Urdu Novels

Urdu Novels - is the 1st and largest online free Urdu novels books site and can download in PDF form

A Site Where you can Read and Download free online Best Urdu Novels in PDF.

مجھے یہ عام سی محبت نہیں چاہیے۔۔۔ جس میں کیے ایک بار کے اظہار سے۔۔۔ میری ذات کسی کی پابند ہو جائے۔۔۔ بلکہ میں تو محبت کی...
22/11/2024

مجھے یہ عام سی محبت نہیں چاہیے۔۔۔ جس میں کیے ایک بار کے اظہار سے۔۔۔ میری ذات کسی کی پابند ہو جائے۔۔۔ بلکہ میں تو محبت کی اس حد کی طلب رکھتی ہوں۔۔۔ جس میں صرف محبت نام کا احساس الہام بن کر۔۔۔ میرے ہاتھوں سے اس کاغذِ خاص پر تین بار لکھی۔۔۔ قبولیت کی مہر لگاتا ہوا میرے آہستگی سے چلتے دل کی۔۔۔ دھک دھک کرتی لے پر۔۔۔ میری آنکھوں میں بنے اس محرم کے۔۔۔ پاکیزہ عکس کی مورت لیے۔۔۔ دل میں قیام کرتا ہوا۔۔۔ میری روح کو اپنے حصار میں سمیٹ لے۔۔۔ اور یہ منظر دیکھ کر اشارتاً۔۔۔ میرا رب مجھ سے۔۔۔ کائنات کی کسی خوبصورت شے کی زبان میں یہ الفاظ کہلا بھیجے۔۔۔ "ہاں! یہ وہی محبت ہے جو میں نے تمہارے لیے پاک رکھی ہے۔۔۔" ❤️

یہ تیرہویں صدی تھی شورشوں کا دور تھا ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی  تاریخ بتاتی ہے چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بناتا ہوا1220ء م...
22/11/2024

یہ تیرہویں صدی تھی شورشوں کا دور تھا ہر طرف آگ لگی ہوئی تھی تاریخ بتاتی ہے چنگیز خان کھوپڑیوں کے مینار بناتا ہوا1220ء میں بخارہ پہنچا تو وہ اس مینار کے سامنے رک گیا' مینار 46 میٹر اونچا تھا' چنگیز خان نے مینار کی آخری حد دیکھنے کے لیے سر اٹھایا تو اس کی پگڑی گر گئی' وہ پگڑی اٹھانے کے لیے بے اختیار جھکا اور اسے اپنا وعدہ یاد آگیا۔۔۔۔☆
اس نے خود سے وعدہ کیا تھا وہ زندگی میں کبھی کسی کے سامنے نہیں جھکے گا لیکن اینٹوں کے ایک بے جان مینار نے دنیا کے سب سے بڑے فاتح کو اپنے قدموں میں جھکا دیا' وہ شرمندہ ہو گیا پگڑی اٹھائی' سر پر رکھی اور حکم دیا اس پورے شہر میں اس مینار کے علاوہ ساری عمارتیں گرا دی جائیں اور سارے سر اتار دیے جائیں' چنگیزی فوج آگے بڑھی' پورے بخارہ کے سر اتار کر کلاں مسجد میں جمع کیے' سروں کا مینار بنایا اور مینار پر انسانی چربی کا لیپ کر کے آگ لگا دی' شہر کی تمام عمارتیں بھی گرا دی گئیں۔۔۔۔☆
صرف کلاں مینار' بخارہ کی قدیم مسجد اور اسماعیل سمانی کا مقبرہ بچ گیا' مینار پگڑی کی مہربانی سے بچا جب کہ لوگوں نے مسجد اور اسماعیل سمانی کے مقبرے کو ریت سے ڈھانپ دیا تھا' یہ دونوں عمارتیں ریت کا ٹیلہ بن گئیں اور دونوں بچ گئیں' فارسی میں کلاں بڑے کو کہتے ہیں اورکلا پگڑی کو لہٰذا یہ مینار بلندی کی وجہ سے کلاں کہلاتا ہے یا پھر چنگیز خان کی پگڑی کی وجہ سے کلا مینار یہ واضح نہیں تاہم یہ طے ہے ''وہ عمارت اتنی بلند ہے کہ سر سے ٹوپی گر جاتی ہے'' اس محاورے نے اسی مینار کے سائے میں جنم لیا تھا۔۔۔۔☆ آج بخارہ شہر پھر سے آباد ہو چکا ہے مگر چنگیز خان کی قبر تک معلوم نہیں سچ کہا تھا کسی نے ظلم جب مٹتا ہے تو ظالم کا بھی نشان نہیں ملتا

"کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ "امید" بڑی خطرناک چیز ہے۔ ایک کینسر ہے جو جسے لاحق ہو جائے، وہ بار بار اس کے ہاتھوں مرتا ہے۔ ...
22/11/2024

"کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ "امید" بڑی خطرناک چیز ہے۔ ایک کینسر ہے جو جسے لاحق ہو جائے، وہ بار بار اس کے ہاتھوں مرتا ہے۔ " میں نے کافی کے کپ کناروں پر انگلی پھیرتے ہوئے یونہی کہا تو وہ مدھم سا مسکرا دیا۔
یہ اس کے متفق ہونے یا نہ ہونے کے اظہار کا واحد طریقہ تھا۔
"امید خطرناک ہوتی تو ہم روز اس امید پر کبھی الوداع نہ کہتے کہ دوبارہ ملیں گے۔" اس کی مسکراہٹ ہنوز قائم رہی۔
میں نے سر بے ساختہ نفی میں ہلایا۔
"امید" بہت دھوکے باز ہوتی ہے۔ اس سے بڑا دھوکہ تو انسان بھی نہیں دیتے۔"
اب کی بار اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔ شاید میرے چہرے پر رقم تحریر اسے سمجھ آنے لگی تھی۔
"اچھا وہ کیسے؟" سوال آیا تھا مطلب گفتگو جاری رکھنے کے لیے اسے دلیل چاہیے تھی۔
"کبھی کبھی میں سوچتی ہوں کہ "امید" نہ ہوتی تو ٹوٹتی آس ہر روز مجھے لہو لہان نہ کرتی۔ مطلب میں ہر روز اس "امید" کے بہکاوے میں آکر اٹھتی ہوں کہ آج تو۔۔۔۔۔ آج تو کچھ اچھا ہو ہی جائے گا۔ کچھ تو نیا ہوگا جو میری اس بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں رنگ بھر دے گا۔لیکن اسی "امید" میں صبح سے شام ہوجاتی ہے اور جانتے ہو کہ اس وقت میری کیفیت کیسی ہوتی ہے؟"
کپ میں بچی کافی ٹھنڈی ہوگئی تھی اور اس کا تلخ گھونٹ بھرنا اب مشکل ہوتا جارہا تھا۔
میں نے بات جاری رکھی۔
"جیسے کسی اپنے بہت پیارے کے لوٹ آنے کا شدت سے انتظار ہو مگر شام ڈھل جائے اور وہ نہ آئے۔یوں ہر روز اسی امید پر زندہ ہوتی ہوں اور رات ڈھلتے ہی مر جاتی ہوں۔" وہ خاموش بیٹھا بس میرا چہرہ تکتا رہا کہ اس کیفیت پر وہ مجھے خالی تسلی بھی تو نہیں دے سکتا تھا۔
"اس "امید" پر زندگی کی خراب گاڑی دھکیلتی جارہی ہوں کہ کبھی تو میں اپنی من پسند جگہوں پر پہنچ ہی جاؤں گی۔ کبھی تو یہ گاڑی بنا کسی زبردستی کے بھاگنے لگے لگی۔۔۔۔۔ لیکن آخر کب؟" میری اونچی ہوتی آواز نے کیفے میں بیٹھے لوگوں کو میری طرف پلٹ کر دیکھنے پر مجبور کردیا تھا لیکن نہ تو میری آواز کم ہوئی اور نہ اس میں موجود تلخی۔
"نئے نئے لوگوں سے ملتی ہوں، دوست بنانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس "امید" کے ساتھ ہر کسی سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہوں کہ میرا بھی ایک سرکل بن جائے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہے کہ اسی سرکل میں میں مِس فِٹ ہوجاتی ہوں۔ پھر سے اکیلی رہ جاتی ہوں۔ یہ سب اس "امید" کے دھوکے نہیں ہیں تو پھر کیا ہے؟"
میری آنکھوں میں ابھرتی نمی اس سے چھپی نہیں رہی تھی۔ اس لیے اس نے اپنی جیب میں موجود رومال نکال کر میرے آگے کیا اور نرمی سے کچھ سمجھانا چاہا۔
"مسئلہ "امید" میں نہیں ہے۔ مسئلہ غلط جگہ، غلط خوابوں، غلط خواہشوں، غلط وقت اور غلط لوگوں سے امید لگانے میں ہے۔ جس دن تم جان جاؤ گی کہ اپنی امید تم خود ہو، اس دن سب کچھ بدل جائے گا۔" میں اس کے دیئے گئے رومال سے اپنی بھیگتی آنکھیں صاف کرنا بھول چکی تھی۔ یاد رہا تو بس اتنا کہ وہ بول رہا تھا اور مجھ پر اسے سننا فرض ہوگیا تھا۔
"تمہیں ہر روز اپنے لیے اچھا خود کرنا ہے، خود کچھ نیا ڈھونڈ کر لانا ہے۔ اپنی اس بلیک اینڈ وائٹ زندگی میں رنگ خود بھرنے ہیں۔ تمہیں اپنی من پسند جگہوں پر پہنچنے کے طریقے خود تلاشنے ہیں۔"
"امید بس رستہ دکھاتی ہے، منزل پر پہنچنا ہمارا کام ہوتا ہے۔" وہ سمجھا چکا تھا اور میں شاید سمجھ بھی گئی تھی

