Weekly Shariah and Business

Weekly Shariah and Business Sharia and Business Magazine Official Page

0321-3210355021-36622597 021-36880385بیرون ملک لگوانے کے لئے رابطہ کریں:0321-32103550321-2000224واٹس اپ نمبر:0321-321035...
15/01/2025

0321-3210355
021-36622597
021-36880385
بیرون ملک لگوانے کے لئے رابطہ کریں:
0321-3210355
0321-2000224
واٹس اپ نمبر:
0321-3210355

مفتی سفیان بلنداذانِ جمعہ اور خرید و فروخت٭……بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہ...
14/01/2025

مفتی سفیان بلند
اذانِ جمعہ اور خرید و فروخت
٭……بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں
اس دن کو یوم جمعہ اس لیے کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمانوں کے اجتماع کا دن ہے۔ سب سے پہلے عرب میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اجداد میں سے کعب بن لوئی نے اس کا نام جمعہ رکھا اور قریش اس دن جمع ہوتے اور کعب بن لوئی خطبہ دیتے تھے۔ یہ واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے 560 سال پہلے کا ہے۔ حق تعالیٰ نے ان کو زمانہ جاہلیت میں بھی بت پرستی سے بچایا اور توحید کی توفیق عطا فرمائی تھی۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت کی خوشخبری بھی لوگوں کو سنائی تھی۔ قریش میں ان کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ ان کی وفات جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت سے 560 سال پہلے ہوئی۔ اسی سے اپنی تاریخ شمار کرنے لگے۔ عرب کی تاریخ ابتدا میں تعمیرِ کعبہ سے لی جاتی تھی، کعب بن لوئی کی وفات کے بعد اس سے تاریخ جاری ہو گئی۔ پھر جب واقعہ فیل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ولادت کے سال میں پیش آیا تو اس واقعے سے عرب کی تاریخ کا سلسلہ جاری ہو گیا۔ خلاصہ یہ ہے کہ جمعہ کا اہتمام عرب میں قبل از اسلام بھی کعب بن لوئی کے زمانے میں ہو چکا تھا اور اس دن کا نام جمعہ رکھنا بھی انہی کی طرف منسوب ہے۔ (مظہری)
بعض روایات میں ہے کہ انصار مدینہ نے ہجرت سے قبل فرضیت جمعہ نازل ہونے سے پہلے اپنے اجتہاد سے جمعہ کے روز جمع ہونے اور عبادت کرنے کا اہتمام کر رکھا تھا۔ (مصنف عبدالرزاق و مظہری)
چند اہم مسائل اور ہدایات
٭ اذان جمعہ کے بعد خرید و فروخت کو قرآن کریم نے حرام قراردیاہے۔ اس پر عمل کرنا تو بیچنے والوں اور خریداروں سب پر فرض ہے، مگر اس کا عملی انتظام اس طرح کیا جائے کہ دکانیں بند کر دی جائیں تو خریداری خود بخود بند ہو جائے گی۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ گاہکوں اور خریداروں کی تو کوئی حدود شمار نہیں ہوتی، ان سب کے روکنے کا انتظام آسان نہیں۔ فروخت کرنے والے دکان دار متعین اور مخصوص ہوتے ہیں، ان کو فروخت سے روک دیا جائے تو باقی سب خرید سے خود رک جائیں گے۔ اس لیے قرآن کریم نے ”ذروا البیع“ فرما کرصرف بیع چھوڑ دینے کے حکم پر اکتفا کیا۔
٭ اذانِ جمعہ کے بعد سارے ہی مشاغل کا ممنوع کرنا مقصود ہے، جن میں تجارت، ملازمت، مزدوری، زراعت اور ہر قسم کا کام سبھی داخل ہیں۔ فقہائے امت کا اتفاق ہے کہ آیت کریمہ میں لفظ بیع سے مراد فقط فروخت کرنا نہیں، بلکہ ہر وہ کام جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہو وہ سب بیع کے مفہوم میں داخل ہے۔ اس لیے اذان جمعہ کے بعد کھانا پینا، سونا اور کسی سے بات کرنا یہاں تک کہ کتاب کا مطالعہ کرنا وغیرہ سب ممنوع ہیں۔ صرف جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہوں، وہ کیے جا سکتے ہیں۔
٭ اذانِ جمعہ شروع میں صرف ایک ہی تھی جو خطبہ کے وقت امام کے سامنے کہی جاتی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں پھر حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما کے زمانے میں اسی طرح رہا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور اطراف مدینہ میں پھیل گئے، امام کے سامنے والی خطبہ کی اذان دور تک سنائی نہ دیتی تھی تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ایک اور اذان مسجد سے باہر اپنے مکان زوراء پر شروع کرا دی جس کی آواز پورے مدینہ میں پہنچنے لگی۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے اس پر اعتراض نہیں کیا، اس لیے یہ اذانِ اول صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے مشروع ہو گئی اور اذانِ جمعہ کے وقت بیع و شرا وغیرہ تمام مشاغل حرام ہو جانے کا حکم جو پہلے اذان خطبہ کے بعد ہوتا تھا، اب پہلی اذان کے بعد سے شروع ہو گیا۔
جمعہ کے بعد تجارت و کسب میں برکت
٭ نماز جمعہ سے فارغ ہونے کے بعد تاجر حضرات اور ملازمت پیشہ افراد اپنا کاروبار اور اپنا رزق حاصل کرنے کا اہتمام سب کر سکتے ہیں۔ حضرت عراک بن مالک رضی اللہ عنہ جب نماز جمعہ سے فارغ ہو کر باہر آتے تو دروازہ مسجد پر کھڑے ہو کر یہ دعا کرتے تھے: ”اللھم انی اجبت دعوتک وصلیت فریضتک وانتشرت کما امرتنی فارزقنی من فضلک و انت خیر الرازقین“ (رواہ ابن ابی حاتم، از ابن کثیر)
”یا اللہ! میں نے تیرے حکم کی اطاعت کی اور تیرا فرض ادا کیا اور جیسا کہ تو نے حکم دیا ہے نماز پڑھ کر میں باہر جاتا ہوں تو اپنے فضل سے مجھے رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔“
بڑی اہم دعا ہے، تمام تاجر حضرات کو اس کا اہتمام کرنا چاہیے۔ بعض سلف صالحین سے منقول ہے کہ جو شخص نماز جمعہ کے بعد تجارتی کاروبار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ستر مرتبہ برکات نازل فرماتے ہیں۔ (ابن کثیر)
٭ قرآن کریم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ نماز جمعہ سے فارغ ہو کر کسب معاش تجارت وغیرہ میں لگو، مگر کفار کی طرح خدا سے غافل ہو کر نہ لگو، عین خرید و فروخت اور مزدوری کے وقت بھی اللہ کی یاد جاری رکھو، اس لیے ارشاد فرمایا: ”وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ“”اور اللہ تعالی کو کثرت سے یاد کرو، تاکہ تمہیں فلاح نصیب ہو۔“(از معارف القرآن، تفسیر سورۃ الجمعۃ)

