Umair Ahmed

Umair Ahmed جب میں خود کو دیوبندی لکھتا ہوں پھر بتانے کی ضرورت نہیں رہتی کہ ختم نبوت والا ہوں یا دفاع صحابہ والا یا تبلیغی جماعت والا ہوں

🌹اہل سنت والجماعت کو بشارتاور فرشتوں کی آمین🌹حدیث (۳)🌻عن ابي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله الله إِذَا قَالَ الاِم...
12/01/2025

🌹اہل سنت والجماعت کو بشارت
اور فرشتوں کی آمین🌹

حدیث (۳)

🌻عن ابي هريرة رضى الله عنه قال قال رسول الله الله إِذَا قَالَ الاِمَامُ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فَقَالَ آمين فَوَافَقَ آمين أَهْلِ الْأَرْضِ آمين أَهْلِ السَّمَاءِ غُفِرَ لِلْعَبْدِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ مِثْلُ مَنْ لا يَقُولُ آمِين كَمَثَلِ رَجُلٍ غَزَامَعَ قَوْمٍ فَاقْتَرَعُوا فَخَرَجَتْ بِهَا سِهَامُهُمْ وَلَمْ يَخْرُجُ سَهُمُهُ فَقَالَ لِمَ لَمْ يَخْرُجُ سَهْمِي فَقِيلَ إِنَّكَ لَمْ تقل آمين.
صحیح بخاری ج ا ص ۱۰۸ ، نسائی ج ص ۹۴ ، ابو دا و درج اص ۹۴)

🌻حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا جب امام غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴾ کے تو آمین کہے پس اہل زمین سے جس کی آمین آسمان والوں کے ساتھ موافق ہو گئی اس کے پچھلے سب گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ اور جو اس موافقت کے ساتھ ( آمین نہیں کہتا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے قوم کے ساتھ جہاد ( کا ارادہ کیا ) پس انہوں نے (جہاد میں جانے کیلئے ) قرعہ اندازی کی ۔ اس قرعہ اندازی میں باقیوں کے حصے نکلے لیکن اس آدمی کا حصہ نہ نکلا وہ پوچھتا ہے میرا حصہ کیوں نہیں نکلا ؟ اس کو جواب دیا گیا کہ تو نے آمین نہیں کہی تھی۔
ان روایات میں یہ حکم ہے کہ آمین اس وقت ہو جب امام ولا الضالين کہے اور آمین فرشتوں کی آمین سے موافق ہو جائے تو تمام گناہوں کی معافی کی خوشخبری ہے ورنہ محرومی اور نامرادی جیسا کہ قرعہ نہ نکلنے والی مثال میں ہے۔

🌻فرشتوں کی آمین

ا۔ وہ بغیر فاتحہ پڑھے صرف ختم فاتحہ پر آمین کہتے ہیں۔

۲ ان کی آمین کا وقت خاص وہی ہے جب امام ولا الضالین کہے وہ آمین

غور کرنے سے فرشتوں کی آمین میں تین چیزیں معلوم ہوتی ہیں ۔

کو اس وقت سے آگے پیچھے نہیں کرتے۔

۔ ان کی آمین کی آواز ہم نے کبھی نہیں سنی اور ظاہر ہے کہ وہ آہستہ آواز سے

آمین کہتے ہیں۔

💥اہل سنت والجماعت کو بشارت

ہم اہل سنت والجماعت خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے اس بشارت کے پورے پورے مصداق ہیں کہ وقت اور وصف میں ہر طرح ہماری آمین فرشتوں سے

موافق ہے۔ ہماری آمین فرشتوں کی طرح ہے کہ جس طرح فرشتے امام کی فاتحہ کے

ساتھ خود فاتحہ نہیں پڑھتے بلکہ خاموش اور غور سے سن کر جب امام کی فاتحہ ختم ہوتی ہے آمین کہتے ہیں ۔ اسی طرح ہم اہل سنت احناف بھی ۔

🔥غیر مقلدوں کی نامرادی

غیر مقلدین جس طرح سابقہ آیات قرآنیہ کے باغی ہیں اسی طرح انہوں نے آمین کہنے میں بھی فرشتوں کی مخالفت کی ہے۔

