ABB News

ABB News ABB NEWS Official Fb Page
( web-Channel & News Agency ©

03/12/2022
25/11/2022
Worldwide famous    honest      Khan book
19/11/2022

Worldwide famous honest Khan book

  Khan
19/11/2022

Khan

  Khan new
19/11/2022

Khan new

Friends of 85ag meet up at RPO office   Thanks 1.Raja Riffat Mukhtar    Multan 2.Malik Muhammad Nawaz Maken DG Research ...
19/11/2022

Friends of 85ag meet up at RPO office
Thanks
1.Raja Riffat Mukhtar Multan
2.Malik Muhammad Nawaz Maken DG Research Punjab
3.Ch. Shahzad Sabir Director . Ext Multan
4. Dr. Qamar Shakil Director AARI Faisalabad
5. Malik Sajjad Hussain CEO City
6. Khan famous &

ملتان لٹریسی  #فیسٹیول             and
19/11/2022

ملتان لٹریسی #فیسٹیول

and

16/11/2022

برصغیر میں مزارات کا وجود کچھ اسی انداز میں ہوا

کہا جاتا ہے کہ فوج کسی بھی ملک کی دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی ...
10/11/2022

کہا جاتا ہے کہ فوج کسی بھی ملک کی دفاعی نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ اس کا بنیادی کام ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پاک فوج پاکستان کی دفاعی نظام کی نہیں بلکہ اپنی قائم کردہ معاشی سلطنت کی محافظ ہے۔یعنی یہ ایک پیشہ ورانہ فوج نہیں رہی بلکہ ایک کمرشل آرمی ہے۔

اسی طرح یہ شاید دنیا کی واحد فوج ہے کہ جسے ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ کاروبار کرنے کی بھی مکمل اجازت ہے۔ ہر سال دفاعی بجٹ کی مد میں پاکستان آرمی کو اربوں روپے مختص کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود فوج کے زیر انتظام ملک بھر میں 50 سے زائد کاروباری ادارے چل رہے ہیں۔

پاک فوج پاکستانی عوام کو یہ باور کراتی رہتی ہے کہ پاک فوج دنیا کی طاقتورترین فوجوں میں شمار ہوتی ہے اور اس کی انٹیلی جنس ادارہ ”آئی ایس آئی“ دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ادارہ ہے۔لیکن حقیقت میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے،بس عوام کا اعتبار قائم کرنے کیلئے اس طرح کے پروپیگنڈے کئے جاتے ہیں تاکہ عوام سیاستدانوں کو کرپٹ سمجھتے رہیں اور وہ اپنا کام کرتے رہیں۔

پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس کی ملکی معیشت کے اندر اپنی الگ معاشی سلطنت قائم ہے اورپاکستان کی کم و بیش 60% معیشت میں حصہ دار ہے۔ ایمانداری اور حب الوطنی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جواس کی غلط کاموں پر سوال اٹھا تا ہے اسے مار دیا جاتا ہے یا غدار قرار دیکر عوام میں ذلیل کیا جاتاہے یا اگر فوج کے اندر اس پر سوال اٹھتا ہے تو اس کا کورٹ مارشل کیا جاتا ہے۔

پاک فوج کے کاروباری سلطنت کے 4 حصے ہیں:
01۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ
02۔ فوجی فاؤنڈیشن
03۔ شاہین فاؤنڈیشن
04۔ بحریہ فاؤنڈیشن
فوج ان 4 ناموں سے کاروبار کر رہی ہے۔ یہ سارا کاروبار وزارت دفاع کے ماتحت کیا جاتا ہے۔ اس کاروبار کو مزید 3 حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

نیشنل لاجسٹک سیل

NLC

ٹرانسپورٹ:

یہ پاکستان کی سب سے بڑی ٹرانسپورٹ کمپنی ہے۔ جس کا 1,698 سے زائد گاڑیوں کا کارواں ہے اس میں کل 7,279 افراد کام کرتے ہیں جس میں سے 2,549 حاضر سروس فوجی ہیں اور باقی ریٹائرڈ فوجی ہیں۔

فرنٹیئر ورکس آرگنائیزیشن

(FWO):
یہ پاکستان کا سب سے بڑا ٹھیکیدار ادارہ ہے اور اس وقت حکومت کے سارے اہم

Constructional Tenders

جیسے روڈ وغیرہ ان کے حوالے ہیں اس کے ساتھ ساتھ کئی شاہراہوں پر ٹول ٹیکس لینے کے لیے بھی اس ادارے کو رکھا گیا ہے۔

ایس سی او

SCO:
اس ادارے کو پاکستان کے جموں وکشمیر، فاٹا اور Northern Areas میں کمیونیکیشن کا کام سونپا گیا ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی صدرجنرل پرویزمشرف نے ریٹائرمنٹ کے بعد (4-5) ہزار افسروں کو مختلف اداروں میں اہم عہدوں پر فائز کیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 56 ہزار سول عہدوں پر فوجی افسر متعین ہیں جن میں 1,600 کارپوریشنز میں ہیں۔
پاکستان رینجرز بھی اسی طرح کاروبار میں بڑھ کر حصہ لے رہی ہے جس میں سمندری علاقے کی 1,800 کلومیٹر لمبی سندھ اور بلوچستان کے ساحل پر موجود جھیلوں پر رسائی ہے۔ اس وقت سندھ کی 20 جھیلوں پر رینجرز کی عملداری ہے۔ اس ادارے کے پاس پیٹرول پمپس اور اہم ہوٹلز بھی ہیں۔

اہم بات یہ ہے کہ FWO کو شاہراہوں پر بل بورڈ لگانے کے بھی پیسے وصول کرنے کا حق حاصل ہے۔
15 فروری 2005 میں پاکستان کے سینیٹ میں ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔ جس کے مطابق فوج کے کئی ادارے اسٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ بھی نہیں ہیں اور ان کی یہ سرمایہ کاری کسی بھی صورت میں عالمی سرمایہ کاری سے الگ بھی نہیں ہے۔ در ذیل لسٹ سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ افواج پاکستان کیسے اس سرمایہ کاری میں مصروف ہیں۔

آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کے پروجکٹس:

01۔ آرمی ویلفیئر نظام پور سیمنٹ پروجیکٹ
02۔ آرمی ویلفیئر فارماسیوٹیکل
03۔ عسکری سیمینٹ لمٹیڈ
04۔ عسکری کمرشل بینک
05۔ عسکری جنرل انشورنس کمپنی لمٹیڈ
06۔ عسکری لیزنگ لمیٹیڈ
07۔ عسکری لبریکینٹس لمیٹڈ
08۔ آرمی شوگر ملز بدین
09۔ آرمی ویلفیئر شو پروجیکٹ
10۔ آرمی ویلفیئر وولن ملز لاہور
11۔ آرمی ویلفیئر ہوزری پروجیکٹ
12۔ آرمی ویلفیئیر رائس لاہور
13۔ آرمی اسٹینڈ فارم پروبائباد
14۔ آرمی اسٹینڈ فارم بائل گنج
15۔ آرمی فارم رکبائکنتھ
16۔ آرمی فارم کھوسکی بدین
17۔ رئیل اسٹیٹ لاہور
18۔ رئیل اسٹیٹ روالپنڈی
19۔ رئیل اسٹیٹ کراچی
20۔ رئیل اسٹیٹ پشاور
21۔ آرمی ویلفیر ٹرسٹ پلازہ راولپنڈی
22۔ الغازی ٹریولز
23۔ سروسز ٹریولز راولپنڈی
24۔ لیزن آفس کراچی
25۔ لیزن آفس لاہور
26۔ آرمی ویلفیئر ٹرسٹ کمرشل مارکیٹ پروجیکٹ
27۔ عسکری انفارمیشن سروس

فوجی فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:

