Spirit Of Islam - CPS

Spirit Of Islam - CPS Order Online: Www.Goodword.com.pk
Order WhatsApp : 03454989950 It is not enough that your Lord is the witness of all things (The Quran 41:53).
(1)

Reviving the True Spirit of Islam: Moving Beyond Cultural Norms to Explore Faith Consciously.

مولانا وحید الدین خان کی 200 سے زائد کتابیں دستیاب ہیں-
+50 English Books are also available. 𝐂𝐞𝐧𝐭𝐫𝐞 𝐟𝐨𝐫 𝐏𝐞𝐚𝐜𝐞 & 𝐒𝐩𝐢𝐫𝐢𝐭𝐮𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 (CPS) was founded in 2012 by a group of readers who rediscovered Islam through the Islamic Literature by Maulana Wahiduddin Khan and most of the concepts are taken from his books

.

𝐎𝐮𝐫 𝐕𝐢𝐬𝐢𝐨𝐧: Presenting Islam in the modern idiom to revive the true spirit of Islam.

𝐎𝐮𝐫 𝐌𝐢𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧: Sharing God’s creation plan to the whole world by distributing the Quran and supporting literature.

𝐎𝐮𝐫 𝐕𝐚𝐥𝐮𝐞𝐬: Submission to God, Humbleness, Compassion, tolerance, Peace and harmony

𝐊𝐞𝐲 𝐎𝐛𝐣𝐞𝐜𝐭𝐢𝐯𝐞𝐬

𝟭. 𝗧𝗼 𝗰𝗼𝗻𝗻𝗲𝗰𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿𝘀𝗲𝗹𝗳 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗚𝗼𝗱 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗲𝗹𝗽 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀 𝗶𝗻 𝗗𝗶𝘀𝗰𝗼𝘃𝗲𝗿𝗶𝗻𝗴 𝗚𝗼𝗱

We shall show them Our signs in the universe and within themselves until it becomes clear to them that this is the Truth. When you ponder over the world around you and your thinking goes beyond your immediate surroundings; you discover the truth that is beyond you, beyond time and space. You become conscious of yourself as well as your Creator. When you discover your Creator, you instantly establish communication between yourself and your Creator. It is like establishing a connection between the electric bulb in your room and the powerhouse situated outside your room. Just as the electric connection illuminates your room, so also does the divine connection illuminate your whole personality. Islamic spirituality is contemplation based and it arises from the awakening of the intellectual faculty and by this way, one is able to establish a relationship of intense love for God.


𝟮. 𝗥𝗲𝘃𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝘁𝗿𝘂𝗲 𝗦𝗽𝗶𝗿𝗶𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺

To Revive the true spirit of Islam by unfolding the universal principles of The Quran. To present the core concepts of Islam in the simplest manner by exploring Prophetic Wisdom, by de-cluttering the cultural myths, and showing the futility of endless discussions of Masail and Sects. The basic aim of Islam is to transform people’s thinking and to bring about an intellectual revolution based on tawhid, or the oneness of God. This helps in graduating from religion as a legacy to the conscious discovery of Allah and Islam as a way of life.


𝟯. 𝗪𝗲𝗹𝗹-𝘄𝗶𝘀𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗼𝗳 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻𝗶𝘁𝘆 𝗮𝗻𝗱 𝗽𝗿𝗼𝗺𝗼𝘁𝗶𝗻𝗴 𝗶𝗻𝘁𝗲𝗿𝗳𝗮𝗶𝘁𝗵 𝗱𝗶𝗮𝗹𝗼𝗴𝘂𝗲,
𝗣𝗲𝗮𝗰𝗲 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗮𝗿𝗺𝗼𝗻𝘆

Islam is based on monotheism, with regard to God, and on peaceful dialogue, with regard to methodology. It took thousands of years of joint efforts of humanity to bring civilization into existence. All this was not the work of any single human being: all of humanity was involved in this process. The discovery of this reality about history gives rise to the culture of ‘love all’. We live in a world of differences – multi-religious, multi-cultural, multi-ethnic. The difference is a part of nature and it exists in every aspect of life, including religion. In the realm of religion, today, differences are managed only through meaningful and positive ‘inter-faith dialogue’ among people of different religious traditions. The aim of the dialogue is to seek peaceful solutions to controversial matters, in spite of differences.


