Atraaf International

Atraaf International ‘’ATRAAF’’ Magazine is founded by renowned and famous writer, poet and senior most journalis Mahmood Shaam. Mr. Gerald Ford, Indian Prime Minister Ms.

‘’ATRAAF’’ Magazine is founded by renowned and famous writer, poet and senior most journalist Mr. Mahmood Shaam’s basic philosophy is that all good work is done in defiance of powerful and influential. After being in journalism for 48 years, he says that the central dilemma in journalism that ‘’you don’t know what you don’t know. Shaam is one of the best known and most traveled journalist of Pakis

tan. After serving JANG Group for more than 16 years continuously as Group Editor, he joined ARY Group in September 2010 and later launched a new Urdu newspaper ‘’Jehan Pakistan’’ from Karachi, Lahore and Islamabad in 2012. He has the distinction of interviewing including US President Mr. Indra Gandhi, the legendary Mr. Yasir Arafat of Palestine and many others.
“ATRAAF” is a research based, motivational and inspirational monthly magazine that will change your world.
‘’ATRAAF’’ is Pakistan’s leading destination for brave thinking and bold ideas that matter. ‘’ATRAAF’’ engages its print, online, and live audiences with breakthrough insights into the worlds of politics, business, Media, Technology, Travel, Sports, Music, arts, and culture. With exceptional talent deployed against the Pakistan’s and world’s most important and intriguing topics, ‘’ATRAAF’’ is the source of opinion, commentary, and analysis for Pakistan’s and world’s most influential individuals who wish to be challenged, informed, and entertained.

02/06/2024

جامعات اور جمہور، کیوں رہیں دور
محمود شام

اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح

اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایسے عظیم ملک میں اتارا اور مسلسل ہمیں ایسے حکمراں عطا کیے جو اپنے ہر حرف کو ہی فرمان امروز خیال کرتے تھے۔ ایسی عدالتیں ہمارے حصے میں آئیں جو حکمرانوں کی طبع نازک کا پورا خیال کرتی تھیں۔ آیت بھی صرف ’اولی الامر منکم‘ یاد رکھی گئی۔ اخبارات اور 2002 سے میڈیا بھی ایسا کہ جنبش ابرو پر غلامی کرتا رہا۔ ہم اخباری بوڑھوں کے اندر آٹو گاڑیوں سے بہت پہلے ایسے ’آٹو گیئر‘ لگ گئے تھے کہ ہم جہاندیدہ، سرد و گرم چشیدہ خود ہی اپنے اظہار کو ایسے ’گیئر‘ میں ڈالتے تھے کہ کسی کو بھی ہماری ڈرائیونگ بری نہیں لگتی تھی۔

ہم نے تو ہر دَور کی حکمرانی سے بہت کچھ سیکھ لیا۔ لیکن ہمارے خاندانی حکمرانوں، موروثی سیاستدانوں نے کچھ سیکھنے کی زحمت نہیں کی، سارے آزمودہ ہتھکنڈے ہی دہرائے جاتے ہیں، سب جانتے ہیں۔

دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رُسوائی، انجام بھی رُسوائی

یوں کر لیجئے۔ دیکھے ہیں بہت ہم نے ہتھکنڈے ریاست کے۔ آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی۔ لیکن یہ کم بخت رسوائی بھی کیا کافر شے ہے۔ اتنی خوبصورت، اتنی پُر کشش ہم اس کے عادی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اور کہتے رہتے ہیں ’کچھ اور، کچھ اور‘۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ ہمیں یہ حیات مستعار یہ چند روزہ زندگی ہی گزارنا ہوتی ہے۔ بڑے بڑے آمر منوں مٹی تلے پڑے ہیں۔ ان میں سے ایک دو کے علاوہ ان کی قبر پر ان کی اپنی اولادیں بھی نہیں جاتیں۔ ان کا کہیں ذکر بھی ہوتا ہے تو خیر سے نہیں۔ مگر یہ اقتدار کے ایوان ایسی فضا رکھتے ہیں کہ یہاں ہر آنے والا جانے والوں کی رسوائی کو ہی لائق تقلید خیال کرتا ہے۔ اب بھی اگر آپ آج کے حالات کو نہیں سمجھ پا رہے۔ تو آپ کیلئے سوشل میڈیا کے دروازے کھلے ہیں۔ وہاں الفاظ پڑھئے۔ وڈیو دیکھئے اور پھر آرام سے سو جائیے۔ بے شک آپ کے خراٹے آپ کی اولادوں تک کی نیند اڑا دیں گے۔

آج اتوار ہے۔ بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے کا دن۔ نشست کسی کھانے کی میز کے گرد کرسیوں پر ہو یا فرشی۔ مقصد تبادلۂ خیال ہے۔ حالات الجھتے جارہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے کیا مقسوم کیا ہے۔ ہم شعوری طور پر اس کیلئے تیار ہیں کیونکہ سمجھتے ہیں کہ غربت، مفلسی، بے بسی ہی ہمارا مقدر ہے۔ پے در پے اتنی شہادتیں ہوئی ہیں۔ اتنی انہونیاں کہ ہم یہ باور کرنے لگے ہیں کہ ہم خود کچھ نہیں کر سکتے۔ جو کچھ کرتا ہے۔ امریکہ کرتا ہے اور ہر چھوٹے ملک میں اپنے گماشتوں کے ذریعے وہ جو ہدف مقرر کرتا ہے۔ پورا کرلیتا ہے ہم بھول چکے ہیں کہ جو ذرہ جس جگہ ہے وہیں آفتاب ہے۔ ذرّے کا دل چیر کے نہیں دیکھتے کہ اس خاک مختصر میں کتنے جہان چھپے ہیں۔ ایٹمی طاقت بھی اس کے اندر ہے، توانائی، روشنی کا سر چشمہ بھی یہی ذرہ ہے۔ یہی مشت خاک انقلاب بھی لے آتی ہے۔ اسی سے نئے جہان بھی تخلیق ہوتے ہیں۔ انقلاب فرانس ہو، انقلاب روس، انقلاب چین۔ اس مٹھی بھر مٹی سے برپا ہوئے ہیں۔ تاریخ نے انقلاب کو ممنوع قرار نہیں دیا اور نہ اس سلسلے میں اقوام متحدہ نے کوئی پابندی عائد کی ہے۔

