طب والجراحت

طب والجراحت اس پیج میں آپ کوانسانی ھﮈی, جوڑ, اور پٹھوں کے تمام امراض کے متعلق مکمل راہنمائی ملے گی. انشاءاللہ

22/11/2023

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

06/10/2023

سارکوپینیا: عمر بڑھنے کے نتیجے میں ڈھانچہ کے پٹھوں کا کم ہوتے جانا اور طاقت کا زوال ہے۔

اسے طبی زبان میں سرکوپینیا کہتے ھیں۔
آئیے سرکوپینیا پر غور کریں!

1- زیادہ سے زیادہ کھڑے رہنے کے قابل ہونے کی عادت پیدا کریں
کم از کم بیٹھیں..

اور بیٹھ سکتے ھیں تو لیٹنے کی بجائے حتی الامکان بیٹھیں

2 - اگر کوئی ادھیڑ عمر بیمار ہو جائے اور اسے ہسپتال میں داخل کیا جائے تو اسے مزید آرام کرنے کو نہ کہیں... یا لیٹ کر آرام کرنے اور بستر سے نہ اٹھنے کا مشورہ نہ دیں!

ایک ہفتے تک لیٹنے سے پٹھوں۔کی تعداد کا کم از کم 5 فیصد کم ہو جاتا ہے!

اور بوڑھا آدمی اپنے پٹھے دوبارہ بنا نہیں کر سکتا! ایک دفعہ گئے تو گئے!

عام طور پر، بہت سے بزرگ جو مددگاروں کی خدمات حاصل کرتے ہیں اپنے عضلات تیزی سے کھو دیتے ہیں!

3- سرکوپینیا آسٹیوپوروسس سے زیادہ خوفناک ہے!
آسٹیوپوروسس کے ساتھ، آپ کو صرف محتاط رہنے کی ضرورت ہے کہ گر نہ جائیں، جبکہ سارکوپینیا نہ صرف زندگی کے معیار کو متاثر کرتا ہے بلکہ پٹھوں کی ناکافی مقدار کی وجہ سے ہائی بلڈ شوگر کا سبب بھی بنتا ہے!

4 - مسلز ایٹروفی میں سب سے تیزی سے نقصان ٹانگوں کے پٹھوں میں ہوتا ہے!
کیونکہ جب کوئی شخص بیٹھتا ہے یا لیٹتا ہے تو ٹانگیں حرکت نہیں کرتیں اور ٹانگوں کے پٹھوں کی طاقت متاثر ہوتی ہے... یہ خاص طور پر اہم ہے!

آپ کو سارکوپینیا سے محتاط رہنا ہوگا!

سیڑھیاں چڑھنا اور اترنا... ہلکی دوڑ لگانا۔ سائیکل چلانا یہ سب بہترین ورزشیں ہیں اور یہ پٹھوں کو بڑے پیمانے پر مضبوط کر سکتی ہیں!

بڑھاپے میں بہتر معیار زندگی کے لیے...

کوشش کریں کہ آپ کے پٹھے ضائع نہ ہوں۔

*بڑھاپہ پاؤں سے شروع ہوتا ہے!*

اپنے پیروں کو متحرک اور مضبوط رکھیں!!

▪️ جیسے جیسے ہم روزانہ کی بنیاد پر بڑے ہوتے جاتے ہیں، ہمارے پیروں کو ہمیشہ متحرک اور مضبوط رہنا چاہیے۔

▪️ اگر آپ صرف دو ہفتے تک اپنی ٹانگیں نہیں ہلاتے ہیں تو آپ کی ٹانگوں کی حقیقی طاقت 10 سال تک کم ہو جائے گی۔
اس لیے
*باقاعدہ ورزش، جیسے پیدل چلنا، بہت ضروری ہے*۔

*پاؤں ستون کی ایک قسم ہے* جو انسانی جسم کا پورا وزن برداشت کرتی ہے۔
ہر روز پیدل چلنا ضروری ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ انسان کی 50% ہڈیاں اور 50% پٹھے پیروں میں ہوتے ہیں۔

Copy paste

Send a message to learn more

21/02/2023

اگر آپ پلاٹ خریدنا چاہتے ہیں تو پہلے اس کو پڑھیں

حالیہ دنوں میں بشارت حمید صاحب کا تحریر کردہ کتابچہ”تعمیرِ مسکن” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس میں گھر کی تعمیر کے حوالے سے کافی رہنما مواد ہے مگر تعمیر کا ایک بڑا مرحلہ یعنی پلاٹ خریداری کا مضمون اس میں موجود نہیں تھا۔ اسی سے خیال آیا کہ اپنے محدود تجربے کی روشنی میں کچھ باتیں پیش کردی جائیں تاکہ بہت سوں کا بھلا ہوسکے۔ یہ اجمالی تحریر ہے ، ان اشارات کی بنیاد پر آپ کسی تجربہ کار سے مزید رہنمائی بھی حاصل کرسکتے ہیں۔

پلاٹ خریدنے کا معاملہ بہت حساس اور پیچیدہ ہے۔ عام طور پر انسان زندگی میں یہ معاملہ ایک آدھ بار ہی کرتا ہے۔ اگر اس سے متعلق پوری طرح بصیرت حاصل نہ ہو تو یہی معاملہ ہمیشہ کے لئے دردِ سر بن جاتا ہے۔ اس لئے اس میں ہر ہر موقع پر استخارے اور مشاورت کی ضرورت ہے۔ البتہ چند رہنما اصول یہاں لکھے جاتے ہیں

سب سے پہلے آپ اپنے ذہن میں یہ بات بٹھا لیں کہ زمین کا جو حصہ آپ کو آسانی سے بغیر کسی فٹیگ کے مل سکتا ہے وہ آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔ جیتے جی اگر آپ کسی جگہ کی تلاش میں ہیں تو یہ ایک سخت اور مشکل مرحلہ ہے۔ جس میں آپ کو ایسی مخلوق سے واسطہ پڑنے والا ہے جسے زندگی میں آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ آپ نے اسلم صاحب (فرضی نام) کو تو بہت مرتبہ دیکھا ہوگا مگر اسلم صاحب بطور پراپرٹی ڈیلر، بطور پٹواری، بطور وثیقہ نویس اور رجسٹری محرر وکیل یا بطور لینڈ ریکارڈ آفیسر کبھی نہیں دیکھا ہوگا۔ پلاٹ خریداری کا موقع بہت زبردست ایڈوینچر ہے۔ کاروباری مسکراہٹ میں چھپی بد اخلاقی، جھوٹ، بددیانتی، ناجائز منافع خوری، رشوت ستانی اور بدلتے رویے یہ سب چیزیں آپ کو ایک ہی معاملے میں دیکھنے کو ملیں گی۔ الا ماشاء اللہ (شرفا کا تناسب کم ہے جو پوری تحریر میں مستثنی رہیں گے۔)اس لئے مضبوط اعصاب کے ساتھ یہ صبر آزما مرحلہ سر کریں۔ پلاٹ خریداری کے مرحلے کو تین حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلا حصہ پراپرٹی ڈیلر سے متعلق ہے دوسرا بیع کے اقرارنامے کی تیاری سے ، جبکہ آخر میں ہم رجسٹری سے متعلق بات کریں گے۔ ان تمام مراحل کو اختصار کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے۔

پہلا مرحلہ: پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ

اس پورے عمل میں جتنی خلقِ خدا سے واسطہ پڑتا ہے ان میں سب سے شاطر کردار پراپرٹی ڈیلر کا ہے۔یوں سمجھ لیجیے کہ پراپرٹی ڈیلر آپ کو دریا کا دوسرا کنارہ بہت سہانے انداز میں دکھاتا ہے مگر یہ آپ پر منحصر ہے کہ فورا کود جاتے ہیں یا کودنے سے پہلے دریا کے پاٹ اس کی گہرائی، لہروں کی شدت ، بھنور پن اور دیگر خطرات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ نیز آپ کو اپنے فنِ تیراکی پر کتنا اعتماد ہے اور اس فن سے آپ کس قدر فائدہ اٹھاتے ہیں۔ پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ کرتے وقت چند باتیں مدنظر رکھیے۔

