Zarbemomin

Zarbemomin Conflict News
Speak the truth even if it costs your neck!

09/03/2024

عورت کو حقوق بطور عورت کبھی نہیں مل سکتے۔ جدید دنیا میں حقوق لینے کے تین ہی طریقے ہیں: یا عورتوں کو مرد بننا ہو گا، یا مردوں کو عورت بنانا ہو گا، یا جنس کا تصور مکمل ختم کرنا ہو گا۔ اس وقت تینوں کام دنیا میں پوری شد و مد سے جاری ہیں۔

خدا سے دور ہوتے ہوئے سماج میں خدا کا متبادل بالآخر مادہ بنتا ہے۔۔۔

زیادہ سے زیادہ مادی وسائل، زیادہ سے زیادہ مادی ترقی، یہی انسانی زندگی کا حتمی مقصد ٹھیرتا ہے۔ کیونکہ کوئی خدا نہیں ہوتا جس کی خوشنودی درکار ہو نہ کوئی آخرت ہوتی ہے جہاں کسی جواب کا ڈر ہو، سو یکسوئی کے ساتھ انسانی زندگی مادی ذرائع کے زیادہ سے زیادہ حصول کے لیے وقف ہوتی ہے۔

ایسے سماج میں انسان کی انسان پر فضیلت یا برتری کا ایک ہی معیار رہتا ہے: جو مادی ترقی و وسائل کی دوڑ میں آگے ہو، یعنی زیادہ “پراڈکٹو” ہو، وہی اعلی، وہی اوپر۔۔۔

ایسے سماج میں اخلاقیات کا اپنا کوئی آزاد وجود بھی نہیں ہوتا۔ سچ بولنا، کسی کے جان و مال و عزت پامال نہ کرنا، اور دیگر اخلاقی اقدار اس لیے اہم نہیں ہوتے کہ ان کا خدا نے حکم دیا ہے اور ان سے متعلق سوال ہو گا، بلکہ اس لیے اہم ہوتے ہیں کہ ریاستی قانون ان کا تقاضا کرتا ہے چونکہ ان معاملات کا خیال رکھ کر سارے لوگ مادی ترقی کی دوڑ میں زیادہ پراڈکٹو رہتے ہیں۔ جیسے ہی محسوس ہو کہ مادے کی دوڑ میں ان میں سے کوئی اخلاقی قدر ہمیں پیچھے کر سکتی ہے، تو فوراً پینترا بدل لیا جاتا ہے (مثلاً ریاست یا ملکی سطح پر جھوٹ بھی عام ہے، کمزوروں کی نسل مٹانے کا بھی رواج عام ہے جس کی لائیو براڈکاسٹ اس وقت بھی مشرق وسطی میں چل رہی ہے)۔

سو ایسے سماج میں حقوق کی تحریکیں بھی اخلاقیات کی طرح لُولی لنگڑی ہوتی ہیں۔ کیونکہ کسی کو حقوق دلوانے ہوں تو ان کا تعلق فرائض سے جوڑنا پڑتا ہے، اور کسی تگڑے پر کوئی شے فرض کوئی اتھارٹی (خدا) ہی کرتی ہے، اگر اتھارٹی صرف مادہ رہ جائے تو گویا فرض سب پر بس اتنا ہی ہے کہ مادے کی دوڑ میں آگے رہنے کو نصب العین بنائے۔

فیمنزم کے جدید کرتا دھرتا بھی اس حقیقت سے خوب آشنا ہیں کہ ایک بے خدا سماج فقط مادی معیار پر انسان کی فضیلت قبول کرتا ہے۔ فیمنزم نے اس لیے یہ کہنا بند کر دیا ہے کہ عورتوں کو حقوق دو۔ کیونکہ حقوق مانگنے کا مطلب ہے کسی پر فرائض ڈالے جائیں جو کہ ممکن نہیں رہا۔ اب یا آپ مادے کے اعتبار سے برابری پر پراڈکٹو بن کر حقوق لے سکتے ہیں یا دوسرے کو کم پراڈکٹو بنا کر اپنے برابر کر کے۔ سو اب بس یہ کہا جاتا ہے کہ عورت اور مرد برابر ہوں گے!

کہنے والوں کو بھی پتا ہے کہ یہ “برابری ہونی چاہیے” بہت بڑی گپ ہے۔ مرد جسمانی طور پر زیادہ مشقت کا اہل ہے، زیادہ مادی وسائل تھوڑے وقت میں اکٹھے کر سکتا ہے، اس پر بچہ جننے اور اسے دودھ پلانے کا بوجھ نہیں جس سے اس کا مادی دوڑ میں بالکل واضح ایڈوانٹیج ہے عورت پر۔ ایسے میں اگر حقوق لینے کے لیے خدائی حکم کی اپیل ختم ہو جائے تو پھر مردوں پر فرائض کا کوئی بھی بوجھ ڈالنے کا اور کوئی طریقہ نہیں رہتا سوائے ان تین کے:
۱)عورتیں مادی دوڑ میں مرد کے برابر آنے کے لیے اپنے اندر جسمانی نفسیاتی و سماجی تبدیلیاں لائیں، اس میں شادی نہ کرنے سے کر اولاد پیدا نہ کرنے تک کا فیصلہ ہو تو وہ بھی لیا جائے۔ عورت مرد کے برابر کام کر کے اس کے برابر مال بنائے تو ہی وہ بے خدا سماج میں حقوق لے پائے گی۔ یہ چونکہ مکمل ممکن نہیں تو زور نیچے والے دو پر ہے۔
۲)مردوں کو عورتوں کے قریب کیا جائے اور عورت جیسی جسمانی نفسیاتی و سماجی کیفیت میں ڈالا جائے۔ بلکہ جہاں ممکن ہو مردانگی کو ہی بطور ولن پیش کر کے سب کو اس سے بے زار کر دیا جائے۔
۳)مرد اور عورت کا تصور ہی سرے سے ختم ہو جائے تاکہ کوئی کسی سے حقوق مانگے نہ فرائض کا تقاضا ہو۔

پہلے معاملے سے فیملی سسٹم تباہ ہو جاتا ہے۔ انسانی نسل ہی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ بچے پیدا ہونا بند ہو جائیں تو پھر لیبارٹری میں بچوں کی افزائش کا بندوبست لازمی ہو گا (اور مستقبل میں آپ یہ ہوتا دیکھیں گے بھی)۔ دوسرے معاملے کا شاخسانہ ہے کہ ٹرانس جینڈر ہر طرف عام ہو رہے ہیں۔ مردوں نے اپنے روایتی وصف چھوڑ کر عورتوں جیسے طور طریقے اپنانا شروع کر دیے ہیں، ٹاکسک مسکولینیٹی جیسی اصطلاحیں لا کر مرد کو مرد ہونے پر شرمسار کیا جا رہا ہے۔ جس سے مردوں نے بطور مرد جو کام اٹھا رکھے تھے ان سے بھی وہ بھاگنا شروع ہو جائیں گے (جنگ کا ایندھن بننے سے لے کر دیگر سخت فزیکل لیبر تک)۔ تیسرے والی واردات کا نتیجہ یہ ہے کہ اب بچوں کو جینڈر نیوٹرل رکھا جا رہا ہے جس سے زنا کاری ایک نارمل رویہ، انسانی نسل کی بقا اور فیملی کا پورا ادارہ جڑوں سے کھوکھلا ہونے جا رہا ہے۔

فیمنزم کے مارچز میں جو آپ ست رنگی جھنڈے اور دیگر نعرے دیکھتے ہیں، اس تحریک کی ایل جی ٹی وی کے ساتھ قربت دیکھتے ہیں، ان کی ریاستی سطح پر سرپرستی دیکھتے ہیں تو اس کی وجہ یہی ہے کہ اب یہ عورتوں کے حقوق کی تحریک سرے سے ہے ہی نہیں۔ یہ عورتوں کو مرد بنانے کی، مردوں کو عورت بنانے کی، اور مردانگی و عورتانگی کے تصور کو ہی فنا کرنے کی تحریک بن چکی ہے!

