Shah Alam Awan

Shah Alam Awan Contact information, map and directions, contact form, opening hours, services, ratings, photos, videos and announcements from Shah Alam Awan, Media/News Company, House 223, Ahmad Park, Faisalabad.

‏صرف 100 سال بعد۔۔۔۔۔۔!آج سے 100 سال بعد، مثال کے طور پر2123میں، مجھ سمیت آپ جتنے لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، سب ہی اپنے ر...
07/03/2023

‏صرف 100 سال بعد۔۔۔۔۔۔!
آج سے 100 سال بعد، مثال کے طور پر2123میں، مجھ سمیت آپ جتنے لوگ یہ تحریر پڑھ رہے ہیں، سب ہی اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ زیر زمین ہوں گے۔۔۔۔۔۔
ہمارے گھروں میں اجنبی رہیں گے۔ ہماری جائیداد اجنبیوں کی ملکیت ہوگی۔
وہ ہمیں یاد بھی نہیں کریں گے۔ کیا آپ نے کبھی اپنے دادا کے والد کے بارے میں سوچا ہے؟ نہیں نا۔۔ تو وہ ہمیں کیوں یاد کریں گے؟۔۔۔۔۔ ہم اپنی نسلوں کی یاد میں تاریخ کا حصہ بن جائیں گے، لوگ ہمارے نام اور شکلیں بھول جائیں گے۔۔۔۔۔۔۔
اس وقت ہمیں احساس ہوگا کہ سب کچھ حاصل کرنے کا خواب کتنا جاہلانہ اور ناقص تھا۔۔۔۔۔ قرآن بتاتا ہے کہ ہم ایک اور زندگی مانگیں گے کہ اسے صرف نیک اعمال میں گزاریں، لیکن بہت دیر ہو چکی ہوگی۔۔۔۔۔دوبارہ مہلت نہیں ملے گی۔۔۔۔

دوستو! ہمارے پاس اب بھی وقت ہے۔ نیک اعمال کریں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔
اللہ پاک ہم سب کے لیے آسانیاں پیدا کرے۔ آمین

03/03/2023

جنت کاپہلادن کتنا حَسین اور حیرت انگیز ھوگا!
(منقول)
-------------------------------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔۔
جنت میں پہلا لمحہ، کیسا (حسین و خوبصورت) ہو گا.
لوگ حساب و کتاب سے فارغ ہو جائیں گے ۔
ذرا سوچئے۔۔
جنت میں ابتدائی لمحات کتنے دلکش ہوں گے، جب ہم نہریں، محلات، جنتی پھل، خیمے، سونا، موتی اور ریشم دیکھیں گے۔❣️
جب ہم اپنے اُن عزیز و اقارب سے ملاقات کریں گے، جو عرصہ دراز پہلے فوت ہو گئے تھے اور ہماری نگاہوں سے اوجھل تھے۔

جب نیکوکار بیٹا اپنے ماں باپ سے ملے گا۔

اور والدین اپنے ان بچوں سے ملاقات کریں گے، جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے۔

اور بھائی اپنے بھائی سے ملے گا، جو اس سے ملاقات کی خواہش رکھتا ہو گا۔

جب ہم مریض کو شفایاب دیکھیں گے۔

غمگین کو مسروراوربوڑھے کو جوانی کی حالت میں دیکھیں گے۔

(اور کیسا حسین منظر ہو گا کہ) جب ہم انبیائے کرام علیہم السلام سے ملاقات کا شرف پائیں گے۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو سلام پیش کریں گے۔

شہدائے اسلام کی زیارت کریں گے۔

اور جاگتی آنکھوں سے فرشتوں کو دیکھیں گے۔

پھر جب ہمیں نہرِ کوثر پر لے جایا جائے گا، تو وہاں ہمارے محبوب، حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم بنفسِ نفیس موجود ہوں گے۔❤❤

اور ہمیں سونے کے برتنوں میں کوثر کے جام بھر بھر کر دیں گے ، جسے ایک بار پینے کے بعد کبھی پیاس نہیں لگے گی۔

اور ہمیں بتایا جا رہا ہو گا کہ یہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں۔

وہ (دیکھو) وہاں سے عمر رضی اللہ عنہ آ رہے ہیں۔

اور وہ باحیا (وباصفا) عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں۔

اور یہ حضرت شیرِ خدا علی المرتضی رضی اللہ عنہ ہیں۔

اور ان کے پہلو میں نوجوانانِ جنت کے سردار (حسنینِ کریمین) رضی اللہ عنہم ہیں۔

اور ہمیں بتایا جائے گا کہ وہ سید الشہداء حضرت امیر حمزہ ھیں جو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کے محترم چچا ھیں۔۔

اور وہ دیکھو مفسرِ قرآن عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ہیں۔

اور جو اُس درخت کے نیچے ہیں وہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ہیں۔

اور یہ کثیر الروایت صحابی، ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں۔
اور یہ موذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ ھیں۔۔

پھر ہم ایک میٹھی اور سریلی آواز سُنیں گے، تو سب لوگ رب تعالیٰ کی وحدانیت و کبریائی بیان کرتے ہوئے صاحبِ آواز کے بارے میں پوچھیں گے، تو فوراً بتایا جائے گا کہ یہ اللّٰہ کے جلیل القدر نبی داؤد علیہ السلام ہیں۔
(یہ تمام تصورات اتنے حَسین اور ایمان افروز ھیں تو حقیقت کا کیا لطف ھوگا!)

(پھر) جب ہمیں ہمارا خالق و مالک جل جلالہ ارشاد فرمائے گا: اے جنتیو!!

