Faiz Ahmed Faiz

Faiz Ahmed Faiz Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Faiz Ahmed Faiz, Digital creator, Lahore.

یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالمترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریمدل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدمسر کوئے ...
09/10/2024

یہ جفائے غم کا چارہ وہ نجات دل کا عالم
ترا حسن دست عیسیٰ تری یاد روئے مریم

دل و جاں فدائے راہے کبھی آ کے دیکھ ہمدم
سر کوئے دل فگاراں شب آرزو کا عالم

تری دید سے سوا ہے ترے شوق میں بہاراں
وہ چمن جہاں گری ہے ترے گیسوؤں کی شبنم

یہ عجب قیامتیں ہیں ترے رہ گزر میں گزراں
نہ ہوا کہ مر مٹیں ہم نہ ہوا کہ جی اٹھیں ہم

لو سنی گئی ہماری یوں پھرے ہیں دن کہ پھر سے
وہی گوشۂ قفس ہے وہی فصل گل کا ماتم

فیض احمد فیض

کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیٔ دل کاکس پر نہ کھلا راز پریشانیٔ دل کاآؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاںچرچا ہے بہت بے سر و ساما...
09/10/2024

کس شہر نہ شُہرہ ہُوا نادانیٔ دل کا
کس پر نہ کھلا راز پریشانیٔ دل کا

آؤ کریں محفل پہ زرِ زخم نمایاں
چرچا ہے بہت بے سر و سامانیٔ دل کا

دیکھ آئیں چلو کوئے نگاراں کا خرابہ
شاید کوئی محرم ملے ویرانیٔ دل کا

پوچھو تو ادھر تیر فگن کون ہے یارو
سونپا تھا جسے کام نگہبانیٔ دل کا

دیکھو تو کدھر آج رُخِ بادِ صبا ہے
کس رہ سے پیام آیا ہے زندانیٔ دل کا

اُترے تھے کبھی فیضؔ وہ آئینۂ دل میں
عالم ہے وہی آج بھی حیرانیٔ دل کا

فیض احمد فیضؔ

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہےجو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہےآج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حراماب  وہی  ...
08/10/2024

اب وہی حرفِ جنوں سب کی زباں ٹھہری ہے
جو بھی چل نکلی ہے وہ بات کہاں ٹھہری ہے

آج تک شیخ کے اکرام میں جو شے تھی حرام
اب وہی دشمنِ دیں ، راحتِ جاں ٹھہری ہے

ہے خبر گرم کہ پھرتا ہے گریزاں ناصح
گفتگو آج سرِ کوئے بتاں ٹھہری ہے

ہے وہی عارضِ لیلیٰ ، وہی شیریں کا دہن
نگہِ شوق گھڑی بھر کو جہاں ٹھہری ہے

وصل کی شب تھی تو کس درجہ سبک گزری تھی
ہجر کی شب ہے تو کیا سخت گراں ٹھہری ہے

بکھری اک بار تو ہاتھ آئی ہے کب موجِ شمیم
دل سے نکلی ہے تو کب لب پہ فغاں ٹھہری ہے

دستِ صیاد بھی عاجز ، ہے کفِ گلچیں بھی
بوئے گل ٹھہری نہ بلبل کی زباں ٹھہری ہے

آتے آتے یونہی دم بھر کو رکی ہوگی بہار
جاتے جاتے یونہی پل بھر کو خزاں ٹھہری ہے

ہم نے جو طرز فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے

✍️ فیض احمد فیض

"خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو"خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو توسکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائےتری مسرت پیہم تم...
08/10/2024

"خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو"

خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوار ہو تو
سکوں کی نیند تجھے بھی حرام ہو جائے
تری مسرت پیہم تمام ہو جائے
تری حیات تجھے تلخ جام ہو جائے

غموں میں آئینہ دل گداز ہو تیرا

ہجوم یاس سے بے تاب ہو کے رہ جائے
وفور درد سے سیماب ہو کے رہ جائے
ترا شباب فقط خواب ہو کے رہ جائے

غرور حسن سراپا ناز ہو تیرا

طویل راتوں میں تو بھی قرار کو ترسے
تری نگاہ کسی غمگسار کو ترسے
خزاں رسیدہ تمنا بہار کو ترسے