کچھ دیر بعد ہماری ملاقات کا وقت ختم ہوگیا تھا۔

جاتے سمے اس نے یہی امید دلائی تھی کہ "پھر ملیں گے۔"

اس نے ٹھیک کہا تھا۔
"مسئلہ امید میں نہیں ہے۔ مسئلہ غلط لوگوں سے امید لگانے میں ہے۔"
جیسے میں نے اُس سے لگا لی تھی۔

مسکان احزم

ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک مسافر نے کچھ پوچھنے کی غرض سے ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ڈرائیور نے زوردار چیخ مار...
22/11/2024

ٹیکسی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھے ایک مسافر نے کچھ پوچھنے کی غرض سے ڈرائیور کے کندھے پر ہاتھ رکھا تو ڈرائیور نے زوردار چیخ ماری ، اپنی گاڑی کا توازن کھو بیٹھا اور گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھا دی اور ایک دوکان سے کچھ سینٹی میٹر پہلے ہوش میں آتے ہوئے بریک ماری ۔

ڈرائیور نے مسافر کو ڈانٹتے ہوئے کہا "خبردار جو دوبارہ تم نے ایسا کیا ۔ تم نے میری جان ہی نکال دی تھی " مسافر بولا "میں معافی چاہتا ہوں مجھے نہیں معلوم تھا میرا چھونا تمہیں خوفزدہ کردے گا "
ڈرائیور نے اپنے آپکو سنبھالتے ہوئے اور ٹھنڈے لہجے میں کہا مجھے معاف کردو اس میں تمہاری کوئی غلطی نہیں ۔ دراصل بطور ٹیکسی ڈرائیور آج میرا پہلا دن ھے ، اس سے پہلے میں پچیس سال سے ایک ایسی وین چلاتا تھا جس میں مُردوں کو ہسپتال سے سرد خانے لے کر جایا کرتا تھا۔
😄😄

22/11/2024

السلام علیکم
دن بخیر

اپنے بچوں کو تسلیم کرنے کے بجائے سوال کرنا سکھائیں، نہیں تو وہ ساری عُمر
بے شک ،، زندہ باد ،، مُرده باد کرتے رہینگے۔

اللہ رب العزت آپ کو اور آپ کی فیملی کو اپنی حفظ و پناہ میں رکھے،،آمین،،

تم میری وہ خواہش ہو۔۔۔۔۔!! جو لاکھوں میں ایک ہوتی ہے۔ میں نے دنیا کی اس بھیڑ میں خود کو گم کرکے دیکھا ہے لیکن وہاں بھی م...
22/11/2024

تم میری وہ خواہش ہو۔۔۔۔۔!!
جو لاکھوں میں ایک ہوتی ہے۔ میں نے دنیا کی اس بھیڑ میں خود کو گم کرکے دیکھا ہے لیکن وہاں بھی مجھے تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے۔
تم نہیں جانتے مگر تمہاری غیر موجودگی نے مجھ سے میری گویائی چھین لی ہے۔ اب کوئی مجھ سے ہم کلام ہوتا ہے تو میں لفظوں کو ترتیب دیتے ہوئے ہلکان ہو جاتی ہوں۔
پتا نہیں تمہاری باتوں کے علاوہ دنیا کی ساری آوازیں مجھے شور کیوں لگتی ہیں؟ یہ شور شاید ایک دن مجھے پاگل کر دے گا۔
دن رات میرا دماغ اس سوچ میں ڈوبا رہتا ہے کہ تقدیر کے وہ پنے جس میں جدائی لکھی ہے کہیں سے میرے ہاتھ لگ جائیں اور میں انھیں اپنے ہاتھوں سے جلا دوں۔
دیکھو نا! میرا ذہن کس قدر بے چین ہوگیا ہے کہ کائنات کے اصولوں سے بغاوت کرنے لگا ہے حالانکہ میں قدرت کے فیصلوں پر سر خم کرنے والوں میں سے ہوں۔
پر کیا کروں تم سے بچھڑنے کا خیال میرے دل کو لہو لہان کر دیتا ہے اور پھر قطرہ قطرہ اس سے لہو ٹپکنے لگتا ہے۔
تمہیں پتا ہے میں محبت کی اُس مقام تک آ پہنچی ہوں کہ چاہ کر بھی نہ تمہیں بھول سکتی ہوں اور نہ تمہاری یادوں کو اپنے دل سے کھرچ کر نکال سکتی ہوں۔ تم میری محبت کی شدت کو محسوس کرو اور بتاؤ کیا ان بچے کچے لمحات کو میرے نام کر سکتے ہو؟ کیا تم اب سے اپنی آخری سانس تک مکمل میرے ہو سکتے ہو؟
❤️‍🩹

خوشی کیا ہے...؟؟؟   ترکی کے ایک مشہور شاعر نے اپنے مشہور مصور دوست سے "’خوشی"‘ پر ایک پینٹنگ بنانے کی درخواست کی۔   لہٰذ...
22/11/2024

خوشی کیا ہے...؟؟؟ ترکی کے ایک مشہور شاعر نے اپنے مشہور مصور دوست سے "’خوشی"‘ پر ایک پینٹنگ بنانے کی درخواست کی۔ لہٰذا، اس نے ٹوٹتے ہوئے بیڈ پر سکون سے سوئے ہوئے ایک خاندان کی پینٹنگ بنائی۔ اس بستر کی ایک ٹانگ ٹوٹی ہوئی تھی اور دو اینٹیں رکھ دی گئی تھیں۔ اس خستہ حال مکان کی چھت بھی ٹپک رہی تھی۔ گھر کا کتا بھی بستر پر سکون سے سو رہا تھا۔ اس کی یہ پینٹنگ امر ہو گئی۔ اس لافانی پینٹنگ کو گہرائی سے دیکھیں اور سوچیں کہ خوشی دراصل کیا ہوتی ہے!! دراصل اس تصویر کو دیکھ کر مجھے لگتا ہے کہ خوشی مسائل کا نہ ہونا نہیں بلکہ پریشانی کی صورتحال کو آسانی سے قبول کرنے میں ہے۔ آپ کے پاس جو بھی ہے اس میں اچھائی دیکھنے کی کوشش کریں، چاہے حالات کتنے ہی خراب ہوں۔ ایسی چیزوں کے بارے میں غمگین ہونا چھوڑ دیں، جو آپ کے اختیار میں نہیں ہیں۔ جب بھی آپ کا دل ڈوبنے لگے تو اس لازوال پینٹنگ کو دیکھیں۔ ہمیشہ مطمئن رہیں اور سکون سے سوئیں.

