Almas Ahmer Journalist

Almas Ahmer Journalist کالم نگاری
سیاحت وثقافت
سیاست
شاعری
ناول
educational journalism
(2)

26/02/2024

اس ملک میں جب بھی انتہاءپسندی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اس میں ملوث لوگ ہر بار جاہل ہی نکلتے ہیں۔ مگر ہر واقعے کے ردعمل میں انتہاءپسندوں کی وہ قسم بھی سامنے آجاتی ہے جس کا ہر رکن بزعم خود "ارسطو" ہوتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا تکبر ہی یہ ہوتا ہے کہ ہم پڑھے لکھے اور روشن خیال ہیں۔مثلا اس بار ایک روشن خیال نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس ملک میں مذہب پر مکمل پابندی لگا دی جائے۔ حالانکہ کل رونما ہونے والے واقعے کا سبب یہ نہیں کہ مذہب نے اس کی تلقین کی تھی۔ بلکہ یہ ہے کہ مذہب کا شعور نہ ہونے کے سبب اسے مذہبی تقاضا سمجھ لیا گیا۔ سو مطالبہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ اس ملک میں مذہب کی تعلیم نصاب کا لازمی حصہ بنائی جائے تاکہ لوگ جان سکیں کہ کسی بھی معاملے میں مذہب کا اس کے ماننے والے سے تقاضا کیا ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے روشن خیال "اویرنس بڑھاؤ پروگرام" بتاتے ہیں۔

ہم نے جب یہ تجویز پڑھی تو پہلا خیال یہی آیا کہ "پابندی کا آغاز گھر سے" کے اصول پر یہ ہمیں انفرینڈ کرچکے ہوں گے کہ ہمارے پاس تو مذہب کی ہی شناخت ہے۔ مگر جب چیک کیا تو ایسا نہ تھا۔ یوں مجبورا ہم نے خود ہی اپنا بوریا بستر سمیٹا اور ان کی فرینڈلسٹ سے باہر نکل آئے۔ امید کرتے ہیں اب ان کی فرینڈلسٹ میں شیر اور بکری ایک ہی گھاٹ سے پانی پیا کریں گے۔
رعایت اللہ فاروقی

26/02/2024

ان بچیوں کو سمجھائیں
ہر موضوع کی طرح جب ہم عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو انتہائی لغو اور فضول قسم کی چیزوں کو اپنی بحث کا حصہ بنا کر نہایت اہم باتوں کا ذکر ہی بھول جاتے ہیں اور لاحاصل قسم کے شور شرابے کے سوا اس پریکٹس سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا

ایک بڑی مصیبت جو میڈیا کے ہر فارمیٹ کے ذریعے خواتین خاص کر نئی بچیوں کو اپنا شکار کررہی ہے وہ انہیں احساس کمتری کا شکار کرنا ہے

اگر کسی بچی کا وزن ذرا سا بھی زیادہ ہو یا پھر اسکی رنگت ہلکی سی بھی سانولی ہو تو اپنی تمام تر تعلیم کے باوجود وہ معاشرتی رویوں کی وجہ سےشدید قسم کی احساس کمتری کا شکار ہوکر تقریبا نفسیاتی ہوجاتی ہے

کسی بھی پراڈکٹ کی کامیاب مارکیٹنگ دو باتوں سے جڑی ہوتی ہے اور وہ کبھی ناکام نہیں ہوتی .ایک امید اور دوسری چیز ہے ڈر

کاسمیٹکس انڈسٹری کا حجم دنیا میں شاید ہتیاروں کے بزنس سے بھی بڑھ کر ہوگا ،ان کی مارکیٹنگ کے لئے ڈرامہ ،فلم ،اخبار ،سوشل میڈیا ہر طرح سے آزاد سورسز ہیں اور کسی قسم کے اخلاقی یا انتباہی قوانین ان کے لئے موجود ہی نہیں

جب ایک ہزار لڑکیوں میں سے آڈیشن کرکے چنی ہوئی ایک گوری لڑکی کو مزید بذریعہ میک اپ اور ایڈیٹنگ کے گورا کرکے یہ اشتہار چلاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ آپ کا رشتہ نہ ہونے کی وجہ آپ کا سانولہ رنگ ہے تو بچیوں کی نفسیات پر اس اشتہار کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس بات سے کسی مفکر ، دانشور، یا پھر قوانین بنوانے والے سیاسی رہنما یا پھر فیشن کے نام پرویلڈنگ گلاسز پہننے والیں فیمنسٹ آنٹیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا

کیا آپ نے کبھی بھی اس حوالے سے میڈیا پر کوئی سنجیدہ بحث دیکھی ہے ؟یا پھر عدالتوں یا پھر پارلمنٹ میں اس موضوع کو دو منٹ کے لئے بھی ڈسکس ہوتے دیکھا ہے ؟

کیا آپ جانتے ہیں کہ پارابینز اور فتھالیٹس جیسے کیمیکلز، جو میک اپ میں عام طور پر پائے جاتے ہیں، ہارمونل عدم توازن کا سبب بن سکتے ہیں اور بانجھ پن کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں ،کبھی سوچیں بھلا حال ہی میں صرف آپ کے اپنے رشتہ داروں میں کتنی بچیاں بانجھ پن کا شکار ہوئی ہیں ؟

خدا کے لئے سائنسی تجربات سے سوفیصد ثابت شدہ یہ حقیقت اپنے تعلیمی نصاب کا حصہ بنائیں کہ میک اپ کی تقریبا تمام معروف پراڈکٹس میں فتھالیٹس، اور سنتھیٹک، جلدی الرجی، ہارمونل عدم توازن اور یہاں تک کہ کینسر جیسی مختلف بیماریوں کا سبب بن سکتے ہیں

اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں کی پوجا سے تھوڑا سا وقت نکال کر اگر ہم کچھ دن سنجیدگی سے اس موضوع کو سوشل میڈیا پر زیر بحث لائیں تو شاید ہم معصوم بچیوں کو اس زہر کے ذریعے مرنے سے بچاسکیں

اور سب سے بڑھ کر ہم انہیں اس احساس کمتری کے دلدل سے نکال سکیں جو ان کے لئے موت سے بھی بدتر ہے

میں دنیا کے بائیس ممالک گھوما ہوں ،خدا کی قسم گوروں سے زیادہ بے نمک لوگ نہیں دیکھے ،صرف گوری چمڑی بھلا کب حسن کا معیار ہوسکتی ہے ،حسن کا معیار تو کسی بھی رنگت کے ساتھ انسان کا اپنی شخصیت کو باوقار انداز میں سنبھال رکھنے اور معاشرتی ادب و آداب سے سلیقہ مند دکھائی دینا ہے

دانتوں کو صاف رکھیں کہ منہ سے بدبو نہ آئے ،پسینہ زیادہ آتا ہو تو کسی اچھی خوشبو کا ستعمال کریں ،بالوں کو اچھے سے ترتیب دیں ،لباس اپنی عمر و شخصیت کے مطابق منتخب کریں ،مسکراہٹ کو اپنے ہونٹوں پر عادت بنالیں ،آپ جہاں بھی ہیں جیسے بھی ہیں بہت اچھے اور پیارے ہیں ،خود سے پیار کریں دنیا آپ سے محبت کرے گی جب آپ خود سات تہوں کا میک اپ کرکے اپنی شخصیت پر نقاب اوڑھ لیتی ہیں تو لوگوں نے آپ سے نہیں اس چہرے سے ہی پیار کرنا ہے جو انہیں دکھائی دیتا ہے اور پھر صرف تب تک ہی کرنا ہے جب تک اصلی چہرہ دیکھ نہ لیں ،صحت کا نقصان الگ ،سنگین بیماریاں نا قابل تلافی اور ناقابل علاج الگ ،اور زندگی بھر خود کا سامنا نہ کرپانے کا عذاب الگ

