7 ستمبر 1974ء کو نیشنل اسمبلی آف پاکستان نے عبدالحفیظ پیرزادہ کی پیش کردہ قرار داد کومنظور کیا اور مرزائی آئینی طور غیر مسلم اقلیت قرار پائے۔ الحمد اللہ رب العالمین حمدا کثیرا طیبا مبارکا فیہ کما یحب ربنا ویرضی

تحریک ختم نبوت1984ء
17 فروری 1983ء کومولانا محمد اسلم قریشی مبلغ تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ کو مرزائی سربراہ مرزا طاہر کے حکم پر مرزائیوں نے اغوا کیا۔ جس کے ردعمل میں پھر تحریک منظم ہوئی۔ شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمۃ اللہ علیہ کی رحلت کے بعد اس وقت تک مجلس تحفظ ختم نبوت کی امارت کا بوجھ میرے ناتواں کندھوں پر ہے۔ اس لیے آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان کی امارت بھی فقیر کے حصہ میں آئی۔ اللہ رب العزت کا لاکھ لاکھ فضل ہے جس سے جناب محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے تحفظ کے سلسلہ میں امت محمدیہ کے تمام طبقات کو اتفاق و اتحاد نصیب کر کے ایک لڑی میں پرودیا اور یوں 26 اپریل 1984ء کو امتناع قادیانیت آرڈیننس صدر مملکت جناب جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کے ہاتھوں جاری ہوا۔ قادیانیت کے خلاف آئینی طور پر جتنا ہونا چاہیے تھا اتنا نہیں ہوا لیکن جتنا ہوا اتنا آج تک کبھی نہیں ہوا تھا۔ آج اللہ رب العزت کا فضل و کرم ہے کہ مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت بن چکی ہے اور چار دانگ عالم میں رحمۃا للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و ناموس کے پھریرے کو بلند کرنے کی سعادتوں سے بہرہ ور ہورہی ہے۔ دنیا کے تمام براعظموں میں ختم نبوت کا کام وسیع سے وسیع ترہورہا ہے۔

ناشر
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پتوکی

06/01/2020

ختم نبوت

(4)عقید ختم نبوت احادیث مبارکہ کی روشنی میں

ختم نبوت سے متعلق چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں:
حدیث(1)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے انبیأ کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ا یک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی، لوگ اس کے گرد گھومنے اور اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نبیوں کو ختم کرنے والا ہوں۔“ (صحیح بخاری کتاب صفحہ501 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ248 جلد 2)
حدیث(2)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے چھ چیزوں میں انبیأ کرام علیہم السلام پر فضیلت دی گئی ہے: (۱) مجھے جامع کلمات عطا کئے گئے(۲) رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی (۳)مال غنیمت میرے لئے حلال کردیا گیا ہے (۴)روئے زمین کو میرے لئے مسجد اور پاک کرنے والی چیز بنادیا گیا ہے (۵) مجھے تمام مخلوق کی طرف مبعوث کیا گیا ہے (۶) اورمجھ پرنبیوں کا سلسلہ ختم کردیا گیا ہے۔“ (صحیح مسلم صفحہ 199 جلد 1، مشکوٰۃ صفحہ512) اس مضمون کی ایک حدیث صحیحین میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئیں، اس کے آخر میں ہے:”وکان النبی یبعث الی قومہ خاصۃ و بعثت الی الناس عامۃ۔“ (مشکوٰۃ صفحہ 512) ترجمہ: ”پہلے انبیأ کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا اور مجھے تمام انسانوں کی طرف مبعوث کیا گیا۔“
حدیث(3)
”سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم مجھ سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون کو موسیٰ (علیہما السلام) سے تھی، مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ (بخاری صفحہ633 جلد2)اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ: ”میرے بعد نبوت نہیں۔“ (صحیح مسلم صفحہ278 جلد2) حضرت شا ہ ولی اللہ محدّث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھاہے کہ یہ حدیث متواتر ہے۔
حدیث(4)
”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ بنی اسرائیل کی قیادت خود ان کے انبیأ کیا کرتے تھے، جب کسی نبی کی وفات ہوتی تھی تو اس کی جگہ دوسرا نبی آتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفأ ہوں گے اور بہت ہوں گے۔“ (صحیح بخاری صفحہ491 جلد 1، صحیح مسلم صفحہ126 جلد2، مسند احمد صفحہ297 جلد 2)
حدیث(5)
”حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“ (ابوداؤد صفحہ 127 جلد 2،ترمذی صفحہ 45 جلد 2)
حدیث(6)
”حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے، پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔“ (ترمذی صفحہ51 جلد2، مسند احمد صفحہ267 جلد3)
حدیث(7)
”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہم سب کے بعد آئے اور قیامت کے دن سب سے آگے ہوں گے، صرف اتنا ہوا کہ ان کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی۔“ (صحیح بخاری صفحہ120 جلد1، صحیح مسلم صفحہ282 جلد1)
حدیث(8)
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوتے۔ (ترمذی صفحہ209 جلد2)
حدیث(9)
”حضرت جبیربن مطعم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ میرے چند نام ہیں: میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی (مٹانے والا) ہوں کہ میرے ذریعے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائیں گے اور میں حاشر (جمع کرنے والا) ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میں عاقب (سب کے بعد آنے والا) ہوں کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔“ (متفق علیہ، مشکوۃصفحہ515)
حدیث(10)
متعدد احادیث میں یہ مضمون آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کرکے فرمایا:”بعثت أنا والساعۃ کھاتین“مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔ (مسلم صفحہ 406 جلد 2)