کاروبار میں اصل چیز....................................کسی جزیرے میں ایک بزنس مین کو بھیجا گیا۔ اسے کہا گیا جا کر اندازہ...
08/01/2025

کاروبار میں اصل چیز....................................
کسی جزیرے میں ایک بزنس مین کو بھیجا گیا۔ اسے کہا گیا جا کر اندازہ لگاؤ کہ وہاں جوتے کی مارکیٹ بن سکتی ہے یا نہیں؟ اس نے واپس آ کر اطلاع دی کہ وہاں جوتے کی مارکیٹ ہرگز نہیں بن سکتی، کیونکہ وہاں کے لوگ سرے سے جوتا پہنتے ہی نہیں ہیں۔ انہوں نے ایک دوسرے بزنس مین کو اسی جزیرے میں بھیجا اور اسے بھی یہی ٹاسک دیا۔ اس نے واپس آ کر بتایا کہ وہاں جوتے کی نہایت بہترین مارکیٹ بن سکتی ہیں، کیونکہ وہاں کسی کے پاس بھی جوتا نہیں ہے۔
سمجھ میں آیا کہ کاروبارمیں اصل اور بنیادی چیز ”آئیڈیا“ ہے۔ جو سوسائٹی کی Needکو دیکھ لیتا ہے، وہ بزنس کا آئیڈیا پا لیتا ہے۔ اگر آئیڈیا ہو اور اس آئیڈیے میں جان ہو تو اس سے زیادہ کسی سرمائے کی ضرورت نہیں۔ اس کو یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ بہت سے لوگوں کے پاس پیسہ ہے، لیکن انہیں انویسٹمنٹ کا کوئی میدان ہی نہیں سوجھ رہا۔معلوم ہوا صرف سرمایہ بھی انسان کو بزنس مین نہیں بنا سکتا۔ دوسری جانب نہایت قلیل رقم سے شروع کر کے بزنس کے عروج تک پہنچنے والوں کی داستانیں بھی بے شمار ہیں۔
فی زمانہ جبکہ بے روزگاری، ناداری اور لاچاری عام ہوتی جا رہی ہے، ہمارا نوجوان صرف خوابوں کی دنیا کا بادشاہ ہے۔ وہ کسی بڑے سرمائے کے خواب دیکھ رہا ہے، جس کو پا لینے کے بعد وہ اپنا کاروبار شروع کرے گا۔ وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ وہ چھوٹے کام اور بڑے کام میں فرق کرتا ہے۔ اس کے نزدیک ایک حقیر پیشہ ہوتا ہے اور ایک بڑا پیشہ ہوتا ہے۔
لہذا اس کے خیال میں بریانی کی ریڑھی لگانا، پھل کا ٹھیہ لگانا اور جنرل اسٹوروں کو مال سپلائی کرنا ایک گھٹیا اور حقیر کام ہے، جو کہ اس کی شایان شان نہیں۔ وہ اپنا آغاز صرف اور صرف ملٹی نیشنل کمپنی سے کرنا چاہتا ہے۔ حقائق کی دنیا میں ایسا ممکن نہیں۔
سچ یہ ہے کہ کوئی بھی کام اپنی ذات میں بڑا یا چھوٹا نہیں۔ آپ کی محنت، نیت، لگن اور مہارت اس کو بڑا یا چھوٹا بناتی ہے۔ ابراہیم لنکن جب صدر بن کر پارلیمنٹ میں گیا تو لوگوں نے کہا: موچی کا بیٹا آ گیا۔ لنکن نے جواب دیا: مگر آپ کو اس معیار کا موچی پورے امریکا میں کوئی اور نہیں ملے گا۔
کام کوئی بھی ہو، اللہ تعالیٰ کو وہ بے حد محبوب ہے۔ ہاتھ سے کمائی کرنے والے کو اللہ تعالیٰ کا دوست بتلایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر یہ خبر آئی کہ ایک نوجوان برطانیہ سے پڑھ کر آیا۔ نوکری نہیں ملی۔ اس نے گوجرانوالہ میں بریانی کی ریڑھی لگا لی۔
یہ المیہ وہاں مزید شدت اختیار کر جاتا ہے جہاں بڑی تعداد میں فارغ التحصیل ہونے والے ایم بی ایز بھی بے روزگار بلکہ بے کار نظر آتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق: سالانہ 1500بزنس گریجویٹس200سے زائد یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تقریباً پونے تین لاکھ سے زائد نوجوان بزنس گریجویٹس کے طور پر فارغ ہوتے ہیں اور مارکیٹ میں ان کی کھپت زیرو ہے۔
ایسی صورت میں ظاہر ہے کہ بے روزگاری کا ایک طوفان امڈا چلا آ رہا ہے۔ جب روزگار نہیں ملتا تو معاشرتی جرائم کا ایک سلسلہ وجود میں آتا ہے۔ اس لیے بزنس ایجوکیشن کے سر کردہ لوگ نئی نسل کو جاب کے بجائے اپنا کاروبار شروع کرنے کی ترغیب اور تربیت دیں۔ انہیں صفر سے سفر شروع کرنے کی سوچ دیں۔ انہیں زیرو سے ہیرو تک پہنچنے کی راہ سجھائیں۔
یہاں یہ نکتہ بھی نظر انداز کیے جانے کے قابل نہیں کہ ”زیادہ پرافٹ کے لیے زیادہ رسک“ لینا پڑتا ہے۔ یہ تجارت کے میدان کی ایک بڑی حقیقت ہے۔ آپ نے اگر بہت بڑا خواب دیکھا ہے تو رسک بھی لیجیے۔ رسک لینے سے مت ڈریے۔ ہر طرح کے خوف کو دل سے نکال کر جہاں آپ کھڑے ہیں، وہیں سے شروع کیجیے اور پھر کشتیاں جلا کر بڑھتے چلے جائیے۔
اس لمحے آپ کے پردہئ اسکرین پر وہ احادیث مبارکہ ضرور ابھرنی چاہییں، جو تجارت کی فضیلت پر وارد ہوئی ہیں۔ یہ حدیثیں بتاتی ہیں کہ”تجارت“ انبیاء، علماء، صالحین اور امت کے بہترین لوگوں کا پیشہ رہا ہے۔ یہ نہایت بابرکت پیشہ ہے۔ اس کے بابرکت ہونے کی گارنٹی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دے ہے۔ تجارت سے متعلق بتایا گیا کہ اس میں اللہ تعالیٰ نے دس میں سے نو حصے رزق رکھ دیا ہے۔
غرض، اگر آپ خود کو معاشی مشکلات کا شکار پاتے ہیں اور ہماری ان معروضات سے متفق بھی ہیں تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پاک پر یقین کر کے میدان میں نکل آئیے۔ تجربہ کاروں سے کامیابی کا راز حاصل کیجیے۔ آج ہی سے اپنے بزنس کا آغاز کیجیے۔ یہ آپ کے مستقبل لیے فالِ نیک ہو گا۔ آپ اپنی دنیا و آخرت کو یقینا بہتر بنا لیں گے۔

