Spirit Of Islam - CPS

Spirit Of Islam - CPS Order Online: Www.Goodword.com.pk
Order WhatsApp : 03454989950 It is not enough that your Lord is the witness of all things (The Quran 41:53).

Reviving the True Spirit of Islam: Moving Beyond Cultural Norms to Explore Faith Consciously.

مولانا وحید الدین خان کی 200 سے زائد کتابیں دستیاب ہیں-
+50 English Books are also available. 𝐂𝐞𝐧𝐭𝐫𝐞 𝐟𝐨𝐫 𝐏𝐞𝐚𝐜𝐞 & 𝐒𝐩𝐢𝐫𝐢𝐭𝐮𝐚𝐥𝐢𝐭𝐲 (CPS) was founded in 2012 by a group of readers who rediscovered Islam through the Islamic Literature by Maulana Wahiduddin Khan and most of the concepts are taken from his books

.

𝐎𝐮𝐫 𝐕𝐢𝐬𝐢𝐨𝐧: Presenting Islam in the modern idiom to revive the true spirit of Islam.

𝐎𝐮𝐫 𝐌𝐢𝐬𝐬𝐢𝐨𝐧: Sharing God’s creation plan to the whole world by distributing the Quran and supporting literature.

𝐎𝐮𝐫 𝐕𝐚𝐥𝐮𝐞𝐬: Submission to God, Humbleness, Compassion, tolerance, Peace and harmony

𝐊𝐞𝐲 𝐎𝐛𝐣𝐞𝐜𝐭𝐢𝐯𝐞𝐬

𝟭. 𝗧𝗼 𝗰𝗼𝗻𝗻𝗲𝗰𝘁 𝘆𝗼𝘂𝗿𝘀𝗲𝗹𝗳 𝘄𝗶𝘁𝗵 𝗚𝗼𝗱 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗲𝗹𝗽 𝗼𝘁𝗵𝗲𝗿𝘀 𝗶𝗻 𝗗𝗶𝘀𝗰𝗼𝘃𝗲𝗿𝗶𝗻𝗴 𝗚𝗼𝗱

We shall show them Our signs in the universe and within themselves until it becomes clear to them that this is the Truth. When you ponder over the world around you and your thinking goes beyond your immediate surroundings; you discover the truth that is beyond you, beyond time and space. You become conscious of yourself as well as your Creator. When you discover your Creator, you instantly establish communication between yourself and your Creator. It is like establishing a connection between the electric bulb in your room and the powerhouse situated outside your room. Just as the electric connection illuminates your room, so also does the divine connection illuminate your whole personality. Islamic spirituality is contemplation based and it arises from the awakening of the intellectual faculty and by this way, one is able to establish a relationship of intense love for God.


𝟮. 𝗥𝗲𝘃𝗶𝘃𝗲 𝘁𝗵𝗲 𝘁𝗿𝘂𝗲 𝗦𝗽𝗶𝗿𝗶𝘁 𝗼𝗳 𝗜𝘀𝗹𝗮𝗺

To Revive the true spirit of Islam by unfolding the universal principles of The Quran. To present the core concepts of Islam in the simplest manner by exploring Prophetic Wisdom, by de-cluttering the cultural myths, and showing the futility of endless discussions of Masail and Sects. The basic aim of Islam is to transform people’s thinking and to bring about an intellectual revolution based on tawhid, or the oneness of God. This helps in graduating from religion as a legacy to the conscious discovery of Allah and Islam as a way of life.


𝟯. 𝗪𝗲𝗹𝗹-𝘄𝗶𝘀𝗵𝗶𝗻𝗴 𝗼𝗳 𝗵𝘂𝗺𝗮𝗻𝗶𝘁𝘆 𝗮𝗻𝗱 𝗽𝗿𝗼𝗺𝗼𝘁𝗶𝗻𝗴 𝗶𝗻𝘁𝗲𝗿𝗳𝗮𝗶𝘁𝗵 𝗱𝗶𝗮𝗹𝗼𝗴𝘂𝗲,
𝗣𝗲𝗮𝗰𝗲 𝗮𝗻𝗱 𝗵𝗮𝗿𝗺𝗼𝗻𝘆

Islam is based on monotheism, with regard to God, and on peaceful dialogue, with regard to methodology. It took thousands of years of joint efforts of humanity to bring civilization into existence. All this was not the work of any single human being: all of humanity was involved in this process. The discovery of this reality about history gives rise to the culture of ‘love all’. We live in a world of differences – multi-religious, multi-cultural, multi-ethnic. The difference is a part of nature and it exists in every aspect of life, including religion. In the realm of religion, today, differences are managed only through meaningful and positive ‘inter-faith dialogue’ among people of different religious traditions. The aim of the dialogue is to seek peaceful solutions to controversial matters, in spite of differences.