22/11/2024

*قانون فطرت اور ھم* قانُونِ فطرت تو یہی ہے کہ گدھی گدھے کو ہی جنم دیتی ہے نہ کہ Rottweiler کو
ہمارے ہی اجداد، جو انگریز کا ایک من وزن صرف ایک روپے میں راولپنڈی سے مری تک لے کر جاتے، ان کے پاؤں میں جوتی تک نہیں ہوتی، پنڈی سے مری ستر کلومیٹر کا سفر ایک من وزن اٹھا کر دو دن میں مکمل ہوتا. یہ لوگ انگریز کی خدمت کرتے، اپنی پیٹھ پر سوار کر کے سیر کراتے اور انگریز خوش ہو کر اپنا بچا ہوا کھانا انہیں دے دیتا..
ہمارے اجداد نے ہی انگریزوں کی نوکریاں کیں. تنخواہ لے کر اپنے ہی لوگوں سے لڑتے رہے. انگریز نے ہندوستان پر سو سال حکومت کی، اس دوران کبھی بھی انگریزوں کی مجموعی تعداد پچیس ہزار سے زیادہ نہیں رہی.
انگلینڈ میں ایک مائیگریشن رجسٹر ہے۔ جس میں برطانیہ سے ہندوستان جانے والے 15،447 فوجیوں کے نام لکھے ہوئے ہیں. تین لاکھ ہندوستانی تھے جو انگریزی فوج میں بھرتی ہوئے. بنگال رجمنٹ، پنجاب رجمنٹ، بلوچ رجمنٹ انگریزوں نے بنائی۔
برصغیر کے بُھوکے ننگے، دو چار روپے ماہانہ وظیفے پر لڑنے مرنے کو تیار تھے. پلاسی کی جنگ میں سراج الدولہ کے خلاف انگریزی فوج میں نوے فیصد ہندوستانی ہی تھے، غداری کرنے والا بھی میر جعفر ہی تھا. سلطان حیدر علی اور اس کے بیٹے ٹیپو سلطان کے خلاف چار جنگیں لڑنے والے کون تھے؟
کوئی اور نہیں۔ میرے اور آپ کے اجداد تھے۔۔۔ انگریزوں کے خلاف سندھ حر پگارو کے لڑے اور انگریزوں کا ساتھ مری بلوچ بگٹی بلوچ نے دیا بدلے میں سانگھڑ میں انکو جاگیریں ملیں
سرنگاپٹم سے میسور تک میر جعفر نے کس طرح سلطان سے غداری کی، انگریز کو کس طرح وفاداری بیچی.. سب کچھ لکھا ہوا ہے۔ بس آنکھیں کھول کر پڑھنے والا چاہیۓ. علامہ اقبال نے کہا تھا:-
*جعفر از بنگال و صادق از دکن*
*ننگِ دیں، ننگِ قوم، ننگِ وطن*
پنجاب میں رنجیت سنگھ جو انگریزوں کو مشکل وقت دکھا رہا تھا, مُسلمانوں کو اس کے خلاف جہاد پر لگا دیا. سید احمد شہید اور شاہ اسماعیل شہید دہلی میں انگریزوں کے خلاف لڑنے کی بجائے، بالاکوٹ سکھوں سے لڑنے پہنچ گئے۔ اَسلحہ گولہ بارُود انگریزی استعمال ہوتا تھا.
انگریز دارالعلوم دیوبند کے سالانہ دورے کرتا تھا، اکابرین دیوبند کو وظائف دیتا تھا. اکابرین بریلوی اور اہلِ حدیث بھی حکومتی وظیفے لیتے رہے ہیں۔۔۔۔
اسلام کی آمد سے اب تک 1500 سالوں میں پوری دنیا میں اتنے پِیر ، دَستگیر ، وَلی ، محدث ، مجدد ، قطب ، مُفسر ، مناظر ، مقرر پیدا نہیں ہوۓ، جتنے انگریز کے 100 سالہ دور میں برصغیر میں پیدا ہوۓ تھے۔۔۔
کوئی اُڑتا رہا ، کوئی لمحے میں غائب ہو کر مدینہ پہنچ جاتا، کوئی غوث اعظم کے نام پر لطائف گھڑتا، کوئی لال شہباز قلندر کو پرواز کرواتا رہا
کسی نے نبیﷺ کے نور یا بشر پر مسلمانوں میں پھوٹ ڈالی ، کسی نے حیات و ممات پر مسلمانوں کو دست و گریباں کروایا
یہ سب انگریز وظائف دے کر اپنی سلطنت کو دوام بخشنے اور مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کیلئے کرواتے رہے ہیں۔۔۔۔
آپ کا کیا خیال ہے، پاکستان آزاد ہو گیا ہے؟
انگریز کی بنائی رجمنٹ آج بھی حکمران ہے. عوام آج بھی محکوم ہے۔ آج بھی راشن کی قطاروں میں مر رہے ہیں۔ اور اشرافیہ آج بھی انگریزی وفاداری نبھا رہی ہے.
جب کئی سال بعد دنیا کی تاریخ لکھی جائے گی تو ایک قوم "*المجرمین پاکستان*" کے بارے میں بھی تاریخ لکھی جائے گی ۔۔۔

مؤرخ لکھے گا۔۔۔
قومِ عاد۔۔۔ قوم ثمود۔۔۔اور قومِ لُوط کے سارے مجموعی گناہ اس قوم میں پائے جاتے تھے۔۔۔

یہ ایک ایسی قوم تھی جو نام تو اللہ کا لیتی تھی، مگر مانتی اپنے اپنے اپنے آلہ کاروں کو تھی۔۔۔
قرآن کو اپنی کتاب مانتی تھی، پر عمل کے لئے انسانی ہاتھ کی لکھی ہوئی کتابوں پر یقین تھا۔۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس کو تعلیم صرف جاہل بنانے کے لئے دی جاتی تھی۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس کے مذہبی پیشوأ، خود تو دنیا کی ہر آسائش سے لطف اندوز ہوتے تھے، مگر ان کو غربت افلاس کے فائدے بتا کر جنت کے ٹکٹ دیتے تھے۔

ان کے حکمران بادشاہوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ مگر اس قوم کے نچلے طبقے کے پاس کھانے کو روٹی نہیں تھی۔۔۔

مؤرخ لکھے گا:-
اس قوم کا انصاف بکتا تھا۔ طاقتور کے لئے علیحدہ قانون، اور غربأ کے لئے الگ قانون تھا۔
اس قوم کے قاضی انہی کی طرح کرپٹ اور انصاف سے عاری تھے۔۔۔

لکھا جائے گا:-
اس قوم کے سیاستدان خود غرض، نا اہل اور بےحس تھے۔ مگر یہ قوم ایسے سیاستدانوں کو اپنا مسیحا سمجھتی تھی اور ان کے لئے ایک دوسرے کی گردن کاٹنے کو بھی تیار رہتی تھی۔

ایک ایسی قوم تھی جو لمبی لمبی دعائیں اور بددعائیں کرتی تھی۔ مگر اس کا عملی کردار انتہائی ناگفتہ بہہ اور بیہودہ تھا۔۔۔

ایک ایسی قوم تھی جس میں حرام خور عزت دار کہلاتے تھے۔ اور محنت کر کے کھانے والے کمی کمین۔۔۔

*آپ کا کیا خیال ہے؟*

کامیاب کیسے ہوں ؟؟؟ایک بہترین مشورہ: گھڑیال کی ٹک ٹک کو معمولی نہ سمجھو!!!یہ زندگی کے درخت پر کلہاڑی کے وار ہیں!!!1. اپن...
22/11/2024

کامیاب کیسے ہوں ؟؟؟
ایک بہترین مشورہ:

گھڑیال کی ٹک ٹک کو معمولی نہ سمجھو!!!
یہ زندگی کے درخت پر کلہاڑی کے وار ہیں!!!