-Dr. Uzair Saroya

09/03/2024

گھر عورت ہی سمبھالتی اور گھر کا ماحول بھی عورت ہی بناتی ہے خاص طور پر جب وہ سسرال سے الگ رہتی ہے ۔۔
اپنے بچوں کو گھر کے کاموں میں مصروف رکھیں انکو ہر کام سیکھائیں اور عمر بڑھنے کے ساتھ ذمہ داری بھی دیں، اسطرح بچوں میں اعتماد بڑھے گا اور آپ کے کاموں کی لسٹ میں کمی بھی ہو گی۔۔۔۔ زیادہ کام کی وجہ سے اکثر شوہر حضرات کی شامت آجاتی ہے 😀

گھر ،بچے، کام والی سب سہولتیں کے ساتھ اکثریت ملکہ جیسی زندگی گزار رہی ہیں اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا نہ بھولیں اور کسی بھی فیمنسٹ کی باتوں میں اکر گھر کا سکون برباد نہ ہونے دیں 🌺

Womanish Youth

08/11/2023

احادیث کے مطابق قرب قیامت جب امام م ہدی کا ظہور ہوگا تو دجالیوں سے جنگ کیلئے امام مہدی کا جو لشکر ہوگا اس کی تعداد صرف 12,000 (بارہ ہزار) ہوگی۔

کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اربوں مسلمانوں کے ہوتے ہوئے امام مہدی کے ساتھ صرف بارہ ہزار کا ہی لشکر کیوں ہوگا اور باقی مسلمان کہاں ہونگے؟

میرا دل کہتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں کی غیرت اس سے بھی زیادہ مرچکی ہوگی اور اربوں کی تعداد میں مسلمان ہونے کے باوجود وہ امام م ہدی کے ساتھ ج ہاد میں کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کر پائیں گے۔ عین ممکن ہے کہ اس وقت مسلم حکمران امام مہدی کو دہ شتگرد قرار دیں۔ اربوں مسلمان وہیں ہونگے جہاں آج موجود ہیں۔ ص یہونیوں سے برسرِ پیکار مرد م جاہد آج بھی چند ہزار ہی ہیں۔
امام م ہدی کے لشکر میں شامل ہونے والے خوش نصیبوں کیلئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بدری شہدا سے تشبیہ ویسے ہی نہیں دی، اس وقت یقیناً خوش نصیبی اور اللہ کا فضل ہی ایمان کی وہ طاقت ان چنیدہ لوگوں کو عطاء فرمائیں گے جنہیں موت کا خوف اور مال کی محبت لاحق نہیں ہوگی۔

تحریر: کمیل احمد معاویہ

Silkiablik Herbal Shamp0o

‏ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانامیں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوںKomail Ahmed Muaviahبائکاٹ جاری رکھیں...Sil...
08/11/2023

‏ساحل پہ کھڑے ہو تمہیں کیا غم، چلے جانا
میں ڈوب رہا ہوں، ابھی ڈوبا تو نہیں ہوں

Komail Ahmed Muaviah

بائکاٹ جاری رکھیں...

Silkiablik Herbal Shamp0o ایک قابل اعتماد پاکستانی برانڈ ہے اس کے پروڈکٹس بالوں کے لے بہترین ۔۔ہیں

بائکاٹ جاری رکھیں...Silkiablik Herbal Shamp0o ایک قابل اعتماد پاکستانی برانڈ ہے اس کے پروڈکٹس بالوں کے لے بہترین ۔۔ہیں
08/11/2023

بائکاٹ جاری رکھیں...

Silkiablik Herbal Shamp0o ایک قابل اعتماد پاکستانی برانڈ ہے اس کے پروڈکٹس بالوں کے لے بہترین ۔۔ہیں

ہلال احمر مصر کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر رامی سے ہلال احمر مصر ‎ کے ہیڈکوارٹر قاہرہ  میں ملاقاتفلسطینی بھائیوں کیلئے پ...
07/11/2023

ہلال احمر مصر کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ڈاکٹر رامی سے ہلال احمر مصر ‎ کے ہیڈکوارٹر قاہرہ میں ملاقات
فلسطینی بھائیوں کیلئے پاکستانی قوم پاکستانی فلاحی تنظیموں کیطرف سے ڈاکٹرز،ادویات،خوراک اور دیگر ضروریات کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی اور کہا کہ غزہ کی ہر ضرورت پورا کرینگے،پاکستان سے ہر شعبہ کے ماہر ڈاکٹرز آنے کیلئے تیار ہیں،
ملاقات میں ڈاکٹر رامی (Dr Ramy)نے بتایا کہ فوری سیز فائر ناگزیر ہے تاکہ انسانی امداد اندر پہنچائی جاسکے،تباہی اتنی بڑے پیمانے پر ہوئی ہے کہ ناقابل بیان ہے۔غزہ پہنچنے والی امداد ضروریات کے تناسب سے بہت تھوڑی ہے۔ضروریات میں سے فوری ضرورت ادویات،خوراک،کمبل ہیں

ڈاکٹر مفتی رشید احمد خورشید صاحب 👇
اللہ تعالیٰ سینیٹر مشتاق صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ امت کے لیے جو تڑپ، درد اور غم خواری ان کو حاصل ہے، کاش ہمارے سارے پارلیمنٹرین کو حاصل ہوجائے تو نقشہ ہی بدل جائے۔ اللہ تعالیٰ سینیٹر صاحب کی کوششوں اور کاوشوں کو بار آور اور ثمر آور بنائے

03/11/2023

اے اللہ ہمیں کامیابی عطا فرما
حماس کے جنگجو محاذ جنگ پر جانے سے قبل دعائیں مانگ رہے ہیں...

واللہ کیا ایمان افروز مناظر ہیں ۔
تاریخ گواہ ہے ، ہمیشہ تھوڑے زیادہ پر غالب رہے ہیں کیونکہ کہ مومن کی مدد کا وعدہ کیا گیا ہے
---------
اسرائیلی چیف آف جنرل سٹاف ہرزی حلوی نے بیان دیا ہے کہ ہم نے غزہ کے مزاحمت کاروں سے جنگ میں اپنے بہت ہی اہم اور عمدہ فوجی جوان کھو دئیے ہیں۔

الحمدللہ ☺️

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے میری ٹؤئیٹ پر یہ ریپلائی دیا ہے۔ 👆مجھے امید ہے کہ جو بھی اس ایونٹ کے آرگنائیزرز ہیں وہ ڈپٹی کمش...
02/11/2023

ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے میری ٹؤئیٹ پر یہ ریپلائی دیا ہے۔ 👆
مجھے امید ہے کہ جو بھی اس ایونٹ کے آرگنائیزرز ہیں وہ ڈپٹی کمشنر کی ہدایت کا پاس رکھیں گے اور غزہ میں بکھری ہمارے بچوں کی لاشوں پر اسلام آباد میں کوئی ناچ گانا اور دھما چوکڑی نہیں کریں گے۔