بڑے اہداف، منظم منصوبہ بندی اور مسلسل محنت سے بزنس آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہےسعودی عرب کے ریزیڈور ہوٹل گروپ کے ڈائر...
05/01/2025

بڑے اہداف، منظم منصوبہ بندی اور مسلسل محنت سے بزنس آسمان کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے
سعودی عرب کے ریزیڈور ہوٹل گروپ کے ڈائریکٹر جناب باسل طلال کی مفید عام گفتگو
ریزیڈور ہوٹل گروپ سعودی عرب کا دوسرا سب سے بڑا تعمیراتی گروپ ہے۔ یہ نہ صرف سعودی عرب میں کام کر رہا ہے، بلکہ اس کے کام کا پھیلاؤ یورپ، جرمنی سمیت دیگر کئی ممالک میں بھی ہے۔ اس وقت تک ریزیڈور ہوٹل گروپ 484 سے زائد دیوہیکل ہوٹل تعمیر کر چکا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ اس کے ایک لاکھ، پانچ ہزار کمرے دنیا کے 82 سے زائد ملکوں میں ہیں۔ آئیے! آپ کی ملاقات ریزیڈور ہوٹل گروپ کے ڈائریکٹر جناب باسل طلال سے کرواتے ہیں۔
٭٭٭
٭…… مکہ مکرمہ میں اس وقت ہمارے ہوٹل تقریباً 24,133 کمروں پر مشتمل ہیں، 2017 ء کے آخر تک مکہ مکرمہ میں 11 مزید ہوٹلوں کا افتتاح ہو جائے گا، جن میں حجاج کرام کو ہر طرح کی سہولیات فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہے
٭…… سیاحت کے فروغ کے لیے سعودی حکومت نے 800 ملین ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے، اس طرح کے بڑے پیکجز سے سعودی عرب میں سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ ملے گا
٭…… 2025 ء تک حجاج کرام کی مکہ مکرمہ میں ممکنہ تعداد 25 ملین تک پہنچ جائے گی، جس کے لیے اضافی رہائش کی ضرورت ہو گی، اس کے لیے بھی ریزیڈونر گروپ نے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے
٭٭٭
سوال
ریزیڈور گروپ نے حالیہ دنوں میں کچھ نئے اعلان کیے ہیں، آپ کون کون سے نئے پروجیکٹس پر کام شروع کررہے ہیں؟
جواب
ہمارا گروپ اب صرف سعودی عرب میں محدود نہیں رہا ہے، بلکہ دنیا کے مختلف خطوں: یورپ، افریقا اور وسطی ایشیا کے ممالک میں بھی ہم کام کر رہے ہیں۔ کام کے پھیلاؤ کے باعث ہمیں نئے نئے پروجیکٹس کا اعلان ضرور کرنا پڑتا ہے۔ اس سے گروپ کا معیار اور لوگوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
ہم نے اب دو نئے پروجیکٹس پر کام شروع کیا ہے۔ ایک: ”ریڈیزون بلو“ ہے اور دوسرا: ”Parkinn“۔ الحمد للہ! یہ اب دنیا کے اکثر بڑے شہروں میں تیار ہونے والے ہیں۔
سوال
2016 ء میں پیٹرول کی قیمتیں گرنے سے آپ کے گروپ کو کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟
جواب
2016 ء میں جب عالمی منڈی میں پیٹرول کی قیمتیں کم ہوئیں تو اس سے نہ صرف ریزیڈور گروپ متاثر ہوا، بلکہ ہر بڑی کمپنی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ پیٹرول کی یکدم قیمتیں کم ہونے سے ہم بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے، لیکن دبئی اور امارات میں ہمارے کچھ پروجیکٹس ایسے چل رہے تھے، جن کے معاہدے زیادہ وقت کے تھے۔ اس سے گروپ کو کافی سہارا ملا۔ یوں ہم اپنے دیگر پروجیکٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔
سوال
آپ کا گروپ کس ملک میں زیادہ کام کر رہا ہے؟ کہاں اس کو زیادہ مقبولیت حاصل ہے؟
جواب
اس وقت تک ہمارا سب سے زیادہ کام متحدہ عرب امارات میں ہے۔ ریزیڈور گروپ کے سب سے زیادہ ہوٹل وہیں پائے بھی جاتے ہیں اور پسند بھی کیے جاتے ہیں۔ ہمارے منافع شرح کی بھی سب سے زیادہ متحدہ عرب امارات میں ہی ہے۔
سوال
مکہ مکرمہ میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟
جواب
ہم مکہ مکرمہ میں متحدہ عرب امات کے بعد سب سے زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں اس وقت ہمارے کئی ہوٹل ہیں۔ یہ تقریباً 24 ہزار، 133 کمروں پر مشتمل ہیں۔
ریزیڈور گروپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ہم 2017ء کے آخر تک مکہ مکرمہ میں 11 مزید ہوٹلوں کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔ اس میں ہماری اولیم ترجیح یہ ہے کہ حجاج کرام کو ہر طرح کی سہولیات میسر ہوں، انہیں دقت اور پریشانیوں کا سامنا نہ ہو۔
اس سے قبل ہمارا گروپ مکہ میں Radisson Blo کا افتتاح بھی کر چکا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ہے کہ 2019ء میں ہم ان شاء اللہ! اپنے دیگر مشہور زمانہ ہوٹلز ”Parkinn by Radison“ بھی تعمیر کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
سوال
آپ سعودی عرب میں موجود چند بڑے ہوٹلز کے نام بتائیں گے؟
جواب
اللہ کے فضل و کرم سے ہم سعودی عرب کے متعدد شہروں میں اپنے ہوٹل بنا چکے ہیں۔ ان میں سرفہرست ظہران میں ”ریڑیڈنس بلو“، نصف القمر میں ”راؤ بلو“، بریدۃ میں ”راؤ یسون بلو ہوٹل“، کلۃ النسیم میں ”پارک ان بائی راؤ“ ہیں۔ اسی طرح دمام، نجران، جدۃ، کلۃ العزیزۃ اور خصوصاً ریاض میں ہمارے گروپ کے کئی ہوٹل ہیں۔
سوال
آپ کے خیال میں سعودی حکومت اپنے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لیے کس قدر سنجیدہ ہے؟
جواب
مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ سعودی حکومت اس بارے میں نہ صرف سنجیدہ ہے، بلکہ کئی اہم اقدامات بھی کر رہی ہے۔ سیاحت کے فروغ کے لیے حکومت نے 800 ملین ڈالر کے پیکج کا اعلان کیا ہے۔ اس طرح کے بڑے پیکجز سے سعودی عرب میں سیاحت کو بڑے پیمانے پر فروغ ملے گا اور سعودی حکومت کی معیشت میں بھی غیر معمولی ترقی ہو گی۔
اس کے ساتھ حرمین شریفین کی توسیع اور سرکاری اعداد و شمار اور تخمینے کے مطابق 2025 ء تک حجاج کرام کی مکہ مکرمہ میں ممکنہ تعداد 25 ملین تک پہنچ جائے گی۔ اس کے لیے یقینا اضافی رہائش کی ضرورت ہو گی۔ ہم نے ابھی سے اس کے لیے منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔
سوال
آپ کے مستقبل کے کیا ارادے ہیں، ریزیڈور گروپ مزید کون سے اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے؟
جواب
ہم اس سال کے اختتام سے پہلے 17 نئے ہوٹلز کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں۔ ان میں سے 11 سعودی عرب، 5 امارات اور ایک ہوٹل مصر میں ہے۔ یوں ہمارے گروپ کے پاس 3000 کمروں کا اضافہ ہو جائے گا۔ نیز ہم اپنے 2020 ء کے ہدف یعنی 100 ہوٹلز کا ٹارگٹ پورا کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
٭٭٭