06/01/2020

ختم نبوت

(3)عقید ختم نبوت قرآنی آیات کی روشنی میں

”ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شئی علیما۔“ (سورۂ احزاب:40)
ترجمہ: ”محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں کے ختم پر ہے اورا للہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جانتا ہے۔
تمام مفسرین کا اس پر اتفاق ہے کہ خاتم النبیین کے معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو منصبِ نبوت پر فائز نہیں کیا جائیگا۔
خاتم النبیین کی نبوی تفسیر
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی کسی قسم کا نبی نہیں۔“(ابوداؤد، ترمذی)اس حدیث شریف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ”خاتم النبیین“ کی تفسیر ”لانبی بعدی“ کے ساتھ خود فرمادی ہے۔اسی لئے حافظ ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اس آیت کے تحت چند احادیث نقل کرنے کے بعد آٹھ سطر پر مشتمل ایک نہایت ایمان افروز ارشاد فرماتے ہیں۔ چند جملے آپ بھی پڑھ لیجئے۔ ”اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث متواتر کے ذریعہ خبر دی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تاکہ لوگوں کو معلوم رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جس نے بھی اس مقام (یعنی نبوت) کا دعویٰ کیا وہ بہت جھوٹا‘ بہت بڑا افترا پرداز‘ بڑا ہی مکار اور فریبی‘ خود گمراہ اور دوسروں کو گمراہ کرنے والا ہوگا‘ اگرچہ وہ خوارق عادات اور شعبدہ بازی دکھائے اور مختلف قسم کے جادو اور طلسماتی کرشموں کا مظاہرہ کرے۔“ (تفسیر ابن کثیررحمۃ اللہ علیہ جلد3 صفحہ494)
خاتم النبیین کی تفسیر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم و تابعین رحمۃ اللہ علیہم کا مسئلہ ختم نبوت سے متعلق مؤقف کیلئے یہاں پر صرف دوصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی آرأ مبارکہ درج کی جاتی ہیں۔ حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ انہوں نے آیت کی تفسیر میں فرمایا”اور لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول اور خاتم النبیین یعنی آخرالنبیین ہیں۔“ (ابن جریر صفحہ 16جلد 22) حضرت حسن رحمۃ اللہ علیہ سے آیت خاتم النبیین کے بارہ میں یہ تفسیر نقل کی گئی ہے کہ”اللہ تعالیٰ نے تمام انبیأ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان رسولوں میں سے جو اللہ کی طرف سے مبعوث ہوئے آخری ٹھہرے۔“ (درّ منثور صفحہ204 جلد5)کیا اس جیسی صراحتوں کے بعد بھی کسی شک یا تاویل کی گنجائش ہے؟ اور بروزی یا ظلی کی تاویل چل سکتی ہے؟
خاتم النبیین اور اجماع امت
1) حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”بے شک امت نے بالاجماع اس لفظ (خاتم النبیین) سے یہ سمجھا ہے کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہوگا اور نہ رسول، اور اس پر اجماع ہے کہ اس لفظ میں کوئی تاویل و تخصیص نہیں اور اس کا منکر یقینااجماع امت کا منکر ہے۔“ (الاقتصاد فی الاعتقاد صفحہ 123)
2) علامہ سید محمود آلوسی تفسیر روح المعانی میں زیر آیت خاتم النبیین لکھتے ہیں:اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ایسی حقیقت ہے جس پر قرآن ناطق ہے، احادیث نبویہ نے جس کو واشگاف طور پر بیان فرمایا ہے اور امت نے جس پر اجماع کیا ہے، پس جو شخص اس کے خلاف کا مدعی ہو اس کو کافر قرار دیا جائے گا اور اگر وہ اس پر اصرار کرے تو اس کو قتل کیا جائے گا۔“ (روح المعانی ص 39 ج 22)
3) امام حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے ذیل میں اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں ”یہ آیت اس مسئلہ میں نص ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں تو رسول بدرجہ اولیٰ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مقام نبوت مقام رسالت سے عام ہے۔ کیونکہ ہر رسول نبی ہوتا ہے اور ہر نبی رسول نہیں ہوتا او ر اس مسئلہ پر کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متواتر احادیث وارد ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی جماعت سے مروی ہے۔ (تفسیر ابن کثیر صفحہ493، جلد3)
4) امام قرطبی اس آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ”خاتم النبیین کے یہ الفاظ تمام قدیم و جدید علماء کے امت کے نزدیک کامل عموم پر ہیں۔ جو نص قطعی کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔ (تفسیر قرطبی صفحہ196 جلد14) پس عقیدۂ ختم نبوت جس طرح قرآن کریم کے نصوص قطعیہ سے ثابت ہے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ سے بھی ثابت ہے اور ہر دور میں امت کا اس پر اجماع و اتفاق چلا آیا ہے. سورۂ احزاب کی آیت 40 آیت خاتم النبیین کی تشریح و توضیح پ