1. اپنی جنسی خواہشات پر قابو رکھیں، یہ آپ کی کامیابی یا ناکامی کا بڑا سبب بنے گا۔

2. فحاشی اور خود لذتی کامیابی کی سب سے بڑی قاتل ہیں۔ یہ آپ کے دماغ کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

3. شراب سے پرہیز کریں، ورنہ آپ کی عقل ختم ہو جائے گی اور آپ احمقانہ حرکات کریں گے۔

4. اپنے معیار بلند رکھیں اور صرف دستیاب چیزوں پر سمجھوتہ نہ کریں۔

5. اگر آپ کو اپنے سے زیادہ ذہین شخص ملتا ہے، تو اس کے ساتھ مل کر کام کریں، مقابلہ نہ کریں۔

6. آپ کی زندگی کی پوری ذمہ داری آپ پر ہے۔ کوئی اور آپ کے مسائل حل کرنے نہیں آئے گا۔

7. صرف ان لوگوں سے مشورہ لیں جو وہاں ہیں جہاں آپ جانا چاہتے ہیں۔

8. پیسے کمانے کے نئے طریقے ڈھونڈیں۔ پیسہ کمائیں اور ان لوگوں کو نظر انداز کریں جو مذاق اڑاتے ہیں۔

10. منشیات اور نشہ سے پرہیز کریں۔

11. یوٹیوب پر ہنر سیکھیں، بجائے اس کے کہ نیٹ فلکس پر فضول مواد دیکھ کر وقت ضائع کریں۔

12. کسی کو آپ کی پرواہ نہیں، اس لیے شرم چھوڑیں، باہر نکلیں اور مواقع پیدا کریں۔

13. آرام سب سے بڑی لت ہے اور ڈپریشن کا سستا راستہ ہے۔

14. اپنے خاندان کو ترجیح دیں۔ ان کی عزت اور پردہ رکھیں۔

15. نئے مواقع تلاش کریں اور اپنے سے آگے لوگوں سے سیکھیں۔

16. کسی پر بھی بھروسہ نہ کریں۔ خود پر یقین کریں۔

17. معجزے کا انتظار نہ کریں، انہیں حقیقت بنائیں۔ آپ ہمیشہ اکیلے سب کچھ نہیں کر سکتے لیکن لوگوں کی رائے نہ سنیں۔

18. محنت اور عزم سے آپ کچھ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ عاجزی آپ کو بلند مقام تک پہنچاتی ہے۔

19. اپنے آپ کو دریافت کرنے کا انتظار نہ کریں، خود کو تخلیق کریں۔

20. دنیا آپ کے لیے رکنے والی نہیں۔

21. کوئی بھی آپ پر کچھ واجب نہیں رکھتا۔

22. زندگی ایک واحد کھلاڑی کا کھیل ہے۔ آپ تنہا پیدا ہوئے اور تنہا دنیا سے جائیں گے۔

23. آپ کا زندگی کا راستہ ایسے بنایا گیا ہے کہ آپ کو ضرورت مند، مایوس اور کمزور محسوس ہو، اور اس سے نکلنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ آپ خود اس سے نکلنے کا فیصلہ کریں۔

24. ہر کوئی آپ کی طرح مخلص اور سچا نہیں ہوگا۔ ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں جو آپ کو استعمال کریں گے اور پھر چھوڑ دیں گے۰

منقول

🦀کیکڑا ایک چھوٹا سا جانور ہے▪کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔جب پانی کی لہریں اسے  کنارے پر لا پٹختی ہیں  تو پھر یہ خود پانی میں جان...
22/11/2024

🦀کیکڑا ایک چھوٹا سا جانور ہے▪
کہا جاتا ہے کہ ۔۔۔۔۔
جب پانی کی لہریں اسے کنارے پر لا پٹختی ہیں تو پھر یہ خود پانی میں جانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ اس بات کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ خود پانی آگے بڑھے اور اسے اپنی موجوں کی آغوش میں لے لے اور اگر پانی کی لہریں اسے واپس نہیں لے جاتیں تو وہ وہیں پڑے پڑے جان دے دیتا ہے حالانکہ ذراسی کوشش بھی اسے پانی میں لے جانے کو کافی ہوتی ہے ۔۔۔حالانکہ پانی چند گز کے فاصلے پر اسے پناہ دینے کے لئے موجیں مار رہا ہوتا ہے ۔۔

لیکن جب کیکڑا خود ہی اس کے قریب جانے کو راضی نہیں تو پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔

یہ ساری دنیا بھی انسانی کیکڑوں سے بھری پڑی ہے آپ نظر دوڑائیں تو آپ کے ارد گرد ہزاروں ایسے انسان موجود ہیں جنہیں اتفاقات نے جہاں ڈال دیا ساری زندگی وہیں پڑے رهتے ہیں حالانکہ ترقی اور کامیابی کا سمندر ان کے صرف ایک قدم اٹھانے کا منتظر ہوتا ہے۔۔۔۔۔

۔ہمیشہ یہی سوچ کر جیئں کہ ،،،آج سے بہتر میرا آنے والا کل ہوگا ۔۔۔۔اور یقین کریں ۔۔اس طرح آپ کا کل بہتر سے بہتر ہوتا جاۓ گا ۔۔

اگر تعلیم کا تعلق امیر ہونے سے ہوتا تو یقین کریں آج دنیا کا ہر پروفیسر کروڑ پتی ہوتا ۔۔۔

اپنی اور اپنی آنے والی نسلوں کی قسمت بدل دیں۔اگر آپ سوچتے ہیں کہ جو قسمت میں لکھا ہے وہ ضرور ملے گا تو یہ آپ کی خام خیالی ہے ۔۔۔۔۔کیونکہ قسمت میں یہی لکھا ہے کہ ۔۔۔۔جو بھی ملے گا صرف کوشش کرنے سے ہی ملے گا ۔۔۔ جائے ۔۔۔۔۔

اگر یہ نہیں کر سکتے تو پھر ۔۔۔۔ کیکڑے تو ویسے ہی اس دنیا میں بہت ہیں ۔۔۔🙂🤷🏻‍♀️

درختوں کی زندگی: جاندار وجوداگر ہم جانوروں اور انسانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں جانوروں ...
22/11/2024

درختوں کی زندگی: جاندار وجود

اگر ہم جانوروں اور انسانوں کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو بیسویں صدی کے دوسرے نصف حصے میں جانوروں کے حقوق کے حوالے سے بڑی مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔ مثال کے طور پر، 1990 میں جرمنی میں قانون بنایا گیا کہ جانور صرف چیزیں نہیں بلکہ جاندار ہیں، اور ان کے ساتھ ظلم نہیں کیا جا سکتا۔

