Weekly Shariah and Business

Weekly Shariah and Business Sharia and Business Magazine Official Page

05/12/2023

کاروباری مشکلات کے 7 حل
ایک زبردست ویڈیو، دیکھیے، شیئر کیجئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

22/11/2023

کتا اور ہماری توقعات
ایک دلچسپ کہانی
دوسروں سے اپنی امیدیں توڑ لیں، اپنی توقعات محدود کریں

21/11/2023

معاشی بائیکاٹ تاریخ کے آئینے میں
عالم اسلام میں کب کب بائیکاٹ کیا گیا؟
اہم رپورٹ سنیے اور رائے سے نوازیے

اظہار خیالانٹرویو: عبدالمنعم فائز کنسٹرکشن کا تعلق ہر شعبے سے ہونے کے سبب یہ نہایت مفید بزنس ہےاسرائیلی ظلم و ستم کی چکی...
16/11/2023

اظہار خیال
انٹرویو: عبدالمنعم فائز
کنسٹرکشن کا تعلق ہر شعبے سے ہونے کے سبب یہ نہایت مفید بزنس ہے
اسرائیلی ظلم و ستم کی چکی میں پستے فلسطین کے معروف بزنس مین جناب ثابت جواد عبید قدومی کی شریعہ اینڈبزنس سے خصوصی گفتگو
٭…… میرا خیال ہے آدمی کو ایک ذریعہئ معاش پر کفایت نہیں کرنی چاہیے، جو لوگ جاب وغیرہ کرتے ہیں، ان کے لیے یہ ذریعہ بیک اپ کا کام دے گا۔ ایسا بہت بار ہوتا ہے کہ آدمی کو کبھی اچانک نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں
٭……ایمان داری اور شفافیت کے ساتھ کاروبار کرنا چاہیے۔ یہ تجارت میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں
۔۔۔
قارئین! ہر ہفتے مختلف تاجروں کے زندگی بھر کے مفید اور نایاب تجربوں پر مشتمل انٹرویوز آپ کی خدمت میں پیش کیے جاتے ہیں۔ شریعہ اینڈبزنس کا یہ سلسلہ نہ صرف یہ کہ منفرد ہے، بلکہ قارئین کے لیے یہ ہمیشہ دلچسپی اور توجہ کا مرکز رہتا ہے۔ پیش کیے جانے والے انٹرویوز ملکی اور بین الاقوامی دونوں طرح کی شخصیات سے کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شخصیات کے ان تاثرات و تجربات سے قارئین کو بے حد فائدہ ہو رہا ہے۔ ہمارے مہمان حضرات زندگی بھر کے تجربات سے ہمیں آگاہ کرتے اور تجارتی ترقی کے نہایت اہم گر ہم سے شیئر کرتے ہیں۔ ان سے جہاں نئے تاجروں کو ایک راہ عمل ملتی ہے، وہیں بزنس کا شوق رکھنے والوں کو انتہائی حوصلہ بھی ملتا ہے۔ شریعہ اینڈبزنس کے تقریباً تین سالوں میں بے شمار شخصیات نے ہمیں وقت دیا اور ان کی خصوصی شفقت سے میگزین کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا۔ان شاء اللہ یہ سلسلہ جاری رکھا جائے گا، کیونکہ ہمارے نزدیک ایک تجربہ کار شخصیت کے ساتھ چند گھڑی کی نشست آدمی کو سیکڑوں کتابوں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔
اس شمارے میں پیش کیا جانے والا انٹرویو اپنی نوعیت کا منفرد اور اہم انٹرویو ہے۔ اس نشست کے مہمان برادر اسلامی ملک فلسطین کے معروف تاجر ثابت جواد قدومی ہیں۔ جی ہاں! وہی فلسطین جو ہر مسلمان کے دل کی ہر دھڑکن کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ جہاں ہماری تابندہ تاریخ کے کئی روشن نقوش موجود ہیں۔ جہاں کی مظلومیت پر ہمارا دل اکثر خون کے آنسو رویا کرتا ہے۔ جہاں اسرائیلی اور یہودی جارحیت کے سلسلے پھر کسی طارق، قاسم اور ایوبی کی ضرب کاری کے منتظر ہیں۔ سو، ہم یقینا چاہیں گے ہمیں پتا چلے ہمارے اس اجڑے اور زبوں حال برادر اسلامی ملک کا تاجر کس حال میں ہے؟ وہ کیا سوچتا ہے؟ اس کے مسائل کیا ہیں؟ وہ کن معاشی مشکلات سے نبرد آزما ہے؟ یہ انٹرویو جناب ثابت قدومی صاحب سے براہ راست آن لائن کیا گیا ہے۔ آپ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ آپ ایک معروف کنٹریکٹنگ کمپنی کے مالک ہیں۔ کمپنی کا نام ”نجاد کنٹریکٹنگ“ ہے۔ یہ فلسطین کی ایک قابل اعتماد کمپنی ہے۔ کمپنی مساجد، ہسپتال، فیفا پلے گراؤنڈ اور IAAF ایتھلیٹک ٹریکس بنانے کے حوالے سے مشہور ہیں۔ یہ انٹرویو انگریزی زبان میں کیا گیا۔ اس کا ترجمہ جناب انعام اللہ بھکروی نے کیا۔ آئیے! اب ان کی اہم ترین گفتگو ملاحظہ کرتے ہیں۔
٭٭
شریعہ اینڈ بزنس
سب سے پہلے ہم آپ کی شخصیت کے بارے میں جاننا چاہیں گے؟ اپنی زندگی سے متعلق مختصراً آگاہ کیجیے۔
ثابت جواد
میرا نام ثابت جواد عبید قدومی ہے۔ 24 دسمبر 1973 ء میں فلسطین میں پیدا ہوا اور اب بھی فلسطین کے علاقے ”رام اللہ“ میں رہائش پذیر ہوں۔ میری مشکل حالات میں پرورش ہوئی۔ گھریلو حالات کے ساتھ ملکی حالات بھی دگرگوں تھے۔فلسطین کے حالات عموماً خراب ہی رہتے ہیں۔ انہی حالات میں ہمیں اپنے دشمنوں سے بھی نمٹنا ہوتا ہے اور تعلیم و معاش کا سلسلہ بھی جاری رکھنا ہوتا ہے۔ بہرحال! اللہ کا فضل و کرم ہے۔ اسی کے سہارے زندگی گزر رہی ہے۔ الحمدللہ! سارے سلسلے کسی نہ کسی طرح چل رہے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
اپنے خاندان اور اپنے تعلیمی پس منظر کے بارے میں بھی آگاہ فرمائیے۔
ثابت جواد