🌻ا۔ یہ فرشتوں کے طریقہ کے خلاف بلند آواز سے آمین کہتے ہیں۔

🌻۲ان کی آمین کا وقت بھی فرشتوں کے ساتھ متحد نہیں ہو سکتا کیونکہ جماعت میں اکثر نمازی بعد میں آکر شریک ہوتے ہیں ظاہر ہے اگر وہ خود فاتحہ نہ پڑھتے اور انتظار میں حنفیوں کی طرح خاموش کھڑے رہتے تا کہ جب امام ولا الضالین کہے تو ہم بھی آمین کہیں پھر تو فرشتوں کے ساتھ موافقت وقت میں ممکن تھی لیکن یہ غیر مقلدین جب فاتحہ شروع کر لیتے ہیں اور بعد میں آنے کی وجہ سے ان کی فاتحہ ختم نہیں ہوئی اب اگر تو یہ اپنی فاتحہ کے درمیان آمین کہیں تو تحریف قرآن لازم آتی ہے کہ قرآن پاک کی سورت کے اندروہ کلمہ کہا جو ختم سورت پر کہنا تھا تو وہ لوگ يُحَرِّهُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ﴾ کے مصداق ہو گئے ۔ اگر وہ مقتدی اپنی فاتحہ ختم کرنے کے بعد آمین کہتے ہیں تو ایک فرشتوں کی مخالفت سے نامرادی اور بد قسمتی میں پڑے دوسری طرف آمین کو بلند آواز سے کہنا بھی جاتا رہا۔ کیونکہ ہم نے کبھی نہیں دیکھا کہ ان کے مقتدی باری باری جب جس کی فاتحہ ختم ہو آمین آمین پکارتا ہو الغرض وصف اخفاء میں تو غیر مقلدوں کا امام اور تمام مقتدی فرشتوں کے مخالف ہیں اور وقت کے بارے میں اکثر مقتدی فرشتوں کے مخالف ہیں ۔ گویا پوری نامرادی غیر مقلدوں کے حصہ میں آئی ہے۔

🔥غیرمقلد ولی کے بغیر نکاح نہیں 🔥قصہ عبداللہ روپڑی کی بہن کا جو مسجد میں اعتکاف میں بیٹھی تھی. عاشق  آ گیا .بولا چلو نئی ...
10/01/2025

🔥غیرمقلد ولی کے بغیر نکاح نہیں 🔥

قصہ عبداللہ روپڑی کی بہن کا جو مسجد میں اعتکاف میں بیٹھی تھی. عاشق آ گیا .بولا چلو نئی دنیا بساتے ہیں .
اور انھوں نے بھاگ کر شادی کر لی.

🌹پیار کیا کوئی چوری نہیں کی🌹

پاکستان کی سپریم کورٹ کے ایک بینچ نےسوموار کو ہے کہا کہ عورت اگر ملک کی وزیراعظم بن سکتی ہے ، میجر جنرل کے عہدے پر فا‏ئز ھو سکتی ہے اور ہوائی جہاز چلا سکتی ہے تو پھر اپنی مرضی سے شادی کیوں نہیں کر سکتی۔

پاکستان کی سپریم کورٹ نے ‏آج ایک ایسے فیصلے کی سماعت مکمل کی جو کافی عرصے سے زیرِ التوا تھا اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس پر احتجاج کر رہی تھیں۔

سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے دو متضاد فیصلوں پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو وہ کچھ عرصے بعد سنائے گی۔

لاہور ہائی کورٹ نے اپنے دو متضاد فیصلوں میں سے ایک میں یہ قرار دیا تھا کہ کوئی مسلمان عورت اپنے ’ولی‘ کی رضامندی کے بغیر شادی نہیں کر سکتی جب کے اسی عدالت میں اپنے دوسرے فیصلے میں کہا کہ مسلمان بالغ عورت شادی تو کر سکتی ہے لیکن اس کو معاشرتی روایات کا خیال کرتے ہوئے شادی اپنے ولی کی مرضی سے کرنی چاہیے۔

سپریم کورٹ نے ان فیصلوں کے خلاف اپیلوں کو 1997 سے التو میں رکھا ہوا ہے-
ان میں ایک اپیل صائمہ وحید کے والد حافظ عبدالوحید روپڑی اور دوسری فیصل آباد کے ظفر اقبال نے دائر کر رکھی ہے ۔