M***i Syed Adnan Kakakhail

اگر بائیکاٹ کو مزید طوالت دی تو ممکن ہے ابو عبیدہ کی تصویر چھاپ د یں 😂 بائیکاٹ جاری رکھیں۔ اکاؤنٹ اڑتا ہے تو اڑ جائے اکا...
02/11/2023

اگر بائیکاٹ کو مزید طوالت دی تو ممکن ہے ابو عبیدہ کی تصویر چھاپ د یں 😂 بائیکاٹ جاری رکھیں۔
اکاؤنٹ اڑتا ہے تو اڑ جائے اکاؤنٹ فلسطین کے نام ❤️

Bilal Skater

ایک طرف فلسطین میں مسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں اور دوسری طرف اسلام آباد کے F-9 پارک میں ناچ گانے کے پروگرام کیے جا ...
02/11/2023

ایک طرف فلسطین میں مسلمان وحشیانہ مظالم کا شکار ہیں اور دوسری طرف اسلام آباد کے F-9 پارک میں ناچ گانے کے پروگرام کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اس پروگرام کو فی الفور کینسل کرے۔
اپنی آواز اسلام آباد انتظامیہ تک پہنچائیے۔

M***i Syed Adnan Kakakhail

29/10/2023

سبحان اللہ!
‏قربان جائیے! فلس طینیوں کے جذبہ شہادت پر!
‏یہ فلسطینی مجاھد فلس طینیوں کی شہادت کی خوشی میں مٹھائی بانٹ رہا ہے ۔۔ کیا ایسی قوم کو اقوام متحدہ کا پالتو غنڈہ اسر ا ئیل شکست دے سکتا ہے ؟ مرنا بھی انہیں آتا ہے جنہیں جینا آتا ہے
‏شہید کا لہو قوم کی حیات ہوتا ہے

زرا اس بہادر شخص کے الفاظ سنئیے !!

‏” میرے بچے شھید ہوۓ ہیں اسکی خوشی میں مٹھائی تقسیم کررہا ہوں ۔ خوشیاں مناو ہمارے بچے ہمارا جنت میں منتظر ہیں۔“

‏اے دشمنوں سن لو ہم شھدا پر خوشیاں مناتے ہیں۔

M***i Syed Adnan Kakakhail

مومن کبھی چپس پر نہیں بکتا، بائیکاٹ سے روکنے والے شیطان ک ساتھی ہیں ۔۔۔کیا آپ کو پتہ ہے کہ اسرائیل میں کس طرح کی ویڈیوز ...
28/10/2023

مومن کبھی چپس پر نہیں بکتا، بائیکاٹ سے روکنے والے شیطان ک ساتھی ہیں ۔۔۔

کیا آپ کو پتہ ہے کہ اسرائیل میں کس طرح کی ویڈیوز ٹرینڈ کر رہی ہیں ؟؟
آپ حیران ہوں گے کہ کوئی اتنا بھی گر سکتا ہے۔
آجکل اسرائیلی لڑکے اور لڑکیاں پانی اچھال کر ضائع کرتے ، بجلی کے بٹن جلا بجھا کر اور قسم قسم کے کھانوں کے ساتھ غزہ کے محصور مظلوموں کا ویڈیوز کے زریعہ مذاق اڑا رہے ہیں کہ ہمیں پانی ، بجلی اور کھانا وافر دستیاب ہے جبکہ تم پر یہ سب کچھ بند ہے۔
اندازہ لگائیں یہودی کتنے خسسیس ، کتنے رزیل اور کس قدر گرے ہوۓ لوگ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسی وجہ سے ان پر عرش بریں سے لعنت بھیجی ہے۔

M***i Syed Adnan Kakakhail

26/10/2023

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بیان دیا کہ ح- ما س کے حملے یوں ہی بلاوجہ نہیں، بلکہ وہ 56 سالوں سے گھٹن زدہ ماحول میں زندگی گذارنے پر مجبور ہیں اور یہ اس کا رد عمل ہے۔ از رائیل کو فوری طور پر جنگ بند کرنی چاہیے۔ اس بیان کے بعد ا ز رائیلی حکومت نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے استعفی کا مطالبہ کردیا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہمیں غلط قرار دیاجائے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اقوام متحدہ کی بلڈنگ اب بے معنی ہوکر رہ گئی ہے۔ اس کو ختم ہو جانا چاہیے۔ صرف یہی نہیں بلکہ مزید آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کے افسران اور آفیشلز کو اسر ا- ئیلی ویزہ جاری کرنے سے بھی انکار کردیا ہے۔ ساری دنیا تماشائی بنی کھڑی ہے۔ یہ ہیں دوہرے معیارات۔ یہ ہے ڈبل اسٹینڈرڈ۔ اس پر بھی مغربی دنیا خاموش ہے کہ ایک ملک اقوام متحدہ کے خلاف ہی بیان بازی پر اتر آیا۔ویزے تک جاری کرنے سے انکار کررہا ہے، لیکن کوئی بولنے والا نہیں۔
ترکیا کی صدر نے کھل کر کہہ دیا کہ ح- م_اس دہشت گرد تنظیم نہیں یہ فریڈم فائٹرز ہیں اور اپنی آزادی جنگ لڑ رہے ہیں۔ قطر کے امیر تمیم بن حمد نے بھی صاف الفاظ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ اس ساری صورتحال سے اب واضح ہورہا ہے کہ اگر مسلم ممالک نے اس جنگ کو روکنے میں اور فلسطینیوں کو ان کا حق دلانے میں اپنا کردار ادا نہیں کیا تو یہ آگ اب مزید شدت کے ساتھ بھڑکے گی اور پھر سب ہی لپیٹ میں آئیں گے۔
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پر صرف میرا مکان تھوڑی ہے

رشید احمد خورشید

24/10/2023

ہم دشمن کو کیسے نقصان پہنچا سکتے ہیں اس کے لیے سب سے پہلا طریقہ یہ ہے کہ ان کی تمام مصنوعات کا بائیکاٹ کر کے انکی معیشت پر ضرب لگائی جائے...
اس بائیکاٹ کا دشمن کو نقصان ہو یا نہ ہو لیکن اس کی وجہ سے ہمارے ایمان کا امتحان ضرور ہوگا...
ہفتے کے دن مچھلیوں کے شکار کی پابندی اس وقت کے مسلمانوں کے ایمان کو پرکھنے کی کسوٹی تھی...
اج اپنے ایمانی دعوے کو کامل کرنے کے لیے ہر مسلمان خود پر یہ پابندی لگائے
کہ
جہاں کہیں اسرائیل کی مصنوعات نظر ائیں ان کو خریدنا نہیں ہے
اور ان اشیاء کا کوئی دوسرا متبادل خرید لیں...
اور یہ کام پورے شعور کے ساتھ کرنا ہوگا...
ہفتے کے روز مچھلیوں کے شکار کرنے یا نہ کرنے سے اللہ کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا تھا.. مگر
یہ پابندی صرف ان لوگوں کے ایمان کو پرکھنے کے لیے لگائی گئی تھی..
اج اسرائیل کی مصنوعات سے بائیکاٹ کر کے ہم سب بھی خود پر یہ پابندی لگائیں ...
تاکہ...
اللہ کے ان دشمنوں کی معیشت پر کاری نہیں تو ہلکی ضرب لگا کر اللہ کے مددگاروں میں شامل ہونے کی ایک کوشش ہی کی جا سکے ...
يٰۤاَ يُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُوْنُوْۤا اَنْصَا رَ اللّٰهِ
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ کے مددگار بنو،
(As-Saff 61:
Verse 14)
تو پھر کیا اپ بنیں گے انصار اللہ........
اللہ کے دشمنوں کے خلاف کھڑے ہونے والے
اللہ کے مددگار...

