ضرب قلم

ضرب قلم قلم کاری✒
(1)

تحریر: اشتیاق احمد خان بظاہر آزادی اور قانون دو متضاد الفاظ ہیں کیونکہ آزادی سے مراد عدم  پابندی لی جاتی ہے جبکہ قانون ا...
20/09/2023

تحریر: اشتیاق احمد خان

بظاہر آزادی اور قانون دو متضاد الفاظ ہیں کیونکہ آزادی سے مراد عدم پابندی لی جاتی ہے جبکہ قانون افراد پر حدود عائد کرتا ہے۔ حکومت روز مرہ کے حالات سے نمٹنے کیلئے عوام کے حق میں اور انکی منشاء کے مطابق قوانین پارلیمنٹ کے ذریعے وضع کرتی ہے جسے عام قانون کہا جاتا یے جسکا تعلق عوام سے ہوتا ہے ۔قوانین افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جاتے اور اسکا ایک اور مقصد یہ ہوتا ہیکہ اس سے شہریوں کو حکومت کے بےجا مداخلت سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
ہم دیکھتے ہیکہ ملک میں ایک عام شہری بھی حکومت کیخلاف ان قوانین کی مدد سے عدالتوں میں جاتا ہے اور اپنے حق کیلئے لڑتا ہے گویا ہم کہہ سکتے ہیکہ قوانین عوام نے بنائے اور یہ قوانین عوام ہی کیلئے ہوتے ہیں۔ سابق وزرائے اعظموں کو انھی قوانین کے ذریعے سزائیں دی گئیں اور انھیں قوانین کا سہارا لیتے ہوئے انکی حکومتوں کا خاتمہ بھی کیا گیا۔ مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست عوام پر حد سے زیادہ مداخلت کرے یا اپنی ذاتی ضروریات کے مطابق ان قوانین کا غلط استعمال کرے ۔ جمہوری ریاستوں تمام تر اقدامات اور توانائیاں عوام کیلئے ہوتے ہیں۔
قانون حکومت وضع کرتی ہے اسکے دو مقاصد ہوتے ایک تو یہ کہ عوام کی بھلائی ہو انکی جان و مال کا تحفظ کیا جاسکے اور اسکے اوپر میں نے پچھلی تحریر میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ دوسرا اہم مقصد یہ ہوتا ہیکہ ریاست کو پابند کیا جاسکے کہ وہ چند افراد جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں انکے ذاتی مفاد کیلئے ریاست استعمال نہ ہو۔ عام قوانین جس میں نجی قانون، انتظامی قانون، قانون عامہ، دستوری قانون، دیوانی قانون اور بہت سارے قومی قوانین شامل ہیں یہ عوام ہی کی حفاظت اور ریاست کے اندر نظم و ضبط قائم رکھنے کیساتھ ساتھ ریاست کے اوپر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ریاست ان قوانین کا سہارا لیکر کسی بھی شہری کیساتھ زیادتی نہ کرے اسکا پابند ہے۔
دیکھیں ملک میں کسی بھی شہری کی بے لگام آزادی بھی مناسب نہیں اور نہ ہی یہ ریاست کیلئے نیک شگون ہے۔ بے لگام آزادی سے مراد یہ کوئی شخص یا کوئی گروہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھے اور ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑے ایسے میں ریاست اپنی رٹ قائم کرتی ہے ہر صورت میں کیونکہ آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہیکہ آپ خود کو قانون سے بالاتر سمجھے۔ آزادی قانون کے تحفظ اور اسکے اطاعت کے تحت قائم رہ سکتی ہے۔
ریاست کی جانب سے حد سے زیادہ بندشیں بھی کسی جمہوری ملک میں اچھا اقدام نہی ہے اور ایسے میں رائے عامہ کو پس پشت ڈال کر اس پر عملدرآمد کرانا ممکن نہیں ہوگا۔
اب ساری صورتحال میں ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیکہ جب ریاست افراد کی اپنی تخلیق ہے اور قوانین انکے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں تو اسکے باوجود اس ریاست کے شہری قانون کی اطاعت کیوں نہی کرتے؟؟ میری دانست کے مطابق دراصل قوانین کا انحصار قوانین بنانے والی حکومت پر ہوتا ہے۔ اگر ملک میں عوامی حکومت نہ ہو اور حکومت عوامی طاقت سے نہی بلکہ چور دروازے سے حکومت میں آئی ہو تو ایسی حکومت وہ قوانین وضع کرتی جو آزادی کے منافی ہوں گے۔ عوامی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہیکہ وہ ایسے قوانین بنائے جس سے شہریوں کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکے ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے جبکہ چور دروازے سے آنے والی حکومت جو عوام کی نمائندہ حکومت نہی ہوتی ہے وہ شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین وضع کرتی ہے تاکہ انکے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیکہ آزادی اور قانون کا باہمی تعلق اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک جمہوری حکومت ان کو وضع کرتی جس سے عوام خوشحال اور قانون پر عملدرآمد یقینی ہوتا ہے۔ غیر منتخب کردہ اور آمرانہ حکومتوں میں بعض ایسے قوانین آزادی کو سلب کرتے ہیں اور اس طرح کے قانون عام لوگوں کی آزادی کیلئے مضر ہوتے ہیں۔

جامعہ قراقرم اور دیگر تعلیمی اداروں میں ناجائز فیس اضافے کو گلگت بلتستان کے نوجوان اور طلبہ و طالبات مسترد کرتے ہیں۔وائس...
01/09/2023

جامعہ قراقرم اور دیگر تعلیمی اداروں میں ناجائز فیس اضافے کو گلگت بلتستان کے نوجوان اور طلبہ و طالبات مسترد کرتے ہیں۔
وائس چانسلر جامعہ قراقرم قابل شخص ہیں انکی خدمات اپنی جگہ مگر وہ بخوبی اس خطے کے حالات اور خصوصاً معاشی حالات سے واقف ہیں۔فیسوں میں اس قدر اضافے سے سٹوڈنٹس گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ ملکی معاشی حالات سے پہلے ہی یہاں کی عوام پس رہی ہے اور اب اس قدر فیسوں میں اضافہ غریب اور پسماندہ عوام کی پہنچ سے باہر ہے۔
پیپلز یوتھ آرگنائزیشن گلگت بلتستان تمام سٹوڈنٹس کیساتھ یکجہتی کا اعلان کرتی ہے اور انتظامیہ کو باور کراتے ہیکہ جلد اگر اس مسلے کو حل نہیں کیا گیا تو مجبوراً پیپلز یوتھ اپنی یوتھ پاؤر کیساتھ بلتستان سے لیکر غذر کے آخری کونے تک بھرپور احتجاج کریگی۔
گورنر گلگت بلتستان سے ہم رابطے میں ہیں انشاءﷲ وفاق تک طلبہ کی نمائندگی کرینگے اب انتظامیہ بھی تھوڑی لچک دکھائیں اور اس مسلے کو خوش اسلوبی سے حل کرے۔
جب جامعہ کے پاس فنڈز کی کمی ہے تو کوئی بڑی بات نہیں ترقیاتی کام روک لیں،ملک کے حالات بہتر ہونگے تو کام جاری کریں تب تک وہ فنڈز طلبہ و طالبات پر خرچ ہونے چاہیں ۔ خالی عمارتوں کا کوئی فائدہ نہیں جب غریب کا بیٹا بیٹی پڑھنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو۔
جامعہ قراقرم کی انتظامیہ جلد ترقیاتی منصوبوں کو روک کر فنڈز تعلیم پر خرچ کرے تاکہ یہ مسلہ حل ہوسکے ۔
رحیم بیگ