𝟰. 𝗧𝗮𝗸𝗶𝗻𝗴 𝗧𝗵𝗲 𝗤𝘂𝗿𝗮𝗻 𝘁𝗼 𝗲𝘃𝗲𝗿𝘆 𝗛𝗼𝗺𝗲 𝗶𝗻 𝘁𝗵𝗲 𝘄𝗼𝗿𝗹𝗱

The status of Muslims is not that of a community, but rather of an ideological group, with one mission, that is, peaceful dawah, or calling people towards God. The Prophetic Mission demands love of people, developing a culture of tolerance irrespective of their religion, ethnicity, country, or political background. Join hands to continue the Prophetic Mission of sharing the message of The Quran with the world. We believe…

• Our message is for the whole world and not for the Muslims alone.

• We live in a world of differences; harmony, therefore, can only be achieved by inculcating mutual respect and tolerance among the people.

• We believe that there are two types of people in this world “Friends and Potential Friends”.

• Positive thinking at the individual level results in spirituality and at the collective level results in a peaceful society.

• We believe in Co-Existence; it gives an opportunity to share the word of God with others.

• Peace is desirable for its own sake it has to be attained unilaterally.

• We believe that violence starts from the mind and it has to be addressed in the mind itself.

• We believe Women are the Intellectual partners of men and are equally responsible for building humanity and engaging in religious activities like Dawah work.

𝐂𝐏𝐒 𝐀𝐜𝐭𝐢𝐯𝐢𝐭𝐢𝐞𝐬

We are using all peaceful methods to share our literature at the global level. The Centre aims to unite peace-loving and spiritual people of the world. We have affiliates and Chapters in various cities of Pakistan, the USA, Canada, and the UK. We distribute Books/literature through Book Fairs and Social Media Platforms. Our monthly Magazines are posted in Pakistan. We do a one-on-one intellectual exchange, lectures, and interact through Social Media platforms. Today, by God’s grace, a universal mission has been established with more than 40 translations of the Quran and its commentary, more than 200 books, and thousands of audio and video lectures. Our international affiliates are distributing The Quran Translations across the Globe. Join hands with the CPS Pakistan

www.CPSPakistan.org

www.Goodword.com.pk - Order Books online

Facebook: CPSPakistan

12/01/2025
12/01/2025

قرآن میں ہے کہ اسے ایمان والو تم کیوں وہ بات کہتے ہو جوتم کرتے نہیں۔ یہ اللہ کے نزدیک بہت گناہ کی بات ہے کہ تم وہ کہ جوتم کرو نہیں دیا ایھا الذین آمنو الم تقولون ما لا تفعلون- كبر مقتا عند الله ان تقولوا ما لا تفعلون) اس کی تشریح اگر الفاظ بدل کر کی جائے تو وہ یہ ہوگی کہ زندگی میں آدمی کو ہمیشہ دو میں سے ایک کا چوائس ہوتا ہے ۔ مگر اکثر اوقات وہ تیسرا چوائس لیتا ہے۔ جہاد کے سلسلہ میں ایک چوائس یہ ہے کہ آدمی جہاد کرے، دوسرا یہ کہ وہ جہاد نہ کرے۔ مگر آدمی یہ کرتا ہے کہ وہ تیسرا چوائس لیتا ہے یعنی وہ نہ توجہاد کرتا ہے اور نہ جہاد کرنے والوں میں شامل ہوتا ہے ۔ اس کے بجائے وہ یہ کہتا ہے کہ زور و شور کے ساتھ جہاد پر تقریر کرتا ہے۔ وہ لڑائی نہیں کرتا، البتہ لڑائی کی باتیں کرتا ہے ۔ یہ تیسرا چوائس " اللہ کے نزدیک سخت گناہ ہے۔ اس روش کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے، خواہ وہ چھوٹا معاملہ ہو یا بڑا معاملہ ۔ مثلاً تحفہ دینے کے معاملہ کو لیجئے۔ اس سلسلہ میں ایک چوائس یہ ہے کہ آدمی تحفہ دے۔ دوسرا چوائس یہ ہے کہ وہ تحفہ نہ دے۔ مگر بیشتر لوگ تیسرا چوائس لیتے ہیں ۔ یعنی وہ کوئی سستی یا تماشے والی چیز خرید کر تحفہ دیتے ہیں۔ یا جو چیز اپنے لئے بیکار ہو ، اس کو تحفہ میں دے دیتے ہیں۔ یہ تیسرا چوائس لینا ہے، اور تیسرا چوائس کوئی چوائس نہیں ۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے یہ وہی چیز ہے جس کو جھوٹا کریڈٹ لینا کہا جاتا ہے۔