𝟰. 𝗧𝗮𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗧𝗵𝗲 𝗤𝘂𝗿𝗮𝗻 𝘁𝗼 𝗲𝘃𝗲𝗿𝘆 𝗛𝗼𝗺𝗲 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗼𝗿𝗹𝗱

The status of Muslims is not that of a community, but rather of an ideological group, with one mission, that is, peaceful dawah, or calling people towards God. The Prophetic Mission demands love of people, developing a culture of tolerance irrespective of their religion, ethnicity, country, or political background. Join hands to continue the Prophetic Mission of sharing the message of The Quran with the world. We believe…

• Our message is for the whole world and not for the Muslims alone.

• We live in a world of differences; harmony, therefore, can only be achieved by inculcating mutual respect and tolerance among the people.

• We believe that there are two types of people in this world “Friends and Potential Friends”.

• Positive thinking at the individual level results in spirituality and at the collective level results in a peaceful society.

• We believe in Co-Existence; it gives an opportunity to share the word of God with others.

• Peace is desirable for its own sake it has to be attained unilaterally.

• We believe that violence starts from the mind and it has to be addressed in the mind itself.

• We believe Women are the Intellectual partners of men and are equally responsible for building humanity and engaging in religious activities like Dawah work.

𝐂𝐏𝐒 𝐀𝐜𝐭𝐢𝐯𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬

We are using all peaceful methods to share our literature at the global level. The Centre aims to unite peace-loving and spiritual people of the world. We have affiliates and Chapters in various cities of Pakistan, the USA, Canada, and the UK. We distribute Books/literature through Book Fairs and Social Media Platforms. Our monthly Magazines are posted in Pakistan. We do a one-on-one intellectual exchange, lectures, and interact through Social Media platforms. Today, by God’s grace, a universal mission has been established with more than 40 translations of the Quran and its commentary, more than 200 books, and thousands of audio and video lectures. Our international affiliates are distributing The Quran Translations across the Globe. Join hands with the CPS Pakistan

www.CPSPakistan.org

www.Goodword.com.pk - Order Books online

Facebook: CPSPakistan

کراچی بک فیئر جاری ہے۔ کل آخری دن ہے ۔ مولانا کی 200 سے زائد کتابیں 50 سے 60 فی صد ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہیں۔
15/12/2024

کراچی بک فیئر جاری ہے۔ کل آخری دن ہے ۔
مولانا کی 200 سے زائد کتابیں 50 سے 60 فی صد ڈسکاؤنٹ پر دستیاب ہیں۔