تحریر
بشری تنویر

24/10/2023

زندگی کے تجربات تو انسان کو بہت کچھ سکھادیتے ہیں، لیکن اگر انسان اسلام کے صحیح مزاج کو سمجھ کر پہلے سے اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہو تو بہت سی ٹھوکریں کھانے سے بچ جاتا ہے۔ یہ کیا ضروری ہے کہ انسان ہر کام میں ٹھوکر کھاکر ہی سنبھلے۔ یہ دین آخر اللہ نے انسانیت کو کس مقصد کے لیے عطا فرمایا ہے؟ جب اسلام کا ایک حکم سامنے آجائے تو بس پھر اس کے بعد کچھ گنجائش باقی نہیں بچ رہتی تجربہ اور ٹرائی کرنے کی۔ ان فی ذلک لعبرۃ لاولی الالباب

ڈاکٹر مفتی رشید احمد خورشید

24/10/2023

*ٹورنٹو : کینیڈا میں نمازیوں نے اسرائیل کی حمایت کرنے پر وزیراعظم جسٹن ٹروڈو کو مسجد کا دورہ کرنے سے روک دیا*
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو ٹورنٹو کی ایک مسجد کے دورے پر پہنچے تھے اور خطاب کرنا چاہتے تھے تاہم وہاں موجود نمازیوں نے ان کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔
نمازیوں نے کہا کہ پہلے اسرائیل سے جنگ بندی کا مطالبہ کریں، بچوں کی اموات کی مذمت کریں اور پھر یہاں آئیں۔ نمازیوں کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اپنے سیکیورٹی عملے کے حصار میں واپس لوٹ گئے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کینیڈین وزیراعظم کو مسجد میں داخل ہوتے دیکھ کر وہاں موجود لوگ بھپر گئے تھے اور وہ مسلسل سرائیل کے خالف شدید نعرے بازی کررہے تھے۔
مقامی میڈیا کے مطابق اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ ان کے جانے بعد مقامی میڈیا سے گفتگو میں نمازیوں نے کہا کہ وزیراعظم کو کھل کر اسرائیل کی مذمت کرنی چاہیے تھی

M***i Syed Adnan Kakakhail ۔

22/10/2023

وہ لوگ جنہوں نے اہلِ فلسطین پر شب خون مارا اور بیت المقدس پر قبضہ کیا، انہیں اصطلاحی طور پر صہیونی کہا جاتا ہے۔

جب ہم صہیونزم یا صہیونی کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ صہیون یروشلم کا ایک پہاڑ ہے۔ جس پر حضرت داود کا مزار بھی ہے۔ ابتداء میں یروشلم کا شہر یروشلم کے گرد واقع دوبلند و بالا پہاڑوں کے درمیان میں بسا تھا۔

یہ دونوں پہاڑ آج بھی یروشلم کے گرد مشرق و مغرب میں باہم مقابل واقع ہیں۔ ان میں سے مشرقی پہاڑ موریہ کہلاتا ہے جبکہ مغربی پہاڑ کو صہیون کہتے ہیں۔ صہیون اپنی قامت میں موریہ سے بلند تر ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت سلیمان ؑ کے زمانے سے ہی یہودیوں کے درمیان تقدس اور احترام کی علامت ہے۔

یہودیوں نے 27 اگست 1897ء میں سوئزر لینڈ میں صہیونیت کو منظم تحریک کی صورت دینے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی، جس میں اعلان کیا گیا کہ صہیونیت فلسطین میں یہودیوں کیلئے ہوم لینڈ حاصل کرنے کیلئے اپنی جدوجہد کا آغاز کرتی ہے اور اس مقصد کیلئے کانفرنس نے کچھ قواعد و ضوابط کی منظوری بھی دی۔

بعد ازاں انجمن محبّین صہیون کے نام سے ایک تنظیم بنا کر اپنے منصوبے پر یہودیوں نے باقاعدہ کام شروع کیا اور بالآخر یہ گروہ فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا۔

چنانچہ جب صہیون کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے تو اس سے مراد تمام یہودی نہیں ہوتے بلکہ صرف وہ یہودی مراد ہوتے ہیں جو انجمن محبّین صہیون سے مربوط یا اُن کے ہم فکر ہوتے ہیں۔

یہودیوں نے اسرائیل کی صورت میں فلسطین پر قبضے کی خاطر جو انجمن بنائی اُس کا نام اُنہوں نےانجمن محبّین صہیون اس لیے رکھا چونکہ صہیون کا پہاڑ عرصہ قدیم سے یہودیوں کے لئے محترم ہے اور اس طرح وہ اپنی انجمن کو صہیون پہاڑ کی طرف نسبت دے کر دنیا بھر کے یہودیوں کو ایک پلیٹ فارم اور ایک نظریئے یعنی محبتِ صہیون پر اکٹھا کرنا چاہتے تھے۔

کتب تواریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہودی بطور ِقوم خدا کی نعمتوں کو ٹھکرانے کے باعث اور انبیاءِ خدا کو ناحق قتل کرنے کے علاوہ اپنی اخلاقی ابتری اور باطنی مکر و فریب کے باعث زوال کا شکار ہوئے تھے۔

فرعون کے زمانے میں جب یہ شاہی استبداد کا نشانہ بن رہے تھے تو خدا نے حضرت موسٰی کی صورت میں ان کیلئے نجات دہندہ بھیجا۔ حضرت موسٰی نے فرعون کے سامنے قطعی طور پر دو ہی مطالبے رکھے کہ اوّلاً تو اللہ تعالٰی کی ربوبیت اور حاکمیت کا اعتراف کرے اور ثانیاً بنی اسرائیل پر اپنے مظالم بند کرے۔

حضرت موسٰی ایک طرف تو بنی اسرائیل کی خاطر فرعون سے ٹکرا رہے تھے جبکہ دوسری طرف بنی اسرائیل کی مکاریوں اور عدم تعاون سے روز بروز مسائل میں گرفتار ہوتے جا رہے تھے۔

چنانچہ حکم خداوندی سے آپ نے اسرائیلیوں کو ایک قافلے کی صورت میں بحیرہ احمر کے راستے کی طرف سے ہجرت کرنے کا حکم سنایا۔

حضرت موسٰی کی قیادت میں یہ قافلہ روانہ ہوا تو فرعون بھی اس کے تعاقب میں نکل پڑا۔ اذنِ خداوندی سے حضرت موسٰی نے اپنا عصا دریا نیل کے سینے پر مار کر بنی اسرائیل کو دریا عبور کرایا اور ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون اسی نیل میں غرق آب ہوگیا۔

دریا عبور کرکے بنی اسرائیل حضرت موسٰی کے ہمراہ کوہ سینا تک پہنچے اور اسی مقام پر تورات مقدس کے متعدد احکامات بھی نازل ہوئے، اسی طرح ایک سال گزر گیا۔ ایک سال بعد حضرت موسٰیؑ پر یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل کے ہمراہ فلسطین کو فتح کرلو کہ وہ تمہاری میراث میں دیا گیا ہے۔

