Sukhan Wari

Sukhan Wari All About Poetry
(3)

جنت بھی تو سرکار کی گلیوں کی ہے شائؔقجنت جو ملے پھر بھی مدینے کی طلب رکھامتیاز احمد شائؔقممتاز نعت گو شاعر ، عالمی شہرت ...
07/10/2023

جنت بھی تو سرکار کی گلیوں کی ہے شائؔق
جنت جو ملے پھر بھی مدینے کی طلب رکھ

امتیاز احمد شائؔق

ممتاز نعت گو شاعر ، عالمی شہرت یافتہ ثنا خوانِ مصطفیﷺ ، شاعر اہلبیت بلبلِ کشمیر امتیاز احمد شائق صاحب کو عمرے کی سعادت حاصل کرنے پر ٹیم سخن وری کی طرف سے مبارک باد اور وطن واپسی پر خوش آمدید کہتے ہیں۔

Imtiaz Ahmed Shaiq Official
From :- Team Sukhan Wari

28/09/2023

کھینچ کر رات کی دیوار پہ مارے ہوتے
میرے ہاتھوں میں اگر چاند، ستارے ہوتے

ہم نے اک دوجے کو خود ہار دیا دُکھ ہے یہی
کاش ہم دنیا سے لڑتے ہوئے ہارے ہوتے

یہ جو آنسو ہیں میری پلکوں پہ پانی جیسے
اُس کی آنکھوں سے اُبھرتے تو سِتارے ہوتے

یار کیا جنگ تھی جو ہار کے تم کہتے ہو
جیت جاتے تو خسارے ہی خسارے ہوتے

اتنی حیرت تمہیں مجھ پر نہیں ہونی تھی اگر
تم نے کچھ روز میری طرح گزارے ہوتے

یہ جو ہم ہیں ، احساس میں جلتے ہُوئے لوگ
ہم زمیں زاد نہ ہوتے تو سِتارے ہوتے

تم کو اِنکار کی خُو مار گئی ہے "واحد"
ہر بھنور سے نہ اُلجھتے تو کنارے ہوتے

واحد اعجاز میر

08/09/2023

اے سر زمین کاشمر کے باسیو! سلام ہو!
سلام ہو مزاحمت کے پیکرو! سلام ہو!

قیام، جبر و جور کے خلاف فرضِ عین ہے
یہ اسوۂ رسول ہے یہ سنتِ حسین ہے
تمہیں بھی چن لیا گیا حسینیو! سلام ہو!

جو کر لیا ہے فیصلہ تو کاز پر ڈٹے رہو
نتیجہ جو بھی ہو مگر محاذ پر ڈٹے رہو
پسے ہوؤں کے حامیو, مجاہدو! سلام ہو

کمال ہے کمال باکمال بن گئے ہو تم
مزاحمت کے باب میں مثال بن گئے ہو تم
عوام کے حقوق کے محافظو! سلام ہو!

کٹھن ضرور ہے مگر یہی ہے سیدھا راستہ
سو جد و جہد تیز ہو یہی ہے اپنا راستہ
اے راہ انقلاب کے مسافرو! سلام ہو!

اکھڑ نہ جائیں پاؤں احتیاط سے قدم رکھو
بس احتجاج کب تلک بدل دو اب نظام کو
تغیرات و ارتقا کے بانیو! سلام ہو!

شوزیب کاشر

Shozaib Kashir

15/08/2023

جو کوہ قافِ غزل کی پری نہ لے جائے
محال ہے کہ کوئی بھی خزینہ لے جائے

ہم ایسے بھٹکے ہوؤں کو یہ خوف رہتا ہے
یہ گمرہی بھی تری سمت ہی نہ لے جائے

ہم ایک موج میں آئے ہوئے ہیں مدت سے
ہمارا کیا ہے ، جہاں بھی سفینہ لے جائے

اس ایک شخص کا اتنا بھی غم نہیں کرنا
وہ ایک پھول کہیں باغ ہی نہ لے جائے

میں اپنے کمرے کے ملبے تلے نہ دب جاؤں
یہ میرا ڈر ہی مری زندگی نہ لے جائے

اسے میں پیار سے سمجھانا چاہتا ہوں مگر
وہ میری بات کہیں اور ہی نہ لے جائے

تری تلاش میں جن وادیوں سے ہم گزرے
خدا وہاں کسی دشمن کو بھی نہ لے جائے

راز احتشام

Raaz Ahtesham

07/08/2023

کچھ کمی تو جہدِ آزادی میں ایسی رہ گئی
جو مرے پاؤں میں یہ زنجیر الجھی رہ گئی

میرے اس کے درمیاں کھینچی گئی خونی لکیر
میں تڑپتا رہ گیا اور وہ سسکتی رہ گئی

باڑ کے نزدیک مت جاؤ وہاں بارود ہے
ایک ممتا اپنے شہزادے سے کہتی رہ گئی

کوئی گولی آ لگی پھر سینۂ معصوم میں
ہاتھ میں لقمہ رہا اور آدھی روٹی رہ گئی

فرش پر بکھرے قلم ، بستے ،دوات اور پھول ہیں
ہاں مگر ہاتھوں میں مضبوطی سے تختی رہ گئی

اے خدا ان ماؤں اور بہنوں کے نوحے سن ذرا
جن کے بس میں صرف بین اور آہ و زاری رہ گئی

سید جواد حاشر
Syed Jawwad Hashir


03/08/2023

لہو میں عکسِ دیرینہ کی جھلمل ڈل سے آتی ہے
ہم اس خوشبو میں رہتے ہیں جو حضرت بل سے آتی ہے

نگہ دارِ اخوت ہیں جواں ادھڑے ہوئے سینے
یہ کیسی سرخ رو مٹی ہے جو مقتل سے آتی ہے

نکل سکتے ہیں استصوابِ رائے سے کئی رستے
عدو کو موت لیکن مسئلے کے حل سے آتی ہے

مگر اقوامِ عالم کی گراں گوشی نہیں جاتی
لہو کو چاپ ورنہ ہر گزرتے پل سے آتی ہے

کوئی آواز پیہم وقت کی اوجھل سے آتی ہے
نویدِ صبح نصرت آنے والے کل سے آتی ہے

احمد حسین مجاہد

Ahmad Hussain Mujahid
Shozaib Kashir - poet

01/08/2023

ہما ہمی کا رواج ہے آج کل زیادہ
وفا کی دنیا میں باتیں کم کم عمل زیادہ!

لگے رہو میرے نکتہ چینو ! مگر بتا دوں
عمل کی شدت سے طے ہے ردِّ عمل زیادہ

کڑی زمینوں سے ڈرتے تھوڑی ہیں ہم پہاڑی
ہمیں پتہ ہے چلانا پڑتا ہے ہل زیادہ

کسی کے کہنے پہ یوں بنایا ہے دل کا نقشہ
سو اس میں ممکن نہیں ہے رد و بدل زیادہ

کرم سے خالی نہیں ہمارا یہ خالی پن بھی
بھرے ہوؤں کی سرشت میں ہے خلل زیادہ

یہ ہم جو منکر ہیں زندگی کے دلیل سے ہیں
ہم ایسے لوگوں کو پیش آئی اجل زیادہ

کسی کے جانے پہ مطمئن ہوں کہ جانتا ہوں
زیادہ نقصان یعنی نعم البدل زیادہ

میاں یہ دنیا ہے خود غرض بے حسوں کی دنیا
وہ پیڑ پہلے کٹے گا جو دے گا پھل زیادہ

سبھی کو نشہ ہے میر و غالب کی پیروی کا
ہمارے سر بھی چڑھی ہوئی ہے غزل زیادہ

یہ کیسی الجھن ہے کیا مصیبت ہے عشق کاشر
کہ جتنا سلجھاؤ اور پڑتے ہیں بل زیادہ

شوزیب کاشر

Shozaib Kashir
Shozaib Kashir - poet
Nawa-E-Ishq

21/07/2023

مطیع نے دل سے پوچھا ہے بتا کہ کیا حسینؓ ہے
دھڑک دھڑک کے بول اٹھا صدا صدا حسینؓ ہے

یہ شان اہل بیت دیکھ سبھی کے سب مثال ہیں
کوئی نئیں حسین سا حسین بس حسینؓ ہے

عمر سے چل عمیر تک بشر سے چل بشیر تک
بڑے بڑے یہ کہہ گئے بہت بڑا حسینؓ ہے

عجب لڑی ہے جنگ بھی حسین نے یزید سے
ہو اس سے بڑھ کر جیت کیا یزید تھا حسینؓ ہے

قاضی مطیع ﷲ

Qazi Matiullah

07/06/2023

مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

جو باطل کے خلاف اٹھے اسے شمشیر کہتے ہیں
جو طوفانوں سے ٹکرائے اسے شبیر کہتے ہیں
مری قانونی حیثیت بدل کر خوش نہ ہو کافر
میں جنت تھا ، میں جنت ہوں مجھے کشمیر کہتے ہیں
سہانے خواب کی گویا بری تعبیر ہوں میں
مرے لوگو مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