پہلا قدم خود اعتمادی ہےکاروبار کی شروعات کے لیے سب سے مشکل مراحل میں سے پہلا مرحلہ”پہلا قدم“ ہے۔ زندگی کے کڑے امتحانات ک...
31/12/2024

پہلا قدم خود اعتمادی ہے
کاروبار کی شروعات کے لیے سب سے مشکل مراحل میں سے پہلا مرحلہ”پہلا قدم“ ہے۔ زندگی کے کڑے امتحانات کی طرح کاروبار کی شروعات بھی ایک کڑا امتحان ہے اور اس مرحلہ کے لیے پہلا قدم خاص نوعیت کا حامل ہے۔
آپ بہاؤ الدین کی مثال لیجیے
اس نے برتنوں کے کاروبار کا فیصلہ کرنے کے بعد اچھی جگہ پہ دکان لے لی۔ کچھ جمع شدہ سرمایہ بھی تھا، اتفاق سے دور پار کے رشتہ دار بھی اسی شعبے سے وابستہ تھے، لہذا کوئی مشکل نہ تھی مگر سرمائے کے ڈوب جانے کے خدشے سے وہ پہلا قدم ہی نہ اٹھا سکا۔ طرح طرح کے خدشات اور وسوسے اسے گھیرے رکھتے۔ یہ ہو جائے گا وہ ہو جائے گا وغیرہ وغیرہ۔
اور آخر کار وہ کام شروع نہ کر پایا اور دو ماہ تک فضول میں دکان کا کرایہ ادا کرتا رہا۔ اگر وہ پہلا قدم اٹھا لیتا تو کاروبار میں ترقی ہوتی، کیونکہ تمام اسباب میسر تھے اور آج کل وہ کپڑوں کے کاروبار کا سوچ رہا ہے۔ پرسوں وہ تیل کا بزنس کرے گا اور ترسوں پولٹری فارم پلان کر رہا ہو گا اور پھر وہ بینک میں سرمایہ محفوظ رکھنے کے عوض ملنے والے منافع کے حلال اور حرام ہونے کا مسئلہ پوچھتا نظر آئے گا۔
بزنس پہلا قدم مانگتا ہے۔ اگر آپ خوف زدہ ہیں، مال کے ضائع ہونے سے ڈرتے ہیں، فیل اور ناکام ہو جانے کے خدشات ہیں تو آپ کبھی بھی بزنس فیلڈ میں آگے نہیں جا سکتے۔ بزنس کے لیے ”کود جاؤ“ اور ”کر گزرو یا مر جاؤ“ والی پالیسی پہ عمل کرنا ہوتا ہے۔ اگر آپ نقصانات کے اندیشوں میں مبتلا رہنے والے شخص ہیں، خود پہ بھروسہ نہیں، خود اعتمادی کا فقدان ہے تو آپ بزنس نہیں کر سکیں گے۔ اس کے لیے پہلے اپنے اندر ہمت پیدا کیجیے۔ اپنا اعتماد بحال کیجیے۔ تبھی آپ پہلا قدم اٹھا سکیں گے۔
لوگ کیا کہیں گے؟
آج بھی سیانے لوگ کہتے ہیں کہ ”سنو ہر کسی کی کرو اپنی“ آپ جب بھی کاروبار کے متعلق کسی کو بتاتے ہیں تو حوصلہ دینے والے کم اور مایوس کرنے والے زیادہ لوگ ہوتے ہیں، اور پھر جس انسان کا جھکاؤ جس طرف ہو جائے وہ اسی ڈگر پہ چل پڑتا ہے۔
شیخ انیس کو ہی دیکھ لیجیے
اسے لوگوں نے روکا کہ آج کل کے زمانے میں پراپرٹی میں کچھ نہیں رکھا، مکانات بناؤ گے تو خریدے گا کون؟ اس کا جواب ہوتا ”بھائی میں تو کرایہ پہ دوں گا“ ارے بھائی! کئی لوگ آتے ہیں، کرایہ دار بن کے آتے ہیں اور مالک بن کر قابض ہو جاتے ہیں۔ ساری زندگی عدالتوں کے دھکے کھاؤ گے؟“ اس نے سب کی سنی مگر اپنی مرضی کے آگے کسی ایک کی بھی نہ چلنے دی، آج وہ کئی بنگلوں کا مالک ہے۔ اچھا سرمایہ لگا کر اچھا کما رہا ہے۔ یہ مت دیکھیے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ لوگوں کی پروا مت کیجیے، جو آپ کر سکتے ہیں وہ آپ جلدی کر لیجیے۔ لوگ تو بات کرتے رہیں گے۔ آپ نے اگر ندیم نینی تال والا کی مثال دہرائی تو اوندھے منہ زمین پہ رہیں گے۔
ندیم کا جنرل اسٹور اچھا چل رہا تھا، کسی نے اسے مشورہ دیا کہ بھائی کپڑے کے کام میں زیادہ بچت ہے، کن کھپاروں میں پڑے ہو؟ دو ایک سال تذبذب کی کیفیت رہی اور پھر ایک دن دوکان پہ تالا لگایا اور کلاتھ ہاؤس بنا لیا۔ کپڑے کا تجربہ نہیں تھا۔ فیصل آباد سے کپڑا وہ ملا جس کا سیزن نہیں تھا۔ مشورے دینے والوں نے تسلی دی: ”سیزن میں مہنگا ہو جائے گا گھبراؤ نہیں!“ ارے بھائی! وہ گزر بسر کہاں سے کرے؟ خیر! کپڑا اونے پونے بکتا رہا اور بنیادی سرمایہ کم ہوتا گیا۔ سیزن آ گیا مگر کپڑا ختم تھا، اب وہی کپڑا دوبارہ خریدنا تھا، مگر پیسے نہیں تھے۔ ادھار اٹھایا اور کوشش کر کے کچھ مال رکھا، مگر کیفیت جوں کی توں رہی، ناکامی دیکھی تو ایک اور آگیا مشورہ دینے والا“ کپڑے کے بزنس میں کیا رکھا ہے؟ ارے بھائی! اگر نوٹ کمانے ہیں تو شوز اسٹور بناؤ اتنی روزی ہے کہ بھول جاؤ گے سب کچھ“ گرتے کو ایک اور دھکا لگا، سود کی بنیاد پہ ادھار لے کر شوز اسٹور بنا لیا، دو سال کی لگاتار محنت مگر کام چل ہی نہیں رہا تھا، سود بڑھتا گیا، برکت نکل گئی جب اخراجات کے لیے جان کے لالے پڑنے لگے تو ایک اور صاحب دھمکے ”بھائی پاکستان میں تو روزگار ہے ہی نہیں، اگر روزی کرنی ہے تو دبئی چلے جاؤ، ویزہ میں دلوا دیتا ہوں، پیسے کما کے دے دینا، ٹکٹ کا خرچ ہو گا بس۔ اپنے محلے کے قمر کو ہی دیکھ لو، وہاں پہ درہم کما رہا ہے۔“ بس پھر کیا تھا، مزید رقم ادھار لی، ساتھ والے دوکان دار کو شوز بیچے اور جناب دوبئی پدھار گئے۔ آج کل بکریوں کا ریوڑ سنبھالے ہوئے ہیں اور مہینہ کے 20 ہزار کما کر سود لوٹا رہے ہیں جو اگلے مہینہ میں پھر اتنا ہی بڑھ جاتا ہے۔ اگر بزنس کرنا ہے تو یہ مت دیکھیے کہ اگر ناکام ہو گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟ ارے بھائی جو کہیں گے کہتے رہیں، آپ نے بس اپنا کام کرنا ہے۔ اس کمزوری کو دور کیجیے اور لوگوں کے مشوروں اور باتوں کی پرواہ مت کیجیے، سوچ اور شوق آپ کا اپنا ہے، جو جی میں آئے بس کر گزریے۔

