Omair Bolta Hai

Omair Bolta Hai کچھ کھٹی میٹھی کڑوی سچی باتیں

09/12/2024

جب خفیہ ادارے کے سربراہ کو ڈانٹ پڑی

آمروں کے انجام پر تحقیق کر رہا تھا۔ یمن کے علی عبداللہ صالح کی ایک ویڈیو سامنے آئی۔ یہ یمن کے صدر تھے، عوامی احتجاج کے ب...
08/12/2024

آمروں کے انجام پر تحقیق کر رہا تھا۔ یمن کے علی عبداللہ صالح کی ایک ویڈیو سامنے آئی۔ یہ یمن کے صدر تھے، عوامی احتجاج کے بعد انہیں اقتدار چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد یمن ایسی بدامنی کا شکار ہوا کہ حالات پر اب بھی بحران کے بادل ہیں۔
ویڈیو اس وقت کی تھی جب علی عبداللہ صالح اقتدار میں تھے، اور ان سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرے کر رہے تھے۔ علی عبداللہ صالح نے مظاہرین کے بارے میں کہا، "یہ تبدیلی کا نام لے کر ملک میں انتشار چاہتے ہیں۔"
پتہ نہیں کیوں یہ جملہ سنا سنا سا لگا۔

جب خفیہ ادارے کے سربراہ کو ڈانٹ پڑ گئی!امریکا میں عوامی نمائندے سرکاری عہدے داروں کو کیسے جواب دہ ٹھہراتے ہیں؟ یہ تصویر ...
06/12/2024

جب خفیہ ادارے کے سربراہ کو ڈانٹ پڑ گئی!

امریکا میں عوامی نمائندے سرکاری عہدے داروں کو کیسے جواب دہ ٹھہراتے ہیں؟ یہ تصویر اس سوال کا جواب ہے۔
امریکا میں صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو تحقیقات کے لیے کانگریس اراکین پر مشتمل ایک ٹاسک فورس بنائی گئی۔ اس ٹاسک فورس نے معلوم کرنا ہے کہ جس روز قاتلانہ حملہ ہوا، اس روز کیا کچھ غلط ہوا؟ جو غلط ہوا اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اور آئندہ ایسی غلطی سے کیسے بچا جائے؟
امریکی اراکین اسمبلی کی جرات دیکھیے، کہ انہوں نے خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو ہی بلا لیا اور انہیں کٹہرے میں کھڑا کر دیا۔ اب ایک جانب اونچے پلیٹ فارم پر ٹاسک فورس کے اراکین بیٹھتے ہیں، نیچے خفیہ ایجنسی کے سربراہ رونلڈ رو بیٹھتے ہیں۔ کمیٹی اراکین سخت سوال کرتے ہیں، خفیہ ایجنسی کے سربراہ کبھی سر جھکا کر اور کبھی سٹپٹا کر جواب دیتے ہیں۔ ابھی تک وہ تسلیم کر چکے ہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ پر حملہ ہونا ان کے ادارے کی ناکامی تھی۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس وقت یہ حملہ ہوا، اس وقت کمبرلی چیٹل خفیہ ایجنسی کی سربراہ تھیں۔ انہوں نے سیکیورٹی میں ناکامی کہ ذمہ داری قبول کرتے ہوئے استعفیٰ دے دیا تھا۔ ان کے بعد رونالڈ رو قائم مقام سربراہ بنائے گئے۔ وہ اراکین کانگریس کو یہ بھی بتا چکے ہیں کہ حملے کے بعد سیکرٹ سروس کے طریقہ کار میں کیا کیا تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔
اس روز ٹاسک فورس کا اجلاس ہوا تو خفیہ ایجنسی سربراہ سے سوال پوچھنے والوں میں رکن کانگریس پیٹ فیلن بھی تھے۔ انہوں نے رونالڈ رو کی ایک تصویر دکھائی جس میں وہ امریکی صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کاملہ ہیرس کے عقب میں کھڑے ہیں۔ ستمبر میں نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کی یاد میں تقریب منعقد کی گئی تھی۔ پیٹ فیلن جو تصویر دکھا رہے تھے وہ اسی موقع پر لی گئی۔
پیٹ فیلن نے خفیہ ادارے کے سربراہ سے پوچھا، صدر بائیڈن اور نائب صدر کی حفاظت کا ذمہ دار جو اہل کار تھا، کیا عقب میں اسے کھڑے ہونا چاہیے تھا یا آپ کو؟
صدر کی حفاظت پر جو شخص تعینات ہوتا ہے اسے اسپیشل ایجنٹ ان چارج کہا جاتا ہے۔ سیکیورٹی پروٹوکولز کے مطابق، اسی کو صدر کے عقب میں کھڑا ہونا چاہیے۔ لیکن وہاں پر رونالڈ رو صاحب جا کھڑے ہوئے تھے اور پیٹ فیلن ان سے پوچھ رہے تھے کہ یہاں آپ کے کھڑا ہونے کا کیا کام تھا؟ خفیہ ایجنسی سربراہ کے شوق خود نمائی پر ان کی کھینچائی کی گئی۔
رونالڈ رو صاحب نے کہنے کی کوشش کی کہ اسپیشل ایجنٹ ان چارج وہیں کہیں تھا، بس اس تصویر میں نظر نہیں آ رہا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ جب نو گیارہ کا سانحہ ہوا تھا، اس وقت وہ بھی گراؤنڈ زیرو پر موجود تھے۔ تباہ ہونے سے پہلے جس جگہ ورلڈ ٹریڈ ٹاورز تھے، اس جگہ کو گراؤنڈ زیرو کا نام دیا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسی کے سربراہ رکن کانگریس سے کہتے رہے کہ وہ سانحہ نو گیارہ میں جان سے جانے والوں کو یاد کرنے کے لیے وہاں گئے تھے، اسے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیا جائے۔
لیکن رکن کانگریس نے خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو ڈانٹ دیا اور کہا، آپ بس اس بات کا جواب دیں کہ اگر آپ اس وقت اسپیشل ایجنٹ ان چارج نہیں تھے، تو صدر اور نائب صدر کے عقب میں کر کیا رہے تھے۔
خفیہ ایجنسی سربراہ سے یہ جواب دہی کیمروں پر ریکارڈ کی گئی، براہ راست دکھائی گئی، انٹرنیٹ پر دستیاب ہے، اور میں اسے دیکھتے ہوئے سوچ رہا ہوں۔۔۔ عوامی نمائندے سرکاری اہل کاروں سے سوال کریں تو کیا اداروں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے؟