ہم عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم تیری بندگی کے لئے حاضر ہیں۔

اللّٰہ تعالیٰ فرمائے گا: کیا تمہیں کسی اور چیز کی طلب ہے، جو میں تمہیں عطا کروں؟

ہم عرض کریں گے: اے ہمارے رب! ہم (اس سے بڑھ کر ) اور کیا مانگیں؟ کہ تو نے ہمارے چہروں کو روشن فرمایا، ہمیں جنت میں داخل کیا اور ہمیں جہنم سے نجات بخشی۔

پس اللّٰہ رب العزت حجاب اُٹھا دے گا (اور ہم دیدارِ الٰہی سے مشرف ہوں گے)۔❤️❤️

تب ہمیں اندازہ ھوگا کہ جنت کی سب سے عظیم نعمت تو اللّٰہ تعالیٰ کا دیدار ہے۔

دیدارِ الٰہی کا منظر کیسا (حسین ) ہو گا جب رب تعالیٰ ہمیں فرمائے گا۔

آج میں نے تم پر اپنی رضا واجب کر دی، اس کے بعد میں تم پر کبھی غضب نہیں فرماؤں گا۔
یا اللّٰہ پاک اپنی خاص رحمت سے ہمیں پیارے بندوں میں شامل فرما ، ہم سے راضی ہو جا۔ہمیں دین ، دُنیا اور آخرت کی تمام بھلائیاں عطا فرما ہمارے لئے دین اسلام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما ، ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرما مرنے سے پہلے ہماری توبہ قبول فرمانا اور ہمیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمانا۔

آمین ثم آمین یا رب العالمین

28/02/2023

ھماری تہذیب کے زوال کے اسباب

ایک ڈاکٹر تھے۔
اکثر ایسا ھوتا کہ وہ نسخے پر ڈسپنسر کے لیئے لکھتے
کہ اس مریض سے پیسے نہیں لینے۔
اور جب کبھی مریض پوچھتا کہ ڈاکٹر صاحب آپ نے پیسے کیوں نہیں لئیے؟
تو وہ کہتے کہ مجھے شرم آتی ھے۔
کہ جس کا نام ابوبکر ھو، عمر ھو، عثمان ھو، علی ھو یا خدیجہ، عائشہ اور فاطمہ ھو
تو میں اس سے پیسے لوں۔
ساری عمر انہوں نے خلفائے راشدینؓ، امہات المومنینؓ
اور بنات رسولﷺ کے ھم نام لوگوں سے پیسے نہ لیئے۔
یہ ان کی محبت اور ادب کا عجیب انداز تھا۔

امام احمد بن حنبل نہر پر وضو فرما رھے تھے
کہ ان کا شاگرد بھی وضوکرنے آن پہنچا،
لیکن فوراً ہی اٹھ کھڑا ھوا اور امام صاحب سے آگے جا کر بیٹھ گیا۔
پوچھنے پر کہا
کہ دل میں خیال آیا کہ میری طرف سے پانی بہہ کر آپ کی طرف آ رہا ھے۔
مجھے شرم آئی کہ استاد میرے مستعمل پانی سے وضو کرے۔

اپنے سگے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہﷺ نے پوچھا
کہ آپ بڑے ہیں یا میں؟
(عمر پوچھنا مقصود تھا)
کہا یارسول اللہﷺ بڑے تو آپ ھی ہیں البتہ عمر میری زیادہ ھے۔

مجدد الف ثانی رات کو سوتے ھوئے یہ احتیاط بھی کرتے
کہ پاؤں استاد کے گھر کی طرف نہ ھوں
اور بیت الخلا جاتے ھوئے یہ احتیاط کرتے
کہ جس قلم سے لکھ رہا ھوں اس کی کوئی سیاھی ہاتھ پر لگی نہ رہ جائے۔

ادب کا یہ انداز اسلامی تہذیب کا طرہ امتیاز رہا ھے
اور یہ کوئی برصغیر کے ساتھ ھی خاص نہ تھا
بلکہ جہاں جہاں بھی اسلام گیا اس کی تعلیمات کے زیر اثر ایسی ہی تہذیب پیدا ھوئی
جس میں بڑوں کے ادب کو خاص اھمیت حاصل تھی
کیوں کہ رسول اللہﷺ کا یہ ارشاد سب کو یاد تھا
کہ جو بڑوں کا ادب نہیں کرتا اور چھوٹوں سے پیار نہیں کرتا وہ ھم میں سے نہیں۔

ابھی زیادہ زمانہ نہیں گزرا
کہ لوگ ماں باپ کے برابر بیٹھنا،
ان کے آگے چلنا اور ان سے اونچا بولنا برا سمجھتے تھے
اور اُن کے حکم پر عمل کرنا اپنے لیے فخر جانتے تھے۔
اس کے صدقے اللہﷻ انہیں نوازتا بھی تھا۔
اسلامی معاشروں میں یہ بات مشہور تھی
کہ جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے رزق میں اضافہ کرے
وہ والدین کے ادب کا حق ادا کرے۔
اور جو یہ چاہتا ھے کہ اللہﷻ اس کے علم میں اضافہ کرے وہ استاد کا ادب کرے۔

ایک دوست کہتے ہیں کہ
میں نے بڑی مشقت سے پیسہ اکٹھا کر کے پلاٹ لیا تو والد صاحب نے کہا
کہ بیٹا تمہارا فلاں بھائی کمزور ھے
یہ پلاٹ اگر تم اسے دے دو تو میں تمہیں دعائیں دوں گا۔
حالانکہ وہ بھائی والدین کا نافرمان تھا۔
اس (دوست) کا کہنا ھے کہ
عقل نے تو بڑا سمجھایا کہ یہ کام کرنا حماقت ھے
مگر میں نے عقل سے کہا کہ اقبال نے کہا ھے،
اچھا ھے دل کے ساتھ رھے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے،
چنانچہ عقل کو تنہا چھوڑا اور وہ پلاٹ بھائی کو دے دیا۔
کہتے ہیں کہ والد صاحب بہت خوش ھوئے
اور انہی کی دعا کا صدقہ ھے کہ آج میرے کئی مکانات اور پلازے ہیں
جب کہ بھائی کا بس اسی پلاٹ پر ایک مکان ھے۔