جس کے بعد آپ نے فلسطین کا جائزہ لینے کیلئے دشتِ فاران کا رخ کیا اور پھر دشت فاران سے ایک وفد کو فلسطین کے حالات کا تجزیہ و تحلیل کرنے کیلئے بھیجا۔

اس زمانے میں فلسطین کے باشندے کفر و شرک اور گمراہی میں مبتلا تھے، چنانچہ حضرت موسٰی کی قیادت میں بنی اسرائیل کے ذریعے سے ایک الٰہی حکومت کے نفاذ کی خاطر اہلیان فلسطین کی اصلاح کی خاطر اور خود بنی اسرائیل کے عزت و وقار اور مقام و مرتبے کی بلندی کی خاطر حضرت موسٰی کو یہ حکم دیا گیا تھا۔ لیکن بنی اسرائیل نے حضرت موسٰی سے صاف کہہ دیا کہ اے موسٰی، تم اور تمہار رب دونوں جاو اور لڑو، ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

حضرت موسٰی کی دل آزاری کرکے بنی اسرائیل نے غضبِ خداوندی کو للکارا، جس کے بعد 40 برس تک اکرام خداوندی نے اُن کی طرف سے منہ پھیرے رکھا اور وہ دشت فاران و صین میں خاک چھانتے رہے۔

40 سال کےبعد حضرت موسٰی نے بنی اسرائیل کو پھر سے یکجا کیا اور موآب، حسبون اور شطیم کے علاقے فتح کئے اور یہیں کہیں کوہِ عباریم پر حضرت موسٰی وصال فرما گئے۔ ان کے بعد حضرت یوشع ان کے خلیفہ بنے، جنہوں نے دریائے اردن کو عبور کرکے فلسطین کے شہر اریحاً کو فتح کیا اور یہ اریحاً ہی فلسطین کا پہلا مفتوحہ شہر ٹھہرا۔

اریحاً کو سب سے پہلے مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل رفتہ رفتہ پورے فلسطین میں پھیل گئے۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ فلسطین پر بنی اسرائیل کو قبضہ دلانے کا مقصد الٰہی حکومت کا قیام تھا لیکن اپنے متعصبانہ رویے کی بناء پر بنی اسرائیل الٰہی حکومت کے نفاذ کیلئے متحد ہونے کے بجائے قبائلی دھڑوں میں منقسم ہوکر فلسطین کے گمراہ باسیوں کے ساتھ مخلوط ہوگئے۔

اس اختلاط سے بنی اسرائیل کی بطور ملت قوت کمزور ہوگئی اور فلسطین کی غیر مفتوحہ اقوام نے بنی اسرائیل کی درگت بنانی شروع کر دی۔

چنانچہ بنی اسرائیل مجبور ہوگئے کہ وہ مختلف دھڑوں کے بجائے مل کر ایک مضبوط حکومت قائم کریں۔ اس طرح ایک اسرائیلی ریاست کی بنیاد پڑی، جس پر حضرت طالوت، حضرت داود اور حضرت سلیمان نے حکومت کی۔

حضرت سلیمان کے بعد اسرائیلیوں کی رگِ شیطنت پھر سے پھڑکی اور انہوں نے آپس میں شب خون مار کر اس ریاست کے دو ٹکڑے کر دیئے ایک ٹکڑا سلطنت اسرائیل کہلایا اور دوسرے کا نام سلطنت یہود ٹھہرا۔

بعد ازاں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے حملہ کرکے سلطنت یہود کو، اور آشور کے حکمران سارگون نے حملہ کرکے سلطنت اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ بابل کی سلطنت کو زوال آیا اور ایرانی فاتح خسرو نے بابل کو مفتوح کرنے کے بعد بنی اسرائیل کو دوبارہ اپنے وطن میں آباد ہونے کی اجازت دیدی۔

98 قبل مسیح میں شام کی سلوقی سلطنت کے فرمانروا نے فلسطین پر شب خون مارا، جس کے بعد یہودیوں نے سلوقی حکمرانوں کے خلاف ”مکابی“ نامی بغاوت برپا کرکے سلوقیوں کو فلسطین سے بے دخل کر دیا۔ لیکن 63 قبل مسیح میں رومن فاتح جنرل پومپی نے بیت المقدس پر حملہ کرکے یہودیوں کو مغلوب کرلیا لیکن چونکہ رومن براہِ راست فلسطین پر حکومت کے خواہاں نہ تھے، اس لئے اُنہوں نے فلسطینیوں کے ذریعہ سے ہی فلسطین کے انتظامات چلانے کی سعی کی اور اسی کوشش میں فلسطین کی سلطنت ڈگمگاتی ہوئی ہیرود اعظم کے ہاتھ لگی جو ایک مکار یہودی تھا۔

64ء اور 66ء کے درمیانی عرصے میں یہودیوں نے رومن کے حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا۔

رومنی حکومت نے یہودیوں کو اس طرح بغاوت کی سزا دی کہ اس کے بعد لمبے عرصے تک یہودی کہیں یورش برپا نہ کرسکے۔

بعد ازاں 667ء میں شر انگیزیوں کے باعث اُنہیں حجاز سے باہر نکالا گیا۔ حجاز کے بعد اُنہوں نے شام کا رخ کیا، جہاں سے 890ء میں ان کے فتنوں کے باعث انہیں بے دخل کر دیا گیا، پھر یہ معتوب قوم پرتگال میں گھسی، جہاں سے انہیں 920ء میں نکال دیا گیا۔

پھر یہ سپین میں داخل ہوئے جہاں سے انہیں 1110ء میں فرار ہونا پڑا۔ سپین کے بعد انہوں نے انگلینڈ کو مسکن بنایا۔ جہاں سے انہیں 1290ء میں نکالا گیا، پھر یہ فرانس میں آٹپکے، جہاں سے انہیں 1306ء میں بھاگنا پڑا۔ پھر انہوں نے بیلجیئم میں داخل ہوکر بیلجیئم کے آرام و سکون کو غارت کیا، جہاں سے انہیں 1370ء میں بھگایا گیا۔

پھر یہ ذیگوسلاویہ میں آدھمکے، جہاں سے انہیں 1380ء میں نکال دیا گیا اور پھر یہ دوبارہ فرانس میں داخل ہوگئے، جہاں سے انہیں 1434ء میں دوبارہ نکال دیا گیا۔

پھر انہوں نے ہالینڈ کا رخ کیا، جہاں سے انہیں 1442ء میں باہر دھکیلا گیا۔ جس کے بعد یہ روس میں داخل ہوئے، جہاں سے 1510ء میں انہیں جان بچانے کیلئے بھاگنا پڑا، پھر یہ اٹلی میں گھسے 1540ء میں اٹلی کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوگیا، پھر اٹلی سے بھاگ کر جرمنی پہنچے، لیکن 1551ء میں جرمنی نے بھی ان پر شب خون مارا پھر یہ ترکی میں گھسے، اہلیان ترک نے اسلامی رواداری اور مذہبی فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہودیوں کو ہر طرح کا تحفظ اور حقوق فراہم کئے۔

چنانچہ ترکی کو مسکن بنانے کے بعد یہودیوں نے سکھ کا سانس لیا اور پھر 17ہویں صدی میں انہوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں کو وی آنا میں مرکزیت دی اور پھر اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں مسلسل منظم اور فعال ہوتے چلے گئے۔ لیکن اس سارے دورانئے میں انہوں نے انتہائی رازداری اور خفیہ حکمت عملی کا سہارا لیا اور اس طرح فلسطین پر اپنے دوبارہ قبضے کی خواہش کو منظر عام پر آنے سے روکے رکھا۔