15 فروری 1991 ء
ڈائری مولاناوحیدالدین

12/01/2025

حقیقت کا انکار سب سے بڑا جرم ہے۔ دنیا میں اس جرم کا انجام سامنے نہیں آتا۔ اس ليے دنیا میں آدمی بے خوف ہو کر حقیقت کا انکار کر دیتا ہے۔ مگر آخرت میں جب انکار حق کا برا انجام لوگوں کے اوپر ٹوٹ پڑے گا تو اس وقت لوگوں کا عجیب حال ہوگا۔
عوام اپنے جن بڑوں پر دنیا میں فخر کرتے تھے وہاں ان بڑوں کو اپنی گمراہی کا ذمہ دار ٹھہرا کر وہ ان پر لعنت کریں گے۔ بڑے ان کو جواب دیں گے کہ اپنے آپ کو شرمندگی سے بچانے کے لیے ہمیں ملزم نہ ٹھہراؤ ، یہ ہم نہ تھے بلکہ تمھاری اپنی خواہشیں تھیں جنھوں نے تم کو گمراہ کیا۔ ہمارا ساتھ تم نے صرف اس ليے دیا کہ ہماری بات تمھاری اپنی خواہشوں کے مطابق تھی۔ تم ایسا دین چاہتے تھے جس میں اپنے آپ کو بدلے بغیر دین دار بننے کا کریڈٹ حاصل ہوجائے اور وہ ہم نے تم کو فراہم کردیا۔ تم نے ہمارا پھندا خود اپنی گردن میں ڈالا، ورنہ ہمارے پاس کوئی طاقت نہ تھی کہ ہم اس کو تمھاری گردن میں ڈال دیتے۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 31

11/01/2025

حضرت آدم علیہ السلام نے کاشت کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے بڑھئی کا کام کیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ سے زرہ بناتے تھے (الانبیاء، 21:80)۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے کپڑا سینے کا کام کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام نے بکریاں چرانے کا کام کیا (القصص، 28:27-28)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مدت تک چرواہی کاکام کیا ہے (سنن ابن ماجہ، حدیث نمبر 2149)۔

حقیقت یہ ہے کہ اپنے ہاتھ سے کام کرنا عین اسلامی طریقہ ہے۔ تمام پیغمبروں نے ایسا ہی کیا ہے۔ ہاتھ سے کام کرکے اپنی روزی کمانا عزت کی چیز ہے، نہ کہ ذلت کی چیز جس کو کرتے ہوئے آدمی شرمائے۔حدیث میں آیا ہے:مَا أَكَلَ أَحَدٌ طَعَامًا قَطُّ، خَيْرًا مِنْ أَنْ يَأْكُلَ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ، وَإِنَّ نَبِيَّ اللهِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ، كَانَ يَأْكُلُ مِنْ عَمَلِ يَدِهِ (صحیح البخاری، حدیث نمبر 2072)۔ یعنی کسی نے کھانا نہیں کھایا، جو بہتر ہو اس انسان سےجو اپنے ہاتھ کے عمل سے کھاتا ہے۔اور اللہ کے نبی داؤد علیہ السلام اپنے ہاتھ کے عمل سے کھایا کرتے تھے۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے :إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُؤْمِنَ الْمُحْتَرِف (مسند الشہاب القضاعی، حدیث نمبر 1072)۔ یعنی اللہ حرفت کے ذریعے روزی کمانے والے کو پسند کرتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ ہاتھ سے کام کرنے کو حقیر سمجھنا دورِ ملوکیت اور مسلمانوں کے دورِ زوال کی پیداوار ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں اس کو بالکل بُرا نہیں سمجھا جاتا تھا۔

11 مئی 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

11/01/2025

ہر نبی نے براہِ راست طور پر صرف اپنی قوم کے اوپر دعوتی کام کیا۔ اور یہی عملاً ممکن تھا۔ اسی طرح پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم بھی براہِ راست طورپر اپنی ہی قوم کے لیے منذر اور مبشر بنے (الانعام،6:92 )۔ مگر چوں کہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی اس ليے اب تمام قوموں کے لیے حکماً آپ ہی منذر اور مبشر ہیں۔ اپنے زمانے میں مخاطبین اول پر جس طرح آپ نے انذار و تبشیر کا کام کیا اسی طرح بعد کے زمانے میں دوسرے تمام مخاطبین پر آپ کی امت کو نیابۃً انذار وتبشیر کا کام کرنا ہے۔ یہ سارا کام آپ کی نبوت کے تسلسل میں شمار ہوگا۔ آپ کی زندگی میں کیا جانے والا دعوتی کام براہِ راست طورپر آپ کے دائرۂ نبوت میں داخل ہے۔ اور آپ کی دنیوی زندگی کے بعد کیا جانے والا کام بالواسطہ طور پر۔
پیغمبر کا کام ہمیشہ صرف پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد قوموں کے عملی انجام کا فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے، موجودہ دنیا میں بھی اور آئندہ آنے والی دنیا میں بھی۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 28