والدین کی طرح
استاد کا ادب بھی اسلامی معاشروں کی ایک امتیازی خصوصیت تھی
اور اس کا تسلسل بھی صحابہؓ کے زمانے سے چلا آرہا تھا۔

حضور ﷺ کے چچا کے بیٹے ابن عباسؓ
کسی صحابی سے کوئی حدیث حاصل کر نے جاتے تو جا کر اس کے دروازے پر بیٹھ رہتے۔
اس کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ادب کے خلاف سمجھتے
اور جب وہ صحابیؓ خود ھی کسی کام سے باہر نکلتے
تو ان سے حدیث پوچھتے
اور اس دوران سخت گرمی میں پسینہ بہتا رہتا، لو چلتی رہتی
اور یہ برداشت کرتے رہتے۔
وہ صحابی شرمندہ ھوتے اور کہتے
کہ آپؓ تو رسول اللہﷺ کے چچا کے بیٹے ہیں آپ نے مجھے بلا لیا ھوتا
تو یہ کہتے کہ میں شاگرد بن کے آیا ھوں، آپ کا یہ حق تھا کہ میں آپ کا ادب کروں
اور اپنے کا م کے لیے آپ کو تنگ نہ کروں۔

کتنی ھی مدت ھمارے نظام تعلیم میں یہ رواج رہا
(بلکہ اسلامی مدارس میں آج بھی ھے)
کہ ہر مضمون کے استاد کا ایک کمرہ ھوتا، وہ وہیں بیٹھتا اور شاگرد خود چل کر وہاں پڑھنے آتے
جب کہ اب شاگرد کلاسوں میں بیٹھے رہتے ہیں
اور استاد سارا دن چل چل کر ان کے پاس جاتا ھے۔

مسلمان تہذیبوں میں یہ معاملہ صرف والدین اور استاد تک ھی محدود نہ تھا
بلکہ باقی رشتوں کے معاملے میں بھی ایسی ھی احتیاط کی جاتی تھی۔

وہاں چھوٹا، چھوٹا تھا اور بڑا، بڑا۔
چھوٹا عمر بڑھنے کے ساتھ بڑا نہیں بن جاتا تھا بلکہ چھوٹا ھی رہتا تھا۔

ابن عمرؓ جا رہے تھے کہ ایک بدو کو دیکھا۔
سواری سے اترے، بڑے ادب سے پیش آئے اور اس کو بہت سا ہدیہ دیا۔
کسی نے کہا کہ
یہ بدو ہے تھوڑے پہ بھی راضی ھو جاتا آپ نے اسے اتنا عطا کر دیا۔
فرمایا کہ یہ میرے والد صاحب کے پاس آیا کرتا تھا
تو مجھے شرم آئی کہ میں اس کا احترام نہ کروں۔

اسلامی تہذیب کمزور ھوئی تو بہت سی باتوں کی طرح حفظ مراتب کی یہ قدر بھی اپنی اھمیت کھو بیٹھی۔
اب برابر ی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا اور بچے ماں باپ کے برابر کھڑے ھوگئے اور شاگرد استاد کے برابر۔
جس سے وہ سار ی خرابیاں در آئیں جو مغربی تہذیب میں موجود ہیں۔

اسلام اس مساوات کا ھرگز قائل نہیں کہ جس میں ابوبکرؓ اور ابوجہل برابر ھو جائیں۔
ابو بکرؓ ابوبکرؓ رہیں گے اور ابو جہل ابو جہل رھے گا۔
اسی طرح استاد، استاد رھے گا اور شاگرد، شاگرد۔
والد، والد رھے گا اور بیٹا، بیٹا۔
سب کا اپنا اپنا مقام اور اپنی اپنی جگہ ھے
اُن کو اُن کے مقام پر رکھنا اور اس کے لحاظ سے ادب و احترا م دینا ھی تہذیب کا حسن ھے۔

مغربی تہذیب کا مسلمان معاشروں پہ سب سے بڑا وار (شاید) اسی راستے سے ھوا ھے
جب کہ مسلمان عریانی اور فحاشی کو سمجھ رھے ہیں۔
عریانی اور فحاشی کا برا ھونا سب کو سمجھ میں آتا ھے
اس لیئے اس کے خلاف عمل کرنا آسان ھے
جب کہ حفظِ مراتب اور محبت کے آداب کی اھمیت کا سمجھ آنا مشکل ھے
اس لیئے یہ قدر تیزی سے رُو بہ زوال ھے۔