مرے جھنڈے ، مرے نقشے بدلتے ہیں بدل جائیں
بھلے تاریخ مٹ جائے ، بھلے آثار جل جائیں
مرا لداخ چھن جائے ، بھلے جی بی چلا جائے
جو کہنے کو پڑوسی ہیں مرے صوبے نگل جائیں
تمہارے غیرتی اجداد کی جاگیر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

وہ دہشت ناک منظر ہے کلیجہ منہ کو آتا ہے
کسی کی مانگ اجڑتی ہے ، کسی کا باپ مرتا ہے
کہیں پر بیٹیاں رسوا ، کہیں بیٹوں کے لاشے ہیں
بھلا کس کس کا ماتم ہو کہ ہر گھر میں جنازہ ہے
غموں سے چور ہوں ، رنجور ہوں ، دلگیر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

یہاں رہنا تو چپ رہنا یہی جینے کا رستہ ہے
کبھی ٹاڈا ، کبھی پوٹا شکنجہ خوب کستا ہے
یہاں انسانی آزادی کوئی معنی نہیں رکھتی
یہاں پر اسلحہ مہنگا ہے لیکن خون سستا ہے
خدایا کیا تری لکھی ہوئی تقدیر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

مجھے دیکھو شہِ ہمدان و حضرت بل کا پیارا ہوں
حسن حسرت کا خطہ ، عارفہ للہ کا ڈیرا ہوں
کبھی گورا ، کبھی بنیا ، کبھی سکھ ڈوگرہ ، مسلم
کہ جو چاہے مجھے لے لے بہت سستے میں بکتا ہوں
کشپ میراں سے شرمندہ ہوں پُر تقصیر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

میں پیغمبر محبت کا، میں داعی امنِ عالم کا
مرا مذہب اخوت کا ، نہیں بارود کا بم کا
مرا پیغام ہے شخصی رواداری و ہمدردی
مرا منشور ہے اسوہ محمد پاک صلعم کا
مگر بے جرم ہی کیوں لائقِ تعزیر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

۔

ریاست حق پرستوں کی وفا کی راج دھانی ہوں
وہ جموں ہو کہ وادی ہو میں گھر گھر کی کہانی ہوں
شہادت ناز کرتی ہے شہیدوں کی جوانی پر
کبھی مقبول بٹ ہوں اور کبھی برہان وانی ہوں
مصمّم عزم کی منہ بولتی تصویر ہوں میں
مرے لوگو! مجھے مت بھولنا کشمیر ہوں میں

شوزیب کاشر
Shozaib Kashir Shozaib Kashir - poet
Video Credit :- 𝘼𝙧𝙩 𝘾𝙤𝙪𝙣𝙘𝙞𝙡 𝙤𝙛 𝙋𝙖𝙠𝙞𝙨𝙩𝙖𝙣 𝙆𝙖𝙧𝙖𝙘𝙝𝙞

01/06/2023

میں نے اس کو خواب میں دیکھا اور نجانے کتنی دیر
میرے ہاتھ میں ہاتھ تھا اس کا اور نجانے کتنی دیر

دل کے دروازے پر اس کی یاد نے کل شب دستک دی
میں دیوار سے لگ کر رویا اور نجانے کتنی دیر

اک مدت کے بعد مرا احساس ہوا ہرجائی کو
یعنی مجھ کو دیر سے سمجھا اور نجانے کتنی دیر

اس لہجے کی برف نجانے کب پگھلے معلوم نہیں
میری آنکھ سے بہتا دریا اور نجانے کتنی دیر

کوئی تیز ہوا کا جھونکا کوئے یار سے جب آیا
میں اس کی خوشبو سے لپٹا اور نجانے کتنی دیر

اتنا یاد ہے نین ملے تھے آگے پھر کچھ یاد نہیں
میں نشّے میں کتنا بہکا اور نجانے کتنی دیر

شکر خدا کا اسٹیشن پر نام لکھا تھا گاؤں کا
ورنہ میں بھٹکا ہی رہتا اور نجانے کتنی دیر

شام آئی تو چاند کو تکنے مل بیٹھے تھے پھر اس نے
سر میرے شانے پر رکھا اور نجانے کتنی دیر

جوّاد حاشر
Syed Jawwad Hashir

13/04/2023

ہم ایسے لوگ جو رکھتے ہیں اپنے کام سے کام
نکالتی ہے یہ دنیا ہمارے نام سے کام

ہم اپنے ہونے کا مقصد سمجھ نہیں پائے
ہمیں نہ دن سے تسلی نہ کوئی شام سے کام

ابھی نصیب کے گھوڑے پہ شہ سواری کر
کبھی تو وقت بھی لے گا تری لگام سے کام

اتر گیا تھا کوئی سیڑھیاں ترے دل کی
پھر اس کے بعد بھلا کیا ہمارا بام سے کام

بتاتے رہتے ہیں وہ شخص اتنا قیمتی تھا
چلاتے رہتے ہیں اے شخص تیرے دام سے کام

ابھی رگوں میں غزل سنسنانے والی تھی
ابھی دماغ میں آ کر لگا دھڑام سے کام

چھپائے جائیں مری آنکھ کے سیہ حلقے
کہ پڑ گیا ہے مجھے اک سفید فام سے کام

احسن سلیمان
Ahsan Suleman

28/03/2023

سخن وری کی جانب سے جنم دن کی ڈھیروں مبارک باد احسن سلیمان 💚

کوئی سنتا ہے مجھے؟ دیکھ رہا ہے کوئی ؟
کیسی غربت میں مجھے چھوڑ گیا ہے کوئی

کس کی بارش نے بھگویا ہے مری بستی کو ؟
کس کی آنکھوں نے کہیں دیکھ لیا ہے کوئی ؟

کوئی ہے جس نے بچھڑتے ہوئے دیکھا خود کو ؟
میری زخموں بھری آنکھوں سے بڑا ہے کوئی ؟

اب یہ کھنڈرات بتاتے ہیں کہ آبادی تھی
دل کی بستی میں بہت دیر بسا ہے کوئی

اپنی وحشت سے کوئی خوفزدہ رہتا تھا
اپنی آواز سے کل رات ڈرا ہے کوئی

ایک مدت سے کسی نے نہیں دیکھا احسن
لوگ کہتے ہیں ہمیں دیکھ رہا ہے کوئی

احسن سلیمان

Ahsan Suleman

میں سوچتا ہوں کہ دنیا کو جھونک دوں اس میںجو  آگ  دل  میں  لگائی  ہوئی  ہے  دنیا  نے.......... ظہور منہاسجنم دن بہت بہت م...
15/03/2023

میں سوچتا ہوں کہ دنیا کو جھونک دوں اس میں
جو آگ دل میں لگائی ہوئی ہے دنیا نے..........

ظہور منہاس

جنم دن بہت بہت مبارک ہو ظہور منہاس۔۔ مولا سلامت رکھے۔ ❤💚
Zahoor Minhas

08/03/2023

۸ مارچ خواتین کا عالمی دن

لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
روح کیا ہوتی ہے اس سے انہیں مطلب ہی نہیں
وہ تو بس تن کے تقاضوں کا کہا مانتے ہیں
روح مر جاتے ہیں تو یہ جسم ہے چلتی ہوئی لاش
اس حقیقت کو سمجھتے ہیں نہ پہچانتے ہیں
کتنی صدیوں سے یہ وحشت کا چلن جاری ہے
کتنی صدیوں سے ہے قائم یہ گناہوں کا رواج
لوگ عورت کی ہر اک چیخ کو نغمہ سمجھے
وہ قبیلوں کا زمانہ ہو کہ شہروں کا رواج
جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہیں
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
اک بجھی روح لٹے جسم کے ڈھانچے میں لیے
سوچتی ہوں میں کہاں جا کے مقدر پھوڑوں
میں نہ زندہ ہوں کہ مرنے کا سہارا ڈھونڈوں
اور نہ مردہ ہوں کہ جینے کے غموں سے چھوٹوں
کون بتلائے گا مجھ کو کسے جا کر پوچھوں
زندگی قہر کے سانچوں میں ڈھلے گی کب تک
کب تلک آنکھ نہ کھولے گا زمانے کا ضمیر
ظلم اور جبر کی یہ ریت چلے گی کب تک