10/01/2025

حقیقت ِ واقعہ کو نہ ماننا صرف اس قیمت پر ہوتا ہے کہ واقعہ اپنی جگہ پر بدستور باقی رہے، اور آدمی خود واقعات کی دنیا سے بہت دو رہوجائے۔ روس میں 1917 میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو امریکا نے سولہ سال تک اس کو تسلیم نہیں کیا۔ مگر اس کا کوئی فائدہ امریکہ کو نہ مل سکا۔ کلائڈ سینگر (Clyde Sanger) نے لکھا ہے کہ امریکا کو سوویت یونین کے تسلیم کرنے میں سولہ سال لگ گئے۔ اس سے اسٹالن کو یہ موقع ملا کہ وہ روسی عوام کے درمیان مغربی دنیا کے خلاف نفرت پیدا کرے اور ان کے گردآہنی پردہ کھڑا کرسکے:

It took the United States 16 years to recognize the Soviet Union. This helped Stalin stimulate xenophobia among his people, and build an iron curtain around them.

کلائڈسینگر نے مزید لکھا ہے کہ اگر اس زمین پر شیطان کی ایک سلطنت ہوتی تووہ اپنے نوجوان لوگوں میں سے ایک بہترین شخص کو اس کا سفیر نامزد کرتا تاکہ وہ اس کے اوپر پوری نظر رکھ سکے۔

کلائڈ سنگر کا یہ تبصرہ نہایت سخت ہے۔میں پسند نہیں کروں گا کہ میں ایسا سخت تبصرہ کروں۔ تاہم میری پوری زندگی کا مطالعہ اور تجربہ یہ بتاتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کامیابی کی سب سے اہم شرط حقیقتِ واقعہ کا اعتراف ہے۔ جو شخص اپنے اندر یہ حوصلہ رکھتا ہو کہ وہ حقیقتِ واقعہ کا اعتراف کرے، خواہ وہ اس کے موافق ہو یا اس کے خلاف، وہی موجودہ دنیا میں کامیاب ہوگا۔ اور جو شخص حقیقتِ واقعہ کے اعتراف پر راضی نہ ہو اس کو اس سے زیادہ بُری چیز پر راضی ہونا پڑتا ہے، اور وہ یہ کہ وہ کبھی اپنی منزل مقصود کو نہ پہنچ سکے۔

9 مئی 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

10/01/2025

برکت والی بستیوں سے مراد شام کا سر سبز وشاداب علاقہ ہے۔ اس سرسبز علاقہ میں یمن سے شام تک خوبصورت آبادیوں کی قطاریں چلی گئی تھیں۔ ان کے درمیان سفر ایک قسم کی خوش گوار سیر بن گیا تھا۔ یہ ماحول اپنی حقیقت کے اعتبار سے ربانی جذبات پیدا کرنے والا تھا۔ گویا کہ خدا نے یہاں ایک خاموش سائن بورڈ لگا دیا ہو کہ — بے خوف وخطر چلو اور اپنے رب کا شکر کرو۔
مگر سبا کے غافل لوگ اس خدائی کتبہ کو نہ پڑھ سکے۔ انھوں نے اپنے رویہ سے ان خدائی نعمتوں کا استحقاق کھو دیا۔ چنانچہ وہ اس طرح مٹے کہ وہ ماضی کی داستان بن گئے۔ علاقہ کی تباہی کے بعد سبا کے مختلف قبائل اپنے وطن سے نکل کر دور دور کے علاقوں میں منتشر ہوگئے۔
یہ واقعات تاریخ کے معلوم واقعات ہیں۔ مگر ان کو جاننے والا حقیقۃ ً وہ ہے جو ان سے یہ سبق لے کہ اس کو خوش حالی ملے تو وہ ناز میں مبتلا نہ ہو۔ اس کو جو کچھ ملے اس کو خدا کا عطیہ سمجھ کر وہ خدا کا شکر گزار بن جائے۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 18

