Aafaq Ahmed Qureshi

Aafaq Ahmed Qureshi trying to describe not yet complete....

14/11/2024
آؤ فر تساں کو پروموٹ کراں 😜😜🤣
13/11/2024

آؤ فر تساں کو پروموٹ کراں 😜😜🤣

30/10/2024

7 اکتوبر کے بعد عرب حکمرانوں کے رویے کی روداد
================================

[باب ووڈورڈ معروف امریکی تحقیقاتی صحافی ہیں۔ ان کی ١٥ اکتوبر، ٢٠٢٤ کو شائع ہونے والی کتاب بعنوان "War" نے اس وقت عرب سوشل میڈیا میں خاصی ہلچل پیدا کی ہوئی ہے۔ مصنف کو 1970ء کی دھائی میں واٹر گیٹ اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹنگ کی وجہ سے عالمی شہرت حاصل ہوئی، جس کے نتیجے میں امریکی صدر رچرڈ نکسن کو بلآخر عہدے سے مستعفی ہونا پڑا تھا۔ یہاں ان کی تازہ کتاب سے کچھ کلیدی اقتباسات کا اردو ترجمہ پیش خدمت ہے جو فلسطین پر اسرائیلی جارحیت کے حوالے سے عرب حکمرانوں کی مجرمانہ بے حسی کا پس منظر اور وجوہات سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔]

---

اردن:

اگلی صبح، 13 اکتوبر کو، [امریکی وزیر خارجہ اینتھنی] بلنکن نے شاہ عبداللہ دوم سے ملاقات کی۔ شاہ عبداللہ نے کہا، "حماس دراصل اخوان المسلمون ہے... حماس کو شکست دینا ناگزیر ہے۔ ہم اس کا برملا اظہار نہیں کریں گے،" انہوں نے وضاحت کی، "مگر ہم حماس کی شکست کی حمایت کرتے ہیں اور اسرائیل کو چاہیے کہ وہ حماس کو شکست دے"۔ بادشاہ نے مزید کہا، "اسرائیل نے سالہا سال حماس کو مضبوط ہونے دیا۔ لاکھوں ڈالر اسرائیل کے علم اور رضامندی کے ساتھ حماس کو فراہم کیے گئے، اس دلیل پر کہ یہ رقم [فلسطینیوں کی] زندگی کو بہتر بنانے اور غزہ میں استحکام قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی۔"

---

قطر:

کچھ گھنٹوں بعد بلنکن نے دوحہ میں قطر کے سربراہ، امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی سے ملاقات کی، جبکہ حماس کی سیاسی قیادت اس سڑک پر قریب ہی واقع اپنے دفتر میں مصروفِ کار تھی۔
امیر نے بلنکن سے کہا، "ہم نے حماس پر واضح کر دیا ہے کہ اس عمل [اسرائیل پر 7 اکتوبر کے حملوں] کو کوئی قبول نہیں کرتا۔ جو کچھ انہوں نے کیا، اسے کوئی تسلیم کرنے کے لیے راضی نہیں۔ اب آپ کے پاس کوئی دوست باقی نہیں رہے۔ آپ ہم سے کیا توقع کرتے ہیں کہ ہم امریکیوں اور اسرائیلیوں کو کیا جواب دیں گے؟"
امیر الثانی نے مزید کہا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ دوحہ میں موجود حماس کے رہنما 7 اکتوبر کے بارے میں پہلے سے آگاہ تھے یا نہیں۔
"یہ ممکن ہے کہ [یحییٰ] سنوار نے یہ قدم تنہا اٹھایا ہو، مگر یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں معلوم ہو، اور وہ کسی کو مطلع نہیں کرنا چاہتے ہوں۔"
"صدر [جو بائیڈن] کی جانب سے دو باتیں پہنچانا چاہتا ہوں،" بلنکن نے امیر سے کہا۔ "فی الوقت آپ یرغمالیوں کے معاملے پر حماس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ہم اس بات کی قدر کرتے ہیں کہ یرغمالیوں کی رہائی کے لیے ایک ذریعہ موجود ہے۔ مگر جب یہ معاملہ ختم ہو جائے گا، تو حماس کے ساتھ آپ کے معمول کے تعلقات قائم نہیں رہ سکتے۔ یہ اب ممکن نہیں۔"
"میں سمجھ سکتا ہوں، اور ایسا ہی ہوگا،" امیر نے جواب دیا۔ "اب مجھے [حماس کے ساتھ] تعلقات کی ضرورت نہیں رہی۔ میں امریکہ کے ساتھ تعلقات میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتا۔ ہم یہ چینل ابھی اس لیے کھلا رکھیں گے کیونکہ آپ اسے ضروری سمجھتے ہیں۔ ہمارے لیے امریکہ کے ساتھ تعلقات بے حد اہم ہیں۔"
بلنکن کو شدید حیرت ہوئی۔ اس کا خیال تھا لکہ حماس کی قیادت کے لیے محفوظ ٹھکانہ ختم کرنے کا معاملہ ایسا مسئلہ ہوگا جسے وقت کے ساتھ حل کرنا پڑے گا، اور شاید اس پر دھونس و دھمکی سے بھی کام لینا پڑے۔
لیکن امیر نے بظاہر براہ راست کہے بغیراشارہ دے دیا کہ اگر آپ موجودہ صورتِ حالات کے اختتام پر ہم سے مطالبہ کریں گے کہ حماس سے چھٹکارا حاصل کرو، تو ہم حماس کو نکال باہر کریں گے۔