اٹھیں
اپنے سلیقے ،علم و ہنر اور اپنے فن سے دنیا کو جیت لیں ،کپڑے دھونے والے صابن سے منہ دھوکر آفس جانے والے مردوں نے پیسے کمانے کے لئے آپ کو عذاب میں ڈال دیا ہے اور آپ نادان بنتے ہوئے ان کا شکار ہورہی ہیں

سکندر حیات بابا
منتخب تحریر

24/02/2024

تاویل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض چیزوں پر انسان چاہتے ہوئے بھی قدرت نہیں رکھ سکتا
جیسے کہ روح کو چُھوا نہیں جا سکتا
بینائی کے رنگ معلوم نہیں کئے جا سکتے
خوشبو کو توڑا نہیں جا سکتا
تنہائی پوسٹ نہیں کی جا سکتی
درد کو شیئر نہیں کیا جا سکتا
دُکھ کاپی پیسٹ نہیں کئے جا سکتے

زندگی کی کسی بھی طرح کی کوئی بھی ایموجی نہیں بن سکتی
موت کے لئے کوئی بلاک آپشن مقرّر نہیں

زیست کے کاپی رائٹس موت کے ہاتھ محفوظ ہیں
اُسے بیچنے یا خریدنے کی پاداش میں آپ پر جرح لگ سکتی ہے

قطب الغیظ میرساگر

23/02/2024

دنیا بہت بے ثبات ہے۔۔۔۔آج فیسبک سکرولنگ کرتے ہوئے ایک خبر پر نظر پڑی کہ ہمارے بچپن کا ڈرامہ "عینک والاجن"کا دل پسند کردار زکوٹا بابا ہم میں نہیں رہے۔۔۔اور یہ خبر پانچ دن قبل کی ہے وہ بھی کسی ایسے پیج پہ چلی ہے جسے میں نے فالو بھی نہیں کیا ۔۔۔کتنے افسوس کی بات ہے ایس کام کی ناقص کارکردگی کے باعث ہم کوئ بھی خبر پانچ دن بعد پڑھ پاتے ہیں جبکہ بجلی کا عالم یہ ہے کہ نیوز ٹی وی پہ بھی نہیں دیکھے جا سکتے چونکہ خواتین کو بجلی کی آمد کیساتھ کبھی واشنگ مشین کی ڈیوٹی تو کبھی استری کی ڈیوٹی نبھانی پڑتی ہے اور "شپاٹی"کی پکائ تو گلگت بلتستان کے خواتین کی چولی دامن کی ساتھی ہے۔۔تو دوستو بہت افسوس ہوا اس خبر پر اور ایس کام کی نااہلی پر
Hello

23/02/2024

ایک ہم غریبوں کے اماں ابا ہوتے ہیں۔ ذرا سی مہنگی چیز مانگ لیں تو اندیشے لیکر بیٹھ جاتے ہیں۔
ایک امیروں کے ماں باپ ہوتے ہیں جو بچوں کو کھیلنے کے لیے کروڑوں کا مقدر دے سکتے ہیں۔ ہائے نی قسمت😜😜😜

23/02/2024

ارے۔۔۔یہ تو میرے اور میرے میاں کے درمیان کا مکالمہ ہے۔۔۔نہ جانے کس نے فیس بک پر لیک کردیاہے🙈🤭😊

22/02/2024

قادیا ۔۔۔نیت کا مقدمہ جب انسانی اور مذہبی آزادی کے " ریپر " میں لپیٹ کر پیش کیا جاتا ہے تو ہمارے بہت اچھے اور معقول سے دوست بھی دھوکے کا شکار ہو جاتے ہیں ۔
میں ذاتی طور پر ایک سے زیادہ بار یہ بات لکھ چکا ہوں کہ اس فاسق گروہ کے جھوٹے پیشوا کو بھی گالی نہیں دینی چاہیے کہ اس طرح آپ تبلیغ کا راستہ بند کر لیتے ہیں ۔۔۔لیکن تبلیغ کا حق دینا اس لیے ممکن نہیں اور نہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے کہ یہ گروہ کوئی مسلک یا مذہب نہیں ہے ، یہ سیدھا سیدھا ایک جعل سازی ہے جس کو ہمارے " روشن خیال " دوست انسانی ہمدردی کے چکر میں لیگلائز کرنا چاہ رہے ہیں ۔

یہ بات آپ کو آسانی سے سمجھ نہیں آئے گی ، اس کو اس مثال سے سمجھیے کہ کسی بھی کاروباری ادارے یا فلاحی ادارے کے دفتر کے عین سامنے اسی نام سے دوسرے کو اپنا دفتر قائم کرنے کا حق دیا جا سکتا ہے ؟
کیا کوکا کولا کی فیکٹری کے سامنے ایک شخص اپنی فیکٹری لگا لیتا ہے اور اپنے برانڈ کا نام بھی کوکا کولا رکھتا ہے تو انسانی حقوق کے تحت اس کو اس کی اجازت دی جائے گی ؟
ایدھی فاؤنڈیشن کے دفتر کے سامنے کوئی دوسرا شخص اپنا فلاحی دفتر بنا لیتا ہے اور نام "ایدھی فاؤنڈیشن" ہی رکھتا ہے تو کیا معاشرے کا اخلاق اور قانون اس عمل کو درست سمجھیں گے یا دھوکہ دہی اور جعل سازی سمجھیں گے ؟؟
بات اتنی آسان نہیں جتنی ہمارے دوست بنا کر پیش کرتے ہیں ۔ اس گروہ کو اسلامی فرقوں پر قیاس کر کے خلط مبحث کیا جاتا ہے ۔ اس وقت مسلمانوں کے جتنے بھی فرقے ہیں ان میں دو امور قدر مشترک ہیں ، بھلے تاویلات کے نام پر ان میں جتنی بھی ملاوٹ کر دی گئی ہو لیکن بنیادی عقیدہ سمجھ کر ان کو " لاک " کر دیا گیا ہے