15/12/2024

باتیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔ ایک نصیحت اور دوسري تفریح۔ نصیحت کی بات ذمہ داری کا احساس دلاتی ہے۔ وہ آدمی سے کچھ کرنے اور کچھ نہ کرنے کے لیے کہتی ہے۔ اس ليے ہر دور میں بہت کم ایسے لوگ ہوتے ہیں جو نصیحت کی باتوں سے دلچسپی لیں۔ انسان کا عام مزاج ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ تفریح کی باتوں کو زیادہ پسند کرتا ہے۔ وہ نصیحت کی ’’کتاب‘‘ کے مقابلہ میں اس کتاب کا زیادہ خریدار بنتا ہے جس میں اس کے لیے ذہنی تفریح کا سامان ہو اور وہ اس سے کچھ کرنے کے لیے نہ کہے۔
جس شخص کا حال یہ ہو کہ وہ اپنی ذات سے آگے بڑھ کر دوسروں کو اس قسم کی تفریحی باتوں میں مشغول کرنے لگے وہ زیادہ بڑا مجرم ہے۔ کیوں کہ وہ اس ذہنی بے راہ روی کا قائد بنا۔ اس نے لوگوں کے ذہن کو بے فائدہ باتوں میں مشغول کرکے انھیں اس قابل نہ رکھا کہ وہ زیادہ سنجیدہ باتوں میں دھیان دے سکیں۔
سب سے بری نفسيات گھمنڈ کی نفسیات ہے۔ جو شخص گھمنڈ کی نفسیات میں مبتلا ہو اس کے سامنے حق آئے گا مگر وہ اپنے کو بلند سمجھنے کی وجہ سے اس کا اعتراف نہیں کرے گا۔ وہ اس کو حقارت کے ساتھ نظر انداز کرکے آگے بڑھ جائے گا۔ اس کے برعکس معاملہ اہلِ ایمان کا ہے۔ ان کا نصیحت پسند مزاج انھیں مجبور کرتا ہے کہ وہ سچائی کا اعتراف کریں، وہ اپنی زندگی کو تمام تر اس کے حوالہ کردیں۔

14/12/2024

بزرگوں کی بزرگی ثابت کرنے کے لیے کس طرح جھوٹے قصے گھڑے جاتے ہیں، اس کی ایک دلچسپ مثال ذیل کا قصہ ہے:

مولانا قاسم نانوتوی کے بارے میں یہ قصہ مشہور ہے کہ مولانا نانوتوی دار العلوم دیو بند میں استاد تھے۔ دارالعلوم کی طرف سے ان کو دس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ نواب صدیق حسن خاں (بھوپال) نے ان کو لکھا کہ آپ دیوبند سے بھوپال آجائیں۔ یہاں آپ کو 300روپئے ماہوار پیش کیے جائیں گے۔ مولانا نانوتوی نے ان کو جواب میں لکھا :’’میں یہاں مدرسہ میں دس روپیے ماہوار تنخواہ پاتا ہوں۔ 5روپیے میں بچوں کا خرچ چل جاتا ہے، اور بقیہ پانچ روپیہ کا مصرف ہر ماہ تلاش کرنا پڑتا ہے۔ اگر میں بھوپال آجاؤں تو مجھ کو ہر ماہ 295روپیہ کا مصرف تلاش کرناہوگا۔ اور یہ زحمت اٹھانا میرے لیے مشکل ہے‘‘۔

اس سلسلے میں مولانا محمد عبد الحق (انچارج دفتر دار العلوم دیوبند) کا ایک مضمون الجمعیۃ 4 جنوری 1975میںچھپا ہے۔ انھوں نے اس قصہ کو سراسر بے بنیاد بتایا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مولانا قاسم نانوتوی نے اپنی ساری عمر کبھی دار العلوم دیوبند سے کوئی تنخواہ ہی نہیں لی (ملاحظہ ہو، سوانح قاسمی جلد اول، صفحہ 536 )۔

جب مولانا نانوتوی دار العلوم دیوبند سے سرے سے کچھ تنخواہ ہی نہیں لیتے تھے تو ان کے بارے میں مذکورہ قصہ کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔

25 فروری 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

14/12/2024

احسان کا اصل مفہوم ہے کسی کام کو اچھی طرح کرنا۔ محسن کے معنی ہیں اچھی طرح کرنے والا۔ اس دنیا میں کسی کام کے اچھے ہونے کا معیار یہ ہے کہ وہ حقیقت ِ واقعہ کے مطابق ہو۔ اس اعتبار سے محسن وہ شخص ہے جو حقیقت واقعہ کا اعتراف کرے، جس کاعمل وہی ہو جو ہونا چاہيے اور وہ نہ ہو جو نہیں ہونا چاہيے۔
جو لوگ اپنے آپ کو حقیقتِ واقعہ کے مطابق ڈھالنے کا مزاج رکھیں وہی وہ لوگ ہیں کہ جب ان کے سامنے صداقت آتی ہے تو وہ کسی نفسیاتی پیچیدگی میں مبتلا ہوئے بغیر اس کو مان لیتے ہیں۔ وہ فوراً ہی اس کے عملی تقاضے پورے کرنے لگتے ہیں— وہ نمازی بن جاتے ہیں جو خدا کا حق ادا کرنے کی ایک علامت ہے۔ وہ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو گویا مال کے دائرے میں بندوں کاحق ادا کرنا ہے۔ وہ دنیا پرستی کو چھوڑ کر آخرت پسند بن جاتے ہیں۔ کیوں کہ وہ جانتے ہیں کہ کامیابی اور ناکامیابی کا فیصلہ آخر کار جہاں ہونا چاہيے وہ آخرت ہی ہے۔

تذکیر القرآن سورہ لقمان آیت 1

13/12/2024

انڈیا کے ایک عالم دین لندن کی ایک مسجد میں امام ہیں۔وہ لندن جاتے ہوئے مجھ سے ملنے کے لیے آئے۔ گفتگو کے دوران انھوں نے کہا کہ ’’پاکستان کے فلاں عالم صاحب بہت بڑے عالم تھے۔ جزئیاتِ فقہ پر ان کی نظر جتنی وسیع تھی شاید ہی ہندو پاک میں کسی دوسرے عالم کی ہو‘‘۔ گویا جزئیاتِ دین کے عالم ہونے کا نام عالم ہے، اساسات دین کا عالم ہونے کا نام عالم نہیں۔

فقہ جب ابتداء ً بنی تو اساساتِ دین کے مطالعہ کے لیے نہیں بنی بلکہ مسائل دین کے مطالعہ کے لیے بنی۔ اسی طرح فقہ پر جزئیاتی ذہن غالب آگیا۔ اسی فقہ پر ہمارے موجودہ مدارس کی بنیاد قائم ہے۔ ہمارے مدارس میں جزئیاتی مسائل پر زبردست بحثیں ہوتی ہیں۔ حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ جزئیاتی مسائل کے عالم ہونے کا نام عالم ہے۔ اس طریقۂ تعلیم نے ملت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ موجودہ زمانے کے دینی اختلافات کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ ہمارے مدارس کا تعلیمی نظام فقہ پر قائم ہے۔ اگر مدارس کا نظام قرآن و حدیث پر قائم کیا جائے تو اس قسم کے جھگڑے اپنے آپ ختم ہوجائیں گے۔

