Tanveer Bhatti

Tanveer Bhatti M.A Education &MLIS

23/04/2024
Historical fort at Mirpur Buriro built in Kalhora tenure Kingdom.Buriro is a sub caste of Samma And Samma Ruler was a Bh...
18/04/2024

Historical fort at Mirpur Buriro built in Kalhora tenure Kingdom.
Buriro is a sub caste of Samma And Samma Ruler was a Bhati Rajputs...

یادو ونشی راجپوت خاندان میں تین اہم اور مرکزی شاخیں ہیں :
ایک "ہئے ونشی"
دوسری "یادو ونشی"
اور تیسری "شورسینی"

ہئے ونشی راجپوت خاندان سے مہیش متی ، چندیل ، کلچوری اور چیدی نامی حکمران خاندان پُھوٹے جو وسطی ہندوستان سمیت مشرقی ہندوستان کے زبردست حاکم ثابت ہوئے _

دوسری یادو شاخ وہ ہے جو کسی ذیلی قبیلے میں بٹنے کی بجائے اپنے مرکزی خاندان سے جڑی رہی اور یادو ہی کہلاتی رہی اور یہ خاندان جنوبی ہندوستان کے علاقوں خصوصاً دکن ، گجرات و میسور کے حاکم رہے _

یادو ونشی راجپوت خاندان میں تیسری شاخ شورسینی راجپوتوں کی ہے، اسی خاندان میں شری کرشنا جی مہاراج کا بھی جنم ہُوا _
شری کرشن جی مہاراج کی اولاد میں سے مغربی ہندوستان کے کئی اہم حکمران گھرانے ہیں، جن میں بھٹی/بھاٹی ، سمہ ، جاڑیجہ ، جادون اور چڈاسمہ شامل ہیں _

My lovely niece
15/04/2024

My lovely niece

My family members My lovely uncle g and My lovely cozin prepared and enjoy 💪💪💪💪
15/04/2024

My family members My lovely uncle g and My lovely cozin prepared and enjoy 💪💪💪💪

آج بابا جی أستانہ عالیہ خلچیاں شریف
12/04/2024

آج بابا جی أستانہ عالیہ خلچیاں شریف

ولی کامل حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ کو بچھڑے ہوئے 13 سال کا عرصہ ہو گیا۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی...
11/04/2024

ولی کامل حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ کو بچھڑے ہوئے 13 سال کا عرصہ ہو گیا۔ آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے۔۔۔۔۔۔