میرے تین بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ ہم سب نے مختلف شعبوں میں یونیورسٹی کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ہم سات بہن، بھائیوں میں سے چار انجینئر ہیں۔ ہمارے والدین بھی تعلیم یافتہ تھے، جس کی وجہ سے ہماری توجہ کا مرکز تعلیم ہی رہی۔ میرے والد صاحب ایک ٹیچر تھے۔ میں نے 1992 ء میں میٹرک سائنس نمایاں پوزیشن کے ساتھ پاس کی۔ پھر میں نے مزید تعلیم کے لیے بغداد کی طرف رخت سفر باندھا۔ وہاں جا کر بغداد یونیورسٹی میں کیمیکل انجینئرنگ پڑھنے لگا۔ تین سال تک وہیں تعلیم پاتا رہا۔ پھر اپنے وطن فلسطین لوٹا کہ والدین، بہن بھائیوں اور رشتے داروں کو مل سکوں۔ جب دوبارہ بغداد جانے لگا تو اسرئیلی حکومت نے روک دیا کہ آپ بغداد نہیں جا سکتے۔ آپ کو فلسطین سے باہر جا کر تعلیم جاری رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ یہ دیکھ کر مجھے بے حد رنج ہوا۔ یہ لمحات میرے اوپر یوں بھی گراں گزرے کہ میں اپنی علم کی پیاس بجھانا چاہ رہا تھا اور اس کے لیے میں پرجوش بھی تھا۔ مجبوراً مجھے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنی پڑی اور میں نے 1996ء میں فلسطینی یونیورسٹی ”النجاح نیشنل یونیورسٹی“ میں ایڈمیشن لے لیا۔ یہاں پر میں اپنی تعلیم مکمل کر لی۔ میں نے سول انجینئرنگ کے شعبے میں داخلہ لیااور اسے مکمل کیا۔ میں ”النجاح“ سے 2001 ء میں فارغ التحصیل ہوا۔
شریعہ اینڈ بزنس
آپ تو انجینئرنگ کے شعبے سے وابستہ تھے، بزنس کی طرف کیسے آنا ہوا؟
ثابت جواد
اس کی کہانی در اصل میری ایک سوچ سے جڑی ہوئی ہے۔ہوا یہ کہ 2001 ء میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہی میں نے سائٹ انجینئر کے طور پر ملازمت شروع کر دی۔ فلسطین میں ہی ایک کنٹریکٹنگ کمپنی تھی، اس میں ایک سال تک جاب کی۔ 2002 ء میں ایک انٹرنیشنل آرگنائزیشن میں مجھے ایک اچھی جاب مل گئی۔ ان اچھی نوکریوں کے باوجود میں سمجھتا تھا آدمی کا اپنا بزنس ہونا چاہیے۔ اپنے اسی نکتہئ نظر کی وجہ سے نوکری کے ساتھ مجھے اپنا بزنس کرنے کا بھی شوق تھا۔ میرا خیال ہے آدمی کو ایک ذریعہئ معاش پر کفایت نہیں کرنی چاہیے، جو لوگ جاب وغیرہ کرتے ہیں، ان کے لیے یہ ذریعہ بیک اپ کا کام دے گا۔ ایسا بہت بار ہوتا ہے کہ آدمی کو کبھی اچانک نوکری سے ہاتھ دھونا پڑ جاتے ہیں۔ ایسے عالم میں انسان کے ہاتھ پاؤں ہی پھول جاتے ہیں۔ اس کے پاس اتنی جمع پونجی بھی نہیں ہوتی کہ بیٹھ کر کھا سکے اور اتنا سرمایہ بھی نہیں ہوتا کہ کوئی کاروبار ہی شروع کر لے، لہذا ایک زیرک انسان کو چاہیے کہ اپنی بچت کو جمع رکھے۔ جس قدر ممکن ہو سرمایہ اکٹھا کرنے کی کوشش کرے۔ پھر جب اس کے پاس اتنی رقم جمع ہو جائے کہ کوئی چھوٹا موٹا کاروبار شروع کر سکتا ہو تو اللہ پر بھروسہ کر کے تجارت کا آغاز کر لے۔ ان شاء اللہ اس میں ضرور برکت ہو گی۔ اس لیے کہ حدیث پاک کے مطابق اللہ تعالی نے رزق کا 90 فیصد حصہ تجارت میں ہی رکھا ہے۔ الغرض، میں نے بھی اسی طرح اللہ پر توکل کیا اور 2003 ء میں کنٹریکٹنگ کمپنی کی بنیاد رکھ کر اسے رجسٹرڈ کروالیا۔ الحمد للہ! اس کمپنی نے بہت جلد ترقی کی۔ اللہ نے میرے منصوبے کے مطابق اسے جلد پروان چڑھایا۔ ابتدا میں ہم چھوٹے چھوٹے پروجیکٹس پر کام کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ کام بڑھتا گیا، یہاں تک کہ 2012 ء تک ہماری کمپنی مضبوط ہو چکی تھی۔ اب ہم بڑے پروجیکٹس پر بھی کام کرنے لگے ہیں۔
شریعہ اینڈ بزنس
کیا آپ اپنی بزنس لائف میں مختلف ٹرننگ پوائنٹ ہمارے قارئین کے ساتھ شیئر کرنا پسند کریں گے؟
ثابت جواد
بالکل! کیوں نہیں۔ میری بزنس لائف کے دو ٹرننگ پوائنٹس ہیں۔ یہ میرے لیے انتہائی مشکل تھے اور بعض میرے دوستوں نے اس سے منع کیا، لیکن میں نے رسک لیا اور جو چاہتا تھا، کر گزرا۔ اس سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ یہ موڑ ہر انسان کی زندگی میں آتے ہیں۔ ان مواقع پر آدمی کے پاس ایک زیرک دماغ اور ایک باحوصلہ دل ضرور ہونا چاہیے۔ اس لیے کہ اسے یہاں نہایت اہم فیصلہ کرنا ہوتا ہے، نیز اسے کسی بھی ناخوشگوار صورت حال سے بھی نمٹنا ہوتا ہے۔ ہر انسان بالخصوص ہر تاجر کو ضرور ذہناً اس کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ بہرحال! میری زندگی میں پہلا ٹرننگ پوائنٹ تو یہ تھا کہ میں ملازمت سے تجارت کی طرف آیاتھا۔ میں اپنا بزنس شروع کیا تھا۔ یہ بھی ایک انتہائی مشکل مرحلہ تھا۔ میرے اللہ کی مدد شامل حال رہی اور میں اپنا بزنس شروع کرنے میں کامیاب رہا۔ دوسرا یہ کہ اب میں نے رسک لے کر فلسطین سے باہر بھی اپنا بزنس کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دیگر ممالک میں بزنس اسٹارٹ کر کے میں یہ چاہتا ہوں میرے وطن کو خوب خوب فائدہ ہو۔ چنانچہ آپ کو اپنا تازہ منصوبہ بتاتا ہو کہ اسی سال 2015 ء میں میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ملک اردن میں بزنس شروع کر رہا ہوں۔ اگر آپ فلسطین کے حالات سے واقف ہیں اور یقینا ہیں تو آپ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنا مشکل فیصلہ ہے۔ میں نے یہ شروعات کر کے بہت سے مسائل کو مول لے لیا ہے۔ مگر مجھے اس اللہ پر مکمل بھروسہ ہے جو تمام دنیا کا پالنے والا اور ہر ایک کا کارساز ہے۔ آپ دعا فرمائیے، اللہ تعالی اس اقدام کو کامیابی سے ہمکنار کرے۔
(جاری ہے)

تازہ شمارہ شائع ہو چکا ہے۔۔۔
16/11/2023

تازہ شمارہ شائع ہو چکا ہے۔۔۔

06/11/2023

مہنگائی کیوں ہوتی ہے؟
مہنگائی بڑھنے سے متعلق ایک دلچسپ کہانی
Why Inflation is increasing? .........