1. یاد رکھیے کہ پراپرٹی ڈیلر کو آپ سے زیادہ آپ کی جیب سے دلچسپی ہے۔ جیسے جوتا پالش کرنے والا آپ کے جوتے دیکھ کر ہی آپ کو سلام کرنے کی ضرورت محسوس کرتا ہے اور جس قدر آپ کے جوتے گندے ہوں اس کے سلام میں اسی قدر خلوص جھلکتا ہے۔ بالکل اسی طرح پراپرٹی ڈیلر بھی ابتدا ہی میں آپ کو تاڑنا چاہتا ہے کہ کیسی آسامی ہے۔ اس کا ممکنہ پہلا سوال یہی ہوگا کہ آپ کے پاس گنجائش کتنی ہے؟ یہ پہلا موقع ہے جہاں زیادہ تر گاہک پھسل جاتے ہیں۔ یاد رکھیے پراپرٹی ڈیلر سے معاملہ کرتے وقت آپ اسے اپنی ضرورت اور پسند تو بتا دیجیے کہ کتنے رقبے میں آپ کو دلچسپی ہے اور اس کی کیا خصوصیات ہونی چاہییں مگر اسے اپنی گنجائش مت بتایے۔ اس کے نتائج اچھے مرتب نہیں ہوتے۔

2. کسی بھی پلاٹ میں دلچسپی ظاہر کرنے سے پہلے پراپرٹی ڈیلر سے کمیشن طے کرلیجیے۔ ابتدا میں ممکن ہے وہ کم کمیشن (ایک فیصد) پر ہی راضی ہوجائے، لیکن اگر آپ نے دلچسپی ظاہر کرنے کے بعد کمیشن طے کیا تو ممکن ہے وہ زیادہ (ڈیڑھ یادو فیصد) ہی بتائے۔ یہ کمیشن عموما بیعانے کے وقت وصول کرلی جاتی ہے۔ مگر کمیشن طے کرتے وقت اس سے یہ بھی پوچھ لیجیے کہ کمیشن کے عوض آپ کی کیا کیا خدمات میسر رہیں گی۔ یقینا وہ رجسٹری کے عمل تک کی خدمات بیان کرے گا، جس میں بائع سے رابطہ رکھ کر فرد کی فراہمی کو یقینی بنانا اور بائع کو بیان دلانے کے لئے تیار کرنا وغیرہ بھی شامل ہیں۔ آپ اسی موقع پر اس بات کا اظہار بھی کرسکتے ہیں کہ کمیشن کا کچھ حصہ رجسٹری وغیرہ کے موقع پر ادا کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے پراپرٹی ڈیلر کو آپ میں اسی وقت تک کشش دکھائی دے گی جب تک کمیشن کا مقناطیس آپ کی جیب میں ہے۔

3. جس پلاٹ میں آپ دلچسپی لے رہے ہوں، موقع پر جا کر اس کا محل وقوع ضرور دیکھیے۔ پلاٹ میں بہت سی چیزیں اس کے ریٹ پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پلاٹ کا محل وقوع (یہیں آپ اپنی ترجیحات مثلا مسجد کے قریب یا مارکیٹ کے قریب ہونا وغیرہ بھی دیکھ سکتے ہیں ) اس کے سامنے والی گلی کی پیمائش، پلاٹ کی شیپ (چوکور، مستطیل یا مثلث)، پلاٹ کی گہرائی؟ اطراف تعمیر شدہ ہیں یا نہیں؟ فرنٹ کتنا ہے؟ ان کا اندازہ آپ کو موقع پر جا کر معاینہ کرنے سے ہی ہوسکتا ہے۔

4. پلاٹ کی پیمائش سودا طے ہونے سے پہلے آپ خود کریں۔ پیمائش کا طریقہ یہ ہے کہ اگر چوکور یا مستطیل مگر برابر اضلاع میں پلاٹ ہے تو اس کے دو متوازی خطوط میں سے ایک ایک کی پیمائش نوٹ کرلیں اور ان کو باہم ضرب دے دیں۔ یہ آپ کا کل مربع فٹ نکل آئے گا۔ اسے 272.25 پر تقسیم کیا جائے تو کل مرلوں کی پیمائش معلوم کی جاسکتی ہے۔ اور اگر چوکور یا مستطیل ہے مگر مساوی اضلاع نہیں تو ہر دو متوازی اضلاع کے حاصل جمع کو دو پر تقسیم کر کے باہم ضرب دی جائے۔ اسی طرح اگر مثلث نما ہے تو اس کے دو اضلاع کی پیمائش کا حاصلِ جمع دو پر تقسیم کرلیا جائے اور ایک خط کی پیمائش کو الگ سے دو پر تقسیم کرلیا جائے جو جواب آئے ان کو باہم ضرب دے دی جائے تو کل مربع فٹ معلوم کیا جا سکتا ہے۔(یاد رکھیے کہ مثلث صورت میں یا اگر چاروں اطراف کے خطوط کی پیمائش مختلف ہو اس کی حتمی پیمائش نہیں نکلے گی۔ تاہم مذکورہ بالا طریقے سے آپ حتمی کے قریب قریب پہنچ سکتے ہیں)

5. سودا طے ہونے سے پہلے اس پلاٹ کی فرد ضرور ملاحظہ کرلیں تاکہ آپ کو پلاٹ کی اصل پیمائش کا درست علم ہوسکے۔ یہی پیمائش قانونی طور پر آپ کی رجسٹری میں لکھی جائے گی۔ ورنہ بہت سی صورتوں میں گلی وغیرہ کا کچھ حصہ شامل کر کے پلاٹ فروخت کردیا جاتا ہے جب آپ ادائیگیوں سے فارغ ہوچکے ہوتے ہیں تو علم ہوتا ہے کہ قابلِ فروخت رقبہ جو ملکیت میں منتقل ہوا ہے وہ کم ہے۔ لیکن اس وقت پچھتانا بے سود ہے۔

6. اصل فرد سے آپ کو یہ اندازا بھی ہوسکے گا کہ پلاٹ کی کیا کیفیت ہے؟ فروخت کنندہ کے نام پر ہے یا اس کا مالک کوئی اور ہے؟ اگر مالک کوئی اور ہو تو فروخت کنندہ کے پاس اجازت کا ثبوت(مختار نامہ) ہونا چاہیے۔ نیز وہ اکیلا اس کا مالک ہے یا پلاٹ مشترکہ ہے۔ اگر مشترکہ ہے تو کیا سب شرکاء فروخت کرنے پر رضا مند ہیں؟ یہ بات پراپرٹی ڈیلر کے علم میں لانا ضروری ہے تاکہ رجسٹری کے کاغذات کی تیاری میں (اگر اسی کے ذریعے کروائی جارہی ہو) اور بیانات کے موقع پر وہ تمام مالکوں سے رابطہ یقینی بنائے۔

7. نیز یہ بھی تسلی کرلیں کہ پلاٹ پر کسی کا ناجائز قبضہ تو نہیں یا اسے بینک وغیرہ میں مارگیج تو نہیں کیا گیا۔ ایسی صورتِ حال میں (بالخصوص اگر آپ کی پسلی کمزور ہو تو) شروع سے ہی اپنا ہاتھ کھینچ لیں۔ ان شاء اللہ کوئی اور انتظام ہوجائے گا۔ ان ارض اللہ واسعۃ (اللہ کی زمین بہت وسیع ہے۔)

8. آخری بات کہ پلاٹ خریداری کا معاملہ جلد بازی میں نہ کیجیے۔ پراپرٹی ڈیلر یہی چاہے گا کہ دوپہر کو وزٹ کریں اور شام تک فائنل کردیں۔ وہ آپ کو بے جا ڈرائے گا کہ جس پلاٹ میں آپ کی دلچسپی ہے اس کا زیادہ ریٹ لگ رہا ہے مجھے جلدی ہاں یا ناں میں جواب دیں۔ یقین کیجیے کہ یہ سب جھوٹ ہوتا ہے۔ یہ ایسے بداخلاق ہیں کہ اگر انہیں زیادہ ریٹ ملے تو آپ سے پوچھنا بھی گوارا نہیں کریں گے۔ اس لئے آپ اطمینان سے فیصلہ کیجیے ۔اس کی باتوں کی طرف دھیان مت دیجیے۔ استخارہ کریں اور مشاورت بھی، بالخصوص جہاں پلاٹ خرید رہے ہیں اس علاقے میں کسی واقف کار سے ضرور مشاورت کیجیے۔ آپ جتنے بھی ماہر ہوں دوسروں کی رہنمائی سے بے نیاز نہیں ہوسکتے۔