ساحر لدھیانوی

17/02/2023

#کشمیر

نگر نگر ہیں الجھنیں سحر سحر بقائے دل
نظر نظر ہیں بے حسی بحر بحر بلائے دل

بڑے بڑے مزار ہیں لٹے لٹے دیار میں
کٹے کٹے ہیں تار دل بجھی بجھی بہار میں

نہیں پتہ کہاں کی سمت چل رہا ہے کارواں
نہیں پتہ کہ کس جگہ پہ رک گئی ہے داستاں

اذانِ صبح نہیں سنی ابھی بھی رات رات ہے
نمازِ شب بھی ہے قضا یہ کیسی واردات ہے

چمن کی ہر کلی کلی لہو سے لال لال ہے
ذہن پہ ہر شب و سحر عجیب سے سوال ہیں

سوال ہے کہ کسطرح سے پیاس کو بجھائیں گے
سوال ہے کہ راہبر کہاں کو لے کے جائیں گے؟

ولی ولی ہیں پوچھتے سب اپنے آستان سے
سوال ہے نفس نفس خدائے آسمان سے

سوال ہیں کہ خواب سارے زیر خاک سو گئے
سوال کر رہی ہیں مائیں جن کے لعل کھو گئے

وطن کا ہر ذرہ ذرہ تو روشنی سے دور ہے
جو صوفیوں کی شان تھا کہاں چھپا وہ نور ہے

زہر ہماری سوچ میں ملا دیا ملا دیا
وطن کے عشق کا دیا بجھا دیا بجھا دیا

بجھا دیا ہے شوقِ اعتبار اس دیار سے
وہ بھر رہے ہیں پیٹ اب لہو کے کاروبار سے

مگر اے ظلم کی ہوا ہمارے دن بھی آئیں گے
کہ جب متاعِ شوق تیری سازشیں مٹائیں گے

وہ لفظ لفظ جوڑ کر رکاوٹیں بنائیں گے
وہ تیری آگ زخمِ دل کے خون سے بجھائیں گے

ذیشان جےپوری

https://www.facebook.com/syed.z.hamadani?mibextid=ZbWKwL

16/02/2023

برا ہوا پر لگا نہیں کہ برا ہوا ہے
یہ کس سلیقے سے کوئی ہم سے جدا ہوا ہے

جو وہ نہیں ہے تو اسکی خوشبو کہاں سے آئی
یہاں پہ کوئی ضرور اس سے ملا ہوا ہے

تمہیں اگر آ لگا تو گھائل نہیں کرے گا
یہ تیر پہلے ہمارے دل پر چلا ہوا ہے

کبھی پلٹتا نہیں ہے گزرا زمانہ لیکن
اسی کی بیٹی پہ میرا بیٹا فدا ہوا ہے

ہمیں کسی حادثے نے تقسیم کر دیا ہے
بدن کہیں ہے تو دل کہیں پر لگا ہوا ہے

مزمل بانڈے

مزمل بانڈے

15/02/2023

ہم پر کچھ اس طرح سے وہ جانِ حیا کھلا
جیسے کسی فقیر پہ اس کا خدا کھلا

ایسی گرہ لگا کے ہم آئے کہ پھر کبھی
ہم سے بھی آج تک نہ وہ بندِ قبا کھلا

شان قریشی

مولا آپ کو ہمیشہ صحت مند اور تندرست رکھے۔۔۔ آمین ❤

14/02/2023

سرِ محفل نگاہوں کے اشارے دیکھتے رہنا
پلٹ کر پھر مجھے دیکھیں گے سارے دیکھتے رہنا

ستارے دیکھ کر ماں نے کہا تھا تو ستارے ہے
نظر تم کو میں آؤں گا ستارے دیکھتے رہنا

ہمیں تاریخداں لکھیں گے آئندہ زمانوں میں
زمانے گیت گائیں گے ہمارے دیکھتے رہنا

میرے پہلوں میں بیٹھی وہ پری مجھ سے یہ کہتی تھی
تمہیں بھی چھوڑ جائیں گے تمہارے دیکھتے رہنا

مزمل بانڈے
مزمل بانڈے

13/02/2023

میں روتی ہوں مگر کہتی نہیں ہوں
بہت حساس ہوں ضدی نہیں ہوں

گھٹن ہے اور گہری بے بسی ہے
کسے بتلاؤں میں اچھی نہیں ہوں

گزرتی ہوں میں کیسی کیفیت سے
بہت دن سے میں روئی بھی نہیں ہوں

خزاں رت ہے ہوائے بے بسی ہے
مگر میں کھل کے مرجھاتی نہیں ہوں

کوئی آواز مجھ کو ڈھونڈتی ہے
مگرمیں خود کو بھی ملتی نہیں ہوں

میں گاؤں زاد تھی سو سہہ رہی ہوں
مرا یہ دکھ ہے میں شہری نہیں ہوں

میں عورت ہوں بدن کی ایک دوکاں
کسی کے دل کی دلچسپی نہیں ہوں

ماریہ نقوی

12/02/2023

حسابِ عمر کا اتنا سا گوشوارا ہے
تمہیں نکال کے دیکھا تو سب خسارا ہے

کسی چراغ میں ہم ہیں کسی کنول میں تم
کہیں جمال ہمارا کہیں تمہارا ہے

وہ کیا وصال کا لمحہ تھا جس کے نشے میں
تمام عمر کی فرقت ہمیں گوارا ہے

ہر اک صدا جو ہمیں بازگشت لگتی ہے
نجانے ہم ہیں دوبارا کہ یہ دوبارا ہے

وہ منکشف مری آنکھوں میں ہو کہ جلوے میں
ہر ایک حُسن کسی حُسن کا اشارا ہے

عجب اصول ہیں اس کاروبارِ دُنیا کے
کسی کا قرض کسی اور نے اُتارا ہے

کہیں پہ ہے کوئی خُوشبو کہ جس کے ہونے کا
تمام عالم ِموجود استعارا ہے

نجانے کب تھا! کہاں تھا مگر یہ لگتا ہے
یہ وقت پہلے بھی ہم نے کہیں گزارا ہے

یہ دو کنارے تو دریا کے ہو گئے ، ہم تم!
مگر وہ کون ہے جو تیسرا کنارا ہے

امجد اسلام امجد

11/02/2023

انا للہ و انا الیہ راجعون۔💔

اگر کبھی میری یاد آئے
تو چاند راتوں کی نرم دلگیر روشنی میں
کسی ستارے کو دیکھ لینا
اگر وہ نخل فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آ گرے تو
یہ جان لینا وہ استعارہ تھا میرے دل کا
اگر نہ آئے------
مگر یہ ممکن ہی کس طرح ہے تم کسی پر نگاہ ڈالو
تو اس کی دیوار جاں نہ ٹوٹے
وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
اگر کبھی میری یاد آئے

گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
میں خوشبوؤں میں تمہیں ملوں گا
مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
میں اوس قطروں کے آئنوں میں تمہیں ملوں گا
اگر ستاروں میں اوس قطروں میں خوشبوؤں میں
نہ پاؤ مجھ کو
تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
میں گرد ہوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
کہیں پہ روشن چراغ دیکھو تو سوچ لینا
کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی خاک دریا میں ڈال دینا
میں خاک بن کر سمندروں میں سفر کروں گا
کسی نہ دیکھے ھوئے جزیرے پہ رک کے تم کو
صدائیں دوں گا
سمندروں کے سفر پہ نکلو تو
اس جزیرے پہ بھی اترنا!

امجد اسلام امجد

انا للہ و انا الیہ راجعون۔💔امجد اسلام امجدخدا آپ کی مغفرت کرے اور جنّت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین🤲پَیڑ کو دِیمک لگ ج...
10/02/2023

انا للہ و انا الیہ راجعون۔💔
امجد اسلام امجد
خدا آپ کی مغفرت کرے اور جنّت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے آمین🤲

پَیڑ کو دِیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجدؔ ہم نے بچتے دیکھا کم

امجد اسلام امجدؔ

05/02/2023

یومِ یکجہتیِ کشمیر !

گھروں میں دُبکے ہوئے حامیوں کا کیا مطلب؟
یہ کربلا ہے، یہاں کوفیوں کا کیا مطلب؟
تمہارے خَط ہمیں ہر دور میں بلاتے رہے
تو اب یہ کھوکھلی یک جہتیوں کا کیا مطلب ؟

عَلَم اٹھا نہیں سکتے ، کہ مر گئے ہو تم
کفن پہن لو، کفن ہی تمہارے ناپ کے ہیں !
یہ کوفیوں کی روایت ہے بعدِ قتلِ حسین
حسینیوں کو یہ کہنا، کہ ہم تو آپ کے ہیں !