فرقہ واریت !!اگر کسی مذہب یا عقیدے کے ماننے والوں کو اپنے دفاع کے لئے پُرتشدد راستہ اختیار کرنا پڑے اور وہ کسی اور مذہب ...
01/09/2023

فرقہ واریت !!

اگر کسی مذہب یا عقیدے کے ماننے والوں کو اپنے دفاع کے لئے پُرتشدد راستہ اختیار کرنا پڑے اور وہ کسی اور مذہب یا عقیدے کے ماننے والوں کو برداشت نہ کر سکیں تو سمجھ لیجیئے کہ پُرتشدد رویہ رکھنے والوں کی مذہبی سوچ کمزور ، دلیلیں لاغر اور تعلیمات ضعیف ہیں چاہے لاکھ دعویٰ کرتے پھریں کہ ہمارا مذہب امن کا درس دیتا ہے ۔ اگر امن کا درس اعمال میں نہیں ڈھل سکا تو جان لیں مذہب کمزور عقائد پر کھڑا ہے
طیب احسن

گلگت(پ ر) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز میر تعظیم اختر نے فیسوں میں اضافہ کرنے سے متعلق اپنے وضاحت...
31/08/2023

گلگت(پ ر) قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز میر تعظیم اختر نے فیسوں میں اضافہ کرنے سے متعلق اپنے وضاحتی بیان میں کہاہے کہ یونیورسٹی نے سیشن 2020اور 2021 کے فیسوں میں 25فیصد اضافہ کیاہے باقی سیشن کے طلبا کو یونیورسٹی قوانین کے مطابق سالانہ دس فیصد کے حساب سے سمسٹر فیسوں میں اضافہ کیاگیاہے۔اس حساب سے اس وقت یونیورسٹی کے80فیصد طلبا کی فیسیں فی سمسٹر 32ہزار،15فیصد طلبا کی 44ہزار فیس فی سمسٹر کے حساب سے جبکہ 5فیصد طلبا کی فیسیں 55ہزار فی سمسٹر ہیں۔پانچ فیصد میں شعبہ کمپیوٹر اور انجینئرنگ کے طلبہ وطالبات شامل ہیں۔ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے کہاہے کہ موجودہ فیسوں میں اضافے کے فیس کے سٹریکچر کو ملک بھر کی پبلک سیکٹر جامعہ کے فیسوں سے موازنہ کرایا جائے تو پھر بھی قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کی فیسیں بہت ہی کم ہیں۔لہذا یونیورسٹی فیسوں میں کمی کی متحمل نہیں ہوسکتی ہے۔یونیورسٹی ترجمان نے کہاکہ یونیورسٹی اس وقت 300ملین روپے مالی خسارے سے دوچار ہے۔اس خسارے کوکم کرنے کے لیے طلباکی فیسوں میں اضافے کیا گیاہے۔یونیورسٹی انتظامیہ نے یونیورسٹی کو درپیش مالی مسائل سے متعلق صوبائی حکومت،وفاقی حکومت،ہائیرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان سمیت دیگر تمام زمہ دارافراد سے ملاقاتیں کرنے سمیت بذریعہ خط آگاہ بھی کیاہے۔ ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی نے کہاکہ ہائیرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے یونیورسٹی بجٹ میں گزشتہ تین سالوں سے کوئی اضافہ نہیں کیاگیاہے۔تین سالوں میں مہنگائی آسمان پرپہنچی ہے،ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا،یونیورسٹی کے دیگر اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایچ ای سی نے یونیورسٹی کے تحت منعقد کئے جانے والے پرائیویٹ دوسالہ پروگرامات جن میں بی اے،بی ایس سی،ماسٹر پروگرامات،بی ایڈ ایک سالہ کے پروگرامات بھی ختم کئے۔ ان پروگرامات کا پرائیویٹ امتحانات یونیورسٹی منعقد کرتی تھی۔پروگرامات کوختم کرتے ہوئے اسی حساب سے جامعہ کو کسی طرح کا اضافی گرانٹ مختص بھی نہیں کیا اور ساتھ ہی صوبائی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان کے کالجوں اور سکولوں کا فیڈرل بورڈ سے الحاق کے باعث مزید مالی بحران سے دوچا ر ہونا پڑاہے۔بورڑ منتقلی کے بعد صوبائی حکومت کی جانب سے جامعہ کو کوئی خصوصی بجٹ بھی مختص نہیں کیاگیاہے۔جس کی بدولت قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی کواس وقت اخراجات ودیگر امور چلانے کے لیے بڑی پریشانی کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔یونیورسٹی کے پاس ان مسائل کوکم کرنے کے لیے واحد راستہ فیسوں میں اضافہ رہتاتھا۔مجبوری میں یونیورسٹی نے سمسٹر فیسوں میں اضافہ کیاہے۔ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز کے مطابق 2018سے ابھی تک یونیورسٹی کے آپریشنل بجٹ 75کروڑ سے ڈیڑھ ارب روپے تک پہنچا ہے۔جس میں تنخواہوں اور دیگر الاؤنسز کا بجٹ 50کروڑ سے ایک ارب دس کرور روپے ہواہے۔مگر بدقسمتی سے اسی اثنا میں ہائیرایجوکیشن کمیشن آف پاکستان نے 11کروڑ روپے کا اضافہ کیاہے۔جس کی وجہ سے یونیورسٹی کو شدید مالی بحران سے دوچار ہونا پڑا۔رواں سال ڈیڑھ ارب روپے یونیورسٹی کے امور چلانے کے لیے درکار ہیں۔ہائیرایجوکیشن کی طرف سے 42کروڑ روپے دینے کا وعدہ کیاہے۔مگر یونیورسٹی کواپنے اپنے وسائل سے کم از کم ایک ارب روپے پیدا کرنے ہوں گے۔جس کے لیے جامعہ اپنے تمام اخراجات کو کم سے کم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔یونیورسٹی کی آمدنی کا بڑھاحصہ طلبا کی فیسوں سے حاصل ہوتاہے۔لہذا فیسوں کو بڑھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔

جاری کردہ۔
ڈائریکٹرریٹ آف پبلک ریلیشنز
قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی، گلگت بلتستان
مورخہ:31اگست 2023

آمن سب کی ضرورت ..............تحریر محمدذاکر تمام سیاح حضرات سے گزارش ہے کہ ھم فی الحال شیعہ سنی میں لگے ہوئے ہیں ماحول ...
31/08/2023

آمن سب کی ضرورت ..............
تحریر محمدذاکر
تمام سیاح حضرات سے گزارش ہے کہ ھم فی الحال شیعہ سنی میں لگے ہوئے ہیں ماحول بلکل ٹھیک نہیں لہذا گلگت بلتستان آنے سے گریز کریں کیونکہ سیاحت ,، علاقے کی خوشحالی تعمیر وترقی سب امن کے ساتھ مشروط ہیں اور یہاں فی الحال امن نہیں ملک وملت کے دشمنوں نے عوام کو یرغمال بناکے رکھ دیا ہے جب بھی ضرورت پڑے اپنے ملک دشمن آقاوں کی خوشنودی کے لیے عوام کو استعمال کر سکتے ہیں اور پرامن ماحول میں باھم شیر وشکر رہنے والوں کو ایک دوسروں کے سامنے لا کھڑا کر دیا جاتا ہے اور ھماری حکومت اتنی کمزور ہو چکی ہے کہ ملک وملت کے باغی عوام میں فرقہ واریت اور فتنہ کی آگ لگا نے والوں پر ملکی قانون ، آئین کے مطابق جزا سزا کے بجائے ان سے معافیاں مانگتے مانگتے راضی کرنے میں پھرتے دیکھائی دیتے ہیں
اس لیے تمام سیاح حضرات اپنی حفاظت کے پیش نظر گلگت بلتستان کا سفر کرنے سے اجتناب کریں ۔
کیوں کہ ھم معاشی طور پر مضبوط ہونا نہیں چاہتے اور نہ ہی چاہتے ہیں کہ ہمیں روز گار ملے ھم نہیں چاہتے غربت کا خاتمہ ہو
ھم نہیں چاہتے ھمارے ٹرانسپورٹ چلیں ھم نہیں چاہتے ھمارے علاقے میں انٹرنیشنل ائیرپورٹ کامیاب ہوں اور ھم نہیں چاہتے ھمارے علاقے میں ہوٹل چلیں ھم نہیں چاہتے
کہ روزانہ کروڑوں روپے گلگت بلتستان میں آئیں وغیرہ وغیرہ ............
ھم شیعہ سنی سے فراغت کے بعد آپ کو اطلاع کرتے ہیں اس سے پہلے کسی کے جھوٹے امن کے اعلانات پر یقین رکھتے ہوئے اس طرف آنے کے بجائے کشمیر ,مری اور دیگر علاقوں کا رخ کریں کیونکہ گلگت بلتستان میں امن دشمنوں نے سنی شیعہ لڑائی کی آگ لگا دی ہے
کسی بھی وقت یہ خطرناک اگ بھڑک سکتی ہے تاکہ ھمیں احساس ہو ھمارے جذبات کو ابھار کر اس کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنے والے ھمارے دوست نہیں بلکہ ھمارے ازلی دشمن ہیں
باہر حال حالیہ دنوں سے جاری گلگت بلتستان کے کشیدہ حالات نے نہ صرف گلگت بلتستان کی معشیت اور روزگار کو کمزور کر دیا ہے بلکہ لاکھوں غریب لوگ زہنی امراض میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ اگر خدا نخواستہ فرقہ واریت کی آگ لگی تو کتنے بچے یتیم اور کتنی عورتیں بیوہ ہونگی لیکن خدا کا شکر ہے کہ گلگت بلتستان سطح پر ہونیوالے مزہبی احتجاج اور دھرنوں میں کسی قسم کی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا جسکا کریڈیٹ بھی دیامر اور بلتستان کے علماء ,عوام کو جاتا ہے کہ جگہ جگہ پھنسے مسافروں ,مزدوروں ,ریڑھی بانوں ,تاجروں کا کوئی جانی نقصان نہیں ہوا
یہاں پر دیامر پولیس انتظامیہ اور بلتستان کے پولیس انتظامیہ سمیت تمام سیکورٹی اداروں کا زکر نہ کروں تو انکے ساتھ بھی زیادتی ہو گی کہ جنہوں نے شاہراہ قراقرم میں پھنسے تمام سینکڑوں مسافروں کو نہ صرف بحفاظت ہوٹلوں میں پہنچایا گیا بلکہ طعام و قیام کا بھی بندوبست کیا گیا گلگت بلتستان کے تمام مکاتب فکر کے علماء کو چاہیئے کہ وہ ایک دوسروں کے عقائد کا احترام کرنیکے ساتھ ایک دوسروں کیساتھ پیار و محبت بھائی چارگی ماحول کے فرغ کا درس دیں اور گلگت بلتستان کی تعمیر و ترقی عوام کی خوشحالی کے لیئے کلیدی کردار ادا کریں حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ امن کے لیئے فریاد کرنیکے بجائے اپنی رٹ قائم کریں اور جو بھی لوگ ,شخص گلگت بلتستان میں پرامن اور بھائی چارگی ماحول کو خراب کرنیکی کوشش میں ملوث پائے بروقت گرفتار کرکے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کریں اور ملک دشمنوں کو خوش کرنیوالوں کیساتھ آہنی ھاتھوں سے نمٹیں تاکہ بہتر امن و امان سے تعمیر و ترقی ممکن ہو اور تعمیر و ترقی سے گلگت بلتستان کے عوام خوشحالی کے راہ پر گامزن ہوں

یہ 2018 سے 2022 کے دنوں کی بات ہے کہ جب میں قراقرم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، اُن دنوں ماسٹرز پروگرام کی فیس معافی کا...
31/08/2023