9. اہلِ علاقہ میں سے کسی کے ساتھ مشاورت کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ آپ کو اس علاقے میں جگہ کی قیمت کا اندازا ہو جائے گا۔ جس کی بنیاد پر آپ اطمینان سے سودا طے کرسکتے ہیں۔

10. جب آپ ہر طرح سے مطمئن ہوجائیں تو رضامندی کی علامت کے طور پر کچھ ٹوکن ادا کیا جاتا ہے جو آپ اپنی مرضی سے طے کرسکتے ہیں مثلا دس پندرہ ہزار۔ یہ ٹوکن اصل قیمت سے منہا کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بیعانہ نہیں ہوتا۔

تلک عشرۃ کاملہ۔

دوسرا مرحلہ : بیع کے اقرار نامے (سیل ایگریمنٹ) کی تیاری

ٹوکن کی ادائیگی کے فوری بعد آپ پراپرٹی ڈیلر کو بیع کے اقرار نامے کی تیاری کا کہہ دیجیے۔ یہ خریدار کے نام حاصل کیے گئے ایک (غیر عدالتی) اسٹام پر لکھی ہوئی قانونی تحریر ہوتی ہے۔ جس میں فروخت کنندہ کی طرف سے اس بات کا اقرار ہوتا ہے کہ مخصوص پلاٹ جس کا حدودِ اربعہ اور جملہ تفصیلات یہ ہیں میں برضا ورغبت اتنے عوض پر فروخت کرتا ہوں۔ اس میں یہ بھی لکھا جائے گا کہ کتنی رقم آپ ایڈوانس دیں گے اور کتنی آئندہ کی کس تاریخ کو واجب الادا ہوگی۔ یہ جو رقم آپ ایڈوانس دے رہے ہیں اسے بیعانہ کہتے ہیں۔ رواج یہ ہے کہ اگر خریدار اقرار نامے کے بعد مکر جائے تو وہ دی گئی رقم سے محروم ہوجاتا ہے۔ اور اگر فروخت کنندہ مکر جائے تو اسے بیعانے کی رقم کا دوگنا ادا کرنا ہوگا۔

بیع کا یہ اقرار نامہ معمولی اسٹام پر نہیں لکھا جاتا۔ بلکہ یہ 1200 مالیت کے سٹام پیپر پر لکھا جاتا ہے۔ (اس کے ساتھ پلاٹ کی قیمت کے حساب سے معمولی فیس بھی ہوتی ہے) اس سب کا چالان آن لائن بھرا جاتا ہے۔ اس کے اجرا کے بعد پراپرٹی ڈیلر کسی وثیقہ نویس سے قانونی انداز میں تحریر لکھوا لیتا ہے۔ سٹام کے حصول اور وثیقہ نویسی کی کچھ معمولی اضافی فیس وصول کی جاسکتی ہے۔

یاد رکھیے کہ یہ اسٹام اپنی الگ قانونی اہمیت اور مقاصد رکھتا ہے، مگر آپ اصل رجسٹری (Sale Deed) سے پہلے قانونی کاغذات تیاری کی ریہرسل سمجھیے۔ اس میں کچھ چیزوں پر بطور خاص غور کرلیجئے۔

1. پلاٹ نقد پر بھی خریدیں تو کوشش یہی کی جائے کہ کم سے کم زرِ بیعانہ پر فریقین کا اتفاق ہو۔ تاکہ سودا منسوخی کی صورت میں غیر معمولی بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ بقیہ رقم رجسٹری کے موقع پر ادا کی جائے۔ سٹام پر تحریر اسی کے موافق لکھوائیے.

2. اپنا اور فروخت کنندہ کا درست نام، شناختی کارڈ نمبر۔ (نیز آپ سٹام کو اس پر دیے گئے نمبر کے ذریعے ای سٹام ویب سائٹ
(https://es.punjab.gov.pk/eStampCitizenPortal/ChallanFormView/HomePageپر چیک کرسکتے ہیں

3. اسٹام پیپر لکھوانے سے پہلے تمام شرائط طے کرلی جائیں کہ رجسٹری کب ہو گی؟ رجسٹری اخراجات کون ادا کرے گا اور فرد برائے فروخت مہیا کرنا کس کی ذمہ داری ہے۔ (عموما رجسٹری اخراجات مشتری اور فرد برائے فروخت نکلوانے کے اخراجات بائع ادا کرتا ہے۔ تاہم اس بات کو طے کرلینا ضروری ہے) لکھے گئے سٹام پر اپنی تمام شرائط چیک کر لیجئے۔

4. اسٹام پر دئے گئے کھیوٹ نمبر، کھتونی نمبر اور خسرہ نمبر وغیرہ کو اصل فرد سے ملا کر دیکھ لیجیے۔ اگر اصل فرد بڑے پلاٹ کی ہے اور آپ کو اس کا اس کا کچھ حصہ فروخت کیا جارہا ہے تو اسٹام پر پلاٹ کی حدودِ اربعہ کی تعین اور محل وقوع بغور ملاحظہ کرلیجیے کہ آپ کے پلاٹ کی جہاتِ اربعہ (چاروں اطراف) کیا ہیں۔ اگر کہیں شک شبہ ہو تو اسٹام کے آخر میں وضاحتی تحریر لکھوا لیجیے۔ یہ سارا عمل دستخط سے پہلے کرنا ہوگا۔

5. دستخط کے فورا بعد قانونی اور شرعی طور پر آپ ایڈوانس رقم کی ادائیگی کے جبکہ دوسرا فریق پلاٹ پر قبضہ دینے کا پابند ہے۔

6. اس اقرار نامے کے آخر میں مقر (فروخت کنندہ)، مقر الیہ (خریدار) اور دو گواہوں کے دستخط اور انگھوٹے کے نشانات ثبت ہوں گے۔ ان تمام کے شناختی کارڈز کی فوٹو کاپیاں اس اقرار نامے کے ساتھ لگوائی جائیں۔

7. بہتر یہ ہے کہ پراپرٹی ڈیلر سے کہہ دیا جائے کہ اسٹام کی کچی کاپی آپ کو دکھائے بغیر پرنٹ مت کرے۔

تیسرا اور آخری مرحلہ: رجسٹری (Sale Deed)کی تیاری کا مرحلہ

پلاٹ خریداری میں یہ آخری مرحلہ سب سے اہم ہے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جس کے ذریعے آپ کی ملکیت کا ریکارڈ سرکار کے پاس جائے گا۔ اس میں لمحوں کی غفلت سالہا سال پیشیوں کی صورت میں بھگتنی پڑ سکتی ہے۔ اس مرحلے کی تمام تر نگرانی آپ کو خود کرنا ہوگی۔ چند باتیں ذہن نشین رکھیے:

1. عموما بقایا جات کی ادائیگی کا طے شدہ وقت جب آتا ہے یا جب بھی آپ کے پاس رقم کا انتظام ہوجائے تو آپ اس کی ادائیگی سے پہلے پراپرٹی ڈیلر یا مالک کو فرد مہیا کرنے کا کہتے ہیں۔ (یہ فرد برائے بیع ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ عام فرد جو ریکارڈ کے لئے ہوتی ہے وہ رجسٹری کے لئے کارگر نہیں۔) فرد برائے بیع، لینڈ ریکارڈ کمپیوٹر سیکشن یا پٹواری سے مل سکتی ہے جس کا سرکاری ریٹ 500 روپے ہے (بھتے یا رشوت کی رقم اس میں شامل نہیں۔ تاہم کم از کم 500 آپ اس کا بھی شمار کرلیں۔)

2. مالک فرد برائے بیع حاصل کرنے کے بعد آپ کو اطلاع دیتا ہے۔ یہ فرد ایک ماہ کے لئے کارگر ہوتی ہے۔ آپ کو بھاگ دوڑ کر کے اسی کے دوران کچھ کرنا ہوگا۔ چنانچہ آپ رجسٹری کاغذات کی تیاری کے لئے کسی وکیل یا ماہر وثیقہ نویس کی خدمات لیں گے۔

