29/11/2024
2005 میں جب ایف ایم ریڈیوز کا احیاء ہوا تو آر جےز کیلئے بی بی سی نے پاکستان میں ایک ٹریننگ کا اہتمام کیا۔ جسے مطیع اللہ جان کی آرگنائزیشن "انٹر نیوز" نے کنڈکٹ کیا۔ مجھے بھی اعزاز حاصل ہوا اور دو دن ہم نے مطیع اللہ جان سے ریڈیو جرنلزم کی با قاعدہ ٹریننگ حاصل کی۔
جسطرح مطیع اللہ جان خود نڈر اور بہادر ہیں ایسے ہی ہمیں بھی بہادری سے رپورٹنگ کی تاکید کی۔ اسوقت مشرف کا دور حکومت تھا اور میڈیا آجکے نام نہاد جمہوری دور سے زیادہ آزاد تھا۔ الیکٹرانک میدیا مشرف پر کھل کر تنقید کرتا تھا اور انسانی آزادیوں کے حوالے سے اقدامات کی ایک امید بیدار ہو چکی تھی۔
آسلام آباد میں ی ٹی آئ مظاہرین پر کھلی فائرنگ پر جہاں انٹرنیشنل میڈیا کھل کر مزمت کر رہا ہے وہیں مطیع اللہ جان کی کاوشوں کو نظر انداز کرنا نا ممکن ہے۔ ریاست کسطرح جھوٹا بیانیا بار بار دہرا رہی ہے ۔ اپنے پید صحافیوں کو اس کام پہ لگایا ہوا ہے کہ جھوٹ بولو اور بار بار بولو۔ اتنا بولو کہ وہ سچ لگنے لگے وہیں مطیع اللہ جان جیسے صحافی نے ریاست کے کئیے کراے پر پانی پھیر دیا ہے۔
سب سے پہلے الیکٹرانک میڈیا سے جھوٹ بولا گیا کہ مظاہرین کی گاڑیوں نے رینجرز اہلکاروں کو کچل دیا۔ اس پر مطیع اللہ نے نہ صرف اس جھوٹ کو بے نقاب کیا بلکہ جاں بحق ہونیوالے الیاس نامی شخص کے بھائ کا انٹرویو بھی سوشل میڈیا پر جاری کر دیا ۔ دوسرا ہسپتالوں کا ریکارڈ جسطرح غائب کیا گیا اسکی چھان بین کا کام مطیع اللہ جان کر رہے تھے جس پر ریاست کے نا معلوم مزید بے نقاب ہونیوالے تھے ۔
اسی جرم کی پاداش میں کل مطیع اللہ جان کو نا معلوم افراد نے اغوا کیا۔
اللہ مطیع صاحب کو اپنی حفظوامان میں رکھے۔ انکے ساتھ کروڑوں پاکستانیوں کی دعائیں ہیں۔ انشاللہ وہ جلد واپس آئیں اور اپنی صحافتی زمہ داریاں نبھائیں۔