01/11/2023

معروف تاجر کی حیرت انگیز کہانی
کباڑیے سے لے کر کمپنی مالک بننے تک کی کہانی

تازہ شمارہ شائع ہو چکا ہے:
24/10/2023

تازہ شمارہ شائع ہو چکا ہے:

0321-3210355021-36622597 021-36880385بیرون ملک لگوانے کے لئے رابطہ کریں:0321-32103550321-2000224واٹس اپ نمبر:0321-321035...
18/10/2023

0321-3210355
021-36622597
021-36880385
بیرون ملک لگوانے کے لئے رابطہ کریں:
0321-3210355
0321-2000224
واٹس اپ نمبر:
0321-3210355

بے روزگاری کے اسباب1 جہالت: شعبہ تعلیم کا ناقص ہونا، جہالت کا پھیل جانا اور لوگوں کو بے روزگاری کے نقصانات سے آگاہ نہ کر...
16/10/2023

بے روزگاری کے اسباب
1 جہالت: شعبہ تعلیم کا ناقص ہونا، جہالت کا پھیل جانا اور لوگوں کو بے روزگاری کے نقصانات سے آگاہ نہ کرنا بے روزگاری کا بنیادی سبب ہے۔
2 مشین اور آلات: بے روزگاری کے اضافے میں صنعت کے لیے انسانوں کے بجائے جدید مشینری، آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال اور صنعتی اداروں کی سرگرمیوں میں کمی کی وجہ سے روزگار کی فراہمی میں کمی ایک اہم سبب ہے۔
3 حق سے محرومی: کسی شخص کو اس کی اہلیت و قابلیت کی سطح سے کم سطح کے کام پر لگانا اور جو کام ایک کثیر مقدار کے افراد کے کرنے کا ہوتا ہے، وہی کام لوگوں کو مشقت و تکلیف میں مبتلا کر کے کم اور قلیل افراد سے لینا۔
4 مہارت کی کمی: بے روزگاری کا ایک سبب مہارت کی کمی ہے۔ آج کل نوجوان طبقہ جس کسی شعبے کی طرف رجوع کرتے ہیں تو سرسری سی تعلیم حاصل کر کے فوراً نوکری کی تلاش میں لگ جاتے ہیں، حالانکہ کسی بھی شعبے میں اختصاص اور مہارت نہایت اہم اور ضروری ہے۔
5 غیر مستقل مزاجی: کسی ایک جگہ کام نہ کرنا، بلکہ ایک نوکری سے استعفا دے کر دوسری نوکری کی تلاش میں لگ جانا اور اس کو عادت بنا لینا بھی بے روزگای کا سبب ہے۔
6 طاقت سے بڑے سپنے: نوجوانوں کو ابتدائی تعلیم کے بعد کوئی بہتر رہنمائی نہیں ملتی کہ مارکیٹ لیول پر کس قسم کی جابز اور بزنس کی مانگ زیادہ ہے اور جس نوجوان کے ہاتھ میں ڈگری آ جائے وہ بڑے جاب کے انتظار میں بیٹھا رہتا ہے اور نچلی سطح کی جاب میں عار محسوس کرتا ہے۔
7 علاقے کے امیدواران کو نوکری سے محروم کرنا: اپنے علاقے، ملک اور معاشرے کے افراد کے بجائے دوسرے علاقوں اور ممالک کے افراد کو نوکریاں دینا کسی بھی علاقے کے اندر بے روزگاری کا سبب بن سکتا ہے۔
8 عالمی حالات: ان کے علاوہ کساد بازاری، موسموں کا تغیر، ملکوں کی باہمی جنگیں، سستی و کسل مندی اور والدین کی کمائی پر قناعت اور دیگر عالمی معاشی اسباب بھی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔

مولانا محمد طلحہ صدیقیفاضل: جامعۃ الرشید کراچی(فوڈسائنٹسٹ وحلال لیڈ آڈیٹر: 0333-3571770)مغرب سے درآمد کردہ مرغی حلال و ح...
15/10/2023