جامعہ کراچی کے آرٹس کے شعبے میں دو روزہ سیمینار ہو رہا ہے۔ موضوع ہے۔ سوشل سائنسز کی تدریس میں ابھرتے نئے رجحانات۔ جس اجلاس کی صدارت کا فرض مجھے سونپا گیا ہے۔ اس میں نکتہ یہ دیا گیا ہے۔ ’’تاریخی اور ادبی مطالعات میں نئے رجحانات‘‘ ہائر ایجوکیشن کمیشن والے اور یونیورسٹیوں والے قدیم رجحانات سے باہر نہیں نکلتے۔ البتہ موضوعات نئے ضرور اختیار کر لیتے ہیں۔ میں ان لائق تکریم اساتذہ کو دیکھ رہا ہوں۔ جن میں زیادہ تر خواتین ہیں۔ کس طرح دن رات پڑھتی ہیں۔ پڑھاتی ہیں، بہت ہی نا مساعد حالات میں یہ فرض انجام دیتی ہیں۔ پھر روز بڑھتی مہنگائی میں گھر بھی چلاتی ہیں۔ اپنے شاگردوں کے اپنی اولادوں کی طرح تربیت کرتی ہیں۔ چند روز میں ہی سیمینار کے موضوع پر مقالہ تیار کرتی ہیں۔ گریڈ، مراعات سب اپنی جگہ ضروری ہیں۔ لیکن 24 گھنٹے اسی کی فکر تو نہیں ہوتی۔ یونیورسٹیاں اب قریباً ہر شہر میں ہیں، سرکاری بھی پرائیویٹ بھی لیکن علم اور دانش ہر شہر میں نہیں ہیں۔ ہم اپنے اس شہر کو آٹھویں نویں صدی کا بغداد کہہ سکتے ہیں نہ کسی یونیورسٹی کو کولمبیا یونیورسٹی۔ اب حکمت و دانش مغرب کا اثاثہ بن چکے ہیں۔ مغرب میں اکیسویں صدی میں جامعہ شناسی کے معیار بھی اسی طرح بدل گئے ہیں۔ جیسے مشرق میں جامہ تلاشی کے۔

ڈاکٹر ذکیہ رانی ،ڈاکٹر شیر مہرانی، ڈاکٹر توقیر فاطمہ، صدف تبسم، ڈاکٹر سہیل شفیق سب کے مقالات ان کے رت جگوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر سید جعفر احمد تاریخ اور ادب دونوں کو سماجی پرتو میں دیکھتے ہیں۔ اس لیے وہ تاریخ، ادب اور نئی نسل کے محبوب بن گئے ہیں مگر سب کو پسند آئی ہے، جناح یونیورسٹی برائے خواتین کی بیٹی آمنہ عبدالرحمن کی پیشکش جو جائزے کے جدید ترین انداز میںتیار کی گئی۔ اس موضوع پر نئی نسل کا باقاعدہ سروے۔ سوالات جوابات، پھر تجزیہ، سفارشات، تجاویز اور باقاعدہ اختتام بھی۔ شکریہ پروفیسر عظمیٰ فرمان، پروفیسر شائستہ۔

میری عرضداشت کا آغاز یہ ہے۔ کسی سماج پر سب سے زیادہ اثر انداز جامع مسجدیں ہوتی ہیں یا جامعات۔ جامع مساجد تو اپنا یہ فریضہ بدستور انجام دے رہی ہیں لیکن جامعات سماج سے دور ہوتی جارہی ہیں۔ اہم موضوعات پر کئی کئی روزہ سیمینار بھی ہوتے ہیں۔ لیکن شہر کی گلیوں کو انکی ہوا بھی نہیں لگتی۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ میں تو کئی ماہ سے اپنی یونیورسٹیوں سے ہی تقاضا کر رہا ہوں کہ جب ریاست اور حکومت آئندہ دس پندرہ برس کیلئے کوئی روڈ میپ نہیں دے رہی ہیں۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے 24 کروڑ کو پتہ تو چلے کہ یہ قرضے کونسی پشت میں اتریں گے اور کیسے، کونسی قسط کونسی اولاد ادا کرے گی تو جامعات کا فرض ہے کہ وہ اپنے محترم پروفیسرز کی مشاورت سے یہ روڈ میپ تیار کرکے قوم کو پیش کریں۔ ایک وائس چانسلر صرف حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملانے کیلئے نہیں ہوتا۔ کئی ہزار طلبہ و طالبات اور سینکڑوں اساتذہ کا مستقبل بطور امانت اسکے پاس ہوتا ہے۔

ہائر ایجوکیشن کمیشن سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں کا کنسورشیم بنا کر ایک اپنا میڈیا ہائوس بنائے۔ جس کے اپنے اخبار، اپنے ریڈیو اسٹیشن، اپنے ٹی وی چینل اپنے اینکر اور اپنے یوٹیوب چینل ہوں۔ ان سیمینارز کو براہ راست دکھائے۔ آپ کے پاس تو لاکھوں سامعین ،ناظرین کلاس روموں میں موجود ہیں۔ ریٹنگ کا یا سبسکرپشن کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس طرح جامعہ اور جمہور آپس میں جڑ سکتے ہیں۔

مارچ 1967 سے ایک انتخاب۔ آپ کے لیے۔
31/05/2024

مارچ 1967 سے ایک انتخاب۔ آپ کے لیے۔

مارچ 1967 کراچی میں آمد کے بعد پہلی غزل، آپ کی نذر۔

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے آج ہی اپنا اطراف منگوائیں۔ 03008210636
31/05/2024

مکمل مضمون پڑھنے کے لیے آج ہی اپنا اطراف منگوائیں۔ 03008210636

1961 کی ایک غزل۔ دوستوں کی نذر۔
30/05/2024

1961 کی ایک غزل۔ دوستوں کی نذر۔

احباب کی خدمت میں 1961 میں جھنگ میں کہی گئی ایک غزل۔

ان مختصر سطور کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔
30/05/2024

ان مختصر سطور کو آپ نظر انداز نہیں کر سکتے۔

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

30/05/2024
30/05/2024

یوم تکبیر بھی ایڈہاک ازم کی نذر
محمود شام

وطن کی ساکھ پانی ہورہی ہے
یہ کیسی حکمرانی ہورہی ہے

اچانک 27 مئی کی شام یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگلے روز 28 مئی کو یوم تکبیر کے موقع پر ملک میں عام تعطیل ہوگی۔ سارے سرکاری اور نجی ادارے بند رہیں گے۔ یہ فرمان بھی دفتری اوقات کار کے دوران جاری نہیں ہوا۔ سرکاری ملازمین رات بھر گھروں پر بے چین رہے۔

ایڈہاک ازم اور کیا ہوتا ہے۔ پہلے سے کوئی تیاری نہ کرنا۔ معمول کے سب کام چھوڑ کر اس فرمان شاہی کے مطابق سارے کام جلدی جلدی نمٹانا۔ حالانکہ ایک اشتہار جو بار بار چل رہا ہے اس میں بھی کہا جارہا ہے۔ ’نکھار میں Noجلدی‘۔ انہی عبوری رویوں نے اداروں کو دوام اور پختگی نہیں ملنے دی۔ ہر عجلت ایک بے یقینی ساتھ لے کر آتی ہے۔ ہمیں دنیا بار بار کہتی ہے کہ پاکستان والے خود کوئی روڈ میپ بنائیں کہ آئندہ دس پندرہ سال کیسے گزارنے ہیں۔ یا دو دہائیوں بعد پاکستانی کیسا ملک چاہتے ہیں ہم تو ایک سال کیا،ایک مہینے کیا، ایک ہفتہ کیا، ایک دن کا بھی روڈ میپ نہیں بناتے۔ دن کے دن بھی تبدیلیاں لاتے رہتے ہیں۔ 28 مئی 2023 کو بھی پتہ تھا کہ 28 مئی 2024 آئیگی۔ 8فروری 2024 کو بھی علم تھا کہ یوم تکبیر آئے گا۔ پھر 4مارچ کو جب فارم 47 کی بنیاد پر وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارتِ عظمیٰ کے عظیم منصب کا حلف اٹھایا اس وقت بھی معلوم تھا کہ یوم تکبیر آئے گا۔جب 20 دسمبر2023 کو ریاست 2024 کیلئے چھٹیوں کا اعلان کررہی تھی۔ اس وقت بھی کیلنڈر پر 28مئی 2024 جھلملا رہا تھا۔ اب اعلان میں کہنا پڑا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں تبدیلی لاتے ہوئے یہ چھٹی کی جارہی ہے۔