3. ویسے تو ہر ہر موقع پر ناجائز منافع خوری عام ہے لیکن یہ موقع بطور خاص خریدار کے استحصال کا ہے۔ ایسے موقع پر پراپرٹی ڈیلر آپ کو کسی وثیقہ نویس کی طرف ریفر کرسکتا ہے جو ان کی باہم ملی بھگت سے ہوتا ہے۔ اگر وہ معقول معاوضہ لے رہا ہو تو اس کے تجویز کردہ وثیقہ نویس کی خدمات لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن اس کا اندازا آپ کو اسی وقت ہوسکتا ہے جب رجسٹری کے اصل اخراجات کا آپ کو علم ہو۔

4. رجسٹری اخراجات معلوم کرنا کوئی راکٹ سائنس نہیں۔ سرکاری طور پر ہر علاقے کی زمینوں اور پلاٹوں کی مالیت مقرر کی گئی ہے۔ اسے ڈی سی ریٹ کہا جاتا ہے۔ اس ڈی سی ریٹ کا کل چار فیصد (نان فائلر کے لئے) یا تین فیصد (فائلر کے لئے) آپ کا سرکاری خرچہ ہے۔ (یہی خرچ پہلے بالترتیب سات اور آٹھ فیصد ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت سٹام ڈیوٹی محض ایک فیصد کردی گئی ہے اور CVT بھی ختم کردیا گیا ہے)

5. ڈی سی ریٹ معلوم کرنے کے لئے آپ estamp ویب سائٹ پر جائیے۔ وہاں سے calculate DC valuation کا انتخاب کیجیے۔ براہ راست لنک یہ ہے :
(https://es.punjab.gov.pk/eStampCitizenPortal/ChallanFormView/RateOfChallanView?name=PropertyDCValuation&vCount=8148045)
یہاں فرد کے مطابق آپ پراپرٹی کی تفصیلات کا اندراج کریں۔ آپ کو ڈی سی ریٹ معلوم ہوجائے گا۔ اس کا واجب الادا فیصدی حصہ آپ خود نکال لیجیے۔
جسے یہ طریقہ مشکل لگے وہ دو چار وثیقہ نویسوں سے پوچھ لے کہ کل کتنی رقم لیں گے جس میں سے رجسٹری کی مالیت کتنی ہے اور ان کا اپنا معاوضہ کتنا ہے۔ اس فرق سے آپ کو اندازا ہوسکتا ہے۔

6. کل خرچ معلوم کرنے کے بعد ہی کسی وثیقہ نویس سے معاملات طے کیے جائیں۔ اس سے اس کا معاوضہ طے کرنے میں سہولت رہے گی۔ معاوضہ طے کرتے ہوئے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ اس میں وہ اپنی خدمات کا معاوضہ بھی لیتا ہے، کاغذات کی کاپیوں وغیرہ پر اٹھنے والی اخراجات بھی اور اگلے تمام مراحل پر دی جانے والی رشوت بھی اکٹھی وصول کرلیتا ہے۔ اس کی اپنی خدمات اور حقیقی اخراجات کا معاوضہ 2000 روپے کم وبیش دے سکتے ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق اگلے تمام مراحل میں دی جانے والی رشوتوں کا خرچ تقریبا 3000 روپے ہے(جو آپ کے اثرورسوخ سے کم وبیش ہوسکتا ہے) یوں کل رجسٹری کے کل اخراجات پر 5000 روپے آپ کو دینا ہی ہوں گے۔ (ان میں سے کچھ آپ کو قیامت کے دن ریفنڈ ہوجائیں گے)

7. کاغذات کی تیاری میں وہی اصول مدِ نظر رکھے جائیں جو اس سے پچھلی پوسٹ میں بتائے گئے۔ بلکہ یہاں مزید چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ وثیقہ نویس سے کچی کاپی ضرور طلب کریں۔ اپنا نام، شناختی کارڈ نمبر، پلاٹ کی تفصیلات، فرد کے مطابق کل مالکان کا درست اندراج (جن کے بیانات ہوں گے)۔ یہ آپ نے اپنی ذمہ داری پر چیک کرنا ہوگا۔ ورنہ رواج یہ ہے کہ کچھ غلطیاں یہ پٹواری اور وثیقہ نویس بطور وراثتی تحفہ اپنے اگلوں کے لئے چھوڑ جاتے ہیں۔ جیسا کہ یہ ایسے تحفے اپنے پچھلوں سے وصول کرتے ہیں۔

8. کاغذات جب تیار ہوجائیں تو بیانات کا مرحلہ آتا ہے۔ اگر آپ پہلے یہ کاغذات نہیں پڑھ سکے تو اب پڑھ لیجیے۔ بہت سے سادا مزاج خریدار ایسے ہوتے ہیں جنہیں اس کی کچھ سمجھ نہیں ہوتی۔ سارے معاملات پراپرٹی ڈیلر کروا رہا ہوتا ہے۔ کاغذات کی تیاری کے بعد ہی وہ دستخط یا نشان انگوٹھے کے لئے وثیقہ نویس سے ملواتا ہے۔ اور وثیقہ نویس اس کے آتے ہی سلام دعا کے بعد فوری طور پر اس کے دستخط یا انگھوٹھا لگوالیتا ہے۔ کورٹ، کچہری، کالے کوٹ اور چرب زبان لوگوں سے مرعوب یہ سیدھا سادا شخص ہر حکم کو کسی فرمانبردار خادم کی طرح مانتا چلا جاتا ہے۔ ایسی غلطی ہرگز نہ کیجیے، اگر آپ خود ان پڑھ ہیں تو کسی پڑھے لکھے کو ساتھ لے جائیے اور ہر چیز کو اچھی طرح پڑھ کر دستخط کیجیے۔

9. بیان کے لئے اصل مالک یا اس کے مختار عام کو کچہری یا متعلقہ جگہ پر خود آنا پڑتا ہے۔ یہاں کمپیوٹرائزڈ ریکارڈ کے لئے آپ کی ڈیجٹل فوٹو وغیرہ لینے کے بعد بیانات کا عمل ہوگا۔

10. اس کے بعد رجسٹری کا عمل مکمل ہوجائے گا کچھ دن بعد آپ کو رجسٹری کی ایک کاپی مل جائے گی جس پر انتقال کروایا جاسکتا ہے۔ انتقال فیس 1000 روپیہ الگ سے ہوتی ہے لیکن رشوت سمیت 2000 بن جاتی ہے۔ جب رجسٹری کے معاملات طے کیے جائیں تو انتقال فیس کے بارے میں وضاحت کروالی جائے کہ اس میں شامل ہے یا نہیں۔ بس یہ کل اخراجات ہیں۔ ان تمام پر جب اتفاقِ رائے ہوجائے تو اپنے اطمینان کے لئے ایک تحریر الگ سے لکھوا کر اس کے دستخط اور انگوٹھا لگوالیا جائے کہ رجسٹری مع انتقال، کل اخراجات ادا ہوچکے ہیں اور اب مزید کسی رقم کا آپ سے مطالبہ نہیں کیا جائے گا۔

انتقال کا عمل مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ کے لئے اپنی فرد حاصل کرلیجیے۔ مبارک ہو آپ پلاٹ کے مالک ہیں۔ اب پلاٹ پر قبضہ مستحکم کرنے کی کوشش کیجیے۔
(آخر میں ایک بات یاد رکھیے۔ یہ خیرخواہی کے لئے بتا رہا ہوں، کسی کی دل آزاری مقصود نہیں۔ زمین خریداری کے عمل میں جتنی مخلوق سے واسطہ پڑے گا، وہ آپ کا عزیز ہو، دوست ہو یا کولیگ۔ نیک ہو یا بد، بھلے داڑھی ٹوپی اور پیشانی پر سجدے کے نشانات سجائے ہوئے ہو، کسی پر اعتماد کر کے غلطی مت کیجیے۔ ورنہ نقصان کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ اپنے معاملات کو خود دیکھیے، پتا ہونے کے باوجود مشاورت کیجیے اور اللہ سے ہر ہر موقع پر خیر مانگتے رہیے ان شاء اللہ آپ کوپشیمانی یا پریشانی کا سامنا نہیں ہوگا۔)