Omair Mahmood

صرف ایک غلطی کیسے پورے نظام کو بگاڑ دیتی ہے؟ معروف کاروباری شخصیت کی ایک بات نے چونکا کر رکھ دیا!عقیل کریم ڈھیڈی ملک کی ...
05/12/2024

صرف ایک غلطی کیسے پورے نظام کو بگاڑ دیتی ہے؟
معروف کاروباری شخصیت کی ایک بات نے چونکا کر رکھ دیا!

عقیل کریم ڈھیڈی ملک کی معروف کاروباری شخصیت ہیں اور کئی شعبوں میں کام کر رہے ہیں۔ وہ حصص بازار (اسٹاک مارکیٹ) میں حصص (شیئرز) خریدنے اور بیچنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں، سرمایہ کاری میں معاونت کرتے ہیں، جائیداد کا کاروبار بھی کرتے ہیں (رئیل اسٹیٹ ڈیویلپمنٹ)۔

صحافی کامران خان نے ڈیجیٹل میڈیا ادارے نکتہ (یا نقطہ) کے لیے عقیل کریم ڈھیڈی کا انٹرویو کیا ہے۔ اس انٹرویو میں عقیل کریم ڈھیڈی کی ایک بات نے مجھے حیران بھی کیا اور سوچنے پر مجبور بھی۔

ضمنی بات یہ کہ کیا ہی کمال اور منفرد پلیٹ فارم ہے یہ نکتہ۔ اس پر پیش کیا گیا مواد متنوع بھی ہے اور معلوماتی بھی۔ یہ اور بات کہ پاکستانیوں کے عمومی مزاج (چسکہ اور سنسنی) کی پیروی نہیں کر رہے۔ تھمب نیل میں کلک بیٹ اور چیختی چنگھاڑتی سرخیاں بھی نہیں ہوتیں۔ تو ویڈیوز پر ویوز کی تعداد ابھی کم ہے۔ اسی وجہ سے مجھے تشویش بھی ہے کہ کہیں یہ بھی دیگر یو ٹیوب چینلز کی روش پر نہ چل نکلیں، معیار پر سمجھوتہ نہ کر لیں۔ ساتھ یہ دعا بھی ہے کہ نکتہ کمائی کے لحاظ سے بھی ایک کامیاب پلیٹ فارم بنے تاکہ دیگر ادارے بھی اس کی تقلید کرنے پر مجبور ہوں۔ آمین!

خیر، اب اس نکتے پر آتا ہوں، جس کے لیے یہ پوسٹ لکھنا شروع کی۔ کامران خان کو انٹرویو میں عقیل کریم ڈھیڈی نے انتہائی سادہ انداز میں انتہائی گہری اور سنگین حقیقت بتائی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح حکومت اگر صرف ایک نکتے سے پہلو تہی کرتی ہے تو مسائل کا کتنا بڑا چکر جنم لے لیتا ہے۔

عقیل کریم ڈھیڈی نے مثال دی کہ کھاد (یوریا) کی بوری کی قیمت تھی 2100 (دو ہزار ایک سو) روپے۔ لیکن ذخیرہ اندوزوں نے بوریاں اٹھا لیں اور بلیک میں کسانوں کو بیچنے لگے۔ بلیک مارکیٹ میں کسان کو یہ بوری ملی پانچ ہزار روپے میں۔ ملک میں یوریا کی پیداوار ہے 65 لاکھ ٹن۔ یہ 13 کروڑ بیگ (بوریاں) بنتی ہیں۔ آڑھتی نے ایک بوری کو بلیک مارکیٹ میں بیچا (2100 کی بوری اٹھا کر پانچ ہزار روپے میں بیچی) تو اس نے ایک بوری پر 2900 روپے کمائے۔ مطلب فی بوری 2900 روپے بلیک مارکیٹ میں چلے گئے (عقیل کریم ڈھیڈی کے مطابق مجموعی طور پر یہ رقم لگ بھگ 260 ارب روپے بنتی ہے، اس پر حکومت ایک روپیہ بھی ٹیکس نہ کما سکی کیوں کہ ریکارڈ پر کچھ تھا ہی نہیں)۔ اس سے کیا ہوا؟ کسان کی لاگت بڑھ گئی۔ فصل (مثلاً گندم) اگانے پر کسان کی لاگت بڑھی تو اس کے نقصان کی تلافی کرنے کے لیے حکومت کو گندم کی قیمت بڑھانی پڑی۔ جب گندم کی قیمت بڑھائی گئی تو آٹا مہنگا ہو گیا۔ آٹا مہنگا ہوا تو مہنگائی کی اوسط بڑھ گئی۔ مہنگائی بڑھی تو حکومت کو اسے قابو کرنے کے لیے شرح سود بڑھانی پڑی۔ شرح سود بڑھی تو معیشت سکڑنے لگی۔ معیشت سکڑی تو بے روزگاری بڑھی۔ بے روزگاری بڑھی تو جرائم شروع ہو گئے۔

یعنی حکومت صرف ایک ذمہ داری نبھانے میں ناکام ہو جائے تو مسائل کا ایسا بھنور پیدا ہوتا ہے جس میں پوری معیشت ڈوب جاتی ہے۔