ایسا کیا ہنگامی سبب بنا کہ یہ چھٹی ناگزیر ہوگئی ۔قطعی نہیں سوچا گیا کہ لاکھوں طالب علموں نے راتیں جاگ جاگ کر امتحانات کی تیاری کی ہوگی۔ ایک پرچے کا امتحان منسوخ یا ملتوی ہونے سے سارا شیڈول متاثر ہوجاتا ہے۔ امتحانات کی ترتیب، پھر نتائج کے اعلان کے دن کی تبدیلی، اگلی کلاسز کے داخلے، ملتوی شدہ امتحان کیلئے پھر جگہوں کا انتخاب۔ کاش حکمرانوں کی اولادیں بھی کبھی امتحان دے کر پاس ہوتیں۔

اس طرح ذیلی عدالتوں، ڈسٹرکٹ سیشن کورٹوں، ہائی کورٹوں، سپریم کورٹوں میں مقدمات کی سماعتیں بھی لٹک گئیں۔ پہلے ہی کتنے ہزاروں لاکھوں مقدمات التوا میں ہیں، کتنے قیدیوں کو آس ہوتی ہے کہ وہ حوالات، جیل کی چار دیواری سے شہر کی کھلی فضا میں جائیں گے۔ وکیلوں سے ملاقات ہوسکے گی کتنی بزنس میٹنگیں ہوں گی جو ملتوی کی گئی ہوں گی۔ جس قوم پر ہزاروں ارب روپے کے قرضوں کا بوجھ ہو جو ہر لمحے اس لیے خون پسینہ ایک کررہی ہو کہ یہ قرضے اتر سکیں۔ اس کے 24 گھنٹے بغیر کام کے گزریں گے۔ کتنا بڑا خلا پیدا ہو جائے گا۔یہ تو ماہرین اقتصادیات، اسکالرز ہی بتاسکیں گے کہ ایک روز کی چھٹی سے کتنے ارب کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اسکولوں، کالجوں یونیورسٹیوں میں مذاکرے، سیمینار، بھی ملتوی کیے گئے ہیں۔

سوال یہی پیدا ہوتا ہے کہ ہم پہلے سے منصوبہ بندی کیوں نہیں کرتے۔ ایسی حکمرانی سے غیر یقینی حالات کیوں پیدا کرتے ہیں۔ یوم تکبیر۔ یقیناً پاکستان کیلئے ایک افتخار کا، انبساط کا دن ہے۔ عام کام کے دنوں میں یوم تکبیر زیادہ بہتر انداز میں منایا جاسکتا ہے۔ وزیر اعظم قوم سے خطاب کرتے۔ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ تقریر نشرکرتے۔ یہ اشتہار جو اخبارات میں شائع ہوئے ہیں۔ کام کے دن دفتروں میں زیادہ دیکھے جاتے اور آپس میں تبادلہ خیال بھی ہوتا۔بینکوں کی شاخوں میں بھی آنے جانے والے یہ اشتہار دیکھتے۔ ہر دفتر میں تقریب رکھ کے ایٹمی کیک کاٹے جاسکتے تھے۔ اسکولوں کی اسمبلیوں میں بچے ایٹمی ترانے گاتے۔جب بھی تخمینہ لگایا جائے گا، اس چھٹی کے اعلان سے کسی بھی پہلو سے فائدہ کم، نقصانات زیادہ ہوں گے۔

جس ایٹمی طاقت پر فخر کیا جارہا ہے اس پروگرام کا آغاز کرنے والے کو 4اپریل 1979 ءکو پنڈی کی جیل میں اس ریاست نے پھانسی پر چڑھایا، بم کیلئے یورینیم افزودہ کرنے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایک قیدی کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا۔جبکہ ہمسایہ ملک میں ایٹمی سائنسدان کو ملک کا صدر بنایا گیا۔ پروگرام کو تسلسل سے فنڈز جاری کرنے والے غلام اسحاق خان کو صدارت سے مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔ 28مئی 1998ءکو بم کا تجربہ کرنے کی اجازت دینے والے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو دوبار وزارتِ عظمیٰ سے برطرف کیا گیا۔ جیل میں ڈالا گیا۔ اور اب اسے چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کے لیے لایا گیا لیکن منتخب ہونے کے باوجود اسے یہ منصب نہیں دیا گیا۔وقتی شہرت، عبوری مقبولیت کی خاطر ہم شو بزنس والے تماشے کرتے ہیں، اپنا قیمتی وقت ضائع کرتے ہیں، عشق دوام مانگتا ہے، ملک سے عشق،مقصد سے لگن، ہر وقت مملکت کی بقا کیلئے منصوبے ہر شعبے میں تشکیل دینے کا تقاضا ہے۔

عشق صدیوں کی لگن مانگتا ہے

ہم مہینے کے مہینے والے

پاکستان اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے۔ اس کا محل وقوع انتہائی حساس اور عالمگیر اہمیت کا حامل۔ صدیوں کی گزرگاہ پھر 60فی صد نوجوان آبادی والا توانا جوان ملک۔ کاش اسے اس کی اہمیت، حساسیت اور امکانات کے مطابق کوئی قیادت بھی نصیب ہوجائے۔