مولانا محمد طلحہ صدیقی
فاضل: جامعۃ الرشید کراچی
(فوڈسائنٹسٹ وحلال لیڈ آڈیٹر: 0333-3571770)
مغرب سے درآمد کردہ مرغی
حلال و حرام کی تفصیل
حلال و حرام کا مسئلہ اس وقت ساری امت مسلمہ کے لےے توجہ طلب ہے اور غذائی سائنس میں بے انتہا ترقی کی وجہ سے ہر ایک کے لےے اجزائے ترکیبی اور حقیقت حال کا واقف ہونا آسان نہیں کہ اس کے ہاتھ میں آنے والی چیز آیا حلال ہے یا حرام یا مشکوک؟ مقامات مقدسہ یعنی حرمین شریفین کی زیارت کو آنے والے لاکھوں عازمین بھی اس معاملے میں مضطرب نظر آتے ہیں۔ سعودی عرب میں تقریباً 46 فیصد گوشت مغربی ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ باقی ماندہ وہاں مقامی طور پر کام کرنے والے بڑے سلاٹر ہاؤس زندہ جانور بیرون ملک سے امپورٹ کرتے ہیں۔ باخبر لوگوں کو حلال کے حوالے سے مکمل اطمینان نہیں ہے، کیونکہ زیادہ تر سلاٹر ہاؤس بھی غیر ملکی ہیں اور وہاں کام کرنے والا عملہ اور نظام بھی۔ بندہ کو کئی مرتبہ پاکستان و سعودی عرب کے مقامی علما کی طرف سے اس بابت تحقیق کرنے کا کہا گیا، چنانچہ سعودی عرب کے ایک بڑے برانڈ کے احوال پیش خدمت ہیں۔
بندہ مورخہ 5 جولائی 2017 ء کو جدہ سے براستہ مکہ ہائی وے مکہ مکرمہ اور طائف کے درمیانی علاقہ الزائمہ (Al Zymah) میں واقع سعودی عرب کے نامی گرامی اور وسیع پیداواری صلاحیت رکھنے والے چکن سلاٹر ہاؤس ''الفقیہ'' کے دورے پر روانہ ہوا۔ الفقیہ کے چکن سلاٹر ہاؤس کے فیکٹری منیجر (مدیر مصنع) محترم ذوالفقار حیدر نے پرتپاک استقبال کیا۔ رسمی گفتگو اور چائے کے دوران حلال انڈسٹری سے متعلق اور سلاٹر ہاؤس میں مختلف عالمی معیارات برائے حفظان صحت کے تناظر میں کیا کام کرنے چاہییں، جیسے موضوعات پر گفتگو چلتی رہی۔
اس کے بعد سلاٹر ہاؤس کے تفصیلی وزٹ کا آغاز ہوا۔ جناب ذوالفقار حیدر نے کمال شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی ساری مصروفیات ترک کر کے اپنی ٹیم کے ہمراہ ہمیں وقت اور توجہ عنایت کی۔ وزٹ کے آغاز میں ہمیں حفظان صحت کے اصولوں کے تحت کوٹ، دستانے اور ماسک وغیرہ پہنائے گئے۔ ساتھ ساتھ بنیادی معلومات بھی فراہم کی گئیں۔
ان معلومات کے مطابق ''الفقیہ'' میں 3 لاکھ مرغی یومیہ ذبح کی جاتی ہے۔ 24 گھنٹوں میں سے 20 گھنٹے کام ہوتا ہے اور عملہ 10 گھنٹے ڈیوٹی سرانجام دیتا ہے۔ پھر دوسری شفٹ میں 10 گھنٹے کی ڈیوٹی دوسرا عملہ کرتا ہے۔ چار گھنٹے روزانہ صفائی ستھرائی کے لےے مختص ہیں۔ یوں 20 گھنٹے میں مجموعی پیداوار 3 لاکھ یومیہ ہے۔ فی الحال ساتھ یہی پلانٹ وسیع کرنے کے لےے کام تکمیل کے مرحلے میں ہے۔ منتظمین کے بقول ستمبر 2017 ء تک پلانٹ کی پیداواری صلاحیت 5 لاکھ یومیہ تک پہنچ جائے گی اور اس کے ساتھ ہی یہ پلانٹ سعودی عرب کا سب سے بڑا پلانٹ بن جائے گا۔
''الفقیہ'' چکن سلاٹر ہاؤس میں مرغیاں الفقیہ کے اپنے فارم سے آتی ہیں، جو کہ سعودی عرب میں مختلف جگہ پر واقع ہیں۔ برڈ ریسورسنگ ایریا میں مرغیاں آتی ہیں اور وہاں ایک کنویئر چین سے ہوتی ہوئے مرکزی پراسیسنگ چین میں پہنچتی ہیں۔ وہاں ورکرز مرغی ہاتھوں سے اٹھا کر اس کو چین میں سر کے بل لٹکا دیتے ہیں۔ مرغیوں کا سر پہلے مرحلے میں پانی کے ایک لمبوترے ٹینک میں چند سیکنڈ کے لےے ڈبویا جاتا ہے، جس میں نمک ملا ہوتا ہے، تاکہ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جائے اور یہ عمل پرسکون بنانے کے لےے کیا جاتا ہے۔ یہاں اسٹننگ نہیں کی جاتی عموماً، لیکن اگر مرغی بڑی ہو اور 1.5 kg تک یا اس سے زیادہ ہو تو پھر پانی میں 40D.C کا کرنٹ پاس کیا جاتا ہے۔
بندہ نے خود کئی ایک مرغیاں پانی میں ڈپ ہونے کے بعد چلتی چین سے اتروائیں اور ذبح ہونے سے پہلے ان کی حرکت دیکھی۔ تمام مرغیاں نارمل ہوتی ہیں، ذبح ہونے سے پہلے اس عمل سے تھوڑا سا سکون مل جاتا ہے اور مرغی کم پھڑپھڑاتی ہے۔ یہ عمل ذبح کو آسان بنانے کے لےے کیا جاتا ہے۔دو یونٹس میں 3 لاکھ اور 2 لاکھ مرغیاں یومیہ ذبح کی جاتی ہیں۔ پلانٹ ون میں جہاں 3 لاکھ مرغی یومیہ 20 گھنٹے دو شفٹوں میں ذبح کی جاتی ہیں، وہاں عمل ذبح کو بہ غور دیکھا اور شرعی اصولوں کے مطابق جانچا۔ پلانٹ ون میں 2 پروڈکشن لائن ہیں۔ ایک پروڈکشن لائن میں اطراف میں 11 ذبح کرنے والے بروقت ذبح کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ تقریباً 15 افراد ایک لائن میں ڈیوٹی پر ہوتے ہیں، لیکن 15 میں سے 4 اسٹینڈ بائی میں ہوتے ہیں۔ ہر سوا گھنٹے بعد ہر ذابح کو کچھ منٹ کا آرام دیا جاتا ہے۔ یوں 11 لوگ ہر وقت موجود ہوتے ہیں۔
جہاں ذبح کا عمل ہوتا ہے اس سے کچھ آگے پراسس لائن پر ایک اور ذابح صرف یہ ممکن بنانے کے لےے کہ کوئی مرغی صحیح سے ذبح نہ ہوئی ہو تو صحیح سے ذبح کر دی جائے، نگرانی میں کھڑا ہوتا ہے۔ اور ان سب ذابحین کی ایک سپروائزر نگرانی کرتا ہے۔ یہ سارے لوگ جو ذبح کے عمل میں کسی طور پر براہ راست شریک ہوتے ہیں، ان کا مسلمان ہونا ضروری ہے۔
ذبح کے عمل کے بعد مرغی کو Cool Chain سے گزارا جاتا ہے، تاکہ گوشت کی ہیٹ ٹھوس ہو جائے۔ اس کے بعد عملہ گریڈنگ کرتا ہے۔ سب سے اعلیٰ اور اعلیٰ گوشت کی، تاکہ اس کو قیمت کے تفاوت سے فروخت کیا جا سکے۔ یہ تفاوت مجموعی کوالٹی کے لحاظ سے ہوتا ہے، جبکہ پورے عمل کے دوران معیار کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ اس کے بعد پیکنگ کا مرحلہ ہوتا ہے۔ اور فوڈ گریڈ معیاری پیکنگ کرنے کے بعد اس کو کولڈ اسٹوریج میں بھیج دیا جاتا ہے۔ یہاں گوشت سے بنی ہوئی ویلیو ایڈڈ پروڈکٹس بھی تیار ہوتی ہیں، جیسے ساسیجرہ، کباب وغیرہ۔
ان کے بارے میں مکمل اجزائے ترکیبی کی جانچ پڑتال کے بغیر کوئی فیصلہ بندہ نہیں کر سکتا، جب تک ترکیبات میں ڈلنے والے اجزائے ترکیبی کی مکمل جانچ پڑتا نہ کرلی جائے اور اس کو شرعی اصولوں کے مطابق پرکھ نہ لیا جائے۔ جہاں تک بات ہے مرغی کے گوشت کی تو 1.5 کلو یا اس سے زیادہ بڑی مرغیوں میں ''اَحوط'' (احتیاط کے زیادہ قریب) یہ ہے کہ اس کے استعمال سے احتراز کیا جائے، نیز مروجہ جی ایس او حلال اسٹینڈرڈ برائے سلاٹرنگ میں ا س گنجائش بھی نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ 1.5 کلو سے چھوٹی مرغیوں کو بلاشک و شبہ استعمال کر سکتے ہیں۔

10/10/2023
انٹرویو:عبدالمنعم فائز، انعام اللہ بھکرویضبط و ترتیب: طالب محمد ممتازہم By Choice غریب، By Nature امیر ہیںسندھ ڈیری فارم...
07/10/2023