01۔ فوجی شوگر ملز ٹنڈو محمد خان
02۔ فوجی شوگر ملز بدین
03۔ فوجی شوگر ملز سانگلاہل
04۔ فوجی شوگر ملز کین اینڈیس فارم
05۔ فوجی سیریلز
06۔ فوجی کارن فلیکس
07۔ فوجی پولی پروپائلین پروڈکٹس
08۔ فاؤنڈیشن گیس کمپنی
09۔ فوجی فرٹیلائیزر کمپنی صادق آباد ڈہرکی
10۔ فوجی فرٹیلائیزر انسٹیٹیوٹ
11۔ نیشنل آئڈنٹٹی کارڈ پروجیکٹ
12۔ فاؤنڈیشن میڈیک کالج
13۔ فوجی کبیر والا پاور کمپنی
14۔ فوجی گارڈن فرٹیلائیزر گھگھر پھاٹک کراچی
15۔ فوجی سیکیورٹی کمپنی لمیٹڈ

شاہین فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:

01۔ شاہین انٹرنیشنل
02۔ شاہین کارگو
03۔ شاہین ایئرپورٹ سروسز
04۔ شاہین ایئرویز
05۔ شاہین کامپلیکس
06۔ شاہین پی ٹی وی
07۔ شاہین انفارمیشن اور ٹیکنالوجی سسٹم

بحریہ فاؤنڈیشن کے پروجیکٹس:

01۔ بحریہ یونیورسٹی
02۔ فلاحی ٹریڈنگ ایجنسی
03۔ بحریہ ٹریول ایجنسی
04۔ بحریہ کنسٹرکشن
05۔ بحریہ پینٹس
06۔ بحریہ ڈیپ سی فشنگ
07۔ بحریہ کامپلیکس
08۔ بحریہ ہاوسنگ
09۔ بحریہ ڈریجنگ
10۔ بحریہ بیکری
11۔ بحریہ شپنگ
12۔ بحریہ کوسٹل سروس
13۔ بحریہ کیٹرنگ اینڈ ڈیکوریشن سروس
14۔ بحریہ فارمنگ
15۔ بحریہ ہولڈنگ
16۔ بحریہ شپ بریکنگ
17۔ بحریہ ہاربر سروسز
18۔ بحریہ ڈائیونگ اینڈ سالویج انٹرنیشنل
19۔ بحریہ فاؤنڈیشن کالج بہاولپور

پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں موجود کنٹونمنٹ ایریاز،ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹیز،عسکری ہاؤسنگ پراجیکٹس اور زرعی اراضی اوپر دی گئی لسٹ کے علاوہ ہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پاک فوج کے تحت چلنے والے کاروباری ادارے،خسارے،کرپشن اور بدانتظامی میں پاکستان کے سٹیل مل اور پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) سمیت کسی سرکاری ادارے سے پیچھے نہیں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ اِن کا خسارہ کم دکھانے کا طریقہ اندرونِ مُلک اور بیرونِ مُلک سے لیے ہُوئے قرضوں کو ایکُوئیٹی دکھا کر بیلنس شیٹ بہتر دکھانے کا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ آج کی تاریخ میں بھی خسارے میں ہیں۔
یہ ایک ٹرینڈ ہے جو پچھلے 30 سال میں بار بار ریپیٹ ہوتا ہے اور ہر آڈٹ سے پہلے گورنمنٹ سے بیل آؤٹ پیکج نہ لیا جائے یا اندرونی و بیرونی قرضے نہ ہوں تو خسارہ ہر سال اربوں تک پہنچا کرے۔ لیکن ہر گورنمنٹ خود ان کو بیل آؤٹ پیکج دینے پر مجبور ہوجاتی ہے اور جوحکومت بیل آؤٹ پیکج دینے میں تامل کرے تو وہ حکومت گرادی جاتی ہے۔
سول حکومتوں کو دفاعی بجٹ کے بعد آرمی کے کاروباروں کو ملینز آف ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج بھی دینے پڑتے ہیں۔ ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشنز بھی سول بجٹ سے ادا کی جاتی ہیں۔ پھر بیرونی قرضے اور اُنکا سُود وغیرہ ادا کر کے حکومت کے پاس جی ڈی پی کا کم و بیش 40% بچتا ہے پھر خسارہ پُورا کرنے اور ملک چلانے اور اگلے سال کے اخراجات کے لیے نیا قرض لیا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا چکروی ہے جس میں پاکستانی قوم آہستہ آہستہ ایسا پھنستاچلا جا رہا ہے اور ہر گُزرتا سال پچھلے سال سے مُشکل ہوتا جا رہا ہے

09/11/2022

https://www.tohed.com/%d9%86%d9%88%d9%85%d9%88%d9%84%d9%88%d8%af-%da%a9%db%92-%da%a9%d8%a7%d9%86-%d9%85%db%8c%da%ba-%d8%a7%d8%b0%d8%a7%d9%86-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d8%a7%d9%82%d8%a7%d9%85%d8%aa-%da%a9%db%81%d9%86%d8%a7/

نومولود کے کان میں اذان اور اقامت کہنا دانیال احمد November 27, 2019 ضعیف، موضوع، غیر ثابت مسائل 0 Comments تحریر: الشیخ مبشر احمد ربانی حفظ اللہ سوال : مسلمان اپنے نومولود کے دائ....

https://www.tohed.com/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81%D8%8C-%D8%A7%D9%85%D8%A7...
09/11/2022

https://www.tohed.com/%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%D8%A7%D8%A8%D9%88%D8%AD%D9%86%DB%8C%D9%81%DB%81%D8%8C-%D8%A7%D9%85%D8%A7%D9%85-%DB%8C%D8%AD%DB%8C%D9%B0%DB%8C-%DA%A9%DB%8C-%D9%86%D8%B8%D8%B1-%D9%85%DB%8C%DA%BA/

امام ابو حنیفہ، امام یحییٰ بن معین کی نظر میں دانیال احمد September 22, 2015 مناقب و فضائل 2 Comments تحریر: غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری امام الجرح والتعدیل یحیٰی بن معین رحمہ الله (2...

ڈاکٹر فیض احمد چشتی سنی حنفی بریلوی عالم ہیں انہوں نے شیعہ حضرات کی دکانداری بند کر کے رکھ دی  بنو امیہ اور بنو ہاشم کے ...
03/11/2022

ڈاکٹر فیض احمد چشتی
سنی حنفی بریلوی عالم ہیں انہوں نے شیعہ حضرات کی دکانداری بند کر کے رکھ دی

بنو امیہ اور بنو ہاشم کے تعلقات و رشتہ داریاں حصہ اول

محترم قارئینِ کرام : آج کل روافض اور ان کے ہمنوا تفضیلی نیم رافضی چند شرپسندوں باتوں کو لے کر تمام بنی امیہ کو برا بھلا کہتے ہیں فقیر کافی عرصہ سے سوچ رہا تھا کہ اس پر کچھ لکھا جاۓ مگر کم علمی آڑے جاتی اب فقیر کوشش کر کے کچھ لکھا ہے اہلِ علم اس طرف توجہ فرماٸیں تاکہ شرپسندوں کے فتنہ سے سیدھے سادھے مسلمانانِ اہلسنت کو بچایا جاۓ ۔ اہلِ علم کی خدمت میں مٶدبانہ التجا ہے کہیں غلطی پاٸیں تو از راہِ کرم اصلاح فرادیں جزاکم اللہ خیرا آمین ۔

امیہ اور ہاشم دونوں کوئی غیر نہیں بلکہ چچا بھتیجے تھے اور ایک ہی خاندان کے چشم و چراغ تھے ۔

عبد مناف سے

1-عبدالشمس 2- ہاشم، تھے

آگے عبد الشمس سے امیہ

اور ہاشم سے عبدالمطلب تھے،

پھر امیہ سے آگے عرب اور ابو العاص تھے

1_عرب⁦⬅️⁩ابو سفیان- معاویہ-یزید

2_ابو العاص⁦⬅️⁩-حکم -عفان

اور پھر عفان سے عثمان اور حکم سے مروان ،عبدالملک، اور انہی سے بنو امیہ کے اکثر خلفاء تھے ۔