عقیل کریم ڈھیڈی کہتے ہیں حکومت بس ایک کام کر لے۔ جس نے یوریا کی بوری پانچ ہزار روپے میں خریدی ہے، حکومت اس سے پوچھے کہ بھائی آپ کو کس نے یہ بوری بیچی ہے؟ اور پھر اس کو پکڑ لے جس نے ایک بوری پر 2900 روپے کمائے ہیں۔ اس آمدن پر ٹیکس لے لیا جائے تو چور بازاری بھی رک جائے گی، حکومت کی آمدن بھی بڑھ جائے گی اور ایک مسئلے سے دوسرا مسئلہ جنم لینے کا سلسلہ بھی تھم جائے گا۔ یوں معیشت مستحکم ہو جائے گی۔

سوال پوچھتی یہ تصویریہ تصویر دیکھیے۔ یہ تصویر اس ملک سے، اس ملک کے حکمرانوں سے، سیاست دانوں سے اور عوام سے بھی چند سوال ...
28/11/2024

سوال پوچھتی یہ تصویر
یہ تصویر دیکھیے۔ یہ تصویر اس ملک سے، اس ملک کے حکمرانوں سے، سیاست دانوں سے اور عوام سے بھی چند سوال پوچھ رہی ہے۔
تصویر میں ایک سڑک ہے جس پر چند رکاوٹیں رکھی ہیں۔ آپ کو پتہ ہی ہے کہ جب پاکستان میں کوئی احتجاج ہوتا ہے تو یا مظاہرین سڑکیں بند کر دیتے ہیں، یا حکومت ان مظاہرین کو روکنے کے لیے خود ہی سڑکیں بند کر دیتی ہے۔ یہ تصویر 24 نومبر 2024 کو روزنامہ ڈان کے پہلے صفحے پر شائع ہوئی۔ اس تصویر میں ایک شاہراہ کنٹینر رکھ کر بند کی گئی ہے۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ سڑک بند کرنے کے لیے نیلے رنگ کا جو کنٹینر پڑا ہے، اس پر لکھا ہے، خیبر سے مہران، پیارا ہے پاکستان۔
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ کیا یہ بات سچ ہے؟
خیبر سے مہران، پیارا ہے پاکستان۔ لکھوانے والے نے کنٹینر پر کتنے پیار سے یہ عبارت لکھوائی ہو گی؟ لیکن آج یہی کنٹینر اس ملک میں بندش اور جمود کی علامت بنا ہوا ہے۔ لکھوانے والے نے شاید پاکستان کی محبت میں خیبر سے مہران تک سفر کا خواب دیکھا ہو گا، لیکن یہی کنٹینر آج اس خواب کے بیچ دیوار بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر سے مہران، پیارا ہے پاکستان تو یہ پاکستان کنٹینروں اور رکاوٹوں میں گھرا ہوا کیوں ہے؟ یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو یہاں ہر کوئی پریشان کیوں ہے؟ ادھورا ارمان کیوں ہے؟ ظلمت نشان کیوں ہے؟ بے حسی حکمران کیوں ہے؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ پیارا ہے پاکستان تو گھروں کا کچرا سڑکوں پر کیوں پھینکا جاتا ہے؟ یہاں گٹر کیوں ابلتے ہیں؟ یہاں سمندر کنارے بسے شہری پانی کی بوند بوند کو کیوں ترستے ہیں؟ یہاں کی اناج اگلتی زرعی زمینوں پر بے ہنگم ہاؤسنگ کالونیز کیوں بنائی جاتی ہیں؟ باغات کاٹ کر مکانات کیوں تعمیر کیے جاتے ہیں؟ بدبودار دھواں چھوڑتی گاڑیوں کے لیے سایہ دار درخت کیوں گرائے جاتے ہیں؟ شہروں میں کنکریٹ کے جنگل کیوں اگائے جاتے ہیں؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو کیا یہ پاکستان مہربان بھی ہے؟ یہاں حق مانگنے والی آواز خاموش کیوں کرائی جاتی ہے؟ سچ بولنے والا غدار کیوں قرار پاتا ہے؟ آزادی اظہار رائے کا حق آئین کی کتاب میں تو ملتا ہے، حقیقت میں کیوں نہیں ملتا؟ یہاں سوچ پر پہرے کیوں ہیں؟ اختلاف انتشار کیوں ہے؟ ایسا کیوں ہے کہ ہہاں علم اٹھانے والا بھی خوف زدہ ہے اور قلم پکڑنے والا بھی سہما ہوا ہے؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو کیا یہ پاکستان پرامن بھی ہے؟ کیا یہاں قانون کی حکمرانی ہے؟ کیا آئین کی عمل داری ہے؟ کیا ریاست ماں کے جیسی ہے؟ کیا یہاں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی ہے؟ اپنا حق مانگنے کی آزادی ہے؟ کیا ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کی آزادی ہے؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو کیا یہ پاکستان خوش حال بھی ہے؟ کیا یہاں سب کو دو وقت کی روٹی ملتی ہے؟ باعزت روزگار ملتا ہے؟ محنت کا پھل ملتا ہے؟ سفارش کے بغیر نوکری ملتی ہے؟ اپنے خواب حقیقت بنانے کا موقع ملتا ہے؟ صحت کی سہولت ملتی ہے؟ کیا تعلیم کی روشنی سب کے گھر روشن کرتی ہے؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو کیا یہ پاکستان متحد بھی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پاکستانی مسلک میں، قومیت میں، ذات میں اور نظریات میں بٹے ہوئے کیوں ہیں؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ خیبر تا مہران پیارا ہے پاکستان تو کیا یہ پاکستان دیانت دار اور ایمان دار بھی ہے؟ یہاں رشوت کا بازار کیوں ہے؟ ناپ تول میں کمی کیوں ہے؟ ملاوٹ کیوں ہے؟ یہاں وعدہ کیا جاتا ہے تو پورا کیوں نہیں کیا جاتا؟ سچ کیوں نہیں بولا جاتا؟ یہاں ضمیر کیوں بکتے ہیں؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ جہاں اسموگ سے سانس بند ہے، شور سے کان بند ہے، ہڑتال سے دکان بند ہے، خوف سے سڑک بند ہے، موبائل فون کا سگنل بند ہے، کیا واقعی وہ پاکستان پیارا ہے؟
یہ تصویر پوچھ رہی ہے کہ جو کنٹینر اس سڑک پر رکھے ہیں، کیا ویسے ہی کنٹینر پاکستانیوں کی سوچ میں بھی نہیں ہیں؟ خوف کے کنٹینر، تعصب اور نفرت کے کنٹینر۔