کہنے کو گل ہوا فقط ایک ہی چراغ / سچ پوچھیے تو بزم کی رونق چلی گئی

میں نے حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ کو پہلی مرتبہ نارووال شہر میں سنا اس کے بعد پھر سیالکوٹ شہر میں کئی مرتبہ سننے کا موقع ملا آپ کو دیکھ کر آپ کی تقاریر سن کر ہر کوئی آپ کو اللہ کا ولی کہتا تھا آپ متحدہ جمعیت اہلحدیث پاکستان کے امیر اور ادارة الاصلاح البدر، بونگہ بلوچاں نزد پھولنگر ضلع قصور کے بانی، ولی ٔکامل نمونۂ سلف حضرت حافظ محمد یحییٰ عزیز میرمحمدی رحمة اللہ علیہ کے نام سے آپ کو ہر اہل حدیث جانتا ہے آپ نے دنیا ومافیہا سے بے نیاز ہو کر اپنی زندگی کو اُمت ِمسلمہ کی اصلاح و تربیت کے لئے وقف کررکھا تھا۔ آپ کی شخصیت غیر متنازع اور ہرطبقے اور ہر فرد کے لئے قابل احترام تھی۔ آپ کو جس نے ایک بار دیکھا، وہ آپ کی شخصیت سے بے حد متاثر ہوا۔ آپ کی آواز میں اللہ تعالیٰ نے ایسی حلاوت،گفتگو میں متانت اور اس قدر شرینی رکھی تھی، خصوصاً جب آپ اپنے مخصوص انداز میں قرآنِ مجید کی تلاوت فرماتے تو سخت سے سخت دل میں نرمی پیدا ہو جا تی تھی ۔ آپ کی شخصیت نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کی آئینہ دار تھی۔کسی کو کافرکہنا،کسی کو منافق قراردینا،کسی کو بے دینی کی حدوں میں داخل کردینا یا کسی پر شرک کا فتویٰ لگانا ان کا شیوہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ آپ کسی کے بارے میں غیبت اور ناشائستہ گفتگو سننا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔
خاندانی پس منظر
آپ کا تعلق راجپوت برادری سے تھا۔آپ کاخاندان عرصۂ درازسے ضلع قصور کے گائوں میر محمد میں آباد ہے۔گردونواح کے تقریباً تمام دیہات میں ان کے خاندان کا ہراعتبارسے احترام موجودہے۔ دیانت داری، تقویٰ،سنت ِرسول کی محبت، شرم وحیا،خیرخواہی، قرآن و حدیث کی تدریس جیسی خوبیوں سے اللہ تعالیٰ نے خاندانِ میر محمد کو نواز رکھا ہے۔ آپ کے والد محترم
انتہائی متقی اور پرہیز گار شخص تھے۔ ایامِ طفولیت سے ان کا رجحان و میلان عجز وانکساری اور صالحیت اور اِتقا کی طرف ہو گیا جو تادمِ آخر قائم ودائم رہا بلکہ عرفان وسلوک میں اُنہوں نے ممتاز مقام حاصل کیا اور اسی عزت وتکریم کے ساتھ زندگی کے شب وروز بسر کردیئے۔ ان کا آبائی تعلق بھوجیان(بھارت)کے مردم خیز قصبے سے تھا،جہاں علم وعرفان کی ایسی قند یلیں اور شمعیں روشن ہوئیں جنہوں نے سر زمین ہندہی نہیں بلکہ بیرونِ ہند بھی تاریک وادیوں کو روشن کیا۔ حافظ محمد عظیم کا تعلق ایسے خانوادہ سے تھا جس کا رجحان اکثروبیشترجدال وخصام کی طرف رہا ہے لیکن ان کی بلند بختی کہ ان کے خاندان میں ان کے بڑے بھائی بلند خاں اور چچا مستقیم خاں نے، مولانا فیض اللہ خاں جو افغانستان سے بھوجیان (بھارت)آئے تھے، یعنی حضرت یحییٰ عزیز کے نانا جان ، ان کے ذریعے کتاب وسنت کا مسلک اختیار کیا جس کی بنا پر ان کے گھروں میں مروّجہ جاہلانہ طرزِ زندگی کی بجائے اُن اطوار کو اختیار کر لیا گیا تھا جن کا تقاضا کتاب وسنت نے کیا ہے۔ حافظ میر محمدی نے حفظ قرآن کے بعد ا خذ ِعلم کے لیے مدرسہ محمدیہ، لکھو کے اور مدرسۂ غزنویہ، امرتسر میں قیام کیا لیکن ان کا قلبی اور طبعی رجحان عرفان وسلوک کی طرف تھا۔ لہٰذا وہ مروّ جہ علومِ دینیہ میں کوئی زیادہ استفادہ نہیں کر سکے۔ اپنی تشنگی کی سیرابی کے لئے وہ زیادہ عرصہ سید محبوب علی شاہ لکھوی اور مولانا صوفی کمال الدین ڈوگر کی خدمت میں رہے۔ یہی وجہ تھی کہ ان دوشخصیات کی صحبتوں کا رنگ ان کی قباے حیات پر غالب رہا۔ ان کے زہدو وَرع اور سلوک وعرفان کے بارے میں لوگوں نے کافی حکایات وروایات بیان کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ صاحب ِکرامت بزرگ تھے۔
اس سلسلہ میں مولانا عبدالعظیم انصاری رحمة اللہ علیہ کی تحریر 'تذکرہ علماے بھوجیاں ' سے استفادہ کیا گیا ہے اور انہی کے ذرائع روایت پر ایقان واعتماد کیا گیا ہے۔ حافظ محمد عظیم کی اولاد واحفاد اور دیگر احباب واصحاب کے ہاں کئی ایسے واقعات ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ انتہائی متوکل علیٰ اللہ اور مطمئن بذکراللہ شخص تھے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی دنیوی رغبتوں اور لذتوں سے ناآشنا تھے۔ اُنہیں بیٹھتے اُٹھتے اور چلتے پھرتے ہوئے بس ایک ہی فکر دامن گیر رہتی کہ ہمارا ربّ ِکریم ہم پر را ضی ہو جائے اور ہماری اُخروی زندگی بہتر ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا بھی وعدہ ہے کہ جوبندہ اللہ کا ہوجائے، اللہ تعالیٰ اس کا ہوجاتا ہے اور پھر اس کی تمام ضروریات واحتیاجات کا خود خیال رکھتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا ہو تا کہ مر حوم حافظ محمد صاحب آیت الکرسی پڑھ کر بغیر محافظ کے کھیتوں میں مویشی چھوڑآتے، ان کے مویشی محفوظ رہتے اور کبھی نقصان نہ ہوتا، حالانکہ ابتدا سے ہی میر محمد اورستوکی کے علاقے میں جرائم پیشہ افراد کی کثرت رہی ہے اور قتل وغارت گری ان لوگوں کا روزمرہ معمول ہے۔