اور عبدالمطب کے خاندان سے آگے عبداللہ ،ابو طالب اور عباس تھے ۔

1_عبداللہ رضی اللہ عنہ ⁦⬅️⁩ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم

2_ابوطالب⁦⬅️⁩ علی ، حسن و حسین

3_عباس⁦⬅️⁩عبداللہ، عبیداللہ -علی، اور انہی سے بنو عباس کے خلفاء تھے)

بنو هاشم اور بنو امیہ كے درمیان ازدواجی روابط كا آغاز عہد جاہلیت میں تقریباً چھٹی صدی عیسوی كے وسط سے ہوا اور عہد عباسی تک یعنی نویں صدی عیسوی كے وسط تک برابر اس كی مثالیں ملتی رہیں ۔ موجوده مطالعہ میں اس طرح اسلامی معاشرتی تاریخ كے پانچ ادوار عہد جاهلیت ، عہد نبوی ، خلافت راشده ، بنی امیہ اور دولت بنی عباس میں ان دونوں خاندانوں كے درمیان قائم ہونے والے ازدواجی روابط كی تاریخی تحقیق ہے جو بہت اہم دلچسپ اور فكر انگیز ہے ۔

هاشم بن عبد مناف (تقریبا ۱۰۲۔۱۴۷قبل هجری مطابق ۸۴۰۔۵۲۴ عیسوی) اور بنوامیہ كے جد امجد عبد شمس (تقریباً ۱۰۵۔۱۵۵ھ مطابق ۴۷۶۔ ۵۶۷ عیسوی ) كے فرزندوں اور دختروں میں كوئی ازدواجی تعلق نہیں ہوا تھا (زبیری كتاب نسب قریش، مرتبہ لیفی بروفنال ، مصر ۱۹۵۳ءص۱۵،۱۷،۹۷) البتہ بعد كی پیڑھی میں اس كا پہلا ثبوت ملتاہے ۔

عبد المطلب كی بڑی صاحبزادی ام حكیم بیضاء كا عقد اموی خاندان كے ایك ممتاز فرد كرزبن ربیعہ سے ہوا تھا ۔ (زبیری ، ص۱۸)

عبد المطلب كی دوسری بیٹی سیده صفیہ كا پہلا عقد حرب بن امیہ كے بیٹے حارث سے ہوا تھا ۔ (ابن سعد الطبقات الكبری بیروت ۱۹۵۸ء ہشتم ص ۴۵)

عبد المطلب كی تیسری بیٹی امیمہ كا عقد اموی خاندان كے ایك حلیف جحش بن رئاب اسدی سے ہوا تھا ۔ (زبیری ص ۹۱)

یہاں یہ امر ملحوظ ہے کہ عرب كے قبائلی سماج میں حلیف اسی خاندان كا ركن شمار ہوتا تھا ۔ عبد المطلب كے ایك صاحبزادے ابو لہب كا عقد حرب بن امیہ كی بیٹی ام جمیل سے ہوا تھا ۔( زبیری ص ۸۹،چشتی)

نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اسلام سے قبل اپنی صاحبزادی سیده زینب كا عقد ابو العاص اموی سے كیا۔ (طبقات ابن سعد ہشتم ۲۶۔۳۰)

نبی كریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی دوسری بیٹی سیده رقیہ كا دوسرا عقد سیدنا عثمان بن عفان اموی كے ساتھ ہوا ۔ (زبیری ص ۲۲)

سیده رقیہ كے انتقال كے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایك اور بیٹی سیده ام كلثوم بھی سیدنا عثمان بن عفان كے حبالہ نكاح میں آئیں ۔ رض اللہ عنہم ۔ (طبقات ابن سعد صفحہ ۳۸)

خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كی ایک شادی ابو سفیان بن حرب اموی كی صاحبزادی سیده ام حبیبہ سے ہوئی ۔ (تاریخ طبری دوم ۱۵۳۔۱۵۴)

بنو هاشم كے ایک اور فرد حارث بن نوفل بن حارث بن عبد المطلب نے ابو سفیان كی دوسری دختر ہند سے عقد كیا تھا ۔ (احمد بن یحیی بلا ذری،انساب الاشراف ، مرتبہ محمد حمید اللہ قاهره ۱۹۵۹ء اول ۴۴۰)

سیدنا علی رضی اللہ عنہ كے بڑے بھائی عقیل بن ابی طالب هاشمی كا عقد ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی بیٹی فاطمہ سے ہوا تھا ۔ (واقدی، كتاب المغازی ، مارسدن جونس ، آكسفورڈ ۱۹۶۶ء صفحہ ۹۱۸،چشتی)

سیدنا زید بن حارثہ مولی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم كا نكاح خاندان بنو امیہ كی ایك معزز خاتون ام كلثوم بنت عتبہ بن ابی معیط اموی سے ہوا ۔ (طبقات ابن سعد ہشتم صفحہ نمبر ۲۳۰)

سیدنا عقیل رض اللہ عنہ بن ابی طالب كا ایک عقد ان كی پهلی بیوی فاطمہ بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ كی ہم نام پھوپھی فاطمہ بنت عتبہ سے ہوا تھا ۔ (طبقات ابن سعد چهارم ص ۲۳)

بنو امیہ اور بنو ہاشم کے سبھی لوگ ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ عربوں میں جلد شادیوں کی وجہ سے یہ کیفیت ہو جاتی تھی کہ کبھی چچا بھتیجا ہم عمر ہوتے تھے اور کبھی بھتیجا چچا سے زیادہ عمر کا ہوا کرتا تھا ، یہ بات تو واضح ہے کہ حضرات عثمان، علی اور معاویہ رضی اللہ عنہم سبھی ایک دوسرے کے کزن تھے ۔ فرق صرف یہ تھا کہ کسی کا رشتہ قریب کا تھا اور کسی کا دور کا لیکن ان رشتوں کو مزید قربت اس طرح ملی کہ ان حضرات نے آپس میں ایک دوسرے کی اولادوں سے اپنی بیٹیوں کے رشتے کیے ۔

بنو امیہ کے السابقون الاولون صحابہ میں حضرت عثمان ، ام حبیبہ ، خالد بن سعید ، عمرو بن سعید رضی اللہ عنہم کا نام پیش کیا جا سکتا ہے ۔ ان میں سے بہت سے حضرات نے حبشہ ہجرت کی ۔ اگر بنو امیہ اور بنو ہاشم میں دشمنی ہوتی تو بنو امیہ کے اتنے لوگ ایک ہاشمی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان نہ لاتے ۔

أم محمد بنت عبدالله بن جعفر بن أبي طالب إبن عبدالمطلب بن هاشم ۔ یزید بن معاویہ کی بیوی عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی بیٹی تھی ، عبداللہ بن جعفر جو جعفر بن ابی طالب کے بیٹے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چاچا زاد بھائی تھے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جن لوگوں کو عہدے دیے ، وہ زیادہ تر بنو امیہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ فتح مکہ کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مکہ کا گورنر بھی ایک اموی نوجوان حضرت عتاب بن اسید رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا ۔ حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کو نجران اور ان کے بیٹے یزید کو تیماء کا گورنر مقرر فرمایا ۔ حضرات ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما ، جو ان دونوں خانوادوں سے ہٹ کر بالترتیب بنو تیم اور بنو عدی (قریش کے دیگر خاندان) سے تعلق رکھتے تھے ، نے بھی بنو امیہ کے لوگوں کو زیادہ عہدے دیے ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنے ان اموی صحابہ رضی اللہ عنہم پر کامل اعتماد تھا ۔ بنو امیہ کو زیادہ عہدے دینے کی وجہ یہی تھی کہ ان کے خاندان میں ایڈمنسٹریشن کا ٹیلنٹ پایا جاتا تھا ۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 130 برس تک عالمِ اسلام پر بہترین انداز میں حکومت کی اور کوئی فتنہ و فساد نہ پھیلنے دیا ۔ پھر جب بنو عباس نے ان کی حکومت کا خاتمہ کیا تو اسپین میں یہی بنو امیہ مزید 300 سال تک حکومت کرتے رہے ۔