28/02/2023

👈 *امی کی پسند *
۔
میں چار سال کے بعد واپس اپنے وطن لوٹ رہا تھا ۔۔۔۔
پچھلے چار سال سے میں دبئی میں جاب کر رہا تھا اور اب میرا کنٹریکٹ ختم ہو چکا تھا اور میں بس وطن واپسی کی تیاریاں کر رہا تھا ۔۔۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی میں گھر والوں کے لئے شاپنگ کر کے کمرے میں آیا تھا ۔۔۔
پچھلے چار سالوں میں جاب کے علاوہ کچھ چھوٹے موٹے کام کر کے میں نے کچھ پیسے آج کے دن کے لئے ہی جوڑ رکھے تھے کہ جب وطن واپسی جاؤں گا تو گھر والوں کے لئے تحائف لیتا جاؤں گا ۔۔۔۔
چھوٹے بھائی کو مہنگے موبائل رکھنے کا بہت شوق تھا سو اس کے لئے ایک آئی فون لیا تھا .
چھوٹی بہن بہت عرصے سے ٹیبلیٹ کی فرمائش کر رہی تھی اس کے لئے ایک اچھا سا ٹیبلیٹ لیا
دوسری دو بہنوں کے لئے خوبصورت سی گھڑیاں اور کپڑوں کے کچھ جوڑے لئے ابو کے لئے ایک سمارٹ فون اور چند قیمتی پرفیوم لئے
لیکن جب امی کے لئے تحفہ لینے کی باری آئی تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ امی کو کیا پسند ہے
اتنے سالوں میں کبھی امی کو مہنگے کپڑے پہنے نہیں دیکھا ، گھڑی کا تو شوق ہی نہیں رکھتی امی چوڑیاں ، بالیاں یا انگوٹھی وغیرہ ان سب سے تو جیسے چڑ سی تھی امی کو ۔۔۔
جب کبھی جاتیں بازار تو بہنوں کے لئے تو لے لیتیں لیکن اپنی باری آنے پر ہمیشہ یہی کہتیں کہ میں نے کیا کرنا ہے پہن کر مجھے یہ سب چونچلا پن لگتا ہے بھئی۔۔۔۔ تم ہی پہنو یہ سب میں تو اس سب کے بغیر ہی اچھی ۔۔۔
یہی حال کپڑوں کا تھا ایک بار کوئی ایک آدھا جوڑا لے لیتیں تو بس پھر اگلا کچھ عرصہ یہی سننے کو ملتا کہ ابھی تو لئے ہیں میں نے اتنے ’’ڈھیر کپڑے ‘‘
تم ہی لو اپنے لئے میرے پاس تو پہلے ہی ’’بہت ‘‘ ہیں ۔۔۔۔
میں سوچ سوچ کر تھک گیا لیکن امی کی کوئی ایسی بات ذہن میں نا آ سکی کہ جس سے ان کی پسند کا کچھ پتا لگتا ۔۔۔۔
میں ابھی اسی سوچ میں تھا کہ امی کے لئے کیا لوں کہ گھر سے کال آ گئی ۔۔۔۔
چھوٹی بہن نے فون کیا تھا ۔۔۔ چھٹتے ہی کہنے لگی کہ بھائی آپ اتنے عرصے بعد واپس آرہے ہیں تو آتے وقت میرے لئے دبئی سے ایک اچھا سے ٹیبلیٹ ضرور لانا ۔۔۔۔
میرے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی کیونکہ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میرے بہن بھائیوں کو کیا پسند ہے ۔۔۔
لیکن میں انہیں سرپرائز دینا چاہتا تھا سو بولا کہ ’’ ابھی تو پیکنگ چل رہی ہے اگر وقت ملا تو دیکھوں گا ‘‘ ۔۔۔
باقی بہن بھائی بھی فوراً جمع ہو گئے اور اپنی فرمائشیں کرنے لگے اور میں بس مسکراتا رہا کہ جو کچھ وہ کہہ رہے تھے وہ تو میں لے ہی چکا تھا ۔۔۔۔
اچھا امی کہاں ہیں امی سے بات کراؤ میری ‘ میں نے امی سے خود ہی ان کی پسند کا پوچھنے کا ارادہ کیا کہ مجھے بہت سوچنے کے بعد بھی امی کی کوئی پسند ذہن میں نا آ سکی تھی ۔۔۔۔
کچھ دیر میں امی آ گئیں لائن پر حال احوال کے بعد میں نے پوچھا کہ امی آپ کے لئے کیا لاؤں دبئی سے ؟؟
اپنی پسند کی کوئی چیز بتائیں۔۔۔۔۔
امی نے کہا ’’ او چھوڑ ان باتوں کو یہ بتا کہ کب پہنچ رہا ہے میرا بچہ میرے پاس ؟؟؟ ‘‘
میں امی کی پسند سننے کا منتظر تھا ۔۔۔۔ نجانے کیوں یہ سن کر اچانک میری آنکھوں سے دو آنسو نکلے اور میرے گالوں پھسلتے چلے گئے ۔۔۔۔۔۔
میں جان چکا تھا کہ امی کو کیا پسند ہے !!!!!
اللہ سبحانہ وتعالی ان ماؤں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ وارفع مقام عطا فرمائیں جو اس دنیا سے جاچکی

اور وہ مائیں جو حیات ہیں انکا سایہ شفقت ہمارے سروں پے تادیر قائم ودائم رکھے اور ہمیں انہیں راضی رکھنے کی توفیق عطافرمائے
۔آمین

28/02/2023

جسمانی اعضاء
👈 *1- معدہ ( Stomach )* : اس وقت ڈرا ہوتا ہے جب آپ صبح کا ناشتہ نہیں کرتے ۔

*👈2 - گردے ( Kidneys )* اس وقت خوفزدہ ہوتے ہیں جب آپ 24 گھنٹے میں 10 گلاس پانی نہیں پیتے ۔

*👈3 - پتہ ( Gall bladder )* اس وقت پریشان ہوتا ہے جب آپ رات 11 بجے تک سوتے نہیں اور سورج طلوع سے پہلے جاگتے نہیں ہیں .

*👈4 - چھوٹی آنت ( Small intestines )* اس وقت تکلیف محسوس کرتی ہے جب آپ ٹھنڈے مشروبات پیتے ہیں اور باسی کھانا کھاتے ہیں،

*👈5 - بڑی میں آنت ( Large intestine )* اس وقت خوفزدہ ہوتی ہے جب زیادہ تلی ہوئی یا مصالحہ دار چیز کھاتے ہیں.

*👈6 - پھیپھڑے ( Lungs )* اس وقت بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں جب آپ دھواں دھول سگریٹ بیڑی سے آلودہ فضا میں سانس لیتے ہیں ۔

*👈7 - جگر ( Liver )* اس وقت خوفزدہ ہوتا ہے جب آپ بھاری تلی ہوئی خوراک اور فاسٹ فوڈ کھاتے ہیں

*👈8 - دل ( Heart )* اس وقت بہت تکلیف محسوس کرتا ہے جب آپ زیادہ نمکین اور کولیسٹرول والی غذا کھاتے ہیں .