14 جنوری 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

13/12/2024

مکہ میں لوگ کہتے تھے کہ اگر تم پیغمبر ہو تو کوئی خارق عادت کرشمہ دکھاؤ۔ مگر ان کے اس مطالبہ کو پورا نہیں کیاگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خارق عادت کرشمہ اصل مقصد کے اعتبار سے بے فائدہ تھا۔ اسلام کا مقصد تو یہ تھا کہ لوگوں کے عمل میں تبدیلی ہو اور عمل میں تبدیلی فکر کی تبدیلی سے آتی ہے، نہ کہ خارق عادت کرشمہ دکھا کر لوگوں کو اچنبھے میں ڈال دینے سے۔
چنانچہ قرآن کا سارا زور استدلال پر ہے۔ وہ دلیل کے ذریعہ انسان کے ذہن کو بدلنا چاہتا ہے۔وہ آدمی کو اس قابل بنانا چاہتا ہے کہ واقعات کو صحیح رخ سے دیکھے اور معاملات پر صحیح رائے قائم کرسکے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان کا اصل مسئلہ صحت فکر ہے۔ اگر آدمی کے اندر صحیح فکر نہ جاگا ہو تو کرشموں اور معجزوں کو دیکھ کر دوبارہ وہ کوئی ناسمجھی کا لفظ بول دے گا جس طرح وہ اس سے پہلے ناسمجھی کے الفاظ بولتا رہا ہے۔
لاعلمی کی بنا پر مہر لگنا صحت فکر نہ ہونے کی وجہ سے باتوں کو نہ سمجھنا ہے۔ آدمی کے اندر رائے قائم کرنے کی صلاحیت نہ ہو تو وہ چیزوں کو ان کے صحیح رخ سے نہیں دیکھ پاتا۔ اس بنا پر وہ چیزوں سے اپنے ليے صحیح رہنمائی بھی حاصل نہیں کرپاتا۔جو اللہ کا بندہ بے آمیز حق کی دعوت لے کر اٹھے اس کو ہمیشہ لوگوں کی طرف سے حوصلہ شکن رد عمل کا سامنا پیش آتا ہے۔ داعی تمام تر آخرت کی بات کرتا ہے جب کہ لوگوں کا ذہن دنیا کے مسائل میں الجھا ہوا ہوتاہے۔ اس بنا پر لوگ داعی کی تحقیر کرتے ہیں۔ وہ اس کو ہر لحاظ سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ ماحول میں داعی کی بات بے وزن معلوم ہونے لگتی ہے۔
یہ صورت حال مدعو کے ساتھ داعی کو بھی آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ ایسے وقت میں داعی کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے یقین کو نہ کھوئے۔ اگر حالات کے دباؤ کے تحت اس نے اپنے یقین کو کھو دیا تو وہ ایسی بات بولنے لگے گا جو عام لوگوں کو شاید اہم معلوم ہو، مگر اللہ کی نظر میں اس سے زیادہ غیر اہم بات اور کوئی نہ ہوگی۔

تذکیر القرآن سورہ الروم آیت 58

12/12/2024

ایک صاحب سے ملاقات ہوئی ۔ گفتگو کے دوران اس حدیث کا ذکر ہوا جس میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبردی ہے کہ کوئی شخص اپنے عمل کی بنیا د پر جنت میں نہیں جائے گا بلکہ اللہ کی رحمت سے جائے گا۔ حضرت عائشہ نے پوچھا کہ اے خدا کے رسول کیا آپ بھی۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں الا یہ کہ اللہ مجھے اپنے رحمت و فضل سے ڈھانپ لے (الا ان يتغمدني الله برحمة منه وفضله )

میں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا عمل محدود ہے اور جنت لا محدود ۔ اور محدود کی کوئی بھی مقدار لا محدود کا بدل نہیں بن سکتی ۔ کسی شخص کے پاس کتنا ہی زیادہ عمل ہو ، وہ بہرحال محدود ہوگا۔ پھر محدود کی قیمت میں لامحدود چیز کیسے مل سکتی ہے ۔ یہ تو اسی وقت ممکن ہے جب کہ اللہ تعالی اپنی رحمت کوشامل کرکے اس فاصلہ کوختم کر دے۔

میں نے کہا کہ میرے پاس ایک روپیہ ہے اور آپ کے پاس ایک کروڑ روپیہ ، تو میرے اور آپ کے درمیان مقدار کا فرق ہوا۔ مگرجس کے پاس بے حساب خزانہ ہو، جو کبھی ختم ہی نہ ہوسکے تو اس کے اور ہمارے درمیان نوعیت کا فرق ہو جائے گا۔ اور جہاں نوعیت کا فرق آجاۓ ، وہاں مقدار کا فرق محض اضافی بن جاتا ہے۔

انسان کے عمل اور خدا کی جنت کے درمیان نوعیت کا فرق ہے نہ کہ مقدار کا ۔ اور جہاں دوچیزوں میں نوعیت اور مقدار کا فرق ہو وہاں مقدار کا کوئی بھی اضافہ دونوں کو مساوی قرار دینے کے لئے کافی نہیں۔

