27/11/2024
بولیورڈ مال حیدرآباد اور حسین خوابوں کا مبینہ فراڈ
عبدالغفور سروہی
حیدرآباد میں واقع بولیورڈ مال، جو اپنی شروعات میں ایک شاندار تجارتی منصوبہ سمجھا جاتا تھا، آج مبینہ فراڈ کا مرکز بن چکا ہے۔ متاثرہ سرمایہ کاروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی بھر کی جمع پونجی اس منصوبے میں لگائی، لیکن آج وہ اپنے حقوق کے لیے سراپا احتجاج ہیں۔
بلند دعوے، خالی ہاتھ:
متاثرین کا الزام ہے کہ بولیورڈ مال کے مالکان، ہمایوں برکت اور دیگر نے سنہرے خواب دکھا کر لوگوں کو سرمایہ کاری پر راغب کیا۔ یہ وعدہ کیا گیا کہ دکانوں کی رجسٹری فراہم کی جائے گی اور ماہانہ کرایہ ادا کیا جائے گا۔ تاہم، متاثرین کے مطابق، یہ تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے۔ نہ انہیں دکانوں کی ملکیت ملی اور نہ ہی کرایہ، جس کی وجہ سے وہ شدید مالی مشکلات کا شکار ہیں۔
اثاثے گروی، حقوق غائب:
سرمایہ کاروں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے گھر، زمینیں اور دیگر اثاثے بیچ کر بولیورڈ مال میں سرمایہ کاری کی، لیکن آج وہ سب کچھ کھو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں مبینہ طور پر دھوکہ دیا گیا، اور ان کی رقم مالکان کی جیبوں میں چلی گئی۔
احتجاج کی شدت:
بولیورڈ مال کے خلاف احتجاج کئی سالوں سے جاری ہے، لیکن حالیہ دنوں میں اس احتجاج نے مزید شدت اختیار کر لی ہے۔ متاثرہ افراد نے بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ اگر ان کے مسائل حل نہ کیے گئے تو وہ مزید سخت اقدامات پر مجبور ہوں گے۔
تحقیقی اداروں کی خاموشی پر سوالات:
احتجاج کرنے والوں کا کہنا ہے کہ بلڈر مافیا کے مبینہ فراڈ پر قانونی ادارے اور تفتیشی محکمے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اداروں کی یہ خاموشی ان کی غفلت کو ظاہر کرتی ہے اور عوام کو بے اعتمادی میں مبتلا کر رہی ہے۔
سرمایہ کاروں نے اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ بولیورڈ مال کے مالکان کے خلاف فوری کارروائی کی جائے اور متاثرہ افراد کو ان کے حقوق واپس دیے جائیں۔
بولیورڈ مال کا مبینہ فراڈ نہ صرف متاثرین کا ذاتی مسئلہ ہے، بلکہ یہ ایک بڑا سماجی مسئلہ ہے۔ اس طرح کے واقعات سے نہ صرف عوام کا اعتماد مجروح ہوتا ہے، بلکہ سرمایہ کاری کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے۔ حکومت اور متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ فوری اقدامات کرتے ہوئے بلڈر مافیا کے خلاف سخت کارروائی کریں اور متاثرہ افراد کو انصاف فراہم کریں۔