منقول
امیرحمزہ
بلاگر | آئی بی سی اُردو

مٹی کے برتنسب سے زیادہ بیماریاں گلے ہوئے کھانے سے ہوتی ہیں،گلے ہوئے کھانے اور پکے ہوئے کھانے میں فرق ھے،(جس طرح ایک سیب ...
19/02/2023

مٹی کے برتن

سب سے زیادہ بیماریاں گلے ہوئے کھانے سے ہوتی ہیں،
گلے ہوئے کھانے اور پکے ہوئے کھانے میں فرق ھے،
(جس طرح ایک سیب پکا ہوا ہوتا ھے،
اور ایک گلا ہوا،
گلا ہوا سیب آپ آرام سے چمچ کے ساتھ بھی کھا سکتے ہیں،
اور اسے چبانا بھی نہیں پڑے گا)
*مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ھے،*
اس کے برعکس
سِلور،
سٹیل،
پریشر کُکر یا نان سٹِک میں کھانا گلتا ھے،
تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں،
یقین جانیں!
جن لوگوں نے برتن بدل لیے،
*اُن کی زِندگی بدل جاۓ گی،*

*2- کُوکِنگ آئل*
کوکنگ آئل وہ استعمال کریں،
جو کبھی جَمے نہ،
دُنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں،
وہ زیتون کا تیل ھے،
لیکن یہ مہنگا ھے،
*ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لیے سرسوں کا تیل ھے،*
یہ بھی جمتا نہیں،
سرسوں کا تیل واحد تیل ھے،
جو ساری عُمر نہیں جمتا،
اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ھے،
*ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات*
بھی اسی لیے کی جاتی ھے،
کیونکہ یہ ممکن نہیں ھے،
سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے،
اس کو جمنے نہیں دیتا،
*اس کی زِندہ مِثال اچار ھے*
جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ھے،
اس کو جالا نہیں لگتا،
اور *اِن شاءالله* جب یہ سرسوں کا تیل آپ کے جسم کے اندر جاۓ گا تو آپ کو کبھی بھی فالج،
مِرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا،
أپ کے گُردے فیل نہیں ہونگے،
پوری زندگی آپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے، (اِن شاء الله)
*کیونکہ؟*
سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتا ھے،
جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا،
سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں،
ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں،
أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ھے،

*3- نمک (نمک بدلیں)*

*نمک ہوتا کیا ھے؟*
نمک اِنسان کا کِردار بناتا ھے،
*ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے،*
یا پھر
*بندہ بڑا نمک حرام ھے،*
نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتا ھے،
ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے آیا ہو،
اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گُلابی نمک ھے،
پِنک ہمالین نمک 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 4000 روپے کا نوے گرام اور چالیس ہزار روپے کا 900 گرام بِکتا ھے،
اور ہمارے یہاں دس تا بِیس روپے کلو ھے،
*بدقسمتی دیکھیں!*
ہم گھر میں آیوڈین مِلا نمک لاتے ہیں،
جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا،
وہ ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔
اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں،

*4- مِیٹھا*
ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے،
اور میٹھا *الله کریم* نے مٹی میں رکھا ھے،
یعنی *گَنّا اور گُڑ،*
اور ہم نے گُڑ چھوڑ کر چِینی کھانا شروع کر دی،
خدارہ گُڑ استعمال کریں،

*5- پانی*
انسان کے لٸے سب سے ضروری چیز پانی ھے،
جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں،
پانی بھی ہمیں مٹی سے نِکلا ہُوا ہی پینا چاہیٸے،
پوری دنیا میں *آبِ زم زم* سب سے بہترین پانی ھے،
اور اس کے بعد پنچاب کا پانی ھے،
*اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی گندم استعمال کریں،*
لیکن گندم کو کبھی بھی چھان کر استعمال نہ کریں،
گندم جس حالت میں آتی ھے،
اُسے ویسے ہی استعمال کریں،
یعنی سُوجی، میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر
کیونکہ!
ہمارے *آقا کریم حضرت محمدﷺ* بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے،
تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہٸیں،
*1- مٹی کے برتن،*
*2- سرسوں کا تیل،*
*3- گُڑ،*
*4- پتھر والا نمک،*
*5- زمین کے اندر والا پانی،*
زمین کے اندر والا پانی،
مٹی کے برتن میں رکھ کر،
مٹی کے گلاس میں پئیں،
اور ان ساری چیزوں کے ساتھ گندم کا آٹا،

*اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ہم یہ ساری چیزیں کیوں لیں؟*
یہ ساری چیزیں ہم نے اس لٸے لینی ہیں کہ اسی میں صحت ہے،
*اور الله پاک نے ہمیں مٹی سے پیدا کیا ھے،*

اور ہم نے واپس بھی مٹی میں ہی جانا ھے،
جزاک اللہ

پر اسٹیٹ گلینڈاس مرض کے مریض ہمارے پاس کثرت سے آتے رہتے ہیں علاج تو اللہ کے فضل سے ہو جاتا ہے ایک بھاٸ نے فرماٸش کی کہ ا...
04/02/2023