حافظ محمد کے علاوہ بھی اس خاندان کے کئی افرادتقویٰ وصالحیت میں ممتاز مقام رکھتے ہیں ۔ ان کے بھائی حافظ دوست محمد بھی بڑے خد ا ترس بزرگ تھے ۔ان کے شب وروز عبادتِ الٰہی میں بسر ہوتے۔ بڑے قانع ومطمئن اور صبرورضا کے پیکر، عجز وانکساری کا نمونہ اور خشیت ِالٰہی میں محو رہنے والے شخص تھے۔ نرم رو اور نرم خو اتنے کہ کسی انسان سے اُلجھنا اور جدال وخصام تو دور کی بات ہے، وہ جانور کو بھی نہیں مارتے تھے۔ کاشتکاری کے دوران جب ہل چلاتے تو بیلوں کو چھٹری سے نہیں بلکہ کپڑے سے ہانکتے تھے۔خصائل حمیدہ سے متصف اس عظیم انسان کا۱۹۴۰ء میں ارتحال ہو ااور اُنہیں میر محمد وستوکی کے درمیان سپردِ خاک کیا گیا۔
حافظ محمد کی اولاد میں دو بیٹے ہوئے: بڑے مولوی محمد یعقوب رحمت اللہ علیہ اور چھوٹے حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ۔ مولوی محمد یعقوب رحمت اللہ علیہ کچھ عرصہ دہلی میں حضرت میاں سید نذیر حسین محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ کے قائم کردہ مدرسہ میں زیر تعلیم رہے لیکن وہاں کا نصاب مکمل نہ کرسکے، پھر گائوں آکر کاشت کاری میں مصروف ہوگئے۔ ان دونوں بھائیوں پر نیکی اور تقویٰ شعاری میں بلاشبہ اپنی مثال آپ تھے لیکن قدوقامت میں باپ کے ہم پلہ نہیں تھے۔ مولوی محمد یعقوب رحمت اللہ علیہ نے ۱۱؍جنوری۲۰۰۳ء کو اپنے گائوں میر محمد میں وفات پائی۔آپ کی اولادِ میں حافظ محمد طارق ، محمد اسحق اور چھ بیٹیاں شامل ہیں آپ کا خاندانی تعارف حافظ محمد یحییٰ عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ بن حافظ محمد عظیم رحمت اللہ علیہ بن نواب خان رحمۃ اللہ علیہ بن روشن دین رحمت اللہ علیہ ہے حافظ یحیی میر محمدی رحمت اللہ علیہ 4 شوال 1345ھ بمطابق 12؍دسمبر 1927ء کو ضلع لاہور، حال قصور کے معروف گائوں میر محمد میں پیدا ہوئے آپ کی شادی
عمرتقریباً 25 برس کی عمر میں اپنے چچا حافظ دوست محمد رحمت اللہ علیہ کے گھر ہوئی۔ والدین کی شرافت اور نیکی کے اثرات کی وجہ سے۔ بچپن ہی سے حافظ صاحب رحمت اللہ علیہ کو نیک کام کرنے اور بھلائی والے اعمال میں حصہ لینے کا شوق اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت سے ملا تھا گھر میں ہی رہتے ہوئے قرآنِ مجید کی تعلیم کا آغاز اپنے چچا حافظ دوست محمد رحمت اللہ علیہ سے کیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم میر محمد میں قائم مدرسہ میں حاصل کی، یہاں حفظ ِقرآن اور مشکوٰة شریف کی تعلیم حاصل کی، اس کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے امر تسر چلا گئے اور مدرسہ غزنویہ امر تسر میں زیر تعلیم ہی تھے کہ پاکستان معرضِ وجود میں آگیا ۔تقسیم ہند کے بعد کچھ عرصہ یہ سلسلہ رک گیا تھا۔ بعدازاں پاکستان آکر اپنے نا نا جی کے شاگردِ خاص مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمة اللہ علیہ جو کہ گوندلا نوالہ ضلع گوجرانوالہ میں تدریس پر مامور تھے، ان سے کچھ عرصہ اکتسابِ فیض کیا۔ پھر شیخ الحدیث حافظ محمد گوندلوی رحمة اللہ علیہ جو اس وقت ٹاہلی والی مسجد، گوجرانوالہ میں پڑھاتے تھے، ان کے حلقہ تدریس میں شامل ہو کر بخاری شریف ودیگر کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے
آپ کے اساتذہ میں حافظ دوست محمد رحمة اللہ علیہ ، حافظ محمد بھٹوی رحمة اللہ علیہ ، مولانا نیک محمد رحمة اللہ علیہ ، مولانا عبداللہ بھوجیانی رحمة اللہ علیہ ، مولانا عبدالرحیم بھوجیانی رحمة اللہ علیہ اور مولانا محمد حسین ہزاروی رحمة اللہ علیہ شامل ہیں ۔ حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ تین بہنیں اور ایکچ بھائی تھا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد یوسف مہتمم دار الحدیث راجووال اوکاڑہ، مولانا ابوبکر صدیق سلفی صدر مدرّس مسجد نجم اہلحدیث لاہور، جبکہ حافظ بشیر احمد بھوجیانی رحمة اللہ علیہ اور مولانا محمد یحییٰ شرقپوری رحمة اللہ علیہ آپ کے دوستوں میں سے تھے حافظ صاحب رحمت اللہ علیہ اکثر یہ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ بچپن میں ایک دفعہ سکول سے گھر آ رہا تھا کہ ایک بوڑھی عورت کو دیکھا جس نے بھاری گٹھڑی اُٹھا ئی ہوئی تھی۔ ضعیف العمری کی وجہ سے بڑی مشکل سے چل رہی تھی۔ تقریباًچار میل کے فاصلے پر میراسکول تھا جو میرے گھر سے دور تھا، میرے پوچھنے پر اس بوڑھی خاتون نے بتایا کہ میں نے گائوں میر محمد جانا ہے ۔ میں نے اس کا بوجھ اُٹھایا اور اس کے گھر تک پہنچایا ۔اس وقت بوڑھی عورت نے مجھے دعائیں دیں تو میں حیران رہ گیا کیونکہ میری نظر میں وہ اتنا بڑاکا رنامہ نہیں تھا جس کی مجھے اتنی زیادہ دعائیں مل گئیں ۔ اس وقت سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ خدمت ِخلق اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے، اس لئے ہر دل سے دعائیں نکلتی ہیں ۔ علماے کرام کو میر امشورہ ہے کہ وہ دعوت وتبلیغ کے ساتھ ساتھ خدمت ِخلق میں بھی حصہ لیا کریں ، کیونکہ ان کی تبلیغ بھی اُس وقت مؤثر ہوگی جب وہ ایک غریب وبے کس شخص کے ساتھ ہمدردی کریں گے، ورنہ ایسے افراد یہ سوچتے ہیں کہ یہ کیسے دعوت دینے والے علما ہیں جنہیں ہمارے د کھ وغم کا احساس ہی نہیں حافظ صاحب رحمت اللہ علیہ اپنے والد ِگرامی کے جاری کردہ مدرسہ حفظ القرآن میر محمد، مدرسہ ضیاء السنہ راجہ جنگ قصور اور 1973ء سے لے کر آخرتک مرکز البدر، ادارہ الاصلاح بونگہ بلوچاں ضلع قصو ر میں دعوت وتبلیغ کے ذریعے دین حنیف کی اشاعت وترویج میں مصروفِ کار رہے
دعوت وتبلیغ کی مصروفیات کے ساتھ ساتھ حافظ محمد یحیی عزیز میر محمدی رحمت اللہ علیہ نے مندرجہ ذیل کتب بھی تحریر کیں
1۔تبلیغ وتربیت کے پانچ اُصول 2۔تجوید کی پہلی آسان کتاب 3۔آسان قاعدہ وغیرہ
علاوہ ازیں قرآنِ کریم کی تلاوت، ترجمہ اور تفسیر 45 کیسٹوں میں ریکارڈ ہونے کے بعد بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا
سوال :آپ کو دعوتی میدان میں کہاں تک کامیابی حاصل ہوئی ہے ؟اور اس راستے میں کون سی مشکلات کا سامنا ہے ؟
جواب:الحمد اللہ پورے پاکستان میں ہماراکام جاری ہے۔ جماعتیں دور دراز علاقوں تک جاتی ہیں ۔ پہاڑی علاقوں کا ہر سال ایک دورہ ہوتا ہے۔ مری، کالاباغ، ایبٹ آباد، نتھیا گلی، کوئٹہ اور اس کے مضافات میں بھی ہماری جماعتیں جاتی ہیں ۔ ادھر بڑی تعداد میں ہمارے بھائی موجود ہیں ۔ رہی بات اس مشن میں مشکلات کی وہ تو آپ کے علم میں ہے دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں ، بات صرف سمجھنے اور خلوص سے عمل پیرا ہونے کی ہے۔ ہم میں سے ہرشخص اپنی مجبوری اور خوشی وغمی کی خاطر سفر گوارا کرتا اور کاروبار بند کرلیتا ہے مگر دین کی تبلیغ کے سلسلہ میں یہ کام ہم گوارا نہیں کرتے ۔حالانکہ دعوت وتبلیغ وہ عظیم مشن ہے جس کی لئے اللہ کریم نے انبیاے کرام کو معبوث فرمایا ۔اس دعوتی سلسلہ کو فروغ دینا ہر کلمہ گو کافرض ہے۔
خطبات وتقاریر کی روشنی میں آپ کی بعض خصوصیات اور نظریات
1 علماے کرام کی معاشی پر یشانی کے خاتمے کیونکر:آپ اپنے اکثر دروس میں فرمایا کرتے تھے کہ ہم اپنے ائمہ وخطبا کی جو خدمت کرتے ہیں ، وہ مہنگائی کے اس دورمیں بچوں کی تعلیم و تربیت اور دیگر ضروریاتِ زندگی کے لئے ناکافی ہے۔ اگر مسجد کا ہر نمازی اپنے دل میں تہیہ کرلے کہ جو چیز میں اپنے بچوں کے لئے لے جائوں گا، اس میں سے کچھ حصہ اپنے خطیب کے گھرمیں دینا ہے، توآپ نے لازماً ہر روز کچھ نہ کچھ اپنے کھانے پکانے کا سامان لے جانا ہے ۔ایسی ضرورت خطیب وامام کو بھی ہر روز ہوتی ہے۔ جب ہم ان کی ضروریاتِ زندگی کا کما حقہ احساس یا ان کا اِزالہ نہیں کرتے تو وہ اس کمی کو پو را کرنے کے لئے کچھ اور ذریعہ تلاش کرتا ہے۔ اس روزگار پر جو وقت صرف ہوتا ہے، اس قدرہی دینی کا م کا نقصان ہو تا ہے۔جس طرح آپ اپنی صحت کا خیال کرتے ہیں ، اس طرح اپنے عالم یا خطیب کے لئے اگر آپ مناسب غذا کا بندوبست کر دیں گے تو اچھی خوراک سے علمی ودینی کام کرنے میں سہولت ہوگی۔
2 فضول خرچی سے اجتناب :وضو اور نہانے کے لئے آپ پانی اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کرتے۔ عام نمازیوں کی طرح پانی کا ضیاع آپ کو سخت ناپسند تھا۔ ایک واقعہ ملاحظہ ہو :