12 جنوری 1983
Diary 1985
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

12/12/2024

اور جس دن قیامت برپاہوگی،مجرم لوگ قسم کھاکر کہیں گے کہ وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ا س طرح وہ پھیرے جاتے تھے۔
سورہ الروم آیت 55
اور جس دن قیامت برپاہوگی،مجرم لوگ قسم کھاکر کہیں گے کہ وہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں رہے۔ا س طرح وہ پھیرے جاتے تھے۔

تذکیر القرآن

11/12/2024

صحابہ کا طریقہ یہ تھا کہ ان سے اگر کوئی شخص کسی صورت حال کے بارہ میں فتویٰ پوچھتا تو وہ سائل سے پوچھتے کہ کیا ایسی صورت واقعہ پیش آئی ہے ۔ اگر وہ کہتا کہ نہیں تو صحابہ کہتے کہ پھر ایسے معاملہ کے لیے فتوی ٰمت پوچھو ۔ مگربعد کے آنے والے فقہاء اس احتیاط کو ملحوظ نہ رکھ سکے ۔ انھوں نے بلا قید مفروضہ مسائل پر فتویٰ دینا شروع کر دیا۔ اس طرح کتابوں میں کثرت سے ایسے مسائل جمع ہوگئے جومحض فرضی تھے ۔ اس کے باوجود ان کے بارہ میں کسی فقیہ کی رائے درج تھی۔

مسلم فقہاء کی اس غلطی نے موجودہ زمانہ میں ایک فتنہ کی صورت اختیار کرلی ہے۔ ان مفروضہ مسائل کو مستشرقین اسلام کی تصویر بگاڑنے کے لئے کامیاب طور پہ استعمال کر رہے ہیں۔ مثلا اسلام نے بلوغ کو ازدواج کی ایک شرط قرار دیا ہے ۔ اب کسی تفنن پسند نے ایک فقیہ سے پوچھا کہ حضرت ، ایک شخص بوڑھا ہے یا بڑی عمر کا ہے، اس کا نکاح ایک شیرخوار بچی سے کر دیا گیا تو یہ نکاح جائز ہوگا یا نہیں۔ فقیہ پر لازم تھا کہ وہ سائل سے پوچھتا کہ کیا ایسی صورت پیش آئی ہے، اور جب وہ کہتا کہ نہیں تو فقیہہ کہتا کہ پھر ایسا فرضی مسئلہ مت پوچھو۔ مگرفقیہہ نے ایسا نہیں کیا، بلکہ اس نے فوراً اس کا ایک جواب لکھ دیا اور یہ جواب کتابوں میں بھی شامل ہوگیا۔

اب موجودہ زمانہ کے مستشرقین یہ کر رہیں ہیں کہ وہ قدیم کتابوں سے اس قسم کے جزئی واقعات و مسائل ڈھونڈ کر نکالتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو اسلامی معاشرہ کے لوگ اپنی جنسی خواہشات کی تکمیل میں یہاں تک جاتے ہیں کہ وہ شیر خوار بچی سے نکاح کرنے کو بھی غلط نہیں سمجھتے۔

6 جنوری 1983
Diary 1985
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

11/12/2024

دعوہ ایمپائر

قدیم زمانہ اگر حکومت کا زمانہ تھا تو موجودہ زمانہ اداروں(institutions ) اور آر گنائزیشن (organisations ) کا زمانہ ہے ۔ اب اداروں اور تنظیموں کے ذریعے زیادہ بڑے پیمانے پر وہ سب کیا جاسکتا ہے جو حکومت کے ذریعے صرف جزئی طور پر متوقع ہوتا تھا۔ اسی طرح آج یہ ممکن ہو گیا ہے کہ قدیم پولیٹکل ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر دعوہ ایمپائر قائم کیا جائے ۔ قدیم حالات میں پالیٹکل ایمپائر صرف محدود جغرافی علاقہ میں قائم ہو سکتا تھا۔ جدید حالات میں ای ایمپائر (e-empire) کسی رکاوٹ کے بغیر پورے کرہ ارض کی سطح پر قائم کیا جاسکتا ہے ۔ یہ عالمی امکانات بلاشبہ صرف دعوت الی اللہ کے لیے پیدا کیے گئے ہیں۔