پر اسٹیٹ گلینڈ
اس مرض کے مریض ہمارے پاس کثرت سے آتے رہتے ہیں علاج تو اللہ کے فضل سے ہو جاتا ہے ایک بھاٸ نے فرماٸش کی کہ اس بیماری کے متعلق کچھ آگہی دیں کہ یہ کیونکر ہو جاتی ہے اور اس کا علاج بھی کچھ بتا دیں میں نے اپنی کی سی کوشش کی باقی اجر تو اللہ دینے والا ہے وہی اکیلا مالک و خالق ہے۔
پر اسٹیٹ گلینڈ مردوں کے مثانہ کے منہ کےقریب مبال(یورتھرا)سے چمٹا ہواسرخ نسواری رنگ کا ایک غدود ہے,یہ لڑکپن میں تو ایک بادام کے برابر ہوتا ہے لیکن بلوغت کے بعد بڑھتے بڑھتے اخروٹ جتنا ہو جاتا ہے نسل انسانی کی توسیع میں اس کا بڑا حصہ ہے کیونکہ یہ تولیدی ماٸع منی کا سٹور روم ہے۔تولیدی خلٸے (سپرم)پیدا تو خصیے میں ہوتے ہیں لیکن انزال کے وقت وہ جس ماٸع کے ہمراہ بچہ دانی میں پہنچتے ہیں 80 فیصد پراسٹیٹ گلینڈ میں بنتا اور جمع رہتا ہے اس ماٸع یعنی منی میں ناتواں سپرمی خلیوں کی پرورش کے لیے لطیف ترین پروٹین,کٸ قسم کے انزاٸم,گلوکوس اور چکناہٹ موجود ہوتی ہے۔سپرم منی میں تیرتے ہوے مادہ بیضہ کی طرف جاتے ہیں اور چونکہ یہ ماٸع الکلی ہوتا ہے,اس لیے بچہ دانی کی تیزابیت سے محفوظ رہتے ہیں,اگر پراسٹیٹ گلینڈ نہ ہوں یا ان کی کارکردگی ختم ہو جاۓ تو مرد کی جنسی فعالیت اورصلاحیت میں تو کمی نہیں آتی لیکن وہ اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔
مثانہ سے پیشاب کی جو نالی مبال(یورتھرا)میں جاتی ہے وہ پراسٹیٹ گلینڈ کے درمیانی حصہ کے اوپرسے گزرتی ہے اگر پر اسٹیٹ متورم ہو جاۓ کوٸ چھوت لگ جاۓ یا پراسٹیٹ بڑھ جاۓ تو مبال پر دباٶ پڑتا ہے اور پیشاب میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے بعض اوقات تو پیشاب بالکل بند ہو جاتا ہے اور مثانہ سے واپس گردوں میں چلا جاتا ہے اور پھر وہاں سے خون میں مل جاتا ہے اس طرح یوریمیا سمیت خون کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے عارضی التہاب اور چھوت پر تو جلد قابو پایا جا سکتا ہے لیکن پراسٹیٹ کا سب سے زیادہ اور عام اور تکلیف دہ عارضہ اس کا بڑھ جانا ہے **** پر اسٹیٹ کا بڑھ جانا ****
یہ مرض مردوں کو عموماً ادھیڑ عمر میں لاحق ہوتا ہے خواتین کو نہیں ہوتا کیونکہ ان کے جسم میں یہ غدود نہیں ہوتا 50 سال کی عمر میں اس کے لگنے کا 20 فیصد خطرہ ہوتا ہے۔70 سال کی عمر میں یہ امکان 50 فیصد ہو جاتا ہے اور 80 سال کے عمر کے تقریباً 80 فیصد اشخاص اس میں مبتلا ہوتے ہیں اور اس کا ساٸز زیادہ بڑھ جاۓ تو مبال اور مثانہ کے منہ پر دباٶ پڑنے کی وجہ سے پیشاب کے بہاٶ میں رکاوٹ آجاتی ہے یا کبھی کبھی وہ بالکل بند ہو جاتا ہے مثانہ متورم ہو جاتا ہے اس میں پتھری بننے لگتی ہے گردوں کے فعل میں نقص آ جاتا ہے اور یوریمیا کا خطرہ بھی ہو جاتا ہے اور دوسری کٸ ایک تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں,جس میں سب سے خطرناک پر اسٹیٹ کا کینسر ہے۔
علامات
پیشاب کا بار بار آنا رک کر جلن کے ساتھ آنا پراسٹیٹ گلینڈ کے بڑھنے کی عام علامات ہیں۔پیشاب عموماً رات کو باربار آتا ہے یاد رہے کہ اگر پیشاب دن کو بار بار رک رک کر آۓ تو اس کی وجہ مثانہ کی پتھری ہوتی ہے پراسٹیٹ گلینڈ بڑھ جانے کے باعث تکلیف رات کو زیادہ ہوتی ہے,مریض کو کٸ بار رات کو اٹھنا پڑتا ہے اور پھر وہ صبح سویرے بستر سے سیدھا غسل خانے جاتا ہے لیکن اسے محسوس ہوتا ہے کہ پیشاب کی رفتار سست اور دھار کمزور ہے اور جب وہ سمجھتا ہے کہ پیشاب ختم ہو گیا ہے تو پھر دھار نکل جاتی ہے وہ مثانہ کو خالی کرنے کے لیے دباتا ہے لہکن مثانہ خالی نہیں ہوتا یہی تکلیف اسے با بار ہوتی ہے۔
اسباب
پراسٹیٹ گلینڈ کے التہاب کے اسباب شراب نوشی کی کثرت جنسی بے اعتدالی اور سردی لگ جانا ہے لیکن عمر کے ساتھ اس کے بڑھ جانے کی وجہ قدرت کا یہ راز اللہ تعالٰی کے دیے ہوے علم اور تجربے سے جو مجھے ملا ہے وہ یہ کہ پراسٹیٹ کی بڑھوتری جنسی ہارمون کی کمی کے باعث ہوتی ہے اور میرے تجربے کے مطابق جیسے جیسے مرد میں ناقص منی اور مردانہ قوت کی صلاحیت میں کمی ہوتی جاۓ گی ویسے ویسے یہ گلینڈ اپنے حجم کو بڑھاتا ہے وہ اس لیے کہ یہ مادہ تولید کا سٹور روم ہے جب یہ زیادہ عرصہ اپنی کارکردگی نہیں دکھا پاتا تو خالی رہنے کی وجہ سے اس میں سوزش کے امکان بڑھ جاتے ہیں اور اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے وہ اپنے جسم کو پھیلا دیتا ہے تاکہ منی کو زیادہ سٹور کر کے صحت کی طرف پلٹا جا سکے بالکل اسی طرح تھاٸ راٸیڈ گلینڈ کا معاملہ ہے آیو ڈین کی کمی کو پورا کرنے کے لیے جو گلھڑ کے پھیلاٶ کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
علاج
جن اشخاص کا پراسٹیٹ گلینڈ بڑھا ہوا ہو متورم ہو انہیں شراب مرچ مصالحے چاۓ اور کافی اور دوسری خراش پیدا کرنے والی غذا سے پرہیز کرنا چاہیے۔
نسخہ
گل منڈی10 عدد,سرپھوکا 6 گرام آدھے گلاس پانی میں جوش دے کر چھان کر صبح نہار منہ 15 یوم پی لیں۔
یہ مفید معلومات مفاد عامہ کے لئے ہے کیونکہ قومیں اللہ تعالی کے فضل سے علم سے ہی ترقی کرتی ہیں. ہم میں اخلاص,احساس,صلہ رحمی,خیر خواہی,لازمی ہونی چاہیے.اللہ کے رسول صل اللہ علیہ وسلم جب کوئ مسلم ہوتا تو اس سے اس بات پر بیعت لیتے کہ تم مسلمانوں کے خیر خواہ رہو گے.
واسلام

منقول

31/01/2023

ترپھلہ
( آملہ + ھریڑ + بہیڑہ )
ترپھلہ ازحد مفید چیز ھے جو طب یونانی کے مایہ ناز نسخوں کا جزواعظم ھے. یہ لفظ " تری پھلہ " سنسکرت کا ھے جسکا مطلب ھے تین پھل ، جب عرب کے اطبا نے اسکو استعمال کرنا شروع کیا تو اسکو معرب کر کے "اطریفل" کا نام دیا. پہلے ھم الگ الگ تینوں کا جائزہ لیں گے پھر اسکے مجرب اور آزمودہ مرکبات پر بات ھوگی.
1. آملہ ( آنولہ )
اعصاب کیلئے مقوی ھے. دل اور دماغ کیلئے مفرح ھے. معدہ کو طاقت دیتا ھے. نظر کو بڑھاتا ھے. مسوڑھوں کو مضبوط کرتا ھے. بالوں کی سیاھی کو قائم رکھتا ھے اور پیچش کو فائدہ مند ھے. اسکا مضر اثر بہت کم ھے پھر بھی دودھ ، شہد اور روغن بادام اسکی مضرت کو ختم کرنے کیلئے ساتھ استعمال کیئے جاتے ھیں
2. بہیڑہ ( بلیلہ )
اسکا مزاج سرد اور خشک ھے. بلیلہ کو اکیلا بہت کم استعمال کیا جاتا ھے. اسکی مضرت کو ختم کرنے کیلئے شہد اور دیسی گھی استعمال کیا جاتا ھے
3. ھریڑ ( ھرڑ ، ھلیلہ )
اسکا مزاج سرد اور خشک ھے. مقوی دماغ، اعصاب، معدہ، مثانہ، سر کے چکر اور آنکھوں کیلئے مفید ھے. جاذب رطوبات ھے. بلغمی اور سوداوی مادوں کو خارج کرتی ھے. مختلف ترکیبوں سے بیسیوں بیماریوں میں فائدہ کرتی ھے.
¤ ترپھلہ ¤
آملہ، ھرڑ اور بلیلہ کے برابر وزن سفوف کو جب بھی کسی جگہ استعمال کرنا ھو تو اسکے سفوف کو روغن بادام یا دیسی گھی سے چرب ضرور کر لیا کریں تاکہ اسکی خشکی ختم ھو جائے.