یہ 2018 سے 2022 کے دنوں کی بات ہے کہ جب میں قراقرم یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھا، اُن دنوں ماسٹرز پروگرام کی فیس معافی کا مطالبہ کافی عروج پر تھا جس پر آئے روز کوئی نہ کوئی ایک احتجاجی مظاہرہ دیکھنے کو مل جاتا تھا جہاں پر کئی مفاد پرست نوجوان اپنی سیاست چمکانے اور شریف اور ناسمجھ طلبہ و طالبات کو ایک مخصوص بتی کے پیچھے لگا کر خود کو لیڈر ڈکلئیر کرنے کی نام کام کوششوں میں مصروف تھے۔
اُن دنوں اُردو ڈیپارٹمنٹ کے ماسٹرز پروگرام میں زیرِ تعلیم ایک نوجوان (نام بتانا مناسب نہیں) اُن احتجاجی مظاہر میں کافی سرگرم دکھائی دیتا تھا جو کہ مجھے اب تک یاد رہا۔
خیر آج تقریباً ایک سال بعد کسی ضروری کام سے یونیورسٹی جانے کا اتفاق ہوا تو دیکھا کہ بڑھتی ہوئی فیسوں کے مطالبے کو لیکر یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سراپا احتجاج تھے جس کی وجہ سے گلوب چوٹ سے آگے کا رستہ گاڑیوں کی آمدورفت کے لئے مکمل بند تھا۔
میں کسی طرح احتجاج سے نکل کر یونیورسٹی کے گیٹ پہ پہنچا تو دیکھا کہ گلگت پولیس اور گلگت سکاؤٹس کی بھاری نفری تعینات تھی۔
جب یونیورسٹی گھوم گھام کر واپس میٹ گیٹ کے قریب پہنچا تو میں نے دیکھا کہ پولیس کی گاڑی سے ایک باوردی و اسلحہ بردار نوجوان اپنی ٹوپی جھاڑتے ہوئے آگے کی طرف واک کرنے لگا، غور کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ وہی نوجوان تھا جو 2018 سے 2022 کے دنوں کے فیسوں کی مد میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا نام نہاد لیڈر تھا، جو آج قراقرم یونیورسٹی کے ایک احتجاجی مظاہرے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لئے اپنے فرائض سرانجام دے رہا تھا۔
مجھے اچانک سے وہ "بلی کے دودھ کی رکھوالی" کا محاورہ یاد آیا اور میں مسکراتا ہوا یونیورسٹی سے باہر نکل آیا۔
Zakir Hafeez

گتحریر  Mudassir Abbas . یہ شیعہ سنی بھائی بھائی والا نعرہ بھی ایک طبقے کی یک طرفہ خواہش ہے ۔ اتنا کافی ہے کہ ایک دوسرے ...
31/08/2023

گ
تحریر Mudassir Abbas .
یہ شیعہ سنی بھائی بھائی والا نعرہ بھی ایک طبقے کی یک طرفہ خواہش ہے ۔ اتنا کافی ہے کہ ایک دوسرے کو برداشت کریں عقائد کا احترام کریں اور مل جل کر رہیں۔

5 سوال... ایمانداری سے جواب دیں

سوال نمبر 1: 2012 میں چلاس کے مقام پر 12 شیعوں کو مشتعل ہجوم نے دن دھاڑے قتل کیا تو وہاں کے مقامی لوگوں نے کتنے حملہ آور پکڑ کر پولیس کے حوالے کیے؟ اور تھوڑے بہت جو گرفتار ہوئے اَن کے خلاف کتنے مقامیوں نے کورٹ میں جا کر گواہی دی؟

سوال نمبر 2: کچھ سال پہلے گلگت شہر میں ایک شخص نے سرے بازار سینکڑوں لوگوں کے سامنے ایک سنی پولیس کو قتل کر دیا تھا تو وہ موقع واردات سے فرار کیسے ہوا؟ اب وہ گرفتار ہے تو اس کے خلاف کتنے شیعہ گواہی کیلئے پیش ہوئے؟

سوال نمبر 3: دہشتگردی میں ملوث کوئی شیعہ یا سنی کو اگر پھا نسی ہوتی ہے تو انکے ہم مذہب لوگ اس سے شہید کہیں گے یا واصل جہنم؟

سوال نمبر 4: اگر کوئی شخص پیسے کی لالچ میں آکر اپنے ہم مذہب دہشتگرد کی مخبری کریں تو مقامی لوگ اُس مخبر سے محبت کریں گے یا نفرت؟ کیا مسجدوں سے اُن مخبروں کیلئے بدعا نہیں دی جائے گی؟

سوال نمبر 5: گلگت میں کتنے فیصد شیعہ اور سنیوں کی آپس میں شادیاں ہوئی ہیں؟ شادی تو دور کی بات کتنے ایسے محلے ہے جہاں دونوں کمیونٹیز آپس میں اکٹھے رہتے ہیں؟

ظاہر ہے ایک بچہ بھی اگر ان سوالوں کا ایمانداری سے جواب دے تو جانتا ہے کہ نتیجہ کیا ہوگا۔ کسی مسئلے کا حل یہ نہیں ہے کہ شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کر کے سب اچھا ہے کا ورد کرتے رہیں بلکہ بہتری اس میں ہے کہ تلخ حقائق تسلیم کیے جائیں تاکہ کوئی پائیدار حل کی طرف بڑھا جائے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ گلگت میں شیعہ اور سنی آپس میں ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور وہاں کے شدت پسندوں اور عام عوام کے خیالات آپس میں کافی حد تک مشترک ہیں، فرق اتنا ہے کہ کہ کچھ کھل کے بولتے ہیں اور کچھ تاویلیں تراشے ہیں، کچھ بندوق اٹھاتے ہیں تو کچھ ہمت نہیں کرتے۔
جہاں اکثریت امن پسند ہو وہاں دہشتگرد قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتا۔ مٹھی بھر شرپسند عناصر، ایجنسیوں کے آلہ کار، بیرونی ہاتھ، جیسے جملے سب ٹوپی ڈرامہ ہے اور لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا ایک ذریعہ ہے۔ فیسبک میں امن کا دعویٰ کرنے سے یا پھر کسی کے اجتماع میں جا کر تصویر بنانے سے انسان امن پسند نہیں ہوتا۔

ایس سی او کے ستائے عوام ھوئے اب ایڈوکیٹ صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں۔ایس کام والوں کی طرف سے 40 سے 70 فیصد پیکجز میں اضافے کے...
31/08/2023