مولاناوحیدالدین خان

11/12/2024

آدمی حق کا راستہ اختیار کرے تو اس کو اکثر سخت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے، جیسا کہ دور اول میں رسولؐ اور اصحاب رسولؐ کے ساتھ پیش آیا۔مگر ان حالات میں کسی کے لیے مایوس ہونے کا سوال نہیں۔ جو خدا اتنا رحیم ہے کہ جب کھیتی کو پانی كي ضرورت ہوتی ہے تو وہ عالمی نظام کو متحرک کرکے اس کو سیراب کرتا ہے، وہ یقیناً اپنے راستہ پر چلنے والوں کی بھی ضرور مدد فرمائے گا۔ تاہم یہ مدد خدا کے اپنے اندازہ کے مطابق آئے گی۔ اس ليے اگر اس میں دیر ہو تو آدمی کو مایوس اور بد دل نہیں ہونا چاہيے۔
خدا کی بات نہایت واضح اور نہایت مدلل بات ہے۔ مگر خدا کی بات کا مومن وہی بنے گا جو چیزوں کو گہرائی کے ساتھ دیکھے، جو باتوں کو دھیان کے ساتھ سنے۔ جس کے اندر یہ مزاج ہو کہ جو بات سمجھ میں آجائے اس کو مان لے، جس راستہ کا صحیح ہونا معلوم ہو جائے اس پر چلنے لگے۔

تذکیر القرآن سورہ الروم آیت 48

10/12/2024

قال رجل لعمربن الخطاب رضي اللہ عنه

ان فلانا رجل صدق۔ فقال عمر، ھل سافرت معہ او ائتمنته، قال ، لا، فقال، اذن لا تمدحہ فلا علم لک بہ ۔

ایک شخص نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ فلاں شخص بہت سچا آدمی ہے۔ حضرت عمر نے کہا: کیا تم نے اس کے ساتھ سفر کیا ہے یا کیا تم نے اس کو کسی معاملہ میں امین بنایا ہے۔ اس نے کہا نہیں۔ حضرت عمر نے کہا پھر تم اس کی تعریف نہ کرو کیوں کہ تم کو اس کے بارہ میں کوئی علم نہیں ۔

حضرت عمر کے اس قول کے مطابق آدمی کی سچائی کا معیار وضو اور نماز جیسے اعمال نہیں ہیں۔ وضو اور نماز بلاشبہ اہم ہیں مگر وہ کسی کی سچائی کا براہ راست ثبوت نہیں۔ سچائی کا براہ راست ثبوت یہ ہے کہ عملی تجربات میں آدمی پورا اترے۔ جب آدمی کچھ لوگوں کے ساتھ سفر کرتا ہے ، جب اس کو کوئی امانت سونپی جاتی ہے ، اس وقت اس کا عمل بتاتا ہے کہ وہ فی الواقع کیا ہے۔

