19/06/2024
*مقابلہ ہی کرنا ہے تو پھر ہر میدان میں جم کے کرو*
*تحریر: میاں فیصل*
مشہور زمانہ مفکر اور فلسفی افلاطون نے حکمرانی کے اصولوں پر ایک کتاب " الجمہوریہ" یعنی The Republic تحریر کی۔ جس میں عوام کے حقوق سے لیکر حکمرانوں کے فرائض اور شہری زندگی کے اصول تک اس کتاب میں درج ہیں۔ لیکن اس کتاب میں افلاطون کا ایک بصیرت افروز فقرہ ایسا ہے جو آج تک حکومتوں پر سچ ثابت ہوتا آیا ہے۔ افلاطون کہتا ہے " تباہ ہو گئیں وہ قومیں جن پر تاجر یا جرنیل حکمران ہو گئے"
*پاکستان* اور *بھارت* دونوں ایک روز کے وقفے کے ساتھ انگریزوں کی غلامی سے چھٹکارا پا گئے لیکن سیاسیات کے باب میں دونوں یوں مختلف سمتوں میں چلے کہ جیسے کوئی تحقیق ہو رہی ہو جس میں افلاطون کا وہ شہرہ آفاق فقرہ صحیح ثابت ہوتا ہو۔ ایک وہ تھے جنہوں نے نہ جرنیلوں کو حکمرانی کے قریب پھٹکنے دیا اور نہ تاجروں کو اور دوسرے بالکل اس سے مختلف اب صرف نتائج دیکھئے اور دیکھتے جائیے۔
بھارت کے *مکیش امبانی* کراچی کے سٹاک ایکسچینج کی ہر کمپنی کے 100% شئیرز خرید لیں تو پھر بھی ان کے پاس 30 ارب ڈالرز بچ جائیں گے وہاں کے 4 امیر آدمی پاکستان میں پیدا ہونے والے تمام اشیاء اور تیار کی جانے والی سب چیزیں خرید لیں تو پھر بھی ان کے پاس 60 ارب ڈالرز بچ جائیں گے بھارت کے یہ 4 امیر لوگ چین کے 40 امیر ترین لوگوں سے زیادہ دولت رکھتے ہیں۔ صرف ایک *ریلائنس* کمپنی کے 48% شئیرز رکھنے والا *مکیش امبانی* 100 ارب ڈالرز کے شئیرز رکھتا ہے جبکہ کراچی سٹاک ایکسچینج کی کل قیمت 68 ارب ڈالر ہے۔ اس وقت بھارت دنیا کا چھٹا بڑا مقبول ملک ہے جہاں سرمایہ کاری کی جا سکتی ہے جبکہ ہم اس لسٹ میں 74 ویں نمبر پر ہیں۔
امریکہ کے سائنسدانوں میں 12% بھارتی ہیں جن میں 38% ڈاکٹرز، 36% NASA میں، یہ وہ ادارہ ہے جو چاند اور مریخ کی تسخیر کرتا ہے۔ 34% مائیکروسافٹ اور 28% IBM کے ملازمین ہیں۔HOTMAIL سبیر بھاٹیہ نے، سن مائیکرو سسٹم ونود کھوسلہ نے، اینٹل پینٹئیم کو ونود دھام نے اور ای سپیک سسٹم کو راجیو گپتا نے ایجاد کیا۔ دس میں سے چار سیلکیون ویلیز جو کمپیوٹر سے وابستہ کاروبار سے منسلک ہیں، بھارت کے زیراہتمام کام کر رہی ہیں۔ اعتماد کا یہ عالم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے بڑے اتحادی ہم ہیں اور عراق و افغانستان کے ساتھ ساتھ ہم اس جنگ کا شکار بھی ہیں لیکن اگر اقوام متحدہ عراق و افغانستان میں الیکشن کروانے جاتی ہے تو بھارت کے الیکشن کمیشن کو مدعو کیا جاتا ہے کہ اسکی مدد کرے۔
اب ان معمولی اعداد وشمار کو دیکھئے گا اور اگر کرکٹ کا خمار اتر چکا ہو تو غور کیجئے گا کہ ہم دونوں ایک ساتھ آزاد ہونے والے ملک ہیں لیکن دونوں کیسے مختلف سمت میں چلے گئے ہیں۔
اگر کوئی پوچھے کہ تم آزادی کے بعد اب تک کسی ایک سمت میں سفر کا آغاز کیوں نہ کر سکے؟ تو ہم ان کو یہ کیسے بتائیں کہ یہاں *ایوب خان* جیسے لوگ بھی حکمران بنے جو کہتا تھا کہ میں لندن کے ایک ہوٹل کی بالکنی میں کھڑا بار بار سوچتا تھا کہ میں اس ملک کو کیسے ٹھیک کروں اور پھر میں نے کئی راتیں جاگ کر ایک پروگرام ترتیب دیا کہ کس طرح یہاں بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پروگرام کو تجاویز کے طور پر گورنر جنرل کو پیش کر دیا۔ لیکن اس پر کوئی غور و فکر نہ ہوا اور یوں اس نے 27 اکتوبر 1958ء کو بساط الٹ دی ، اپنا نظام نافذ کر دیا اور پھر بار بار ہمارا یہ حشر ہوا کہ ایک شخص آیا جس کے کوٹ کی جیب میں ایک طرف مسائل کی لسٹ ہوتی اور دوسری جانب اسکے حل تحریر ہوتے۔
نہ عوام سے کبھی پوچھا جاتا کہ تمھارے مسائل کیا ہیں اور نہ یہ بتایا جاتا کہ اسکا حل تمھاری مرضی کے مطابق ہے یا نہیں۔ ہم وہ لوگ تھے جو ملیریا کی وبا میں جھکڑے ایک گاؤں میں کسی این جی او کے کارندوں کی طرح جاتے رہے اور انہیں آبادی کم کرنے کی دوائیاں تقسیم کرتے رہے۔
ہم ایک جیسی صلاحیتوں، ایک جیسے موسموں اور ایک جیسے وسائل رکھنے والے لوگ تھے لیکن شاید ہم میں سے کسی نے افلاطون کی کتاب کو ہاتھ تک نہ لگایا اور دوسرے نے اس کے ایک ہی فقرے سے سبق حاصل کر لیا کہ تباہ ہو گئیں وہ قومیں جن پر تاجر یا جرنیل حکمران ہوئے۔
اصل مقابلے کی جگہیں تو یہی ہیں جو اس ملک کے ہر باشندے کو زندگی کے ہر میدان میں اپنے دشمن کے برابر لا کھڑا کر سکیں۔ صرف کرکٹ کے میدان کی جیت کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ہمت ہے تو مقابلہ کرنے کے میدان لاتعداد ہیں اور وہاں مقابلہ ملک و ملت کی اصل بہتری کے لئے ہے۔ خالی نعروں کے لئے نہیں۔ مقابلہ ہی کرنا ہے تو زندگی کے ہر میدان میں جم کے کرو۔