اس ہفتے ہم ایک عظیم پاکستانی، ہمہ جہت فنکار، انسان دوست انسان 83 سالہ طلعت حسین سے محروم ہوگئے۔ سلیقے، قرینے ادب آداب سخن فہمی کا ایک عہد بھی ان کے ساتھ چلا گیا۔ یہ جو عشرے تھے۔ پاکستان میں درد مندی کے، سنجیدگی کے، تدبر کے وہ طلعت حسین،طارق عزیز،حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا بھی ساتھ لے گئے ہیں۔ اب جو اداکار، اداکارائیں جلوہ گر ہیں۔ وہ تو برانڈز کے کھوکھوں پر کھڑے متحرک سیلز پرسن ہیں۔ مکالمے بک رہے ہیں، تاثرات نیلام ہورہے ہیں، محسوسات پر مقررہ داموں کے ٹیگ لگے ہیں۔ کہانی ایک ہی ہے، ڈرامے ہزاروں۔ طلعت حسین گہری سوچ اور مطالعے کے آدمی تھے۔ آپ ان کے ساتھ چائے کی پیالی پر بیٹھتے تو کتنے ادوار سے گزرنے کا موقع ملتا، ترقی پسندی، مزاحمت،سماجی زبوں حالی، ہمسایہ ملک میں فن اور فنکار کی قدر۔ کیا کیا موضوعات پر بات ہوتی، آج متانت اٹھ گئی دنیا سے۔ ان ہی سفاک دنوں میں ہمارے ’اخبار جہاں‘ کے ساتھی سید وجاہت علی بھی اپنے پروردگار کے حضور حاضر ہوگئے۔ 60 ءاور 70ءکی دہائی کے مقبول سفر نامہ نگار۔ 70روپے میں سیر جہاں، اس وقت کے قارئین کی نسل میں بہت مقبول سلسلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے۔

اپنے والد کے لیے آپ بھی لکھیے اور ہمیں بھیجیے۔
28/05/2024

اپنے والد کے لیے آپ بھی لکھیے اور ہمیں بھیجیے۔

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

آتی نسلوں کے لیے جاتی نسلوں کی درد مندی
27/05/2024

آتی نسلوں کے لیے جاتی نسلوں کی درد مندی

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

طلعت حسین ایک دنیا ساتھ لے گئے
27/05/2024

طلعت حسین ایک دنیا ساتھ لے گئے

پاکستان کے ممتاز صحافی، شاعر، ادیب اور تجزیہ کار جناب محمود شام 5 فروری 1940

26/05/2024

آئیے۔ بشکیک سے کچھ سبق سیکھیں
محمود شام

سب سے پہلے تو اُس رحمٰن رحیم کا لاکھ لاکھ شکر کہ کرغزستان سے ہمارے سینکڑوں بیٹے بیٹیاں بخیر و عافیت وطن واپس پہنچ رہے ہیں۔ میں کرب میں مبتلا ہوں کہ ہماری ریاست، ہماری حکومتیں، ہمارے محکمے کتنے بے حس ہیں کہ اپنے قیمتی اثاثے اپنی توانائیوں اپنے مستقبل کو یوں کسی تحفظ کے بغیر دور دراز اجنبی بستیوں میں جانے دیتے ہیں۔یہ ہیرے ہیں۔ جن کی تراش خراش ہمیں ہی کرنا چاہئے تھی۔ میں نے جاننے کی کوشش کی کہ کرغزستان میں تعلیم کا معیار کیا ہے۔ کونسی زبان میں پڑھایا جاتا ہے درسگاہوں میں در اصل پاکستان تعلیم مافیا کی بھی سرمایہ کاری ہے اور یہ باقاعدہ تجارت ہے۔ اس پر ہائر ایجوکیشن کمیشن کی بھی نظر ہونی چاہئے تھی۔ ان بچوں بچیوں کے والدین کو بھی سوچنا چاہئے تھا کہ اس طرح اپنی منتوں مرادوں کو غیر ملکوں میں کیوں بھیجا جائے۔ انکی تعلیم کا اہتمام یہاں ہی کیا جائے۔ پارلیمنٹ میں کبھی یہ مسئلہ زیر بحث آیا۔

ایک مملکت کیلئے اسکی حدود میں پیدا ہونے والا ہر بچہ اس کی اولین ذمہ داری ہے۔ اسکی پرورش، اس کی خوراک اسکی جان کی حفاظت۔ اسکی تعلیم اور وہ اگر کہیں باہر جارہا ہے تو ہمارے سفارت خانوں کے علم میں ہونا چاہئے۔ ریاست کو جب ماں کہا جاتا ہے تو کیا ماں اپنے جگر کے ٹکڑوں سے یوں غافل ہوسکتی ہے۔ میرا ضمیر میری سوچ کی رَو کو روک رہا ہے کہ کس ریاست کی بات کررہے ہو۔ جہاں تہذیب تمدن کو زر کی جھنکار سے کچلا جارہا ہے۔ جہاں حرف و دانش کو طاقت سے روندا جارہا ہے۔ جہاں ہر انسانی ضرورت سے مال بنانے والے مافیا موجود ہیں۔ اٹلی کے سمندروں کی نذر ہونے والی گجرات ،سیالکوٹ کی چمکتی جوانیوں کا سلسلہ کیا رک سکا ہے۔ چند روز شور شرابا رہا پھر وہی دھندا جاری ہے۔دنیا بھر میںجیتے جاگتے سانس لیتے ہر انسان کو سماج کا مرکز سمجھا جاتا ہے۔ اس کی ہر جہت سے حفاظت کی جاتی ہے۔ یہاں ہر ذی روح کو پیسے کمانے کی مشین سمجھا جاتا ہے۔ ایک رکشے والے سے لیکر فضائی کمپنیوں کا بھی یہی عالم ہے۔ سب سے بڑا روپیہ۔ یہی لالچ ہمیں کنگال کررہا ہے۔ پاکستان نوجوانوں کیلئےپہلے سے زیادہ غیر محفوظ اور ناسازگار ہورہا ہے۔ ذہانت کا انخلا ہورہا ہے۔

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے۔ ان کے ڈھیروں سوالات پر گفتگو کا دن۔ مت پوچھئے میرے دل کو کتنی تسکین ہوتی ہے۔ جب کوئی باپ کوئی ماں کہتی ہے کہ آپ کی اس یاددہانی سے ہمارے ہاں اتوار کا لنچ یا برنچ، خاندان کے اکٹھے ہونے کا سبب بن گیا ہے۔ کرغزستان سے جن خاندانوں کے بیٹے بیٹیاں ابھی واپس نہیں آسکے۔ ان کا اتوار کیا کوئی دوپہر بھی کیسے گزرتی ہو گی، اور یہ جو سینکڑوں نوجوان ہیں انہوں نے اتواروں کو اپنے والدین سے تو بات کی ہو گی۔ اس وقت محلے داروں نے، کونسلر نے یوسی کے چیئرمین نے، ایم پی اے، ایم این اے نے کوئی مشورہ دیا ہو گا۔ لیکن ہمارا یہ سماج بکھر چکا ہے۔ رشتے اکھڑ چکے ہیں مگر ہر زحمت میں ایک رحمت ہوتی ہے۔ 38سال کی خاندانی اور اداراتی خود غرضیوں اور نا اہلیوں نے جو افراتفری پیدا کی ہے اور ملک کی اکثریت کو جس طرح مفلسی میں دھکیلا ہے۔ میں کتنی روانی اور آسانی سے لکھ دیتا ہوں۔ اپنے فیس بک لائیو میں کہہ دیتا ہوں کہ 24 کروڑ میں سے دس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ کبھی سوچتا نہیں ہوں کہ اتنی بڑی تعداد جیتے جاگتے بزرگ ،مائیں ،بہنیں، بچے کس طرح زندگی گزارتے ہیں۔ غربت کی لکیر سے نیچے جانے والوں کی مالی حیثیت 3000روپے ماہانہ آمدنی بتائی جاتی ہے۔ آپ بھی بچوں والے ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ 3 ہزار روپے میں چھ سات افراد کے دو وقت کا کھانا۔ دوسری ضروریات، بجلی گیس کے بل، بیماریوں کا علاج کیسے ممکن ہے۔