بنو امیہ اور بنو ہاشم میں باہمی محبت کا سب سے بڑا ثبوت بنو امیہ کے دور کے اوائل میں بنو ہاشم کا طرز عمل ہے : حضرت علی (ہاشمی) حضرت عثمان (اموی) رضی اللہ عنہما کے دست راست رہے اور باغیوں کے خلاف ان کا بھرپور ساتھ دیا ۔

حضرت امام حسن (ہاشمی) حضرت معاویہ (اموی) رضی اللہ عنہما کے حق میں دستبردار ہو گئے ۔ تمام بنو ہاشم نے ان کی بیعت کی ۔

حضرت عبداللہ بن عباس (ہاشمی) رضی اللہ عنہما نے عبد الملک بن مروان (اموی) کی بیعت کی اور اس پر اپنے آخری دم تک قائم رہے ۔

حضرت امام زین العابدین (ہاشمی) رضی اللہ عنہ نے پانچ اموی خلفاء یزید ، مروان ، عبدالملک ، ولید اور سلیمان کا زمانہ پایا اور ان سب کے ساتھ ان کے بہترین تعلقات رہے ۔ یہی طرز عمل ان کے بیٹوں اور پوتوں میں منتقل ہوا جن میں حضرت امام محمد باقر اور امام جعفر صادق رضی اللہ عنہما نمایاں ہیں ۔

متعصب رافضی مٶرخین ابو مخنف اور ہشام کلبی نے بنو امیہ اور بنو ہاشم کے اختلافات کو بھی بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے حالانکہ خود انہیں کی روایتیں اس کی تردید کرتی ہیں ۔ چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

متعصب راویوں کے مطابق حضرت ابوبکر کی بیعت کے موقع پر حضرت ابو سفیان (بنو امیہ) نے حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہم کو خلافت کا دعوی کرنے کی ترغیب دی تھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں اس سے سختی سے منع کر دیا تھا ۔

حضرت عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی؟ انہوں نے جواب دیا : علی (بنو ہاشم)کے حق میں ۔ اسی طرح حضرت علی (بنو ہاشم) رضی اللہ عنہ سے یہی سوال کیا گیا کہ اگر آپ کو خلیفہ نہ بنایا جائے تو آپ کی رائے کس کے حق میں ہو گی ؟ انہوں نے جواب دیا: عثمان (بنو امیہ) رضی اللہ عنہ کے حق میں ۔

حضرت امام حسن (بنو ہاشم) حضرت معاویہ (بنو امیہ) رضی اللہ عنہما کے حق میں خلافت سے دستبردار ہوئے ۔ حضرت معاویہ اپنے پورے دور خلافت میں حضرات امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہم کے ساتھ بہترین سلوک کرتے رہے ۔

اموی افواج جب حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ کی جاگیر کے پاس سے گزریں تو انہوں نے انہیں چارہ پانی فراہم کیا ۔ (تاریخ طبری 4/1-268،چشتی)

حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی بنو امیہ کے بارے میں کیا رائے تھی ، ملاحظہ فرمائیے :

أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا معمر بن أيوب عن ابن سيرين : امام ابن سیرین علیہ الرحمہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے علی رضی اللہ عنہ سے پوچھا : مجھے قریش کے بارے میں بتائیے ؟ فرمایا : ہم میں سب سے زیادہ صاحب عقل اور صاحب تحمل ، ہمارے بھائی بنو امیہ ہیں اور بنو ہاشم جنگ کے وقت سب سے بہادر ہیں اور جو ان کی ملکیت ہو ، اس میں سب سے زیادہ سخی ہیں ۔ قریش کا پھول بنو مغیرہ ہیں جس سے ہم خوشبو حاصل کرتے ہیں ۔ (عبد الرزاق۔ المصنف۔ روایت نمبر 9768، 5/451۔ بیروت: مکتب اسلامی،چشتی)

اس تفصیل سے معلوم ہوتا ہے کہ بنو امیہ اور بنو ہاشم کے مابین عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی اختلافات نہ تھے ۔

عہدِ جاہلیت میں نبی کرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے دادا عبدالمطلب نے اپنی دو بیٹیاں جنابہ صفیہ بنت عبدالمطلب اور جنابہ ام حکم کی شادیاں بنوامیہ میں حارث بن حرب اور کریز بن ربیعہ سے کیں ۔ یہ حارث بن حرب سیدنا ابوسفیان بن حرب کے بھائی تھے ۔ یوں سیدنا معاویہ بن ابو سفیان کی ایک چچی نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی پھوپھی تھی ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۱۸-۱۹، طبقات ابن سعد، جلد ہشتم صفحہ ۴۱-۴۶، انساب الاشراف جلد اول صفحہ ۸۸-۹۰،چشتی)

اسی طرح جناب عبدالمطلب نے اپنے ایک بیٹے ابو لہب بن عبدالمطلب کی شادی بنو امیہ میں اُمِ جمیل بنت حرب سے کی تھی جو کہ سیدنا ابو سفیان کی بہن تھی ۔ یہی یہ وہی ابو لہب ہاشمی اور امِ جمیل اموی ہیں جن کو سورۃ لہب میں جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۸۹، طبقات ابن سعد جلد چہارم صفحہ ۵۹)

اس ابو لہب کے مسلمان پڑ پوتے فضل بن عباس بن عتبہ بن ابو الہب کو اپنی اس ننھیالی اموی نسبت پر اس قدر فخر تھا کہ انہوں نے باقاعدہ اپنے اشعار میں اپنی اس نسبت کا یہ کہہ کر فخریہ تذکرہ کیا ہے کہ :

عبدشمس ابی ، فان کنتِ غضبی

فاملئی وجھک الجمیل خموشا ۔ (طبقات فحول الشعراء صفحہ ۶۲)

عربوں میں ایک دستور ندیمی اور دوستی کا ہوتا تھا جس میں دو خاندانوں کے بڑے آپس میں گہرے ندیم و دوست ہوتے تھے ۔ ایسی ہی ایک دوستی سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہما اور سدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے درمیان بھی تھی ، اسی وجہ سے فتح مکہ سے ایک دن قبل سیدنا عباس بن عبدالمطلب سیدنا ابو سفیان رضی اللہ عنہم کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا کر بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم میں قبولِ اسلام کے لئے لے گئے تھے ۔ (کتاب المحبر صفحہ۱۷۴)

اسی طرح انہیں ابو سفیان بن حرب کے بھائی حارث بن حرب اور انہیں عباس بن عبدالمطلب کے بھائی حارث بن عبدالمطلب بھی آپس میں گہرے دوست اور ندیم تھے ۔ حارث بن حرب کے انتقال کے بعد حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا زبیر کے والد اور سیدہ خدیجہ کے بھائی عوام بن خویلد اسدی سے رشتہ منادمت قائم کرلیا تھا ۔ (کتاب المحبر صفحہ ۱۷۷) (رضی اللہ عنہم)

بعینہٖ اسی طور سے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ اموی کی مذکورہ بالا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جناب ربیعہ بن حارث رضی اللہ عنہم ہاشمی سے اسلام سے قبل سے لیکر عہدِ عثمانی تک گہری دوستی اور منادمت تھی ۔ (انساب الاشراف جلد ۵ صفحہ ۳۹)