ایک یہ کہ دنیا کا خالق اور مالک صرف اور صرف اللہ ہے ، اسے توحید کہتے ہیں ۔
اور دوسرا یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد جو شخص بھی نبوت کا دعوی کرے گا وہ کذاب ہوگا اور ایسے گروہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا
اب اگر کوئی شخص ان میں سے کسی ایک عقیدے کا صریحاً انکار کرتا ہے تو اس کو مسلمان سمجھا اور کہا نہیں جا سکتا اور یہ بھی یاد رکھیے کہ اس کو یہ کہلانے کا حق بھی نہیں دیا جا سکتا۔
یہ سمجھنا کہ وہ [ بے چارے ] پھر اب خود کو خود کیا سمجھیں ، یہ ہمارا نہیں ان کا اپنا درد سر ہے کہ جب انہوں نے مسلمانوں سے الگ ایک راستہ اختیار کیا اور اسلام کے بنیادی طے شدہ عقیدے سے بغاوت کی تو اپنے لیے الگ شناخت بھی خود طے کرتے ۔
حیرت انگیز کہ جعل ساز اس کے باوجود چاہتے ہیں کہ انہیں مسلمان سمجھا جائے یا خود کو مسلمان کہلانے کا حق دیا جائے اگر اس بات کو تسلیم کر لیا جائے تو ہمارے ان دوستوں کو کہ جو انسانیت کے نام نہاد اصولوں کے خمار میں مبتلا ہے اوپر دی گئی مثالوں کی بنیاد پر کوکا کولا کی فیکٹری کے سامنے کوکا کولا کے برانڈ کے نام کے ساتھ فیکٹری کو کام کی اجازت دینا چاہیے۔لیکن حیرت انگیز طور پر اس کو وہ جعل سازی کہتے ہیں اور اس خانہ ساز نبوت کے حامل مذہب کو اجازت دینا چاہتے ہیں کہ وہ خود کو مسلمان کہیں اور بطور مسلمان خود کو متعارف کروا سکیں۔
اس سارے مقدمے کو ایک اور مثال سے سمجھیے کہ ایک شخص عیسائیت جیسا عقیدہ تثلیث اختیار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایک خدا آسمان پر ہے ایک خدا روح القدس ہے اور ایک خدا عیسیٰ ہے یوں اس کائنات میں تین خدا ہیں اور اس کے بعد وہ یہ کہتا ہے کہ " میں مسلمان ہوں اور میرے گروہ کے لوگوں کو مسلمان سمجھا جائے" تو کیا اس پر بھی ہمارے دوست اس نئے انے والے گروہ کو کچھ دن بعد یہ حق دینے کی " تاکید " کریں گے ؟؟

جہاں تک تبلیغ کے حق کا تعلق ہے تو جو گروہ باقاعدہ جعل سازی پر مبنی ایک فرقہ ہے اس کو کیسے تبلیغ کا حق دیا جا سکتا ہے ؟
تبلیغ کا حق دینے کا اولین مطلب یہ نکلتا ہے کہ آپ نے اس گروہ کو اس کی جعل سازی سمیت اس کی حیثیت میں قبول کر لیا ہے ۔
میں نہیں کہتا کہ آپ نے اس کے عقائد سے اتفاق کیا ہے لیکن آپ نے اس کو ایک مستقل گروہ کے طور قبول کر لیا ہے ۔ میں پھر وہی اوپر والی مثال دوں گا کہ کوکا کولا کی فیکٹری کے سامنے جعلی بوتلوں کی فیکٹری کو اپنے مارکیٹنگ کا حق دے دیا ہے

اب میرا سوال یہ ہے کہ اصلی فیکٹری کے حقوق کی پامالی کیا کوئی اخلاقی اور انسانی مسئلہ نہیں ہے؟؟؟
اور جعلی پروڈکٹ کو حقوقِ مارکیٹنگ دئے جا سکتے ہیں ؟
اور کیا کسی مہذب معاشرے میں اس کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔Abubakr Quddusiابوبکر قدوسی

20/02/2024

کے ایف سے سے اشتراک کی وجہ سے پی ایس ایل کا بائیکاٹ
کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ اس سے کیا ہوگا؟
ہمارے بائیکاٹ سے بہت کچھ ہوتا ہے۔ سب سے پہلا اثر تو یہ ہوا ہے کہ جو پی ایس ایل اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر خوشی سے اناؤنس کر رہی تھی کہ کے ایف سی ہمارا سنیک پارٹنر ہے اس نے ساری پوسٹس ہٹادی ہیں۔ ایک دو دن یہ مہم جاری رہی تو کے ایف سی کا لاگو بھی ہر جگہ سے ہٹا دیا جائے گا اور باقاعدہ پوسٹس کر کے بتائیں گے کہ ہم نے کے ایف سی سے اشتراک ختم کر دیا ہے۔
دوسرا فائدہ یہ ہوا ہے کہ کے ایف سی نے اشتراک اس لیے کیا تھا کہ اس کی سیل زیادہ ہو لیکن اس بائیکاٹ مہم کی وجہ سے الٹا بائیکاٹ والی مہم پھر سے تروتازہ ہوگئی ہے جس سے انھیں فائدہ کی بجائے نقصان ہی ہوگا۔
تیسرا اور بڑا فائدہ یہ ہے کہ عالمی سطح پر جن کمپنیوں نے بھی مظلوم فلس۔طینیوں کی بجائے ظالموں کا ساتھ دینے کے اعلانات کیے تھے، وہ سب مان رہی ہیں کہ ان کے کاروبار کو شدید نقصان کا سامنا ہے۔ اس نقصان کا بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اسی نقصان کے ڈر سے دوسری بہت سی کمپنیاں اس طرح ظالموں کا ساتھ دینے سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور یہی اصل مقصد ہے ۔
چوتھا فائدہ یہ ہے کہ فلس ۔طین کے اس اہم معاملے پر خاموشی نہیں چھاتی بلکہ دنیا کے سامنے ان کے مظالم آتے رہتے ہیں۔ پھر مظلوموں کو ایک آس رہتی ہے کہ بہت سے لوگ ہمارے ساتھ ہیں۔ یہ ایک لمبی جدوجہد ہے اور ہر جگہ اور ہر ممکن طریقے سے اس میں حصہ لینا چاہیے۔ اسی وجہ سے یہ ممکن ہو پایا ہے کہ ساؤتھ افریقہ نے ظالم اسرا۔ئیل کے خلاف عالمی عدالت میں مقدمہ چلایا ہے اور وہاں بھی اس کے خلاف بات ہو رہی ہے۔
پانچواں فائدہ یہ ہوتا ہے کہ میڈیا میں یہ معاملہ پھر سے آنے سے بہت سے لوگ مظلوم فلس۔طینی بھائیوں کے لیے مالی امداد بھی بھجوانے لگتے ہیں اور اس سے ان کا ڈائریکٹ فائدہ ہوتا ہے۔
یہ چند ایک ہیں جو میں نے گنوائے ہیں۔ اس مہم کو جاری رکھیں۔
یہ ایمان کا کمزور درجہ ہی سہی، لیکن اثر رکھتا ہے۔
کے ایف سی کا بائیکاٹ ہمیشہ کے لیے اور پی ایس ایل کا تب تک ، جب تک کہ پی ایس ایل کے ایف سی کی تشہیر بند نہیں کر دیتی۔ تب تک پی ایس ایل کا نہ ٹکٹ خریدیں گے نہ کوئی میچ دیکھیں گے نہ ان میچوں پر کوئی تبصرہ کریں گے اور جو یہ میچ دیکھے گا یا ان پر تبصرے کرے گا اسے بھی انفرینڈ یا سنوز کر دیں گے۔
دشمن کا دوست بھی دشمن ہی ہوتا ہے اس لیے جب تک پی ایس ایل کے ایف سی کی سپانسرشپ ختم نہیں کرتا اس کا بائیکاٹ جاری رہنا چاہیے۔
متفق ہیں تو چاہے پوسٹ شئیر کر دیں چاہیں تو کاپی کر کے اپنی وال پر لگا لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹرعدنان نیازی
#نیازیات

18/02/2024

کئ دن سے "بے کار" ہوں سوچ رہی ہوں ایک مہینے کے لیے جوائن کروں،🤭🤭سنا ہے ایک مہینہ جاب کرنے کے بعد پانچ سال کی ایڈوانس سیلری دے کر ریٹائر کرتے ہیں🫣🫣🙈 #الماسیات