ایس سی او کے ستائے عوام ھوئے اب ایڈوکیٹ صاحب کے ہاتھ مضبوط کریں۔
ایس کام والوں کی طرف سے 40 سے 70 فیصد پیکجز میں اضافے کے خلاف ایڈوکیٹ تحسین رضا نے قانونی کاروائی کا آغاز کردیا۔
ایس سی او کی طرف سے گزشتہ دنوں سے پیکجز مہنگے کرنے اور سروس کی سست حالی پر عوام پریشان ہیں ۔
عوام کی نمائندگی کرتے ہوئے ایس سی او والوں کی طرف سے ناروا سلوک اور من مانی کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرتے ہوئے نوٹس جاری کردیا ۔
نوٹس کے جواب نہ دینے پہ اور مناسب سہولیات مہیا نہ کرنے پہ عدالت سے رجوع کرونگا۔
ایڈوکیٹ تحسین کی اس اقدام پر عوام خوش اور قابل تحسین قرار دے رہے ہیں ۔

بیٹیوں کو تعلیم دینے کی صرف باتیں کی جاتی ہیں جب بیٹیاں حصول علم کے لیے کمر کس لیتی ہیں تو فیسیوں میں اضافہ کر کے ان کی ...
31/08/2023

بیٹیوں کو تعلیم دینے کی صرف باتیں کی جاتی ہیں جب بیٹیاں حصول علم کے لیے کمر کس لیتی ہیں تو فیسیوں میں اضافہ کر کے ان کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے اور ان کو سڑکوں پر نکل کر احتجاج کرنا پڑتا ہے کہ ہم تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں آپ فیسوں میں ناجائز اضافہ نہ کریں ۔
گلگت بلتستان ملک کا پسماندہ ترین علاقہ ھے یہاں معیاری تعلیم اداروں کی شدید کمی ہے جو چند ایک سکول ، کالج یا یونیورسٹی ھے وہاں آئے دن فیسوں میں اضافہ کر کے بچوں سے تعلیم کا حق چھینا جارہا ہے ۔
این ایل آئی مارکیٹ میں واقع الحیات سکول نے ایک سال میں بچوں کی فیسوں میں 1500 روپے سے زائد کا اضافہ کیا ان کی دیکھا دیکھی پبلک سکول اینڈ کالج والوں نے فیسوں میں 1750 روپے کا اضافہ کردیا پھر قراقرم یونیورسٹی سے خبر آئی کہ انتظامیہ نے فیسوں میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ کردیا ھے تعلیمی ادارے مالی مشکلات کا جواز بناکر عوام پر بوجھ ڈال رہے ہیں حکومت اور ریاستی اداروں کو عوام پر ڈالے جانے والے بوجھ کی کوئی فکر نھیں ھے بس سرکاری گاڑیوں اور مالی وسائل کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے ۔
Kashrote Youth Organization
Karakoram University Memes Posting
Amjad Hussain Advocate
Syed Mehdi Shah
Everyone
Sobia J. Muqaddam
Faizullah Faraq
Sadia danish
Gilgit Baltistan

فرقہ واریت کا حل قرآن اور  سنت کی روشنی میں تحریر ۔راشد حسین  حوالہ جات، معاونت بشکریہ  ۔مفتی غفران ولی مسلمان آج  امت ک...
31/08/2023

فرقہ واریت کا حل قرآن اور سنت کی روشنی میں
تحریر ۔راشد حسین
حوالہ جات، معاونت بشکریہ ۔مفتی غفران ولی

مسلمان آج امت کے بجائے ایک منتشر ہجوم نظر آتے،جسکی بنیادی وجہ تفرقہ ہے ۔ امت میں جو تفرقہ ہے اس سب سے زیادہ خطرناک تفرقہ دینِ اسلام کے نام پر ہے، جس میں ایک فرقہ عقائد ایمان کے نام پر دوسرے کا خون بہانا بھی جائز سمجھتا ہے ۔دوسری طرف لبرل، لیفٹسٹ اور سیکولر ذہن کے حامل افراد، عوام میں بڑے پیمانے پر دین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں۔

اسلام وہ دین ہے جو عدل و مساوات کا ایک انقلابی پیغام لے کر اٹھا۔
خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ( (سورۃ النساء: ۱)
ترجمہ:"اس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا" ،کے ذریعے اسلامی مساوات ِ باہمی کو عام کیا تو )۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَة( (سورۃ الحجرات: ۱۰)ترجمہ:"بےشک مسلمان تو آپس میں بھائی بھائی ہیں"کہہ کر تمیزِ بندہ و آقا کے سارے بت توڑ دیے۔
یہاں تک کہ خطبہِ حجۃ الوداع کے موقعے پر ))لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى أَعْجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لِأَحْمَرَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا أَسْوَدَ عَلَى أَحْمَرَ إِلَّا بِالتَّقْوَى(1 ترجمہ:"کوئی فضیلت نہیں کسی عربی کے لئے کسی عجمی پر، نہ کسی عجمی کے لئے کسی عربی پر، نہ کسی گورے کو کسی کالے پر نہ ہی کالے کو گورے پر سوائے تقوٰی کے"،کے انقلابی نعرے سے ہر قسم کی عصبیتیں ختم کردیں۔

یہی وہ حقیقت تھی جسے دینِ اسلام نے پیش کیا اور اس جاہلی درجہ بندی کا دروازہ بند کیا جس میں اپنی شناخت کو کسی سعی و عمل کے ذریعے نہیں مٹایا جاسکتا یعنی کوئی کالا گورا نہیں بن سکتا، نہ ہی کوئی عجمی عربی بن سکتا ۔ یہ مساوات صرف نعروں کی حد تک ہی نہیں تھا۔
بلکہ ایچ- جی-ویلز(H.G.Wells)2 اپنی شہرہِ آفاق کتاب (A Short History of the World) میں اعتراف کرتا ہے:
"Although the sermons of human freedom, fraternity and equality were said before also, and we find a lot of them in Jesus of Nazareth, but it must be admitted that it was Muhammad who for the first time in history established a society based on these principles."
ترجمہ:"اگرچہ انسانی اخوت ،مساوات اورحریت کے وعظ تو دنیا میں پہلے بھی بہت کیے گئے ہیں اور ایسے وعظ مسیحِ ناصریؑ کے ہا ں بھی ملتے ہیں ۔لیکن یہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں کہ یہ محمد (ﷺ)ہی تھے ،جنہوں نے تاریخ انسانی میں پہلی بار ان اصولوں پر ایک معاشرہ قائم فرمایا۔