عہدِ جاہلیت میں حارث بن نوفل بن حارث بن عبدالمطلب نے سیدنا ابو سفیان کی ایک صاحبزادی جنابہ ہند بنت ابو سفیان سے نکاح کیا تھا ۔ یہ ہند ام المومنین سیدہ امِ حبیبہ کی بہن تھیں ۔ (رضی اللہ عنہم) (انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ۴۴،چشتی)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی سب سے بڑی صاحبزادی سیدہ زینب بنت محمد کا نکاح اپنے اموی خالہ زاد بھائی سیدنا ابو العاص بن ربیع سے قبلِ اسلام ہی ہوا تھا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے بعد ہجرت بھی برقرار رکھا اور اسی نکاح کے تحت سیدہ زینب کو سیدنا ابو العاص کے پاس واپس لوٹا دیا تھا ۔ (رضی اللہ عنہم) (طبری جلد دوم صفحہ ۴۷۲،چشتی)

بعثت کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے اپنی دو صاحبزادیوں سیدہ رقیہ اور سیدہ امِ کلثوم کا نکاح یکے بعد دیگرے سیدنا عثمان بن عفان اموی رضی اللہ عنہم سے کیا اور یہاں تک فرمایا کہ اگر میری دس لڑکیاں بھی ہوتی تو میں ان کو ایک کے بعد عثمان کی زوجیت میں دے دیتا ۔ (طبری و ابن سعد : قصہ مشہورۃ)

نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے سب بڑے اموی داماد سیدنا ابو العاص بن ربیع کا جب انتقال ہونے لگا تو انہوں نے سیدنا زبیر بن العوام کو اپنا وصی بنایا اور اپنی بیٹی امامہ بنت ابو العاص کی بابت ان کو تاکید کی کہ ان کا کسی اچھے خاندان میں رشتہ کردیں ۔ اسی اثناء میں سیدہ فاطمہ کا انتقال بھی ہوگیا ۔ سیدنا زبیر بن العوام نے اپنا حقِ ولایت استعمال کرتے ہوئے تو امامہ بنت ابو العاص اموی کا نکاح سیدنا علی رضی اللہ عنہم ہاشمی سے کردیا ۔ (مصعب زبیری صفحہ ۲۲)(طبقات ابن سعد جلد ۶ صفحہ ۲۳۳،چشتی)(انساب الاشراف جلد ۱ صفحہ ۴۰۰)

سیدنا علی کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہمما مروان بن الحکم کے فرزند معاویہ بن مروان کو بیاہی تھی جو کہ خلیفہ عبدالملک بن مروان کے حقیقی بھائی تھے ۔ (جمہرۃ الانساب ابن حزم، ص ۸۰)

اسی طرح سیدنا مولا علی رضی اللہ عن کی دوسری صاحبزادی انہی مروان بن الحکم کے بیٹے عبدالملک بن مروان جو کہ خلیفہ تھے اپنے زمانہ میں ان کو بیاہی تھی ۔ (البدایہ و النہایہ ج ۹، ص ۶۹،چشتی)

حضرت مولا سیدنا علی کی تیسری صاحبزادی خدیجہ بنت علی رضی اللہ عنہم امیر عامر بن کریز اموی کے فرزند عبدالرحمٰن بن عامر اموی کو بیاہی گئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۶۸)

اسی طرح حضرت سیدنا مولا علی کے بڑے بیٹے سیدنا امام حسن کی ایک نہیں بلکہ 6 پوتیاں اموی خاندان میں بیاہی گئی تھیں رضی اللہ عنہم ۔

سیدہ نفسیہ بنت زید بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی خلیفہ ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی ۔ (عمدۃ الطالب صفحہ ۴۴)

ان حضرت نفسیہ کی چچا زاد بہن زینب بنت حسن مثنیٰ بن حسن رضی اللہ عنہم کی شادی بھی ولید بن عبدالملک بن مروان سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۶،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی تیسری پوتی ام قاسم بنت حسن مثنیٰ بن حسن کی شادی سیدنا عثمان کے پوتے مروان بن ابان بن عثمان سے ہوئی ۔ مروان بن عثمان کے انتقال کے بعد یہ ام قاسم علی بن حسین (زین العابدین) رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۳۷)

حضرت سیدنا امام حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی چوتھی پوتی مروان کے ایک فرزند معاویہ بن مروان بن الحکم کے عقد میں آئیں جن کے بطن سے حسن کے اموی نواسہ ولید بن معاویہ متولد ہوئے ۔(جمہرۃ الانساب ص ۸۰، ۱۰۰)

سیدنا امام حسن بن علی کی پانچویں پوتی حمادہ بنت حسن مثنیٰ رضی اللہ عنہم ۔ مروان کے ایک بھتیجے کے فرزند ، اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم کو بیاہی گئی تھیں ۔ (جمرۃالانساب ص ۱۰۰)

حضرت سیدنا امام حسن کی چھٹی پوتی خدیجہ بنت الحسین بن حسن بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی بھی اپنی چچیری بہن حمادہ کے نکاح سے پہلے اسماعیل بن عبدالملک بن الحارث بن الحکم سے ہوئی تھی جن کے بطن سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے چار اموی نواسے محمد الاکبر و حسین و اسحٰق و مسلمہ پیدا ہوئے ۔ ( جمہرۃ الانساب ص ۱۰۰)

حضرت سیدنا امام حسن بن علی کی طرح حضرت سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہم کے گھر کی خواتین بھی کثرت سے بنو امیہ میں بیاہی گئی تھیں ۔

حضرت سیدنا امام حسین بن علی کی صاحبزادی سکینہ نے اپنے شوہر مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہم کے شہید ہوجانے کے بعد مروان کے پوتے الاصبغ بن عبدالعزیز بن مروان سے نکاح کیا جو کہ اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے بھائی تھے ۔ ان الاصبغ کی دوسری بیوی یزید بن معاویہ کی بیٹی ام یزید تھیں ۔ (کتاب نسب قریش صفحہ ۵۹،چشتی)(المعارف ابن قیتبہ صفحہ ۹۴)

حضرت سکینہ بنت امام حسین کا ایک اور نکاح عثمان بن عفان کے پوتے زید بن عمرہ بن عثمان اموی (رضی اللہ عنہم) سے ہوا تھا ، بعد میں ان سے علحیدگی ہوگئی تھی ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ نمبر ۹۳)(جمہرۃ الانساب صفحہ نمبر ۷۹)

حضرت سیدنا امام حسین کی نواسی ربیحہ بنت سکینہ جو ان کے شوہر عبداللہ بن عثمان بن عبداللہ بن حکیم رضی اللہ عنہم سے تھیں ، مروان کے پڑپوتے العباس بن ولید بن عبدالملک بن مروان کو بیاہی تھیں ۔ (کتاب نسب قریش مصعب زبیری صفحہ ۵۹)

حضرت سیدنا امام حسین کی دوسری صاحبزادی سیدہ فاطمہ کا نکاح ثانی اپنے شوہر حسن مثنیٰ کے بعد اموی خاندان میں عبداللہ بن عمرو بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوا ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۶)

حضرت سیدنا امام حسین کے ایک پڑپوتے حسن بن حسین بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی خاندان میں خلیدہ بنت مروان بن عنبسہ بن سعد بن العاص بن امیہ سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۷۵)

حضرت سیدنا امام حسین کے ایک اور پڑ پوتے اسحٰق بن عبداللہ بن علی بن حسین رضی اللہ عنہم کی شادی اموی و عثمانی خاندان میں عائشہ بنت عمر بن عاصم بن عثمان ذی النورین رضی اللہ عنہم سے ہوئی تھی ۔ (جمہرۃ الانساب ص ۴۷)

اس کے علاوہ بنو ہاشم و بنو امیہ میں دیگر رشتہ داریاں بھی ہوتی رہیں جیسا کہ :

حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے بھائی عباس بن علی کی پوتی نفیسہ بنت عبیداللہ بن عباس بن علی رضی اللہ عنہم کی شادی یزید بن معاویہ کے پوتے عبداللہ بن خالد بن یزید سے ہوئی ۔ (جمہرۃا لانساب صفحہ ۱۰۳)(کتاب نسب قریش صفحہ ۷۹)