*👈9 - لبلبہ ( Pancreas )* لبلبہ اس وقت بہت ڈرتا ہے جب آپ کثرت سے مٹھائی کھاتے ہیں اور خاص کر جب وہ فری دستیاب ہو،

*👈10 - آنکھیں ( Eyes )* اس وقت تنگ آجاتی ہیں جب اندھیرے میں موبائل اور کمپیوٹر پر ان کی تیز روشنی میں کام کرتے ہیں ۔

*👈11 - دماغ ( Brain )* اس وقت بہت دکھی ہوتا ہے جب آپ منفی negative سوچتے ہیں ۔

👈! اپنے جسم کے اعضاء کا خیال رکھئے اور ان کو خوفزدہ مت کیجیئے ۔
یاد رکھئے یہ اعضاء مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہیں ۔۔۔!!!

*❣ﺧَﻴﺮُﺍﻟﻨَّﺎﺱِ ﻣَﻦ ﻳًﻨﻔَﻊُ ﺍﻟﻨَّﺎس۔

28/02/2023

⭕ *برکت کیا ہے ؟؟؟*

🍀 برکت کو بیان نہیں، محسوس کیا جاسکتا ہے۔

🍀 جب آپ آمدن و اخراجات کے حساب کتاب کے چکر میں پڑے بغیر اور بنا کسی ٹینشن کے اپنا کچن چلا رہے ہوں تو اسے برکت کہتے ہیں۔

🍀 پھر چاہے آپ کی آمدن ایک لاکھ ہو یا ایک ہزار۔

🍀 اس کی سب سے بڑی نشانی دل کا اطمینان ہوتا ہے جو کہ بڑے بڑے سیٹھوں اور سرمایہ داروں کو نصیب نہیں ہوتا۔

🍀 اگر برکت دیکھنی ہو تو سخت گرمیوں میں روڈ کھودتے کسی مزدور کو کھانے کے وقفہ میں دیکھ لیں جب وہ دیوار کی اوٹ لے کر اپنی چادر پھیلا کر بیٹھتا ہے، اپنا ٹفن کھول کر، اس پر روٹی بچھاتا ہے، پھر اچار کی چند قاشیں نکال کر اس پر ڈال دیتا ہے اور بسم اللہ پڑھ کر نوالہ توڑتا ہے۔

🍀 اس کیفیت میں جو قرار اور دلی اطمینان اس کو محسوس ہو رہا ہوتا ہے وہ کسی لکھ پتی کو میک ڈونلڈ اور کے ایف سی کے مہنگے برگر کھا کر بھی نصیب نہیں ہوتا۔

🍀 برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ اللہ تعالى آپ کو اور آپ کے گھر کے افراد کو کسی بڑی بیماری یا مصیبت سے محفوظ رکھتا ہے۔

🍀 انسان، اسپتال اور ڈاکٹروں کے چکروں سے بچا رہتا ہے۔ یوں اس کی آمدن پانی کی طرح بہہ جانے سے محفوظ رہ جاتی ہے۔

🍀 برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کی بیوی قناعت پسند اور شکرگذار ہے۔

🍀 وہ تھوڑے پر راضی ہوجاتی ہے، کپڑوں، میک اپ اور دیگر فرمائشوں سے آپ کی جیب پر بوجھ نہیں بنتی، یوں آپ کو اطمینان قلب کے ساتھ ساتھ مالی مشکلوں سے بھی بچالیتی ہے۔

🍀 برکت کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ آپ کو اللہ تعالى نے نیک اور شکرگذار اولاد عطا کی ہے۔

🍀 وہ اپنے دوستوں کی دیکھا دیکھی، آئے دن آپ سے نئی نئی فرمائشیں ( مثلاً موبائل، کپڑے، جوتے وغیرہ ) نہیں کرتی بلکہ قانع اور شاکر رہتی ہے۔

🍀 برکت کا تعلق مادی ذرائع کے برعکس اللہ تعالى کی غیبی امداد سے ہے۔

🍀 ایسی غیبی امداد جو نہ صرف آپ کے قلب کو اطمینان کا سرور دے بلکہ آپ کی ضروریات بھی آپ کی آمدن کے اندر اندر پوری ہوجائیں۔

🍀 یہ تو تھی مال اور آمدن میں برکت۔

🍀 اسی طرح وقت اور زندگی میں برکت ہوتی ہے۔

🍀 وقت میں برکت یہ ہے کہ آپ کم وقت میں زیادہ اور نتیجہ خیز کام کر سكيں،

🍀 آپ کا وقت ادھرادھر فضول چیزوں میں ضائع نہ ہو۔

🍀 اسی طرح عمر میں برکت یہ ہے کہ آپ کی زندگی برے کاموں میں خرچ نہ ہو رہی ہو بلکہ اچھے کاموں میں صرف ہو رہی ہو۔

🍀 کم کھانا، زیادہ افراد میں پورا پڑ جانا بھی برکت ہے۔

🍀 آپ کی کم محنت کا پھل زیادہ آمدن یا پیداوار کی صورت میں نکلنا بھی برکت ہے۔

🍀 یوں سمجھیں کہ برکت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے بندے کے لیے ’’سپيشل انعام‘‘ ہے

🍀 برکت کے حصول کا نہایت آسان طریقہ صدقہ کرنا ہے یا کسی یتیم کی کفالت کرنا ہے۔

🍀 آپ اپنے خاندان میں یا محلہ میں دیکھیں کوئی یتیم ہو، اس کی کفالت کریں پھر دیکھیں کس طرح برکت آپ کے گھر آتی ہے۔

🍀 جس گھر میں لوگ دن چڑھے تک سوتے رہتے ہوں وہاں کیسے آئے گی۔

🍀 کیوں کہ نبی كريم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ میری امت کے لیے دن کے اولین حصے میں برکت رکھ دی گئی ہے۔

25/02/2023

*ٹیچر نے پہلی کلاس کے بچوں سے پوچھا*
🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺🌺

ہر بچہ یہ بتائے کہ بڑا ہو کر وہ کیا بننا چاہتا ہے ؟

کسی نے کہا پائلٹ ، کسی نے کہا ڈاکٹر اور کسی نے کہا انجینئر، اُن سب کے جوابات کچھ اِسی طرح کے تھے۔ اُن میں صرف ایک بچہ نے کچھ عجیب بات کہی ، اس کی بات سن کر سب بچے ہنس پڑے ۔



کیا آپ کو معلوم ہے ، اُس نے کیا کہا ؟

اس نے کہا : "میں صحابی بننا چاہتا ہوں ۔ استاد کو طالب علم کی اس بات پر بڑا تعجب ہوا۔"

استاد نے کہا : صحابی بننا کیوں چاہتے ہو ؟

طالب علم نے جواب دیا : " أمی روزانہ سونے سے پہلے کسی نہ کسی صحابی کا قصہ ضرور سناتی ہیں

، وہ کہتی ہیں صحابی اللہ تعالی سے محبت کرتا ہے ، اِسی لئے میں اُنہی جیسا بننا چاہتا ہوں ۔"

استاد خاموش ہوگیا ۔ ۔ ۔
اِس جواب پر وہ اپنے آنسو روکنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔

وہ جان گیا تھا کہ اس بچے کی تربیت کے پیچھے ایک عظیم ماں ہے، اسی وجہ سے اِس کا نشانہ اتنا بلند ہو گیا ہے ۔

*ایک ڈرائینگ ٹیچر کہتی ہیں* : "ایک دن کا واقعہ ہے کہ میں نے پرائمری گریڈ کی ایک کلاس کے بچوں سے کہا کہ وہ موسم بہار کے منظر کی ڈرائینگ بنائیں ۔


ایک چھوٹی سی بچی اپنی ڈرائینگ لے کر آئی ، اس نے قرآن مجید کا اسکیچ بنایا ہوا تھا ۔۔۔ اس کی اس ڈرائینگ پر مجھے بڑا تعجب ہوا۔


میں نے کہا : موسم بہار کی ڈرائینگ بناؤ ، قرآن مجید کی نہیں ۔

سمجھیں؟ ؟!

اس بچی کا معصوم سا جواب میرے منہ پر ایک طمانچہ کی طرح پڑا ۔۔۔اس نے کہا : قرآن مجید میرے دل کی ربیع (بہار) ہے میری أمی نے تو مجھے یہی بتایا تھا۔ ۔ ۔

*کیسی عمدہ تعلیم تھی وہ ؟ ! !*

اللہ کی بے نیام ، ننگی تلوار "سيف الله" خالد بن الوليد جب قرآن مجید ہاتھ میں لیتے تو روتے ہوئے کہتے تھے . . .

( جہاد نے ہمیں تجھ سے غافل کردیا ہے ، اے قرآن ! )

کیا ہی خوب عذر تھا!

کیا آپ اس تحریر کو کسی اور کو بھیجنا چاہتے ہیں ؟

( ہاں) یا ( نہیں) ؟
اگر ہاں ہے تو اسے اپنے پاس محفوظ نہ رکھیں بلکہ اسے آپ کے جو عزیز اور محبوب لوگ ہیں انہیں بھیج دیں ۔

ہماری زندگی کا ایک سیکنڈ ۔۔۔

اور گئی ہوئی سانسیں واپس لوٹنے والی نہیں ہیں
اس لئے زندگی کی جو سانسیں بچی ہیں انہیں اللہ کی اطاعت میں گزاریں *

21/02/2023

21/02/2023

"بے سکونی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی نعمتیں گنتے گنتے اپنے اوپر اللہ کے احسانات کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے...
12/02/2023

"بے سکونی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم دوسروں کی نعمتیں گنتے گنتے اپنے اوپر اللہ کے احسانات کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ہم حسد، ناشکری اور ناامیدی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ یہ چیز ہمارے سکون کی بربادی اور اللہ سے دوری کا سبب بنتی ہے"
اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کو سکون قلب کی دولت سے مالامال فرمائے۔ آمین

11/02/2023

*آنسو ٹھنڈے گرم کب اور کیوں ہوتے ہیں*

خوشی کے آنسو ٹھنڈے ہوتے جبکہ غمی کے آنسو گرم ہوتے ہیں
ایسے ہی خوشی کے آنسو میٹھے جبکہ غمی کے آنسو نمکین یا کڑوے ہوتے ہیں
اسی پر بعض علماء نے فرمایا کہ
لڑکی سے نکاح کی اجازت لینے پر آنسو آئیں تو مذکورہ طریقے سے معلوم کیا جائے گا کہ رضا ہے یا نہیں!
خوشی کے آنسو ٹھنڈے میٹھے اور غمی کے گرم نمکین ہوں گے!