---

سعودی عرب:

بحرین میں توقف کے بعد، بلنکن اپنے تھکے ہوئے وفد کے ہمراہ سعودی عرب کے شہر ریاض میں رات گزارنے پہنچا۔ یہ ان کے لیے ایک ہی دن میں چوتھا ملک تھا [وفد نے بحرین کے ولی عہد سے بھی اسی روز ملاقات کی تھی لیکن اس کے متعلق کتاب میں اسی قدر درج ہے کہ ولی عہد نے تقریباً وہی باتیں دہرائیں جو بلنکن اردن کے شاہ عبد اللہ دوم سے سن چکا تھا]۔
اگلی صبح، 14 اکتوبر کو، بلنکن کی ملاقات سعودی وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان آل سعود سے ہوئی۔
شہزادے نے کہا، "بی بی [نیتن یاہو] کو خود بہتر معلوم ہونا چاہیے تھا۔ سب نے انہیں کہا کہ حماس کے ساتھ یہ معاملہ نہ کریں [یعنی غزہ کے لیے پیسوں کی ترسیل ممکن نہ ہونے دیں] ۔ ہم نے بھی انہیں خبردار کیا تھا۔ انہیں بہرصورت خود سمجھداری کا مظاہرہ کرنا چاہیے تھا جب ہم نے واضح الفاظ میں انہیں یہ بات کہی تھی کہ ایسا نہ کریں۔"
"حماس اخوان المسلمون ہے،" شہزادے نے مزید کہا۔
بلنکن نے یہ بات کئی مرتبہ سنی تھی۔ اسے یہ احساس ہوا کہ تمام ہی عرب حکمران اپنی ریاستوں میں حماس کے نظریات کی حامل کسی نہ کسی تحریک کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کر چکے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اردن کے بادشاہ، قطر کے امیر، بحرین کے ولی عہد، سعودی، مصری اور دیگر رہنما اس معاملے [حماس کی بیخ کنی] میں اتنی گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ کیونکہ ان کے نزدیک یہ دہشت گرد گروہ صرف اسرائیل ہی کو ختم نہیں کرنا چاہتے ہیں بلکہ ان حکمرانوں کا بھی تختہ الٹنے کے درپے ہیں۔
شہزادے نے کہا، "ہمیں اس بات کی گہری تشویش ہے کہ اسرائیل کی کارروائیوں کے اثرات ہماری مجموعی سلامتی پر کیا پڑیں گے۔ جو کچھ حماس کے بعد آئے گا، ممکن ہے کہ وہ اس سے بھی بدتر ہو۔"
"آپ. کو داعش کا علم ہے؟ داعش القاعدہ سے بھی زیادہ مہلک ثابت ہوئی تھی۔"
بلنکن نے پوچھا کہ سعودی عرب اس تنازعے کے بعد غزہ کی تعمیر نو میں کس حد تک کردار ادا کرے گا۔
شہزادے نے کہا، "ہم بی بی [نیتن یاہو] کے پھیلائے گند کی صفائی کے لیے پیسے نہیں دیں گے۔ اگر اسرائیل سب کچھ تباہ کر دیتا ہے، تو ہم غزہ کی دوبارہ تعمیر کے اخراجات نہیں اٹھائیں گے۔"

---

متحدہ عرب امارات:

بعد ازاں بلنکن متحدہ عرب امارات پہنچا تاکہ صدر شیخ محمد بن زاید النہیان سے ملاقات کریے۔
62 سالہ النہیان نے کہا، "حماس کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم اسرائیل کو حماس کو تباہ کرنے کی گنجائش دے سکتے ہیں، مگر اسرائیل کو بھی ہمیں گنجائش فراہم کرنا ہوگی۔ انسانی امداد غزہ میں داخل ہونے دیں۔ محفوظ علاقے قائم کریں تاکہ عام شہریوں کی ہلاکتوں سے بچا جا سکے۔ مغربی کنارے میں آباد کاروں کے تشدد پر قابو پائیں۔"
اس درخواست کے پس پردہ یہ بات بھی شامل تھی کہ ایک مختصر وقفہ عارضی جنگ بندی کی صورت ان کے شہریوں کی تشویش کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، جو غزہ کی تباہ کن تصاویر دیکھ کر غضبناک تھے۔
النہیان کی یہ واضح درخواست—ہمیں گنجائش دو تاکہ ہم تمہیں گنجائش دیں—بلنکن کے ذہن میں نقش ہو گئی۔ عرب رہنما اسرائیل کو حماس کے خلاف جو کچھ کہ وہ کرنا چاہتا ہے اس پر عمل درآمد کی گنجائش دینے پر مکمل آمادہ تھے، مگر اسرائیل کو بھی غزہ میں انسانی امداد کے لیے راستہ فراہم کرنے کی گنجائش پیدا کرنا ہو گی۔ بلنکن نے اس نکتے کو بعد میں بی بی [نیتن یاہو] کے ساتھ گفتگو کے لیے ذہن نشین کر لیا۔
النہیان نے مزید کہا کہ اسرائیل نے پس پردہ حماس کو مالی امداد کی فراہمی ممکن ہونے دی۔ "ہم نے اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ وہ حماس کے ساتھ یہ معاملہ نہ کریں۔ وہ اخوان المسلمون ہیں۔"
سعودی عرب کے برعکس، متحدہ عرب امارات نے ٹرمپ انتظامیہ کے ابراہم معاہدات کے تحت اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کر لیے تھا۔
روانگی سے قبل، سیکریٹری بلنکن اور ان کے عملے کو ابراہمک فیملی ہاؤس کا دورہ کرایا گیا، جو ایک کثیر المذاہب مذہبی کمپلیکس ہے، جہاں ایک مسجد، ایک کلیسہ، اور ایک کنیسہ ایک غیر مذہبی وزیٹر پویلین میں تعمیر کیے گئے ہیں۔ اماراتیوں نے بلنکن کو بتایا کہ یہ بقائے باہمی اور امن کا راستہ ہے، جو خطے کے مستقبل کی عکاسی کرتا ہے۔

---

ایک مرتبہ پھر سعودی عرب:

بلنکن اسی رات ریاض واپس پہنچا کیونکہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ملاقات کی حامی بھری تھی۔
بلنکن کے نزدیک محمد بن سلمان وہ شخص تھا جس سے خطے میں معاملات طے کرنا ناگزیر تھے۔ ولی عہد نے نہ صرف طاقت پر مضبوط گرفت قائم کر رکھی تھی بلکہ اس کے پاس ہی وہ واحد ترغیب تھی جو اسرائیل کے لیے ہمیشہ سے باعثِ کشش رہی ہے— یعنی سعودی عرب، مشرق وسطیٰ کے سب سے اہم ملک کے ساتھ تعلقات کی بحالی۔
بالآخر ملاقات کے دوران محمد بن سلمان نے بلنکن سے کہا، "میری بس یہ خواہش ہے کہ 7 اکتوبر کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل کا خاتمہ ممکن ہو۔"
حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے قبل سعودی عرب اور اسرائیل تعلقات کی بحالی کے لیے مذاکرات میں مصروف تھے۔ یہ ولی عہد کے “سعودی وژن 2030” کا حصہ تھا، جس کا مقصد سعودی عرب کا تیل کی برآمدات پر انحصار کو کم کرنا اور ملک کو ایک جدید معیشت اور معاشرت میں ڈھالنا تھا۔
محمد بن سلمان نے کہا، "مجھے اپنے اس وژن کی جانب رجوع کرنا پسند کروں گا، مگر اس کے لیے غزہ کا پرسکون ہونا ضروری ہے۔ تعلقات کی بحالی کا عمل ختم نہیں ہوا، مگر ظاہر ہے کہ فی الحال ہم اسے آگے نہیں بڑھا سکتے۔ وہ جنگ شروع کرنے والے ہیں، مگر میں چاہوں گا کہ مستقبل میں کسی مناسب موقع پر اس عمل کا اعادہ کیا جائے۔"