سو کربلا ہو کہ کشمیر ، کیسے ممکن ہے؟
کہ کوفیوں کے دلاسوں سے اشک تھم جائیں ؟

راز احتشام
Raaz Ahtesham
Links:-
Facebook :
https://www.facebook.com/SukhanWari18/

YouTube :-
https://youtube.com/

Instagram :- https://www.instagram.com/tv/CVbN68wBhmt/?utm_medium=copy_link


04/02/2023

ہے محمد ﷺ مرا دل تو سینہ علیؑ
میرے جینے کا واحد قرینہ علیؑ
دینِ اسلام کا ہے نگینہ علیؑ
حق کی منزل کا پہلا ہے زینہ علیؑ
دشت میں ابر کا پہلا قطرہ علیؑ
میرا مرشد بھی آقا بھی مولا علیؑ
علیؑ مولا علیؑ

ہر سو صدائے حیدری یا علیؑ، علیؑ، علیؑ
جانم فدائے حیدری یا علیؑ، علیؑ، علیؑ

Links:-
Facebook :
https://www.facebook.com/SukhanWari18/

YouTube :-
https://youtube.com/

Instagram :- https://www.instagram.com/tv/CVbN68wBhmt/?utm_medium=copy_link

30/01/2023

یہ تیرے راندہِ درگاہ سے کوئی پوچھے
زمانے بھر کو پرستار کیسے کرتے ہیں

راز احتشام

جنم دن کی ڈھیروں مبارک باد پیارے شاعر 💓🥀

23/01/2023

ہر دکھ مجھے قبول ۔۔۔۔۔۔۔مگر یہ ستم نہ ہو
یا رب ! بچھڑتے وقت بھی وہ آنکھ نم نہ ہو

یہ کیا کہ ساری رات کٹے جاگتے ہوئے
اور پھر بس ایک شعر ہو اس میں بھی دم نہ ہو

یہ کیا کہ ایک در سے بندھے ہوں تمام عمر
یہ کیا کہ ایک بار بھی نظرِ کرم نہ ہو

یہ کیا کہ کہ شعر شعر سے ٹپکیں لہو کے اشک
لیکن یہ کیا کہ زندگی میں کوئی غم نہ ہو

یہ کیا کہ سب سے داد کے طالب ہو شاعرو !
یعنی کہ وہ بھی روئے جسے کوئی غم نہ ہو؟

اے کاش اپنی جنگ چھڑے اس بدن کے ساتھ
اور دونوں سمت امن کا کوئی علم نہ ہو

سانسیں اکھڑ اکھڑ کے چلیں پر چلیں ضرور
ہم میں جدائی ہو تو کبھی ایک دم نہ ہو

احسن سلیمان
Ahsan Suleman

Links:-
Facebook :
https://www.facebook.com/SukhanWari18/

YouTube :-
https://youtube.com/

Instagram :- https://www.instagram.com/tv/CVbN68wBhmt/?utm_medium=copy_link

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا جگر مراد آبادیAlhamdullillah We just hits our 1k Subs...
18/01/2023

اپنا زمانہ آپ بناتے ہیں اہلِ دل
ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا

جگر مراد آبادی

Alhamdullillah We just hits our 1k Subscribers on YouTube... Thanks for your Love & Support. 💓 Subscribe to Our YouTube Channel ⬇

https://youtu.be/CEN_bQYGXpo

ممتاز نعت گو شاعر ثنا خوانِ مصطفٰیؐ امتیاز احمد شائق صاحب کی سالگرہ کے موقع پر تحریر💚💚انتہائی خوش اخلاق ، شریف نفس اور ب...
31/12/2022

ممتاز نعت گو شاعر ثنا خوانِ مصطفٰیؐ امتیاز احمد شائق صاحب کی سالگرہ کے موقع پر تحریر💚💚
انتہائی خوش اخلاق ، شریف نفس اور بہت ہی محبت کرنے والے انسان ۔
غم ہو یا پریشانی ہر وقت چہرے پے مسکراہٹ سجائے رکھنا اِن کی عادت ۔ محفل کو ترنم سے سجانا ان کے اوصاف۔ ہر ایک شخص سے محبت سے ملنا اور خیال رکھنا اِن کا مشغلہ
شعراء اور ثنا خوانِ مصطفٰیؐ سے محبت ،مروت ، خیال ، اور تربیت میں کوئی کثر نہیں چھوڑتے ۔

مذہبی،روحانی اور درگاہی ماحول میں آنکھ کھولنے والے امتیاز احمد شائق ایڈووکیٹ کو اللہ پاک نے اپنے حبیبؐ کے صدقے بے پناہ۔ صلاحیتوں سے نوازا۔
ان کی ذات سے ایک ہی شکوہ رہا ہے اور رہے گا۔
وہ ہے ان کی سست روی جو ان کی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔

آج ہم ان کی ایک جہت کو لیں گے۔وہ ہے ان کی شاعری۔
اور پھر ان کا ترنم ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیتا ہے۔
چند اشعار نمونے کے طور پر

میرے مولا کرم مجھ پر یونہی صُبْح و مَسا رکھنا
مجھے مصروفِ مِدحِ سیدِ ہر دو سرٰی رکھنا
بچائے گا نہ کوئی آپﷺ کے بن حشر میں شائؔق
بجز اُن ﷺ کے کوئی اُمید نہ کوئی آسرا رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نوروبشر کی بحث سے بالا مرے رسولؐ۔
افضل مرے رسولؐ ہیں اعلیٰ مرے رسولؐ۔
شائق اگر غزل میں سمیٹوں یہ کائنات۔
مطع مرے رسولؐ ہیں مقطع مرے رسولؐ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک نہیں پانچ ہیں شائؔق وہ مددگار میرے
مشکل آ جائے تو پنجتنؑ کو صدا دیتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس کے لمس کو ترسیں فرشتے۔
خوشا قسمت وہی پکڑی ہوئی ہے۔
لگے ہے پست شائق ہر بلندی۔
کہ دہلیزِ علیؑ پکڑی ہوئی ھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدے کا احترام سِکھایا حسینؑ نے
سجدہ کیا تو سر نہ اُٹھایا حسینؑ نے
شائق خدا کا دین بھی پیاسا تھا کس قدر
آلِ نبیؐ کا خون پلایا حسینؑ نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ہی در سے رب کی ہر اک دین ملے۔
عزت،عظمت،راحت،دولت چین ملے۔
رب رسول بھی اس کو اپنا کہتے ہیں۔
جس کو شائق مولا حسنؑ،حسینؑ ملے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مثالی ہے جہاں بھر میں ادا ' عباسؑ غازی کی
وفا کو ناز ہے جِس پر وفا ' عباسؑ غازی کی
بنا لوں گا اُسے سرمہ میں اپنی آنکھ کا شائؔق
اگر مل جائے مجھ کو خاکِ پا ' عباسؑ غازی کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی ہی صنف سے،کب دوسری سے خطرہ رہا
کہ آدمی کو تو بس آدمی سے خطرہ رہا
وہ ہر محاذ سے پلٹا تو سرخرو ہو کر
وہ کیا کرے کہ جسے دوستی سے خطرہ رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قافلے کتنے اس میں خاک ہوئے
کتنا مشکل ہے راستہ ، دل کا
دل نے مانگی تھی یار کی صورت
اب کروں کیسے سامنا ، دل کا
ایک ہی حل ہے امنِ عالم کا
دل سے ہو ختم فاصلہ دل کا
اُن کا گھر ہوں انہی کا مسکن ہوں
آخری شائؔق ہے فیصلہ دل کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو قبیلوں کی آنا نے مات دے ڈالی ہمیں۔
اک آنا کی جنگ کے ہم درمیاں لوٹے گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Imtiaz Ahmed Shaiq Official