انٹرویو:عبدالمنعم فائز، انعام اللہ بھکروی
ضبط و ترتیب: طالب محمد ممتاز
ہم By Choice غریب، By Nature امیر ہیں
سندھ ڈیری فارم کے سربراہ جناب جمیل میمن کی شریعہ اینڈ بزنس سے گفتگو
(تیسری و آخری قسط)
٭۔۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر ہے کہ گندم کی فصل، کپاس کی فصل، حکومت جتنی کرپشن کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اتنی بڑھا دیتے ہیں، جو گندم 8 من دیتی تھی، آج 80 من دے رہی ہے۔ تو صرف اللہ کی رحمت ہے کہ یہ ملک چل رہا ہے
٭۔۔۔۔۔۔ 365 دن اللہ تعالیٰ نے یہاں دھوپ دی ہے۔ سال میں 4 فصلیں یہاں آتی ہیں۔ ہمارے غریب ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! بلکہ ہم تو دنیا کو چندہ دینے کے قابل ہیں۔ 1965ء میں جرمنی اور جاپان کو ہم نے امداد دی ہے، جو کئی کروڑ ڈالر تھی۔ لیکن بیڈ گورننس کی وجہ سے پھر رفتہ رفتہ بھکاری ہو گئے
٭٭٭
شریعہ اینڈ بزنس
آپ بزنس کمیونٹی اور ایسوسی ایشن میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں، سیاسی جماعتوں کو آپ نے نزدیک سے دیکھا ہے، جس طرح ترکی میں طیب اردگان کے آنے سے رفتہ رفتہ پورے ملک میں انقلاب آیا، یہاں خصوصاً کراچی میں بزنس کمیونٹی کسی با صلاحیت جماعت یا فرد کا انتخاب کیوں نہیں کرتی اور اسے آگے لانے کی کوشش کیوں نہیں کرتی، جس سے کراچی، سندھ اور پورے ملک کے حالات بہتر ہوں؟
جمیل میمن
گزشتہ کئی سالوں میں میرے خیال میں الیکشن کا موقع ہی نہیں آتا تھا، سلیکشن ہوتی تھی۔ سندھ کو سندھی وڈیروں نے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ یہاں تو بادشاہت ہونی چاہیے، کیونکہ جہاں 99 فیصد لوگ پڑھے لکھے ہوں، وہاں جمہوریت ہوتی ہے، یہاں تو 88 فیصد لوگ جاہل ہیں، 12 فیصد پڑھے لکھے ہیں، اس میں جمہوریت کیا فائدہ دے گی؟ اس کے تو پڑھے لکھے معاشرے میں اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں، ہمارے معاشرے کے لیے بادشاہت ہی ضروری ہے، سخت قسم کا مارشل لاء ٹائپ کی چیز آئے، سخت گیر آدمی ہو، نہ خود کھائے، نہ کھانے دے۔ پھر یہ ملک دنیا کے بہترین ملکوں میں سے ہو گا۔
جتنے وسائل اللہ تعالیٰ نے ہمیں دیے ہیں، وہ بڑے بڑے ملکوں کو حاصل نہیں۔ 365 دن اللہ تعالیٰ نے یہاں دھوپ دی ہے۔ سال میں 4 فصلیں یہاں آتی ہیں۔ ہمارے غریب ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا! بلکہ ہم تو دنیا کو چندہ دینے کے قابل ہیں۔ 1965ء میں جرمنی اور جاپان کو ہم نے امداد دی ہے، جو کئی کروڑ ڈالر تھی۔ لیکن بیڈ گورننس کی وجہ سے پھر رفتہ رفتہ بھکاری ہو گئے۔ اب ہم دینے کے بجائے لینے کے عادی ہو گئے ہیں۔ حالانکہ ان کے پاس کچھ نہیں ہے، ہم وسائل سے مالا مال ہیں، ایٹمی طاقت ہیں، سب سے بڑا نہری نظام یہاں ہے، ہر چیز ہمارے پاس ہے۔
میں 2015ء میں USA میں تھا۔ میں ایک بڑی کمپنی کے ساتھ 30 دن کے ٹوَر پر گیا تھا۔ ہماری لیڈر مونیکا تھی۔ انہوں نے ہمیں گھاس دکھائی، جو ان کے گمان کے مطابق بہت بڑی تھی۔ میں نے کہا کہ یہ گھاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ میں نے مونیکا کو کہا کہ ہمارے ہاں تو جوار کی گھاس 12، 12، 13، 13 فٹ چلی جاتی ہے۔ وہ کہنے لگی: ''Unbeleiveable!'' میں نے اپنی زمین کے فوٹو منگوا لیے، تین مہینے پہلے کے فوٹو تھے۔ میں کھڑا ہوا ہوں، میں نے ہاتھ اوپر کیے ہوئے تھے اور اس سے بھی اوپر گھاس تھی۔ تو وہ کہنے لگی کہ آپ کے ہاں پانی کا کیا سورس ہے؟ میں نے کہا کہ مفت پانی ہے۔ کہنے لگی: ٹیکس کیا ہے؟ میں نے کہا: نِل ٹیکس ہے۔ دو سو روپے فی ایکڑ سال کا ہے، لیکن وہ بھی کوئی نہیں بھرتا۔ میں نے کہا اگر ہری پانی نہ ہو تو ہم انڈر گراؤنڈ پانی اٹھا لیتے ہیں، ٹیوب ویل کا، کنویں کا۔ کہنے لگی: اس پر کیا چارجز ہیں؟ میں نے کہا: صرف بجلی کا چارج ہیں۔ دلچسپی سے اور بھی بہت بہت سوالات پوچھتی رہی۔ میں نے کہا کہ اس گھاس کی ہم سال میں 4 کٹنگ لیتے ہیں اور یہ 12 مہینے، 365 دن ہرا بھرا ہوتا ہے، کبھی بھی خشک نہیں ہوتا۔ سردی میں تھوڑی کم پیداوار دیتا ہے، گرمی میں ایک دم زیادہ دیتا ہے، برسات میں اس سے زیادہ دیتا ہے، پورے 12 مہینے ہریالی ہوتی ہے۔ کافی سوالات پوچھتی رہی، تقریباً دو گھنٹے بحث رہی، وہ اپنی کاپی میں نوٹ کرتی رہی، آخر میں کہنے لگی: پھر آپ کا ملک غریب کیوں ہے؟ میں نے کہا کہ ہم by choice غریب ہیں، by nature امیر ہیں۔ اپنی خوشی سے ہم غریب ہیں۔
واقعی یہی مسئلہ ہے، وسائل سے بھرپور ملک ہونے کے باوجود اسے دیانت دار اور کام کرنے والی حکومت نصیب نہیں ہے۔ جو نیا لیڈر آتا ہے، وہ پہلے سے زیادہ کرپٹ ہوتا ہے۔ ان کے 200 ارب ڈالر تو صرف سوئیزرلینڈ میں پڑے ہوئے ہیں۔ اتنا زرخیز یہ ملک ہے، اتنی بہترین فصلیں ہیں، وہاں صرف ایک فصل ہوتی ہے، تین مہینے کے لیے برف ہٹتی ہے، فصل ہوتی ہے، گھاس چارہ اگا لیتے ہیں، باقی نو مہینے برف پڑی ہوتی ہے، اس میں وہ خوشحال ہیں، یہاں 12 مہینے فصل ہے اور ہم لوگ بھوکے ہیں۔
حضرت عمر کے دور میں دیہات میں ایک باپ، بیٹا بھیڑ چرا رہے تھے، اس کے بھیڑ کو بھیڑیا کھا گیا۔ باپ رونے لگا۔ بیٹا کہنے لگا: ہمارے پاس بہت مویشی ہیں، آپ کیوں روتے ہو؟ باپ بولا: اس لیے نہیں روتا، بلکہ اس لیے رو رہا ہوں کہ حضرت عمر کا وصال ہو گیا ہے، اگر وہ زندہ ہوتے تو بھیڑیے کی مجال نہیں تھی کہ میرا بھیڑ کھاتا۔ یہ حکمران کے اثرات ہوتے ہیں۔ حکمرانوں کی بد عنوانیوں کا نتیجہ ہے پورا ملک نیچے چپراسی تک بے ایمان ہو گیا ہے۔ اب اس ملک سے کیا امید رکھی جا سکتی ہے۔
بس اللہ کا شکر ہے کہ لوگ قابل ہیں، گورنمنٹ ہر سال کھڈا کرتی ہے، لوگ اس کو بھر دیتے ہیں، ورنہ ہمارا برما سے برا حال سو سکتا ہے۔ 20، 25 سال پہلے برما کی میں نے تصویر دیکھی تھی کہ ایک ترازو میں نوٹوں کے بنڈل پڑے ہیں، ایک میں مچھلی ہے، عورت اسے نوٹوں سے تول کر دے رہی ہے۔ بینک نوٹ گن کر نہیں لیتا تھا، بلکہ وزن کر کے لیتا تھا، 4کلو 300 گرام نوٹ وصول ہوئے۔ ہم کوئی آسمان سے اترے ہوئے نہیں ہیں، ہمارے ہاں بھی یہ ہو سکتا ہے، مگر اللہ کا شکر ہے کہ گندم کی فصل، کپاس کی فصل، حکومت جتنی کرپشن کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اتنی بڑھا دیتے ہیں، جو گندم 8 من دیتی تھی، آج 80 من دے رہی ہے۔ تو صرف اللہ کی رحمت ہے کہ یہ ملک چل رہا ہے۔ لوگوں میں ٹینلٹ کی کوئی کمی نہیں ہے، لوگ محنتی بھی ہیں، وسائل بھی ہیں، صرف کمی ہے تو حکومت کی پلاننگ کی۔ اس کی وجہ سے ہمارا ملک دنیا میں پیچھے ہے۔
اسی ناقص حکومتی پالیسیوں کی بنا پر رفتہ رفتہ سارا ٹینلٹ باہر منتقل ہو رہا ہے۔ ملائیشیا میں اتنے پاکستانی بلڈر ہیں کہ بلڈنگیں پوری ہو گئی ہیں، رہنے والا کوئی نہیں ہے۔ اتنی بلڈنگیں ہمارے بلڈروں نے جا کر بنا دی ہیں۔ بنگلہ دیش کا بھی ٹیکسٹائل میں یہی حال ہے، آسمان پر چلا گیا ہے، حالانکہ کسی وقت میں ہمارا روپیہ اس کا دو روپیہ ہوتا تھا، اب ڈھائی ٹکے ایک روپیہ کے برابر ہے، پانچ گنا ہم ان سے پیچھے چلے گئے ہیں۔ تو ترقی اسی صورت میں ممکن ہے کہ اس ملک کو صالح، امانت دار اور باصلاحیت حکومت میسر آئے، ورنہ تو ہم اپنے ہاتھوں خود کو تباہ کر رہے ہیں۔