10/01/2025

1 فروری 1991 ء

ایک انگریزی مجلہ میں خوبصورت قدرتی مناظر دیکھ کر خیال آیا کہ موجودہ دنیا نہایت حسین اور نہایت بامعنی ہے ۔ یہاں ہر وہ چیز وافرمقدار میں موجود ہے جس کی انسان تمنا کر سکتا ہے۔ البتہ یہ سب کچھ امکانات کی صورت میں ہے۔ انسان کو عقل اور صلاحیت دی گئی ہے تاکہ وہ ان اعلیٰ امکانات کو استعمال کر کے انھیں واقعہ بنائے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنتی امکانات والی ایک دنیا تیار کر کے انسانوں کو دی اور کہا کہ تم یہاں ایک جنتی دنیا تعمیر کر و۔ مگر انسان ایسا کرنے میں ناکام رہا۔ اب وہ دن آنے والا ہے جب خدا انسانوں کو معزول کر کے اپنی دنیا کا چارج خود لے لے۔ اور پھر یہاں ایک جنتی دنیا بنا کر اسے مومنین صالحین کے حوالے کر دے۔ شاید یہی مطلب ہے اس آیت کا : انا نحن نرث الارض ومن عليها.

ڈائری۔۔مولانا وحیدالدین خاں

09/01/2025

بھیڑ کے درمیان سناٹا _______!!!
دین جب قومی روایت بن جاۓ تو نیا عجیب و غریب منظر سامنے آتا ہے، دین کے نام پر طرح طرح کی ظاہری دھوم بہت بڑھ جاتی ہیں، مگراصل دین اتنا نایاب ہو جاتا ہے کہ ڈھونڈھنے سے بھی نہیں ملتا ،
یہی حال آج ملت کا ہو رہا ہے، نمازیوں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن الله کے خوف سے جھکنے والے نظر نہیں آتے___
دین کے خاطر بولنے والے بہت ہیں لیکن دین کی خاطر چپ ہو جانے والا کوی نہیں
امت کو بربادی سے بچانے کے لئے ہر شخص مجاہد بنا ہوا ہے، مگر فرد کو بربادی سے بچانے کے لئے کوئی بیقرار نہیں ہوتا__
اپنی حق پرستی کو جاننے کا ماہر ہر ایک ہے مگر دوسرے کی حق پرستی جاننے کی ضرورت کسی کو نہیں محسوس ہوتی ،
چوک پر خدا پرستی کا مظاہرہ کرنے والوں کی ہر طرف بھیڑ لگی ہوئی ہے ، مگر تنہایوں میں خدا پرست بننے سے کسی کو دلچسپی نہیں،
خدا کے دین کو سارے عالم میں غالب کرنے کا چیمپئین ہر آدمی بنا ہوا ہے ، مگر خدا کے دین کو اپنی زندگی میں غالب کرنے کی کسی کو فرصت نہیں،
اچھے الفاظ کا بھنڈار ہر ایک کے پاس ہے ، لیکن اچھے عمل کا خزانہ کسی کے پاس نہیں ،
جنت کی کنجیوں کے گچھے ہر ایک کے پاس ہیں ، مگر جہنم کے اندیشوں سے تڑپنے کی ضرورت کوئی محسوس نہیں کرتا ،
دنیاوی رونقوں والے اسلام کی طرف ہر شخص دوڑ رہا ہے، مگر اس اسلام سے کسی کو دلچسپی نہیں جو زندگی میں آخرت کا زلزلہ پیدا کردے
انسانوں کی بھیڑ کے درمیان سناٹے کا یہ عالم شاید آسمان نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوگا ___!!!
مولانا وحید الدین خان —

09/01/2025

قرآن کی سورہ المؤمن میں ان لوگوں کا ذکر ہے، جن کے ليے آخرت میں سزا کا فیصلہ ہوگا۔ ان کے اس برے انجام کی وجہ بتاتے ہوئے آیا ہے :ذَلِكُمْ بِأَنَّهُ إِذَا دُعِيَ اللَّهُ وَحْدَهُ كَفَرْتُمْ وَإِنْ يُشْرَكْ بِهِ تُؤْمِنُوا (40:12)۔ یعنی یہ تم پر اس ليے ہے کہ جب اکیلے اللہ کی طرف بلایا جاتا تھا تو تم انکار کرتے تھے، اور جب اس کے ساتھ شریک کیا جاتا تو تم مان لیتے۔

یہی موجودہ دنیا میں انسان کی اصل گمراہی ہے۔ انسان کبھی ایسا نہیں کرتا کہ وه مكمل طور پر ناحق کا علم بردار بن جائے۔ وه ہمیشہ ایسا کرتا ہے کہ حق کے ساتھ ناحق کو ملا تا ہے،اور ملاوٹی حق کو اختیار کرتا ہے۔ اس کے مقابلےمیں پیغمبروں کی دعوت بے آمیز حق کی دعوت ہوتی ہے۔ پيغمبراور غیرپیغمبر کی دعوت میں خالص منطقي اعتبار سے، حق اور ناحق کا فرق نہیں ہے۔ بلکہ بے آمیز حق اور آمیزش والے حق کا فرق ہے۔ یہی فرق ایک گروہ کو قابل انعام بناتا ہے، اور دوسرے گروہ کو قابل سزا۔