لیکن پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ )وَمَا تَفَرَّقُوا إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ( (الشورٰی: ۱۴)ترجمہ:"اور انہوں نے تفرقہ پیدا نہیں کیا مگراس کے بعد کہ ان کے پاس علم آگیا تھا، آپس کی ضد کی وجہ سے" کے مصداق لوگوں میں تفرقہ پیدا ہوا۔
مفسر امام ابو العالیہؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں "بغیا علیٰ الدنیا و ملکھا و زخرفھا و زینتھا و سلطانھا"۔ترجمہ: حبِ دنیا، اقتدار کی چاہ، اس کی زیب و زینت اور سلطنت کی محبت پیدا ہوئی تو تفرقہ ظاہر ہوا۔

آج بھی جب کوئی تفرقہ پیدا ہوتا ہے تو دنیاوی حرص، اپنی بڑائی یا انا اور اپنی ایک الگ پہچان و شہرت کے لئے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بناتا ہے۔ یعنی آج بھی اس تفرقے کی ایک بڑی وجہ یہی "بغیاً" یعنی ضد ہے ۔

تفرقے کا دوسرا سبب "غلو" یعنی حد سے آگے بڑھ جانا ہے۔ اللہ تعالٰی نے قران حکیم میں فرمایا ہے) لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ( (سورۃ النساء:177)ترجمہ:"دین میں غلو نہ کرو"۔

اصل میں موجودہ دور میں جو غلو تفرقہ بازی کا سبب ہے وہ غیر شعوری ہے اور غلو کرنے والے اسے دین کی خدمت سمجھتے ہوئے کرتے ہیں، جبکہ وہ دین کا نقصان کر رہے ہوتے ہیں۔ فروعی اور اجتہادی امور میں تعصب برتنا اور اپنی اختیار کردہ رائے کے علاوہ دوسری رائے کے حاملین کو مخطی یعنی اجتہادی غلطی کرنے والا ہی نہیں بلکہ باطل اور گنہگار قرار دینا اور ان سے ایسا رویہ رکھنا کہ جیسا اہل باطل سے رکھا جاتا ہے

آج کے دور میں غلو کی واضح مثالیں ہیں۔ بعض لوگ تو غلو میں اس قدر آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اپنے مسلک کی دعوت اس طرح دیتے ہیں کہ جیسے کسی غیر مسلم کو اسلام کی دعوت دی جاتی ہے۔ اکثر یہ غلو علماءِ سوء میں پایا جاتا ہے جو بغیر اہلیت و تدبر کے دوسروں پر فتوٰے جڑتےہیں۔
اور اس طرح سلفِ صالحین کےمنہج سے انحراف کرتے ہیں۔ نبی اکرمﷺ کا فرمان ہے ((أَنَا زَعِیمٌ بِبَیْتٍ فِي رَبَضِ الْجَنَّۃِ لِمَنْ تَرَکَ الْمِرَآئَ وَإِن کَانَ مُحِقًّا1)) ترجمہ: میں اس شخص کو پہلے جنت کی ضمانت دیتا ہوں جو حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دے۔ کیا ہم نبی اکرم ﷺ کے اس فرمان کو ان فروعی معاملات میں تفرقے سے بچنے کا ذریعہ نہیں بنا سکتے؟ یہ ایک غور طلب سوال ہے۔

تفرقے کا تیسرا اور سب سے اہم سبب قرآن سے دوری ہے۔ بقولِ اقبال:
؎ خوار از مہجورئِ قرآں شدی
شکوہ سنج ِگردشِ دوراں شدی

قرآن وہ واحد شے ہے جس پر مسلمانوں کے علاو،غیرمسلموں کا بھی اتفاق ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جوحضرت محمد ﷺ نے اپنی امت کو دی۔مسلمانوں کا ایمان ایک قدم اور آگے ہے کہ یہ وہی کتاب ہے جو اللہ نے جبرائیلؑ کے ذریعے حضرت محمد ﷺ کو عطا

اختلافِ رائے ایک فطری اور طبعی امر ہے جس کو نہ مٹایا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس کو مٹانا اسلام کا منشاء ہے۔ قرآن میں بھی اللہ نے فرمایا ہے) وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ( (سورۃ ھود:118)ترجمہ:"اگر آپ کا رب چاہتا تو بنا دیتا لوگوں کو ایک ہی امت، مگر وہ اختلاف میں ہی رہیں گے"۔
کا مل اتفاقِ رائے صرف دو صورتوں میں ممکن ہے، یا تو ان لوگوں میں کوئی سوجھ بوجھ والا شخص ہی نہ ہو یا پھر اس مجمعے میں تمام انسان ایسے ضمیر فروش اور خائن ہوں کہ ایک بات کو غلط جانتے ہوئے بھی غلط نہ کہیں اور)

إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَى أَهْلِهَا( (سورۃ النساء:58)ترجمہ: بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں(مشوروں) کو لوٹادو ان کے اہل کی طرف"۔ پر بھی عمل نہ کریں۔
اسلام چونکہ فطری دین ہے اس لئے اس نے فطری جذبے کو دبایا نہیں ہے بلکہ صحیح رخ دیا ہے۔ اسلام میں شورائیت کا نظام قائم کیا گیا تاکہ مختلف آراء کی موجودگی میں بصیرت کے ساتھ فیصلہ کیا جاسکے۔
نبی اکرم ﷺ کے دورِ مبارک میں بھی انتظامی اور تجرباتی معاملات میں اختلاف کیا گیا۔ نبی اکرم ﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کے دور میں پیش آمدہ نئے دینی امور ، اجتہادی مسائل اور تعارض ِ آیات و احادیث کے فہم میں اختلاف ہوا۔ یہاں تک کہ روز مرہ کے اعمال جیسے نماز و روزہ کے فروعی و جزئی امور پر بھی اختلافات ہوئے اور ان مباحث کا ذکر بھی ملتا ہے۔پھر یہ اختلاف تابعین اور تبع تابعین میں بھی جاری رہا۔
یہاں تک کہ بعض امورمیں تو حلال حرام تک میں اختلاف ہوا۔ مگر قابلِ تقلید بات یہ ہے کہ یہ اختلاف مخالفت میں نہ بدلا۔ نہ کسی شخص یا گروہ نے مخالفین کو باطل کہا نہ سب و شتم کا نشانہ بنایا۔ بلکہ تمام ایک دوسرے کے تنوع علم سے فائدہ اٹھاتے رہے۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔
حافظ ابنِ عبد البر قرطبیؒ "جامع بیان العلم" میں لکھتے ہیں:" ما برح أولو الفتوى يفتون فيحل هذا ويحرم هذا فلا يرى المحرم أن المحل هلك لتحليله ولا يرى المحل أن المحرم هلك لتحريمه 1" ترجمہ:"اہلِ افتاء فتوٰی دیتے رہے، ایک اس کو حلال قرار دیتا اور ایک حرام، مگر نہ حرام کہنے والا حلال کہنے والے کو غلط کہتا، نہ ہی حلال کہنے والا حرام کہنے والے کو غلط کہتا"۔
اسی طرح امام ابو حنیفؒہ فرماتے ہیں: " أحد القولين خطأ والمأثم فيه موضوع2"۔ترجمہ:"دو اقوال میں سے ایک خطاء پر مبنی ہے، اور اس کا گناہ کرنے والا معاف ہے"۔
اور امام مالکؒ فرماتے ہیں: "المراء و الجدال فی العلم یذھب بنور العلم من قلب العبد، و قیل لہ رجل لہ علم بالسنۃ فھو یجادل عنھا؟ قال ولٰکن لیخبر بالسنۃ فان قبل منہ والاسکت:ترجمہ:"علم میں جھگڑا بندے کے دل سے علم کا نور لے جاتا ہے، پوچھا گیا کہ وہ شخص جسے سنت کا علم ہو کیا وہ اس کے حق میں نہ جھگڑے؟، کہا کہ اس کو باخبر کردے، اگر قبول کرلے تو ٹھیک ورنہ خاموش ہوجائے"۔

