15/02/2024
کیا ریاست کی تباہی کا ایجنڈا ختم نہیں کر سکتے؟
ہم کلام/ عابد تہامی
سوچا جاتاتھا۔ خو اہش تھی، کہاجاتا تھا، عام آدمی سے لیکر
سچے جھوٹے سب دانشوروں کی رائے تھی کہ صاف، شفاف اور غیر جانبدار الیکشن ہی ملک کی ترقی، سیاسی اور معاشی استحکام فراہم کر سکتے ہیں۔ الیکشن کے بعد نتائج بھی آ چکے، رولز کے مطابق اکیس دن کے اندر اسمبلی کا اجلاس بلا کر شاید چا ر مارچ تک وزیراعظم کا انتخاب بھی مکمل ہو جائے۔ لیکن انتخابات کے انعقاد کے بعد غیر یقینی صورت حال بڑھتی جا رہی ہے اور رہی بات ملک میں استحکام کی تو شاید ان حالات میں ممکن نہیں کیونکہ دوسری طرف تباہی کے ایجنڈے کی طرف پیش قدمی جاری ہے اور حالات مذید خراب سے خراب ہوتے جارہے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں، سب اپنی اپنی رائے کا اظہار کر رہے ہیں، ادھر چوبیس کروڑ عوام جس کو اس ملک کے آقاؤں جنکو اب تک مختلف القابات سے جانتے اور پہچانتے ہیں، پہلے ان کو وردی میں دیکھ کر سلوٹ کیا کرتے تھے پھر ان کی پہچان نامعلوم، خلائ مخلوق، صاحب بہادر، اسٹیبلشمنٹ، مقتدرہ، پیر خانہ اور نہ جانے کن کن ناموں سے ہورہی ہے، لیکن بقول شاعر نام میں کیا رکھا ہے، جدھر دیکھتا ہوں تو ہی تو ہے۔ اب اس ملک کو جس نہج تک لے آئے ہیں، ایسے حالات میں اس معاشرے کے دو ادنیٰ سے کردار للو، پنجو بھی چیخ اٹھے ہیں وہ موجودہ اور آنے والی صورت حال کو کیسے دیکھتے ہیں، ان کے درمیان ہونے والے اس مکالمے کو بغیر کسی تبصرہ ہیاں دے رہا ہوں۔
للو۔۔ ۔۔ تم بڑے ناشکرے ہو، دوسال سے ر ٹ لگائ ہوئ تھی کہ نوے روز میں انتخابات کروائیں، جعلی ، غیر قانونی نگران حکومتیں ختم کریں، اب انتخابات ہو گئے تو نیا راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ دھاندلی کی انی مچ گئی ہے۔
پنجو۔۔۔۔۔ یہ ضرور کہا تھا کہ آئین اور قانون کے مطابق صاف شفاف الیکشن کروائیں لیکن آئین اور قانون کی کونسی پاسداری کی گئی، پیر خانہ، عدالت عظمیٰ اور الیکشن کمیشن کے ساتھ ساتھ پوری ریاستی مشنری نے ایک سیاسی جماعت کو باندھ کر، دھاندلی کے تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد الیکشن کروائے، اس کے باوجود اگرعوام نے اپنے پلان اے، بی سے تمام سازشیں ناکام بنا دیں ، نو مئ جیسے بیانیہ کاجنازہ نکال دیا اور تمام ریاستی جبر،اور دھشت گردی کے باوجود ہزاروں انتخابی نشانات کی بھول بھلیوں میں پھر پی ٹی آئی کو جیتتے دیکھا تو ایسے بھونڈے طریقے سے فارم45میں جیتنے والے امیدواروں کو پروا دیا گیا۔ ایک ہفتہ گزرنے کے باوجود حالات کنٹرول میں نہیں آسکے۔ اب تو اندھوں کو بھی نظر آرہا ہے کہ کیسے دھاندلی کی گئی ماسوائے ن لیگ کے جسکی پچیس سیٹیں پچھتر تک پہنچ گئ ہیں۔ ہر پارٹی دھاندلی کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے، بلوچستان میں ایک ہفتہ سے ہڑتال ہے، جماعت اسلامی، جی ڈی اے، اے این پی اور تو اور مولانا فضل الرحمن نے بھی مقتدرہ کی سازشوں کا پردہ چاک کر دیا ہے