یہاں جو جگہ بچی ہے، شریعہ اینڈبزنس کا کوئی اشتہار لگا دیں یا پھر تجارتی اخلاقیات کا اشتہار لگا دیں

کامیاب کاروبارکسی دور میں کاروبار بہت سادہ تھا۔ آپ کے پاس جو چیز زائد ہے، اسے لے کر بازار میں گئے اور اس کے بدلے دوسری چ...
05/10/2023

کامیاب کاروبار
کسی دور میں کاروبار بہت سادہ تھا۔ آپ کے پاس جو چیز زائد ہے، اسے لے کر بازار میں گئے اور اس کے بدلے دوسری چیز لے آئے۔ مگر وقت پر لگا کر اڑتا رہا۔ بزنس کی دنیا میں تیزی سے تبدیلی آتی رہی۔ بارٹر کے دور کے بعد سونے چاندی کا دور آیا۔ سونے اور چاندی کے ذریعے بیچا اور خریدا جانے لگا۔ وقت تھوڑا اور آگے بڑھا تو سکے ایجاد ہوگئے۔ انسان نے سکوں کے ذریعے تجارت شروع کردی اور ملکوں ملکوں خرید و فروخت کے لےے جانے لگا۔ پندرہویں صدی تک سوداگروں کا دور رہا۔ سوداگر کا کام بازار بازار گھومنا، شہروں شہروں جانا اور ملکوں ملکوںنئی چیزیں تلاش کرنا تھا۔ اس دور میں سب سے بڑا مسئلہ کسی بھی قدرتی چیز تک رسائی تھا۔ قدرت نے دنیا کے ہر خطے میں نت نئی چیزیں فراہم کررکھی تھیں، ان چیزوں کو اپنے ملک لانا اور وہاں کے باشندوں تک پہنچانا سب سے بڑا چیلنج ہوتا تھا۔ عمومی طور پر پروڈکٹ انوویشن یا اختراعی مصنوعات تیار کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی تھی۔ فاصلے لمبے تھے، فاصلوں کو سمیٹنے کا ذریعہ گھوڑا، گدھا اور خچر تھے۔
پندرہویں صدی کے بعد دنیا میں تجارت کی دوڑ تیز ہوگئی۔ پہلے افراد سوداگر ہوا کرتے تھے، مگر اب حکومتیں سوداگر بن گئیں۔ حکومتوں نے اپنے وسائل تجارت میں جھونک دےے، اپنی کمپنیاں بنائیں، بہت بڑی سرمایہ کاری کی، ملکوں ملکوں اپنی منڈی پھیلائی، تجارتی گزرگاہوں پر قبضے جمائے اور آخر کار خریدار ملکوں کو بھی اپنا غلام بنا لیا۔
اب تحقیقات ہوئیں، تجربات ہوئے اور ایجادات کا میدان ہموار ہونے لگا۔ انجن ایجاد ہوا اور انیسویں صدی میں مشین نے انسان کی جگہ لینا شروع کی۔ اب خود بخود انڈسٹریز کا رستہ ہموار ہونا ہی تھا۔ دنیا میں پہلی بار انڈسٹری لگانے کی سوچ پیدا ہوئی۔ پارٹنر شپ کی بنیاد پر بڑے بزنس وجود میں آئے۔ پہلی دفعہ منیجر کا تصور پیش کیا گیا۔ انتظامیہ میں درجہ بندی ہوئی اور منیجمنٹ کے نت نئے تصورات متعارف ہوگئے۔
انیسیویں صدی کو ہم تبدیلیوں کی صدی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس صدی میں ٹیلی فون ایجاد ہوا اور رابطے کے ذرائع انتہائی تیز ہوگئے۔ بحری رستوں سے چیزوں کی آمد و رفت انتہائی تیز ہوگئی۔ تیل، اسٹیل، ربڑ وغیرہ کئی بڑی انڈسٹریز قائم ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی کاروں، گاڑیوں اور جہازوں کی دوڑ شروع ہوگئی۔ کاریں بنیں اور نت نئی بنیں، گاڑیاں ایسی بنیں کہ ہوا تک میں اڑنے لگیں، جہاز بنے اور بغیر پائلٹ کے بھی سفر کرنے لگے۔ موبائل فون متعارف ہوئے اور انسان ہر ہر لمحے رابطے میں آگیا۔
اب ایک نئے دور کا آغاز ہوا ہے۔ اس دور میں بزنس کی بادشاہت کا تاج انٹرنیٹ کے سر پر سجا ہے۔ اب وہی بزنس پھلے پھولے گا جو انٹرنیٹ سے منسلک ہوجائے گا۔ آپ فیس بک، گوگل، مائیکروسافٹ اور ای بے کا مطالعہ کریں۔ اب ایک تہہ خانے میں اکیلا بیٹھنے والا ارب پتی بن رہا ہے۔ اب ارب پتی بننے کے لےے سالوں نہیں دنوں اور گھنٹوں کا انتظار ہے۔ موبائل انٹرنیٹ پر بزنس کے اتنے مواقع ہیں کی عقل دنگ ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق صرف موبائل انٹرنیٹ پر گیارہ ٹریلین ڈالر کا بزنس ہوسکتا ہے۔ مصنوعی ذہانت اور بگ ڈیٹا سے منسلک بزنس کا حجم سات ٹریلین ڈالر کی حد کو چھوسکتا ہے۔ کلاؤڈز متعارف ہوچکے ہیں۔ صرف کلاؤڈز کے ذریعے دنیا میں چھ ٹریلین ڈالر کا بزنس منسلک ہے۔ ان تمام اعداد و شمار کو دیکھ کر اپنے کاروبا رپر نظر کریں اور یاد رکھیں: روایتی کاروبار اب دم توڑ رہے ہیں۔ اب کامیاب کاروبار وہی ہے، جو جدید ٹیکنالوجی سے منسلک ہوگیا۔ آپ بھی کچھ ایسا سوچ رہے ہیں کہ نہیں؟