ملاوٹی حق سے انسان کو اتنی زیادہ دلچسپی کیوں هے۔ اس کی وجہ صرف ایک ہے، اوروہ یہ کہ اس طریقہ کو استعمال کرنے میں آدمی کے اپنے جھوٹے دین کی نفی نہیں ہوتی۔ وہ خدا کو مانتے ہوئے بتوں کی پرستش کو بھی جاری رکھ سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جو لوگ ملاوٹی حق کو پیش کریں، وہ فوراً عوام کے اندر مقبولیت حاصل کرلیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں ہر ایک اپنا recognitionپالیتا ہے۔ ایسے لوگ ایک طرف اصول پرستی کی باتیں کرتے ہیں، اور دوسری طرف مفاد پرستی کی۔ ایک طرف وہ آفاقیت کا قصیدہ پڑھتے ہیں، اور دوسری طرف قوم پرستی کا ترانہ گاتے ہیں۔ وہ ایک طرف آخرت کا نام لیتے ہیں اور دوسری طرف دنیوی جھگڑوں میں بھی لوگوں کے ساتھ شریک رہتے ہیں۔

پیغمبر کی دعوت کے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ہر ایک اپنی نفی محسوس کرنے لگتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں ’’مشرک‘‘ لیڈر کو ماننے میں کسی کو اپنی نفی نظر نہیں آتی۔ اس میں کسی کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔ ہر آدمی جہاں ہے، وہیں وہ اپنے مفروضه حق کو بھی پالیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مشرک کے ساتھ بھیڑ جمع ہوجاتی ہے، اور موحد اس دنیا میں اکیلا رہ جاتاہے۔

7 مئی 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

09/01/2025

حضرت سلیمان علیہ السلام نے سمندری سفر اور سمندری تجارت کو بہت ترقی دی تھی۔ انھوں نے اعلیٰ درجہ کے بادبانی جہاز تیار کيے۔ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا مزید فضل یہ ہوا کہ ان کے سمندری جہازوں کو اکثر موافق ہوا ملتی تھی۔ اس طرح تانبا پگھلا کر سامان بنانے کا فن بھی ان کے زمانہ میں بہت ترقی کر گیا۔ ان غیر معمولی قوتوں سے حضرت سلیمان مختلف قسم کے تعمیری اور اصلاحی کام لیتے تھے۔ انھیں میں سے ان چیزوں کی تیاری بھی تھی جن کا ذکر آیت میں کیا گیا ہے۔
انسان سراپا خدا کا احسان ہے۔اس ليے اس کے اندر سب سے زیادہ خدا کے شکر اور احسان مندی کا جذبہ ہونا چاہيے۔ مگر یہی وہ چیز ہے جو انسان کے اندر سب سے کم پائی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ موجودہ امتحان کی دنیا میں انسان کو جو کچھ ملتا ہے وہ اسباب کے پردہ میں ملتا ہے۔ اس ليے آدمی اس کو اسباب کا نتیجہ سمجھ لیتا ہے۔ مگر یہی انسان کا اصل امتحان ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ اسباب کے ذریعہ ملتی ہوئی چیز کو خدا سے ملتاہوا دیکھے۔ بظاہر اپنی عقل اور محنت سے حاصل ہونے والی چیز کو براہِ راست خدا کا عطیہ سمجھے۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 12

08/01/2025

آخرت میں خدا کی جنت کے دروازے ان لوگوں کے لیے کھولے جائیں گے، جو دنیا میں اپنے دل کے دروازے خدا کی نصیحت کے لیے کھولیں۔

جنت اور جہنم کا فیصلہ دراصل دل کی دنیا میں ہوتا ہے۔ خدا اپنے کسی بندے کے ذریعہ آدمی کے دل کے دروازہ پر دستک دیتا ہے۔ وہ کسی بندۂ خاص کے ذریعے اس کے پاس اپنا پیغام بھیجتا ہے۔ یہ لمحہ کسی انسان کی زندگی میں نازک ترین لمحہ ہوتا ہے۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے کھول دے تو گویا کہ اس نے اپنی جنت کا دروازہ کھول لیا۔ اگر وہ اس وقت اپنے دل کے دروازے بند رکھے تو گویا اس نے اپنے اوپر جنت کے دروازے کو بند کرلیا— اس دنیا میں حق کو قبول کرنا یا حق کا انکار کرنا ہی وہ خاص لمحہ ہے جب کہ آدمی کے لیے ابدی جنت یا ابدی جہنم کا فیصلہ ہوتا ہے۔