کوئی جبیں نہ ترے سنگِ آستان پہ جھکے

کہ جنس عجز و عقیدت سے تجھ کو شاد کرے
فریب وعدہ فردا پہ اعتماد کرے

خدا وہ وقت نہ لائے کہ تجھ کو یاد آئے

وہ دل کہ تیرے لئے بیقرار اب بھی ہے
وہ آنکھ جس کو تیرا انتظار اب بھی ہے

"فیض احمد فیض"

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیںراہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گاڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبارلڑکھڑانے لگے ایوانو...
08/10/2024

پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا

فیض احمد فیض

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاںچلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلےجو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلےنظر چرا کے چلے جس...
07/10/2024

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد

بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں

بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں

یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں

فیض احمد فیض

سال 1985 میں جنرل ضیاہ الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال...
07/10/2024

سال 1985 میں جنرل ضیاہ الحق کے فرمان کے تحت عورتوں کے ساڑی پہننے پر پابندی لگا دی گئی تھی پاکستان کی مشہور گلوکارہ اقبال بانو نے احتجاج کراتے ہوئے لاہور کے ایک سٹیڈیم میں کالے رنگ کی ساڑی پہن کر 50.000 سامعین کے سامنے فیض احمد فیض کی یہ نظم گائی
نظم کے بیچ بیچ میں سامعین کی طرف انقلاب زندہ باد کے نعرے گونجتے رہے

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
جب دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
اور اہل حکم کے سر اوپر

جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارض خدا کے کعبے سے
سب بت اٹھوائے جائیں گے
ہم اہل صفا مردود حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو منظر بھی ہے ناظر بھی
اٹھے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

اور راج کرے گی خلق خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو

فیض احمد فیض

” فیض اور فیض کی شاعری کے ادبی محاسن “فیض کے علمی فن کا کمال یہ ہوا کہ اُنھوں نے ترقی پسند اکابرین کو ترقی پسند ادب کی ا...
07/10/2024

” فیض اور فیض کی شاعری کے ادبی محاسن “

فیض کے علمی فن کا کمال یہ ہوا کہ اُنھوں نے ترقی پسند اکابرین کو ترقی پسند ادب کی اصل اور جامع تعریف دی۔
فیض کے مطابق ترقی پسند ادب وہ ہے جو سماج کی زندگی یعنی ”کلچر “ کی بات کرے۔
فیض احمد فیض کی کتاب ”میزان “ ترقی پسند نقطہ نظر کو واضح طور پر پیش کرتی ہے۔
وہ لکھتے ہیں : ’’ترقی پسند ادب وہ ہے جو کلچر کی ترقی میں مدد دے۔ کلچر کی ترقی کا مطلب یہ ہے کہ سماجی اقدار کی ترتیب موزوں کی جائے اور صحیح اقدار کا پرچار کیاجائے۔ ان اقدار کو عوام کے لیے اجتماعی طورپر سہل الحصول بنایاجائے۔“

فیض احمد نام اور فیض ہی تخلص تھا۔فیض 13 فروری 1911 میں پاکستان کے شہر ناروال میں پیدا ہوۓ۔ تعلیم کے بعد معلّمی کا پیشہ اختیار کیا،متعد اخباروں اور اداروں سے وابسطہ رہے ،”کمیونسٹ “پارٹی کے سرگرم رُکن ہونے کی بدولت قید وبند کی تکالیف بھی برداشت کیں۔

پھر کوئی آیا دلِ زار ! نہیں کوئی نہیں
راہرو ہو گا ، کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات ، بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر ایک راہگزر
اجنبی خاک نے دُھندلا دیئے قدموں کے سُراغ
گُل کرو شمعیں ، بڑھا دو مَے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفّل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں ، کوئی نہیں آئے گا

(فیض احمد فیض)

فیض غزل گو شاعر تھے اور اُنکی غزل کا دامن اتنا جامع رہا کہ اُنھوں نے اِس میں ہر موضوع پر خیال آراٸی کی۔فیض کے کلام کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ پیچیدہ ترکیبیں اور مشکل فارسی الفاظ استعمال کۓ بغیر اپنے کلام میں معنونیت پیدا کرتے ہیں وہ ملکی مساٸل اور خصوصاً مزدوروں اور محنت کشوں سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اسی سے سامراجی نظام کے خلاف بڑی شدت سے آواز بلند کرتے ہوۓ دکھاٸی دیتے ہیں

متاع لوح وقلم چھین گٸ تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں اُنگلیاں میں نے
زبان پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقہ زنجیر میں زباں میں نے

(فیض احمد فیض)