CtrlS کی کہانیایک ایسی داستان جو فیصلہ سازی میں ڈگمگاتے قدموں کو مستحکم کرے گی”بزنس اتنا آسان نہیں، جتنا کہ لوگوں نے سمج...
29/12/2024

CtrlS کی کہانی
ایک ایسی داستان جو فیصلہ سازی میں ڈگمگاتے قدموں کو مستحکم کرے گی
”بزنس اتنا آسان نہیں، جتنا کہ لوگوں نے سمجھ رکھا ہے، اس میں ہر وقت چوکنّا اور ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ قدم قدم پر مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے ساتھ معاملات طے کرنا اور پھر ان میں کھرا ثابت ہونا مشکل کام ہوتا ہے۔ اگر آپ ان باتوں میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آپ کامیاب بزنس مین بن سکتے ہیں۔“ یہ الفاظ جہاں مجھے چونکا دینے کے لیے کافی تھے، وہاں میرے لیے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے اور حالات و مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے ایک واضح پیغام بھی تھے۔
2001ء میں جب میں انٹرنیٹ سروس پرووائیڈر کے طور پر کام کر رہا تھا تو اس وقت مجھے کافی نقصان اور مالی خسارہ اٹھانا پڑا۔ تب پائینرلیب کمپنی کی عمر تین سال تھی۔ اس وقت میری توجہ کارپوریٹ کو اپنے ساتھ ملا کر کمیونیکیشن فیلڈ میں بہتری لانا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے، جب ”ڈاٹ کام“ بحران شروع ہی ہوا تھا اور پیسہ آنا تقریباً بند ہو گیا تھا۔ اس کے باوجود میں نے کافی لوگوں کو ان کے پیسے ادا کیے۔ یہی وجہ ہے کہ آج لوگ مجھ پر اعتماد کرتے ہیں۔ میں نے مالی مشکلات کے دوران خود کو سنبھالے رکھا اور مشکل کاروباری فیصلے کیے۔
میرے سامنے دوسری بار مالی پریشانی 2008ء اور 2009 ء کے دوران آئی۔ جب اقتصادی پریشانیوں کی وجہ سے بڑی تعداد میں پرائیویٹ ایکوئٹی فنڈ میری کمپنی سی ٹی آر ایل ایس کو چھوڑ کر جانے لگے، تاہم اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ میں پیسہ بنا سکتا ہوں، کیونکہ اس وقت بینکوں نے اپنی اپلی کیشن کو بیرونی ڈیٹا سینٹر کے پاس لے جانا شروع کیا تھا۔ وہ اب اپنے ڈیٹا سینٹر پر اور سرمایہ کاری نہیں کرنا چاہتے تھے، یہ ان کے لیے کافی مہنگا پڑتا تھا۔ اس لیے سی ٹی آر ایل ایس گزشتہ چھ سالوں میں ترقی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔
CtrlS کے بانی اور چیئرمین سریدھیر پناپو ریڈی (Sridhar Pinnapureddy) نے تین کمپنیاں قائم کی۔ ڈیٹا سینٹر کے بزنس کو دوسری انٹرنیشنل ٹیلی کام کمپنیوں کی طرح گوگل، ایمیزون اور فیس بک وغیرہ کے مقابلے کا سامنا تھا، لیکن جیسے ہی سریدھیر نے ٹائیر 4 ڈیٹا سینٹر کمپنی قائم کی اور اس میں بینکنگ اور انٹرپرائز کی مدد لی تو اس نے اس بزنس کا رخ ہی بدل کر رکھ دیا۔
سریدھیر اپنے کہانی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہے کہ میرے کام کا انداز دوسروں سے مختلف ہے۔ میں پیسے کی فکر نہیں کرتا۔ 2001 ء میں جب پہلی بار مجھے مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تو اس وقت مجھے تھوڑی تشویش ضرور ہوئی تھی، لیکن اگر آپ کو خود پر اعتماد ہو تو لوگ بھی آپ پر بھروسہ کرنے لگتے ہیں۔ میں نے ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ پر مسلسل پیسہ لگایا اور اب تک میں اپنے فیصلے خود لیتا آیا ہوں۔ میرے انتظام کا طریقہ کافی مشکل ہے۔ اگر مجھے کسی کام پر یقین ہوتا ہے تو میں اس کے لیے الگ سے ایک ٹیم بنا دیتا ہوں۔ اگر میں ان سے اس میں کودنے کو کہتا ہوں تو وہ ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس لیے آپ کو ایسے لوگ چاہیے ہوتے ہیں جو آپ کے خیالات سے مکمل طور متفق ہوں۔
جب سی ٹی آر ایل ایس قائم نہیں ہوئی تھی، تب میں نے اپنی ٹیم کے ساتھ ٹائیر 4 ڈیٹا سینٹر کے بارے میں بات کی۔ اس وقت ٹیکنیکل ٹیم نے اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے اور وہ ڈیٹا سینٹر کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنے کے خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے آگے چل کر مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے باوجود میں نے اقدام کیا، کیونکہ میں جانتا تھا کہ اس فیلڈ میں ہی بزنس کا مستقبل ہے۔ جب انہوں نے میرا عزم دیکھا تو وہ بھی ساتھ دینے کے لیے آمادہ ہو گئے۔ جب میں نے سی ٹی آر ایل ایس قائم کی اور سب نے اس کے نتائج دیکھے تو اور زیادہ میرا ساتھ دینے لگے۔
اسی طرح جب میں نے تیسرا بزنس ”کلاؤڈ 4 سی“ شروع کیا تو میری سیلز ٹیم نے کہا کہ کلاؤڈ کیبزنس میں وصولی کافی مشکل کام ہے اور کوئی بھی ملازم اس کا حصہ نہیں بننا چاہے گا۔ تب میں نے ایسے لوگوں کو رکھا جو میرے آئیڈیے سے متفق تھے۔ بعض اوقات آپ کو ایسے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، جو ہر ایک کو سجھائی نہیں دیتے۔ اگر بآسانی وہ سمجھ جاتے اور قائل ہو جاتے ہیں تو بہتر ہے کہ ان کو ساتھ لے کر کام کیا جائے۔ اس لیے میں اپنی کمپنی میں موجود ٹیلنٹ پر زیادہ توجہ دیتا ہوں کہ جو میرا ہم خیال ہے اس کو لے کر آگے بڑھتا رہتا ہوں۔
میرے خیال میں یہ درست ہے کہ بزنس کافی مشکل کام ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے، اس میں زیادہ گھبرانا نہیں چاہیے۔ اگر آپ جیسا چاہ رہے ہیں اور ایسا ہو نہیں رہا ہے تو آپ کو اپنی کوشش چھوڑنی نہیں چاہیے اور پرانی چیزوں کو بھول کر آگے بڑھنا چاہیے۔ تاہم مختلف لوگوں کے ساتھ کام کرنے سے مختلف تجربے ملتے ہیں، لیکن آخر میں آپ کا اعتماد ہی کام آتا ہے، جو آپ کو مسائل سے باہر نکالنے میں مددگار ہوتا ہے۔ اس لیے آپ پر اعتماد ہونا چاہیے۔ مستقبل میں رسک لینے کے لیے تیار رہنا چاہیے، اپنے خاندان اور فیملی کی سپورٹ حاصل کرنی چاہیے اور اپنی ٹیم کو مضبوط سے مضبوط تر بناتے رہنا چاہیے۔
بزنس میں کامیاب ہونے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اپنے آپ کو پیسے سے الگ کر لیں اور آپ اپنی پروڈکٹس اور سروسز پر توجہ دیں۔ اگر آپ کی پروڈکٹس اور سروسز اچھی ہیں تو کسٹمر آپ کو پیسے دینے کے لیے تیار رہتا ہے۔ میں نے کسٹمرز کی ضرورت کے مطابق ہر چیز کا حل تلاش کیا اور اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے کام کیا۔ اس کے علاوہ میرا خیال ہے کہ بزنس اور زندگی میں توازن بنا کر رکھیں۔ آپ اپنے کاروبار کو وقت دیں، ملازمین سے میل جول رکھیں اور فیملی کا خیال بھی رکھیں، جب آپ سب کو لے کرچلیں گے تو آپ کے لیے کامیابیاں سمیٹنا آسان ہو جائے گا۔
٭٭٭