17/02/2024

یادگار مہک ۔۔

سوجی اور سوکھے دودھ کا حلوہ بناتے ہوئے اٹھنے والی خوشبوجسے محسوس کر کے میرے فیملی ممبر نے کہا کاش یہ خوشبو ریکارڈ کر سکتے ۔
پیاسی مٹی پر پڑتی بارش کی بوندوں کی مہک پیٹریچور PETRICHOR
سیمنٹ پر گرتے پانی سے اٹھنے والی مہک
شیرخوار بچوں کی خوشبو
امی کا ڈوپٹہ
ابو کا سینہ
ابو کے کمرے سے آتی سگریٹ پرفیوم اور اے سی کی خنکی کے امتزاج کی خوشبو
اولاد کی ٹھنڈی جپھی
دل کے بھید بھاو کی مہک
انڈہ شامی برگر کے بننے کی مہک اور جب اسے خاکی لفافے میں پیک کر دیا جاتا ہے
قیمے والے نان کے پکنے کی مہک
پلاو /بریانی کے دم کھلنے کالمحہ
دہی بھلے یا فروٹ چاٹ کی ریڑھی کے اردگرد کی مہکی ہوا
پان کی ٹھنڈی خوشبو
گرما گرم سموسے کے پہلے بائٹ سے نکلتا ذایقہ دار دھواں
پکتے سالن پر سرکہ یا لیموں چھڑک کر اسے ہلکی انچ پر ڈھک دیں ۔دم کھلنے پر پھیلتی مہک ۔
چکن پلاو پر گرم مصالحہ ڈال کر دم دیا جائے اس دم کے کھلنے کا سماں
دم والے قیمہ کی مہکار میں دہکتے کوئلے اور دیسی گھی کے دھوئیں سے باربی کیو کی مہک کا اضافہ
سفید زیرہ خشک توے پر بھننے کی خوشبو
کامیابی کی خوشبو

مختلف علاقوں کو ان کی الگ مہک سے پہچانتی ہوں مثلا ہنزہ کی دیوسائی سے الگ مہک ہے خپلو اور سکردو کی الگ گوادر کی مہک الگ ہے کراچی کی جدا ۔ لاہور کے مختلف موسموں کی مہک اور کیفیات منفرد ہیں اور سبھی حسین ہیں ۔
فطرت کے مظاہر بھی جدا جدا مہک رکھتے ہیں
مجھے لگتا ہے ہر خوشبو اچھی نہیں ہوتی بس اس خوشبو سے جڑی یاد اسے حسین بنا دیتی ہے

الحمد للہ رب العالمین
رابعہ خرم درانی
--------------------&-----&------&-----------------
یہ تحریر میری نہیں ہے مگر لگتا ہے میرے اندر کی کوئ آواز ہے❤️

16/02/2024

دشت امکان
الماس احمر
اکیسویں اور آخری قسط
ہم مسلسل چودہ گھنٹے کا سفر کر کے گاؤں پہنچے، بابو اب گاؤں میں نہیں رہنا چاہتے تھے سو ہم شہر شفٹ ہوگئے مگر میں شہر سے گاؤں آ کر ڈیوٹی کرنے لگی، مگر روزانہ میرے لیے مشکل ہونے لگی تو میں نے ہر دو دن بعد آکر ڈیوٹی شروع کردی،اور بیچ کے دو دن شہر میں کلینک کرنے لگی اب یوں ہوتا پیر اور جمعرات گاؤں میں باقی چار دن کلینک اور جمعے کے دن چھٹی،یوں زندگی ایک ڈگر پر پھر سے رواں ہوگئ، شیریں اب خود سے چلنے پھرنے لگی تھی تبھی سعود نے شادی کی ڈیمانڈ ڈال دی اور شعیب بھی شادی کی خواہش میں چھٹیوں پہ گھر آگیا،اور بابو کو دو دو بیٹیاں بیاہنا پڑا وہ بھی شارٹ نوٹس میں،میں نے شعیب سے صاف صاف کہہ دیا کہ میں جہیز نہیں لا رہی اور سعود نے خود منع کردیا کیونکہ اسے واپس دارالحکومت جانا تھا تو وہ سامان ساتھ نہیں لے جا سکتا یوں بابو نے ہمیں چند جوڑے اور زیورات ،جو وہ اور اماں پہلے سے بنا چکے تھے ان میں ہمیں رخصت کردیا خاندان سے سوائے بڑے چاچو اور پھپو کی فیملی کے علاوہ کوئ نہ تھا،یوں سادگی سے ہم دونوں بہنیں اپنے گھر کی ہوگئیں،شعیب مجھے پیار کے ساتھ ساتھ عزت دیتے تھے اور چچی سمیرہ مجھے بیٹیوں جیسا پیار کرتی تھیں، شعیب کی دادی بھی کچھ عرصہ ہمارے ساتھ رہی چونکہ ان لوگوں سے صلح بھی میرے رشتے کی وجہ سے ہوئ تھی تو وہ بھی مجھے بہت محبت کرتی تھیں، یوں زندگی کا سفر سہانا تھا تین بچوں کی پیدائش کے بعد بھی میری روٹین یہی ہے دو دن گاؤں میں عوام کی مفت خدمت اور چار دن کلینک میں،کبھی سرکاری نوکری کا نہیں سوچا اور نہ ہی مجھے کسی نے کہا اب بچے بڑے ہورہے ہیں بڑے بیٹے کو سکول بھیجا ہے بیٹی اور چھوٹا بیٹا ابھی چھوٹے ہیں،زندگی بڑی پرسکون ہے،اماں ابا کی طرف بھی کوئ رولا نہیں اکرام کی شادی ہوچکی ہے اس کے دو بچے ہیں،بابو کا گھر پاس ہے تو آنا جانا ہوتا ہے،شیریں سے ویڈیو کال پہ مل لیتی ہوں۔۔۔۔۔زندگی میں ٹھہراؤ سا آگیا ہے پہلے پہل شعیب کہتا تھا میرے ساتھ آؤ چچی گھر چھوڑنے پہ راضی نہیں ہوئ اور میں جاب۔۔۔یوں وہ خود ریزائین کر کے گھر آگیا اور کاروبار میں ہاتھ ڈال دیا ہے جو ماشاءاللہ بہت اچھا چل رہا ہے،،بس آج دل میں ایک کسک کی جاگی ہے ہوا یوں کہ صبح پھپو اپنی بہو کو کلینک لے آئ تھیں کہ ان کے بچے نہیں ہوئے یہ علی صاحب کی بیوی ہیں جن کا خیال تھا کہ وہ گاؤں کی لڑکی سے شادی نہیں کرے گا اور اسی وجہ سے مجھ سے رشتہ توڑ دیا خیر وہ بات رشتہ جوڑتے سمے بھی کہہ چکا تھا مگر میرے میڈیکل کالج میں داخلے کے وقت ساتھ نہیں دیا جس سے مجھے ذہنی اذیت سے گزرنا پڑا،خاندان سے کٹنا پڑا،ہاسٹل کے دور میں جب چھٹیوں پہ ساری لڑکیاں اپنے اپنے گھروں کو جاتی تھیں تب میں خالی دیواروں کو تکتی تھی،اور یادوں کے ایک ہجوم بیکراں میں کبھی ہنستی تو کبھی روتی تھی نہ جانے میں نے یہ سب کیسے برداشت کیا کیسے پاگل نہیں ہوئ پتہ نہیں،مگر آج علی کی شہری بیوی دیکھی اور اس کے ٹیسٹ کروائے تو سب ٹھیک تھا کسی شک سے میں نے اسے پھپو سے الگ کر کے پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ خود بچہ پیدا نہیں کرنا چاہتی اس لیے مانع حمل گولیاں کھاتی ہے میں نے وجہ پوچھی تو صاف صاف کہہ دیا کہ آپکی پھپو کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی علی الگ گھر لے کے نہیں دے رہے۔۔۔۔میں نے پھپو سے کہا آپکی بہو کی ساری ابتدائ رپورٹس صاف ہیں علی کے بھی ٹیسٹ کرالیں ،پھپو نے علی کے ٹیسٹ دکھائے جو سب اوکے تھے میں نے علی کا نمبر لیا اور بریک کے اوقات میں اسے کال ملائ اپنا تعارف کروایا تو وہ بولا اچھا آپ کیسی ہیں۔۔۔۔رسمی گفتگو کے بعد میں نے اسے کہا کہ آپ کی رپورٹس بھی صاف ہیں اور علینہ کی رپورٹس بھی تو پھر آپ کی فیملی کیوں نہیں بڑھ رہی تو اس نے کہا شاید اوپر والے کی مرضی ہو،،کبھی کبھی زمین والوں کی مرضی بھی ضروری ہوتی ہے۔۔میں نے رسان سے کہا تو وہ حیران ہوا کہ میں کہنا کیا چاہتی ہوں میں نے کہا بیوی کی آب و ہوا بدل دیں دارلحکومت یا کراچی میں رہ لیں بہت جلد خوشی ملےگی اس نے اوکے کہا اور میں نے فون رکھ دیا،،،اب کسک اس بات کی ہے کہ اللہ نے فیملی سسٹم کے تحت انسان کو پیدا کیا اور انہیں ساتھ رہنا بھی سکھایا اور الگ رہنا بھی،اگر کوئ ساتھ رہنا چاہے تو رہ لے نہ رہنا چاہے تو اس پہ بھی زبردستی نہیں،مگر ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے اسلام کو اتنا نقصان پہنچایا کہ کوئ لڑکی شادی کے بعد الگ رہنا چاہتی ہے مگر وہ رہ نہیں پاتی تو اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پہ اتر آتی ہے تو دوسری طرف ہماری بیٹیاں بھی اماں ابا کو محبت کرتی ہیں مگر شوہر کے اماں ابا کو اپنانے کے حق میں نہیں ہمارے اندر عدم برداشت کی وجہ سے بہت سے خاندانی مسائل پیدا ہورہے ہیں سوشل میڈیا پہ ہی کوئ پوسٹ لگاؤ تو ہزارہا طعنے اور طنز کا سامنا کرنا پڑتا ہے
میں ڈاکٹر نور الہدیٰ مظہر نہ صرف جسمانی علاج کرتی ہوں بلکہ آنے والوں کے رویے بھی درست کرنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ پھر سے کسی علینہ کو مانع حمل گولیاں نہ کھانا پڑے اور نہ ہی کسی شیریں کو مر کے زندہ ہونا پڑے اور نہ ہی کسی نورجہاں کو اپنے خواب پورے کرنے کیلیے نورالہدی بننا پڑے۔۔۔میری جنگ اس سماج کے ساتھ جاری ہے اور رہے گی انشاءاللہ!