6 مئی 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

08/01/2025

ایک مومن جب خدا کی یاد سے سرشار ہو کر اس کی تسبیح کرتا ہے تو اس وقت وہ ساری کائنات کا ہم نوا ہوتا ہے۔ زمین و آسمان کی تمام چیزیں تسبیح ِخداوندی میں اس کی شریک آواز ہوجاتی ہیں۔ تاہم کائنات کی یہ ہم نوائی خاموش زبان میں ہوتی ہے۔ مگر حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ خصوصیت دی کہ جب وہ تسبیح کرتے تو پہاڑ اور چڑیاں محسوس طور پر آپ کے ساتھ تسبیح خوانی میں شریک ہوجاتیں۔
اسی طرح حضرت داؤد کو اللہ تعالیٰ نے لوہے کی صنعت سکھائی۔ انھوں نے لوہے کے پگھلانے اور ڈھالنے کے فن کو ترقی دی کہ وہ نہایت باریک کڑیوں کی زرہیں بنانے لگے جن کو آدمی کپڑے کی طرح پہن سکے۔ اس وقت دنیا میں یہ فن موجود نہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے براہِ راست طورپر فرشتوں کے ذریعہ یہ فن آپ کو سکھایا۔
مومن صنعت اور سائنس میں بڑی بڑی ترقیاں کرسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے لازم ہے کہ وہ انساني ترقی کو صرف اصلاح کے دائرہ میں استعمال کرے۔ وہ جو کچھ کرے اس احساسات کے تحت کرے کہ آخر کار اس کو جواب دہی کے لیے خدا کے سامنے حاضر ہونا ہے۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 10

07/01/2025

ڈاک سے ایک لفافہ موصول ہوا۔ اس میں ایک دینی ادارے کے ہفت روزہ میگزین کے ایک صفحے کی فوٹو کاپی تھی۔ یہ مضمون ادارے کے بانی کے بارے میں ہے۔اس مضمون کا عنوان ہے:

چراغ عالم اسلام تھے

اس عنوان کے نیچے جو مضمون ہے وہ گویا نثر میں شاعری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار نے نعت کے تمام شاندار الفاظ بانیٔ ادارہ کی قصیدہ خوانی میں صرف کردیئے ہیں۔

اس مضمون کو دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ میری وفات کے بعد جو لوگ میری تعریف میں اس قسم کے قصیدے لکھیں گے، وہ میرے جھوٹے ماننے والے ہوں گے۔ میرے حقیقی ماننے والے وہ ہیں، جو میرے مشن کو لے کر آگے بڑھیں، جو میرے اس دنیا سے جانے کے بعد اس دینی جدوجہد کے لیے پہلے سے زیادہ سرگرم ہوجائیں۔

میرا کام اللہ کے سچے دین کا اعلان واظہار ہے۔ میری ساری دلچسپی صرف اس بات سے ہے کہ اللہ کی بڑائی بیان کی جائے ۔ پیغمبر اسلام کی لائی ہوئی ہدایت کو آج کے انسانوں تک پہنچایا جائے۔ لوگوں کو آنے والے ہولناک دن سے ہوشیار کیا جائے۔میرے بعد جولوگ میرے اس مشن کے لیے سرگرم ہوں وہی میرے سچے ساتھی ہیں۔ اور جو لوگ نظم و نثر میں میری تعریف کریں، ان سے میرا کوئی تعلق نہیں۔ ان کی راہ الگ ہے اور میری راہ الگ۔

23 اپریل 1985
Diary Vol. V 1985 Auraq-e-Hikmat
مولانا وحید الدین خان


Download App : Safarnama

07/01/2025

مکہ کے لوگ رسول اور اصحابِ رسول کو حقیر سمجھتے تھے، اس ليے وہ ان کی ہر بات کا مذاق اڑاتے رہے۔ اس کی اصل وجہ آخرت کے بارے میں ان کی بے یقینی تھی۔ آخرت کی پکڑ کا اندیشہ ان کے دلوں میں نہ تھا۔ اس ليے وہ آخرت کی باتوں کے متعلق زیادہ سنجیدہ بھی نہ ہوسکے۔
اس دنیا میں سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ آدمی صحتِ فکر سے محروم ہو جائے۔ ایسا آدمی کسی چیز کو اس کے صحیح روپ میں نہیں دیکھ پاتا۔ کھلی ہوئی حقیقتوں سے بھی اس کو نصیحت حاصل نہیں ہوتی۔ مثلاً اوپری فضا سے مسلسل بے شمار پـتھر نہایت تیز رفتاری کے ساتھ زمین کی طرف آتے رہتے ہیں۔ اگر یہ پتھر انسانی بستیوں پر برسنے لگیں تو انسانی نسل کا خاتمہ ہوجائے۔ اسی طرح زمین کے نیچے کا زیادہ حصہ گرم پگھلا ہوا لاوا ہے۔ اگر وہ غیر محدود طورپر پھٹ پڑے تو سطح زمین کی ہر چیز جل کر ختم ہو جائے۔ مگر خدا اپنے خصوصی انتظام کے تحت ایسا ہونے نہیں دیتا۔ آسمان اور زمین میں اس قسم کی واضح نشانیاں ہیں جو انسان کے عجز کو بتا رہی ہیں۔ مگر آدمی جب صحتِ فکر سے محروم ہوجائے تو کوئی نشانی اس کو ہدایت دینے والی نہیں بنتی۔

تذکیر القرآن سورہ سبا آیت 7

06/01/2025

اقامت دین۔۔غلبہ دین

واضح ہوکہ اقامت دین اور غلبہ دین ، دونوں ہم معنی الفاظ نہیں ہیں ۔ اقامت دین کا تعلق تمام تر فرد سے ہے ۔ دین کو قائم کرو (شوری) کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک شخص کو جس دین کا حامل بننا ہے اس کا وہ حامل بنے ۔
ہر آدمی اپنی زندگی کو دینی زندگی بناۓ ۔ اللہ سے ڈرنا ، اللہ سے محبت کرنا ، اللہ کا پرستار بن جانا ، روز وشب کی زندگی میں اللہ کو یاد کرتے ہوئے معاملہ کرنا۔ اپنے تمام معاملات کو آخرت کی بنیادوں پر قائم کرنا۔ یہی ہر فرد کا دین ہے اور اس دین پر اپنی انفرادی زندگی میں پوری طرح قائم ہو جانے کا نام اقامت دین ہے۔
غلبہ دین سے مراد ہے کسی ماحول میں اسلام کی سیاسی یا غیر سیاسی بالاتری قائم ہو جانا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر میں اہل اسلام کی سیاسی برتری قائم ہوگئی تھی ۔ مگر ملک کا قانون اس کے باوجود وہی تھا جو مشرک بادشاہ کے زمانہ سے چلا آ رہا تھا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حبش میں نہ سیاسی اقتدارمسلمانوں کے ہاتھ میں تھا اور نہ وہاں کا قانون اسلام کا قانون تھا۔ مگر مسلمانوں کی نظریاتی اور اخلاقی برتری نے مسلمانوں کو وہاں یہ مقام دے دیا تھا کہ وہ عزت کے ساتھ وہاں رہیں اور آزادی کے ساتھ اپنے دین کی تبلیغ کریں ۔ یہ چیز اتنی کافی سمجھی گئی کہ مسلمانوں نے حبش کے علاقہ میں کبھی فوج کشی نہ کی خلافت راشدہ کے زمانہ میں مسلمانوں کے زیر اقتدار علاقہ میں یہ غلبہ مسلمانوں کو اپنی کامل صورت میں حاصل رہا۔
اقامت دین اور غلبہ دین کو اگر ہم معنی قرار دیا جائے تو اس سے زبردست خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک طرف یہ کہ اقیموالدین کے حکم سے اصلاح خویش کا جو جذبہ بھڑکنا چاہئے وہ نہیں بھڑکتا کیونکہ اب اس حکم کارخ اپنے بجاۓ دوسروں کی طرف ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ کہ مسلم ملکوں میں جہاں اسلام کے حق میں غلبہ کی فضا موجود ہے اس کو استعمال کر کے اسلام کے لئے تعمیری اور دعوتی کام کرنے کا شوق نہیں ابھرتا بلکہ سارا زور اس پر صرف ہونے لگتا ہے کہ مسلم حکمرانوں کو تخت سے بے دخل کرو کیونکہ وہ اسلام کے اجتماعی قانون کے نفاذ کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بڑی بڑی کوششیں اس طرح ضائع ہو جاتی ہیں کہ ان سے نہ اقامت دین کا فائدہ حاصل ہوتا ہے اور نہ غلبہ دین کا ۔

تصویر ملت۔۔مولانا وحیدالدین خاں

Address

Office No. 208, 3rd Floor, Eden Center (Jazz Office Building), Jail Road
Lahore
54660

Opening Hours

Monday 10:00 - 17:00
Tuesday 10:00 - 17:00
Wednesday 10:00 - 17:00
Thursday 10:00 - 17:00
Friday 10:00 - 17:00
Saturday 10:00 - 17:00

Telephone

+923344856560

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Spirit Of Islam - CPS posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share