09/03/2024
عورت کو حقوق بطور عورت کبھی نہیں مل سکتے۔ جدید دنیا میں حقوق لینے کے تین ہی طریقے ہیں: یا عورتوں کو مرد بننا ہو گا، یا مردوں کو عورت بنانا ہو گا، یا جنس کا تصور مکمل ختم کرنا ہو گا۔ اس وقت تینوں کام دنیا میں پوری شد و مد سے جاری ہیں۔
خدا سے دور ہوتے ہوئے سماج میں خدا کا متبادل بالآخر مادہ بنتا ہے۔۔۔
زیادہ سے زیادہ مادی وسائل، زیادہ سے زیادہ مادی ترقی، یہی انسانی زندگی کا حتمی مقصد ٹھیرتا ہے۔ کیونکہ کوئی خدا نہیں ہوتا جس کی خوشنودی درکار ہو نہ کوئی آخرت ہوتی ہے جہاں کسی جواب کا ڈر ہو، سو یکسوئی کے ساتھ انسانی زندگی مادی ذرائع کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے وقف ہوتی ہے۔
ایسے سماج میں انسان کی انسان پر فضیلت یا برتری کا ایک ہی معیار رہتا ہے: جو مادی ترقی و وسائل کی دوڑ میں آگے ہو، یعنی زیادہ “پراڈکٹو” ہو، وہی اعلی، وہی اوپر۔۔۔
ایسے سماج میں اخلاقیات کا اپنا کوئی آزاد وجود بھی نہیں ہوتا۔ سچ بولنا، کسی کے جان و مال و عزت پامال نہ کرنا، اور دیگر اخلاقی اقدار اس لیے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا خدا نے حکم دیا ہے اور ان سے متعلق سوال ہو گا، بلکہ اس لیے اہم ہوتے ہیں کہ ریاستی قانون ان کا تقاضا کرتا ہے چونکہ ان معاملات کا خیال رکھ کر سارے لوگ مادی ترقی کی دوڑ میں زیادہ پراڈکٹو رہتے ہیں۔ جیسے ہی محسوس ہو کہ مادے کی دوڑ میں ان میں سے کوئی اخلاقی قدر ہمیں پیچھے کر سکتی ہے، تو فوراً پینترا بدل لیا جاتا ہے (مثلاً ریاست یا ملکی سطح پر جھوٹ بھی عام ہے، کمزوروں کی نسل مٹانے کا بھی رواج عام ہے جس کی لائیو براڈکاسٹ اس وقت بھی مشرق وسطی میں چل رہی ہے)۔
سو ایسے سماج میں حقوق کی تحریکیں بھی اخلاقیات کی طرح لُولی لنگڑی ہوتی ہیں۔ کیونکہ کسی کو حقوق دلوانے ہوں تو ان کا تعلق فرائض سے جوڑنا پڑتا ہے، اور کسی تگڑے پر کوئی شے فرض کوئی اتھارٹی (خدا) ہی کرتی ہے، اگر اتھارٹی صرف مادہ رہ جائے تو گویا فرض سب پر بس اتنا ہی ہے کہ مادے کی دوڑ میں آگے رہنے کو نصب العین بنائے۔
فیمنزم کے جدید کرتا دھرتا بھی اس حقیقت سے خوب آشنا ہیں کہ ایک بے خدا سماج فقط مادی معیار پر انسان کی فضیلت قبول کرتا ہے۔ فیمنزم نے اس لیے یہ کہنا بند کر دیا ہے کہ عورتوں کو حقوق دو۔ کیونکہ حقوق مانگنے کا مطلب ہے کسی پر فرائض ڈالے جائیں جو کہ ممکن نہیں رہا۔ اب یا آپ مادے کے اعتبار سے برابری پر پراڈکٹو بن کر حقوق لے سکتے ہیں یا دوسرے کو کم پراڈکٹو بنا کر اپنے برابر کر کے۔ سو اب بس یہ کہا جاتا ہے کہ عورت اور مرد برابر ہوں گے!