ذرا سوچیے اور کمنٹس میں بتائیے کہ تصویر کے سوالات کا آپ کے پاس کیا جواب ہے؟

Omair Mahmood

یہ کیا سرخی ہے؟صحافت کا طالب علم ہونے کے ناطے ایک طویل عرصے سے (یوں سمجھیے بچپن سے) روزنامہ جنگ پڑھ رہا ہوں۔ جب اسی ادار...
27/11/2024

یہ کیا سرخی ہے؟

صحافت کا طالب علم ہونے کے ناطے ایک طویل عرصے سے (یوں سمجھیے بچپن سے) روزنامہ جنگ پڑھ رہا ہوں۔ جب اسی ادارے نے ٹیلے وژن چینل جیو نیوز لانچ کیا تو اس کا تقریباً مستقل ناظر ہوں۔

جیو ٹیلے وژن نے ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت قائم رکھی، اور پاکستان کی میڈیا صنعت میں کئی ایسی روایات متعارف کرائیں جن کی پیروی کرنے پر دوسرے چینل مجبور ہوئے۔ مثلاً ایک زمانے میں خبرنامے (نیوز بلیٹن) کی سرخیاں بہت ہی مختصر دورانیے کی ہوا کرتی تھیں۔ صرف بہت ہی اہم خبر کو سرخیوں (ہیڈلائنز) میں دیا جاتا، اور اس کے لیے بھی کم سے کم الفاظ میں زیادہ سے زیادہ ابلاغ کی کوشش کی جاتی۔ یوں کسی خبر نامے کی سرخیاں چند منٹ میں ختم ہو جاتیں اور پھر باقاعدہ خبرنامہ شروع ہوتا۔ لیکن جیو نیوز نے 20 سے 25 منٹس تک کی ہیڈلائنز دینا شروع کر دیں۔ شروع شروع میں تو دیگر چینلز کو سمجھ ہی نہ آئی، وہ اس میں کوئی منطق تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے، اور پھر جیو نیوز کی پیروی میں خود بھی اتنے ہی دورانیے کی ہیڈلائنز دینے لگے۔

موسیقی کی تال پر فوٹیج کو اس طرح ایڈٹ کرنا کہ کچھ بولے بغیر ساری کہانی بتا دی جائے، اسے میڈیا کی زبان میں مونتاج کہا جاتا ہے۔۔۔ اگر میں غلط نہیں ہوں تو سرخیوں میں مونتاج کی روایت بھی جیو ٹیلے وژن نے ہی متعارف کرائی۔ سرخیوں میں کسی بھی احتجاج، ہڑتال وغیرہ کی خبر ہو، تو پہلے ایک سنسنی خیز موسیقی کی تال پر متعلقہ مناظر یکے بعد دیگر دکھائے جاتے ہیں، پھر وہ موسیقی مدہم ہوتی ہے تو خبریں پڑھنے والا/والی بولتا/بولتی ہے۔ پہلے صرف کسی نیوز رپورٹ وغیرہ میں ایسا کیا جاتا تھا لیکن سرخیوں میں مونتاج استعمال کرنے کی روایت بھی شاید جیو نیوز نے ہی ڈالی اور اب سبھی چینلز ایسا کر رہے ہیں۔

اسی طرح شام سات بجے تجزیہ کاروں کو بٹھا کر ان کی آراء جاننے کا پروگرام جیو نیوز نے رپورٹ کارڈ کے نام سے شروع کیا۔ اور آج تقریباً سبھی چینل شام سات بجے چار سے پانچ تجزیہ کاروں کو بٹھا کر ان سے گفتگو کر رہے ہوتے ہیں۔

مارننگ شو تو پہلے بھی ہوتے تھے لیکن نیوز مارننگ شو جیو نے شروع کیا، اور اب دیگر کتنے ہی چینلز صبح 9 سے 11 بجے تک نیوز مارننگ شو نشر کرتے ہیں۔ ایک دن جیو کے ساتھ والا آئیڈیا بھی کچھ چینلز کو فالو کرتے دیکھا۔

بھاری بھرکم صحافتی قد کاٹھ والی شخصیات جنگ اور جیو نیوز کا حصہ رہی ہیں، ادارتی صفحے پر سو لفظوں کی کہانی شائع کرنے کی جدت بھی جنگ اخبار کے حصے میں ہی آئی۔

جن کے پاس اصل اقتدار ہوتا ہے، جنگ اور جیو کو ان کے سامنے مزاحمت کرتے بھی دیکھا۔ 1999 کا وہ دن بھی مجھے یاد ہے جب کالج لائبریری میں آنے والا روزنامہ جنگ صرف ایک صفحے کا تھا۔ اس پر چھپی خبروں سے معلوم ہو رہا تھا کہ اخبار حکومت کی بندشوں کا شکار ہے، اسی وجہ سے معمول کے صفحات کے بجائے صرف ایک صفحے پر شائع ہوا ہے۔ بعد کے برسوں میں بھی اسی ادارے سے وابستہ صحافیوں حامد میر، عمر چیمہ اور احمد نورانی پر حملوں کی خبریں پڑھیں۔ جنرل مشرف کی آمریت میں بھی اسے جمہور کے ساتھ ہی کھڑ پایا۔ عکسری علاقوں میں روزنامہ جنگ پڑھنے اور جیو نیوز دیکھنے پر پابندی لگتے بھی دیکھی۔ کبھی جیو نیوز کی نشریات بند کی گئیں تو کبھی کیبل سے غائب کرا دیا گیا۔