اسی قسم کے اقوال امام احمد بن حنبلؒ اور امام شافعیؒ سے بھی منقول ہیں۔ تو خلاصہ یہ کہ اجتہاد میں ہمیشہ ایک رائے صحیح اور غلط بھی ہوتی ہے مگر غلط رائے کے حاملین کو باطل نہیں کہا جائے گا کیونکہ وہ بھی پوری محنت کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں اور حدیث (متفق علیہ) کے مطابق دونوں کے لئے اجر ہے۔
یہاں ایک ایسے شخص کے لئے جو علومِ دینیہ، اصولِ اجتہاد اس بات کا خیال رکھنا پڑے گا کہ وہ ایسے عالم سے فتویٰ حاصل کرے جو فتویٰ دینے کا اہل ہو جیسے وہ دنیاوی معاملات میں اپنی صحت کے لئےبہترین ڈاکٹر تلاش کرتا ہے۔ ایسے میں حدیث کے مطابق اگر عامی کا عمل غلط بھی ہو تو اس کا وبال عامی نہیں بلکہ عالم پر ہوگا۔
فرقہ واریت کا واحد علاج کہ ہمیں اپنے ذہنوں سے تعصب کو مٹانا ہوگا ترک منافقت کے ساتھ ۔صرف اپنے آپ کو ہی صحیح سمجھنا،اور اپنی غلطیوں کو بھی نظر انداز کرنا، غلط طرزِ عمل ہے۔ممکن ہے کہ ہم اپنی وہ رائے جس پر فخر سے عمل کررہے ہوں وہ خطاء پر مبنی ہو۔
اللہ کی رحمت سے امید اور اس کے عذاب کا خوف انسان کے دل سے تعصبات کا خاتمہ کردیتا ہے۔اس خیال کو ذہن میں پختہ سے پختہ کیا جائے کہ ایک مسلمان چاہے کتنا ہی گنہگار اور آپ کا مخالف ہی کیوں نہ ہو ایک نہ ایک دن جہنم کی سزا بھگت کر جنت میں ضرور جائے گا جبکہ ایک کافر، کتنا ہی آپکا اچھا دوست اور حسنِ اخلاق والا ہو مگر وہ کبھی جنت میں نہیں جاسکتا۔ یہی وہ نظریہ ہے جس کی وجہ سے) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ( (سورۃ الفتح:29)ترجمہ:"کفار پر سخت اور آپس میں نرم" اور) أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ((سورۃ المائدہ:54)ترجمہ:"مومنین پر نرم ، کفار پر سخت" پر عمل ممکن ہوتا ہے۔ ہمیں بار بار اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ کیا ہماری نفرت کفار اور اہلِ باطل کے مقابلے میں ان مسلمانوں سے تو نہیں جن کو ہم اپنا مخالف سمجھتے ہیں اور کیا ہم کفر، مادہ پرستی، الحاد سے اتنی نفرت کرتے ہیں جتنی اپنے مخالف گروہ سے؟ مندرجہ بالا آیات سے ایک معنٰی یہ بھی نکلتا ہے کہ جب مسلمانوں سے محبت ہوگی تو ہی کفار سے دشمنی ہوگی، اور اگر خدا نخواستہ ہم کفار کو پسند کریں تو پھر مسلمانوں سے نفرت ہوگی۔
پھر وہ دینی جماعتیں جو الگ الگ نصب العین بھی لے کر اٹھی ہوں مگر اگر واقعی دین کی خدمت کا جذبہ ہو تو سب آپس میں مل کر دین کی ایک عظیم طاقت بن سکتی ہیں۔چاہے وہ کوئی مدرسہ بناکر تعلیم و تعلم کے لئے محنت کررہے ہوں ، تبلیغی جماعت بناکر دین کی نشرو اشاعت کررہے ہوں،کوئی اصلاحی تحریک چلاکر اخلاق کی بہتری کے خواہاں ہوں یا اقامت دین کے لئے جہاد کررہے ہوں، آپس میں ایک جماعت نہ ہونے کے باوجود بھی ایک عظیم مقصد کی تکمیل کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں بشرط یہ کہ اپنی جماعت کے منہج و مقصد کو ہی کل دین نہ سمجھ بیٹھیں اور دوسروں کے مناہجِ خدمتِ دین پر کھلے بندوں تنقید نہ کریں۔
دوسرے یہ کہ دین کہ جامع تصورِ حیا ت کو سمجھا جائے۔ کیونکہ ایک بہت بڑی تعداد مذہب کو معاشرت، معیشت اور سیاست سے الگ کرتی ہے۔ اس طرح دین کے ایک وسیع دائرے کو چھوڑ کر ایک محدود انداز میں عمل کرنے سے تفریق پیدا ہوتی ہے۔ بہت سے لوگ آج بھی اسلام کو دیگر مذاہب کی طرح تسبیح و مصلٰی تک محدود سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ نے عبادات، رسوم اور اعتقادات کے علاوہ تجارت کے مسائل بھی بیان کئے، ریاستِ مدینہ قائم کی جس کے ذریعے سیاست کے احکام سکھائے اور معاشرتی احکام کے ذریعے ایک جدید تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی۔ اگر ہم ان تمام احکامات کے بجائے ایک گوشے میں عمل کرتے رہیں تو سورہ انفال کی آیت1 کے مطابق ہماری جمیعت کمزور ہوگی اور ہمارا رعب ختم ہوجائےگا۔
ایک اہم نکتہ یہ کہ بدعات اور غلط رسومات کے خلاف کام کریں تو قرآنی ترتیب کو ملحوظ رکھا جائے۔ پہلے حکمت سے دعوت دی جائے پھر موعظت یعنی نرم و عظ سے سمجھایا جائے اور اگر علمی بحث چل نکلے تو مجادلہ بھی احسن طریقہ سے ہو۔خیال رہے کہ کوئی وعظ نبیؑ کے وعظ جتنا نرم نہیں ہوسکتا اور کوئی غلط شخص فرعون سے برا نہیں ہوسکتا۔باوجود اس کہ اللہ نے حضرت موسٰیؑ کو قول لیّن کے ذریعے فرعون کو دعوت دینے کی تلقین کی۔ ظاہر ہےہمیں بھی اس رویے کو اپنانا چاہیے۔
اہم ترین شے "حبل اللہ" یعنی قرآن ہے۔ )وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا((سورۃ آلِ عمران:103)ترجمہ:"اور تم سب آپس میں چمٹ جاوْ اللہ کی رسی سے اور تفرقے میں نہ پڑو"۔ اس قرآن پر امت جمع ہوجائے جس کی صحت پر پوری دنیا جمع ہے۔جیسے مندرجہ بالا آیت کے اگلے حصۃ میں ہے کہ اس قرآن کی وجہ سے وہ دشمن جو صدیوں سے لڑتے آئے تھے ،باہم شیروشکر ہوگئے تو ہم امتِ مسلمہ جو ماضی قریب میں بھی متحد تھی آج بھی اس قرآن کے ذریعے متحد ہوسکتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم کو حتٰی الامکان عام کیا جائے ، اور قرآن کے تذکیری پہلو کو عوام میں بیان کیا جائے۔ لوگوں کے تزکئے اور باطنی بیماریوں کا علاج بھی قرآن کے ذریعے کیا جائے۔ ہر شہر میں عوامی دروسِ قرآن کو پھیلایا جائے۔ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرآنی علوم سے روشناس کرایا جائے تاکہ وہ قرآن کی قوتِ تسخیر کے ذریعے اپنی زندگیاں قرآن کی خدمت کے لئے وقف کریں۔ اس کے ذریعے نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار ہوگی جو جدیدیت زدہ مغربی فکر و فلسفہ کا مقابلہ کر سکے۔
1: )وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ((سورۃ انفال:46)ترجمہ:"اور اطاعت کرو اللہ اور اس کے رسول کی اور تنازع نہ کرو، ورنہ کم ہمت ہو جاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی"
قرآن اور اسلام پر کئے جانے والے اعتراضات کا جواب دیں، اسلام کی تعلیمات کو عصرِ حاضر کے تقاضاوں کے مطابق پیش کرسکیں، اسلامی عملی ہدایات کو جدید دور کے طرزِ زندگی پر منطبق کر نے کی صلاحیت کے حامل ہوں ۔اور پھر یہی کوشش آئندہ چل کر اتحاد کا سبب بنے گی ۔