یہ ترقی اہم ہے کیونکہ ہم سمجھ رہے ہیں کہ جانور بھی جذبات رکھتے ہیں۔ یہاں تک کہ چھوٹی مکھیاں بھی! کچھ محققین کا کہنا ہے کہ پھلوں کی مکھیاں شاید خواب بھی دیکھتی ہوں۔ لیکن جہاں جانوروں کے لیے ہمدردی کا احساس بڑھ رہا ہے، وہاں درختوں کو جاندار کے طور پر قبول کرنا ابھی مشکل ہے۔

درخت جاندار ہیں، لیکن ان کا دماغ نہیں ہوتا۔ وہ آہستہ آہستہ حرکت کرتے ہیں اور ان کی زندگی ہم سے مختلف ہے۔ سکول کے بچے بھی جانتے ہیں کہ درخت زندہ ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ انہیں صرف چیز سمجھتے ہیں۔

درختوں کا کردار
درخت اور جانور دونوں نے زندگی کی کہانی میں برابر کا سفر کیا ہے، لیکن فرق یہ ہے کہ درخت اپنی خوراک خود بناتے ہیں جبکہ جانور درختوں کی مدد پر انحصار کرتے ہیں۔

ہمارے استعمال کی بہت سی چیزیں جیسے کتابیں، فرنیچر، اور جلانے کی لکڑی درختوں سے آتی ہیں۔ اگر کوئی کہے کہ لکڑی کاٹنا قتل کے برابر ہے، تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ لیکن یہ قدرتی چکر کا حصہ ہے، بالکل ویسے جیسے ہم جانوروں سے کھانے کے لیے گوشت لیتے ہیں۔

# # # درختوں کے حقوق
درختوں کو بھی زندہ رہنے کا حق دیا جا سکتا ہے۔ ہم ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، لیکن انہیں اپنی زندگی کے اہم کام پورے کرنے کا موقع بھی دینا چاہیے۔ جیسے اپنی اگلی نسلوں کے لیے بیج دینا، یا عزت سے بوڑھا ہو کر مرنا۔

کچھ ممالک نے پہلے ہی اقدامات اٹھائے ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں قانون کہتا ہے کہ پودوں اور جانوروں کا احترام کرنا ضروری ہے۔ یہ جنگل صرف لکڑی کی فیکٹریاں نہیں بلکہ زندگی کے بڑے نظام کا حصہ ہیں۔

جنگل کا فائدہ
جب جنگلات کو بڑھنے دیا جاتا ہے تو وہ لکڑی سے بڑھ کر فائدہ دیتے ہیں۔ یہ ایکوسسٹم ہوتے ہیں، جہاں ہزاروں جاندار ایک دوسرے پر منحصر ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر، جاپان میں تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ درختوں کے جھڑتے پتے دریاؤں کے ذریعے سمندر کی تیزابیت کم کرتے ہیں، جس سے چھوٹے جاندار (پلانکٹن) بڑھتے ہیں۔ یہ مچھلیوں کے لیے خوراک بنتے ہیں اور جاپان کی سمندری خوراک کی صنعت کو فائدہ پہنچاتے ہیں۔

قدرت کی خوبصورتی
درخت صرف مالی فائدہ نہیں دیتے بلکہ ہمیں قدرت کی خوبصورتی بھی دکھاتے ہیں۔ ان کے سائے میں محبت کی کہانیاں جنم لیتی ہیں، فیصلے کیے جاتے ہیں، اور زندگی کے راز تلاش کیے جاتے ہیں۔

شاید ایک دن ہم درختوں کی زبان بھی سمجھنے لگیں۔ لیکن جب تک یہ ممکن نہیں ہوتا، جب جنگل جائیں تو ان کی خوبصورتی اور زندگی کا احترام کریں۔ قدرت کبھی کبھی ہماری توقعات سے بھی زیادہ حیران کر دیتی ہے۔

انگریز جب برصغیر پہنچے تو ساتھ میں دو چیزیں لائےان میں سب سے پہلی چائے اور دوسرا سینما تھا۔ لوگوں نے چائے کو ایکسیپٹ نہی...
22/11/2024

انگریز جب برصغیر پہنچے تو ساتھ میں دو چیزیں لائے
ان میں سب سے پہلی چائے اور دوسرا سینما تھا۔
لوگوں نے چائے کو ایکسیپٹ نہیں کیا تو اس دور کی مارکیٹنگ ٹیم نے دیکھا کہ یہ لوگ کیوں کہ دودھ بہت پیتے ہیں اور دودھ کو ہی سب غزائیت کا حامل سمجھتے ہیں تو سب سے پہلے دودھ والی چائے پاک و ہند میں متعارف ہوئی۔
اب پاکستان میں ہر ہر کھانے کے بعد چائے کا رواج ہے۔ لیکن کافی آج بھی آسائشات میں شمار ہوتی ہے۔
اوپر سے ہمارے حکماء کی دی ہوئی تربیت کی وجہ سے جہاں انڈے گرم شمار ہوتے ہیں وہیں کافی کو بھی گرم ہی سمجھا جاتا ہے۔
ملک میں شاید ایک فیصدی لوگ کافی پیتے ہوں۔ سردیوں میں تعداد کچھ بڑھ جاتی ہے۔

اس کی وجہ ایک تو پاکستان میں کافی کی قیمت زیادہ ہونا اور دوسرا گرم تاثیر ( حکیموں کے نزدیک) ہے
عموما کسی بھی سپر سٹور سے جو کافی ملتی ہے اسے انسٹینٹ کافی کہا جاتا ہے
ایسپریسو کو خشک کر کے بنایا جانے والا پاؤڈر ہے۔ مطلب اس میں پانی یا دودھ شامل کریں تو آپ کی کافی ایک دم تیار ہے۔
دوسری طرف آپ کسی کیفے جائیں تو وہاں آپ کو تازہ بیج پیس کے ان کی تازہ ایسپریسو بنا کے مختلف قسم کی کافی دی جاتی ہے۔
(اس پر پہلے تفصیلی پوسٹ ہو چکی ہے)
بنانے والا کاریگر ہو تو سب سے شاندار کافی تازہ بیجوں کو اسی وقت پیس کے اس کو پرانے روایتی طریقے سے بھاپ میں ابال کے پیا جائے تو اس جیسا ذائقہ شاید جنت میں ہی مل پائے۔
لیکن اگر آپ گھر میں کافی بنانا چاہتے ہیں اور بیج ابالنا چاہتے ہیں تو انہیں پیس کے بریو brew کیا جا سکتا ہے
جو بلکل سادہ طریقہ ہے۔
کسی ململ کے کپڑے کو چار تہہ کر کے اس میں ایک چمچ پسی ہوئی کافی ڈال لیں
کسی برتن میں رک کے اوپر سے ابلا ہوا پانی آہستگی سے ڈالتے رہیں آپ کی کافی تیار ہے۔
میٹھا کرنے کے لئے کوئی اسلامی شہد کا ہلکا کا ٹچ دے سکتے ہیں۔
انسٹینٹ کافی کو اپلے ہوئے پانی میں آدھا چمچ ڈالیں تو یہ بھی تیار ہے
حسب ضرورت میٹھا شامل کر کے انجوائے کریں۔
جاتے جاتے کافی کی دریافت کا قصہ بھی سنتے جائیں

کافی کی تلاش کا واقعہ بہت دلچسپ ہے
ایک مسلم چرواہا بکریاں لئے جنگلوں میں جا رہا تھا اور اس نے نوٹس کیا کہ جب بکریاں کافی کے پودے اور پھل کو کھاتی ہیں تو بہت زیادہ ایکٹو ہو جاتی ہیں۔
اس نے ان بیچوں کو کھانی کی کوشش کی تو وہ نہایت کڑوے تھے
اس نے گاؤں کے سمجھدار لوگوں سے یہ بات شئیر کی تو انہوں نے ان بیجوں کو پانی میں ابالا تو ذائقے دار مشروب سامنے آیا
جس میں وقت کے ساتھ ساتھ جدت اور آرٹ نے جگہ بنا لی۔