جب نادیدہ قوتیں عمران خان کو سیاسی طور پر مضبوط کر رہی تھیں اس وقت جنگ اور جیو نے ایسی رپورٹنگ کی جسے عمران خان کے حامیوں نے اپنے لیڈر کے خلاف سمجھا۔ جانب داری کی تہمت بھی لگی اور غداری کا الزام بھی۔ پھر عمران خان حکمران بنے اور مثبت رپورٹنگ کرنے کے عسکری احکامات آئے تب بھی جنگ اور جیو ایسی بات کہتے رہے کہ ادارے کے مالک میر شکیل الرحمان کو 240 دن، بغیر ٹرائل کے، قید میں رہنا پڑا۔ جیو پر پروگرام کرنے والے صحافی اور جنگ میں کالم لکھنے والے کالم نگار بندش کی زد میں آئے۔

اس سب عرصے میں جنگ اور جیو کی صحافت مثالی اگر نہیں بھی رہی تو بھی طاقت ور حلقوں کی جانب سے یہ میڈیا ہاؤس مشکلات کا شکار رہا۔ اس سے تاثر یہی ملا کہ یہ ادارہ اپنا نقصان کرا لیتا ہے لیکن جمہوریت اور صحافت کی حرمت کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔

عمران خان کی حکومت گئی اور ان کے مخالف سیاست دان اقتدار میں آئے تو توقع یہی تھی کہ جنگ اور جیو آزادانہ صحافت کا علم تھامے رکھیں گے۔ لیکن لگ یہی رہا ہے کہ اب یہ ادارہ طاقت وروں کے سامنے سر جھکا چکا ہے۔ اب جنگ اور جیو پر ایسی کتنی ہی خبریں نظر آتی ہیں جو بتاتی ہیں کہ یہاں صحافت نہیں ہو رہی، اطاعت ہو رہی ہے یا پھر بدلے لیے جا رہے ہیں۔

24 نومبر 2024 کو تحریک انصاف کے احتجاج کے بعد 27 نومبر کو شائع ہونے والے جنگ اخبار کی یہ سرخی دیکھیں۔ “فائنل کال دینے والے دم دبا کر بھاگ گئے،” یہ وزیر اطلاعات کا بیان ہے، لیکن اسے یوں نمایاں کرنے سے لگ رہا ہے کہ اخبار خبر نہیں دے رہا بلکہ حکومت کی ترجمانی کر رہا ہے۔ اسی طرح مرکزی سرخی سے اوپر والی عبارت میں بھی خبر اور وزیر اطلاعات کا بیان آپس میں گڈ مڈ کر دیا گیا ہے۔ “فائنل کال مس کال بن گئی،” یہ بیان وزیر اطلاعات کا ہے۔ “اٹک پل سیل، بشریٰ بی بی اور گنڈا پور کہاں ہیں، متضاد اطلاعات، تلاش جاری، سیکڑوں کارکن گرفتار،” یہ خبر ہے۔ بیان کہاں ختم ہوتا ہے، خبر کہاں سے شروع ہوتی ہے، کچھ معلوم نہیں ہو رہا۔

سینیئر صحافی رہ نمائی کریں کہ کیا ایسا کرنا صحافتی اخلاقیات کے مطابق درست ہے؟

Omair Mahmood

25/11/2024

یہ تصویر ہم سے چند سوال پوچھ رہی ہے۔۔۔
ہے کوئی جواب آپ کے پاس؟

ہائے! دل پر کیسا زخم لگا ہے۔ جس تختے پر کاغذ رکھ کر لکھتا ہوں، کسی لاپروا لمحے میں وہ میز سے زمین پر جا گرا اور کنارے سے...
22/11/2024