ہلے گزر چکی ہے، اب دوسری آیات ملاحظہ ہوں:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا“ (سورہ مائدہ: 3)
ترجمہ: ”آج میں پورا کرچکا تمہارے لئے دین تمہارا‘ اور پورا کیا تم پر میں نے احسان اپنا‘ اور پسند کیا میں نے تمہارے واسطے اسلام کو دین۔“
نوٹ:…… یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام لاتے رہے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل زمانہ کے حالات اور تقاضے تغیرپذیر تھے‘ اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے نبی کی خوشخبری دیتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزول وحی کے اختتام سے دین پایہئ تکمیل کو پہنچ گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا تمام نبیوں کی نبوتوں اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے پر مشتمل ہے، اسی لئے اس کے بعد ”واتممت علیکم نعمتی“ فرمایا، علیکم یعنی نعمت نبوت کو میں نے تم پر تمام کردیا، لہٰذا دین کے اکمال اور نعمت نبوت کے اتمام کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی آسکتا ہے اور نہ سلسلہئ وحی جاری رہ سکتا ہے۔ اسی وجہ سے ایک یہودی نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا تھا کہ اے امیر المومنین: ”قرآن کی یہ آیت اگر ہم پر نازل ہوتی ہم اس دن کو عید مناتے“ (رواہ البخاری)،اور حضور علیہ السلام اس آیت کے نازل ہونے کے بعد اکیاسی(81) دن زندہ رہے (معارف صفحہ41 جلد3) اور اس کے نزول کے بعد کوئی حکم حلال و حرام نازل نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل شدہ کتاب کامل و مکمل،آخری کتاب ہے
”و ما ارسلنک الا کافۃ للناس بشیرا ًو نذیراً۔“ (سورۂ سبا: 28)
ترجمہ: ”ہم نے تم کو تمام دنیا کے انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر بناکر بھیجا ہے۔“
”قل یٰایھا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا۔“ (سورۂ اعراف: 158)
ترجمہ: ”فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں۔“
یہ دونوں آیتیں صاف اعلان کررہی ہیں کہ حضور علیہ السلام بغیر استثنأ تمام انسانوں کی طرف رسول ہوکر تشریف لائے ہیں جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”انا رسول من ادرکت حیا و من یولد بعدی۔“ترجمہ: ”میں اس کے لئے بھی اللہ کا رسول ہوں جس کو اس کی زندگی میں پالوں اور اس کے لئے بھی جو میرے بعد پیدا ہو۔“ (کنز العمال جلد11 صفحہ 404 حدیث 31885، خصائص کبریٰ صفحہ 88جلد 2)پس ان آیتوں سے واضح ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا، قیامت تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب الزماں رسول ہیں۔ بالفرض اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو حضور علیہ السلام کا فۃ الناسکی طرف اللہ تعالیٰ کے صاحب الزماں رسول نہیں ہوسکتے بلکہ براہ راست مستقل طور پر اسی نبی پر اور اس کی وحی پر ایمان لانا اور اس کو اپنی طرف اللہ کا بھیجا ہوا اعتقاد کرنا فرض ہوگا، ورنہ نجات ممکن نہیں اور حضور علیہ السلام کی نبوت اور وحی پر ایمان لانا اس کے ضمن میں داخل ہوگا۔ (معاذ اللہ)