اس کی وجہ یہ ہے کہ خوشی میں صرف پانی آنکھوں کے ذریعہ نکلتا ہے جو کہ اصل کے اعتبار سے ٹھنڈا اور میٹھا ہوتا ہے
جبکہ غمی کی صورت میں پانی نہیں بلکہ خون ابل کر جل کر نکلتا ہے جو کہ کڑوا اور جلا ہو گرم ہوتا ہے
غالب نے بھی کہا
رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ سے نہ ٹپکا وہ لہو کیا ہے

ایک بار مشکوۃ شریف کے سبق کے دروان حضور اشرف العلماء علامہ اشرف سیالوی صاحب نے خوشی و غمی میں چہرہ کھلنے اور مرجھا جانے کی بڑی لاجواب وجہ بیان فرمائی

کہ
خوشی میں انسان کی روح چہرے کی جانب سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے اور اس زور کی وجہ سے چہرے کا رنگ سرخ ہوجاتا ہے

اور غمی و خوف میں روح جس کا مرکز دل ہے ادھر سمٹ کر جاتی ہے
یوں چہرے کا سارا خون نچوڑ کر دل کی جانب جاتا ہے

جس کی وجہ سے چہرے کا رنگ بے رنگ ہو جاتا ہے اور پیلا پڑ جاتا ہے

جس سے قلبی لگاؤ ہو اس کو دیکھ کر روح ادھر نکل کر جانا چاہتی ہے خون میں گردش تیز ہو جاتی ہے

اسی وجہ سے پیارے شخص کو دیکھ کر طبیعت بحال ہو جاتی ہے

اور ناپسند شخص یا چیز دیکھ کر روح سمٹتی سکڑتی ہے جس کی وجہ سے طبیعت میں بوجھل پن پیدا ہوجاتا
لہذا طبیعت تازہ رکھنی ہے تو پسندیدہ لوگوں کے چہرے دیکھا کریں،،،

11/02/2023

"غیر ضروری تجسس"

دنیا کے مختلف خطوں کے سفر اور 80 سے زیادہ قومیتوں کے لوگوں سے ملنے کے بعد میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ہم پاکستانی "غیر ضروری" طور پہ دنیا کی متجسس ترین قوم ہیں۔

اتنا زیادہ اور اتنا غیر ضروری تجسس ہمارے اندر پایا جاتا ہے کہ اس کی نتیجے میں ہماری اخلاقی اقدار شدید طریقے سے زوال کا شکار ہوگئی ہیں۔

ہم عمومی طور پہ اپنے کام سے کام رکھنے والے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔ ہمارا تجسس ہمیں ہر غیر متعلقہ بات میں گھسنے پر اکساتا ہے۔ آئیے اس کی کچھ مثالیں دیکھتے ہیں:

- آپ سڑک سے گزر رہے ہیں، ایک جگہ کوئی حادثہ ہوا ہے اور کچھ لوگ جمع ہیں جو متاثرین کی مدد بھی کر رہے ہیں اور کسی نے ایمبولینس اور پولیس کو کال بھی کردی ہے۔ اب وہاں مزید بھیڑ جمع ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ہر دس میں سے نو گزرنے والے لوگ اپنی گاڑی روک کر جھانکنے کی کوشش کریں گے۔ کچھ تو گاڑی یا موٹر سائیکل روک کر اتر کر جائیں گے اور موبائل سے ویڈیو بھی بناتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اب پیچھے ٹریفک جام ہوگا اور سڑک پر ایک افراتفری کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔

یہ غیر ضروری تجسس ہے۔ میں نے دنیا میں سڑکوں پر بہت سے حادثات دیکھے لیکن کہیں اس طرح کی غیر ضروری بھیڑ نہیں دیکھی۔

- آپ کسی محلے سے گزر رہے ہیں اور کسی گھر کا مین گیٹ تھوڑا سا کھلا ہوا ہے۔ اس محلے سے اکثر گزرنے والے اس گیٹ میں سے جھانک کر دیکھنے کی کوشش کریں گے۔ معلوم نہیں ہم کیا دیکھنا چاہتے ہیں! کس بات کا تجسس ہے جو ہمیں کسی اور کے گھر میں جھانکنے پر اکساتا ہے!

یہ غیر ضروری تجسس ہے۔ دنیا کے بہت سے شہروں میں گھروں کے مین گیٹ کھلے رہتے ہیں لیکن مجال ہے کہ کوئی گزرنے والا آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے کہ اندر کیا نظر آرہا ہے۔

- آپ کسی میٹنگ میں بیٹھے ہیں اور آپ کے کسی ساتھی کے موبائل پر کوئی میسج آیا ہے یا وہ ایک میسج ٹائپ کررہے ہوں تو ان کے آس پاس بیٹھے ہوئے اکثر لوگوں کو تجسس اور بے چینی ہوگی اور وہ جھانک کر یا کن انکھیوں سے یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہوئے نظر آئیں گے کہ کیا میسج ہے، کس کا ہے یا کس کو کیا جارہا ہے۔

یہ غیر ضروری تجسس ہے اور کسی کی پرسنل باؤنڈری کراس کرنے کی ایک بھونڈی کوشش ہے۔

- اداروں میں ملازمین کے سالانہ انکریمینٹس لگتے ہیں۔ اب تقریبا" ہر بندے کو یہ تجسس لاحق ہوجائے گا کہ کس کو کتنا انکریمینٹ ملا! مجھ سے کم ملا یا زیادہ! یہاں تک کہ لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے اور بتاتے نظر آتے ہیں، جس کے نتیجے میں خوامخواہ کی فرسٹریشن اور حسد جنم لیتی ہے۔

یہ غیر ضروری تجسس ہے جس کے نتیجے میں یا تو آپ پریشان ہوں گے، غیر ضروری طور پہ اسٹریس کا شکار ہوں گے، کسی سے حسد جنم لے گی یا کوئی آپ سے حسد کرے گا۔ لہٰذا خاموشی اختیار کریں، اللہ سے مانگیں اور اگر کوئی بات کرنی ہی ہے تو صرف اور صرف اہل اختیار سے کریں۔