للو۔۔۔۔۔ تم اور تمہارے جیسی یہ 24کروڑ عوام بے وقوف ہے کہ احتجاج اور ہڑتالوں سے کچھ ہو گا، الیکشن نتائج مسترد کرنے سے کیا عدالتوں سے ریلیف مل جائے گا، بھول جا، ان عدالتوں سے انصاف کی توقع احمقوں کی جنت میں رہنے والے ہی کرسکتے ہیں، وہ بڑی آسانی سے معاملہ الیکشن کمیشن کو بھجوا دیں گے اور الیکشن کمیشن تو عدالت کے سٹے ہو تے ہوئے کامیابی کے نو ٹفکیش جاری کر رہا ہے، اس کے بعد تو معاملہ ٹربیونلزمیں جائے گا اور پی ڈی ایم ٹو کی حکومت کی مدت تک تو کیس ختم نہیں ہونگے۔
پنجو۔۔۔۔۔ دیکھو! اب یہ 1977یا اب تک ہونے والے انتخابات کا دور نہیں یہ توسو شل میڈیا اور نوجوانوں کا دور ہے جنہوں نے اصل قانونی دستاویزی فارم پنتالیس نیٹ کے ذریعے پوری دنیا میں پھلا دیا ہے اور پوری دنیا کا میڈیا الیکشن کو متنازعہ اور دھاندلی زدہ کہہ رہا ہے اور کھلے عام یہ کہہ رہا ہے کہ عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا ہے صرف وہی قبول ہے۔
للو۔۔۔۔۔۔ او بھئی! امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس، یورپی یونین اور انٹرنیشنل میڈیا جو مرضی کہے اور لکھے، جتنا مرضی پریشر ڈالے، صاحب بہادر سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو فیصلہ کیا ہے اس پر عمل درآمد کروا کر رہیں گے اور وہ تو اسی سمت بڑھ رہے ہیں کیونکہ انکے نزدیک عوام ایک دشمن کی طرح اور دشمن کو ختم کرنا ہی انکا فلسفہ ہے۔
پنجو۔۔۔۔۔ دیکھو! میں نے پہلے بھی کہا ہے ک اب یہ نوے کی دہائی نہیں، یہ 2024ہے۔ آج پانچ سال کے بچے سے لیکر اسی سال تک کا بو ڑھا بدل چکا ہے، وہ باشعور قوم بن چکے اور حق اور باطل کی پہچان کر چکے ہیں، جو تبدیلی شروع ہو چکی ہے وہ کم ازکم آیندہ پانچ نسلوں تک تو ختم نہیں ہوسکتی، اسی ُ بے وقوف عوام ُنے خود انتخابی نشانات اور امیدواروں کو ڈھونڈ کر ظلم اور جبر کے خلاف ووٹ کاسٹ کرکے خاموش انتقام لیا ہے۔ یہ انقلاب نہیں تو اور کیا ہے۔۔۔۔۔
اب سمجھ داری کا تقاضہ یہی ہے کہ عوام کی رائے کو تسلیم کرتے ہوئے جو اس مینڈیٹ کے اصل حقدار ہیں اقتدار ان کے حوالے کیا جائے اور ریاست کو تباہی سے بچایا جائے۔ عوام کے بارے تمہارے اندازے غلط ثابت ہو چکے ہیں اگر اب بھی سمجھ نہیں آرہی اور ریاست کی تباہی کے مبینہ ایجنڈے سے تم پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں ہو پھر عوام کے غیص و غصب، غصہ اور نفرت کے ردعمل کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اس عوام نے ظلم کا بدلہ ووٹ سے لینے کےلیے اپنے ووٹ کی حفاظت کی بھی قسم کھا رکھی ہے۔ الله کرے منصوبہ سازوں اور عمل درآمد کرنے، کرانے والوں کو ہدایت نصیب ہو۔ ورنہ۔۔۔