حضرت سیدنا مولا علی کے بھتیجے محمد بن جعفر طیار رضی اللہ عنہم بن ابی طالب کی صاحبزادی رملہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مروان کے پڑ پوتے سلیمان بن خلیفہ ہشام بن خلیفہ عبدالملک بن خلیفہ مروان سے ہوا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد ان ہاشمیہ خاتون کا نکاح ثانی ابو سفیان بن حرب کے پڑ پوتے ابو القاسم بن ولید بن عتبہ بن ابو سفیان سے ہوا تھا ۔ ان ابو القاسم بن ولید کی والدہ لبابہ بنت عبیداللہ بن عباس بن عبدالمطلب یعنی حسین بن علی کی رشتہ میں چچیری بہن تھیں اور ان کے اموی شوہر ولید بن عتبہ بن ابو سفیان امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہم کے بھتیجے تھے ۔ (جمہرۃ الانساب صفحہ ۱۰۲،چشتی)

حضرت سیدنا امام حسین کی بھانجی ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر طیار جو کہ زینب بنت علی کے بطن سے تھیں ، اول اپنے چچا زاد قاسم بن محمد بن جعفر رضی اللہ عنہم کے عقد میں آئیں ۔ ان کے بعد ان کا نکاح ثانی اموی گورنر حجاج بن یوسف ثقفی سے ہوا جن سے ایک بیٹی ہوئی ، پھر زوجین میں علحیدگی ہوگئی ۔ ان کا تیسرا نکاح اموی خاندان میں عثمان کے فرزند ابان بن عثمان سے ہوا یعنی یہ ام کلثوم عثمان بن عفان رضی اللہ عنہم کی بہو ہوتی تھیں ۔ (المعارف ابن قتیبہ صفحہ ۹۰،چشتی)(جمہرۃ الانساب ص ۶۱، ۱۱۴)

حضرت سیدنا امام حسین بن علی کے حقیقی چچیرے بھائی اور بہنوئی عبداللہ بن جعفر طیار کی دوسری صاحبزادی ام محمد رضی اللہ عنہ کا نکاح یزید بن (معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما) سے ہوا ۔ اس حساب سے یزید بن معاویہ ، اما حسین بن علی کے بھتیج داماد تھے ۔ سیدنا امام حسین بن علی رضی اللہ عنہما کی بہن زینب بنت علی ان ام محمد کی سوتیلی والدہ تھیں اور اس ناطے یزید بن معاویہ سیدہ زینب بنت علی کے داماد تھے ۔

حضرت سیدنا امام حسین بن علی کا ایک نکاح سیدنا معاویہ کی بہن سیدہ میمونہ بنت ابو سفیان کی بیٹی لیلیٰ بنت ابو مّرہ بن عروہ بن مسعود ثقفی سے ہوا تھا ، جن سے جناب علی اکبر رضی اللہ عنہم متولد ہوئے تھے ۔ (مصعب زبیری کتاب نسب قریش صفحہ ۵۷، ۱۲۶)

گویا اس رشتہ سے سیدنا امام حسین سیدنا معاویہ کے بھانجے داماد تھے ۔ ان لیلیٰ کی ایک چچازاد بہن فارعہ بنت ہمام بن عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہم تھیں جو کہ حجاج بن یوسف ثقفی کی والدہ تھیں ۔ یوں سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ حجاج بن یوسف کے خالو لگتے تھے اور حضر علی اکبر رضی اللہ عنہ اور امیر حجاج بن یوسف آپس میں خالہ زاد بھائی تھے ۔

نفيسة بنت عبيدالله بن العباس إبن علي بن أبي طالب بن عبدالمطلب ، حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی پڑپوتی نفیسہ یزید کے پوتے کی بیوی تھی ، جس سے عبداللہ بن خالد کے دو بیٹے علی اور عباس ہوئے ۔ یہ اور اس طرح کی اور بہت سی رشتہ داریاں ہیں جو کہ بنو امیہ و بنو ہاشم میں ہوتی رہیں ، ہم طوالت کے خوف سے انہیں یہاں نقل نہیں کررہے ہیں ۔ ان رشتہ داریوں سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بنی امیہ اور بنی ہاشم کے مابین دشمنی و عداوت کی حکاتیں تو سراسر بے سروپا ہیں ۔ تاہم غور طلب امر یہ ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر مذکورہ بالا تمام رشتہ داریاں واقعہ صفین و کربلا کے بعد کی ہیں ۔ اللہ عز و جل فتنہ ابنِ سبا کے پھیلاۓ شر سے تمام مسلمانوں کو محفوظ رکھے آمین ۔ (مزید حصّہ دوم میں ان شاء اللہ)

سلیم جاوید کے قلم سے  سانحہءکربلاسانحہ کربلا کے ایک فریق یعنی نواسہ رسول کی محبت، جزو ایمان ہونا چاہیئے مگر اس سانحہ کو ...
03/11/2022

سلیم جاوید کے قلم سے

سانحہءکربلا

سانحہ کربلا کے ایک فریق یعنی نواسہ رسول کی محبت، جزو ایمان ہونا چاہیئے مگر اس سانحہ کو اسقدر جذباتی غلو میں لپیٹ دیا گیا کہ آپ جونہی، اس بارے کوئی سوال اٹھاتے ہیں، ہر طرف سے”اتحاد امت“ کے نام پہ زباں بندی کی کوشش شروع ہوجاتی ہے۔

پچھلے دنوں، ایک ایسے قلمکار، جنکاماٹو ہے:”علم کی دنیا جذبات کی دنیا نہیں ہوتی“، انہوں نے واقعہ کربلا کی آڑ میں صحابہ کرام کو رگید کر رکھ دیا۔ میں نے کچھ جواب میں عرض کیا تو فوراً فرمایا”کیا آپ یزیدکی وکالت کرنا چاہتے ہو جس نے رسول کی نسل کو تہہ تیغ کردیا؟ “

عرض کیا، یزید کی وکالت کون بدبخت کررہا لیکن یہ فرمایئے کہ اگر رسول کی نسل تہہ تیغ ہوگئی تھی تو پھر”بارہ امام“ کس کی اولاد ہیں؟بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نسلی دین ہے؟اور یہ بھی کہ کیا کسی کی نسل، بیٹی سے چلتی ہے؟اور یہ بھی کہ باقی بیٹیوں کی اولاد کی کوئی تفصیل؟۔۔۔ایویں ہی جذباتی رنگ بازی۔

کسی بھی واقعہ کو جب غلو سے بیان کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ عقائد پہ اثر پڑے گا ہی۔سانحہ کربلا میں رائی کا پہاڑ بنا یاگیا اور اس میں عوام ہی نہیں، اس امت کے مشاہیر کا بھی خاصا ہاتھ ہے۔مثلا''علامہ اقبال فرماتے ہیں”حقا کہ بنا لاالہ است حسین“ یعنی اسلام کی بنیاد ہی حسین ہیں۔سب کو معلوم ہے کہ عمارت، بنیاد سے شروع ہوتی ہے۔اگر اسلام کی بنیاد امام حسین ہیں تو پھر سرکار دوعالم سے لیکر، انکے والد حضرت علی تک، سب صحابہ کیا تھے؟ اگر وہ لوگ بنیاد نہیں تھے تو بدر و احد میں کس چیز کےلئے خون بہایا گیا؟

اسی طرح،ایک اور معروف مفکر کا مصرعہ ہے:”اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد“۔سوال یہ ہے کہ اسلام”مر“ کب گیا تھا؟ اور زندہ کس طرح ہوا؟ امام حسین کے بعد 200 سال بنو امیہ کی حکومت اپنی پرانی ڈگر پہ چلتی رہی توکیا نئی زندگی مل گئی تھی اسلام کو؟ (سوائے اسکے کہ مسلم امت دو فرقوں میں بٹ گئی )۔