3 جنوری 1983
Diary 1985
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

10/12/2024

بارش سے پہلے ٹھنڈی ہواؤں کا آنا اس بات کا اعلان هے کہ اس دنیا کا خدا رحمتوں والا خدا ہے۔ سمندری جہاز رانی تمدن کے لیے انتہائی اہم ہے۔ مگر سمندری جہاز رانی اسی وقت ممکن ہوتی ہے جب کہ ہوا ایک خاص حد کے اندر رہے۔ اسی طرح موجودہ زمانہ میں ہوائی سفر کا بھی بہت گہرا تعلق اس انتظام سے ہے کہ خدا نے زمین کی سطح کے اوپر ہوا کا دبیز غلاف قائم کر رکھا ہے۔
یہ سارا اہتمام اس ليے کیاگیا ہے تا کہ انسان خدا کا شکر گزار بندہ بن کر رہے۔ خدا کے پیغمبر انھیں حقیقتوں کی طرف لوگوں کو متوجہ کرنے کےلیے آئے۔ پھر کچھ لوگوں نے ان کو مانا، اور کچھ لوگوں نے ان کا انکار کردیا۔ اس وقت خدا نے ماننے والوں کی مدد کی اور انکار کرنے والوں کو ہلاک کردیا۔ یہی معاملہ دونوں قسم کے انسانوں کے ساتھ آخرت میں زیادہ بڑے پیمانہ پر پیش آئے گا۔

تذکیر القرآن سورہ الروم آیت 46

09/12/2024
09/12/2024

ایک انسان کا پیدا ہونا، اس کو صبح وشام کا رزق ملنا، اس پر موت واقع ہونا، یہ واقعات اتنے عظیم ہیں کہ ان کے ظہور کے لیے کائناتی قوت درکار ہے۔ اور خالق کائنات کے سوا کوئی بھی مفروضہ ہستی ایسی نہیں جو اس قسم کی کائناتی قوت رکھتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ توحید اپنی دلیل آپ ہے اور شرک اپنی تردید آپ۔
اگر انسان ایک خدا کو اپنا معبود بنائے تو سب کا مرکز توجہ ایک ہوتاہے۔ اس سے انسانوں کے درمیان اتحاد کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، جب دوسرے دوسرے معبود بنائے جانے لگیں تو بے شمار چیزیں مرکز توجہ بن جاتی ہیں۔ اس سے افراد اور قوموں میں عناد اور اختلاف پیدا ہوتا ہے۔ خشکی اور سمندر اور فضا سب فساد سے بھر جاتے ہیں۔
انسان کی بے راہ روی کا مستقل انجام موت کے بعد سامنے آنے والا ہے۔ مگر انسان کی بے راہ روی کا وقتی انجام اسی دنیا میں دکھایا جاتا ہے تاکہ لوگوں کو یاد دہانی ہو۔

تذکیر القرآن سورہ الروم آیت 40

08/12/2024

4 جولائی ۱۹۹۱

رحمن نیر صاحب نے بتایا کہ آجکل کے حالات اتنے خراب ہیں کہ کسی بھی شخص پر کوئی اعتماد نہیں ہوتا۔ انھوں نے کہا کہ کسی سے ہاتھ ملاؤ تو اس کے بعد یہ دیکھنا پڑتا ہے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں ہیں یا نہیں ۔ سننے والے صاحب نے کہا کہ آپ انگلیاں گنے کی بات کرتے۔ہیں ، ہم تو ہاتھ ہی نہیں ملاتے۔
موجودہ سماج میں خود غرضی اور بد عنوانی اتنا زیادہ بڑھ چکی ہے کہ اب کسی کو دوسرے کے او پر اعتماد نہیں۔ کوئی شخص اپنے خلاف ایک لفظ سننے کے لئے تیار نہیں۔ میں اکثر اپنے دل میں کہا کرتا ہوں کہ اپنے بس میں صرف صبر ہے۔ اس کے سوا جو کچھ ہے وہ سب دوسرے کے اختیار میں ہے۔

ڈائری مولاناوحیدالدین خان

Address

Office No. 208, 3rd Floor, Eden Center (Jazz Office Building), Jail Road
Lahore
54660

Opening Hours

Monday 10:00 - 17:00
Tuesday 10:00 - 17:00
Wednesday 10:00 - 17:00
Thursday 10:00 - 17:00
Friday 10:00 - 17:00
Saturday 10:00 - 17:00

Telephone

+923344856560

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Spirit Of Islam - CPS posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share