ختم شد

15/02/2024

جیسے ہی فیسبک کھولو۔۔۔فیسبک سوال کرتا ہے کہ آپ کے مائنڈ میں کیا ہےWhats on your mind؟..قسم سے مائنڈ میں ایس کام کی سروس کے لیے گالیاں ہیں۔۔۔پوسٹ اپلوڈ پہ لگاتی ہوں پتہ نہیں چلتا کب اپلوڈ ہوگیا۔۔آپ کے کمنٹس کی نوٹیفیکیشن موصول ہوتی ہے مگر اوپن نہیں ہوتی

الماس احمر

گلگت بلتستان ٹیچرز کوآرڈنیشن کمیٹی(GBTCC) کی پریس کانفرنس اور چارٹر آف ڈیمانڈ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے محکمہ ایجوکیشن کے ...
15/02/2024

گلگت بلتستان ٹیچرز کوآرڈنیشن کمیٹی(GBTCC) کی پریس کانفرنس اور چارٹر آف ڈیمانڈ کی مکمل حمایت کرتے ہوئے محکمہ ایجوکیشن کے زمہ داران سے پرزور مطالبہ کرتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے تمام اہل اساتذہ کو ڈیٹ آف پاسنگ پروفیشنل ڈگری B.Edپاسنگ سے B.16 اور CT پاسنگ سے B 14 دیا جاۓ تاخیری حربے کسی صورت محکمے ایجوکیشن GB کے فیور میں نہیں اس Analogy کے تحت مختلف کیڈرز اور بہت سارے اساتذہ مستفید ہو چکے ہیں بروقت عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں اگلا لائحہ بہت عمل سخت ہو گا۔
ٹیچرزایسوسی ایشن گلگت بلتستان

15/02/2024

زندگی میں بعض اوقات چھوٹے چھوٹے دکھ اللہ کا انعام ہوتے ہیں۔۔مجھے دکھ رہتا ہے میری فیسبک اسٹوری کو ویوز کم ملتے ہیں مگر دو دن پہلے جب بچوں نے غلطی سے گھر میں بیٹھے ہوئے ہماری سٹوری لگائ مگر ایک گھنٹہ گزرنے پہ بھی ایک بھی ویو نہ دیکھ کے میں نے شکر ادا کیا۔۔۔۔۔

چیف کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں اساتذہ کرام کو Date of Passing B.Ed سے 16-BPS دینے کا مطالبہآج مورخہ 02 جنوری 2024 کو تح...
15/02/2024

چیف کورٹ کے فیصلوں کی روشنی میں اساتذہ کرام کو Date of Passing B.Ed سے 16-BPS دینے کا مطالبہ

آج مورخہ 02 جنوری 2024 کو تحصیل گوپس کے تمام گور نمنٹ ٹیچر ز کا ایک اہم اجلاس گوپس کے ایک مقامی ہوٹل منعقد ہوا۔ جس میں تحصیل گوپس کے اساتذہ کرام نے بھر پور شرکت کی میٹنگ کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا۔ اسکے بعد سینیئر اساتذہ کرام نے میٹنگ کے اغراض و مقاصد کے حوالے سے شرکاء میٹنگ کو بھر پور آگاہی دی اور عدالتی فیصلوں کی کاپیاں بھی پیش کرتے ہوئے واضح کیا کہ اساتذہ کرام کے کچھ گروپس کو Date of Passing B.Ed سے 16-BS میں ترقی دی گئی ہے جو کہ کورٹ کا مناسب فیصلہ ہے اور یہ نہ صرف گلگت بلتستان میں بلکہ ملک کے دوسروں صوبوں میں بھی اس طرح کے فیصلوں سے اساتذہ مستفید ہوتے ہیں کیونکہ جب بھی اساتذہ پروفیشنل ڈگری پاس کرتے ہیں انکو اسی تاریخ سے ہی اگلے سکیل میں ترقی دی جاتی ہے۔ لیکن بد قسمتی سے گلگت بلتستان کے محکمہ تعلیم میں یکساں انصاف کا بول بالا ہوتا نظر نہیں آتا۔ عدلیہ کے کچھ سابقہ فیصلوں کے روشنی میں اساتذہ کے کچھ گروہوں کو 16-BS میں تو ترقی دے دی گئی مگر اساتذہ کی کثیر تعداد کو اس جہانہ اور قانونی حق سے ہی حال محروم رکھا گیا ہے جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ حالانکہ چیف کورٹ گلگت بلتستان سے اساتذہ کے کچھ گروپس کے حق میں فیصلہ ہونے کے بعد معزز عدالت عالیہ (سپریم اپیلیٹ کورٹ) نے فل بینچ کی تشکیل ہونے تک کے اس فیصلے پر عمل درآمد سے روک دیا تھا تا ہم عدالت عالیہ نے 14 مئی 2022 اور 22 نومبر 2022 کو مذکورہ کیس کے فیصلوں کی توثیق کی جس کی روشنی میں محکمہ تعلیم نے ان گروپس کے اساتذہ کرام کو 23 نومبر 2023 سے Date of Passing B.Ed سے 16-BS دینے کا آرڈر جاری کیا۔ محکمہ تعلیم کا مذکورہ حکمنامہ اس قرارداد کے ساتھ منسلک ہے۔ لہذا بیان کئے گئے حقائق اور فیصلوں کے تناظر میں آج کا یہ اجلاس محکمہ تعلیم گلگت بلتستان کے اعلی حکام ، سیکرٹری تعلیم، چیف سیکریٹری، وزیر تعلیم اور وزیر اعلی سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا فیصلوں کا اطلاق گلگت بلتستان کے تمام اساتذہ بشمول سینیئر وجو میرز ( سر دو خواتین) پر یکساں کیا جائے اور تمام اساتذہ کو .Date of Passing B.Ed سے 16-BS دیا جائے۔ بصورت دیگر اساتذہ ضلع کے دوسرے اساتذہ کرام کے ساتھ مل کر نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ گلگت بلتستان لیول پر باقی تمام اساتذہ کے ساتھ