آجکل فیس بک پر ایک مرحوم اہلحدیث عالم(مولانا اسحق بھٹی) کے ویڈیو کلپ شیئر کئے جاتے ہیں اورچونکہ وہ اہل تشیع کو درست ثابت کرتے ہیں لہذا انکو اتحاد امت کا سمبل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔یہی موصوف، ایک ویڈیو میں فرماتے ہیں کہ یزید چھوٹی برائی تھا اور معاویہ اس سے بڑی برائی ۔ ماشاءاللہ۔ یعنی امیر معاویہ کو گالی دینے سے ہی اتحاد امت ممکن ہے؟

بلکہ انہی مولانا اسحق کے ایک ویڈیو کلپ نے، امام حسین کا کردار مشکوک بنا دیا۔اب تک ہم یہ سمجھتے تھے کہ امام حسین، یزید کی ڈکٹیٹر شپ کو چیلنج کرنے نکلے تھے مگر مولانا اسحق تو امام حسین کے ایک خط کے ریفرینس سے بتاتے ہیں کہ وہ امیر معاویہ کے خلاف بھی مسلح کاروائی کرنا چاہتے تھے۔سوال یہ ہے کہ اگر امام حسن نے اہل بیت کی طرف سے امیر معاویہ کو خلیفہ مان لیا تھا اور صلح کرلی تھی تو امام حسین کے طرز عمل کو کیا کہا جائے گا؟چونکہ میں حسین کی ذات کو دوغلا نہیں سمجھ سکتا اسلئے،مولانا اسحاق جیسوں کو انکی تاریخ سمیت، رد کرتا ہوں۔

برسبیل تذکرہ، ایک مغالطہ بڑا عام کیا گیاہے کہ امیر معاویہ نے حضرت علی کے خلاف بغاوت کی تھی۔بھائی ، انہوں نے حضرت علی کی بیعت ہی نہیں کی تو بغاوت کیسے ہوگئی؟

اسلام ایک جمہوری مذہب ہے، وہ آپکو مکمل اجازت دیتا ہے کہ آپ اگر خلیفہ کی بیعت نہیں کرنا چاہتے تو نہ کریں مگراکثریتی قانون کا احترام کرتے ہوئے، سوسائٹی کا امن خراب نہ کریں(یا ہجرت کرجائیں)۔خود حضرت علی نے 6 ماہ تک حضرت ابوبکر کی بیعت نہیں کی تو کیا وہ بغاوت تھی؟ (اب یہ الگ موضوع ہے کہ انہوں نے کیوں نہ کی؟)۔

ہمارے نزدیک، حضرت علی، خلیفہ رابع ہونے کے ہر طرح حقدار ہیں۔اسلئے بھی کہ وہ افضل تھے، اور اس لئے بھی کہ حضرت عمر نے جن 6 آدمیوں کو خلافت کے قابل سمجھا تھا، ان میں سے 3 زندہ تھے۔باقی دو نے خلافت سے معذرت کرلی تھی تو اب حضرت علی کا حق بنتا تھا۔ تاہم حضرت علی کی بیعت نہ کرنا، کفر نہیں تھا۔

امیر معاویہ نے حضرت علی کی بیعت اس لئے نہ کی کہ وہ سمجھتے تھے انکے لشکر میں قاتلان عثمان موجود ہیں، جنکو پہلے سزا دینا ضروری ہے۔جو بات شاید انکو نہیں معلوم تھی، وہ یہ کہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے متقی بزرگ بھی حضرت علی کے لشکر میں شامل تھے جنکی کھوپڑی،عقل سے خالی تھی۔بعد میں انکو خوارج کہا گیاتھا۔(جیسے آجکل، نظام خلافت والے خودکش ” فقہائ“ بھی موجود ہیں) ۔یسے متقی بےوقوفوں کو ڈیل کرنا کتنا مشکل ہوتا ہے؟اسکا آپ اسی سے اندازہ لگائیں کہ آپکے اسلام آباد کی لال مسجد کا ملا بگڑ بیٹھا تو 6 ماہ تک سیاسی وعسکری قیادت کو کو وقت پڑا رہا کہ اس سے کیسے نمٹیں؟

حضرت علی کی سامنے سنجیدہ مشکلات تھیں کہ انکو صرف خلافت نہیں، امت کو بھی سنبھالنا تھا۔

بہرحال، حضرت علی کی شہادت کے بعد، انکے جانشین حضرت امام حسن نے امیرمعاویہ سے صلح کرلی۔کیوں؟ اور کیسے؟ کی تفصیلات چھوڑیئے، واقعہ یہ ہے کہ وہ معاویہ کے حق میں دستبردار ہوگئے۔

اب یہ کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو نامزد کرکے، اسلام میں وراثتی سیاست کی بنیاد رکھی(حالانکہ یہ اس زمانے میں دنیا بھر کا ریاستی دستور تھا۔صرف پہلے تین خلفاءاستثنی تھے۔ آخر حضرت علی کے بعد، حضرت حسن بھی تو انکے بیٹے ہی تھے نا اور وہ یزیدبن معاویہ سے پہلے علی کے جانشین نامزد کئے گئے تھے۔(پاکستان میں وراثتی سیاست کو کفر بنا دیا گیا ہے حالانکہ نبیوں نے اپنے مشن کے لئے، خدا سے وارث مانگا ہے)۔

یزید کیسا آدمی تھا؟ہمیں اسکی تفصیل سے غرض نہیں، مگر، یاد رکھئے کہ یزید کی حکمرانی غیر قانونی نہ تھی۔ جب امام حسن نے، امیر معاویہ سے صلح کا پیکٹ کیا تو اس میں یہ شرط نہیں رکھی تھی کہ آئندہ حکومت 1973 کے آئین کے تحت بنے گی اور الکشن ہونگے۔موقع، دستور اور مصلحت کے مطابق، امیر معاویہ نے اپنے بیٹے کو آئندہ نامزد کردیا اور لوگوں کو اسکی بیعت لینے کو کہا۔چاہے جس طریقے سے بھی بیعت لی گئی(دھن، دھونس، دھاندھلی)مگر اکثریت نے بیعت کرلی تو یزید کی حکومت قانونی ہوگئی۔

جملہ معترضہ عرض ہے کہ شریعت نے خلیفہ یا حکمران چننے کا کوئی حتمی طریقہ مقرر نہیں کیا(اس موضوع پہ خاکسار کا ایک الگ مضمون موجود ہے)۔البتہ یہ عام دستور تھا کہ لوگ، خلیفہ کے ہاتھ پہ بیعت کرتے تھے جو ڈیموکریسی کی طرف مشیر ہے۔

اور یہ بھی واضح ہوکہ امام حسین کا یزید کے خلاف مسلح جدوجہد کرنا بھی” غیر قانونی“ نہ تھا کہ اسوقت کی اپوزیشن کے پاس یہی آپشن ہوتاتھا۔

طوالت کی معذرت مگر اسکی تفصیل میں جانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔

حضرت امام حسین نے یزیدکی بیعت نہیں کی تھی(اور یہ انکا شرعی حق تھا)۔پھر، بحیثیت اپوزیشن، یہ بھی انکا حق تھا کہ جس حکومت کو غلط سمجھتے ہیں، اسکو بدل دیں۔ظاہر ہے کہ اس زمانے میں، حکمران کو بدلنے کا طریقہ، دھرنے اور پہیہ جام نہیں تھا بلکہ مسلح جدوجہد تھی(اور یہی آردڑ آف دی ڈے تھا)۔