ہائے! دل پر کیسا زخم لگا ہے۔
جس تختے پر کاغذ رکھ کر لکھتا ہوں، کسی لاپروا لمحے میں وہ میز سے زمین پر جا گرا اور کنارے سے تھوڑا سا ٹوٹ گیا۔ تختے کو لگی چوٹ تو تھوڑی ہے لیکن میرے دل پر زخم گہرا لگا ہے۔ جی میں ایک خیال تو یہ آ رہا ہے کہ اسے اٹھا کر کباڑ میں ڈالوں اور بازار جا کر اس جیسا یا اس سے بہتر کوئی اور لے آؤں۔
لیکن پھر اس کی طرف دیکھتا تو ماضی کے کتنے ہی پل یاد آتے ہیں۔ اس تختے نے برسوں ساتھ نبھایا ہے۔ کتنے ہی برس ہر روز یہ میز پر میرا انتظار کیا کرتا۔ شکستہ سے خیالات کو جب صفحے پر اتارنا ہوتا تھا تو یہ تختہ کتنے پیار سے سہارا دیا کرتا۔ کبھی لکھنے پر طبیعت مائل نہ ہوتی تو شکوہ کناں نظروں سے دیکھتا۔ کوئی تحریر پکڑ میں نہ آتی تو حوصلہ دیتا۔ میں اس پر کاغذ رکھتا تو یہ تختہ کاغذ کا ایک کنارا مضبوطی سے پکڑ لیا کرتا، میرے قلم کو ہموار سطح فراہم کیا کرتا۔ لکھنے کے لیے نئے خیالات کی کھوج میں نکلتا تو یہ تختہ میرا ہاتھ تھام لیتا۔ اس کی معاونت سے کتنے ہی جذبات کو رقم کیا، کتنے ہی الفاظ کو ترتیب دی، کتنے ہی خوابوں کو جملوں کا پیرہن پہنایا۔ برسوں یہ تختہ میرے ہر خیال، میرے ہر حرف کا خاموش گواہ رہا۔ میرے اندیشوں کا ساتھی رہا۔
تحریر، سخن اور کلام سے متعلق میری ہر سوچ، ہر احساس، ہر کامیابی اور ہر ناکامی کو بانٹا ہے اس تختے نے۔ اب میری ہی لاپروائی سے یہ گرا اور میری نظروں کو اس کا ٹوٹا ہوا کنارا چبھنے لگا ہے؟ نیا تختہ اگر لاتا ہوں، اس میں کوئی عیب تو نہ ہو گا، لیکن اس سے وابستہ کوئی یاد، کوئی داستان بھی تو نہ ہو گی۔
اس تختے سے برسوں کی رفاقت کہہ رہی ہے، ذرا سا داغ لگنے پر کسی سے یوں منہ تو نہیں موڑا جاتا، اسے چھوڑا تو نہیں جاتا۔ کیا اس کا اور میرا ساتھ اتنا ہی کمزور ہے کہ معمولی سا حادثہ اس کا اختتام بن جائے؟
ٹوٹے کنارے والا یہ تختہ مجھے سکھا رہا ہے کہ کامل تو کوئی بھی چیز نہیں ہوتی۔ کچھ داغ وقت لگا دیتا ہے، کچھ زخم لوگ دے دیتے ہیں۔ یہ تختہ ذرا سا ٹوٹ گیا ہے، اس سے وابستہ میری یادیں تو سلامت ہیں نا۔ یہ داغ تو اس تختے اور میری کہانی میں ایک نیا موڑ ہے۔ یہاں سے دوستی ٹوٹے گی نہیں بلکہ اور آگے بڑھے گی؟ صرف داغ لگنے پر دغا دے دوں؟ میں نے کبھی زخم دینے والوں سے بے وفائی نہیں کی، زخم کھانے والے سے بے وفائی کیسے سکتا ہوں؟

Omair Mahmood

20/11/2024

سب بند کر دو پالیسی ۔۔۔

میڈیا بات نہ مانے تو نشریات بند کر دو۔۔۔
جسے ُچھپانا تھا وہ چھپ جائے تو اخبار بند کر دو۔۔۔
جو مرضی کا سچ نہ بتائے وہ چینل بند کر دو۔۔۔
جو سوچ کے در کھولے وہ کتاب بند کر دو۔۔۔۔
جس کے سچ سے تکلیف ہو وہ صحافی بند کر دو۔۔۔۔
انصاف کا حصول تحریک بن جائے تو وہ تحریک بند کر دو۔۔۔

14/11/2024

ہوائی صحافت

دوران پرواز کھانے کے بجائے خبریں۔۔۔
صحافیوں کا وی لاگ سننے پر خصوصی رعایت
جہاز کا انجن خراب ہوا تو ٹھیک کرنے کے بجائے انجن کا انٹرویو لیا جائے گا۔۔۔
جہازوں پر "پریس" کی نمبر پلیٹ لگوائی جائے گی۔۔۔
سیٹ بیلٹ باندھنے کو اظہار رائے پر پابندی قرار دیا جائے گا۔۔۔

اگر صحافی اپنی ائیرلائن جاری کریں تو مزید کیا کچھ ہو گا۔ اس پر ایک وی لاگ کیا ہے

دل چسپی رکھنے والے یوٹیوب پر جا کر @ کے نشان کے ساتھ Omair.Mahmood لکھیں گے تو میرا چینل مل جائے گا۔ ویڈیو کا ٹائٹل ہے
What If Journalists Launch Their Own Airline

14/11/2024

بچت
میں نے ایک سال کی جم ممبر شپ کے بجائے
بڑے سائز کی پینٹ خرید لی

13/11/2024

اگر صحافی اپنی ائیرلائن جاری کریں تو کیا ہو گا؟ اس ائیرلائن کا نام کیا رکھا جائے گا؟ اس میں سفر کرنے والوں کو کیا کیا سہولیات دی جائیں گی؟ اس ائیرلائن کے جہاز کیسے اڑیں گے اور انہیں کون اڑائے گا؟ اس پر ایک وی لاگ کیا ہے۔
دل چسپی رکھنے والے یوٹیوب پر جا کر @ کے نشان کے ساتھ Omair.Mahmood لکھیں گے تو میرا چینل مل جائے گا۔ ویڈیو کا ٹائٹل ہے
What If Journalists Launch Their Own Airline

یہ جو چہرے نے تبسم اوڑھا ہے نا، یہ چائے کے انتظار میں ہے۔ ابھی ایک گھونٹ بھروں گا اور خزاں میں بہار آ جائے گی۔ اپنی عمر ...
12/11/2024

یہ جو چہرے نے تبسم اوڑھا ہے نا، یہ چائے کے انتظار میں ہے۔ ابھی ایک گھونٹ بھروں گا اور خزاں میں بہار آ جائے گی۔ اپنی عمر ڈھل گئی لیکن چائے کی چاہت نہ گئی۔ زمانے کی سیڑھیاں چڑھتے جہاں ہانپ جاتا ہوں، وہیں چائے کے دو گھونٹ پھر سے توانا کر دیتے ہیں۔ قدموں میں روانی اور چال میں جوانی آ جاتی ہے۔ کیسے بتاؤں آپ کو کہ چائے میرے لیے کیا ہے؟ چائے زندگی ہے، چائے ہر خوشی ہے، چائے امید ہے، سکون ہے، خوش بو ہے، حرارت ہے، اطمینان ہے، مسکان ہے۔۔۔ کیسی کیسی کڑواہٹ میں بھی مٹھاس بھر دیتی ہے یہ چائے۔ چائے کے کپ سے اٹھتا دھواں سب دکھوں کو دھندلا دیتا ہے۔ چائے پیتا ہوں تو یوں لگتا ہے کوئی مخلص دوست کندھوں پر ہاتھ رکھے کہہ رہا ہے، “فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔”