- کسی جاننے والے کے بچے یا بچی کا رشتہ طے ہوگیا ہے تو اب ہر کسی کو یہ تجسس ہوگا کہ کس فیملی میں ہوا، لڑکا کیا کرتا ہے، کیا کماتا ہے، لوگ کہاں رہتے ہیں، کس خاندان یا برادری سے ہیں، شادی کب ہوگی، لڑکی کو والدین کیا دے رہے ہیں، سسرال والوں کی کوئی ڈیمانڈ ہے۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہی معاملہ لڑکی کے متعلق بھی ہوتا ہے۔ اس میں مزید اضافہ یہ ہو جاتا ہے کہ تصویر تو دکھائیں، کیسی ہے، کیا پڑھی ہوئی ہے، عمر میں کتنا فرق ہے، کتنے بہن بھائی ہیں۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔

یہ گھر والوں کے علاوہ لوگوں کے لیے چاہے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں، انتہائی غیر ضروری تجسس ہے، لیکن جب تک ساری باتیں پتا نہ لگ جائیں، ہماری بے چینی ختم نہیں ہوتی۔

- کسی کے گھر انتقال ہوگیا ہے۔ اب سارے خاندان والوں اور جاننے، نہ جاننے والوں کو میت کا چہرہ دیکھنا ہے۔ کیوں دیکھنا ہے؟ بہت بار چہرہ دیکھے جانے کے قابل نہیں ہوتا۔ انتقال کے بعد چہرہ متغیر ہو جاتا ہے، کبھی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں، منہ کھلا رہ جاتا ہے۔ یہاں تک کہ نماز جنازہ کے بعد بھی چہرہ دکھایا جارہا ہے بلکہ قبر میں اتار دیا گیا، پھر چہرہ دکھانا اور دیکھنا ہے۔ آج کل تو لوگ تصویر بھی کھینچتے ہیں اور ویڈیو بھی بناتے لیتے ہیں۔

جب کسی بندے کا انتقال ہو گیا ہے اور وہ خود اس بات پر قدرت نہیں رکھتا کہ وہ اپنی پردہ داری کر سکے تو یہ باقی لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اس کی پردہ داری کریں۔ اس کو جلد از جلد رب کے حوالے کریں۔

یہاں بھی غیر ضروری تجسس کارفرما ہے۔ کئی بار عرب دوستوں کے ہاں جنازوں اور تعزیت کی ترتیب دیکھنے کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں، اس قسم کی کوئی روایت نہیں ہے کہ قطار بنا کر آتے جائیے اور آخری دیدار کرلیں یا کروا دیں۔

ہندو تہذیب میں یہ لازمی ہے اور چہرہ رکھا ہی کھلا جاتا ہے تو ہم نے بھی یہ لے لیا کہ غسل کے بعد جنازہ رکھ دیا جائے تاکہ لوگ چہرہ دیکھ لیں۔ چلو قریبی گھر والے دیکھ لیں ایک بار، لیکن پورے مجمع نے دیکھنا ہے اور خواتین نے بھی دیکھنا ہے۔ چہ معنی دارد!

مفتی۔۔۔۔۔ صاحب جو کہ بہت ہی اللہ والے بزرگ تھے، انہوں نے یہ وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد ان کا چہرہ کسی کو نہ دکھایا جائے کہ معلوم نہیں چہرے پر کس قسم کے تغیرات ظاہر ہوں اور لوگ کیا کیا باتیں کریں۔ مجھے بس اپنے اللہ سے رحم کی امید ہے۔ ایک ایسا جید عالم دین جن کے تقوی کی ہزاروں لوگ گواہی دیتے ہیں، وہ ڈر رہا ہے کہ معلوم نہیں میرے اعمال سیاہ چہرے پر ظاہر ہوجائیں اور ہم جن کے اعمال کا پتا ہی کچھ نہیں ہے، ہم چہرے دیکھنے دکھانے کے لیے اس قدر بیتاب ہوتے ہیں کہ قطار بنا کر دیدار ہوتا ہے۔ قریبی گھر والوں کی بات الگ ہے لیکن سارے مجمع کا دیکھنا دکھانا غیر ضروری ہے۔

یہ بھی غیر ضروری تجسس ہے اور اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کا چہرہ دیکھنے سے زیادہ، اس کے لیے دعاؤں کا اہتمام زیادہ ضروری ہے لیکن وہ نہیں ہوگا اس وقت۔

- سوشل میڈیا کے آنے کے بعد تو ہمارا تجسس اگلی سطح پر پہنچ چکا ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ ہر سنی سنائی بات، کسی کے متعلق کوئی خیالات خصوصا" برے خیالات یا منفی خبر اور اگر یہ کسی ایسے سیاستدان سے متعلق ہے جسے آپ پسند نہیں کرتے تو، بغیر تصدیق، بغیر ثبوتوں کے، ہر دوسرا شخص اسی غیر ضروری تجسس کے مارے دیکھتا، سنتا اور آگے بڑھاتا نظر آتا ہے۔

ہمارے اس غیر ضروری تجسس اور غیر محتاط رویے نے ہماری معاشرتی اقدار کی چولیں ہلا دی ہیں۔ جھوٹ، غیبتیں، تہمتیں، منفی رویے، اور اختلاف رائے میں شدت ہمارے مزاجوں کا حصہ بن گئے
ہیں۔

اور اس مزاج کے ساتھ کوئی قوم، کوئی معاشرہ کبھی بھی بامقصد طریقے سے نمو نہیں پا سکتا۔ اس غیر ضروری تجسس کے رویے کو اپنے اندر سے ختم کیجیے۔ اور اپنی ذمہ داریوں پر فوکس کیجیے۔ یہ آپ کا اس معاشرے کی اقدار بحال کرنے میں بڑا کنٹریبیوشن ہوگا۔

اور تجسس اتنا زیادہ ہے تو اسے علمی اور عملی کام میں استعمال کریں، جس سے آپ کو اور قوم کو کوئی فائدہ بھی ہو۔

09/02/2023

عقلمند میاں بیوی کون ؟

Address

House 223, Ahmad Park
Faisalabad
38000

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Shah Alam Awan posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share


Other Media/News Companies in Faisalabad

Show All