فلسطین پر یہود کے دوبارہ قبضے کی فکری تحریک اُس وقت منظر عام پر آئی جب 1862ء میں ایک جرمن یہودی موسٰی ہیٹس کی کتاب ”روم اور یروشلم“ مارکیٹ میں آئی۔

اس کتاب میں لکھا گیا کہ یہودیوں کی عالمی حکومت کا مرکز یہوا کی بادشاہت کا اصل وطن فلسطین ہے۔ اس کتاب کے بعد اسی موضوع پر یہودی مفکرین نے دھڑا دھڑ کتابیں لکھ کر دنیا بھر کے یہودیوں کو فلسطین پر قبضے کی تشویق دلائی۔

1896ء میں ایک یہودی صحافی تھیوڈر ہرزل نے ریاست یہود کے نام سے ایک کتاب لکھی البتہ بعض محققین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اُس نے ریاست یہود کے نام سے ایک رسالہ شائع کیا۔

اس کتاب یا رسالے میں اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی اور نظریاتی بارڈرز کے خدوخال ابھارے۔ اُس نے ریاست یہود کے جغرافیائی بارڈر کوہِ یورال سے نہر سویز تک پھیلایا اور نظریاتی طور پر یہودیوں کی راہنمائی اس طرح کی کہ اوّلاً یہودی ایک علاقے میں جمع ہوجائیں اور ثانیاً یہ کہ دیگر ممالک یہودیوں کی خودمختاری اور ان کے لئے علیحدہ وطن کی ضرورت کو تسلیم کریں۔

انگلینڈ میں مقیم یہودی کمیونٹی کے سربراہ لارڈ اتھس چائلڈ نے اس صحافی کی بھرپور مالی اعانت کی، جس کے باعث ہرزل 1897ء میں سوئزرلینڈ میں صہیونیوں کی کانفرنس منعقد کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کانفرنس نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کیلئے کلیدی کردار ادا کیا۔

یہ صحافی اپنی موت سے پہلے صہیونی آبادکاری بینک اور یہودی بیت المال جیسے ادارے بنانے میں بھی کامیاب ہوگیا اور اس طرح یہود نے فلسطین کو لقمہ تر کی طرح نگلنے کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے۔

ڈاکٹر ہرزل کے بعد صہیونی تحریک کا صدر مقام کولون منتقل ہوگیا اور صہیون نے اپنے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لئے انجمن محبّین صہیون کے ذریعے عملی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔

اس وقت ساری دنیا صہیونیوں کے ان اقدامات پر خاموش تماشائی بنی رہی اور اس خاموشی کی اہم وجہ صہیونیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی عالمی خواہش تھی، چونکہ صہیونی باری باری متعدد اقوام کو ڈس چکے تھے۔

یہ لوگوں کے بچوں کو اغوا کرکے نہ صرف قربانیوں کی بھینٹ چڑھا دیتے تھے بلکہ سازش اور مکر کے میدان میں اتنے جری تھے کہ پانی کے چشموں اور تالابوں میں زہر بھی ملا دیتے تھے۔

چنانچہ ساری عالمی برادری ان سے چھٹکارا اور نجات چاہتی تھی، اس لئے تمام اقوام نے اپنی عافیت اسی میں سمجھی کہ یہودیوں کو عربوں کے درمیان گھسنے دیا جائے، تاکہ ان کا تمام مکر و فریب عربوں تک محدود ہوجائے۔

چنانچہ یورپ نے یہودیوں کی خصوصی اعانت کی اور ان کو عرب ریاستوں کے مرکز میں گھسا دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران یہودیوں نے جرمنی کے خلاف برطانیہ سے معاہدہ کیا، جس کی رو سے برطانیہ نے اعلان ِ باالفور میں صہیونی اغراض و مقاصد کی حمایت کا وعدہ کیا۔ یہودیوں کی اس طرح کی ساز باز مختلف نوعیتوں میں پورے یورپ سے جاری رہی، یہاں تک کہ 1948ء میں اسرائیل کو دنیا کے نقشے پر وجود مِل گیا۔

مسئلہ فلسطین اس وقت بین الاقوامی سطح پر ابھرا جب 1948ء میں برطانیہ نے فلسطین پر یہودیوں کے قبضے کو قانونی رنگ دینے کے لئے اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل کو اجلاس منعقد کرنے کے لئے خط لکھا۔

اقوام متحدہ نے آسٹریلیا، کنیڈا، یوگو سلاویہ، ہند، ہالینڈ اور ایران سمیت چند دیگر ریاستوں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیا، اس کمیشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ سرزمین فلسطین کا دورہ کرکے وہاں کے مقیم یہودیوں اور فلسطینیوں کا موقف سنے، نیز نزدیک سے فلسطین کی صورتحال کا جائزہ لیکر اقوام متحدہ کو اپنی رپوٹ پیش کرے۔ فلسطین کا دورہ کرنے کے بعد یہ کمیشن کسی مشترکہ نتیجے تک نہ پہنچ سکا اور یوں دو دھڑوں میں بٹ گیا۔

ایک دھڑے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو داخلی طور پر عربی اور یہودی دو حکومتوں میں تقسیم کیا جائے، جبکہ مرکزی حکومت، بیت المقدس میں متمرکز ہو کر کام کرے۔

دوسرے دھڑ ے کی رائے یہ تھی کہ فلسطین کو مستقل طور پر یہودی اور عربی نامی دو حصوں میں تقسیم کیا جائے۔ یہودیوں نے دوسرے دھڑے کی رائے کو سراہا اور ایک مستقل یہودی ریاست کے قیام کے لئے کھل کر میدان سیاست و میدان جنگ میں اتر آئے۔ اقوام متحدہ نے بھی یہودیوں کو مایوس نہیں کیا اور تقسیم فلسطین کے فارمولے کو منظور کر لیا۔

اسی سال برطانیہ نے فلسطین سے نکلتے ہوئے اپنا تمام تر جنگی ساز و سامان یہودیوں کے حوالہ کر دیا۔ یہ ہتھیار یہودیوں کے ہاتھوں میں پہنچنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مسلمانوں پر شب خون مارنا شروع کر دیا اور پے در پے مسلمانوں کی املاک پر قابض ہوتے چلے گئے، اس شب خون اور قتل و غارت کے نمایاں نمونے دیر یاسین، اور ناصرالدین نامی علاقے ہیں۔

اسی لمحے کہ جب برطانیہ نے یہودیوں سے ملی بھگت کرکے فلسطین سے باہر قدم رکھا تو یہودیوں نے بھی ْاسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا۔

اِدھر اسرائیل کے قیام کا اعلان ہونا تھا، اُدھر اُس وقت کے امریکی صدر "ٹرومن" نے سرکاری طور پر اسرائیل کو تسلیم بھی کرلیا۔

برطانیہ، امریکہ اور یہودیوں کے گٹھ جوڑ کے مقابلے کے لئے اسی سال مصر، اردن، لبنان، عراق، اور شام پر مشتمل عرب افواج کے دستوں نے فلسطین میں اپنے قدم رکھے اور لمحہ بہ لمحہ جیسے جیسے جنگ کے شعلے بھڑکتے گئے، مسئلہ فلسطین عالمی برادری کے لئے ایک چیلنج کی حیثیت اختیار کرتا گیا۔