کہنے والوں کو بھی پتا ہے کہ یہ “برابری ہونی چاہیے” بہت بڑی گپ ہے۔ مرد جسمانی طور پر زیادہ مشقت کا اہل ہے، زیادہ مادی وسائل تھوڑے وقت میں اکٹھے کر سکتا ہے، اس پر بچہ جننے اور اسے دودھ پلانے کا بوجھ نہیں جس سے اس کا مادی دوڑ میں بالکل واضح ایڈوانٹیج ہے عورت پر۔ ایسے میں اگر حقوق لینے کے لیے خدائی حکم کی اپیل ختم ہو جائے تو پھر مردوں پر فرائض کا کوئی بھی بوجھ ڈالنے کا اور کوئی طریقہ نہیں رہتا سوائے ان تین کے:
۱)عورتیں مادی دوڑ میں مرد کے برابر آنے کے لیے اپنے اندر جسمانی نفسیاتی و سماجی تبدیلیاں لائیں، اس میں شادی نہ کرنے سے کر اولاد پیدا نہ کرنے تک کا فیصلہ ہو تو وہ بھی لیا جائے۔ عورت مرد کے برابر کام کر کے اس کے برابر مال بنائے تو ہی وہ بے خدا سماج میں حقوق لے پائے گی۔ یہ چونکہ مکمل ممکن نہیں تو زور نیچے والے دو پر ہے۔
۲)مردوں کو عورتوں کے قریب کیا جائے اور عورت جیسی جسمانی نفسیاتی و سماجی کیفیت میں ڈالا جائے۔ بلکہ جہاں ممکن ہو مردانگی کو ہی بطور ولن پیش کر کے سب کو اس سے بے زار کر دیا جائے۔
۳)مرد اور عورت کا تصور ہی سرے سے ختم ہو جائے تاکہ کوئی کسی سے حقوق مانگے نہ فرائض کا تقاضا ہو۔
پہلے معاملے سے فیملی سسٹم تباہ ہو جاتا ہے۔ انسانی نسل ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بچے پیدا ہونا بند ہو جائیں تو پھر لیبارٹری میں بچوں کی افزائش کا بندوبست لازمی ہو گا (اور مستقبل میں آپ یہ ہوتا دیکھیں گے بھی)۔ دوسرے معاملے کا شاخسانہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ہر طرف عام ہو رہے ہیں۔ مردوں نے اپنے روایتی وصف چھوڑ کر عورتوں جیسے طور طریقے اپنانا شروع کر دیے ہیں، ٹاکسک مسکولینیٹی جیسی اصطلاحیں لا کر مرد کو مرد ہونے پر شرمسار کیا جا رہا ہے۔ جس سے مردوں نے بطور مرد جو کام اٹھا رکھے تھے ان سے بھی وہ بھاگنا شروع ہو جائیں گے (جنگ کا ایندھن بننے سے لے کر دیگر سخت فزیکل لیبر تک)۔ تیسرے والی واردات کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بچوں کو جینڈر نیوٹرل رکھا جا رہا ہے جس سے زنا کاری ایک نارمل رویہ، انسانی نسل کی بقا اور فیملی کا پورا ادارہ جڑوں سے کھوکھلا ہونے جا رہا ہے۔
فیمنزم کے مارچز میں جو آپ ست رنگی جھنڈے اور دیگر نعرے دیکھتے ہیں، اس تحریک کی ایل جی ٹی وی کے ساتھ قربت دیکھتے ہیں، ان کی ریاستی سطح پر سرپرستی دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اب یہ عورتوں کے حقوق کی تحریک سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ عورتوں کو مرد بنانے کی، مردوں کو عورت بنانے کی، اور مردانگی و عورتانگی کے تصور کو ہی فنا کرنے کی تحریک بن چکی ہے!
-Dr. Uzair Saroya