تمام احباب اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں
30/01/2023

تمام احباب اس پوسٹ کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں

🥀 *تھوک کی افادیت پہ ایک نظر* 🥀        ============ *تھوک: Saliva or Spit*     آج تھوک کی افادیت پر بات کرتے ہیں،تھوک وہ...
22/01/2023

🥀 *تھوک کی افادیت پہ ایک نظر* 🥀
============

*تھوک: Saliva or Spit*
آج تھوک کی افادیت پر بات کرتے ہیں،تھوک وہ گمنام ہیرو ہے، جس کا کوئی بھی تذکرہ کرنا پسند نہیں کرتا، بلکہ نام سنتے ہی تھو تھو کرنا شروع کردیتے ہیں، لیکن سب سے پہلے سب کے کام تھوک ہی آتا ہے۔

*تھوک کیا ہوتا ہے؟:*
تھوک دراصل پانی ہی ہے۔ یہ 98-99% فیصد تک پانی ہوتا ہے، جبکہ باقی 1 سے 2 فیصد مقدار کھانا ہضم کرنے والے انزائیمز، یورک ایسڈ، الیکٹرولائیٹس، اور پروٹین کی ہوتی ہے۔

*تھوک کہاں سے آتا ہے؟:*
ہمارے منہ میں جبڑے کی پچھلی جانب، جبڑے کے نیچے اور زبان کے نیچے تھوک کے تین گلینڈز موجود ہیں۔ یوں سمجھ لیں کہ منہ میں تھوک کے تین جگہ پائیپ فٹ ہیں۔ جبڑے کے پیچھے پائیپ (گلینڈ) کو parotid gland، جبڑے کے نیچے submandibular gland، اور زبان کے نیچے گلینڈ کو sublingual gland کہتے ہیں۔

2020ء میں ہماری گالوں کے اندر گلینڈز کا ایک جوڑا بھی دریافت ہوا ہے، جس پر پہلے کسی کی نظر نہیں پڑی انہیں Tubarial گلینڈز کہتے ہیں اور ان کے بارے میں بھی ڈاکٹروں میں بحث جاری ہے کہ آیا یہ بھی تھوک بنانے والے گلینڈز ہیں کہ نہیں۔ یہ تمام گلینڈز خاص قسم کے کروڑوں سیلز سے مل کر بنے ہیں، جنہیں acini کہتے ہیں اور یہی سب سیلز مل کر تھوک بنانے کا کاروبار کرتے ہیں۔

تھوک کی کتنی اقسام ہیں؟:
تھوک کی پانچ اقسام ہیں جو دراصل پانچ ادوار ہیں جن میں تھوک کے اندر پائے جانے والے اجزا جسم کی ضرورت کے مطابق مختلف ہوسکتے ہیں۔

*1 پہلی قسم Cephalic:*
یہ مشہور قسم ہے جو اپنا پسندیدہ کھانا دیکھنے یا سوچنے پر پیدا ہوتی ہے۔ جسے منہ میں پانی بھر آنا بھی کہتے ہیں۔

*2 دوسری قسم Buccal:*
تھوک کی یہ شکل کھانا کھاتے وقت پیدا ہوتی رہتی ہے۔

*3 تھوک کی تیسری قسم Esophageal:*
جیسے ہی کھانا منہ سے آگے نکل کر حلق سے ہوتا ہوا خوراک کی نالی Esophagus میں پہنچتا ہے تو منہ میں یہ تھوک پیدا ہوتا ہے۔

*4 تھوک کی چوتھی قسم Gastric:*
جب معدے میں گڑ بڑ ہو اور الٹی ہونے کا خدشہ ہو تو تھوک کی یہ قسم پیدا ہوتی ہے۔

*5 تھوک کی پانچویں قسم intestinal:*
جب خوراک ٹھیک طرح ہضم نہ ہو اور آنتوں میں پہنچ جائے تو تھوک کی ایسی قسم منہ میں بنتی ہے۔

*تھوک کے متعلق کچھ دلچسپ باتیں:*
ہمارے منہ میں ہر روز تقریباً ایک سے دو لیٹر تھوک پیدا ہوتا ہے۔ تھوک دن کے بعد اور شام تک سب سے زیادہ پیدا ہوتا ہے، جبکہ رات کے وقت اس کی پیداوار کم ہوتی ہے۔ عورتوں کی نسبت مردوں کے منہ میں تھوک زیادہ پیدا ہوتا ہے۔

ننھے بچوں کے منہ سے رسنے والا پانی (پنجابی میں لیلیں) دراصل ان کے دانت نکلنے کے مراحل کے دوران پیدا ہوتا رہتا ہے، تاکہ مسوڑے سوجن، درد اور انفیکشن سے محفوظ رہیں۔ اس پانی کو Drool کہتے ہیں۔ البتہ کسی بڑے میں یہ بکثرت نکلنے لگے تو کسی انفیکشن کی طرف اشارہ ہوسکتا ہے۔

*تھوک کے فائدے:*
تھوک کے بیشمار فائدے ہیں، نقلی دانتوں کی بتیسی کا ایک جوڑا کسی دانتوں کی دوکان سے اٹھائیں (پیسے دے کر) اور ان کو آپس میں رگڑتے جائیں۔ کیا ہو گا؟ جی ہاں خراشیں پڑ جائیں گی، ہلکے ہلکے ٹوٹ بھی جائیں گے۔ لیکن ہمارے منہ میں ہم ہر روز کھاتے پیتے اور کسی رشتے دار کو دیکھتے دانت پیستے ہیں تو یہ سچ میں کیوں نہیں پسے جاتے؟ دراصل تھوک یہاں بطور موبل آئل یعنی Lubricant کام کرتا ہے۔ دانتوں کو تر رکھ کر رگڑ سے بچاتا ہے۔

دوسرا کام یہ کرتا ہے کہ اس میں موجود مختلف نمکیات دانتوں کے بیرونی سخت خ*ل جسے enamel کہتے ہیں، اس کو ضروری معدنیات مہیا کرکے مضبوط کرتا ہے۔

تیز تیزاب والے کھانے مثلاً لیمن، اورنج، سوڈا وغیرہ دانتوں کے بیرونی خ*ل میں سوراخ کر سکتے ہیں۔ انہیں گلا سکتے ہیں۔ لیکن عین اسی لمحے تھوک اس تیزاب میں شامل ہوکر اس کو "نیوٹرل" کر دیتا ہے۔ اس طرح دانت محفوظ رہتے ہیں۔

میٹھا بھی دانتوں کا سخت دشمن ہے میٹھا جو دانتوں میں آگے پیچھے تھوڑا بہت پھنس جاتا ہے وہاں بیکٹیریا حملہ کرکے تیزاب پیدا کرتے ہیں اور دانتوں میں کیویٹی یعنی کھوڑ پڑ جاتے ہیں، لیکن تھوک باقاعدہ اس میٹھے کو اتارتا رہتا ہے، تیزاب کو نیوٹرل کرتا رہتا ہے اور بیکٹیریاز کو بھی مارتا رہتا ہے۔

مطلب کہ یہ قدرتی دوائی ہے جو آپ کے دانتوں کے لیے منہ میں رکھ دی گئی ہے۔ ہاں لیکن اگر آپ میٹھے پر ہتھ ہولا نہ رکھیں تو پھر تھوک کا کوئی قصور نہیں تین ہی پائپ فٹ ہیں ہزار نہیں۔

دانت تو محفوظ کر لئیے، اب آجائیں مسوڑوں کی جانب۔ تھوک مسوڑوں کی بھی جان ہے، بلکہ مسوڑوں کی بقا تھوک میں ہے۔ تھوک میں لائیزو زائم، پیپٹائیڈز، اور کچھ پروٹین ہوتے ہیں جو مسوڑوں پر حملہ ہونے والے بیکٹیریاز کی کھال ادھیڑ دیتے ہیں۔

نظام انہضام میں پہلا کام تھوک کا ہے۔ اور یہی بات اوپر لکھی گئی کہ سب سے پہلے سب کے کام تھوک ہی آتا ہے۔

جب ہم کسی شے کا نوالہ لیتے ہیں تو تھوک منہ میں پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس طرح خوراک کے ذرات لے کر زبان پر پھیلا دیتا ہے تاکہ زبان پر موجود ذائقے کے سیلز اس ذائقے کو پہچان کر دماغ تک پہنچائیں۔ بنا تھوک کے زبان کا کام بھی سخت مشکل ہوجائے گا۔ اب تھوک کا اگلا کام کھانے کو انتہائی نرم کچے آٹے جیسا گوندھنا ہے تاکہ حلق سے باآسانی پیٹ کی جانب سفر شروع کرے۔ اسی لئیے سیانے کہتے کہ کھانے کو خوب چبا چبا کر کھائو۔ تھوک میں موجود قدرتی کیمیکلز بہت سارے پیچیدہ غذائی ذرات مثلاً سٹارچ اور Fats کو منہ سے ہی ہضم کرنا شروع کردیتےہیں۔ روٹی چاول نوڈلز میں کافی سٹارچ ہوتا ہے، بنا تھوک کے ان کا انہضام بڑا مشکل ہوتا۔