میں ہمیشہ اپنے ارد گرد حیرت زدہ ہو کر مختلف جانوروں کی فطرت کا مشاہدہ کرتا ہوں۔لومڑی کی چالاکی، کتے کی وفاداری، شیر کی ش...
22/11/2024

میں ہمیشہ اپنے ارد گرد حیرت زدہ ہو کر مختلف جانوروں کی فطرت کا مشاہدہ کرتا ہوں۔
لومڑی کی چالاکی، کتے کی وفاداری، شیر کی شجاعت، بیل کی قوت، چیونٹی کا صبر، گدھے کی برداشت، اونٹ کا غصہ، ہاتھی کا انتقام، کبوتر کی نرم دلی، ہرن کی نرمی، چھپکلی کی رنگت، شیر کی خیانت، اور گدھ کی عیاری، اور سور کی دھوکہ بازی۔

میں دیکھتا ہوں کہ یہ تمام خصوصیات، جو مختلف جانوروں کی نوع میں بکھری ہوئی ہیں، انسان میں اکٹھی ہو گئی ہیں۔

اور کبھی کبھی میں یہ صفات ایک ہی انسان میں مختلف حالات اور مواقع کے ساتھ دیکھتا ہوں۔۔!

اگر کسی شوہر کو لگتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی کم آمدن کی وجہ سے چخ چخ کرتی ہے۔ اگر کسی شوہر کو لگتا ہے کہ اس کی بیوی زیاد...
22/11/2024

اگر کسی شوہر کو لگتا ہے کہ اس کی بیوی اس کی کم آمدن کی وجہ سے چخ چخ کرتی ہے۔
اگر کسی شوہر کو لگتا ہے کہ اس کی بیوی زیادہ بچوں کی وجہ سے چڑچڑی ہو گئی ہے۔
اگر کسی شوہر کو لگتا ہے کہ اس کی بیوی اسکی غربت کی وجہ سے اس سے طلا،ق لینا چاہتی ہے۔

تو وہ جان لے کہ کم کارڈاشئین (امریکی ماڈل) نے اپنے پاپ اسٹار شوہر سے طلاق لی، جس میں اس کا سیٹلمنٹ میں پانچ سو ملین ڈالر ملے۔

تو وہ جان لے کہ کم کارڈیشین کے چار بچے ہیں۔ جن کا خرچہ اسکا سابقہ شوہر دو لاکھ ڈالر مہینے کا دیتا ہے۔

تو وہ جان لے کہ کم کارڈیشین اب بھی ناخوش ہے اور کہتی ہے پانچ سو ملین تو خرچ ہو گیا۔ اور اب بچوں کی "ضروریات" کے لیے دو لاکھ ڈالر ماہانہ کافی نہیں ہیں۔

تو وہ جان لے کہ ماڈل کہتی ہے کہ چار بچوں کو سنبھالنا کوئی آسان کام نہیں ہے، یہ میری ذات ہی جانتی ہے کہ میں کیسے "مینیج کرتی ہوں۔

تو وہ جان لے کہ بی بی کی نیٹ ورتھ اس وقت ایک بلین ڈالر پہنچ چکی ہے۔

تو شوہر بھائی لوگو!! تم ایسے ہی پریشان مت ہوا کرو۔
بیوی جیسے اور جہاں ہے، ناخوش ہی ہوتی ہے۔ دنیا کی کوئی دولت ایسی نہیں جس کے بعد وہ کہے کہ اب کافی ہے۔ اور میں خوش ہوں۔

یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکمت و دانائی پر مبنی کردار کو مزید واضح کرتا ہے۔ ایک دن بازار میں ایک شخص دعا کر رہا ...
22/11/2024

یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکمت و دانائی پر مبنی کردار کو مزید واضح کرتا ہے۔ ایک دن بازار میں ایک شخص دعا کر رہا تھا:

"اے اللہ! مجھے اپنے ان قلیل بندوں میں شامل کر لے۔"
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے دریافت کیا کہ یہ دعا کہاں سے لی ہے؟
اس شخص نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے:

"وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ"
(ترجمہ: اور میرے شکر گزار بندے بہت ہی کم ہیں۔)

یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور فرمایا:
"اے عمر! سب لوگ تجھ سے زیادہ سمجھدار ہیں۔ اے اللہ! ہمیں بھی اپنے قلیل بندوں میں شامل فرما۔"

آج جب کسی کو کسی برائی سے روکا جائے تو اکثر یہی جواب ملتا ہے:
"زیادہ لوگ تو یہی کرتے ہیں، میں اکیلا نہیں ہوں!"
لیکن قرآن ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ "زیادہ" اکثر لاپروا، ناشکرے، اور نافرمان ہوتے ہیں، جیسا کہ "اکثر الناس" کے بعد قرآن میں آیا:

"لا يعلمون" (زیادہ لوگ نہیں جانتے)

"لا يشكرون" (زیادہ لوگ شکر ادا نہیں کرتے)

"لا يؤمنون" (زیادہ لوگ ایمان نہیں لاتے)

جبکہ "قلیل" کے لیے اللہ نے فرمایا:
"وَقَلِيلٌ مِّنْ عِبَادِيَ الشَّكُورُ"
(میرے شکر گزار بندے بہت کم ہیں۔)

لہٰذا، کوشش کریں کہ آپ ان قلیل لوگوں میں شامل ہوں جو شکر گزار ہیں اور اللہ کی راہ پر چلتے ہیں۔
اے اللہ! ہمیں ان لوگوں میں شامل کر لے جو بہترین بات سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں۔ آمین! 🤲🏻

پھیلائیں سبق یاددہانی

انجنیرنگ کا سب سے بڑا عجوبہ کس نے تعمیر کیا؟بیسویں صدی میں تعمیراتی انجنیرنگ کا سب سے بڑا پراجیکٹ کونسا تھا؟پانامہ نہراک...
22/11/2024