اب خاص طور پر اپریل 2022سے ریاست سنگین مسائل کے مقابلے میں جس طرح عاجز ثابت ہو رہی ہے۔ اداروں، افراد، کئی کئی بار وزارت عظمیٰ پر فائز رہنے والوں کی نا اہلی خود غرضی کا خمیازہ بھگتنے والے کروڑوں پاکستانیوں کی اب سوچ ایک ہو رہی ہے۔ ایک طرف کپکپی بھی طاری ہوتی ہے کہ حساس ادارے برہمی کا ہدف بن رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ ادراک کہ اب خلقت شہر اپنی پامالی کا اصل سبب جان رہی ہے۔ تاریخ میں جب کوئی قوم اپنے مسائل کی وجوہ سے واقف ہوجاتی ہے تو اس کیلئے ان کے حل تک پہنچنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔ وقت بہت قریب ہے کہ ہم میں سے جو بھی اس عمودی، افقی، معاشی، سماجی بحران کا ذمہ دار ہے۔ اور پھر بھی اپنے آپ کو عقل کل خیال کرتا ہے اس کی حرمت اب زیادہ دیر برقرار نہیں رہ سکے گی۔ سب سے زیادہ خطرناک بات ہے کہ سوشل میڈیا پر بڑی بے باکی سے اظہار کیا جا رہا ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ محبت ہمیں متحد نہیں کرتی ہے، نفرت ہمیں اکٹھا کر دیتی ہے۔ اس نفرت کا خوف اشرافیہ کو اکٹھا تو کرتا ہے لیکن وہ اندر سے ایک دوسرے کے ساتھ نہیں ہوتے۔ جبکہ خاک نشیں سالہا سال کے نسل در نسل استحصال کے بعد دل سے یکجہتی کرتے ہیں۔ اب جو کچھ ہورہا ہے۔ انگریزی میں اس کے لیے محاورہ ہے۔

''You ashed for it''۔ فارسی میں ہے۔’’اے بادصبا ایں ہمہ آوردہ تست۔‘‘ اور اُردو میں ہے۔ ’’یہ سب آپ کا کیا دھرا ہے۔‘‘ الطاف حسین حالی بہت پہلے کہہ گئے تھے۔

پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے

اسلام کا گر کر نہ ابھرنا دیکھے

مانے نہ کبھی کہ مد ہے ہر جزر کے بعد

دریا کا ہمارے جو اترنا دیکھے

اقبال پکار رہے ہیں۔

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

ثریا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

اسلاف صرف ہم کئی صدیاں پہلے تلاش نہ کریں۔ اسلاف وہ بھی تھے۔جن کے زمانے میں پی آئی اے نے سنگاپور، امارات کی ایئر لائنوں کو وجود دیا۔ وہ بھی جن کے دَور میں نوجوان کسی نظم کے تحت دوسرے ملکوں میں گئے۔ پاکستان پچاس ساٹھ کی دہائیوں میں دونوں بازوئوں میں ایک علمی، تہذیبی، صنعتی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ مقابلہ دوسری قوموں سے ہونا چاہئے لیکن ہم اپنے لوگوں سے مقابلہ کر رہے ہیں، اپنی توانائیاں اور صلاحیتیں ان مجادلوں کی نذر ہورہی ہیں۔ ہماری اکثریت جاگ چکی ہے۔ احساس زیاں شدت سے جھنجھوڑ رہا ہے۔ اداروں کی خود احتسابی اس نفرت کی یکجہتی کو محبت کے اتحاد میں بدل سکتی ہے۔ اپنی انا سے باہر نکلیں۔ قوم کی اس بیداری کو ریاست کو آگے لے جانے کا فیصلہ کن موڑ بنائیں۔

ماہ نامہ اطراف کی ویب سائٹ پر اب تک کوئٹہ انکوئری کمیشن کی تہلکہ خیز رپورٹ پر مشتمل 9 اقساط شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے اس رپ...
23/05/2024

ماہ نامہ اطراف کی ویب سائٹ پر اب تک کوئٹہ انکوئری کمیشن کی تہلکہ خیز رپورٹ پر مشتمل 9 اقساط شائع ہو چکی ہیں۔ آپ نے اس رپورٹ کو پڑھا؟ اپنی رائے اور سوالات سے ہمیں ہماری ویب سائٹ پر آگاہ کریں۔ تاکہ ایک صحت مند مکالمے کو فروغ دیا جا سکے۔

16 دھماکے کے بعد افراتفری اور پولیس کی ہوائی فائرنگ:

23/05/2024

باخبر نئی نسل پوچھتی ہے؟
محمود شام

میں کل رات سے کٹہرے میں کھڑا ہوں۔

نئے ہزاریے کی پیدائشوں نے سوالوں کی بوچھاڑ کر رکھی ہے۔میری درخواست کوئی نہیں مان رہا۔ میں عرض کررہا ہوں کہ مجھے سوالنامہ دے دیں۔ جیسے نیب ایف آئی والے دیتے ہیں۔ میں اطمینان سے بیٹھ کر ان کے جوابات قلمبند کردوں گا۔

میری اپنی اولادیں کہہ رہی ہیں کہ تمہیں سات دہائیاں دی گئیں کیا وہ وقت کم تھا۔ آپ ذمہ دار ہوتے تو خود ہی ان سوالات کے جواب دے رہے ہوتے۔ آج یہ نوبت نہ آتی کہ ہم آپ جیسے بزرگ کو۔ جن کے قویٰ مضمحل ہوگئے ہیں۔ جن کی یادداشت کمزور پڑگئی ہے۔ جنہوں نے کتنے عشرے مصلحتوں میں گزار دیے۔ جن کیلئےغالب بہت پہلے کہہ گئے تھے۔

بنا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا

آپ نے اس اِترانے میں ہی کتنے قیمتی، قدرتی وسائل نظر انداز کردیے۔ کتنے انسانی وسائل کو استعمال نہیں ہونے دیا یا انہیں دوسرے ملکوں میں جانے پر مجبور کردیا۔ انہوں نے وہاں جاکر ان کے بینک کامیاب کردیے۔ ان کی گلیاں سونے کی کردیں۔

