03/02/2025
عنوان: پیر کی حقیقت اور دین داروں کے احترام کا تقاضا
الحمد للہ رب العالمین، والصلاۃ والسلام علی سید الأنبیاء والمرسلین، وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
دینِ اسلام، علم و عمل، اخلاق و کردار، اور ادب و احترام کا مجموعہ ہے۔ علمائے دین اور دین کے طلبہ، جنہوں نے اپنے قیمتی سالوں کو قرآن و حدیث، فقہ، اصولِ دین اور دیگر علومِ اسلامیہ کے حصول میں صرف کیا، ان کا مقام اور مرتبہ نہایت بلند ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں دینِ مصطفیٰ ﷺ کے چراغ روشن ہیں۔
لیکن افسوس کہ آج کل بعض لوگ، جو خود کو "پیر" یا "روحانی پیشوا" کہلواتے ہیں، اپنی لاعلمی اور تکبر کی بنیاد پر اُن علماء اور طلبہ پر زبان درازی کرتے ہیں جو آٹھ آٹھ سال تک دینِ متین کی خدمت کے لیے محنت کرتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف دین کے خلاف ہے بلکہ صریحاً گستاخی اور بے ادبی ہے۔
علمائے دین کا مقام:
قرآنِ کریم میں فرمایا گیا:
يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ (المجادلہ: 11)
"اللہ تعالیٰ ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرماتا ہے۔"
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"من سلك طريقاً يلتمس فيه علماً سهل الله له به طريقاً إلى الجنة" (مسلم)
"جو شخص علم حاصل کرنے کے لیے راستہ اختیار کرتا ہے، اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتا ہے۔"
زبان درازی کی مذمت:
اسلام نے ہرگز یہ اجازت نہیں دی کہ کسی عالمِ دین یا دین کے طالب علم کی توہین کی جائے، چاہے کسی کو ان سے اختلاف ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"ليس منا من لم يوقر كبيرنا، ويرحم صغيرنا، ويعرف لعالمنا حقه" (مسند أحمد)
"وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑے کا احترام نہ کرے، ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کرے، اور ہمارے عالم کے حق کو نہ پہچانے۔"
تصوف کا اصل مقصد:
تصوف کا اصل مقصد دل کی اصلاح، اخلاق کی تطہیر، اور اللہ کے قرب کا حصول ہے۔ جو پیر یا شیخ خود تکبر، حسد، اور زبان درازی میں مبتلا ہو، وہ حقیقی معنوں میں روحانی پیشوا نہیں ہو سکتا۔ حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"التصوف كله أدب، فكل وقت له أدب، وكل حال له أدب، وكل مقام له أدب."
"تصوف سراسر ادب ہے، ہر وقت، ہر حال، اور ہر مقام کے لیے اس کا الگ ادب ہے۔"
آج کے پیر صاحبان کے لیے نصیحت:
جو لوگ خود کو پیر یا روحانی پیشوا کہتے ہیں، ان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دلوں کو تکبر اور غرور سے پاک کریں، علمائے دین اور طلبہ کا احترام کریں، اور اپنی زبان کو سنواریں۔ بزرگی اور ولایت کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ دوسروں کی تحقیر کریں، بلکہ اصل بزرگ وہ ہے جو عاجزی اختیار کرے اور امتِ مسلمہ میں محبت اور خیر کا پیغام پھیلائے۔
نتیجہ:
ہم سب کو چاہیے کہ علمائے دین، طلبۂ علم، اور دین کے خادموں کا احترام کریں۔ اگر کسی سے علمی اختلاف ہو بھی جائے تو اسے ادب اور حکمت سے بیان کیا جائے، نہ کہ تحقیر اور توہین سے۔ یہی دینِ اسلام کا اصل پیغام ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ادب و احترام کے ساتھ دین پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے، اور ہمیں علمائے حق اور صالحین کی عزت کرنے والا بنائے۔ آمین۔