20 روپے کا بزنسایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں منگل کو سبزی وغیرہ کا بازار لگتا ہے۔ میں حسب معمول سبزی خرید کر نکلا تو ...
23/12/2024

20 روپے کا بزنس
ایک دوست کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں منگل کو سبزی وغیرہ کا بازار لگتا ہے۔ میں حسب معمول سبزی خرید کر نکلا تو میرا ایک بارہ سالہ شاگرد مجھ سے ٹکرا گیا۔ اس کے کندھے پر کچھ شاپرز پڑے ہوئے تھے اور وہ بیچ رہا تھا۔ مجھ سے علیک سلیک کر کے وہ بھیڑ میں گم ہو گیا۔
ایک دن میں نے اس سے اتفاقاً سوال کیا کہ تم نے سبزی بازار والے دن کتنے پیسے کمائے؟
کہنے لگا: سات سو روپے!
میں حیران ہوا۔
میں نے دوسرا سوال کیا کہ کتنے پیسے لے کر منڈی گئے تھے؟
جواب سن کر میں دوبارہ حیرت کا بت بن گیا۔ وہ کہنے لگا صرف بیس روپے لے کر بازار میں داخل ہوا اور سات سو روپے کما کر نکلا۔
لڑکے نے تفصیل سے بتایا کہ میں نے شروع میں بیس روپے کے پانچ بڑے شاپرز خریدے اور دس روپے فی شاپر کے حساب سے پچاس کے بیچ دیے،پھر دس روپے سائیڈ پہ کر کے چالیس کے دس شاپرز لیے اور سو روپے میں بیچ دیے۔ پھر بیس روپے سائیڈ پہ کر کے 80 روپے کے بیس شاپرز لیے اور دو سو کے بیچ دیے۔ ان پیسوں سے چالیس روپے سائیڈ پہ کر کے ایک سو ساٹھ روپے کے چالیس شاپرز لیے اور چار سو میں بیچ دیے۔ یوں میرے پاس چار سو ساٹھ روپے جمع ہو گئے، پھر میں نے اسی روپے کے شاپرز لیے اور دو سو میں فروخت کر دیے۔ اب میرے پاس پانچ سو اسی روپے ہو گئے، پھر میں نے اسی روپے کے شاپرز لیے اور دو سو کے بیچ دیے، یوں میں نے شام تک سات سو روپے کما لیے۔
مجھے اس تفصیل نے چونکنے پر مجبور کردیا۔
لڑکے نے مزید کہا کہ میں اس طرح پیسے جمع کر رہا ہوں اور ایک دن میں نے بڑا کاروبار کرنا ہے۔
اب آپ بتائیے کہ یہ بارہ سالہ لڑکا بڑا ہو کر ایک کامیاب تاجر بنے گا یا نہیں؟
لڑکے نے پہلے ایک منفرد آئیڈیا سوچا، پھر بازار کی ڈیمانڈ دیکھی؟ تو لڑکا اس نتیجے پر پہنچا کہ لوگوں کے پاس سبزی زیادہ ہونے کی وجہ سے سنبھالی نہیں جاتی اور انہی بڑا شاپر ضرورت ہوتا ہے اور یہ جانتا ہے کہ پروڈکٹ نہیں، ضرورت بکتی ہے۔ پھر لڑکے نے وہ دکان تلاش کی، جہاں سے اسے ہول سیل ریٹ پر معیاری شاپرز مل سکیں۔ اب اس نے محنت اخلاص اور لگن سے شام تک بیس روپے لگا کر سات سو روپے کما لیے اور یوں مجھے وہ پورا بزنس سکھا گیا۔

ناکام کاروبار کو کامیاب کیسے بنائیں؟........................................انسان کی اپنی حالت جس طرح مسائل سے دوچار ہوت...
22/12/2024

