20/09/2023
تحریر: اشتیاق احمد خان
بظاہر آزادی اور قانون دو متضاد الفاظ ہیں کیونکہ آزادی سے مراد عدم پابندی لی جاتی ہے جبکہ قانون افراد پر حدود عائد کرتا ہے۔ حکومت روز مرہ کے حالات سے نمٹنے کیلئے عوام کے حق میں اور انکی منشاء کے مطابق قوانین پارلیمنٹ کے ذریعے وضع کرتی ہے جسے عام قانون کہا جاتا یے جسکا تعلق عوام سے ہوتا ہے ۔قوانین افراد کے حقوق کے تحفظ کیلئے بنائے جاتے اور اسکا ایک اور مقصد یہ ہوتا ہیکہ اس سے شہریوں کو حکومت کے بےجا مداخلت سے تحفظ فراہم کیا جاسکے۔
ہم دیکھتے ہیکہ ملک میں ایک عام شہری بھی حکومت کیخلاف ان قوانین کی مدد سے عدالتوں میں جاتا ہے اور اپنے حق کیلئے لڑتا ہے گویا ہم کہہ سکتے ہیکہ قوانین عوام نے بنائے اور یہ قوانین عوام ہی کیلئے ہوتے ہیں۔ سابق وزرائے اعظموں کو انھی قوانین کے ذریعے سزائیں دی گئیں اور انھیں قوانین کا سہارا لیتے ہوئے انکی حکومتوں کا خاتمہ بھی کیا گیا۔ مگر اسکا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ریاست عوام پر حد سے زیادہ مداخلت کرے یا اپنی ذاتی ضروریات کے مطابق ان قوانین کا غلط استعمال کرے ۔ جمہوری ریاستوں تمام تر اقدامات اور توانائیاں عوام کیلئے ہوتے ہیں۔
قانون حکومت وضع کرتی ہے اسکے دو مقاصد ہوتے ایک تو یہ کہ عوام کی بھلائی ہو انکی جان و مال کا تحفظ کیا جاسکے اور اسکے اوپر میں نے پچھلی تحریر میں تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ دوسرا اہم مقصد یہ ہوتا ہیکہ ریاست کو پابند کیا جاسکے کہ وہ چند افراد جنہیں ہم اشرافیہ کہتے ہیں انکے ذاتی مفاد کیلئے ریاست استعمال نہ ہو۔ عام قوانین جس میں نجی قانون، انتظامی قانون، قانون عامہ، دستوری قانون، دیوانی قانون اور بہت سارے قومی قوانین شامل ہیں یہ عوام ہی کی حفاظت اور ریاست کے اندر نظم و ضبط قائم رکھنے کیساتھ ساتھ ریاست کے اوپر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ ریاست ان قوانین کا سہارا لیکر کسی بھی شہری کیساتھ زیادتی نہ کرے اسکا پابند ہے۔
دیکھیں ملک میں کسی بھی شہری کی بے لگام آزادی بھی مناسب نہیں اور نہ ہی یہ ریاست کیلئے نیک شگون ہے۔ بے لگام آزادی سے مراد یہ کوئی شخص یا کوئی گروہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھے اور ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑے ایسے میں ریاست اپنی رٹ قائم کرتی ہے ہر صورت میں کیونکہ آزادی کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہیکہ آپ خود کو قانون سے بالاتر سمجھے۔ آزادی قانون کے تحفظ اور اسکے اطاعت کے تحت قائم رہ سکتی ہے۔
ریاست کی جانب سے حد سے زیادہ بندشیں بھی کسی جمہوری ملک میں اچھا اقدام نہی ہے اور ایسے میں رائے عامہ کو پس پشت ڈال کر اس پر عملدرآمد کرانا ممکن نہیں ہوگا۔
اب ساری صورتحال میں ایک بات انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیکہ جب ریاست افراد کی اپنی تخلیق ہے اور قوانین انکے تحفظ کیلئے بنائے گئے ہیں تو اسکے باوجود اس ریاست کے شہری قانون کی اطاعت کیوں نہی کرتے؟؟ میری دانست کے مطابق دراصل قوانین کا انحصار قوانین بنانے والی حکومت پر ہوتا ہے۔ اگر ملک میں عوامی حکومت نہ ہو اور حکومت عوامی طاقت سے نہی بلکہ چور دروازے سے حکومت میں آئی ہو تو ایسی حکومت وہ قوانین وضع کرتی جو آزادی کے منافی ہوں گے۔ عوامی حکومت کی اولین ترجیح ہوتی ہیکہ وہ ایسے قوانین بنائے جس سے شہریوں کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکے ان کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے جبکہ چور دروازے سے آنے والی حکومت جو عوام کی نمائندہ حکومت نہی ہوتی ہے وہ شہریوں کی آزادی کو سلب کرنے والے قوانین وضع کرتی ہے تاکہ انکے خلاف کوئی آواز بلند نہ کرسکے۔
لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیکہ آزادی اور قانون کا باہمی تعلق اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک جمہوری حکومت ان کو وضع کرتی جس سے عوام خوشحال اور قانون پر عملدرآمد یقینی ہوتا ہے۔ غیر منتخب کردہ اور آمرانہ حکومتوں میں بعض ایسے قوانین آزادی کو سلب کرتے ہیں اور اس طرح کے قانون عام لوگوں کی آزادی کیلئے مضر ہوتے ہیں۔