یہ میرے اپنے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں، نواسے نواسیاں،بہوئیں داماد مجھے کیسی نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا صاف صاف کہنا ہے کہ اب ہم آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتے۔ ہم نے تو سوشل میڈیا سے جان لیا ہے کہ اس مملکت خداداد کے پاس کتنے قدرتی وسائل ہیں۔ کتنے معدنی ذخائر ہیں۔ ہمارے انسانی وسائل کے بازوئوں میں کتنی توانائیاں ہیں۔ ہمارے بھائیوں بہنوں کے کندھوں پر بیٹھ کر آپ اور آپ کے ممدوحین پریذیڈنٹ ہائوسوں میں داخل ہوتے رہے۔ وزیرا عظم ہائوسوں کی زینت بنتے رہے۔ گورنر ہائوسوں کو استعمال کرتے رہے۔ وزارتِ اعلیٰ کی کرسیاں توڑتے رہے۔ لیکن کبھی کوئی ایسا راستہ نہیں اپنایا جس سے اس عظیم سر زمین کے ہر بیٹے بیٹی کی صلاحیت اس عظیم وطن کو خوشحال بنانے میں معاونت کرتی۔

ایک طرف سے آواز آرہی ہے کہ آپ کے ہم عصر ساتھیوں کو تو احساس ہی نہیں تھا کہ کتنا زیاں ہورہا ہے۔ آپ تو اپنے دیوتائوں کو آخری امید سمجھتے رہے۔ بتائیے کہ آپکے پاس کوئی ایسی رپورٹ ہے جس میں یہ شواہد دیے گئے ہوں کہ 1947ءسے اب تک جو بھی ماہ و سال بنتے ہیں۔ جو بھی ہفتے، گھنٹے بنتے ہیں۔ ان میں سے کتنے کسی خاص مقصد کیلئے استعمال ہوئے۔ کتنے خوشامد میں، چاپلوسی میں صرف کیے گئے۔ چلئے ہمیں بتائیں کہ اس خوشامد سے کھیتوں کی فی ایکڑ پیداوار کتنی بڑھی، کتنا اناج برآمد کیا گیا، کتنی کپاس سے کتنے ڈالر کمائے گئے۔

میرے بائیں طرف سے یلغار ہورہی ہے۔ اپنے آپ کو عقل کل سمجھنے والے یہ جواب دیں کہ ہزاروں ارب روپے کے یہ جو قرضے ہیں جس کیلئے ہم سب بلکہ ہماری اولادیں بھی گروی رکھ دی گئی ہیں۔ یہ بوجھ کن منصوبوں کیلئے ہم پر ڈالا گیا۔ یہ قرضے آپ کی نسلوں نے کیوں نہیں اتارے۔ یہ اربوں ڈالر کن دریائوں کے ڈیموں پر لگے، کونسے کارخانے لگائے گئے۔ ان کارخانوں، ڈیموں اور موٹر ویز سے جو آمدنی ہوئی، وہ قرضے اتارنے میں کیوں استعمال نہیں ہوئی۔ اور اب آپ لوگوں کی عیش و عشرت میں استعمال ہونے والے قرضے ہم کیسے اتاریں۔

ایک نوجوان بھیڑ کو کاٹتا ہوا آگے بڑھا ہے۔ کہہ رہا ہے۔ یہاں ہر علاقے کے ہر زبان بولنے، ہر نسل سے ،ہر قبیلے سے تعلق رکھنے والے نوجوان موجود ہیں۔ ہم صرف پاکستانی ہیں۔ ہم صرف آتا وقت ہیں۔ ہم تو یہ پوچھتے ہیں کہ ہمیں نئے ذرائع ابلاغ نئی ایجادوں نے یہ سکھایا ہے کہ ہم صرف جمع تفریق کریں۔ اچھا برا دیکھیں۔ آپ کی نسل ہمیں کوئی ایسی دستاویز فراہم کرسکتی ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں میں کتنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا گیا۔ کیا کوئی کتاب آپ نے ایسی لکھی جس میں ایسے اعداد و شُمار ہوں کہ کتنے نوجوان نجی جیلوں میں،کتنے عقوبت خانوں میں، کتنے حوالات میں ،کتنے جیلوں میں دم توڑ گئے۔ ان کی صلاحیتیں اس بد قسمت ملک کی ترقی کیلئے کیوں استعمال نہ ہوسکیں۔ جن ہستیوں کو وطن کی سلامتی کے نام پر پھانسی گھاٹوں میں تختۂ دار پر چڑھادیا گیا۔ ان کی موت سے اس ملک میں کتنی خوشحالی آئی، کتنے ماورائے عدالت ہلاکتوں میں، پولیس مقابلوں میں مارے گئے۔ کیا ان کی توانائیاں اس سماج کو مستحکم کرنے میں کام نہیں آسکتی تھیں۔کیا آپ کے کسی ساتھی پارلیمانی رپورٹر نے ایسی رپورٹ مرتب کی کہ سینیٹ، قومی اسمبلی،صوبائی اسمبلیوں میں کتنے گھنٹے قوم کی خوشحالی،اقتصادی ترقی کیلئے قائم منصوبوں پر تقریریں ہوئیں۔ کتنےگھنٹے ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے میں بجٹ دستاویزات اور دوسرے بلوں کے مسودے پھاڑنے میں ضائع کیے گئے۔

میں ہر طرف سے سوالوں میں گھرا ہوا ہوں۔ یہ نئے ہزاریے والے بہت مستند حساب کتاب رکھتے ہیں۔ گوگل اور دوسرے سرچ انجن ان کو ہر لمحہ باخبر کردیتے ہیں۔ ہم نے بڑی کوشش کی کہ انہیں اسمارٹ فون سے دور رکھیں۔ کبھی زہریلے پروپیگنڈے کا کہا، کبھی پورنو گرافی کا،کبھی اساسی نظریات سے انحراف کا لیکن یہ ہمارے عزیز از جان بیٹے بیٹیاں ، پوتے پوتیاں،نواسے نواسیاں تو بہت مصدقہ معلومات رکھتے ہیں۔ بہت تیار ہوکر آئے ہیں، اپنا بھی نفع نقصان دیکھتے ہیں لیکن اس سے زیادہ ملک کا ۔ واہگہ سے گوادر تک یہ سب اب ٹیکنیکل اقتصادی زاویۂ نگاہ اور اندازِ فکر رکھتے ہیں۔ ہماری نسلوں کی طرح شہزادے شہزادیوں کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتے۔ نہ ہی جنوں پریوں کی داستانیں پڑھتے ہیں۔ یہ ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال، سسی پنوں کی کہانیوں میں بھی دیکھتے ہیں کہ یہ عاشق معشوق اگر اپنے مشن میں ناکام رہے تو اس کے اقتصادی اسباب کیا تھے۔ سماجی ڈھانچہ کیا تھا۔

ایک بیٹی پوچھ رہی ہے، ریکوڈک میں سونا تانبا کتنی دہائیوں سے ہے، اب تک کیوں نہیں نکالا جاسکا۔ اس سے ہمارے دن سنہرے کیوں نہیں ہوسکے۔ سینڈک سے جو سونا تانبا نکلا ہے،اسکے ڈالروں سے اس علاقے میں کتنی خوشحالی آئی ہے۔

