17/01/2025
فریڈرک نطشے: دیوانگی کے پار
یہ 3 جنوری 1889ع کی ایک خاموش اور سرد صبح تھی۔ سورج کی مدھم کرنیں اٹلی کے شہر تورین کی پتھریلی گلیوں پر ہولے ہولے پھیل رہی تھیں۔ ہوا میں خنکی تھی، مگر گلیوں میں زندگی کی معمولی سی رمق باقی تھی۔ فریڈرک نطشے، اپنے خیالات کے بوجھ تلے دبے ہوئے، ویا کارلو البرتو کے تنگ راستے پر بے مقصد قدموں سے چل رہا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں بیزاری تھی، گویا دنیا کی حقائق نے اُس کے اندر ایک ایسا کرب پیدا کر دیا تھا جس کا کوئی علاج نہیں تھا۔ وہ برسوں سے اپنی فکری مسافت میں انسانیت کے چہرے سے نقاب نوچنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر وہ جانتا تھا کہ حقیقت کو بے نقاب کرنے والے اکثر خود اسی حقیقت کے بوجھ تلے کچلے جاتے ہیں۔
اچانک، بازار کے قریب گھوڑے کی ایک دل دہلا دینے والی چیخ نے فضا میں ارتعاش پیدا کر دیا۔ سامنے ایک کوچوان ہاتھ میں چمڑے کا کوڑا لیے گھوڑے کی پیٹھ پر پے در پے وار کر رہا تھا۔ گھوڑے کی آنکھوں میں تھکن اور کرب تھا، اُس کا سر جھکا ہوا، جیسے وہ زمین میں سما جانا چاہتا ہو۔ کوچوان کی حرکات میں سفاکی تھی، جیسے وہ گھوڑے کے وجود اور اُس کے جینے کی خواہش کو کچل دینے کا تہیہ کر چکا ہو۔
نطشے کے قدم رک گئے۔ اُس کی سانسیں تیز ہو گئیں۔ اُس لمحے کے ہزارویں حصے میں اُس کے اندر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ وہ لمحہ، جو اُس کی ساری زندگی کی فکری مسافت کا نچوڑ تھا، اُس پر حملہ آور ہو چکا تھا۔ وہ آگے بڑھا، کوچوان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ اُس کی لرزتی ہوئی آواز میں غصہ اور کرب تھا:
"رک جاؤ! تم نہیں دیکھ رہے؟ یہ بے زبان تھک چکا ہے! اس پر رحم کرو!"
کوچوان نے اُس پر ایک نظر ڈالی، مگر اُس کی آنکھوں میں بیزاری اور حقارت تھی۔ وہ مزید کوڑے برسانے کے لیے ہاتھ اٹھا چکا تھا۔ نطشے کا وجود اب اُس لمحے کے درد کو سہارنے کے قابل نہ رہا۔ وہ گھوڑے کے قریب آیا، اُس کی گردن کے گرد اپنے بازو ڈال دیے۔ اُس کے آنسو بہنے لگے، گرم آنسو گھوڑے کے چہرے پر ٹپکنے لگے۔
اُس نے سرگوشی کی، "ماں... میں کتنا احمق ہوں..."
اچانک، اُس کی ٹانگیں جواب دے گئیں۔ وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا۔ اُس کی آنکھیں بند ہو گئیں، جیسے اُس کی ساری عقل، سارا شعور، اُس لمحے کی اذیت میں تحلیل ہو گیا ہو۔ وہ زمین پر لیٹا ہوا تھا، مگر اُس کا ذہن کہیں اور جا چکا تھا — اُس حقیقت کی اتھاہ گہرائیوں میں، جس نے اُسے سالوں سے کچل رکھا تھا۔
یہ کوئی اچانک لمحہ نہیں تھا۔ برسوں سے وہ اس لمحے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اُس نے اپنی تحریروں میں بار بار اُس منافقت اور بربریت کو بے نقاب کیا تھا جو انسانیت کے چہرے پر تہذیب کا نقاب اوڑھ کر چھپی ہوئی تھی۔ اُس کی کتابیں، "Thus Spoke Zarathustra"، "Beyond Good and Evil"، اُس کی چیخیں تھیں، جو سماج کے بہرے کانوں تک کبھی نہیں پہنچ سکیں۔
اُس نے لکھا تھا، "دیوانگی اور شعور کی حدیں مدہم ہو جاتی ہیں، اور جو دنیا کو بدلنے نکلتا ہے، وہ اکثر خود کو کھو دیتا ہے۔"
کوچوان نے نطشے کو بے ہوش دیکھا تو اردگرد لوگ جمع ہونے لگے۔ کسی نے سرگوشی کی، "یہ پاگل ہے۔" پولیس آئی، مقدمہ ہوا، اور نطشے کو پاگل خانے لے جایا گیا۔ حقیقت یہ تھی کہ وہ پاگل نہیں تھا، وہ اُس تہذیب کے خلاف بغاوت کر رہا تھا جو اپنی بنیاد میں ہی بربریت کو چھپائے بیٹھی تھی۔
---
وہ مظلوم نڈھال اورلاچار گھوڑا محض ایک جانور نہیں تھا؛ وہ اُس مظلومیت، اُس ناانصافی، اور اُس بے بسی کا استعارہ تھا، جسے نطشے نے اپنی زندگی بھر محسوس کیا۔ نطشے نے گھوڑے کو گلے لگا کر شاید اپنی زندگی کا سب سے بڑا سچ قبول کر لیا تھا — کہ طاقتور ہونا انسان ہونے کا معیار نہیں؛ بلکہ رحم، ہمدردی اور درد کو محسوس کرنا ہی اصل انسانیت ہے۔
یہ دیوانگی نہیں تھی، یہ انسانیت کی آخری چیخ تھی۔ وہ چیخ جو آج بھی ہمیں جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہے۔
(تورین میں پیش آنے والے اس واقعے کے بعد، نطشے کی ذہنی حالت تیزی سے بگڑ گئی۔ انہیں تورین سے واپس جرمنی بھیجا گیا، جہاں ابتدائی طور پر انہیں بازل کے ایک کلینک میں داخل کیا گیا۔ بعد ازاں، انہیں جینا کے ایک ذہنی امراض کے ہسپتال منتقل کیا گیا۔ ان کی تشخیص میں عمومی فالج (General Paralysis of the Insane) شامل تھی، جو سیفلس کے آخری مرحلے کی علامت ہوتی ہے۔
اس واقعی کے بعد نطشے 11 سال تک بغیر کچھ بولے زندہ رہا اور 25 آگسٹ 1900ع میں مر گیا)۔۔۔۔