عرب ریاستوں نے اپنے عربی مزاج کے مطابق ، اس مسئلے میں بھی عربی و عجمی کی تقسیم کو باقی رکھا اور سب سے پہلے تو اسے عربوں کا مقامی اور داخلی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی، اور اس مسئلے کو عرب ممالک کا مسئلہ بنا کر اقوام عالم کے سامنے پیش کیا۔

امریکہ و اسرائیل نے اس کے بعد عرب حکمرانوں کے درمیان پھوٹ ڈالنے اور عربوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے کیلئے بھرپور کام کیا۔

سامراج کی سازشوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ عرب حکمراں تحریک آزادی فلسطین اور بیت المقدس کی آزادی کو فراموش کرکے اپنی اپنی سلطنت کے استحکام اور جاہ و حشمت کی خاطر ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی اس مسئلے کو سرد خانے میں ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔

منقول

‏مومن باتیں کم اور عمل زیادہ کرتا ہے۔ جبکہ منافق باتیں زیادہ اور عمل کم کرتا ہے‏(فضیل بن عیاض رحمہ اللہ)
22/10/2023

‏مومن باتیں کم اور عمل زیادہ کرتا ہے۔ جبکہ منافق باتیں زیادہ اور عمل کم کرتا ہے

‏(فضیل بن عیاض رحمہ اللہ)

22/10/2023

لندن میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کے شرکاء کی تعداد ایک لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ یہ مظاہرہ سنٹرل لندن میں میں ہفتے کے روز کیا گیا۔ مظاہرین غزہ میں فوری جنگ بندی اور غزہ کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
جبکہ مظاہرین فلسطین کی آزادی کے حق میں بینرز اٹھائے ہوئے تھے، جن پر تحریر تھا فلسطین کو آزادی دو۔ مظاہرین نے ڈاوننگ سٹریٹ میں وزیراعظم رشی سوناک کی سرکاری رہائش کے باہر جمع ہونے سے پہلے لندن بھر میں مارچ کیا۔

لندن پولیس کے اندازے کے مطابق فلسطینیوں کے حق میں سڑکوں پر نکلنے والے ان مظاہرین کی تعداد ایک لاکھ کے لگ بھگ تھی۔ مظاہرے کو قومی مارچ برائے فلسطین کا نام دیا گیا تھا۔

مظاہرین کے ہاتھوں میں موجود بینرز اور کتبوں پر اسرائیل کے خلاف اور اسرائیلی مذمت پر مبنی نعرے بھی درج تھے، جبکہ کئی مظاہرین نے برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک اور امریکی صدر جوبائیڈن کی تصاویر والے بینر اٹھا رکھے تھے جن کا مقصد ان کی اسرائیل کے حق میں پالیسیوں پر احتجاج کرنا تھا۔

مظاہرے میں شریک ایک خاتون نے کہا 'ایک فلسطینی کے طور پر ہم چاہتے ہیں ہم بھی ایک دن اپنے گھر واپس جائیں گے، ایک فلسطینی کے طور پر غزہ میں ہمارے بہن بھائی ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ فلسطین کے لیے کچھ زیادہ کریں مگر احتجاج ایسی چیز ہے جو ہم منٹوں میں کر سکتے ہیں۔'

کئی مطاہرین نے اسرائیلی مذمت پر مبنی بڑے سخت نعرے لکھے ہوئے تھے۔ جبکہ ایک نے بینر پر سوناک، نیتن یاہو اور جو بائیڈن کی تصاویر بنا کر نیچے لکھا ہوا تھا جنگی جرائم میں مطلوب' ہیں۔

دوسری جانب لندن پولیس نے پہلے ہی اعلان کر رکھا تھی کہ حماس برطانیہ کی طرف سے ایک دہشت گرد تنظیم ہے اس لیے اگر کوئی اس کے حق میں نعرے لگائے گا تو اس کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ علاوہ ازیں اگر کسی نے نفرت انگیزی کی تو اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔'

M***i Syed Adnan Kakakhail

21/10/2023

ہم پاکستانیوں کی تھوڑی سی ہمت کام اگئی ہے...

👏👏 Boycott karny walon ka shukria ❤️ aur Boycott jari rakhin ...

Jo extremist McDonald's workers k nam per (actually in favouring Mcdonald) posts kar rahy thy is crucial time ma jab k posts Flasteen per kiye janny waly badtreen zulaam k against honi chy the unk ley hai ye post.....

Real humanity ( fake humanity karny waly liberals /feminists) k haqdaar Flasteen k log hain unk ley bol ni sakty to jo bol raha unki leg pulling na karin ....

Londay k liberals akar bashan na dain k fb b ✡️ ka hai apna bashan Flasteen k logo per kiye jany badtreen zulam k khlaaf istemal karin marna sab ney her chez ka hisab hona hai .



Join us So-called Fem!n!sm
The Modest Squad

21/10/2023

*سلطنت عثمانیہ : یاد تو آتی ہو گی ؟؟؟*

فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم نے ہر اس دل کو لہو کر دیا ہے جس میں انسانیت کی ہلکی سی بھی رمق موجود ہے۔ دنیا بھرمیں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہورہے ہیں۔ فلسطین کا پرچم لہرایا جا رہا ہے۔میں اس پرچم کو دیکھتا ہوں اور دل کو رہ رہ کر کچھ کہانیاں یاد آ جاتی ہیں۔ اداسی اور کرب میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

سلطنت عثمانیہ قائم تھی توالقدس مسلمانوں کے پاس تھا۔ ہنستا بستا شہر تھا، جس میں مسلمان عزت اور آبرو سے جی رہے تھے۔ ان کے بچے بھی محفوظ تھے اور ان کی مائیں بہنیں اور بیٹیاں بھی سکون سے زندگی گزار رہی تھیں۔ پھر مسلمانوں نے برطانیہ کے سات مل کر سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کی ا ور نتیجہ یہ نکلا کہ القدس صہیونیوں کے ہاتھ میں چلا گیا۔ باقی صرف ایک کہانی۔ درد اور دکھوں میں لپٹی کہانی۔

یہ کچھ زیادہ پرانے وقتوں کی بات نہیں، یہ 10 جون 1916 کی بات ہے۔ اس روز شریف مکہ حسین بن علی اور برطانیہ کے لیفٹیننٹ کرنل ہنری مک موہن کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس کے نتیجے میں عربوں نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر دی۔ْ اس بغاوت کو ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا نام دیا گیا۔

جب بغاوت کا فیصلہ ہو چکا اور اس کی جزئیات طے ہو چکیں تو اگلا مرحلہ اس عرب بغاوت اور مزاحمت کا پرچم تیار کرنا تھا۔ کتنی عجب بات ہے کہ بغاوت مسلمان کر رہے تھے لیکن اس بغاوت کا پرچم برطانوی سفارت کار تیار کر رہے تھے۔

یہ پرچم ایک برطانوی سفارت کار کرنل مارک سائیکس نے تیار کیا۔ مارک سائیکس صیہونیوں کے بہت قریب تھے اور جس اعلان بالفور کے نتیجے میں اسرائیل قائم کیا گیا اس اعلان کو حقیقت بنانے میں کرنل صاحب کا بڑا اہم کردار تھا۔