تھوک کسی زخم پر لگانے کے قصے سنے دیکھے ہیں۔ دراصل یہ بات درست ہے، تھوک میں زخموں کو مرہم کرنے والے وائیٹ سیلز نیوٹرو فلز موجود ہیں جو زخم بھرنے کی رفتار کو تیز کرتے ہیں۔ اسی لئیے آپ نے اکثر جانوروں کو اپنے زخم چاٹتے دیکھا ہے (حیرت ہے انہیں یہ فوائد کیسے پتا چلے؟)۔ اس کے علاوہ تھوک میں موجود لائیزوزائم زخموں میں موجود بیکٹیریاز مار کر زخم صاف کردیتا ہے۔

*تھوک کے نقصانات -/+18 دونوں:*
جنسی تعلقات میں تھوک کا استعمال انتہائی نقصان دہ ہے۔ تھوک کسی بھی لحاظ سے بطور Lubricant استعمال کرنا مخالف پارٹنر میں مختلف انفیکشن پیدا کرسکتا ہے (e.g vaginal yeast infection). اس کے علاوہ بہت ساری گلے اور منہ کی جنسی بیماریاں مثلاً Herpes تھوک کے ذریعے مخالف کے خاص حصوں میں منتقل ہوسکتی ہیں۔

بوسہ لینے میں بھی تھوک کے ذریعے جراثیم پھیلتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 10 منٹ کے بوسے میں تقریباً 60 ملین جراثیم ایک دوسرے میں ٹرانسفر ہوتے ہیں۔ لیکن میاں بیوی اس کے خطرات سے محفوظ ہیں، کیونکہ دونوں کے جراثیم ایک جیسے ہو جاتے۔ مسئلہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات اور دھوکہ دہی میں ہوتا ہے۔

بہت سارے پالتو جانور خصوصاً کتے انسانی زخم چاٹتے ہیں۔ انہیں اس سے دور رکھیں۔ امریکہ میں کئی ایسے کیسز ہوئے جہاں لوگوں کو اپنے بازو ٹانگ وغیرہ کتے کے چاٹنے کی وجہ سے کٹوانے پڑگئے، کیونکہ خطرناک بیکٹیریا تھوک کے ذریعے ان کے زخموں پر منتقل ہوئے۔ انسانی تھوک بھی زخم پر نہیں استعمال کرنا چاہئیے کیونکہ اس سے بیکٹیریا پھیلنے کا خطرہ موجود رہتا ہے۔

*تھوک بکتا بھی ہے؟*
جی ہاں سائوتھ افریقہ میں بڑھتی بیروزگاری کے سبب ٹی بی والے تھوک کی غیر قانونی منڈی لگتی ہے، جہاں اچھے بھلے بیروزگار لوگ خرید کر لے کر جاتے ہیں اور اپنے آپ کو یہ بیماری لگاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ٹی بی والوں کو ماہانہ حکومت خرچہ دیتی ہے۔ شاید اسی لئیے سائوتھ افریقہ ٹی بی کی بیماری میں ٹاپ پر ہے۔

بہت سارے وائرس اور جراثیم مثلاً ہیپاٹائٹس، ہرپیس، ایبولا زکا، تھوک کے ذریعے ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بندے کے منہ میں یہ وائرس ہیں، بلکہ جو شخص کسی گندی جگہ سے ان کا متاثر ہوا ہو۔ اس لئیے ایسے مریضوں سے ملتے وقت ماسک لازمی پہنیں۔

*منہ میں تھوک کی کمی کے اثرات:*
منہ میں تھوک کی کمی کے خطرناک نتائج ہوسکتے ہیں۔ تھوک میں کمی سے بہت سارے جراثیموں کو حملہ کرنے کا موقع ملے گا، منہ میں متعدد زخم ہوتے رہیں گے، مسوڑوں پر بیکٹیریا آکر حملہ کرتے رہیں گے، جس سے مسوڑوں میں زخم بھی ہونگے منہ میں بدبو بھی پیدا ہوگی، گلے کے، معدے کے مسائل جنم لیں گے اور سب سے بڑی بات آپ کے دانتوں کی تباہی شروع ہوجائے گی۔

تھوک میں کمی کی بڑی وجہ سٹریس ہے۔ سٹریس میں ہمارے تھوک کے گلینڈز ٹھیک طرح کام نہیں کرتے۔ خوف میں بھی ہمارا منہ خشک ہو جاتا ہے۔

دراصل انسان 60 فیصد پانی پر مشتمل ہے اور دماغ اس پانی کو مختلف عضو کے ذریعے آگے پیچھے کرتا رہتا ہے اب چونکہ خوف میں جسم کا درجہ حرارت بڑھتا ہے تو نتیجتاً جسم پسینہ خارج کرتا ہے تاکہ جسم کے درجہ حرارت میں بیلنس ہو. پانی پسینے میں چلا جائے گا تو گلینڈز کو کم ملے گاجس سے تھوک میں واضح کمی ہوگی اسی لئیے خوف پریشانی میں گلا خشک ہوجاتا ہے، پکڑے جائیں تو پھر بھی تھوک نہیں بنتا۔

*تھوک میں کمی کو کیسے پورا کیا جائے؟*
تھوک میں کمی کو Dry Mouth کہتے ہیں اور ڈاکٹرز ادوایات سے بھی اس کا علاج کرتے ہیں جبکہ سب سے بہتر حل پانی کا باقاعدہ استعمال ہے تاکہ جسم میں وافر مقدار میں پانی موجود ہو۔ اس لیے خوف یا سٹریس میں خوب پانی پئیں۔

شوگر فری ببل گم اور ٹافیاں بھی ملتی ہیں جن میں Xylitol شوگر موجود ہوتی ہے۔ یہ کیمیکل تھوک کے گلینڈز کوایکٹو کرتا ہے۔ اس لئیے تھوک کی کمی کے شکار لوگ، (جن کی زبان بھی سفید ہوجاتی ہے) اس ببل گم کا استعمال کریں۔ یہ گم بچوں کے دانتوں کے لئیے بھی مفید ہے۔

میڈیکل سٹور سے Dry Mouth والے مائوتھ واش کا استعمال بھی بہتر ہے۔ سگریٹ نوشی شراب نوشی، چائے سو ڈا کا زیادہ استعمال بھی تھوک کی کمی کا باعث بنتا ہے۔

تھوک کی کمی سے بہت سارے غزائی اجزا ٹھیک طرح ہضم نہیں ہوپائیں گے نتیجتاً معدے کی سختی آجائے گے۔ کھانا دیر سے ہضم ہوگا۔ گیس اور قبض کی شکایت ہوگی۔

بہت ساری ادوایات بھی تھوک کو خشک کرتی ہیں۔ منہ کی بدبو تھوک کا جمنا ہونٹوں کے اطراف میں کٹ سب تھوک کے مسئلے ہیں۔ زیادہ پانی پئیں، شوگر فری چیونگم چبائیں اور منہ بند کرکے سویا کریں۔

*منہ میں تھوک کی زیادتی* :
حمل کے دوران اکثر خواتین کو ہوجاتی ہے، کسی زہریلے مادے مثلاً مرکری کے سامنے آنے سے بھی یہ مسئلہ ہوتا ہے، گلے کے انفیکشن ٹانسلز اور الرجی وغیرہ بھی تھوک میں زیادتی کرتے ہیں جو کافی الجھن پیدا کرتا ہے۔ لیکن کچھ خاص گھبرانے کی بات نہیں وقت سے ٹھیک ہوجاتا ہے۔ اگر نہ ہو پھر ڈاکٹرز خشک کرنا جانتے ہیں۔

دنیا میں سب سے دور تھوک پھینکنے کا ریکارڈ امریکہ کے ایلکس پنا نے بنایا جنہوں نے اپنا تھوک 22 فٹ دور پھینکا۔

دل تو چاہ رہا ہے، تھوک پر مذید لکھوں، لیکن اپنا گلا خشک ہوگیا، خوش رہنا بہت ساری بیماریوں کی شفا ہے۔ خوش رہنا سیکھیں۔

Address

Lahore

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when طب والجراحت posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to طب والجراحت:

Videos

Share

Category