انجنیرنگ کا سب سے بڑا عجوبہ کس نے تعمیر کیا؟
بیسویں صدی میں تعمیراتی انجنیرنگ کا سب سے بڑا پراجیکٹ کونسا تھا؟
پانامہ نہر
اکیسویں صدی میں تعمیراتی انجنیرنگ کا سب سے بڑا پراجیکٹ کونسا ہے؟
پانامہ نہر
نہیں، یہ وہ سوال جواب نہیں جس میں مذاق کی پنچ لائن تیسرے سوال کے جواب میں آتی ہے۔ بیسویں صدی میں 33 سال میں مکمل ہونے والی پانامہ نہر اور اکیسویں صدی میں اس کی ایکسٹینشن وہ دو پراجیکٹ ہیں جن کے قریب قریب بھی کچھ اور نہیں۔
اس 80 کلومیٹر لمبی نہر سے اس وقت دنیا کی تجارت کا پانچ فیصد گزرتا ہے۔ ایک بحری جہاز یہاں سے گزرنے کی فیس دو لاکھ ڈالر ادا کرتا ہے۔ پانامہ کی آمدنی کا ایک تہائی حصہ یہ محصول ہے۔ 160 ممالک اس نہر سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایک بحری جہاز گزرنے میں آٹھ سے دس گھنٹے لیتا ہے۔ امریکہ، چین، جاپان، جنوبی کوریا اور چلی اس کے سب سے بڑے کسٹمر ہیں۔ اپنی سو سالہ تاریخ میں صرف دو مرتبہ بند ہوئی تھی۔ ایک بار جب زبردست طوفان کی وجہ سے 1918 میں لینڈ سلائیڈ آئی تھی اور دوسری مرتبہ جب امریکہ نے پانامہ پر حملہ کیا تھا، اس وقت یہ چھ گھنٹے بند رہی تھی ورنہ روز کے چوبیس گھنٹے اور سال کے 365 دن یہاں سے ٹریفک جاری رہتا ہے۔ اس کو تعمیر کس نے کیا؟ یہ جواب جاننے کے لئے اس کی تاریخ۔
یہ 1850 ہے اور نیویارک میں رہنے والے کسی نے سان فرانسسکو پہنچنا ہے۔ تین راستے ہیں۔ پہلا کہ خچر پر بیٹھ کر سفر کرے۔ دوسرا کیپ ہارن کے گرد بحری سفر کرے۔ تیسرا یہ کہ پانامہ تک کشتی پر جائے، جنگل کے بیچ سے ہوتا ہوا سمندر کے دوسرے کنارے تک پہنچے اور پھر آگے کشتی لے۔ پہلا سفر چار مہینے کا، دوسرا چھ مہینے کا اور تیسرا دو مہینے کا ہے (تیسرے میں زندہ پہنچنے کا امکان سب سے کم ہے)۔
پانامہ میں سمندر کے دونوں کناروں کو ملانے کے لئے ریل کی پٹڑی بچھائی گئی جس میں آئرلینڈ اور چین کے مزدوروں نے حصہ لیا۔ پہلے دس برسوں میں پانچ لاکھ لوگوں نے اس رستے سے سفر کیا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں ڈاک کی سروس کے لئے یہ بڑا اہم راستہ تھا۔ اس کمپنی کا شئیر نیو یارک سٹاک ایکسچینج پر جلد ہی سب سے قیمتی شئیر بن گیا۔ پچاس میل کا یہ زمینی ٹکڑا بحرالکاہل کو بحرِاوقیانوس سے الگ کرتا تھا۔ تجارت، سیاست، طاقت کا تعلق اس پچاس میل کے ٹکڑے سے تھا۔ اس کو ملانے کی پہلی کوشش فرانس نے کی۔
سوئز نہر کی تعمیر نے انڈیا اور یورپ کا فاصلہ چھ ہزار میل کم کر دیا تھا۔ جب اس کو بنانے والے فرڈیننڈ ڈی لی سپس واپس یورپ پہنچے تو لندن اور پیرس میں ان کا استقبال ہیرو کے طور پر کیا گیا۔ انہوں نے جب آئفل اور ہیوگو کے ساتھ مل کر شمالی اور جنوبی امریکہ کو بھی درمیان سے اسی طرح کاٹنے کا منصوبہ بنایا تو کسی کو ان کی کامیابی پر شک نہ تھا۔ امریکی نکاراگوا کا سروے کر چکے تھے جبکہ ڈی لی سپس نے پانامہ کا انتخاب کیا۔ یہ راستہ چھوٹا تھا لیکن راستے میں پہاڑ، دریا، جنگل، آتش فشانی چٹانیں، ملیریا، زرد بخار، سانپ اور چیتے تھے اور یہ ابھی سیاسی طور پر کولمبیا کا حصہ تھا۔ سوئز صحرا تھا جہاں کٹائی میں اس قسم کے مسائل نہ تھے۔ دریائے چاگرس کا راستہ موڑنا ناممکن نظر آتا تھا۔ مصنوعی جھیلوں اور لاکس کے ذریعے نہری سیڑھیوں کا ڈئزائن بنایا گیا۔ عالمی کانفرنس ہوئی۔ فائنل راستہ طے کر لیا گیا۔
فرنچ کمپنی بنی۔ اس نے کولمبیا کو پانچ فیصد محصول دینے کا معاہدہ کیا اور ٹرین کی کمپنی کو بھی خرید لیا۔ جزائر غرب الہند اور انڈیا سے مزدور آئے۔ جنگل صاف کرنے کا آغاز 1881 میں ہوا۔ بارشوں والے اس علاقے میں مسائل کا شروع میں ہی پتہ لگ گیا۔ بارش کے طوفان کے بعد آنے والی کیچڑ کی سلائیڈ پہلے ہوئے کام کا ستیا ناس کر دیتیں۔ اس کے لئے سلوپ کا ڈیزائن بدلا گیا۔ کام دُگنا ہو گیا۔ یہ کھدائی کُدالوں اور بیلچوں سے ہو رہی تھی۔ یہاں پر موت کا راج تھا۔ کئی بار ایک دن میں چالیس اموات۔ اس دلدلی زمین پر مچھر سب سے بڑا خطرہ تھے۔ مزدوروں کی لاشیں کئی بار بس گڑھوں میں لڑھکا دی جاتیں۔ کئی بار جزائر غرب الہند سے وہ جہاز یہاں پہنچتے جن کے کئی مسافر پانامہ پہنچنے سے پہلے زندگی کی بازی ہار چکے ہوتے۔ آٹھ سال بعد 1889 میں یہ فرنچ کمپنی دیوالیہ ہو گئی۔ کام رُک گیا۔ اس منصوبے میں پیسہ لگانے والے آٹھ لاکھ سرمایہ کار آج کی کرنسی کے مطابق سات ارب ڈالر گنوا بیٹھے تھے۔ یہاں پر کام کرنے والے تیئس ہزار لوگ اپنی زندگیاں۔
اس کی اگلی قسط اس وقت شروع ہوئی جب امریکی صدر روزویلٹ نے دوبارہ کام شروع کرنے کا اعلان کیا۔ اس کی پچھلی قسط کے دوران فرنچ کمپنی یہاں پر ہسپتال، آفس، سٹور ہاؤس، نقشے، سروے، ریل روڈ، کشتیوں کے رکنے کے جگہیں پہلے ہی تعمیر کر چکی تھی۔ پانامہ ابھی بھی کولمبیا کا حصہ تھا اور علیحدگی کی تحریک زوروں پر تھی۔ امریکہ نے علیحدگی کی تحریک کا بھرپور ساتھ دیا، فوجی مداخلت کی اور بدلے میں اس علاقے کے ملکیتی حقوق لے لئے۔ دریائے چاگرس پر ڈیم کی تعمیر کر کے اس کا رخ موڑا گیا اور 164 مربع میل کا علاقہ ہمیشہ کے لئے زیرِ آب آ گیا۔ یہ گیٹن جھیل تھی۔ منہ زور دریا سدھا لیا گیا اور یہ پانامہ نہر کے پانی کا ذریعہ بن گیا۔ کولبرا پہاڑیوں کو کاٹا گیا۔ یہ ڈیم، یہ نہری سیڑھیاں خود دنیا میں سب سے بڑے تعمیراتی سٹرکچر تھے۔ روزویلٹ نے یہاں کا دورہ کیا اور پہلے امریکی صدر بن گئے جو دورِ صدرارت میں اپنے ملک سے باہر نکلے تھے۔ اب بیلچوں اور کدالوں کے علاوہ ڈائنامائیٹ بھی دستیاب تھے۔ ٹرین کی پٹڑیوں کے ذریعے مزدوروں کے لئے رسد پہنچی۔ رہائش گاہیں، ہوٹل، دکانیں بنیں۔ لیکن مزدوروں کی زندگی آسان نہیں تھی۔ مشین میں آ کر، گرتا پتھر لگ کر یا ڈائنامائیٹ کی زد میں آ کر اس دوسری قسط میں مزید چار ہزار کام کرنے والے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
تینتیس برس، اٹھارہ کروڑ کیوبک میٹر کی زمین کو ہلا کر، ایک نیا ملک بنا کر، ستائیس ہزار اموات کے بعد۔ یہ منصوبہ مکمل ہو گیا۔ 3 اگست 1914 کو پہلا بحری جہاز اس نہر سے گزرا۔ تعمیراتی انجینرنگ کے اس عجوبے کی تکمیل اس دن کی سب سے بڑی خبر نہیں تھی۔ اسی شام جرمنی نے فرانس پر حملہ کر کے پہلی جنگِ عظیم کا آغاز کر دیا۔
اگلی دہائیوں میں یہ راستہ عالمی تجارت کا اہم ترین مقام بن گیا۔ اسی کلومیٹر کے اس نہر نے عالمی معیشت اور سیاست پر گہرا اثر ڈالا۔ اس کے ملکیاتی حقوق پانامہ نے واپس لینے پر زور ڈالا۔ ساٹھ کی دہائی میں ہنگاموں اور احتجاج سے بھرے اس باب سے بننے والے عالمی پریشر کی وجہ سے 1977 میں جمی کارٹر نے اس کا کنٹرول پانامہ کے حوالے کرنے کا مشروط معاہدہ کر لیا۔ اس دوران امریکہ کا جنرل نوریگا کی حکومت الٹانے کے لئے 1989 میں ایک اور حملہ ہوا۔ 31 دسمبر 1999 کو اس کا مکمل کنٹرول پانامہ کو دے دیا گیا۔
لیکن اس وقت تک بحری جہازوں کے سائز اتنے بڑھ گئے تھے کہ بڑے جہاز یہاں سے نہیں گزر سکتے تھے۔ بڑے بحری جہازوں نے کیپ ہارن سے گزرنا شروع کر دیا تھا۔ پانامہ کو اس مقابلے کا سامنا تھا۔ 2007 میں اس کے متوازی ایک اور راستہ بنانے کے پراجیکٹ کا آغاز ہوا۔ یہ دوسری نہر پہلی سے بڑی تھی۔ یہ اتنا ہی بڑا پراجیکٹ تھا جتنا کہ پہلا۔ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ اس دوران پہلی نہر کا ٹریفک نہیں روکا جا سکتا تھا۔ تیسرا یہ کہ یہ راستہ پہلے سے زیادہ مشکل تھا۔ بہتر انجینرنگ ٹیکنالوجی آ جانے کی وجہ سے یہ نو سال میں اور بغیر انسانی جانوں کے ضیاع کے 2016 میں مکمل ہو گیا۔
اب اصل سوال کی طرف۔ انجیرنگ کا یہ عجوبہ بنایا کس نے؟ سب سے پہلے امریکہ نے چینی اور آئرش کام کرنے والوں کی مدد سے پٹڑی بچھائی۔ فرانس نے انڈیا اور جمیکا کے کام کرنے والوں کی مدد سے کام کا ایک حصہ کیا۔ اس کے بعد امریکہ نے لاطینی امریکہ اور ویسٹ انڈیز کے کام کرنے والوں کی مدد سے نہر مکمل کی۔ آج جو نظر آتا ہے وہ سب پانامہ والوں نے زیادہ تر خود تعمیر کیا ہے جس میں سپین اور اٹلی کے اداروں نے بھی کام کیا ہے۔
بہت سے ممالک سے تعلق رکھنے والی بہت سی نسلوں پر پھیلا یہ تعمیراتی شاہکار دنیا کے دو سب سے بڑے سمندروں کو ملاتا ہے۔ یہاں پر چوبیس گھنٹے چلتا ٹریفک 144 عالمی راہداریوں کا حصہ ہے۔ آئفل ٹاور جتنے بڑے بحری جہاز اب یہاں سے گزرتے ہیں۔ پانامہ یہاں سے سالانہ ایک ارب ڈالر کے زیادہ کی راہداری وصول کرتا ہے۔
ان دونوں برِاعظموں کو کاٹ دینے کے بغیر صرف پانامہ نہیں بلکہ تمام عالمی معیشت ویسے نہ چل سکتی جیسا کہ آج ہے۔
پہلی تصویر میں گزرتا ٹریفک
دوسری تصویر میں یہ نہر دنیا کے نقشے پر