پیارو! عمر کی گنتی اس ہندسے پر آ چکی ہے جہاں احتیاط تقاضا نہیں، ضرورت بن جایا کرتی ہے۔ کھانے کا نوالہ توڑنے سے پہلے اس میں موجود توانائی اور چکنائی کا حساب کرنے لگتا ہوں۔ بہت میٹھے اور بہت نمکین سے پرہیز ہے۔ جب یہ سب احتیاط نہیں تھی تب بھی مرغ مسلم سے زیادہ دال ساگ ہی پسند تھی۔ میرے رفیق کہیں کھانے کا منصوبہ بناتے ہوئے میرا مشورہ لے بیٹھیں تو بدمزہ ہی ہوتے ہیں۔ ہاں، اچھی چائے آج بھی بے خود کر دیتی ہے۔

اس روز بھائی علی حیدر نے چائے پلانے سے پہلے شکم سیری کا اہتمام بھی کیا تھا۔ تبھی آپ کو تصویر میں مسکراہٹ کے ساتھ ساتھ طمانیت بھی نظر آ رہی ہو گی۔ بہت اچھا کھانا بہت زیادہ مقدار میں کھانے کے بعد سب نے چائے پینے کا قصد کیا۔

جس جگہ چائے پی، وہاں چائے کا پوچھنے اور اسے پیش کرنے کے فرائض لڑکیوں کو سونپے گئے ہیں۔ اور یہی رواج میں نے لاہور کے جوہر ٹاؤن میں جابجا کھلے دیگر چائے خانوں میں بھی دیکھا ہے۔ جانے اس میں کیا مصلحت ہے؟ ویسے تو خواتین کے با اختیار اور خود مختار ہونے کا حامی ہوں لیکن رات گئے خواتین کو یہ ذمہ داری نبھاتے دیکھ کر الجھن سی ہوئی۔ الجھن کے بجائے فکر مندی زیادہ بہتر لفظ ہو گا۔ فکر مندی اس بات کی کہ ابھی رات کا ایک بجنے کو ہے۔ جانے کس وقت یہ چائے خانہ بند ہو گا۔ جب بند ہو گا تو میری یہ بہن بیٹیاں اپنے گھروں کو کیسے لوٹیں گی؟ کیا ان کے لیے کوئی محفوظ بندوبست ہے؟ رات بہت دیر سے تو سواری کا ملنا بھی دشوار ہوتا ہے۔

لیکن جب یہ سوچا کہ اب سے کچھ دیر بعد چائے کا ایک گرما گرم کپ میرے سامنے دھرا ہو گا، تو یوں لگا جیسے دنیا میں فکروں کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔ من میں لڈو اور چہرے پر مسکراہٹ پھوٹنے لگی۔ یہی لمحہ بھائی علی حیدر نے اپنے کیمرے میں محفوظ کر لیا۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ اچھی تصویر کے تین ہی اجزا ہیں؛ اچھا کھانا، اچھی چائے، اور اچھا کیمرہ۔ اللہ پاک بھائی علی حیدر کے رزق میں برکت دیں کہ جب یہ محفل تمام ہوئی تو ہم سب کے پیٹ بھاری اور ان کی جیب بہت زیادہ ہلکی ہو چکی تھی۔

Omair Mahmood

10/11/2024

صحت بخش فیصلہ

پریشانی سے اس نے پوچھا، میں نے سنا ہے خشک دودھ سے بنی چائے صحت کے لیے نقصان دہ ہے؟
ایسی کوئی تحقیق نظر سے تو نہیں گزری، میں نے جواب دیا۔
لیکن پھر بھی ۔۔۔ اس کی فکر مندی دور نہ ہوئی۔
وہ کافی دیر سوچتا رہا، آخر پر عزم لہجے میں بولا، اپنی صحت کی خاطر آئندہ میں خشک دودھ سے بنی چائے نہیں پیوں گا۔
فیصلے پر پہنچنے کے بعد اس نے ہاتھ میں پکڑی سگریٹ کا گہرا کش لیا اور آنکھیں موند لیں۔

Omair Mahmood

پاکستانیوں کے غیر پیداواری کارنامےہم پاکستانیوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ ہم کیسے کیسے غیر پیداواری non productive کاموں میں ا...
08/11/2024