سخت گرمی کے موسم میں چھا نگامانگا کے ضلعی امیر مولانا محمد شفیع اپنے دیگر رفقا کے ہمراہ آپ کے ہاں گئے تو آپ کمرے میں پنکھا بند کر کے ذکر ِ الٰہی میں مصروف تھے۔ مہمانوں نے پوچھا: کیا بجلی نہیں ہے؟ فرمانے لگے: بجلی توہے، اگر آپ کو ضرورت ہے تو چلا لیں ۔ مولانا صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے پنکھا چلا لیا۔ آپ سے ہم نے پوچھا: کیاآپ نے سخت گرمی کے موسم میں بھی پنکھا نہیں چلایا۔ فرمانے لگے: میں نے سوچا کہ مسجد کے اخراجات میں کچھ کمی واقع ہوجائے ، میرے یپنکھا نہ چلانے سے کچھ تو بجلی کے بل میں کمی واقع ہوگی۔
3 سخاوت: اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لئے آپ ہمیشہ صدقہِ و خیرات کرتے رہتے۔بیماری کے دنوں کا واقعہ ہے کہ کوئی ضرورت مند خاتون آپ کے پاس حاضر ہوئی اور اُس نے کچھ تعاون کی درخواست کی تو آپ نے موجود رقم اس سائلہ کو دے دی۔ آپ کے پاس ہی کھڑا آپ کا پوتا کہنے لگا: ابا جان! آپ نے ان کو کتنی رقم دینی تھی۔ آپ خاموش رہے، اُس نے پھر کہا: آپ پھر خاموش رہے۔ بچے نے جب تیسری بار کہا کہ ابا جان آپ نے جو رقم دی ہے، وہ تو بہت زیادہ ہے۔ آپ اُسے تھوڑی رقم دے دیتے، سائل تو آتے رہتے ہیں ۔ جواب میں فرمانے لگے: بیٹا تجھے علم نہیں کہ اس بے چاری عورت کا اس رقم سے مہینے بھر کا خرچہ بھی پورا ہو گا یا نہیں ؟وہ رقم پانچ ہزار روپے تھی۔
4 تہجد کی پابندی :مرکزی جمعیت اہلحد یث ضلع قصور کے زیر اہتمام15؍نومبر 2008ء کو جناح ہال پتوکی میں حضرت حافظ صاحب کی دینی اورجماعتی خدماتِ جلیلہ کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے تعزیتی ریفرنس کا انعقاد ہوا۔اس موقعہ پر آپ کے صاحبزادے حافظ محمد اسماعیل نے آپ کے حوالے سے سامعین کو یہ واقعہ سنایا کہ میری تربیت کے لئے والد محترم حضرت حافظ صاحب نے فرمایا کہ بیٹا میری عمر تقریباًآٹھ،دس سال ہوگی جب مجھے آپ کے دادا جان نے نمازِ تہجد پڑھنے کی ترغیب دی۔ میں نے اُس وقت سے تا حال نہ صرف اُس کی سعادت حاصل کی بلکہ اُسے قضا بھی نہیں ہونے دیا۔
5 خوراک کا کم استعمال اور انکساری:ایک شخص نے آپ کے سامنے یہ بات کہی کہ آپ کی خوراک کچھ بھی نہیں جبکہ حافظ عبدالقادر روپڑی رحمة اللہ علیہ کی خوراک تو اس سے کافی زیادہ تھی۔ فرمانے لگے کہ اگر وہ اتنی خوراک کھاتے تھے تو جو اُنہوں نے دینی خدمات سر انجام دی ہیں ، میں اُن کا مقابلہ کہاں کر سکتا ہوں ؟
6 وعدے کی پابندی: وعدے کی پابندی مؤمن کے اوصاف میں شامل ہے،مگر افسوس کہ وعدے کی پاسداری ہمارے معاشرے میں اس قدر نادر ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اور دین دارلوگ بھی اپنے وعدوں کی پروا نہیں کرتے۔مگر حافظ صاحب نے جس جگہ پہنچنے کا وعدہ کیا یا آپ سے جولوگ تقاریر کے وعدے لے کر جاتے، وہ خود بھول جاتے مگر آپ حسب ِوعدہ دعوت وتبلیغ کے لئے پہنچ جاتے۔ ان کی ڈائری میں شاید ہی کوئی تاریخ خالی ملتی، سال بھر اور زندگی بھر ان کی یہی صورت رہی ۔
7 شادی خانہ آبادی کے معاملے میں رہنمائی: ہمارے معاشرے میں مناسب رشتوں کا نہ ملنا اس دور کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ اس سلسلے میں آپ ہمیشہ تعاون پر آمادہ رہتے اور فریقین کی آسانی کے لئے مطلوبہ معلومات فراہم کرنے میں خصوصی مدد کیا کرتے۔ پھر ایسے شادی بیاہ میں شمولیت سے بھی گریز کرتے تھے تا کہ کل کوئی فریق کسی قسم کا اعتراض نہ کر سکے۔ ازدواجی معاملے طے کروانے کی وجہ یہ تھی کہ اچھے لوگوں کواچھے رشتہ دار حاصل ہوجائیں اور کوئی شخص غلط لوگوں کے ہتھے نہ چڑھ جائے۔
8 مرکز البدر میں ماہانہ جمعہ: ماہِ رمضان المبارک کا پورا مہینہ آپ مرکز ادارة الا صلاح بونگا بلوچاں میں قیام کرتے اور تمام خطباتِ جمعتہ المبارک کا فریضہ سرانجام دیتے جبکہ باقی گیارہ مہینوں میں صرف ہر چاند کا دوسرا خطبہ یہاں ارشاد فرماتے۔ باقی خطباتِ جمعہ مختلف مقامات پر جا کر دیتے جن کا لوگوں نے چھ ماہ قبل وعدہ لیا ہوتا تھا۔ ادھر مرکز ادارة الاصلاح میں مختلف علماے کرام کو پابند کر رکھا تھا جو ہر ماہ ایک خطبہ دیتے۔ان میں راقم الحروف کے والد گرامی شیخ الحدیث مولانا محمد عطاء اللہ حنیف ڈاہروی حفظہ اللہ بھی شامل ہیں ۔ آپ نے بھی ایک عرصہ تک حافظ صاحب کی غیرموجودگی میں یہ فریضہ انجام دیا ہے۔
9 صفائی اور سادگی میں نمونہ:آپ کا لباس ہمیشہ معمولی قسم کالیکن صاف ستھرا ہوتا۔ صفائی کاخاص خیال رکھتے، اسی طرح مرکزادارة اصلاح کے باورچی خانے سمیت ہر جگہ کو خوب صاف رکھواتے، کسی جگہ کے بارے میں آپ کو کوتاہی کا علم ہو جاتا توبغیر کسی حیل وحجت یہ فریضہ خود سرانجام دیتے ۔ لوگوں نے اکثر دیکھا کہ مرکز الاصلاح کے غسل خانوں کو کئی دفعہ خود رات کو اُٹھ کر صاف کیا کرتے تھے۔ ان کی ساری زندگی سادگی، قناعت، شرافت، مروّت اور وضع داری میں گزری۔ اُنھیں دیکھنے سے اہل اللہ اور علماے سلف کی یاد تازہ ہوجاتی تھی۔ یہی وہ خوبی ہے جس کی بنا پر ہر فرد اُن کو عقیدت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔ آپ نے ہمیشہ لوگوں کو نیکی اور تقویٰ کی تلقین کی ۔ان کی شخصیت میں عجیب جلال وجمال تھا۔اُنھیں اپنے بلند منصب کا کبھی احساس نہیں ہوا تھا ۔اس لیے تو تکبراور احساسِ برتری جیسی مہلک بیماریاں ان کے قریب بھی نہ پھٹک سکیں ۔
10 تلامذہ:آپ کے تلامذہ کی تعداد تو ملک اور بیرونِ ملک تک پھیلی ہوئی ہے۔ چند معروف شخصیات میں حضرت حافظ محمد عبداللہ شیخوپوری رحمة اللہ علیہ ، شیخ الحدیث مولانا عبدالحلیم رحمة اللہ علیہ سا بق صدر مدرّس جامعہ محمدیہ اوکاڑہ، مولاناقاری عبدالرحیم بونگا بلوچاں ،قاری محمد یحییٰ مدرّس جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ رحمت اللہ علیہ، قاری محمد یوسف میر محمدی اور اُستاذالقراء قاری محمد صدیق الحسن رحمة اللہ علیہ حبیب آبادی وغیرہ شامل ہیں ۔
11 طب سے دلچسپی رکھتے تھے اور طب کے کئی نسخے یاد تھے
12 بیرونِ ملک سفر:سعودی عرب میں بسلسلہ حج تین بار اور برطانیہ،متحدہ عرب امارات، دبئی اور کویت میں دعوت وتبلیغ کے سلسلہ میں آپ کو جانے کا اتفاق ہوا
آپ کی اولا د:آپ کی اولاد میں اکلوتا بیٹا صاحبزادہ حافظ مولانا محمداسمٰعیل میر محمدی اور دو بیٹیاں شامل ہیں جبکہ آپ کے اکلوتے بیٹے کے ہاں ایک بیٹا محمد عظیم اورپانچ بیٹیاں ہیں ۔
13 وفات اور نمازِ جنازہ: کچھ عرصہ سے آپ شوگر ودیگر امراض میں صاحب ِ فراش تھے۔ علاج معالجہ سے صحت میں کبھی کچھ بہتری آجاتی۔ بالآخر ربّ ِکریم کے اٹل فیصلے کی گھڑی یکم نومبر2008ء کو بعد نمازِ عشاء آپہنچی جس کے آگے ہر شاہ وگدا کو سرخم تسلیم کرنا پڑتا ہے۔انا اللہ وانا الیہ راجعون!
اگلے روز دو نومبر 2008 ء صبح11بجے مرکز البدر، بونگہ بلوچاں میں آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت مولانا عتیق اللہ حفظہ اللہ نے کروائی۔ نمازِ جنازہ میں ملک بھر سے شیوخ اہلحدیث، علماے کرام، قراے عظام، دینی طلبہ اور دینی تنظیموں کے قائدین وکارکنان نے ہزاروں کی تعد اد میں شرکت کی۔ جنازے میں ہرآنکھ اشکبار تھی اور آپ کی مغفرت وبلندیٔ درجات کے لئے دعا گو۔
دوسری بار آپ کی نمازِ جنازہ آپ کے آبائی گائوں میر محمد میں ادا کی گئی۔ وہیں پر آپ کی تدفین عمل میں آئی ۔آپ کی نمازِ جنازہ کے دونوں مناظر تاریخی حیثیت کے حامل تھے۔حکیم یحیی عزیز ڈاھروی حفظہ اللہ تعالیٰ کے مضمون سے استفادہ کیا ہے۔کیسے کیسے لوگ یہاں آئے اور آکے چل دئیے اس جہان سے چند روزہ دل لگا کے چل دئیے ۔اس دنیا میں جو بھی آیا اسے ایک نہ ایک دن یہاں سے رخصت ہونا ہی ہے کیونکہ موت ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں مگر تاریخ انسانی میں بعض لوگ ایسے بھی رخصت ہوئے ہیں جیسے پھولوں سے خوشبو،آفتاب ومہتاب سے ضوء ،سمندر سے روانی ،دریا سے پانی،اور زندگی سے جوانی چلی جائے تو ان کی موت واقعتا "موت العالم موت العالم "کا مصداق بنتی ہے ۔جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں کہیں سے آب دوام لے آ ساقی جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے بہرحال یہاں سے رخصت ہونا ہی ہے موت سے نہ پہلے کوئی بچ سکا ہے اور نہ ہی کوئی آئندہ بچ پائے گا اس دنیا میں جو آتا ہے جانے کے لیے آتا ہے شاعر نے کہا ہے کہ قبرکے چوکھٹے خالی ہیں انہیں مت بھولو جانے کب کون سی تصویر سجا دی جائے ۔ مدت کے بعد ہوتے ہیں پیدا کہیں وہ لوگ مٹتے نہیں ہیں دیر سے جن کے نشان کھبی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ دنیا دارلامتحان اور ابتلاء کا نام ہے اور یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے کسی کو بھی مفر نہیں جو بھی اس دار فانی میں آیا وقت مقررہ پر اسے دارالبقاء کی طرف لوٹنا ہی پڑتا ہے کسی نے خوب کہا ہے کہ اس رنگ برنگی دنیا میں مہمان بدلتے رہتے ہیں یہ زمین وآسماں وہی ہیں مہمان بدلتے رہتے ہیں۔ اس دنیا کا نظام ہی کچھ ایسا ہےکہ روزانہ ہزاروں لوگ آتے اور جاتے ہیں ہر آنے والے کے لیے موت ایک حقیقت ہے اس سے کسی جاندار کو مفر نہیں مگر جانے والے اپنے حسن عمل اور کردار سے حسین یادوں کی ایسی مہک چھوڑ جاتے ہیں کہ جن سے زمانہ عرصہ دراز تک معطر رہتا ہےکچھ ایسے بھی لوگ اٹھ جائیں گے دنیا سے کہ جنہیں ڈھونڈنے نکلو گے مگر پا نہ سکو گے اللہ سبحانہ وتعالی حافظ صاحب رحمت اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین

نہ چھیڑ اے درد پرانے یار۔اساں اوکھے درد بھُلانے یار۔اساں بھل گئے یار زمانے نوں۔ساڈے زخم وی ہوئے پرانے یار۔سانوں عشق نے ک...
11/04/2024

نہ چھیڑ اے درد پرانے یار۔
اساں اوکھے درد بھُلانے یار۔

اساں بھل گئے یار زمانے نوں۔
ساڈے زخم وی ہوئے پرانے یار۔

سانوں عشق نے کیتا روگی یار۔
ساڈے گزرے ___کئی زمانے یار

ساڈی زندگی اک مسافر سجنا۔
اساں بدلے کئی ___ٹھکانے یار۔

اے روگ عشق دا ___نا لاویں۔
ایتھے رُل گئے کئی دیوانے یار۔

Allah pak apko jannat tul firdus me alla muqam atta farmy ameen great leader
10/04/2024

Allah pak apko jannat tul firdus me alla muqam atta farmy ameen great leader

My lovely bro
10/04/2024

My lovely bro

Eid UL fiter Mubarak to My lovely friend
10/04/2024

Eid UL fiter Mubarak to My lovely friend

Congratulations bro
06/04/2024

Congratulations bro

06/04/2024

گئے موسم میں جو کھلتے تھے گلابوں کی طرح
دل پہ اتریں گے وہی خواب عذابوں کی طرح

راکھ کے ڈھیر پہ اب رات بسر کرنی ہے
جل چکے ہیں مرے خیمے مرے خوابوں کی طرح

ساعت دید کہ عارض ہیں گلابی اب تک
اولیں لمحوں کے گلنار حجابوں کی طرح

وہ سمندر ہے تو پھر روح کو شاداب کرے
تشنگی کیوں مجھے دیتا ہے سرابوں کی طرح

غیر ممکن ہے ترے گھر کے گلابوں کا شمار
میرے رستے ہوئے زخموں کے حسابوں کی طرح

یاد تو ہوں گی وہ باتیں تجھے اب بھی لیکن
شیلف میں رکھی ہوئی بند کتابوں کی طرح

کون جانے کہ نئے سال میں تو کس کو پڑھے
تیرا معیار بدلتا ہے نصابوں کی طرح

شوخ ہو جاتی ہے اب بھی تری آنکھوں کی چمک
گاہے گاہے ترے دلچسپ جوابوں کی طرح

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوش بو مرے کھوئے ہوئے خوابوں کی طرح

پروین شاکر

Advance Eid Mubarak to My lovely friend and My lovely Muslim community proud of you
05/04/2024

Advance Eid Mubarak to My lovely friend and My lovely Muslim community proud of you

ZULFIQAR ALI  BHUTTO VISITED KASURToday is the death  anniversary of Zulfikar Ali Bhutto. During his life, he visited Ka...
04/04/2024

ZULFIQAR ALI BHUTTO VISITED KASUR
Today is the death anniversary of Zulfikar Ali Bhutto. During his life, he visited Kasur city many times:
(1) Kasur Chawni ( Public Speech )
(2) Old Lari Ada ( Public Speech)
(3) Ahmad Raza Kasuri's house ( 27 November, 1967 Party Campaign)
(4) Dera Booba Phalera (Party Campaign)
(5) Habib Mahal Cinema Kasur (2 may, 1971 Public speech)
In following picture Mr. Bhutto looking Basit Jehangir Sheikh (late) of Kasur, the PPP first District president.

02/04/2024

رپیال راجپوت قبیلہ کی تاریخ

رپیال راجپوت ، بھٹی راجپوتوں کی شاخ ہے جو راجا سلواہن کے بیٹے راجا روپا سنگھ کی اولاد سے ہیں _

چندرا ونش کی ذیلی شاخ یادو ونش سے تعلق رکھنے والے راجا سلواہن بھٹی نے سلواہن کوٹ (سیالکوٹ) شہر کی بنیاد رکھی اور اپنے دور کے ایک معروف مہاراجا تھے _

رپیال راجپوت قبیلہ کو مختلف ناموں سے جانا جاتا ہے ، جیسے :
رپیال راجپوت ،
روپیال راجپوت ،
رپال راجپوت ،
روپال راجپوت ،
رپوال راجپوت ،
روپوال راجپوت اور
روپلال راجپوت وغیرہ کے قبائلی نام شامل ہیں _

********* راجدھانی و راجگان **********
کوہستان نمک کے پہاڑی سلسلہ میں راجا روپ سنگھ ، سیالکوٹ سے ہجرت کر آئے اور یہاں دریائے جہلم کے کنارے اپنی چھوٹی سی ریاست تشکیل دی _

روپیال راجپوت کے کئی راجا مہاراجا ہوئے جن میں معروف راجا ، رائے مل رپال تھے _

اس کے علاوہ کشمیر میں سروہن کے علاقے پہ اس قبیلہ کے سردار ، "رائے شیر خان روپیال" نے قبضہ کیا جہاں یہ قبیلہ ڈوگرہ راج کی آمد تک خود مختار حاکم اور زمیندار رہے _

********* رہائش پذیر **********
کوہستان نمک کے علاوہ رپوال راجپوت ، پوٹھوہار ، ہزارہ ڈویژن اور کشمیر میں بھی پائے جاتے ہیں _

روپیال ایک زمیندار قبیلہ ہے جو بنیادی طور پر کشمیر میں پونچھ ، میرپور اور حویلی میں مقیم ہیں _

میرپور میں یہ پنڈکھور اور تحصیل ڈڈیال کے دیہات میں پائے جاتے ہیں ۔

پرانے پونچھ جاگیر میں، ان کے دیہاتوں میں میانی بستی (حویلی)، چوئی، دیگوار مالدیال، اور چتھرا شامل ہیں۔ روپیال گاؤں کا دوسرا جھرمٹ ضلع سدھنوتی کے منگ دھاگرون میں پایا جاتا ہے۔

پنجاب میں یہ بنیادی طور پر ضلع راولپنڈی میں پائے جاتے ہیں، کہوٹہ میں ڈوبران اور تحصیل کلر سیداں میں ان کے دیہاتوں میں نوتھیا شریف، موہڑہ روپیال، چپری اکو، چنم شریف اور چونترہ شامل ہیں _
جہلم میں مکھیالہ میں پائے جاتے ہیں _