ہے دل کےلیے موت!ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومتاحساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات (اقبال)آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی سب سے ...
21/11/2024

ہے دل کےلیے موت!

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کُچل دیتے ہیں آلات (اقبال)

آرٹی فیشل انٹیلی جنس کی سب سے بڑی بدصورتی، اس کی انتہائی خوبصورتی اور پرفیکشن ہے۔ اگر آپ مڈ جرنی کا چکر لگا چکے ہیں یا لیونارڈو گردی کرتے ہیں تو آپ تخلیق اور تصور کے میدان میں یقیناً ہوش گنوا چکے ہوں گے۔ اور اگر آپ لیونارڈو کا رئیل ٹائم کینوس استعمال کرچکے ہیں، جہاں ایک حرف لکھنے سے اور ایک درجہ تخلیق کی شدت کو کم یا زیادہ کرنے سے ایک دو نہیں سینکرڑوں نہیں، ہزاروں نئے امیج بنتے ہیں، تو آپ میری طرح اپنے وجود کی معنویت پر سوال اٹھا رہے ہوں گے۔
کسی سے بغل گیر ہونے پیار کرنے، باتیں کرنے، رقصاں دیکھنے اور دکھانے کے لیے آپ کو کیا چاہیے ؟ محض ایک تصویر؟ اور آپ اس سے کیا کچھ کرواسکتے ہیں۔۔۔اس کا تصور جتنا حسین ہے، اتنا ہی وحشت ناک اور خوف میں مبتلا کردینے والا بھی ہے۔
انسانوں میں کوئی کسی علم کا کتنا ماہر ہوسکتا ہے؟ کوئی فنکار کتنی قسم کی آرٹس میں یدِ طولیٰ رکھ سکتا ہے ؟ پیسٹل آرٹ؟ لائن آرٹ؟، آئل پینٹنگ؟ ایکریلک پینٹنگ؟ واٹر کلر پینٹنگ؟پینسل پینٹنگ؟ڈیجیٹل پینٹنگ؟
پھر اس کے بعد پتوں، کاغذوں، پتھروں اور مٹی سے تخلیق؟ آپ زیادہ سے زیادہ کیا سوچ سکتے ہیں اور اسے کتنی دیر میں تخلیق کر سکتے ہیں؟ اے آئی یہ سب سیکنڈوں میں کرسکتی ہے۔ میں اس پر بلا مبالغہ ہزاروں تجربات کرچکا ہوں اور ہر تجربہ مجھے جہاں خوشی دیتا ہے، تجسس بڑھتا ہے، وہیں افسردہ بھی کرتا ہے۔ میں چیزوں کو کمی کوتاہی کے ساتھ قبول کرنا چاہتا ہوں۔ ان کی تخلیق پر وقت بیتانا چاہتا ہوں اور اور اور۔۔۔۔ پینٹگز کو، پتوں کو، پہاڑوں کو، ان کے رنگوں کو چھونا چاہتا ہوں۔۔۔ اے آئی مجھے انسانی تصورات سے بہت بڑھ کر سب کچھ مہیا کر رہی ہے، بنا وقت ضایع کیے، بنا تھکے، بنا رکے۔۔۔لیکن میں نجانے کیوں افسردہ ہوتا جارہا ہوں۔۔۔
مجھے لگتا ہے، اے آئی کا ساتھ مجھے عادی کر رہا ہے، مجھ سے تخلیق کا جذبہ چھین رہا ہے، میرے وجود پر سوال اٹھا رہا ہے، احساسِ زیاں کو بڑھا رہا ہے اور مجھے دنیا میں تنہا کر رہا ہے، جس میں پہلے ہی ایک دوسرے کے لیے وقت کم بچا ہے۔

ڈاکٹر محمد خرم یاسین

#آرٹیفیشل #انٹیلیجنس، #وجودیت

آئل پینٹ سے بناقدرتی منظر (پہلی تصویر) انسانی تخلیق ہے ، بقیہ مصنوعی ذہانت سے تیار کی گئی ہیں۔

Address

Lahore

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Urdu Novels posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Urdu Novels:

Videos

Share

Nearby media companies

  • Önce Urfa

    Önce Urfa

    Mimar Sinan Mahallesi Tekel Caddesi Erdoğan, Sanlıurfa

Other Book & Magazine Distributors in Lahore

Show All