---

مصر:

اسرائیل واپس جانے سے قبل، بلنکن مصر کے صدر سیسی سے ملاقات کے لئے قاہرہ پہنچا۔ سیسی نے بلنکن کے عملے کو باہر بھیج دیا، یوں صرف وہ اور سیکریٹری [بلنکن] رہ گئے۔
سیسی کا واحد مقصد یہ تھا کہ اسرائیل کے ساتھ اُس امن کی فضا کو برقرار رکھا جائے جو صدر جمی کارٹر کے 1979ء کے کیمپ ڈیوڈ معاہدات کے نتیجے میں قائم ہوئی تھی۔
بلنکن کی ٹیم، جس میں اس کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف ٹام سلیوان، مشیر ڈیرک شولے، اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان میتھیو ملر شامل تھے، مصر کے وزیر خارجہ سامح شکری اور انٹیلی جنس چیف عباس کامل سے ملاقات کے لیے چلے گئے۔ سیسی کے بعد کامل مصر میں سب سے بااختیار شخصیت ہے، جو عملاً مملکت کے آدھے معاملات سیسی کی صوابدید پر چلا رہا ہے۔
کامل نے امریکیوں کا آگاہ کیا کہ غزہ میں حماس کا زیر زمین سرنگوں کا نیٹ ورک کس قدر وسیع اور پیچیدہ ہے۔ "حماس غزہ میں جڑ پکڑ چکی ہے،" اس نے متنبہ کیا، "اسے ختم کرنا بہت مشکل ہوگا۔"
کامل نے کہا، "اسرائیل کو یکدم پوری طاقت کے ساتھ [غزہ میں] نہیں اترنا چاہیے۔ تحمل کے ساتھ گھات لگا کر انتظار کریں، جب وہ سامنے آئیں تو ان کے سر قلم کر ڈالیں۔"
امریکیوں نے محسوس کیا کہ وہ مذاق نہیں کر رہا تھا۔

---

اسرائیل:

بلنکن 16 اکتوبر کی صبح تل ابیب پہنچا۔ بائیڈن کا اولین ہدف یہ تھا کہ اسرائیلی حکومت غزہ میں انسانی امداد کے راستے کھول دے، جو اسرائیل کی شدید بمباری کے نتیجے میں بری طرح متاثر ہو چکا تھا۔
بلنکن نے کہا آپ سے آخری ملاقات کے بعد ہم پورے خطے کا دورہ کر آئے ہیں۔ آپ کے دوستوں سے ملے اور ساتھ ہی ان سے بھی جو دوست تو نہیں ہیں مگر دشمن بھی نہیں کہلائے جا سکتے۔ ایک بات جو ہم نے بار بار سنی، وہ یہ تھی کہ جو آپ کرنے جا رہے ہیں، وہ [عرب حکمران] اس میں آپ کے ساتھ ہیں۔ وہ حماس کو شکست دینے کی حمایت کرتے ہیں۔ ان میں سے سب ہی اس بات کو فی الحال اپنے عوام کے سامنے کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں، مگر وہ آپ کو کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ خطے میں استحکام چاہتے ہیں اور حماس کے ساتھ ان میں سے کسی ریاست کو کوئی ہمدردی نہیں۔
"مگر جیسا کہ آپ کے ایک دوست نے کہا: اسرائیل کو ہمیں گنجائش دینا ہوگی تاکہ ہم انہیں گنجائش دے سکیں،" بلنکن نے وہی الفاظ دہرائے جو امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان نے اس سے کہے تھے۔

---

Woodward, Bob. War. New York: Simon & Schuster, 2024, pp. 311-322.

05/10/2024
💞❤️💞❤️💞
03/10/2024

💞❤️💞❤️💞

💞💞💞💞💞💞
02/10/2024

💞💞💞💞💞💞

I've received 200 reactions to my posts in the past 30 days. Thanks for your support. 🙏🤗🎉
21/09/2024

I've received 200 reactions to my posts in the past 30 days. Thanks for your support. 🙏🤗🎉

Beautiful moments ❤️💞
14/09/2024

Beautiful moments ❤️💞

Address

Mansehra
21161

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+923072002228

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Aafaq Ahmed Qureshi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Aafaq Ahmed Qureshi:

Videos

Share