21/12/2023
اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
آج جناب خان شوکت حیات خان صاحب ریزیڈنٹ ایڈیٹر روزنامہ جذبہ نے مجھے اک یادگار اخبار کی کاپی ارسال کی ۔ جس میں منڈی بہاؤالدین کی صحافت کا خوبصورت سماجی کردار ، اک عہد ساز سیاسی شخصیت ، اپنی ذات میں بے شمار خوبیاں سمیٹے ہوئے انا پرست اور نہائت خوددار شخصیت جناب محمد حسین شاکر مرحوم ( چیف ایڈیٹر روزنامہ محاسب منڈی بہاؤالدین ) بطور صدر ایڈیٹر کونسل منڈی بہاؤالدین منتخب ہوئے تھے ۔ نا چیز کو بھی ان کے زیرقیادت کام کرنے کا موقع ملا ۔ سچ یہی ہے محمد حسین شاکر مرحوم اپنے اندر اک تاریخ تھے ۔ اک عہد تھے ۔ بظاہر مطمئن مگر اپنے وجود میں سمیٹے ہوئے طوفانی مدوجزر کا سمندر تھے ۔ اللہ رب رحیم و کریم ان کو کروٹ کروٹ جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین یا رب العالمین ۔
وقت کی اپنی رفتار ہے ۔ زمانے کے اپنے ضوابط ہیں ۔ تاریخ کا اپنا اک انداز کسوٹی ہے ۔ لیکن احباب کی شبانہ روز محنت اور کاوش سے منظم کیا گیا یہ ادارہ ایڈیٹرز کونسل منڈی بہاؤالدین غیر فعال ہوتا گیا ۔ نہائت مظبوط تعلقات پہ شک ، شکوے ، شکائیتیں ، بے بنیاد اندیشوں کی دیمک چاٹنے لگی۔صحافیوں اور اخباری صنعت سے وابستہ لوگوں کے حقوق کے تحفظات کا ترجمان ادارہ شکست و ریخت کا شکار ہوتا چلاگیا ۔ اک خوبصورت مالا کا شیرازہ بکھرتا چلاگیا۔اور یوں اس مالا پہ اوس پڑتی چلی گئی اور ایڈیٹرز کونسل کی مالا کی پتیاں کملا گئیں ۔ جناب شاکر مرحوم ہر چند کوشاں رہے کہ یہ شیرازہ بکھرنے نہ پائے ۔ لیکن ہماری اندر کی اناوں اور "دانشوری " کی برتری کی سوچ اس میں حائل رہی ۔ حالات اور وقت کے سامنے حقائق تسلیم کرنا ہی اچھی روائت ہے۔ اس کا شیرازہ بکھیرنےمیں کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہراتا ۔ اپنی ذات کو قصور وار تھہراتے ہوئے کہتا ہوں ۔ ہماری انائیں۔ انداز فکر ، بالکل درست نہ تھا۔
اسی کشمکش میں جناب محمد حسین شاکر مرحوم دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ یہاں کس کو دوام ہے ۔ موت میراث آدم ہے ۔۔۔۔۔
"کل من علیھا فان "
ہم سب کو انہی راستوں پہ عازم سفر ہونا ہے ۔ جانے سے پہلے کچھ مثبت اور تاریخی کام کر گزریں ۔ بخدا ہماری صحافتی عدم اتفاق اور اک مظبوط مشترکہ اجتماعی پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے منڈی بہاؤالدین میں اک سیاہ رات مسلط ہے ۔ چار سو وحشت کا راج ہے ۔ لا اینڈ آرڈر کی ناگفتہ صورت حال ریاست کی انتظامی گرفت کا منہ چڑارہی ہے ۔ متواتر ڈکیتی اور قتل اور دیگر سنگین جرائم کے تسلسل اور پولیس کی عدم گرفت نے عوام کے اندر خوف اور بے بسی کی کیفیت پیدا کردی ہے ۔ اداروں میں کرپشن کی دیوی سر چڑھ کے رقص کررہی ہے ۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں ۔ خدا کی قسم یہ سب ہماری عاقبت نا اندیشیوں کا نتیجہ ہے ۔ قابل اور زیرک پروفیشنل صحافی راندہ درگاہ ہوچکے ۔ باقی خاموش تماشائی "نیرو " کی طرح بانسری کی دھن سے مسہور ہورہے ہیں ۔ ( روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا ) ۔
یوسف بدر سیمت ہم سب وقت اور تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں ۔ ہم سچائیوں کے لاکھ دعویدار سہی ۔لیکن "شخصیات کے پجاری " بن کر صحافتی اور عوامی استحصال پہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں ۔ اس لاچارگی اور کوفہ نما صورت حال میں غیر پروفیشنل جاہل لوگ صحافت کا لبادہ اوڑھ کر میدان صحافت میں وہ گل کھلائے کہ جس سے صحافت کی اقدار دفن ہوکے رہ گئیں۔
ضلع بھر کے مظلوم عوام حالات سے عاجز آکے ہاہا کار کرتے رہے ۔ فریادی گریہ زاری کرتے رہے ۔ ضلع بھر میں لاقانونیت اور بدامنی کا راج رہا ۔ لیکن ہم یار لوگ من کے مندر اپنے اندر بیٹھے ہوئے "بھگوان " کی پوجا کرتے رہے۔ ارمانوں کے شمشان گھاٹ پہ دکھی لوگوں کی چتائیں جلتی رہیں ۔ لیکن میں من کے مندر میں اپنی " تپسیا " میں مطمئن رہا ۔
خدارا ایسا مت کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔ آئیے کہ ہم سب متحد ہوکر اک مشترکہ متفقہ پلیٹ فارم بنالیں ۔ اور اپنے لکھاری دوستوں اور عوام کے حقوق کا تحفظ کرسکیں ۔
محمد یوسف بدر
چیف ایڈیٹر ھفت روزہ غیرت منڈی بہاؤالدین
چیئرمین ہیومن رائٹس پروٹیکشن فاونڈیشن پاکستان