Title: Unraveling the Politics of PakistanWritten by: Awais Karni Introduction:The politics of Pakistan is a dynamic and...
30/08/2023

Title: Unraveling the Politics of Pakistan
Written by: Awais Karni
Introduction:
The politics of Pakistan is a dynamic and complex landscape that has undergone significant changes over the years. From military rule to democratic transitions and power struggles, the political journey of this South Asian nation is a captivating tale. In this article, we will delve into the key aspects of Pakistan's political system, its major political parties, and the challenges it faces in achieving stability and governance.

1. Historical Context:
Pakistan gained independence from British colonial rule in 1947 and began its journey as a democratic nation. However, it has experienced periods of military rule, which has shaped its political landscape. Military coups, particularly those led by General Ayub Khan, General Zia-ul-Haq, and General Pervez Musharraf, have left a deep impact on the country's political structure.

2. Political System:
Pakistan operates under a parliamentary system, where the President serves as the ceremonial head of state and the Prime Minister holds executive powers.Outlines:

I. Introduction
- Briefly introduce the topic of the politics of Pakistan.
- Highlight the complexity and changes in Pakistan's political landscape.

II. Historical Context
- Discuss Pakistan's independence from British colonial rule in 1947.
- Highlight the periods of military rule and their impact on the political system.
- Mention the military coups led by General Ayub Khan, General Zia-ul-Haq, and General Pervez Musharraf.

III. Political System
- Explain the parliamentary system in Pakistan.
- Discuss the roles of the President and the Prime Minister.
- Mention key features of the political system such as the National Assembly and Senate.

IV. Major Political Parties
- Provide an overview of Pakistan's major political parties.
- Discuss the Pakistan Tehreek-e-Insaf (PTI), Pakistan Muslim League-Nawaz (PML-N), and Pakistan People's Party (PPP).
- Highlight the different ideologies

باٸیکاٹ باٸیکاٹ جامعہ قرقرام انٹرنيشنل یونيورسٹی میں سمسٹر وار فیسوں میں اضافہ طلبا و طالبات کے ساتھ ناانصافی ہے اور انت...
30/08/2023

باٸیکاٹ باٸیکاٹ
جامعہ قرقرام انٹرنيشنل یونيورسٹی میں سمسٹر وار فیسوں میں اضافہ طلبا و طالبات کے ساتھ ناانصافی ہے اور انتظامیہ کے ساتھ بات کرنے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ۔اس لٸے تمام طلبہ فیڈریشن نے فصیلہ کیا ہے جب تک یونيورسٹی انتظامیہ اگر ناجائز فیسوں کمی نہیں کرتی ہے اس وقت تک پر امن احتجاج اور کلاسس باٸیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے اس لٸے تمام اسٹوڈنٹس سے گزارش ہے کل ٹیھک 10بجے نیو اکیڈمیک بلک میں جمع ہوجاۓ انشاللہ ایک بڑی تعداد میں احتجاج کرۓ گے ۔
تمام طلبہ وطالبات جن کے کلاسس ہوتے انہوں نے بھی شرکت کرنی ہے اور جن کے کلاسس شروع نہیں ہوۓ ہے گھروں میں بیھٹے کے نہیں آتے ہے وہ بھی لازمی شرکت کرنی اور گھروں میں کوٸی نہیں بیٹھنا ہے اپنے حقوق اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنا ہے
شکریہ۔
*آل اسٹوڈنٹس فیڈریشن جامعہ قراقرم انٹرنيشنل یونيورسٹی گلگت*

Address

Gilgit

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when ضرب قلم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Digital creator in Gilgit

Show All