برصغیر کے پنجاب کے شہر لائلپور کو کیپٹن پوپہم ینگ نے ڈیزائن کیا۔ اس شہر کو ایک مکعب کی صورت میں ڈیزائن کیا گیا جو آٹھ بازاروں پر مشتمل ہے۔ اسی بازار میں فیصل آباد کی پہچان کلاک ٹاور ہے یعنی گھنٹہ گھر۔ مرکزی ڈیزائن میں لائلپور کا رقبہ 110 ایکڑ تھا لیکن آبادی کے اضافے کے ساتھ آٹھ بازاروں کے باہر بھی رہائشی علاقوں کے لیے جگہ کا تعین کیا گیا۔
لائلپور میں آٹھ بازاروں سے باہر دو اہم رہائشی علاقے تھے ڈگلس پورہ اور گرو نانک پورہ۔ لائلپور میں اکثریت سکھوں اور ہندوؤں کی تھی اور آبادی کا تناسب تقریباً 15 فیصد مسلمان اور 85 فیصد ہندو اور سکھ۔
آٹھ بازاروں سے باہر بننے والا سب سے پہلا رہائشی علاقہ ڈگلس پورہ تھا۔ ڈگلس پورہ کا نام لائلپور کے اس وقت کے ڈپٹی کمشنر سر ڈگلس کے نام پر رکھا گیا۔
📷
اس علاقے کا رقبہ تقریباً 50 ایکڑ تھا اور اس علاقے میں سکھ، ہندو اور مسلمان تینوں ہی رہائش پذیر تھے۔
ڈگلس پورہ میں مسلمانوں کے مکانات ہندوؤں نے خرید لیے اور اس وجہ سے اس علاقے میں اکثریت سکھوں اور ہندوؤں کی ہو گئی۔ تقسیم کے بعد یہ لوگ انڈیا منتقل ہو گئے اور یہ مکانات زیادہ تر ان لوگوں کو الاٹ کیے گئے جو لدھیانہ اور جالندھر سے آئے۔
آبادی کے اضافے کے ساتھ ایک نئی رہائشی آبادی قیام میں آئی۔ یہ وہ علاقہ ہے جہاں اس وقت گورنمنٹ کالج ہے۔ اس علاقے میں 1920 میں گورنمنٹ سکول یا کالج کے لیے جگہ مختص کی گئی تھی۔
📷
جھنگ روڈ پر نئی آبادیاں قائم ہوئی اور اس کا نام ان مالکان سے منسوب کیا گیا جنھوں نے یہ زمین رہائشی علاقے کے لیے فروخت کی۔
گورنمنٹ کالج کے قریب علاقہ سکھوں کی ملکیت تھی اور اسی وجہ سے 37-1936 میں گرو نانک پورہ وجود میں آیا۔ اس علاقے کا رقبہ بھی 50 ایکڑ تھا۔ اس علاقے میں زمین سکھوں اور ہندوؤں نے خریدی اور مکان تعمیر کیے۔
تقسیم ہند کے بعد یہ مکان جالندھر سے آنے والے مہاجرین کو الاٹ کیے گئے۔
📷
لائلپور کا نام 1977 میں اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ فیصل کے نام سے منسوب کیا گیا اور اس کا نام فیصل آباد پڑا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علاقوں میں پرانے مکانات کے نشانات بھی ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ کہیں دیکھو تو پرانی عمارتوں اور گھروں کو گرا کر نئی عمارتیں اور مکانات تعمیر کیے جا رہے ہیں تو کہیں جو بچ گئی ہیں ان عمارتوں کی کھڑکیاں اور چبوترے تو پرانے ہی ہیں لیکن دیواروں کو پلاستر کر کے نئی شکل دے دی گئی ہے۔
بڑے بڑے گھر اب چھوٹی چھوٹی دکانوں اور چھوٹے مکانات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ کسی زمانے میں کشادہ صحن، بڑی بڑی کھڑکیوں اور بڑے دروازوں کی جگہ لوہے کے دروازوں نے لے لی اور تنگ دکانیں اور تاریک کمروں میں تبدیل ہو چکی ہیں۔
📷
آٹھ بازاروں سے باہر ایک اور کالونی بھی قائم کی گئی گوبند پورہ کے نام سے۔
اس کالونی کو گوبند سنگھ نے بنایا اور اسی علاقے میں نہال سنگھ اور گوبند سنگھ کا ایک بڑا مکان بھی تھا۔ یہ مکان اب بھی موجود ہے لیکن کئی حصوں میں بٹ چکا ہے۔
بیرونی حصے کو دیکھنے سے ایک امید بندھ جاتی ہے کہ اس حویلی نما مکان کو اس کی اصل حالت میں محفوظ کیا ہوا ہے۔
📷
وہی خوبصورت کھڑکیاں، لکڑی پر شاندار کام۔ لیکن اندر سے صورتحال بالکل مختلف ہے۔ ٹوٹی ہوئی دیواریں، آدھی انگیٹھیاں اور خستہ حال میں کھڑکی دروازے۔ رنگین شیشے اب بھی ہیں لیکن کتنی دیر؟
فیصل آباد کے پرانے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ جن افراد کو یہ مکان الاٹ ہوئے ان کو تو کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مکان کو اصل حالت ہی میں رکھا جائے لیکن جو عمارتیں سرکاری استعمال عمارتیں ہیں ان کو تو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
📷
فیصل آباد کے پرانے رہائشی ڈاکٹر حافظ عبدالقیوم کا کہنا ہے کہ حکومت کو پوری کوشش کرنی چاہیے کہ پرانی عمارتوں کو اصل حالت ہی میں رکھا جائے۔
تقسیم سے قبل لائلپور میں سنت رام سکول اور خالصہ سکول ساتھ ساتھ تھے۔ اب یہ سکول اسلامیہ پوسٹ گریجویٹ کالج فار ویمن میں ضم ہو گئے ہیں۔
تاہم کالج کی پرنسپل کے بقول خالصہ سکول کی عمارت کو گرا کر ایڈمن بلاک بنا دیا گیا ہے جبکہ 'سنت رام سکول کی عمارت کو بھی گرا کر نئے بلاک بنائے جائیں گے کیونکہ کالج کو مزید جگہ کی ضرورت ہے۔'
📷
فیصل آباد کے پرانے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ سنترام سکول کی عمارت اب بھی پختہ ہی دکھائی دیتی ہے اور اس کے ہال کالج کی نئی عمارت کے ہال سے کہیں زیادہ کشادہ اور ہوادار ہیں۔
'اس کو کیوں گرا کر نئے بلاک بنانے کی ضرورت پیش آ رہی ہے اور اگر نیا بلاک بنانا ہی ہے تو مزید زمین الاٹ کرائی جائے۔'
📷
📷
📷
۔