پاکستانیوں کے غیر پیداواری کارنامے

ہم پاکستانیوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ ہم کیسے کیسے غیر پیداواری non productive کاموں میں اپنی توانائیاں صرف کرتے رہتے ہیں اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ پاکستان ترقی کیوں نہیں کرتا؟
اس کا جواب لینا ہے تو یہ قصہ سنیے۔
لاہور میں اسموگ بڑھی تو پنجاب حکومت نے حکم دیا، بچوں کو اسکول نہ بھیجا جائے۔ اور پڑھائی کے نقصان سے بچنے کے لیے تدریسی عمل بذریعہ انٹرنیٹ انجام دیا جائے۔ اس کی ایک وجہ تو یہی ہو گی کہ ننھے معصوموں کو زہر آلود فضا سے محفوظ رکھا جا سکے۔ دوسری وجہ یہ ہو گی کہ بچوں کو گاڑیوں پر اسکول چھوڑنے اور واپس لے جانے میں جو آلودگی پیدا ہوتی ہے وہ بھی نہیں ہو گی۔
ایسے میں ایک اسکول چلانے والوں کو سوجھی کہ وہ انسانی پرچم کا ریکارڈ بناتے ہیں۔ مطلب انسانوں کو یوں کھڑا کریں کہ اوپر سے دیکھنے پر وہ پاکستانی پرچم دکھائی دے۔ تو ان عالی دماغوں نے اس مقصد کے لیے اسکول کے بچے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ اسموگ سے بچیں، گھروں سے غیر ضروری باہر نہ نکلیں اور اسکول انتظامیہ ان بچوں کو پرچم کی صورت میدان میں کھڑا کر رہی ہے۔ دو دن بچے کھلے میدان میں کھڑے رکھ کر پرچم بنانے کی مشق کرائی گئی۔ اس مشق میں پڑھائی کا جو نقصان ہوا سو ہوا، بچوں نے دن بھر جو اسموگ پھانکی، وہ الگ۔ تیسرے دن کھلے میدان کی دھواں دھواں فضا میں بچوں کو کھڑا کر کے وہ پرچم بنایا گیا۔ اور اس پرچم بنانے کی خوشی منانے کے لیے چوتھے دن بچوں کو ویسے ہی چھٹی دے دی گئی۔
مطلب کیا ہمارے پاس کرنے کے لیے کوئی پیداواری کام نہیں ہے؟ اسموگ کی وجہ سے دی گئی چھٹیوں میں بچوں کو بلانا ہی ہے تو ان سے اسموگ پر قابو پانے کے لیے کوئی مشین بنوائیں۔ ان سے آگاہی پھیلانے والی کوئی مہم چلوائیں۔ انہیں ایسا با علم بنائیں کہ جب یہ بڑے ہوں تو ایک با عمل معاشرہ تشکیل دیں۔ ایسا معاشرہ بنائیں جو اسموگ جیسے مسائل حل کر چکا ہو۔ بہت بڑا انسانی پرچم محض نمود و نمائش، ظاہری دھوم دھام یا دکھاوے کے علاوہ اور کیا ہے؟ فلاں ملک نے اتنے انسان اکٹھے کر کے پرچم بنایا تھا، ہم نے اس سے زیادہ انسان پرچم کی صورت کھڑے کر دیے ۔۔۔ صرف اس مقابلہ بازی کے علاوہ اس پرچم سے کیا حاصل ہوا؟ جو حاصل ہوا وہ پاکستانیوں کے کس کام آئے گا؟ کیا وہ انسانی پرچم بچوں کی صحت سے بھی زیادہ ضروری تھا؟ کیا یہ پرچم بنانے کے لیے اسموگ ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا جا سکتا تھا؟ اور پھر بہت سارے بچوں کو پرچم کی شکل میں کھڑا کرنا ایسا کون سا پیداواری productive کارنامہ ہے جس کی خوشی میں چھٹی ہی دے دی جائے؟
جس دن ہمارے فیصلہ ساز پیداواری سرگرمیوں میں توانائیاں لگانے لگیں گے، اس دن سے ہمارا ملک بھی ترقی کرنے لگے گا۔

Omair Mahmood

تھوڑی سی ویڈیو دیکھ کر اسکپ کرنے والوں کے لیے خصوصی آفر!جنابو! اب کے جو قصہ کہا ہے اس میں کتنی ہی پرتیں ہیں۔منیر نیازی ک...
29/10/2024

تھوڑی سی ویڈیو دیکھ کر اسکپ کرنے والوں کے لیے خصوصی آفر!

جنابو! اب کے جو قصہ کہا ہے اس میں کتنی ہی پرتیں ہیں۔
منیر نیازی کی طرح "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں" والا رویہ کیسے نقصان دیتا ہے؟
کسی آئیڈیا کو بروقت پہچاننے میں تاخیر ہو جائے تو اس کی کتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے؟
اپنے آئیڈیا پر پختہ یقین ہو تو بندہ کیسے کیسوں کو ٹکر دے دیتا ہے؟
اور مسلسل محنت کا پھل کہاں جا کر ملتا ہے؟
یہ سب ایک ویڈیو میں بیان کیا ہے۔ جو جلد باز پوری ویڈیو دیکھنے کا حوصلہ نہیں رکھتے انہیں بنیادی بات بالکل شروع میں ہی بتا کر باقی ویڈیو دیکھنے سے بچنے کی خصوصی سہولت فراہم کی گئی ہے۔
جو ویڈیو دیکھنا چاہیں، کرنا انہوں نے یہ ہے کہ یو ٹیوب پر جا کر @ کے نشان کے ساتھ Omair.Mahmood لکھنا ہے۔ چینل پر پہنچ کر ویڈیو آسانی سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ ٹائٹل ہے IDEA KAISE JEETA

لاپتہ معاہدہتحریک لبیک پاکستان نے 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا۔ اس مارچ کو ریاست نے جب روکنے کی کوشش کی ...
23/10/2024

لاپتہ معاہدہ
تحریک لبیک پاکستان نے 2021 میں اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کیا تھا۔ اس مارچ کو ریاست نے جب روکنے کی کوشش کی تو تحریک لبیک کے کارکنوں اور پولیس میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔ ان جھڑپوں کے نتیجے میں کتنے ہی پولیس اہل کار شہید ہوئے تھے۔ پھر حکومت نے اس جماعت کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ وہ معاہدہ کن شرائط پر کیا گیا، ریاست نے اپنے اہل کاروں کا خون بہانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی؟ وہ معاہدہ تھا کیا؟ یہ تفصیلات آج تک لاپتہ ہیں۔

اور پاکستان میں کیا کیا کچھ لاپتہ ہے؟ اس کا جواب تلاش کرنے کے لیے یو ٹیوب چینل پر ویڈیو بنائی ہے ۔۔۔ جس کا عنوان ہے
لاپتہ ان پاکستان
جو ویڈیو دیکھنے میں دل چسپی رکھتے ہیں وہ یو ٹیوب پر جا کر @ کے نشان کے ساتھ Omair.Mahmood لکھیں گے۔ ویڈیو کا ٹائٹل ہے
MISSING (Lapatta) in Pakistan

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Omair Bolta Hai posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies