26/02/2024
اس ملک میں جب بھی انتہاءپسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں ملوث لوگ ہر بار جاہل ہی نکلتے ہیں۔ مگر ہر واقعے کے ردعمل میں انتہاءپسندوں کی وہ قسم بھی سامنے آجاتی ہے جس کا ہر رکن بزعم خود "ارسطو" ہوتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا تکبر ہی یہ ہوتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں۔مثلا اس بار ایک روشن خیال نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس ملک میں مذہب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ حالانکہ کل رونما ہونے والے واقعے کا سبب یہ نہیں کہ مذہب نے اس کی تلقین کی تھی۔ بلکہ یہ ہے کہ مذہب کا شعور نہ ہونے کے سبب اسے مذہبی تقاضا سمجھ لیا گیا۔ سو مطالبہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس ملک میں مذہب کی تعلیم نصاب کا لازمی حصہ بنائی جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کسی بھی معاملے میں مذہب کا اس کے ماننے والے سے تقاضا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے روشن خیال "اویرنس بڑھاؤ پروگرام" بتاتے ہیں۔
ہم نے جب یہ تجویز پڑھی تو پہلا خیال یہی آیا کہ "پابندی کا آغاز گھر سے" کے اصول پر یہ ہمیں انفرینڈ کرچکے ہوں گے کہ ہمارے پاس تو مذہب کی ہی شناخت ہے۔ مگر جب چیک کیا تو ایسا نہ تھا۔ یوں مجبورا ہم نے خود ہی اپنا بوریا بستر سمیٹا اور ان کی فرینڈلسٹ سے باہر نکل آئے۔ امید کرتے ہیں اب ان کی فرینڈلسٹ میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کریں گے۔
رعایت اللہ فاروقی