مل کر احتجاج کا حق محفوظ رکھتے ہیں جس کے لئے بھر پور تیاری اور رابطہ مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔

فقط جملہ اساتذہ تحصیل گوپس ضلع غذر

(شرکاء اجلاس کے دستخط قرار داد کے ساتھ منسلک ہے)
بشکریہ ہمالین نیٹ ورک

14/02/2024

دشت امکاں
الماس احمر
بیسویں قسط
شام تک شیریں کے متعلق کوئ مثبت رپورٹ نہیں تھی بس ہمیں کہتے تھے آپ دعا کریں اور ہم دعا کرتے رہے تھے تبھی ڈاکٹر مسکراتا ہوا باہر آیا اور کہا پیشنٹ اب خطرے سے باہر ہے آپ اسے دیکھ سکتے ہیں،اور ہم دونوں بیڈ پہ لیٹی ہوئ شیریں کو دور سے دیکھ آئے کیونکہ قریب جانے سے ڈیوٹی والی نرس نے روک دیا،باہر نکل کے میں نے زبردستی سعود کو بھیںج دیا کیونکہ اس کا اگلے دن انٹرویو تھا، اکرام کا دوست بھی جا چکا تھا تب نرس نے مجھے شیریں کے کمرے میں جا کے رہنے کی اجازت دی اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ وقتاً فوقتاً اسے نام لے کے بلاتی رہوں اور میں یہی کرنے لگی، رات کو ہسپتال والوں نے کھانا لا کے دیا جو میں نے زہرمار کرلیا تاکہ تھوڑی انرجی مل سکے،دس بجے کے قریب چاچو اور اکرام پہنچ گئے میرے پاس تو فون تھا نہیں سو اپنے دوست کی مدد سے مجھ تک پہنچ گئے، انہیں اندر آنے کی اجازت نہیں ملی مگر سٹاف نے مجھے بلوایا تو میں باہر جا کے مل آئ، تبھی اکرام نے اپنا فون مجھے دے دیا تاکہ رابطہ ہو سکے، اور میں واپس آگئ، شیریں کو تھوڑا تھوڑا ہوش آنے لگا تھا اس کا بی پی لو تھا شاید اس وجہ سے ہوش میں آنے میں دقت ہورہی تھی،نرس نے آکے دوبارہ سکون کا انجیکشن لگایا اور بولی اس وقت ان کا سوتے رہنا ہی بہتر ہے کل ہوش میں لانے کی کوشش کرینگے میں نے سر ہلادیا، تو نرس نے فکر مندی سے کہا آپ بھی آرام کریں تھوڑی دیر، میں نے سر ہلا دیا،ایمرجنسی روم میں دس بیڈ لگے ہوئے تھے،ہر بیڈ میں پارٹیشن کرکے الگ کیا گیا تھا اور سبھی میں مریض موجود تھے، ایک بیڈ کے ساتھ ایک بینچ تھا جو کہ اٹینڈنٹ کیلیے تھا،میں نے اپنے سامنے والے پردے بھی کھولے اور بینچ پہ لیٹ گئ اسی لمحے موبائل میں بیل ہوئ میں نے نکال کے دیکھا شعیب بھائ کالنگ لکھا آرہا تھا ایک پل کو بھائ کا لفظ دیکھ کے حیرت ہوئ پھر یاد آیا کہ موبائل تو اکرام کا ہے میں نے سوچا کہ اس کنڈیشن میں بات بھی کرپاؤنگی کہ نہیں،بہرحال فون اٹھا کے ہیلو کہہ دیا بدلے میں شعیب کی ہیلو سن کے میں خود پہ قابو نہ رکھ سکی،اور رونے لگی شعیب نے مجھے تسلی دی اور کہنے لگا کہ میں نے بتایا کیوں نہیں میں نے فون کھو جانے کا ذکر کیا تو بولا،نہیں تمہارا فون چاچی یعنی آپکی اماں کے پاس ہے،میں نے سر ہلادیا شعیب سے بات ختم کرکے میں نے اپنا نمبر ڈائل کیا بیل جانے لگی، اور پھر اماں کی آواز سنائ دی ہم ماں بیٹی رونے لگے، پھر بابو نے فون اٹھا کے بات کی اور شیریں کا پوچھا میں نے بتادیا، اس کے بعد ایک دوگھنٹے کے لیے شاید میں سوگئ پھر آنکھ کھلی مگر نیند نہیں آئ، صبح ڈاکٹر وزٹ پہ آیا شیریں کو تسلی سے چیک کیا بی پی اور شوگر کے ٹیسٹ چیک کئے،سب نارمل تھا،مجھے بولا میڈم! آپکی پیشنٹ ٹھیک ہوجائیں گی مگر ایک لمبے عرصے تک شاید وہیل چئیر کہ ہوجائیں یا پھر شاید ہمیشہ کے لئے!!میں سن ہو کر رہ گئ،مجھے لگا یہ کوئ مزاق ہے مگر ڈاکٹر کی پیشانی کی لکیریں سچی ہونے کا پتہ دے رہی تھی۔۔۔۔شیریں کی ٹھیک ہونے کی داستان بہت لمبی ہے جب مکمل ہوش میں آئ تو میں نے اپنے اماں اور بابو سے مشورہ کیا،سعود نے اپنے امی ابو سے اور یوں ان دونوں پیار کرنے والوں کی منگنی ہسپتال کے بیڈ پر ہی ہوگئ، بہرحال دو مہینے بعد ہم اسی ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تو شیریں وہیل چئیر سے نکل چکی تھی اور آہستہ آہستہ سہارا لیکر قدم اٹھاتی تھی،میرا خیال ہے اسے ٹھیک ہونے میں ہماری دعاؤں اور دواؤں کیساتھ ساتھ سعود کے پیار کا ہاتھ تھا،اس کی جاب لگ چکی تھی روز شام کو ہسپتال آتا گھنٹہ بھر رہتا اور چلا جاتا،آج ہم دارلحکومت سے واپس جارہے تھے بہت سی تلخ اور بہت سی اچھی یادیں لیکر۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے

14/02/2024

کچن میں پڑی چھوٹی چھوٹی چیزیں اکثر اتنا بڑا کام سر انجام دیتی ہیں جس کا ہمیں اسی موقع پر ادراک نہیں ہوتا مگر وقت کیساتھ ساتھ ان کی افادیت مزید بڑھ جاتی ہے، مثلاً بیلنا، بیلن یا میری اپنی شینا زبان میں اشکاؤ/لوس۔۔جو ہر گھر کی بنیادی ضرورت ہے مگر ہم نے اس کو کبھی وہ آئ پی اہمیت نہیں دی۔۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئ۔۔اس کی وجہ یہاں تحریر نہیں کی جا سکتی چونکہ میرے میاں بھی یہ سطور پڑھتے ہیں گو کبھی کمنٹ یا لائک کر کے سامنے نہیں آتے اس لیے مصنفہ 🙈اس بیلن کے ٹوٹنے کا واقعہ بیان کرنے سے قاصر ہے۔۔۔سمجھدار شادی شدہ حضرات سمجھ گئے ہونگے (زور حضرات پر ہے)😜 یوں اگلے دن صبح پراٹھے بنانے کی باری آئ تو بیلن حضرت ڈسٹ بن سے دہائ دے رہے تھے اور ہم سیدھے میاں کے سر پہ کھڑے ہوگئے اور چونکہ بیلن ٹوٹنے میں غلطی انہی کی تھی وہ نشانے سے نہ ہٹتے تو نشانہ دیوار پہ نہ لگتا اور نہ ہی ٹوٹ جاتا اب کیا کیا جا سکتا تھا،چڑیاں کھیت چگ گئیں تھیں۔۔۔مجبوراً ہمسایوں کے دروازے کھٹکھٹا کے ایک عدد عارضی بیلن حاصل کیا اور پراٹھے بنا کے دن کا آغاز کردیا اور دوپہر کو چاول پھر رات کو تندور کی روٹی سے استفادہ کرنے کے بعد اگلی صبح پھر ایک نئ پریشانی سے دوچار ہوئے تو محلے کی دکان سے ڈبل روٹی سے ناشتہ کیا دوپہر کو ہر گھر میں پھیرا لگایا کہ کہیں سے فری میں یا ادھارمیں بیلن ملے مگر کوئ ہمسائ بیلن دینے پہ تیار نہیں تھی غالباً وہ بھی اپنے اپنے شوہر حضرات کو بیلن سے ہی کنٹرول کرتی ہونگی سو شام کو میاں کو فون کھڑکایا اور لہجے میں مٹھاس بھر کے بیلن لانے کو کہا تو میاں تو اکڑ ہی گئے بالآخر انہیں سوری کہا اور وعدہ کیا کہ آئندہ بیلن سے نہ وار کرونگی نہ ڈراؤنگی تو اس شرط پہ وہ نیا بیلن لے ہی آئے ورنہ پورا مہینہ باہر سے کھا کھا کے ہم نے انہی کی جیب ڈھیلی کردینی تھی بس تب سے اب تک نیا بیلن کچن میں ہے اور ٹوٹا ہوا بیلن کمرے میں کیونکہ وعدہ تو نئے بیلن سے نہ ڈرانے پہ ہوا تھا پرانے پہ نہیں۔۔۔😜😜😜، خواتین و حضرات زرا بتائیے آپ کس طرح کی تواضع کرتی ہیں یا کرواتے ہیں😂😂😂
الماس احمر

14/02/2024
14/02/2024

عزیز دوستو!
یاد رکھیں ویلنٹائن ڈے سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔کیونکہ اگر صرف ایک پھول دینے سے ہی محبت ھو جاتی ناں تو ہمارا مالی ارشاد پوری کالونی کا محبوب ھوتا😀😁😄 اس لئےچپ کر کے "بیبے"بچے بن کر سکول ،کالج اور یونیورسٹی جائیں ۔۔6/7 سو کا ایک پھول لینے سے بہتر ھے گھر جاتے ھوئے پھل یا ایک آدھ تازہ چکن ذبح کروا کر لے جائیں😀۔۔تاکہ کھانے کے بعد نظم *
امی نے پکایا
۔ہم سب نے کھایا
بڑا مز آیا۔۔

مل کر گا سکیں😁
خجستہ ظفر۔

14/02/2024
13/02/2024

ایک اسٹوڈنٹ نے ابھی کال کی ہے کہ میم کل چھٹی کس بات کی ہے۔۔۔میں نے بھی موقع پر چوکا مارتے ہوئے کہا 14 فروری ویلیںٹائن ڈے کی😜😜🫣🫣
حکومت بی لائک۔۔۔جا بیٹا جی لے اپنی زندگی🙈🙈
#الماسیات