********* پیشہ *********
روپیال راجپوت بھی باقی راجپوت قبائل کی طرح تاریخی لحاظ سے ایک حاکم اور جنگجو قبیلہ ہو گزرا ہے _

انگریز دور میں اس قبیلہ نے زراعت میں بھی نام پیدا کیا اور زمیندار ہونے کی حیثیت سے روپیال راجپوت بھی ایک طاقتور اور اثر و رسوخ والا قبیلہ مانا جاتا رہا ہے _

عصر حاضر میں روپیال راجپوت ، کھیتی باڑی کے علاوہ سیاست ، عسکریت ، تجارت اور دیگر کئی پیشوں سے منسلک ہوگئے ہیں _

********** مذہب ***********
بلحاظ مذہب روپیال راجپوت قبیلہ کی موجودہ آبادی مسلمان راجپوت ہے _

اسلام مذہب کے پیروکار روپیال راجپوت ،
مسلمان راجپوتوں کا ایک گمنام قبیلہ ہے _

روپیال راجپوت قبیلہ کے راجا ، رائے مل نے 10 ویں صدی میں اسلام قبول کیا جن کا اسلامی نام "رائے جلال الدین روپیال" رکھا گیا _

********* منسوب علاقے **********
راولپنڈی میں گاؤں "موہڑہ روپیال" اور چکوال میں گاؤں "روپوال" اس قبیلہ کے نام سے منسوب ہے _

********* القاب و خطابات ***********
روپیال راجپوت اپنے ناموں کے ساتھ
"رائے اور راجا" کے القاب اور" چوہدری" کا خطاب استعمال کرتے ہیں _

********* گوتیں یا قبائل *********
بھٹی راجپوتوں کی ذیلی گوت رپیال کی مزید ذیلی گوتیں نہیں _
اس گوت کے افراد روپیال لکھنے کے بجائے "بھٹی" ہی لکھتے ہیں اور اس سے بھی زیادہ القاب استعمال کرنے والا قبیلہ ہے _

********** تہذیب و ثقافت *********
سر پر پگڑی اور موچھوں کو تاؤ تو راجپوتوں کے ہاں عام سی روایت ہے جو ہر راجپوت قبیلہ کے ہاں پائی جاتی ہے _

روپیال راجپوت زیادہ تر پنجابی ، پوٹھوہاری اور کشمیری زبان کو عام بول چال میں استعمال کرتے ہیں اور مذکورہ زبانوں سے منسوب تہذیب و ثقافت کو ہی اپناتے ہیں _

********** تاریخ تذکرات **********
سر ای ڈی میکلیگن کی کتاب میں رپال نام سے قبیلہ درج ہے _

سر ایچ اے ہیوم کی کتاب میں روپلال کو پنجابی راجپوت قبیلہ مانا گیا ہے _


21 رمضان المبارکیوم شہادت حضرت علی المرتضی
01/04/2024

21 رمضان المبارک
یوم شہادت حضرت علی المرتضی

بہشت چھین کے ہم سے ہمیں سکھایا گیا منع کیے گئے پیڑوں  کے پھل نہیں کھاتے!تمہارے  ساتھ  تعلق  تو   چیز  ہی کیا ہےبچھڑ  کے ...
25/03/2024

بہشت چھین کے ہم سے ہمیں سکھایا گیا
منع کیے گئے پیڑوں کے پھل نہیں کھاتے!

تمہارے ساتھ تعلق تو چیز ہی کیا ہے
بچھڑ کے یوسف و یعقوب مر نہیں جاتے ...

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی یوم پاکستان 23 مارچ
23/03/2024

دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت
میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی
یوم پاکستان
23 مارچ

*کالی مٹی۔۔۔ نوُر دے قصے :**رب نال یاری، حُور دے قصے:**سُن کے مریا دُکھ نال بھوکا:**مَن و سلوی، طُور دے قصے:**ڈاڈھے کر ل...
21/03/2024

*کالی مٹی۔۔۔ نوُر دے قصے :*
*رب نال یاری، حُور دے قصے:*

*سُن کے مریا دُکھ نال بھوکا:*
*مَن و سلوی، طُور دے قصے:*

*ڈاڈھے کر لیندے نیں حصے:*
*رہ گئے بس مجبور دے قصے:*

*دفتر اندر سُکھ دی بولی:*
*ویہڑے وچ مزدور دے قصے:*

10 Ramzan ul Mubarak 1 st ashra complete 🤲🤲🤲Muhammad Tanveer bhatti
21/03/2024

10 Ramzan ul Mubarak 1 st ashra complete 🤲🤲🤲
Muhammad Tanveer bhatti

شاعری سے لگاؤ رکھنے والوں سےاس تصویر پر اک شعر کی گزارش ہے🥀
18/03/2024

شاعری سے لگاؤ رکھنے والوں سے
اس تصویر پر اک شعر کی گزارش ہے🥀

My lovely bro and My lovely friend Rao sanaullah Khan advocate kasur
15/03/2024

My lovely bro and My lovely friend Rao sanaullah Khan advocate kasur

سانوں پگاں پھبدیاں نیںساڈی  وکھری ٹور  نوابیساڈی قوم  اے شیراں  دی  سانوں کہندے لوگ پنجابی
14/03/2024

سانوں پگاں پھبدیاں نیں
ساڈی وکھری ٹور نوابی
ساڈی قوم اے شیراں دی
سانوں کہندے لوگ پنجابی

پیو دی حلا شیری شیر بنا دیندی کنڈ تے تھاپی مار دیلربنا دیندی
14/03/2024

پیو دی حلا شیری شیر بنا دیندی

کنڈ تے تھاپی مار دیلربنا دیندی

شیر پنجاب مولانا منظور احمد صاحب
13/03/2024

شیر پنجاب مولانا منظور احمد صاحب

Address

Pakistan Punjab Kasur
Kasur
55050

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Tanveer Bhatti posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Share