30/11/2022

ایک ہی شخص مصیبت میں مرے ساتھ رہا
اور وہ شخص کوئی اور نہیں تھا ،میں تھا

جہانزیب ساحر

29/11/2022

نئی زبان ملی ہے سو ایسا بولتے ہیں
شروع میں تو سبھی الٹا سیدھا بولتے ہیں

خدا کرے کہ کبھی بات بھی نہ کر پائیں
یہ جتنے لوگ تیرے آگے اونچا بولتے ہیں

اسے کہا تھا کہ لوگوں سے گفتگو نہ کرے
اب اس کے شہر کے سب لوگ میٹھا بولتے ہیں

کسی سے بولنا باقاعدہ نہیں سیکھا
بس ایک روز یونہی خود سے سوچا بولتے ہیں

نکل کے شور سے آئی تھی اک درخت تلے
مگر یہاں تو پرندے بھی کتنا بولتے ہیں

ہم ایسے لوگ کوئی بات دل میں رکھتے نہیں
کسی سے کوئی گلہ ہو تو سیدھا بولتے ہیں

امن شہزادیشہزادی

15/11/2022

کیا بھید ہے پانی میں بتاتا نہیں پانی
کُھل کر بھی علی سامنے آتا نہیں پانی

یہ صرف کوئی چیز نہیں علم ہے پورا
افسوس مگر آپ کو آتا نہیں پانی

تم نے کبھی چکھی ہو تو کچھ تم کو پتا ہو
وہ آگ جسے خود بھی بجھاتا نہیں پانی۔۔

درویش امانت میں خیانت نہیں کرتے
مِٹی سے کوئی بات چھپاتا نہیں پانی

یہ کھیل کہیں تجھ کو میاں لے ہی نہ ڈوبے
پیاسوں کو دکھاتا ہے پلاتا نہیں پانی

علی زریون
Ali Zaryoun

13/11/2022

لفظ کتنے ہی تیرے پیروں سے لپٹے ہونگے
تو نے جب آخری خط میرا جلایا ہوگا

تو نے جب پھول کتابوں سے نکالے ہوں گے
دینے والا بھی تجھے یاد تو آیا ہوگا

تو نے کس نام سے بدلا ہے میرا نام بتا
کس کو لکھا تو میرا نام مٹایا ہوگا

یونہی کچھ سوچ لیا ہوگا مکرنے کا سبب
پھر میرا جرم بھی لوگوں کو بتایا ہوگا

خلیل الرحمن قمر

جنم دن بہت بہت مبارک ہو استادِ محترم ❤کیسے بھی ھوں حالات نمٹ لیتا ھوں ہنس کرسنگین نتائج کا نہیں ڈر مرے اندرشوزیب کاشرSho...
12/11/2022

جنم دن بہت بہت مبارک ہو استادِ محترم ❤

کیسے بھی ھوں حالات نمٹ لیتا ھوں ہنس کر
سنگین نتائج کا نہیں ڈر مرے اندر

شوزیب کاشر
Shozaib Kashir | Shozaib Kashir - poet

Happy Birthday Sir Shozaib Kashir..
ﷲ پاک آپکو ہمیشہ خوش رکھے ❤

منفعت  ایک ہے ! اس قوم کی نقصان بھی ایک ایک ہی سب کا نبی ﷺ ، دین بھی ، ایمان بھی ایک حرم پاک بھی ، الله بھی ، قرآن  بھی ...
09/11/2022

منفعت ایک ہے ! اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی ﷺ ، دین بھی ، ایمان بھی ایک

حرم پاک بھی ، الله بھی ، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

فرقہ بندی ہے کہیں ، اور کہیں ذاتیں ہیں !
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں ؟

یوم اقبالؒ
_____________________________________________

علامہ اقبال : ایک تعارف

کہاں سے تُو نے اے اقبالؔ سِیکھی ہے یہ درویشی
کہ چرچا پادشاہوں میں ہے تیری بے نیازی کا

دوستوں برصغیر پاک و ہند میں یوں تو بے شمار عظیم ہستیوں نے جنم لیا جنہوں نے آپ اپنی سوچ سے فکر، خیالات، تصورات کے ذریعے مسلمانان ہند کے لیے گراں قدر خدمات سر انجام دیں ان ہی نامور ہستیوں میں ایک نام ڈاکٹر علامہ اقبال کا ہے جن کو اہل پاک و ہند مفکر پاکستان اور شاعر مشرق کے نام سے جانتے ہیں جب کہ عالم اسلام حکیم الامت کے نام سے یاد کرتا ہے دوستوں اب میں آپ کو علامہ اقبال کا تصور چند سطروں میں کروا دیتا ہوں

﴿ علامہ اقبال کا حلیہ ﴾
بال لمبے لمبے، چمکتی آنکھیں ، روشن دماغ
قد آور ، ہاتھ قلم ، دل غم زدہ ، صحت خوب
و خیال ، چھوٹی چھوٹی مونچھیں

﴿ پیدائش اور نام ﴾
آپ کا اصل نام محمد اقبال تھا آپ ۹ نومبر ۱۸۷۷ ء کو شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے آپ کی تاریخ پیدائش کے حوالے سے ڈاکٹر فرمان فتح پوری لکھتے ہیں
ڈاکٹر علامہ محمد کی تاریخ پیدائش ۹ نومبر
۱۸۷۷ ء بمطابق ۳ ذی القعدہ ۱۶۹۴ھ ہے اس کے علاؤہ
جتنی تاریخیں اور سنین مختلف کتابوں میں نظر
آتے ہیں نہیں غلط سمجھا جائے

﴿ والد اور والدہ ﴾
ڈاکٹر علامہ اقبال کی والدہ کا نام امام بی بی تھا وہ لکھنا پڑھنا نہ جانتی تھیں امام بی بی کا انتقال ۱۹۱۵ میں ہوا ان کا مزار میں سیالکوٹ ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر علامہ اقبال کی والدہ کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں
اقبال کی والدہ امام بی بی کوئی سند
نہیں رکھتی تھیں نہایت سلیقہ مند اور
منظم کار خاتون تھیں ان کے حسن سلوک
ایثار محبت کے اپنے غیر سبھی گرویدہ تھے
وہ ضرورت مندوں کی مدد ایسے کرتی کہ
کسی کو اس کے متعلق خبر نہ ہو
ڈاکٹر علامہ اقبال کے والد کا نام شیخ نور محمد تھا ان کو میاں جی کے نام سے بھی پکار جاتا تھا وہ اردو فارسی کی کتابیں باآسانی پڑھ لیتے تھے ان کا انتقال ۱۹۲۹ میں ہوا ان کا مزار سیالکوٹ میں ہے ڈاکٹر افتخار احمد صدیقی ڈاکٹر علامہ اقبال کی والد کے بارے میں کچھ یوں لکھتے ہیں
روشن آنکھیں اور نورانی چہرہ اچھے قد آور
تھے اعلیٰ ظرف کے مالک اور ان کی طبیعت
میں سادہ پن موجود تھا

﴿ بہن بھائی ﴾
شیخ نور محمد کی شادی امام بی بی سے ہوئی اور ان سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے پیدا ہوئے ۔ بڑے بیٹے کا نام شیخ عطا محمد اور چھوٹے کا نام شیخ محمد اقبالؔ رکھا گیا منجھلہ بیٹا پیدائش ہی کے وقت فوت ہو گیا

﴿ بچپن ﴾
بچپن میں سید زکی اور خوشیا اقبال کے قریبی دوست تھے۔ زکی آپ کے استاد مکرم سید میر حسن کے بیٹے تھے۔ اقبال ان کے ساتھ کبوتر بازی اور شطرنج کے شوقین تھے۔ دوست اقبال کو بالا اور کچھ بابا کہتے۔ خوشیا تو جگت چاچا تھا جو عمر میں اقبال سے شاید بڑے تھے ،مگر علامہ کی وفات کے بعد بھی زندہ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کبھی کبھار میں اقبال سے کہتا تھا کہ بالے یار چھوڑ ہم کس مصیبت میں پڑے ہیں کوئی چج کا کام کریں تو بالا عجیب گفتگو کرتا۔ وہ کہتا خوشیا کبوتروں کو نیلے آسمان پر اوپر سے اوپر جاتے دیکھ کر آسمان کی بے حد وسعتوں میں اڑتا ہوا دیکھتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ میں بھی ان کے ساتھ پرواز کر رہا ہوں میرے اندر عجیب و غریب سوچ اور جوش برپا ہوتا ہے۔
﴿ ابتدائی تعلیم ﴾
ڈاکٹر علامہ اقبال نے اپنی بتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی شیخ نور محمد کو قرآن پاک سے خاص لگاؤ تھا یہی لگاؤ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر علامہ اقبال کو بھی عطا فرمایا علامہ اقبال نے بتدائی تعلیم اور تربیت ایک دینی مدرسے سے ہوئی جس کے بعد آپ سیالکوٹ کے مشن ہائی اسکول میں داخل ہوئے ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار ان کی بتدائی تعلیم کے حوالے سے لکھتے ہیں
اقبال کی بتدائی تعلیم قرآن مجید کے مطالعے
سے شروع ہوئی اور اس کے ساتھ ساتھ چند
عربی اور فارسی کی کتب مکتب میں پڑھیں