ایک پوتی آواز بلند کررہی ہے۔ بجلی کے بل اب اتنے زیادہ ہورہے ہیں، دریائوں کا پانی ضائع ہوتا رہا، بڑا ڈیم بناکر بجلی کیوں پیدا نہیں کی گئی۔ ایک نواسہ ہاتھ میں قلم کاغذ لیے سوال کررہا ہے کہ اتنے اخبارات نکلتے رہے، اتنے ٹی وی چینل، پہلے پاکستانی ٹی وی ۔کہیں ایسی رپورٹ نہیں کہ انہوں نے اپنے طور پر تحقیق کی ہو کہ پاکستان میں اپنے قدرتی، معدنی وسائل پوری طرح استعمال میں کیوں نہیں لائے گئے اور غیر ملکی قرضے ہر دَور میں کیوں لیے گئے۔

میں مہلت مانگ رہا ہوں مگر یہ نئے ہزاریے والے کہہ رہے ہیں مہلت بہت دی جاچکی۔ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ ہم پہلے ہی دنیا سے چالیس پچاس سال پیچھے ہیں۔ مزید مہلت دی تو سو سال پیچھے چلے جائیں گے۔

مسلم دنیا کی سازشوں سے بھرپور بدقسمت تاریخضیاء الحق کا سی 130 بی جہاز ایرانی صدر کا 45 سال پرانا ہیلی کاپٹرایران۔ ترکی۔ ...
22/05/2024

مسلم دنیا کی سازشوں سے بھرپور بدقسمت تاریخ

ضیاء الحق کا سی 130 بی جہاز ایرانی صدر کا 45 سال پرانا ہیلی کاپٹر

ایران۔ ترکی۔ پاکستان۔ عالمی شطرنج کی بنیاد پر

سمند پار سے عاصم متین کا چشم کشا تجزیہ

پڑھیے atraafmagazine.com پر

https://www.atraafmagazine.com/%d8%a7%db%8c%d8%b1%d8%a7%d9%86%db%8c-%d8%b5%d8%af%d8%b1-%da%a9%db%8c-%d8%b4%db%81%d8%a7%d8%af%d8%aa%d8%8c-%d8%b9%d9%88%d8%a7%d9%85%d9%84-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%85%d8%b6%d9%85%d8%b1%d8%a7%d8%aa/

مسلم دنیا کی سازشوں سے بھرپور بدقسمت تاریخ کا ایک اور باب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی، ایرانی وزیر خارجہ، گورنر تبریز اور آیت اللہ خامنہ آی کے ترجمان کو ہیلی

پانچ سال پرانی ایک خوب صورت یاد۔ آج چلچلاتی دھوپ میں اتفاقا نظروں سے گزری تو قصدا آپ کی نذر کر دی۔ کراچی سخت گرمی میں می...
20/05/2024

پانچ سال پرانی ایک خوب صورت یاد۔ آج چلچلاتی دھوپ میں اتفاقا نظروں سے گزری تو قصدا آپ کی نذر کر دی۔ کراچی سخت گرمی میں میرے نواسے نواسی اور ان کے دوست نکلے ایک نیک مشن پر چلچلاتی دھوپ میں یخ ٹھنڈا منرل واٹر بانٹنے اپنی عیدی سے آئس بکس پانی کی بوتلیں خریدیں پیاسے انسانوں پرندوں جانوروں کی پیاس بجھائی اور سچی خوشی پائی داد دیں انکو۔

پانچ سال پرانی ایک خوب صورت یاد۔ آج چلچلاتی دھوپ میں اتفاقا نظروں سے گزری تو قصدا آپ کی نذر کر دی۔ کراچی سخت گرمی میں میرے نواسے نواسی اور ان کے دوست نکلے ای...

19/05/2024

خنجراب سے دالبندین، ایک لہر
محمود شام

نیا پاکستان تو کئی بار پرانا ہوچکا۔

اب تو اکیسویں صدی کے پاکستان کیلئے تحریک چل رہی ہے۔ اس کے قائد اکیسویں صدی کی پیدائشیں ہی ہیں۔ ہم بیسویں صدی کی باقیات کو بہت خوشی ہے کہ ہمارے 18 سال کے ہم وطنوں نے حقیقی آزادی کے پرچم اٹھالیے ہیں۔ وہ ہماری طرح مصلحتوں کے اسیر نہیں ہیں۔ منہ دیکھے کی عزت نہیں کرتے۔ جو لائق تعظیم ہے، اس کی حد درجہ تکریم کرتے ہیں۔ جس کے عیب ان کی نگاہوں کے سامنے ہویدا ہیں ان کو وہ رسمی سلام بھی نہیں کرتے۔ اب جدوجہد اس پاکستان کے قیام کیلئے ہے، جس کیلئے وکیلوں، طالب علموں، متوسط طبقے کے عالموں نے اپنی راتیں جاگتے گزاری۔

میں کراچی قدیم میں گزدر آباد میں سلاوٹ برادری کے ایک ہال میں میر محمد بلوچ پروگریسیو اکادمی لائبریری سے کتابوں کے اجرا کے موقع پر ایک محفل کی صدارت کررہا ہوں۔ میرے سامنے بڑی تعداد میں تینوں نسلوں کے پاکستانی موجود ہیں۔ نوجوان، ادھیڑ عمر اور میرے ہم عمر۔ شلوار قمیصوں،جینز میں ملبوس سب کے چہروں پر ایک انبساط۔ ساحر، فیض، حبیب جالب کے عشاق، اپنی تقریروں میں انکے اشعار سناتے ہوئے لالہ محمد حسین کتاب اور دانش کی طرف ترغیب کے قائد۔ عین بازار کے بیچ، ایک دکان جہاں سے کروڑوں کمائے جاسکتے ہیں،وہاں لائبریری ۔ ایک بڑی میز پر آج کے اخبار بکھرے ہوئے ہیں۔ اب سرکاری لائبریریوں میں یہ منظر دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہیں۔ میری معروضات سب بہت غور سے سن رہے ہیں۔ کسی کی نظر اسمارٹ فون پر نہیں ۔ آرٹس کونسل، پریس کلب اور دوسرے مقامات آہ و فغاں کے شرکاء کے برعکس حرف و دانش میں ان کا انہماک سرگوشی کررہا ہے۔

ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں بیٹیوں، پوتوں پوتیوں، نواسوں نواسیوں، بہوئوں دامادوں کے ساتھ دوپہر کے کھانے پر بیٹھنے ۔ ملکی بین الاقوامی حالات پر تبادلۂ خیال کے لمحات۔ سچ جانیے میں اس ہزاریے کی پیدائشوں سے بہت کچھ سیکھتا ہوں، اپنے کام سے کام، نوابوں، جاگیرداروں، سرداروں، بادشاہوں کے مصاحبین کی بلاوجہ مدح خوانی، نہ جذباتیت۔ ہم ابھی تک ان قباحتوں میں مبتلا ہیں۔ ہم نے اپنے تحت الشعور میں کبھی جھانکا نہیں۔ وہاں ہمارے وسائل پیداوار پر قبضہ کرنے والی اس اشرافیہ کے خلاف برہمی کا لاوا پک رہا ہے۔ ہمیں شکر کرنا چاہئے کہ ہماری یہ خوشامدی طبیعت ہماری اولادوں کو منتقل نہیں ہورہی ۔ ہم شعوری طور پر نہ سہی لاشعوری طور پر بیدار ہیں۔ ہمارے ضمیر پر سمجھوتے کے جو داغ لگ چکے ہیں۔ ہم اندر سے نہیں چاہتے کہ ہماری اولادیں ایسے داغدار ضمیر لے کر درباروں میںجبہ سائی کریں۔