13/02/2024

تمام مومنوں کو ۳ شعبان بہت مبارک ❤️‍🩹

‎اس دین کی رگوں میں ہے صدقہ حسین کا
‎ہر ایک جانتا ہے یہ قصہ حسین کا

‎عرش بریں بھی کرتا ہے کرب و بلا پہ رشک
‎پڑھتا ہے آسماں بھی قصیدہ حسین کا

‎کیسے بیاں کروں میں کیا شان ان کی تھی
‎ماں فاطمہ تھیں اور علی بابا حسین کا

‎کیا جیتا وہ یزید ، وہ ملعون مٹ گیا
‎دنیا میں ہے پر، آج بھی چرچا حسین کا

‎سجدے میں سر کٹا دیا زہرا کے لال نے
‎رشتہ تھا کتنا دین سے پختہ حسین کا

‎مجھ کو ہنر دیا ہے یہ اللہ نے حماد
‎ پھر ہی تو لکھ دیا ہے یہ نوحہ حسین کا

‎حماد باقر

13/02/2024

دشت امکاں
الماس احمر
انیسویں قسط
فائر اور چیخیں ایک ساتھ نکلی تھیں اس لیے پورا محلہ منٹوں کے اندر جمع ہوگیا خاندان والے بابو کو ہوش میں لانے کے جتن کرنے لگے اور میں نے شیریں کو فرسٹ ایڈ دینا شروع کیا سب سے پہلے اس کے دوپٹے کا گولہ بنا کے زخم پہ رکھا اور اپنے دوپٹے سے کس کے باندھا اور خون کا بہاؤ روک دیا اور اپنے ہسپتال کے ایمبولنس والے کو کال ملائ پانچ منٹ بعد شیریں کو ایمبولنس میں ڈالا بابو کو ہوش آگیا تھا انہیں بھی ایمبولنس میں بٹھا کے میں اور اکرام بھی اسی ایمبولنس میں سوار ہوئے،اگلے پچیس منٹ میں پچاس کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم ہسپتال کے گیٹ پر تھے وہی سے ایمر جنسی میں اسے آپریشن تھیٹر لے جایا گیا اسی لمحے ڈیوٹی پہ موجود ڈاکٹر نے آکے کیس لینے سے انکار کردیا کہ یہ پولیس کیس ہے میں کھڑی ہوگئ میرے بال بکھرے ہوئے اور مسلسل رونے کی وجہ سے آنسوؤں کی لکیریں بنی ہوئ تھیں۔۔ایمبولنس میں بغیر دوپٹے کے بیٹھی تھی نہ جانے کس نے اپنی ملگجی سی چادر میرے اوپر ڈال دی تھی، اپنے حلیے سے میں ڈاکٹر تو لگ ہی نہیں رہی تھی مگر میں نے کہا میں خود بھی ڈاکٹر ہوں مگر مینٹلی اپ سیٹ ہوں آپ پلیز ان کا آپریٹ کردیں ہم ایف آئ آر کردیں گے، اسے شاید ہم پہ ترس آگیا اور سر ہلا کر واپس چلا گیا اور اگلی دفعہ ایک گھنٹے کے بعد نمودار ہوا ۔۔۔اور مجھے ہی مخاطب کر کے کہا۔۔"دیکھیے ان کو گولی پیٹ میں لگی ہے جس کی وجہ سے آنتیں کٹ گئیں ہیں ہم نے گولی نکال دی ہے مگر ان کا علاج ادھر نہیں ہوگا آپ انہیں دارالحکومت لے جائیں!"۔۔۔"مگر کیسے؟"اس حال میں سفر کرنا مناسب ہوگا؟ اور ایمرجنسی میں جہاز کا ٹکٹ ملے گا کہ بھی نہیں۔۔بڑے چاچو بھی ٹھیک اسی لمحے رحمت کا فرشتہ بن کے نازل ہوئے اور بتایا کہ پی آئ اے میں ایک دوست ہے جسکی توسط سے ہوسکتا ہے ٹکٹ مل جائے،چاچو نے کال ملائ تھوڑی دیر بات چیت ہوئ فون ہولڈ پہ رکھ کے چاچو نے بتایا کہ کل تیسری فلائیٹ میں دو چانس کے ٹکٹ ہیں ان میں دو لوگ جا سکیں گے مگر مریض سیٹ میں کیسے جائے؟ میں نے احتجاج کیا تو چاچو نے فون کان سے لگایا اور پھر گپ شپ کی اس کے بعد کہا تھوڑا مہنگا پڑے گا مگر مریض بھیجیں گے اور ساتھ میں ایک اٹینڈنٹ باقی کسی کو نہیں۔۔۔بس دعا کریں کل موسم سہی رہے اور فلائیٹ ہوجائے۔۔ہم سب نے آمین کہا۔۔۔
اگلے دن بیہوش شیریں کو لے کے ہم ائیرپورٹ پہنچ گئے،طے ہوا تھا کہ جہاز میں مریضہ کے ساتھ میں خود جاؤں گی،پہلے پہل سب نے منع کردیا مگر ڈاکٹر کے کہنے پہ سب مجھے ساتھ بھیجنے پہ راضی ہوگئے،پھر اکرام اور چاچو صبح پہلی گاڑی سے دارالحکومت نکل گئے تاکہ جلد از جلد ہم سے آ ملیں، بابو نے ہمیں ائیر پورٹ سے رخصت کرنا تھا،ائیرپورٹ پر پہنچ کے شیریں کو ایمبولنس میں ہی اندر لے جایا گیا اور ہمیں باہر انتظار کرنے کو کہا،تبھی میں بابو کے گلے ملی اور کہا بابو میں آپ کو خاندان سے کبھی نہ کاٹتی اگر شیریں کی اپنی خواہش نہ ہوتی؟بابو نے پوچھا "کیا مطلب؟"میں نے من وعن ساری بات بتادی کہ شیریں کی خواہش کیا تھی،بابو نے کہا اگر پہلے بتاتی تو شاید یہ نوبت نہ آتی میں نے حیرت سے بابو کو دیکھا اور کہا وہ کیسے؟"ہم خاندان والوں کو یہ کہہ کر منع کرتے کہ ہم شیریں کا رشتہ طے کر چکے ہیں۔۔۔"میں نے کہا بابو شاید تب آپ بھی خاندان والوں کی طرح ہی سوچنے لگتے اور انا میں آ کر شیریں کو آگ میں ہی جھونک دیتے مگر خیر بس اب دعا کریں شیریں کا علاج ہو پھر اس لڑکے سے ملواؤں گی آپ کو۔۔۔یہ آخری بات میں نے سعود کو ائیرپورٹ پر اپنے سامنے سے گزرتے دیکھ کر کہا تھا اس کے ہاتھ میں بیگ اس بات کا غمازی تھا کہ وہ بھی کہیں جارہا ہے، اسی لمحے جہاز کے عملے نے آکر مجھے بلایا کہ اب آپ آجائیں۔۔۔اس کے بعد بابو کو خدا حافظ کہہ کر میں بھیگی پلکوں سے اندر داخل ہو گئ، جہاز نے ٹیک آف کیا تو میں نے ائیر ہوسٹیس سے اپنی مریضہ کا پوچھا تو وہ بولی اب آپ جہاز سے نکل کر کے ہی اس سے ملیں گی۔۔مگر کیوں میں نے احتجاج کرنا چاہا تو ٹھیک اسی لمحے کسی نے میرے سر پہ ہاتھ رکھا اور کہا بہن گبھرائیں نہیں سب ٹھیک ہوگا۔۔۔۔میں نے سر اٹھا کر دیکھا تو سعود ہی تھا،میری حالت کے پیش نظر ائیر ہوسٹس نے سعود کو میرے ساتھ سیٹ پہ شفٹ کیا سعود نے مجھ سے پوچھا آپی آپ ڈاکٹر نور الہدیٰ ہی ہیں نا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا اچھا مظہر انکل کیساتھ آپکو دیکھ کے شک ہوا تھا مگر آپ کیساتھ مریض کون ہے اور آپ اتنی پریشان کیوں ہیں؟اس نے ایک سانس میں کئ سوال داغ دئیے۔۔۔۔کسی کی ہمدردی پا کے سب سے بڑی بات شیریں کے حوالے سے اسے دیکھ کے میرے آنسو پھر سے چھلک پڑے اور میں رونے لگی وہ بولا آپی سنبھالیے خود کو کیا ہوا ہے مجھے بھی تو بتائیں! میں نے رندھے گلے سے روتے ہوئے شیریں کی حالت بیان کی تب ایک مرد کو پھوٹ پھوٹ کر روتے دیکھا، پھر ہم نے ایک دوسرے کو تسلی دی اور پچاس منٹ بعد ہم ائیرپورٹ پر تھے اور دیوانہ وار شیریں کو لینے کے لیے لپکے وہاں پر ایمبولنس موجود تھی، شیریں کو جہاز سے ایمبولنس میں بٹھا کے مجھے بلایا میں سعود کو بھی لے جانے لگی تو عملے نے روک دیا مگر میری حالت دیکھ کر اسے بھی جانے دیا گیا،ایمبولنس ہمیں سیدھا پمز ہسپتال لے گیا یہاں پر اکرام نے فون کر کے اپنے کسی دوست کو الرٹ کردیا تھا جیسے ہی ہم داخل ہوئے ہمیں ایمرجنسی میں ایڈمٹ کیا گیا،کل رات سے اب تک وہ کونسی دعا تھی جو میں نے نہ مانگی تھی،شیریں کی زندگی کی دعا، اپنی سرخروئ کی دعا، اماں بابو کا دل نہ ٹوٹنے کی دعا،جانے وہ کونسی قبولیت کی گھڑی تھی کہ دو گھنٹے کے اندر شیریں کو آپریشن کے لیے لے جایا گیا سعود ادھر ادھر ٹہلنے لگا اور میں نے وہی پہ دست، دعا کے لیے دراز کر دئیے
جاری ہے

Address

Gilgit Baltistan
Hunza

Telephone

+923555111457

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Almas Ahmer Journalist posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Nearby media companies


Other Digital creator in Hunza

Show All