﴿ میر حسن اور اقبال ﴾
مولوی سید میر حسن کی وجہ شہرت اُن کے نامور شاگرد علامہ محمد اقبال ہیں۔ محمد اقبال نے آپ سے عربی زبان اور فارسی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ محمد اقبال میں جذبہ شاعری کو بیدار کرنے والے میر حسن ہی تھے۔ محمد اقبال کی ابتدائی شاعری میں میر حسن کی تعلیمات کا اثر نظر آتا ہے۔ 1923ء میں جب تاجِ برطانیہ کی جانب سے محمد اقبال کو سر (Sir) کا خطاب دیا جانے لگا تو اُنہوں نے مطالبہ کیا کہ اُن کے استاد (مولوی میر حسن) کو بھی شمس العلماء کا خطاب دیا جائے وگرنہ وہ سر (Sir) کا خطاب قبول نہیں کریں گے۔ لیکن انگریز گورنر جنرل نے اصرار کیا کہ اُنہوں نے ہنوز کوئی کتاب تصنیف نہیں کی جس کے پیش نظر یہ خطاب نہیں دیا جاسکتا۔ محمد اقبال نے کہا: "میں خود اُن کی تصنیف ہوں"۔ اِس پر برطانوی حکومت کو مولوی میر حسن کو شمس العلماء کا خطاب دینا ہی پڑا
﴿ تعلیم ﴾
علامہ اقبال نے ۶ مئی ۱۸۹۳ میں اسکاچ مشن ہائی اسکول سیالکوٹ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ میٹرک کا امتحان پاس کیا اور ایف اے کا امتحان ۱۸۹۵ میں اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے فرسٹ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا بی اے کا امتحان ۱۸۹۷ میں گورنمنٹ کالج لاہور سے سکینڈ ڈویژن کے ساتھ پاس کیا ایم اے فلسفہ کا امتحان ۱۸۹۹ میں پاس کیا گورنمنٹ کالج لاہور سے دسمبر ۱۹۰۵ ء کو علامہ اقبال اعلی تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج یونیورسٹی ٹرنٹی کالج میں داخلہ لے لیا۔ آپ نے میونخ یونیورسٹی سے آپ نے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی

﴿ شادی ﴾
علامہ اقبال نے تین شادیاں کیں علامہ اقبال کی پہلی شادی کریم بی بی کے ساتھ ۱۸۹۵ میں ہوئی ان کے بطن سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئی دوسری شادی علامہ اقبال نے سردار بیگم سے ۱۹۱۰ میں کی ان کے بطن سے ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام جاوید اقبال تھا تیسری شادی بیگم مختار سے کی ۱۹۱۴ میں

﴿ اقبال اور عشقِ مجازی ﴾
علامہ اقبال کی شخصیت کے ڈھکے چھپے نفسیاتی تضادات اس وقت ابھر کر سامنے آئے جب وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے ایشیا سے یورپ تشریف لے گئے۔ علامہ اقبال جب مشرق کی رومانوی گھٹن کی شکار فضا چھوڑ کر مغرب کی آزاد فضا میں داخل ہوئے تو انہیں یہ جان کر خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان کی شخصیت اس قدر مقناطیسیت کی حامل تھی کہ مختلف ثقافتوں کی حسین و جمیل عورتیں ان پر فریفتہ ہونے کے لیے تیار تھیں۔ موہن داس گاندھی تو لندن آ کر بھی گوشت، شراب اور عورت سے مجتنب رہے لیکن اقبال نے مغرب کی نعمتوں سے پوری طرح استفادہ کیا اور نئی دوستیاں بنانے اور نبھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی۔ ان دوستیوں میں مغرب کی حسیں دوشیزائیں بھی شامل تھیں اور مشرق کی دخترانِ خوش گل بھی اور ان میں سے ایک عطیہ فیضی تھیں اقبال اور عطیہ فیضی کے رشتے نے قلیل عرصے میں قربتوں کا طویل فاصلہ طے کر لیا اور ان کے راہ و رسم اتنے بڑھے کہ شام کو مل کر کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنا اور زندگی کے اسرار و رموز کے بارے میں تبادلہِ خیال کرنا ان کا معمول بن گیا۔ اقبال عطیہ فیضی کے حسن و جمال کے ہی نہیں ان کی ذہانت اور قابلیت سے بھی متاثر تھے۔ وہ عطیہ کی رائے کا اتنا احترام کرتے تھے کہ انہوں نے اپنے پی ایچ ڈی کے تھیسسPh D Thesis کے بارے میں ان کی قیمتی رائے مانگی تھی۔جب ہم عطیہ فیضی کی ڈائری پڑھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ان کا رشتہ اس موڑ پر پہنچ چکا تھا جہاں دوستی اور محبت آپس میں بغلگیر ہو جاتے ہیں۔ عطیہ لکھتی ہیں کہ ایک دن جب وہ اقبال کے دوستوں اور اساتذہ کے ہمراہ ان کے گھر گئیں تا کہ انہیں پکنک کے لیے لے جا سکیں تو سب نے اقبال کو مراقبے میں مستغرق پایا۔ وہ نجانے کب سے دنیا و مافیہا سے بے خبر عالمِ بے خودی میں کھوئے ہوئے تھے۔ دوستوں نے بہت کوشش کی لیکن وہ اقبال کو ہوش میں نہ لا سکے۔ آخر عطیہ فیضی نے باقی دوستوں کو باہر بھیجا اور اپنی بے تکلفی اور اپنائیت کا سہارا لیتے ہوئے انہیں اتنا زور زور سے جھنجھوڑا کہ وہ ہوش میں آ گئے۔ اس ایک واقعہ سے اقبال اور عطیہ کی خصوصی دوستی اور چاہت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ عطیہ کی ڈائری سے اندازہ ہوتا ہے جیسے وہ اپنے دوست کی بجائے اپنے محبوب کی کہانی سنا رہی ہوں۔1908 میں جب اقبال مغربی تعلیم ختم کر کے ہندوستان لوٹے تو انہیں ایک نفسیاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ اپنے روایتی ماحول اور ناگفتہ بہ حالات سے اتنے دل برداشتہ ہوئے کہ گھر اور ملک سے بھاگ جانے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے۔ ان دنوں انہوں نے عطیہ فیضی کو ایک خط لکھا جس میں انہوں نے اپنا حالِ دل رقم کیا ہے۔ اس خط کا ذکر عبدالجید سالک نے اقبال کی سوانح حیات ’ذکرِ اقبال، میں بھی کیا ہے کیونکہ وہ خط کئی حوالوں سے بعد میں اقبال کا مشہور ترین اور بدنام ترین خط ثابت ہوا۔ اس خط میں اقبال نے اپنی زندگی سے بیزاری اور غصے کا اظٖہار کیا ہے۔ اس خط میں انہوں نے اپنی ذہنی اذیت کا کچھ حد تک ذمہ دار اپنی بیوی کو قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کے والد نے نوجوانی میں ان کی زبردستی شادی کر دی تھی اور وہ بندھن ان کے پائوں کی زنجیر بن گیا تھا کیونکہ اقبال اپنی بیوی سے ذہنی مطابقت محسوس نہ کرتے تھے۔ اقبال نے یہ بھی لکھا کہ کبھی کبھار وہ سوچتے ہیں کہ اپنے تمام دکھوں کو شراب میں گھول کر پی جائیں کیونکہ شراب خود کشی کو آسان بنا دیتی ہے۔ اقبال اپنے 9 اپریل 1909 کے خط میں رقم طراز ہیں ’ میں بیوی کو نان نفقہ دینے پر آمادہ ہوں لیکن میں اسے اپنے پاس رکھ کر اپنی زندگی کو عذاب بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ایک انسان کی حیثیت سے مجھے مسرت کے حصول کا پورا حق حاصل ہے۔ اگر معاشرہ یا فطرت میرے اس حق سے انکار کریں گے تو میں دونوں کے خلاف بغاوت کروں گا۔ میرے لیے صرف ایک ہی چارہ ہے کہ میں اس بدبخت ملک کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ دوں یا مے خواری میں پناہ ڈھونڈوں جس سے خود کشی آسان ہو جاتی ہے۔ کتابوں کے یہ مردہ بے جان اور بنجر اوراق مسرت نہیں دے سکتے اور میری روح کے اعماق میں اس قدر آگ بھری ہوئی ہے کہ ان کتابوں کو اور ان کے ساتھ ہی معاشرتی رسوم و روایات کو بھی جلا کر خاکستر بنا سکتا ہوں،

﴿ اقبال کی شاعری کے ادوار ﴾
پہلا دور (شروع سے 1905 تک)
دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)
تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)
چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)