واہگہ سے گوادر تک ایک ہمہ گیر کشمکش جاری ہے۔ آسمان کی آنکھ دیکھ رہی ہے۔ غاصب رُسوا ہو رہے ہیں۔ خود غرض بے نقاب ہو رہے ہیں۔ ایک اصل اور سچا سماج وجود میں آ رہا ہے۔ بے زبانوں کو زبان مل رہی ہے۔ سارے بڑے عہدوں، کرسیوں، اداروں، وسائل پیداوار پر سامراجی زر پرست گماشتے براجمان ہیں۔ لیکن انکے چہروں پر ہوائیاں اُڑ رہی ہیں۔ 1958، 1977، 1999کی طرح بے دریغ فیصلے نہیں کر پا رہے ہیں۔ ان کے قدم ہچکچاتے ہیں۔ زبانیں لڑکھڑاتی ہیں۔ مرکزی میڈیا ان کا ہے۔ لیکن وہ اپنا پیغام نشر نہیں کر پاتے۔

میں حالات کو منطق اور تاریخ کے تناظر میں دیکھتا ہوں۔ سماج پگھل رہا ہے۔ گراں خواب پنجابی سنبھل رہے ہیں۔ بلوچ کی برسوں پرانی حقوق بیداری کو اب دوسرے لسانی حلقے بھی تسلیم کر رہے ہیں۔ سندھ میں شاہ کے سر شہباز قلندر کا وجدان، جنوبی پنجاب کے ذہنوں کو ایک نیا جنون عطا کر رہا ہے۔ سنگلاخ اور سرسبز پہاڑوں میں رشتے استوار ہو رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کی تمنّائیں سارے پاکستان کی امنگ بن رہی ہیں۔ وادیٔ نیلم سے درۂ خیبر، خنجراب سے دالبندین ایک سوچ ایک لہر۔ آنکھوں میں ایک سے خواب ہیں۔

دبائو میں سب ہیں۔ اللہ تعالیٰ اپنے موقف پر ڈٹ جانے کی استطاعت اپنے پسندیدہ بندوں کو دیتا ہے، انسانیت کا وقار بلند کرنے والے عارضی انتظامات نہیں کرتے۔ وہ آئی ایم ایف کو آخری امید نہیں سمجھتے۔ ان کے سامنے آتی صدیاں ہوتی ہیں۔ وہ گزشتہ صدیوں میں اپنے اپنے شہر، اپنے علاقے کی پرچھائیاں دیکھتے ہیں۔ اپنی زمینوں کی تخلیقی اہلیت کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ اب سوشل میڈیا، جدید علوم، نئی ڈیجیٹل تحقیقات انہیں اپنے اپنے خطّے کے امکانات سے با خبر کرتے ہیں۔ وہ اپنے آئندہ دس پندرہ سال کا روڈ میپ بناتے ہیں۔ نئے نئے آلات۔ رابطے کی مشینیں نہیں جانتیں کہ طاقت وری کیا ہوتی ہے۔ دن میں جو خوشامدیں کرتے ہیں۔ قانون وقت کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ ہاتھی کے پائوں کو دیکھتے ہیں۔ شاہین کی آنکھ میں نہیں جھانکتے۔ وہ رات کو سونے سے پہلے اپنے ضمیر کی یلغار کا سامنا کرتے ہیں۔ پھر خواب آور دوا استعمال کرکے اپنی بیداری کو اونگھنے پر مجبور کردیتے ہیں۔

جو زندوں میں ہیں وہ اپنی دنیا آپ پیدا کر رہے ہیں، مشرق و مغرب میں اب ایک نیا انداز ہے، اگر چمگادڑ کی آنکھ روز روشن کو نہ دیکھ پائے تو اس میں سورج کا تو کوئی قصور نہیں۔ میرے شعور نے آنکھ کھولی تو شورش کاشمیری کی گھن گرج سنی، سید عطاء اللہ شاہ بخاری کی خطابت نے سرور بخشا، فیض نے بہار کی نوید دی، احمد ندیم قاسمی نے کہا کہ حالات سے پنجہ آزما ہو، حبیب جالب نے غاصب کے دستور کو ماننے سے انکار کا حکم دیا، ابراہیم جلیس نے چالیس کروڑ بھکاریوں کا احساس دلایا۔ شوکت صدیقی نے خدا کی بستی میں انسانوں کی جدو جہد سے روشناس کروایا۔ میر خلیل الرحمن نے ذروں کو آفتاب بنتے دکھایا۔ بشیر احمد ارشد نے آمروں کو ہلا دینے والے اداریے لکھنا سکھایا۔ صفدر میر سے ثقافت سے حمیت کشید کرنا سیکھا۔ آئی اے رحمن کے انکسار میں افتخار دیکھا،وارث میر نے ڈکٹیٹر شپ کو للکارنے کا سلیقہ دیا، گل خان نصیر نے رومان اور انقلاب کا امتزاج پیش کیا۔ میں خوش قسمت ہوں کہ ان صحبتوں میں چراغوں کا دھواں دیکھتا رہا ہوں۔ شیخ ایاز، شاہ کے سروں میں غیرت مندی کا تصور دیتے رہے ہیں۔ سراج الحق میمن کی اختصار پسندی بہت کچھ یاد دلاتی تھی۔ فارغ بخاری کا لہجہ بھی یاد آرہا ہے۔ میں ان سب کا مقروض ہوں۔ اس قرض کی ادائیگی میں آئی ایم ایف مدد نہیں کرسکتا یہ بوجھ سندھ کے ہاریوں، پنجاب کے کسانوں، کے پی کے کے غیرت مندوں، بلوچستان کے محنت کشوں، آزاد کشمیر کے حریت پسندوں گلگت بلتستان کے طالب علموں کی مدد سے ہی اتر سکتا ہے۔ گلی کوچے جاگ رہے ہیں۔ شہر خود مختار ہو رہے ہیں۔

لٹ رہی ہے دلی
17/05/2024

لٹ رہی ہے دلی

دلی میں کورونا کی صورت حال پر میری نظم کو جیو نے بڑی دردمندی سے پیش کیا۔

Address

Block 3, Gulshane Iqbal, Karachi
Karachi

Opening Hours

Monday 09:00 - 17:00
Tuesday 09:00 - 17:00
Wednesday 09:00 - 17:00
Thursday 09:00 - 17:00
Friday 09:00 - 17:00
Saturday 09:00 - 17:00

Telephone

+923008210636

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Atraaf International posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Atraaf International:

Videos

Share

Category

Nearby media companies


Other Magazines in Karachi

Show All