ناکام کاروبار کو کامیاب کیسے بنائیں؟........................................
انسان کی اپنی حالت جس طرح مسائل سے دوچار ہوتی رہتی ہے، اسی طرح کاروبار میں بھی اونچ نیچ کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ بعض اوقات مارکیٹ فورسز ہوتی ہیں جو کاروبار کو یا تو آسمان پر لے جاتی ہیں یا پھراسے 90 ڈگری پر نیچے گرا دیتی ہیں۔ یہ ماہرین ہی ہوتے ہیں جو حالات کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد اپنی رائے قائم کرتے ہیں کہ کس طرح کاروبار کو درست کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے خیال میں مندرجہ ذیل حالات اور وجوہات پر غور کرنے سے فیل کاروبار درست کیا جاسکتا ہے:
1 وجوہات کا تعین
سب سے پہلے مالکانِ کاروبار کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر ان وجوہات کا تعین کریں یا ماہرین سے کرائیں جس کی وجہ سے کاروبار فیل ہورہا ہے۔ اس کام کے لیے مالکان خود بھی مطالعہ کریں اور تمام وجوہات پر غور کریں جو ممکنات میں سے ہیں۔ اگر کسی بات کی سمجھ نہ آرہی ہوتو پھر ماہرین کی کمپنی سے کنٹریکٹ کرکے ان سے کھوج لگوانا چاہیے، تاکہ مشکلات کا سدباب ہوسکے۔ جب وجوہات آپ کے سامنے ہوں گی تو پھر ان کی درستگی کا سوچا جائے گا۔ اس طرح کرنے سے امید ہے کہ کاروبار پھر سے چل پڑے گا۔
2 ماہرین سے مشورہ
ماہرین سے رپورٹ لینے کے بعدان وجوہات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر وہ خود وجوہات کا تعین کرنے سے قاصر ہوں تو پھر اپنے یا باہر کے ماہرین سے مشورے لینے چاہییں تاکہ حالات درست ہو سکیں۔
3 حالات کا جائزہ لینا
کمپنی اور کاروبار کے حالات کودیکھنا چاہیے کہ وہ کس رخ پر جارہے ہیں۔ روزانہ کی رپورٹ تیار کرنی چاہیے کہ آج کے دن میں کاروبار کیسا ہوا؟ کیا کیا اچھے یا بُر ے اثرات پڑے؟ اسی طرح سے ہفتہ وار کارکردگی رپورٹ تیار کرنی چاہیے اور پھر ماہانہ رپورٹ تیار کرکے پچھلے مہینوں کی رپورٹوں سے تقابلی جائزہ لینا چاہیے، تاکہ پتا چلے کہ کتنی پرسنٹیج گھٹ یا بڑھ رہی ہے۔ اس طرح کرنے سے پورے حالات کا تنقیدی جائزہ آپ کے سامنے ہوگا۔
4 مارکیٹ فورسز کا مطالعہ
تقابلی جائزے میں کاروباری حضرات کو پوری طرح سے یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی فورسز ہیں جن کی وجہ سے اس مارکیٹ میں کاروبار میں گراوٹ آتی جارہی ہے۔ اس طرح کے دقیق مطالعے سے وہ سارے حالات کاروباری شخصیت کے سامنے آجائیں گے جس کی وجہ سے ان کے کاروبار کی ترقی رک گئی ہے۔ لہذا ان کو ان وجوہات کا سدباب کرنا ہوگا۔
5 سرمائے کی کمی
بعض اوقات سرمائے کی کمی کی وجہ سے بزنس مین کے لیے نئی نئی پراڈکٹ مارکیٹ میں لانا مشکل ہوتا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں بیٹھے ہوئے دوسرے حضرات اچھی چیزیں لارہے ہوتے ہیں اور یوں گاہک دوسری طرف جارہے ہوتے ہیں۔ اس بات کا جب پتا چل جائے تو پھر فوری طور پر سرمایہ کا انتظام کرکے مارکیٹ میں نیا مال پہنچایا جائے تاکہ کاروبار پھر سے چمک جائے۔
6 جگہ کی تبدیلی
کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں کمپی ٹیشن نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جب کہ گاہکوں کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ ایک دکان سے دوسری میں اور دوسری سے تیسری میں جاتا ہے اور اپنے مطلب کی چیزیں ڈھونڈھتا ہے۔ جب مارکیٹ میں زیادہ دکانیں نہ ہوں گی تو پھر ایک مخصوص دکان بھی چلتی چلتی بیٹھ جائے گی اور یوں کاروبار ٹھپ ہوجائے گا۔ ایسے میں کاروباری شخصیت کو اپنا کاروبار ایسی مارکیٹ میں کرنا ہوگا جہاں اس پروڈکٹ کی اور بھی دکانیں موجود ہوں تاکہ لوگوں کو گھوم پھر کر اپنی اشیاء ڈھونڈھنے کا موقع مل سکے۔ یوں جگہ کی تبدیلی سے کاروبار میں ترقی کے چانس موجود ہیں۔
یہ بات عملی طور پر مارکیٹوں میں دیکھی جاتی ہے کہ بزنس مین اپنی دکانیں بدلتے دیکھے جاتے ہیں۔
7 کاروبار میں نئے ٹرینڈ شامل کرنا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مارکیٹ میں نئے نئے ڈیزائن آ رہے ہوتے ہیں اور کچھ حضرات بس پرانا مال نکالنے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پرانا بھی رک جاتا ہے اور وہ یوں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسے کرنے والے حضرات مارکیٹ میں ناکا م ہو جاتے ہیں۔ اس ٹرینڈ کو تبدیل کرنے کا ایک ہی طریقہ کہ جیسی ڈیمانڈ ہو ویسی ہی مارکیٹ میں سپلائی ہونی چاہیے۔ اگر ہم اس کے خلاف الٹ کام کریں گے تو ناکامی کے سوا کیا ملے گا۔
8 پارٹنرشپ یا کمپنی میں تبدیلی
کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ کاروبار سنگل مالک سے زیادہ مالکان کا محتاج ہوتا ہے۔ ایسے میں کمپنی یا لمیٹٹد کمپنی بنانی ہو گی۔ کبھی کمپنی سے کارپوریشن کی طرف جانا ہوتا ہے تاکہ کاروبار جو رک گیا وہ چل سکے۔
9 مینجمنٹ میں ماہرین کی ضرورت
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مینجمنٹ ہی مس مینجمنٹ کی وجہ بنی ہوتی ہے۔ جو وقت کو ضائع کرتے ہیں۔ ایک سوچ نہ ہونے کی وجہ سے کسی بات پر اتفاق نہیں ہوتا اور یوں فیصلوں میں تاخیر ہوتی ہے۔ کبھی ورک فورس کی کمی اور کبھی مشینری کی کمی کی وجہ سے کام رک جاتے ہیں۔
اگر مالکان مندرجہ بالا وجوہات کے علاوہ بھی اپنی عقل و دانست سے وجوہات معلوم کرکے ان کو ختم کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کاروبار پھر سے پٹری پر نہ لاسکیں۔

نوجوان ہر کام کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتے ہیں، جو ممکن نہیں سعودی عرب کے معروف اور زیرک تاجر عبدالرحمن الصالح کی تجربوں ب...
21/12/2024