مارک سکائیس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عرب بغاوت کا جو پرچم تیار کیا اس میں چار رنگ شامل تھے۔ اس میں سیاہ، سفید اور سبز یعنی تین رنگوں کی تین افقی پٹیاں تھیں اور ایک تکون تھی جس کا رنگ رخ تھا۔

سیاہ رنگ عباسی سلطنت کی یادگار کے طور پر لیا گیا، سفید رنگ کو اموی سلطنت سے نسبت دی گئی اور سبز رکنگ فاطمی خلافت کی یادگار کے طور پر رکھا گیا۔ تکون کا سرخ رنگ ہاشمی خاندان یعنی اشراف مکہ کی نسبت سے لیا گیا یو ں سمجھ لیجیے کہ یہ رنگ شریف مکہ حسین بن علی کی ممکنہ سلطنت کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف کے طور پر چناگیا جو جو شریف مکہ اور مک موہن معاہدے کی روشنی میں سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنا تھی۔

پرچم بھی تیار ہو گیا اور بغاوت بھی شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ایک وقت وہ آیا کہ یروشلم کا محاصرہ کر لیا گیا۔ عثمانی افواج لڑیں اور یروشلم کے اطراف میں شہید ہونے والے فوجیوں کی تعداد ایک روایت کے مطابق 25 ہزار تھی۔ لیکن یہ افواج بے بس ہو گئیں۔ اس کی بہت ساری وجوہات تھیں مگر ان میں سے دو بہت نمایاں تھیں۔

پہلی وجہ عرب بغاوت تھی۔ ایک طرف برطانوی اور اس کی اتحادی افواج یروشلم پر حملہ آور تھیں۔ دوسری جانب عرب بغاوت نے ترکوں کی سپلائی لائن کو ادھیڑ کر رکھ دیا۔سلطنت عثمانیہ باہر کے دشمنوں سے تو شاید نمٹ لیتی لیکن جب اپنے ہی اپنوں کے خلاف ہو گئے تو سلطنت عثمانیہ بے بس ہو گئی۔

دوسری وجہ ہندوستان سے گئے فوجی تھے جو اتنی وافر تعداد میں تھے کہ اس نے اتحادی افواج کو افرادی قوت سے بے نیاز کر دیا تھا۔ فیلڈ مارشل اچنلک نے بعد میں اعتراف بھی کیا کہ ہندوستان کے فوجی ہمیں میسر نہ ہوتے تو ہم دونوں جنگ عظیم ہار گئے ہوتے۔ جب یروشلم میں مسلمانوں کو شکست ہو رہی تھی تو پنجاب کے پیروں کی گدیاں سرکار انگلشیہ کی فتح کا جشن منا رہی تھیں۔

یہاں اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہندوستان سے جانے والے صرف ہندو اور سکھ فوجی تھے تو اس غلط فہمی کو دور کر لیجیے۔ اس کام میں مسلمان فوجی بھی پیش پیش تھے کیونکہ ہندوستان میں یہ فتوی آ چکا تھا کہ مسلم دنیا کی قیادت پر ترکوں کا کوئی حق نہیں۔ یہ حق تو شریف مکہ کا ہے۔

آج شاید ہی کسی کو معلوم ہو کہ جب القدس مسلمانوں سے چھن گیا اور سلطنت عثمانیہ کو یہاں شکست ہو گئی تو برطانوی فوج کا جو پہلا دستہ شہر میں داخل ہوا وہ ”نعرہ تکبیر“ بلند کرتے ہوے داخل ہوا۔

11 دسمبر 1917 کو جب یروشلم مسلمانوں سے چھن گیا اور جنرل ایلن بے ایک فاتح کی حیثیت سے داخل ہوا تو فاتحین کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی تھے جو ہندوستان سے تشریف لے گئے تھے اور نعرہ تکبیر بلند فرما رہے تھے اور کچھ وہ تھے جو ہندوستان سے تشریف نہیں لے گئے تھے وہیں آس پاس کے علاقوں کے عرب تھے اور ’الثورۃ العربیہ الکبری‘ کا پرچم تھامے ہوئے تھے۔ وہی چار رنگوں والا پرچم جس کا اوپر ذکر کیا جا چکا ہے۔ جزوی تبدیلیوں کے ساتھ عرب بغاوت کا یہی پرچم آج بھی مصر، اردن، سوڈان، کویت، امارات، شام، لیبیا اور یمن کا قومی پرچم ہے۔فلسطین کا پرچم بھی اسی پرچم کی ایک شکل ہے۔

اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے مسلمانوں کی سلطنت عثمانیہ کا خاتمہ کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے القدس مسلمانوں سے چھین کر برطانوی فوج کے حولے کیا۔ اسی پرچم تلے خود مسلمانوں نے دشمن کو یروشلم میں گھسنے کا موقع دیا اور آج اسی پرچم تلے مسلمان صہیونیوں کے مظالم کے خلاف بے بسی سے سراپا احتجاج ہیں۔

بغاوت کرنے والوں کے ساتھ کیا ہوا؟ شریف مکہ نے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا تو خود کو خلیفہ قرار دے ڈالا۔ پورے چاؤ سے’الثورۃ العربیہ الکبری‘ چلانے والے شریف مکہ چند ماہ ہی حکومت کر سکے پھر جلاوطن ہوئے اور مر گئے۔اتفاق دیکھیے کہ عرب بغاوت کے ذریعے یروشلم سے مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کی روہ ہموار کرنے والا یہ شخص یروشلم ہی میں دفن ہے۔ کیا عجب اس کی روح راتوں کو مسجد اقصی کے نواح میں بھٹکتی ہو اور دیکھتی ہو کہ میرے نامہ اعمال نے مسلمانوں کو آج کیا دن دکھائے ہیں۔

ان کا اقتدار بعد میں سمٹ کر اردن تک رہ گیا گیا۔ ان کی اولاد میں سے ایک بادشاہ سلامت ایک دن مسجد اقصی میں داخل ہوئے اور کسی مسلمان کے ہاتھوں قتل ہو گئے۔ کچھ عرصہ مسجد اقصی ان کے زیر انتظام رہی بعد میں اسرائیل نے یروشلم شہر پر بھی قبضہ کر لیا اور اب صرف کاغذی طور پر مسجد اقصی اردن کے شاہی خاندان کے زیر انتظام ہے۔

غلطیاں یقینا سلطنت عثمانیہ سے بھی ہوئی ہوں گی، تبھی تو بغاوت ہوئی لیکن سلطنت عثمانیہ جیسی بھی تھی، اسرائیل جیسی سفاک تو نہ تھی۔القدس کے مسلمانوں پر یوں ظلم تو نہ کرتی تھی۔

اسی بغاوت کے پرچم تلے خود مسلمانوں نے سلطنت عثمانیہ کو اسی یروشلم میں شکست دی اور تب سے اب تک انہیں سکھ کا ایک دن نہیں ملا۔ وہی پرچم اٹھا کر اب وہ اپنے معصوم بچوں کے لاشوں پر سوگوار کھڑے احتجاج کر رہے ہیں۔

قومی کرکٹ ٹیم نے اسی پرچم کو اپنی ڈی پی پر لگایا تو دل کو کئی کہانیاں یاد سی آ کر رہ گئیں۔ مسلمانوں کو کبھی کبھی سلطنت عثمانیہ کی یاد تو آتی ہو گی۔

منقول

Address

Karachi

Website

http://zarbemomin.blogspot.com/

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zarbemomin posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Zarbemomin:

Videos

Share