ایک کامیاب شخص کی زندگی کے 11 فارمولے1 تنخوہ مت لیں تنخواہ آپ کو کبھی دولت مند نہیں بنائے گی۔2 آپ اپنی رقم سے کبھی سرمای...
03/10/2023

ایک کامیاب شخص کی زندگی کے 11 فارمولے
1 تنخوہ مت لیں تنخواہ آپ کو کبھی دولت مند نہیں بنائے گی۔
2 آپ اپنی رقم سے کبھی سرمایہ کاری نہ کریں سرمایہ کاری صرف دولت کی حفاظت کرتی ہے یہ آپ کو دولت مند نہیں بناتی آپ کو ہمیشہ سرمایہ کاری سے پہلے سرمایہ پیدا کرنا چاہیے۔
3 آپ روزانہ خوشحالی کے دس آئیڈیاز سوچیں یہ دس آئیڈیاز آپ کے لےے خوشحالی کا خزانہ ثابت ہوں گے۔
4 آپ زندگی میں کبھی چائے، کافی اور ٹیکسی کی بچت نہ کریں پیسے بچانے کے لےے بس پر سفر نہ کریں، کیونکہ دنیا میں آج تک کوئی شخص بچت سے امیر نہیں ہوا۔ امارت زیادہ پیسے کمانے سے آتی ہے بچت سے نہیں۔
5 آپ لکھنا سیکھیں لکھنے سے انسانی دماغ میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ میں سوچنے سمجھنے کی اہلیت بڑھتی ہے اور سوچنے سمجھنے والے لوگ کبھی غریب نہیں رہتے۔
6 آپ کے پاس اگر رقم ہے تو آپ کبھی اس رقم کا 50 فیصد سے زیادہ سرمایہ کاری پر خرچ نہ کریں۔ 50 فیصد رقم اپنے پاس رکھیں یہ 50 فیصد رقم آپ کے اعتماد میں اضافہ کرے گی۔ میں نے زندگی میں بے شمار ایسے کروڑ پتی دیکھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے دولت سے نواز رکھا تھا، انہوں نے اپنی دولت مختلف منصوبوں پر لگا رکھی تھی اور کروڑ پتی ہونے کے باوجود ان کی جیبیں خالی تھیں۔
7 آپ کبھی ایسا کاروبار نہ کریں جس میں زیادہ مقابلہ ہو۔ ایسا کاروبار کریں جس میں آپ اپنی اجارہ داری قائم کر سکیں۔
8 25 گھنٹے میں 8 گھنٹے سونا سب سے اچھی سرمایہ کاری ہے۔
9 آپ ہمیشہ ان لوگوں کو وقت دیں جو آپ سے محبت کرتے ہیں نہ کہ ان لوگوں کو جن کے لےے آپ بے وقعت ہیں یا جن کو آپ کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
10 آپ سارا دن ان نعمتوں پر شکر ادا کریں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عنایت کر رکھی ہیں۔ شکر انسان کی توانائی میں اضافہ کرتا ہے۔
11 آپ اپنے اوپر اپنے جسم پر، اپنے ذہن پر اور اپنے تجربے پر اعتماد کریں۔ آپ صحیح اور غلط کے بارے میں دوسروں سے پوچھنے کے بجائے اپنے آپ سے سوال کریں دنیا میں آپ کا آپ سے بڑا کوئی دوست نہیں۔ آپ اپنے آپ کو دھوکا نہیں دے سکتے۔

ارادہ مضبوط ہونا چاہےحبیب اللہ خان کے پاس مضبوط ارادہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے اسی ارادے کی طاقت سے کم خرچ بالان...
02/10/2023