”و ما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین۔“ (سورۂ انبیاء: 107)
ترجمہ: ”میں نے تم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بناکر بھیجا ہے۔“
یعنی حضور علیہ السلام پر ایمان لانا تمام جہان والوں کو نجات کے لئے کافی ہے۔ پس اگر بالفرض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی مبعوث ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو اس پر اور اس کی وحی پر ایمان فرض ہوگا، اور اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان کامل رکھتے ہوئے بھی اس کی نبوت اور اس کی وحی پر ایمان نہ لاوے تو نجات نہ ہوگی اور یہ رحمۃ للعالمینی کے منافی ہے کہ اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر مستقلاً ایمان لانا کافی نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صاحب الزمان رسول نہیں رہے؟ (معاذ اللہ)
”و الذین یؤمنون بما انزل الیک و ما انزل من قبلک و بالآخرۃ ھم یوقنون۔ اولئک علی ھدی من ربھم و اولئک ھم المفلحون۔“(سورۂ بقرہ: 4،5)
ترجمہ: ”جو ایمان لاتے ہیں، اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی گئی اور اس وحی پر جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے نازل کی گئی اور یومِ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، یہی لوگ خدا کی ہدایت پر ہیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔“
”یٰایھا الذین آمنوا اٰمنوا باللہ و رسولہ و الکتاب الذی نزل
علی رسولہ و الکتاب الذی انزل من قبل۔“ (النسأ: 136) ترجمہ: ”اے ایمان والو! ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور اس کتاب پر جس کو اپنے رسول پر نازل کیا ہے اور ان کتابوں پر جو ان سے پہلے نازل کی گئیں۔“
یہ آیت بڑی وضاحت سے ثابت کررہی ہے کہ ہم کو صرف حضور علیہ السلام کی نبوت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے انبیاء اور ان کی وحیوں پر ایمان لانے کا حکم ہے۔ اگر بالفرض حضور علیہ السلام کے بعد کوئی بعہدۂ نبوت مشرف کیا جاتا تو ضرور تھا کہ قرآن کریم اس کی نبوت اور وحی پر ایمان لانے کی بھی تاکید فرماتا، معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم

کے بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا۔

Address

Nisatta

Telephone

+923159393335

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Khatm E Nabuwat Nisatta posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Khatm E Nabuwat Nisatta:

Share

Category


Other Nisatta media companies

Show All

You may also like