پہلا دور (شروع سے 1905 تک)
علامہ اقبالؒ نے تقریبا ًسولہ سال کی عمر میں اپنی شاعری کا آغاز کیا اور اسے ساری زندگی جاری رکھا۔ جیسا کہ شیخ عبد القادر نے بانگِ درا (علامہ اقبال کی شاعری کی پہلی کتاب جو 1924 ء میں شائع ہوئی) کے دیباچہ میں لکھا ہے:
ابتدائی مشق کے دنوں کو چھوڑ کر اقبال کا اردو کلام بیسویں صدی کے آغاز سے کچھ پہلے شروع ہوتا ہے۔
1901ء سے غالباً دو تین سال پہلے میں نے انہیں پہلی مرتبہ لاہور کے ایک مشاعرے میں دیکھا۔ اس بزم میں ان کو ان کے چند ہم جماعت کھینچ کر لے آئے اور انہوں نے کہہ سن کر ایک غزل بھی پڑھوائی۔اس وقت تک لاہور میں لوگ ان سے واقف نہ تھے۔ چھوٹی سی غزل تھی۔ سادہ سے الفاظ۔ زمین بھی مشکل نہ تھی۔مگر کلام میں شوخی اور بے ساختہ پن موجود تھا۔بہت پسند کی گئی۔
علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز غزلوں سے ہوا، ان میں سے کچھ کا تعلق اردو کی کلاسیک شاعری سے جڑتا ہے، جیسے بانگِ درا کی ایک غزل میں وہ کہتے ہیں:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیا تھی

علامہ اقبال ؒنے سیاست اور دیگر شعبوں کے بارے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے غزلوں اور نظموں کا استعمال شروع کیا گیا انہوں نے اپنے سیاسی، فلسفیانہ، مذہبی اور صوفیانہ خیالات کو عام کرنے کے لیے شاعری کا موثر استعمال کیا کیونکہ یہ ان کے پاس ایک ایسا نادر تحفہ تھا جس سے وہ مطلوبہ اثرات پیدا کرنے کی قدرت رکھتے تھے۔ بانگِ درا حصہ اوّل کی تقریباً تمام نظمیں اس کی ترجمان ہیں۔ یہاں ان کی پہلی نظم”ہمالہ“سے کچھ اشعار پیش کیے جاتے ہیں۔
اے ہمالہ! داستاں اس وقت کی کوئی سنا
مسکنِ آبائے انساں جب بنا دامن ترا

کچھ بتا اس سیدھی سادی زندگی کا ماجرا
داغ جس پر غازی رنگِ تکلف کا نہ تھا

ہاں دکھا دے اے تصور پھر وہ صبح شام تو
دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تو

علامہ اقبال کی ابتدائی نظمیں میرؔ، غالبؔ اور داغؔ کے انداز میں کہی گئیں، کلاسیکی غزلیں ہیں۔ انہوں نے بچوں کے لئے کچھ نظمیں بھی لکھیں، جو بانگِ درا کے پہلے حصے کے آغاز میں شامل ہیں۔ ان میں سے کچھ بہت اعلیٰ درجے کی ہیں جو نوخیز اذہان کے سمجھنے کی دسترس سے کسی حد تک باہر ہیں؛ جیسے ''پرندے کی فریاد''۔ یہاں تک کہ اس ابتدائی مرحلے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں ان کے فلسفہ خودی کے کچھ عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انسان اور بزم قدرت
دسترس سے کسی حد تک باہر ہیں؛ جیسے ''پرندے کی فریاد''۔ یہاں تک کہ اس ابتدائی مرحلے میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جن میں ان کے فلسفہ خودی کے کچھ عناصر دیکھے جاسکتے ہیں۔ مثلاً، انسان اور بزم قدرت۔

دوسرا دور (1905 سے 1908 تک)
یہ دور علامہ اقبالؒ کی شاعری کا سب سے مختصر دور ہے جس میں وہ اپنی تعلیم کے حصول میں زیادہ مصروف رہے۔ اسی وجہ سے، اس دور میں شاعرانہ کام بہت کم ہوا۔ ان کی شاعری کا دوسرا دور 1905 ء سے 1908 ء تک محیط ہے، جو انہوں نے یورپ میں گزارا۔ اس عرصے میں اقبالؒ نے شاعری ترک کرنے کا فیصلہ کیا؛لیکن سر آرنلڈ (علامہ اقبال کے استاد جنہوں نے انہیں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھایا) کے مشورے پر، انہوں نے شاعری جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ شاعری کے پہلے دور میں ان کی توجہ ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں پر مرکوز تھی لیکن قیامِ یورپ کے دوران، ان کا اولین مقصد پوری دنیا اور اس کے مسائل نیز مسلمانوں اور اسلام کی طرف ہوگیا اور بہت جلد انہیں معلوم ہوگیا کہ دنیا کے مسلمانوں کے بنیادی مسائل منفرد اور یکساں ہیں اور ان کے حل کے لئے پوری مسلم دنیا کی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے۔

فلسفہ خودی کا تصور اسی دور کی نظموں میں شروع ہوا۔نیز بیخودی کے حوالہ جا ت بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ذیل میں ان کی نظم ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ سے چند اشعار رقم کیے جارہے ہیں جن سے ان کے اس دور کے فکر و فلسفہ کا اندازہ کیا جاسکتا ہے:
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اور ہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے

طائرِ زیرِ دام کے نالے تو سن چکے
یہ بھی سنو کہ نالہ طائرِ زیرِ بام اور ہے

تیسرا دور (1908 سے 1924 تک)
علامہ اقبالؒ کی شاعری کا یہ طویل عرصہ ہے جو سولہ سالوں پر محیط ہے اور علامہ اقبال کی زندگی کا اہم ترین دور ہے۔ 1908 ء تک، انہوں نے ان تمام علوم پر دسترس حاصل کر لی تھی جن کی انہیں ضرورت تھی اوران کی سوچ میں پختگی آ گئی تھی۔ اس عرصے کے دوران، انہوں نے سب سے زیادہ نثری اور شعری ادب تخلیق کیا، جو اپنے معیار کی بدولت اسلام اور مسلمانوں کے لئے باعثِ فخر ہے۔ یہ اردو اور فارسی ادب کے لئے بھی ایک انمول دولت ہے۔ اس دور میں ان کی تین فارسی کتابیں (اسرارِ خودی — 1915، رموزِ بیخودی 1918 اور پیامِ مشرق — 1923) اور اردو میں ایک کتاب (بانگِ درا— 1924) منصہئ شہود پر آئیں۔ پہلی دو کتابوں میں، انہوں نے اپنا فلسفہ خودی اور فلسفہ بیخودی پیش کیا، جب کہ پیام مشرق میں مشہور یورپی شاعر گوئٹے کے ”سلامِ مغرب“ کا جواب لکھا اور انہوں نے بہت ہی دلکش انداز سے اپنے فلسفیانہ خیالات کا اظہار کیا۔”طلوع اسلام“جو کہ بانگِ درا کی آخری طویل نظم ہے، اس میں اسلام کی نشاۃِ ثانیہ کی نوید اور امید کا تذکرہ کیا گیا ہے۔اس شاہکار نظم سے کچھ اشعار ملاحظہ کریں:
خدائے لم یزل کا دستِ قدرت تو، زباں تو ہے
یقیں پیدا کر اے غافل کہ مغلوبِ گماں تو ہے

پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں، وہ کارواں تو ہے

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا،شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

اسی دور کے چند اور اشعار دیکھیے:
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
یقیں افراد کا سرمایہئ تعمیر ملت ہے
یہی قوت ہے جو صورت گرِ تقدیرِ ملت ہے

اور وہ مزید کہتے ہیں:
تو رازِ کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا خدا کا ترجماں ہو جا

علامہ اقبالؒ نے مسلم دنیا کے مسائل کو حل کرنے کے لیے ٹھوس تجاویز پیش کیں نیز مسلمانوں کوان کا شاندار ماضی یاد دلا کردارِ انحطاط سے نکلنے اور روشن مستقبل کی طرف بڑھنے کی نوید سنائی کہ جس پر وہ بجا طور پر فخر کرسکیں اور اللہ کا نائب ہونے کا فریضہ ادا کر سکیں جس کے لیے درحقیقت انہیں پیدا کیا گیا۔

چوتھا دور (1924 سے 1938 تک)
علامہ اقبالؒ نے شاعری کے اس آخری دور میں متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں زبور ِعجم— 1927،افکارِ اسلامی کی تشکیلِ نو — 1930، جاوید نام—1932، بالِ جبریل— 1935، ضربِ کلیم — 1936 اور آخری ارمغانِ حجاز— 1938 (یہ کتاب ان کی وفات کے بعد شائع ہوئی)۔ اس دور میں انہیں ذہنی سکون میسر آیا، جس نے انہیں خودی اور بیخودی کے نظریہ کے ساتھ ساتھ اس کے اجزاء کی وضاحت کرنے کے مواقع فراہم کیے۔

اس دور میں اللہ تعالیٰ،رسول اللہ ﷺ اور سر زمین حجاز سے ان کی محبت بھی عروج پر پہنچی۔ مغرب کی سیکولر قوم پرستی کی کوتاہیوں اور نقائص کو پوری طرح سے بے نقاب کردیا گیا اور نظریاتی قومیت اور اسلامی ریاست کا تصور پیش کیا گیا۔ بالِ جبریل جو اس دور کی اردو شاعری کی پہلی کتاب ہے،اس میں پیغامِ خودی پورے جوبن پر ہے۔ ذیل میں ان کی مشہور نظم ”مسجد قرطبہ“ سے چند اشعارِ نمونے کے طور پر پیش کیے جارہے ہیں جس سے ان کی فکرِ رسا کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب

﴿ تصانیف ﴾
علم الاقتصاد ﴾علم الاقتصاد یا مضامین متعلق بہ اقتصاد (انگریزی: The Subject of Economics) علامہ اقبال کی تصنیف ہے جو اقتصاد کے موضوع پر اِرقام کی گئی ہے۔
یہ کتاب علامہ اقبال کی پہلی تصنیف ہے جو علامہ اقبال کے استاد تھامس آرنلڈ نکلسن کی فرمائش پر تحریر کی گئی تھی یہ کتاب ۱۹۰۳ میں شائع ہوئی
اسرار خودی ﴾ اسرار خودی فارسی کی ایک کتاب ہےیہ کتاب ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی۔
رموز بیخودی﴾ فارسی کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی دوسری فارسی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1918ء میں شائع ہوئی۔ یہ ان کی فارسی کتاب اسرار خودی کے تسلسل کی دوسری کتاب تھی۔
پیام مشرق ﴾ پیامِ مشرق عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی فلسفیانہ شاعری کی ایک تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1923ء میں شائع ہوئی۔
زبورِعجم ﴾ فارسی میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو برصغیر کے عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1927ء میں شائع زبورِعجم میں مثنوی گلستان راز جدید اور بندگی نامہ شامل ہیں۔ اس کتاب کو علامہ اقبال نے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دو حصوں میں کلاسیکی غزلیں اور دوسرے دو حصوں میں لمبی لمبی نظمیں ہیں
جاوید نامہ ﴾ فارسی شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریہ پاکستان کے خالق علامہ اقبال کی تصنیف ہے اور مثنوی کی شکل میں ہے اور تقریباً دو ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ کتاب پہلی بار 1932ء میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا شمار علامہ اقبال کی بہترین کتب میں سے ہوتا ہے اور وہ اسے اپنی زندگی کا حاصل سمجھتے تھے۔
بانگ درا ﴾ برصغیر کے عظیم شاعر و فلسفی محمد اقبال کی شاعری پر مشتمل پہلا مجموعہ کلام ہے جو 1924ء میں شائع ہوئی۔ بانگ درا کی شاعری علامہ محمد اقبال نے 20 سال کے عرصے میں اِرقام کی تھی اور اس مجموعے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔
بال جبریل ﴾ علامہ اقبال کے کلام کا مجموعہ ہے۔ یہ ان کا دوسرا مجموعہ کلام ہے جو بانگ درا کے بعد 1935ء میں منظر عام پر آئی۔ اس مجموعے میں اقبال کی بہترین طویل نظمیں موجود ہیں۔ جن میں مسجد قرطبہ۔ ذوق و شوق۔ اور ساقی نامہ شامل ہیں۔
ضرب کلیم ﴾ اردو زبان میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور پاکستان کے قومی شاعر علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1936ء میں ان کی وفات سے صرف دو سال قبل شائع ہوئی۔
ارمغان حجاز ﴾ فارسی زبان میں شاعری کی ایک کتاب ہے جو عظیم شاعر، فلسفی اور نظریۂ پاکستان کے بانی علامہ اقبال کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1938ء میں شائع ہوئی۔ ارمغان حجاز کا مطلب ہے حجاز کا تحفہ۔
فارس میں ماوراء الطبیعیات کا ارتقا ﴾ برصغیر پاک و ہند کے عظیم مفکر علامہ اقبال کا پی ایچ ڈی میں فلسفہ کے موضوع کا مقالہ تھا جو انہوں نے جامعہ میونخ میں 1908ء میں جمع کروایا اور اسی سال شائع ہوا
تجدیدِ فکریاتِ اسلام ﴾ یا "تشکیلِ جدید الٰہیاتِ اسلامیہ" علامہ اقبال کی ایک انگریزی کتاب The Reconstruction of Religious Thought in Islam کے اردو ترجمے کا نام ہے جو ان کے سات خطبات کا مجموعہ ہے۔ پہلے چھ خطبات انہوں نے دسمبر 1928ء اور جنوری 1929ء کے درمیان مسلم ایسوسی ایشن، مدراس کی دعوت پر مدراس، حیدر آباد دکن اور علی گڑھ میں پڑھے تھے۔ یہ خطبات سب سے پہلے 1930ء میں شائع ہوئے

﴿ اقبال کے کلام کی خصوصیات ﴾
رفعت تخیل ﴾
تخیل میں رفعت اور بلند آہنگی میں اقبال اردو کے تمام شاعروں سے سبقت لے گئے ہیں ان کی فلک بوس فکر کی روشنی میں قاری خیال کے نئے نئے افق دیکھتا ہے مثلاً
برتر از اندیشۂ سُود و زیاں ہے زندگی
ہے کبھی جاں اور کبھی تسلیم جاں ہے زندگی
کاسیکیت اور رومانیت ﴾
اقبال کی شاعری میں ہمیں فکر کی گہرائی اور جذبے کی شدت کے ساتھ ساتھ کاسیکیت کا ایک منفرد انداز بھی ملتا ہے
عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بےکراں سمجھا تھا میں
منظر نگاری ﴾
اقبال مناظر فطرت کی لفظی تصویریں بڑی خوبی سے کھینچتے ہیں
صف باندھے دونوں جانب بُوٹے ہرے ہرے ہوں
ندّی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو
تشبیہ و استعارہ ﴾
اقبال تشبیہوں اور استعاروں کو بڑی فنکارنہ مہارت کے ساتھ شعروں میں استمعال کرتے ہیں
جگنو کی روشنی ہے کاشانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
فلسفہ خودی ﴾
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے خودی کی تعلیم دی ہے
مرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے
خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر!
فلسفہ عشقِ ﴾
اقبال کی شاعری میں فلسفہ عشقِ کا رنگ بھی نظر آتا ہے
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
فرنگی مخالفت ﴾
علامہ اقبال نے اپنے کلام میں جابجا انگریز کی مخالفت کی ہے اور ہمشیہ اپنی قوم کو یہ سبق دیا کہ ہم مسلمانوں کا اپنا طریق حیات ہے ہمیں اپنے رسول ﷺ کی تعلیمات کی پیروی کرنی چاہیے انگریز کی اس ظاہری چمک دمک سے متاثر نہ ہونا
خِیرہ نہ کر سکا مجھے جلوۂ دانشِ فرنگ
سُرمہ ہے میری آنکھ کا خاکِ مدینہ و نجف
حقیقت پسندی ﴾
اقبال فطرت انسانی اور نفسیات کے گہرے رمز سے آشنا تھے وہ زندگی اور اس کے مصائب و وسائل کو حقیقت پسندانہ نظر سے دیکھتے تھے
اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خُوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
تہذیب اسلاف ﴾
علامہ اقبال نے ہمیشہ اسلاف کی تہذیب کی پیروی کی تعلیم دی غیروں کی نئی تہذیب کے نقصانات کو واضح کیا
اُٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
نوجوانوں سے خطاب ﴾
علامہ اقبال ایک انقلابی شاعر ہیں اور انقلاب کے لیے سب سے اہم طبقہ نوجوان نسل ہی ہوا کرتی ہے اس لئے علامہ اقبال نے اپنے کلام میں کئئ جگہ نوجوانوں کو مخاطب کیا
محبّت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

﴿ وفات ﴾
علامہ محمد اقبال 21 اپریل 1938ء بمطابق ۲۰، صفر المصفر ۱۳۵۷ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

﴿ حرفِ آخر ﴾
اقبال کے یہاں فکر اور جذبہ کی ایسی آمیزش ہے کہ ان کے فلسفیانہ افکار ان کی داخلی کیفیات و واردات کا آئینہ بن گئے ہیں۔ اسی لئے ان کے فلسفہ میں کشش اور جاذبیت ہے۔ اقبال نے اپنے عہد اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو ایسی زبان دی جو ہر طرح کے جذبات اور خیالات کو خوبصورتی کے ساتھ ادا کر سکے۔ ان کے بعد شروع ہونے والی ادبی تحریکیں کسی نہ کسی عنوان سے ان کے سحر میں گرفتار رہی ہیں۔ اردو کے تین عظیم شاعروں میں میرؔ کی شاعری اپنے قاری کو ان کا معتقد بناتی ہے، غالبؔ کی شاعری مرعوب و مسحور کرتی ہے ا
اور اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔

Copied

Address

Kamyal
Hajira

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Sukhan Wari posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category

Nearby media companies