ارادہ مضبوط ہونا چاہے
حبیب اللہ خان کے پاس مضبوط ارادہ کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا۔ اس نے اسی ارادے کی طاقت سے کم خرچ بالانشین کام چنا اور مستقل اس میں جت گیا۔ ایک دن وہ سائیکل پہ تھوڑے سے پیسے لے کر بازار آ گیا۔ ایک ایک ہزار کے دو بڑے تھرماس لےے، شیشے کی پیالیوں کے دوسیٹ لےے، ایک بڑی بالٹی لی اور واپس گھر پہنچ گیا۔
اگلادن اس کا سائیکل پہ گزرا۔ ایک گاؤں سے دوسرے اور دوسرے سے پھر تیسرے گاؤں وہ خالص دودھ کی تلاش میں رہا۔ بالآخر ایک جگہ خالص دودھ کی بات طے کر لی اور تیسرے دن وہ چار کلو دودھ لے کر گھر آ گیا۔ دودھ رات کو ایک ہمسائے کے گھر فریزر میں رکھ دیا اور اگلے دن دودھ پتی تیار کی۔ تھرماس بھرے اور بازار نکل کھڑا ہوا۔
''گرما گرم چائے والا آگیا بھائی'' یہ صدا لگاتا جاتا اور دھیرے دھیرے چلتا جاتا۔ شام تک دونوں تھرماس خالی ہو چکے تھے۔ بازار میں چائے کی قیمت 12 روپے تھی، اس نے 10 روپے رکھی۔ پہلے دن دو کلو دودھ نکل گیا۔ دو کلو دودھ اور دو کلو پانی کی چائے کا ذائقہ بہت اچھا رہا۔ اس نے سبز الائچی بھی ڈالی۔ پانچ سے سات دن کے اندر اس کے دودھ کی کھپت پانچ کلو ہو چکی تھی۔ پانچ کلو دودھ اور پانچ کلو پانی ملا کر چائے بناتا اور فروخت کرتا۔ اس مد میں تمام اخراجات نکل کر اس کو پانچ سو روپے روزانہ بچ رہے تھے۔
اب وہ روزانہ بازار چلا جاتا اور دوپہر تک فارغ ہو کر گھر آ جاتا۔ پھر کام بڑھنے لگا اور ایک دن میں دو دو تھرماس چلنے لگے۔ اس نے اپنے ایک بھتیجے کو بھی ساتھ ملا لیا۔ کچھ ہی دن میں وہ بھی کام کی نوعیت سمجھ گیا۔ وہ دو سو روپے اسے دیتا اور تین سو اپنی جیب میں رکھتا۔ پھر تیسری مارکیٹ کے لےے ایک اور لڑکا رکھ لیا۔ دودھ کام، ملازم اور دائرہ کار بڑھاتا گیا اور سردیوں کے ایک ہی سیزن میں اس کے سات ملازم ہو چکے تھے اور آٹھواں وہ خود تھا۔ شہر بھر کے بازار اب اس کا کاروباری دائرہ تھے۔ دودھ کی مقدار ایک من ہو چکی تھی۔ سات لڑکے شام کو جب پیسے جمع کرواتے تو یہ دو سو روپے دیہاڑی ان کو دے دیتا باقی ساری رقم وصول کر لیتا۔ تمام اخراجات نکال کر فی ملازم اسے پانچ سو روپے بچ جاتے جن میں سے دو سو روپے ملازم کی دیہاڑی نکال کر تین سو روپے اسے مل جاتے۔ 21 سو روپے ملازمین نفع دے رہے تھے اور پانچ سو روپے اس کی اپنی محنت سے بچ جاتے۔ یوں ایک دن کی آمدنی 26 سو روپے اور ماہانہ 78 ہزار روپے بچنے لگے۔ اسی دوران اس نے دودھ کی خریداری کے لےے یاماہا موٹرسائیکل بھی لے لیا اور کام کو اچھی شکل دینے کا فیصلہ کر لیا۔
ترقی وقت مانگتی ہے
ایک چھوٹے سے کام سے حبیب اللہ کی شروعات ہوئی اور وہی چھوٹا کام اسے بڑا بناتا گیا۔ چھ ماہ کے شروعاتی دورانیہ میں اس نے کام کو بہت وقت دیا، اہمیت دی، شوق اور لگن سے کام کو سنبھالا، ایک بھی ناغہ نہ آنے دیا، گاہک کو اچھی سروس دی، مستقل گاہک بنائے اب مزید ترقی درکار تھی۔ گرمیوں کا سیزن آ چکا تھا، مگر چائے پھر بھی چل رہی تھی۔ اس نے ایک کیبن کرائے پہ لے کر ''چائے خانہ'' بنا لیا۔ اب چائے فوراً تیار کی جاتی اور لڑکوں کے ذریعے تھرماس میں سپلائی دی جاتی۔ ہر مارکیٹ میں گاہک تھے تو چاہے دھڑا دھڑ فروخت ہو جاتی۔ اخراجات نکال کر اب بھی روزانہ دو سے تین ہزار بچ جاتے۔ وہ دو ہزار جمع کرتا گیا۔ گرمیوں کے پانچ مہینے پلک جھپکتے گزر گئے اور اب اس کے پاس تین لاکھ روپے موجود تھے۔ اب ترقی کا نیا دور شروع ہوا چاہتا تھا۔ اب کی بار سردیوں میں بزنس پہلے سے نہایت شاندار رہا، اور سردیوں میں بھی اچھی خاصی رقم ہو گئی۔ کل ملا کر اب اس کے پاس 11 لاکھ روپے تھے۔
ہمت مرداں مدد خدا
''خان خوچہ ساری زندگی چائے کا کھوکھا پہ نہیں بیٹھے گا'' اس نے اپنے تئیں سوچا اور چائے کا کیبن اپنے ایک باعتماد ملازم کے حوالے کیا اور کیبن سے تھوڑا ہٹ کر ایک لاکھ روپے پگڑی اور 10 ہزار روپے ماہانہ پر دوکان لے لی۔ رنگ و روغن جگ گلاس، پتیلے، ٹیبل، کرسیاں، کاؤنٹر اور وہ تمام ضروریات جو ایک ہوٹل کے لےے درکار تھیں مہیا کیں اور چھوٹی سطح کے ہوٹل کا افتتاح کر لیا۔ دال، سبزی، روٹی، بڑا گوشت، چھوٹا گوشت اور قیمہ۔ پانچ ڈشوں سے کام چل پڑا، اچھے ملازمین بھی مل گئے۔ شہر بھر میں واقفیت بھی ہو چکی تھی۔ کام چلتے دیر نہ لگی۔ حبیب اللہ خان نے مسلسل محنت جاری رکھی، اور دو سالوں میں ہی اس نے ہوٹل کو کامیاب بنا لیا۔ جہاں پہ روزانہ پانچ سے سات ہزار روپے اسے بچ رہے تھے، اور ایک ماہ میں دو لاکھ روپے ہوٹل سے اور 60 ہزار روپے کیبن سے کما رہا تھا۔ سارے اخراجات بھی نکل رہے اور آمدنی بھی بچ رہی تھی۔ ان دو سالوں میں وہ اچھی رقم جمع کر چکا تھا۔ وہ تیسرا سال تھا جب اس نے شہر سے ہٹ کر دو لاکھ روپے فی مرلہ کے حساب سے ایک کنال کا سودا کیا، تاکہ وہاں پر باربی کیو بنایا جا سکے۔ ساری جمع پونجی پلاٹ پہ لگ گئی الٹا وہ مقروض بھی ہو گیا۔ قرض اتر گیا، لیکن اسے بالکل پرواہ نہیں تھی، کیونکہ جو ہمت کرتا ہے اللہ کی مدد اسی کے شامل حال ہوتی ہے۔
ترقی کا سویرا طلوع ہو گیا
کام شروع کئے وہ ساتواں سال تھا جب حبیب اللہ خان نے باربی کیو کا افتتاح کیا۔ گلی گلی چائے گرم چائے کی صدا لگانے والا محض سات سالوں میں ایک کروڑ کے کاروبار کا مالک بن چکا تھا۔ ساتویں سال میں حبیب اللہ خان کی ترقی کا سویرا طلوع ہو گیا اور ''حبیب چائے خانہ'' سے ''کیفے حبیب اللہ'' اور پھر ''حبیب خان باربی کیو ٹونائٹ'' سے وہ اپنا مستقبل تراشنے لگا۔ اور یہ ترقی کا سفر بدستور جاری ہے۔
محنت کا پانی دیجےے
ہماری کمزوری یہ ہے کہ ہم چھوٹے کاموں کو کام سمجھتے ہی نہیں، اور بزنس کے لےے ہمارا مزاج یہ ہے کہ کروڑوں سے شروع کریں، لیکن اگر چھوٹے کام سے کروڑوں بنائیں گے تو اس کام کی اہمیت اور زیادہ ہو گی۔ مانا کہ پیسہ زیادہ ہو تو کام بہتر ہوتا ہے لیکن یہ بھی ماننا ہو گا کہ بغیر پیسے کے بھی کام ہو سکتا ہے۔ آپ جو بھی کام کریں بس اس میں محنت کریں۔ اس کام کو اپنا مزاج بنا لیں اس کی جڑوں میں محنت کا عرق ڈالیں۔ اس پہ کھپ جائیں۔ یقیناً اسی کام میں ہی آپ کی کامیابی کا راز ہے۔
ابھی شروعات کیجےے
آپ زندگی کے کسی بھی اسٹیج پہ ہوں آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بس آپ کو ہمت کرنی ہے اور کام ہو جانا ہے۔ اپنی طبیعت اور عادت کے موافق وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک چھوٹا ساکام سوچیے اور آج کیا، بلکہ ابھی سے اس کی پلاننگ شروع کر دیجےے، اللہ کی مدد ان شاء اللہ شامل حال رہے گی اور کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔
کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا
بعض لوگ کچھ کاموں کو اپنی ہتک سمجھتے ہیں کہ میں رئیس ہوں، چوہدری ہوں، خان ہوں، نواب ہو، سیٹھ ہوں، جام ہوں اور ملک ہوں۔ ارے بھائی! آپ کوئی بھی ہوں جیسے بھی ہوں، جتنے بڑے بھی ہوں، جیسے بہترسے بہترین خاندانی کیوں نہ ہوں، ہم پیغمبر کے درجے پہ فائز انسانوں کے قدموں کی خاک کا کروڑواں حصہ بھی نہیں، جب ان الوالعزم لوگوں نے بکریاں چرانے کو عار نہیں سمجھا تو ہمیں کیا سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیں؟ ہم بالکل عام انسان ہیں اور یہ سارے کام ہم کر سکتے ہیں بس ذہن بنانے کی ضرورت ہے۔ یاد رکھےے! کوئی بھی کام چھوٹا بڑا نہیں ہوتا ہم انسان ہی کسی کام کو چھوٹا اور کسی کو بڑا بنا دیتے ہیں۔
٭٭٭

Address

Phase 1, Sector 4
Karachi
74600

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Weekly Shariah and Business posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Weekly Shariah and Business:

Videos

Share


Other Karachi media companies

Show All