اب کیا آپ سمجھتے ہیں امام حسین اتنے سادہ تھے کہ اپنے قبیلے کو ساتھ لئے بغیر، محض 72 عورتوں بچوں کے ساتھ نظام بدلنے کھڑے ہوگئے تھے؟ بات یہ تھی کہ یزیدکو لوگوں نے صرف امن کی قیمت پرقبول کیا تھا۔پھر،عراقی قبائل، شامیوں کے مقابل خود کو سیکنڈ ریٹ شہری سمجھ کر زیادہ دکھی تھے۔کوفہ کے قبائلی سرداروں نے،امام حسین کو خفیہ خطوط لکھے کہ وہ مسلح جدوجہد کے لئے تیار ہیں۔صاف ظاہر ہے کہ امام حسین، مدینہ میں رہ کر، ان خطوط کو پبلک نہیں کرسکتے تھے۔(ایسی مہمات میں رازداری شرط ہوتی ہے لہذا، اپنے خیر خواہوں کو بھی یہ خطوط نہیں دکھا سکتے تھے)۔جن کو دکھائے(ابن عباس) انہوں نے کوفیوں پہ اعتماد نہ کرنے کا مشورہ دیا۔بہرحال، بنی ہاشم نے اسلئے امام کو اکیلے کوفہ جانے دیا کہ وہ اسکو ابتدائی مذاکرات کا سفر سمجھ رہے تھے۔اگر وہ اسکو جنگی مہم سمجھتے تو ضرور امام کے ساتھ جاتے(کس کے خواب و خیال میں ہوگا کہ نبی کے خاندان پہ کوئی ہاتھ اٹھانے کی جرات کرے گا؟)۔

امام صاحب کو کوفہ پہنچ کر، ابن زیاد کی چال سمجھ آگئی تو انہوں نے خون خرابے سے بچنے کی پوری کوشش کی، مگر جنہوں نے یہ جال پھیلایا تھا، وہ انکو کیسے زندہ چھوڑتے؟۔جیسے جنرل ضیاءاور بھٹو بارے کہا جاتا تھا کہ قبر ایک ہے، بندے دو ہیں، ایسے ہی حسین کا زندہ رہ جانا، غداروں کی موت تھی۔

مگر اس بہیمانہ واقعہ کو چھوڑ کر، اہلبیت کے ساتھ کوئی ظلم نہیں کیا گیا، نہ واقعہ کربلا سے پہلے، نہ بعد میں۔حضرت امام زین العابدین(حضرت حسین کے صاحبزادے) کے متعلق روایت ہے کہ انکی وفات کے بعد پتہ چلا، 200 گھرانے ایسے تھے جنکا راشن، وہ رات کو چپکے سے انکے گھر بوری میں پھینک آتے تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انکی یہ دولت، یا تو شاہی وظیفہ تھا یا انکی اپنی جاگیر۔ہر دو صورت میں، انکو پوری معاشی آزادی حاصل تھی۔

امام حسین کے کے بعد، 150 سال بنو امیہ حکومت میں رہے اور اہل تشیع کے امام صاحبان بھی عزت سے مدینہ میں رہے۔صرف امام رضا کو خلیفہ مامون نے زہر دینے کو کوشش کی تھی تو مامون، بنو امیہ سے نہیں تھا بلکہ امام حسین کا ہی کزن تھا(بنو عباس)۔

بہرحال، جو کچھ بھی کہا جائے، لیکن ایک مسلمان کا ضمیر، یزید کو معاف نہیں کرسکتا۔چاہے نواسہ رسول کو یزید کی لاعلمی میں ہی شہید کیا گیا ہو، مگر کم از کم اسکے بعد توذمہ داران کو سزا دینا چاہئے تھا۔یزید نے تو انکو عہدوں سے برطرف تک نہیں کیا۔

بنا بریں، جب لوگ، واقعہ کربلا کو ڈسکس کرتے ہیں تو یزید اور حسین کا تقابل کرتے ہیں، حالانکہ انکا تو آپس میں کوئی جوڑ ہی نہیں بنتا -تقابل تو امام حسن اورامام حسین کی سٹریٹجی کا ہونا چاہیئے،یزید تو ویسے ہی تاریخ کا ایک راندہ درگاہ کردار ہے۔

میرا تو یہ موقف ہے کہ امام حسن کی مفاہمانہ پالیسی، امام حسین کہ جارحانہ پالیسی سے بہتر تھی۔تاہم جو لوگ، امام حسین کی بہادری کے مداح ہیں، وہ بھی اس غلو سے بچیں کہ امام حسین نے ہی اسلام بچایا۔واضح رہے کہ امام حسین کے گھرانے کے تڑپتے بچوں اور ننگے سر بین کرتی عورتوں کا نقشہ کھینچ کر لوگوں کو رلانے والے، یزید کے ظلم سے زیادہ، اہل بیت کی بزدلی کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔

معافی چاہتا ہوں، اگرآپکو”بے لاگ لبرل “تجزیہ کرنا ہے توتاریخ کی عدالت میں معاویہ اور عثمان ہی نہیں بلکہ علی اور حسین کو بھی طلب کیا جائے گا۔پھر”بے لاگ“ تجزیوں کی کالک، حسین کے نانا تک بھی پہنچے گی۔

اب مکدی گل یہ ہے کہ خالص سیکولر حضرات کیلئے تاریخ اسلام پہ تبصرے فرمانے کی کوئی تک نہیں بنتی۔اس لئے کہ جب انکے لئے قرآن و حدیث ہی قابلِ اعتبار نہیں تو ہسٹری بھلا کیسے معیارِ حق و باطل قرار پائی جو خود مسلمانوں کے نزدیک قابل اعتماد نہیں؟

حیرت ہوتی ہے جب لبرل حضرات،امام حسین کی مظلومیت کی آڑ لیکر، اسلام کے خلاف اپنے جی کے پھپھولے پھوڑتے ہیں۔بھائی، اس مسئلہ میں لبرلز کا کوئی لینا دینا بنتا نہیں اس لئے کہ یہ مسلمانوں کے دو مذہبی گروپوں کی لڑائی تھی اور امام حسین کوئی لبرل ایجنڈا لاگوکرنے، میدان میں نہیں اترے تھے۔

رہے ”مسلم سیکولرز“ جو خود کو ”جمہوریت پسند“ قرار دیتے ہیں اور اس ناطے، یزید کی مخالفت اورامام حسین کی حمایت کرتے ہیں تو اصولاًانکا بھی یہاں دخل نہیں بنتا۔کیونکہ وہ یہ موقف رکھتے ہیں کہ ایسے تمام مذہبی ایشوز جو زمانہ حال میں مسلمانوں کے مادی مسائل پہ اثر انداز نہ ہوتے ہوں، انکو ڈسکس کرنا محض وقت کا زیاں ہوتا ہے۔

بہرکیف! خاکسارکاایک موقف ہے کہ تاریخِ اسلام کواپنی اصل روح میں سمجھنا، کسی بے ایمان شخص کے بس کی بات نہیں۔اسلئے کہ سطحی منطق، ان لوگوں کی سٹرٹیجی کو کیسے سمجھ سکتی ہے جو اپنے دشمن کو قتل کرنے،اسکے سینے پہ سوار،خنجر اسکی گردن پہ رکھے ہوں، اورجب دشمن انکے چہرے پر تھوک دے تو وہ یہ کہہ کراسے چھوڑ دیں کہ اب میرا غصہ،اللہ کےلئے نہیں رہا تو میں تمکواپنی ذات کےلئے قتل نہیں کرنا چاہتا؟۔



ابتدائی تاریخ اسلام کو سمجھنے کےلئے، پہلے صحابہ کامزاج سمجھنا ضروری ہے۔پس تاریخِ اسلام سے رغبت رکھنے والوں کونصیحت کرتا ہوں کہ پہلے صحابہ کے زمانہ کے رواج اوراس پاک جماعت کے مجموعی کردار کو سمجھنے،”حیات الصحابہ“ نامی کتاب کا مطالعہ کیجئے۔اس مقبول عام کتاب کی خاصیت یہ ہے کہ مصنف نے اپنی طرف سے کوئی ایک جملہ اس میں نہیں لکھا بلکہ صرف، صحابہ بارے سب میسراحادیث کو مختلف عنوانات میں جمع کرلیاہے اورفیصلہ قاری کے ذہن اورایمان پہ چھوڑ دیا ہے ۔

Address

Islamabad

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ABB News posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share