نوجوان ہر کام کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتے ہیں، جو ممکن نہیں
سعودی عرب کے معروف اور زیرک تاجر
عبدالرحمن الصالح کی تجربوں بھری گفتگو............................................
سوال
آپ نے چین کا بھی سفر کیا، وہاں کی انڈسٹری کو کتنا مختلف پایا؟
جواب
جب میں نے چین کا سفر کیا تو میرے مالی حالات قدرے اچھے تھے۔ میں نے چین کا پہلا سفر کسی بڑی خریداری کی نیت سے نہیں کیا تھا۔ وہاں دو ہفتے رہا۔ مختلف کمپنیوں کا وزٹ کیا۔ میں نے یہ محسوس کیا کہ چین میں خام مال یہاں سے کافی زیادہ اچھا ہوتا ہے۔ میرے لیے یہ دو ہفتے بڑے مفید رہے۔ میں وہاں سے بہت ساری چیزوں کے ریٹ معلوم کر کے آیا۔ جو سعودیہ میں وہاں سے کافی مختلف اور مہنگے تھے۔ چنانچہ واپس آتے ہوئے عورتوں کے ہینڈبیگ، بچوں کے کپڑے اور کچھ ملبوسات لایا جو سعودیہ میں بڑے مہنگے داموں بک گئے۔ اس چیز نے میرے حوصلے کو بڑھایا۔ میں سعودیہ کے لوگوں کو جب دیکھتا ہوں تو بڑا افسوس ہوتا ہے کہ ان بازاروں پر قبضہ باہر کی دنیا کا ہے یہ اپنے کپڑے تک تیار کرنے سے عاجز ہو رہے ہیں۔
سوال
اپنی تجارتی زندگی میں مختلف اقوام کے تاجروں سے ملے، کس سے زیادہ متاثر ہوئے؟
جواب
آپ نے میرا پسندیدہ سوال کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اپنی زندگی میں تقریباً ہر قسم کے تاجر سے مل چکا ہوں۔ یمنی لوگ آپ کو کبھی فائدہ نہیں دیں گے، چاہے وہ ایک لفظ کا فائدہ ہی کیوں نہ ہو۔ ہندوستان کے لوگ آپ کو اتنی تعجب بھری نگاہوں سے دیکھیں گے جیسے کہ آپ اس دنیا میں رہنے کے مستحق ہی نہ ہوں۔ مصری اپنے آپ کو ہمیشہ آپ سے افضل سمجھے گا اور آپ کو ایک عام انسان گردانے گا، جبکہ مجھے اس معاملے میں چینی قوم سب سے زیادہ پسند آئی۔ وہ آپ کو بحیثیت انسان اہمیت دیں گے۔ ان کا رویہ سب کے لیے یکساں اور عزت و اخلاق والا ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ چین اس وقت عالمی دنیا میں جس تیزی سے ابھرا ہے، اس جیسی مثال کوئی اور نہیں ملتی۔
سوال
آپ کے بقول علم کا حصول تجارت کے لیے ضروری نہیں، حقائق اس کے برعکس ہیں کیا کہیں گے؟
جواب
جی بالکل! میں نے ابتدا میں یہ کہا کہ زمانہ طالب علمی میں جب مجھے تاجر بننے کا شوق ہوا تو میں یہ سمجھتا تھا کہ ایک تاجر کے لیے زیادہ تعلیم کی ضرورت نہیں ہے، لیکن چنانچہ آج میں برملا یہ کہتا ہوں کہ علم کا حصول کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ میرے پاس یہ ہتھیار نہیں تھا، اس لیے مجھے کئی ناکامیوں کا سامنا رہا، البتہ مجھے جب اس کا ادراک ہوا تو میں نے کئی انسٹیٹیوٹ اور مختلف سینٹرز سے کئی شارٹ کورس کیے جن میں ٹائم مینجمنٹ، انگریزی بول چال، فن خطابت، ادارہ جاتی امور، نفسیات سے آشنائی، وغیرہ سرفہرست ہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ میرے بڑے بھائی نے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کر رکھی ہے، لیکن وہ بھی جب کسی معاملے میں پھنس جاتے ہے تو مجھ سے رابطہ کرتا ہے۔
سوال
مارکیٹ میں نئے آنے والے تاجروں کو اپنی زندگی سے سیکھا کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
جواب
مجھے اپنا ایک قصہ یاد آگیا۔ ایک مرتبہ میر امغرب سفر کرنے کا ارادہ ہوا۔ میں نے سات دن کا سفر ترتیب دیا اور اس پر آنے والے خرچے کا بھی اندازہ لگایا۔ یہ خرچہ لگ بھگ 7 ہزار ریال بن رہا تھا۔ میں نے اس کا حل یہ سوچا کہ دو بریف کیس خلیجی جُبوں کے بھر کر اپنے ساتھ لے گیا۔ مغرب میں عورتوں کے یہ لباس کم ہی ملتے ہیں، چنانچہ ہوٹل میں پہنچ کر میں نے بیرے کو بتایا کہ یہ بیچنے ہیں، اس نے میری رہنمائی کر دی۔ میں نے اپنے اس سات روزہ وزٹ میں آنے والا سارا خرچا اور کچھ مزید منافع بھی یہ جبے بیچ کر کمالیا۔ یہ قصہ سن کر آپ ضرور حیران ہوں گے، لیکن حقیقت یہی ہے کہ ایک تاجر کو سال کے 365 دن ہی تاجر رہنا چاہیے۔ جب آپ لوگوں سے تعاون کی نیت اور اپنے لیے رزق حلال کمانے کی غرض سے نکلیں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی راہیں کھول دیں گے۔
سوال
آج کل نوجوان نسل سستی اور کاہلی کا شکار نظر آتی ہے، آپ اس کی کیا وجوہات سمجھتے ہیں؟
جواب
آپ نے بڑا چھا سوال کیا۔ شاید چند سال پہلے مجھ سے اگر کوئی یہ سوال کرتا تو میں اس کا جواب نہ دے پاتا۔ دراصل بات یہ ہے کہ نوجوان ہر کام کا نتیجہ فوری دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس مصیبت سے تقریباً ہر نوجوان گزرتا ہے۔ اس دوران اگر وہ صبر و تحمل سے محنت کرتا رہے تو کامیابی اس کے قدم چومتی ہے۔ اگر خدانخواستہ وہ مایوس ہو کر بیٹھ جائے تو زندگی کے منہ میں نوالہ نہیں دیا جاتا۔ اس کے لیے محنت و تگ و دو دور کرنا پڑتی ہے۔
میں ان نوجوانوں سے کہوں گا کہ جو ہاتھ پر ہاتھ دھرے کسی معجزے کا انتظار کر رہے ہیں کہ آپ معاشرے پر بوجھ بننے کے بجائے اپنے لیے خود مواقع پیدا کریں۔ کبھی کسی سے قرض لینے کا نہ سوچیں، جو اس کے چنگل میں پھنس جائیں اس کا نکلنا مشکل ہو جاتا ہے۔ کل سے نہیں آج ہی سے فجر کی نماز کے لیے جاگیے اور اپنے رب کے حضور دعا مانگ کر رزق کی تلاش میں نکل جائے۔
یاد رکھیے! دنیا میں ایسا کوئی تاجر پیدا نہیں ہوا جس نے درمیان یا چوٹی سے کام شروع کیا ہو، بلکہ ہر کسی نے صفر سے کام شروع کیا آپ بھی ان میں سے ایک ہو جائیے۔
٭٭٭

Address

Phase 1, Sector 4
Karachi
74600

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Weekly Shariah and Business posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Weekly Shariah and Business:

Share