05/12/2024
رومی جمہوریت کے دور میں غلاموں کے ساتھ حرامکاری کرنا، لونڈیوں کی عصمت دری کرنا اور لاتعداد شادیاں کرنا عام سی بات تھی - غلام مردوں اور عورتوں سے جنسی پیشہ طوائف رانی (Prostitution) کروائی جاتی تھی - غلام مردوں عورتوں اور بچوں کو برہنہ حالت میں بازاروں میں سب کے سامنے فروخت کرنے کے لیے پیش کیا جاتا تھا، جہاں ان کی بولیاں لگتی تھیں - سب سے زیادہ دام دینے والے کو اس کا پسندیدہ غلام مرد یا عورت بیچ دی جاتی تھی -
غلاموں کے ساتھ بہیمانہ تشدد کا عالم عام تھا، تیسری صدی کے معروف رومی سیاستدان فلامینیس(Gaius Flaminius 275 BC – 217 BC) کے یہاں ایک مہمان آیا، اس کی تفریح کے لیے جہاں فلامینیس نے اور انتظامات کیے وہاں اس نے اپنے ایک غلام کو ذبح کرکے مرنے کا تماشا اپنے مہمان کو دکھایا-
رومی قیصر کے وزیر ویڈیس پولیو( Publius Vedius Pollio died 15 BC) نے مچھلیاں پالیں اور اپنے غلاموں کا گوشت کاٹ کر ان مچھلیوں کو کھلایا -
رومن ایمپائر کے بانی اور رومی شہنشاہ جولیس سیزر آگسٹس(Gaius Julius Caesar Augustus 63 BC – 14 AD) کا ایک شامت زدہ غلام بھوک کی وجہ سے اس کے ایک بٹیر کو پکا کر کھا گیا - اس جرم کی پاداش میں آگسٹس نے اسے پھانسی دے کر ماردیا -
عدالتوں میں غلاموں کی گواہیاں قبول نہیں کی جاتی تھیں - غلاموں کو سزائے موت بھی عجیب ہولناک طریقے سے دی جاتی تھی، طرح طرح کی تکلیفیں دے کر انھیں مارا جاتا تھا - اذیتیں سہنے کی وجہ سے کمزور اور ضعیف ہوجانے والے غلاموں کو جزیرہ ٹایبر میں خوراک اور پانی کے بنا فاقوں مرنے کے چھوڑ دیا جاتا تھا، کہ یہ وہیں مریں - دروازوں پر کھڑے غلاموں کو سر سے پاؤں تک زنجیروں میں قید کر کے کھڑا کیا جاتا کھیتوں میں وزنی زنجیریں پہنا کر ان سے ہل چلوایا جاتا، خواتین بڑے بڑے سوئے ان غلاموں کے جسموں میں بھونکتیں اور ان کے چہروں کے گوشت کو پھاڑتیں، آقا کو ان پر ہر طرح کا کنٹرول حاصل تھا چاہے انھیں سیافی کے طور پر لڑنے کے لیے بیچ دے یا جنگلی جانوروں کے سامنے ڈال دے -
آج ان رومیوں کی امریکی برطانوی نسلیں اسلام میں غلاموں کے حقوق پر بات کرتی ہیں اور اپنے بت پرست رومی باپ داداوں کے غلاموں کے ساتھ بد کرداری پر مبنی ظلم و بربریت کے قبیح اعمال سے بھری ہوئی تاریخ سے چشم پوشی اختیار کر لیتی ہیں-
🍀منقول