فیض کی شاعری کا پہلا دور رومانیت پر مشتمل تھا مگر رومانیت ایسی نہیں تھی کہ پڑھنے والا حقائق کی تلخیوں کو نظرانداز کردے۔ فیض کی شاعری کا دوسرا اور آخری دور رومانیت اور حقیقت کے امتزاج پر مشتمل تھا۔

مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھا تھا کہ تو ہے تو درخشاں ہےحیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دُنیا میں رکھا کیا ہے
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا یوں ہو جاۓ
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا

(فیض احمد فیض)

فیض کے مطابق رومانوی ذہن حقاٸق کی تلخیوں سے گھبرا کر فرار کا راستہ ڈھونڈتا ہے۔وہ ایک مثالی دُنیا کی آرزو کرتے ہیں مگر راہ کی مشکلات سے انکار نہیں کرتے، اُنھیں سرمایہ دارانہ نظام کی خامیوں کا بھی ادراک ہے، عوام کی زندگی کی کربناکی کی ترجمانی اُنھوں نے بار بار کی ہے،وہ حال کی مایوسیوں اور تلخیوں کے باوجود مستقبل سے مایوس دکھاٸی نہیں دیتے۔

اِس بات کا ادراک کرنا پڑے گا کہ فیض کی شاعری دوسرے ترقی پسند شعرا سے بہت مختلف ہے وہ مقصدیت کی رو میں بہہ کر فن کی نزاکتوں کو فراموش نہیں کرتے۔فیض نے انفرادی طرزِاحساس کو فروغ دیا اور نٸےاستعارے اور علامتیں بھی وضع کیں۔

ڈوبتے تیرتے مُرجھاتے رہے کھلتے رہے
رات اور صبح بہت دیر گلے ملتے رہے

(فیض احمد فیض)

فیض کی طبعیت کی حساسیت کو فیض کی انقلابی شاعری چھپانے سے قاصر ہی رہی، سقوطِ ڈھاکہ پر لکھی جانے والی غزل ایک حساس حبُ الوطن کے دل کی پیداوار ہے۔

ہم کہ ٹھہرے اجنبی اتنی مداراتوں کے بعد
پھر بنیں گے آشنا کتنی ملاقاتوں کے بعد
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
تھے بہت بے درد لمحے ختمِ درد عشق کے
تھیں بہت بے مہر صبحیں مہرباں راتوں کے بعد
دل تو چاہا پر شکستِ دل نے مہلت ہی نہ دی
کچھ گلے شکوے بھی کر لیتے مناجاتوں کے بعد
ان سے جو کہنے گئے تھے فیض جاں صدقہ کیئے
ان کہی ہی رہ گئی وہ بات سب باتوں کے بعد

‏(فیض احمد فیض)

آج 20 نومبر ہے آج ہی کے دن ادب ایک عظیم شاعر سے محروم ہوگیا تھا ،فیض کی کمی ادب کی مانگ کو سُونا رکھے گی بے شک وہ ایک بہترین نقاد اور شاعر تھے جنھوں
نے اپنے مضامین اور شاعری سے لفظ ”انقلاب “ پیدا کیا ۔

ہم دیکھیں گے، ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوحِ ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے
یہ دھرتی دھڑدھڑدھڑکے گی
اور اہلِ حکم کے سر اوپر
جب بجلی کڑ کڑ کڑکے گی
جب ارضِ خدا کے کعبے سے
سب بُت اُٹھوائے جائیں گے
ہم اہلِ سفا مردودِ حرم
مسند پہ بٹھائے جائیں گے
سب تاج اچھالے جائیں گے
سب تخت گرائے جائیں گے
بس نام رہے گا اللہ کا
جو غائب بھی ہے حاضر بھی
جو ناظر بھی ہے منظر بھی
اٹھّے گا انا الحق کا نعرہ
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
اور راج کرے گی خلقِ خدا
جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے

(فیض احمد فیض)

خدا اس حساس دل انسان سے ہمیشہ راضی رہے اور اُسکی قبر کو منور رکھے۔

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں​کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں​​یہ سخن جو ہم نے ر...
07/10/2024

سبھی کچھ ہے تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی کلفتیں​
کبھی صحبتیں، کبھی فرقتیں، کبھی دوریاں، کبھی قربتیں​

یہ سخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تری یاد کے​
کوئی لمحہ صبحِ وصال کا، کئی شامِ ہجر کی مدّتیں​

فیض احمد فیض

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Faiz Ahmed Faiz posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share