عبدل وحید روپڑی کے وکیل ریاض الحسن گیلانی نے عدالت میں دلیل دی کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مسلمان جوڑے کی شادی دو شخص کا ملاپ نہیں ہے بلکہ دو خاندانوں کا ملاپ ہے لہذا اس کے لیے ضروری ہے کہ شادی خاندان کے سربراہ کی مرضی سے ہونی چاہیے۔

اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے اس موقف کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ شادی صرف دو اشخاص کے درمیان ایک معاہدے کا نام ہے اور اس میں ولی کی رضامندی کا شامل ہونا ضروری نہیں ہے۔

معروف وکیل اور انسانی حقوق کی علم بردار عاصمہ جہانگیر جو اس مقدمے میں ایک فریق بھی ہیں، کے وکیل سید اقبال حیدر نے کہا ہے اگر یہ دلیل مان لی گی کہ کوئی بالغ عورت اپنی مرضی سے اس لیے شادی نہیں کر سکتی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ روایات نہیں تو پھر ایک دن کوئی عدالت غیرت کے نام پر قتل ، اور قرآن سے جوان عورتوں کی شادی کو بھی جائز قرار دےدے گی کہ چونکہ یہ ہمارے معاشرے میں ایسا ہو رہا ہے اس لیے جائز ہے۔عاصمہ جہانگیر کے مطابق پاکستان میں ڈھائی سو ایسے جوڑے ھیں جو اپنی مرضی کی شادی کرنے کی پاداش میں جیلوں میں پڑے ہوئے ھیں اگر ان میں سے کچھ باہر آ بھی چکے ہیں تو وہ اکھٹے نہیں رہ سکتے کیونکہ عدالت نے اس مقدمے کو سرد خانے میں ڈال رکھا تھا۔

ولی میں والد ، بھائي ،چچا ، ماموں شامل ھیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس عدالتی فیصلے کی مخالفت کر رہی ہیں کیونکہ یہ عورتوں کے حقوق کے منافی ھے۔ ان کا کہنا ہے کہ جس ملک میں لوگ عورتوں کو جائیداد کے حق سے محروم کرنے کے لیے شادیاں نہیں کرتے وہاں اس کا بھی فائدہ اٹھائیں گے۔

ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد پولیس اپنی مرضی سے شادی کرنے والوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے اور لڑکی کے خاندان کے ناراض لوگوں سے مل کر ان کے خلاف " حد " کے تحت مقدمے درج کرتی ہے۔

صائمہ وحید کے باپ نے عاصمہ جہانگیر پر الزام لگایا تھا کہ اس نے اس کی بیٹی کو اغوا کیا تھا۔صائمہ وحید نےجو اپنے خاوند کے ساتھ ناروے میں مقیم ہے ، ایک بیان حلفی سپریم کورٹ میں دائر کیا ہے جس میں اس نے عدالت کو بتایا کہ اس کا باپ اس کی شادی ریالوں کی وجہ سے. ایک عربی شیخ سے کر نا چاھتا تھا۔ جب اس نے انکار کیا اور اپنی مرضی سے ارشد سے شادی کی تو اس کے والد نے ہائي کورٹ کے جج دوستوں کی مدد سے یہ کاروائی کرائی، اور اس کے شوھر کو چھ مہینے تک جیل میں رکھا اور جب وہ وہاں سے باہر نکلا تو اس کو چوری کے مقدمہ میں ملوث کر دیا۔

🌹جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار🌹🌻1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، ج...
09/01/2025

🌹جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار🌹

🌻1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمہ الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله ، مولاناقاسم نانوتوی رحمہ الله ، اورمولانامنیرنانوتوی رحمہ الله کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن رحمہ الله شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،

🌻دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمہ الله نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔

🌻 مولانارشیداحمدگنگوہی رحمہ الله کوگرفتارکیاگیااورسہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعدانگریزوں نے اسلام پرحملہ کیا اسلامی عقائد،اسلامی فکراوراسلامی تہذیب کو ہندوستان سے ختم کرنے کافیصلہ کیا، یہاں سے انگریزوں کازوال شروع ہوا،حکومت برطانیہ کا لارڈمیکالے جب وایسرائے بن کرآیا تواس نے مغربی تہذیب اورمغربی فکر،نصرانی عقائد قائم کرنے کاایک پروگرام بنایا،اس نے کہا:’’میں ایک ایسانظام تعلیم وضع کرجاوں گاجوایک ہندوستانی مسلمان کاجسم توکالاہوگامگردماغ گورایعنی انگریزکی طرح سوچے گا‘‘۔

🌻ہندوستان میں اسلام کی حفاظت کے لیے الله تعالیٰ نے چندشخصیات کوپیداکیا،ان میں سے ایک اہم شخصیت حجة الاسلام حضرت مولانامحمدقاسم نانوتوی رحمہ الله کی تھی،اس زمانہ میں اسلام کی بقاء، اسلامی عقائد،اسلامی فکر اوراسلامی تہذیب کی حفاظت کے لیے حجة الاسلام حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ الله نے ایک تحریک چلائی،جس کوتحریک دیوبندکہاجاتاہے،جگہ جگہ مدرسہ قائم کیے،اس مقصدکے لیے انھوں نے اپنے رفقاء (حاجی عابدحسین دیوبندی رحمہ الله ،مولاناذولفقارعلی دیوبندی رحمہ الله ، مولانا فضل الرحمن عثمانی رحمہ الله اورمولانارفیع الدین رحمہ الله وغیرہم)کی مددسے15 محرم 1283ھ مطابق 30مئی 1866ء جمعرات کے دن ضلع سہارنپورمیں واقع دیوبندنامی مقام پرایک دارالعلوم کی بنیادرکھی؛ تاکہ یہ مسلمانوں میں نظم پیداکرے، جوان کواسلام اورمسلمانوں کی اصل شکل میں قائم رکھنے میں معین ہو،ایشیاکی اس عظیم درسگاہ کاآغازدیوبندکی ایک مسجد(چھتہ مسجدکے صحن میں آنارکے درخت کے سایہ میں ایک استاد(ملامحمود)اورایک طالب علم (محمودحسن)سے ہوا جو بعدمیں ’’ازہرہند‘‘کہلائی اورجسے دارالعلوم دیوبندکے نام سے شہرت ومقبولیت حاصل ہوئی،بقول حضرت حاجی امدادالله مہاجرمکی رحمہ الله ’’دارالعلوم دیوبندہندوستان میں بقاء اسلام اورتحفظِ علم کاذریعہ ہے‘‘۔

🌻انڈین نیشنل کانگرس کاقیام اوراس میں مسلمانوں کاحصہ

1884ء میں انڈین نیشنل کانگرس کاپہلااجلاس منعقدہوا،جس میں بعض ممتازاہل علم واہل فکرمسلمان بھی شریک تھے،اور اس کا قیام 1885 ء میں عمل میں آیا۔اس کے بانیوں میں مسلمان بھی شامل تھے، جن کے نام بدرالدین طیب جی اوررحمت الله سیانی تھے،کانگرس کا چوتھااجلاس 1887ء میں مدراس میں ہوا،جس کی صدارت بدرالدین طیب جی نے کی۔

09/01/2025
غیرمقلدین  انگریزوں کے  وفادار👇
09/01/2025

غیرمقلدین انگریزوں کے وفادار👇

🔥*خارجیت سلفیت و غیرمقلدیت کی شکل میں :🔥🌻آج کل کے غیر مقلدین جو سلفیت کے نشہ سے بد مست ہیں اپنے سوا تمام مسلمانوں کو ایک...
09/01/2025

🔥*خارجیت سلفیت و غیرمقلدیت کی شکل میں :🔥

🌻آج کل کے غیر مقلدین جو سلفیت کے نشہ سے بد مست ہیں اپنے سوا تمام مسلمانوں کو ایک ہی چھری سے ذبح کر رہے ہیں مشرک ، بدعتی ، قبر پرست سارے مسلمان۔ صرف یہی طبقہ خالص موحد اہل سنت والجماعت ہے کتاب الله سنت رسول الله کا عاشق ان کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہے ایک سلفی پاکستانی محقق شمس الدين الأفغاني (ت ١٤٢٠) کی یہ تحقیق ملاحظہ فرمائیں :
أن كثيرًا بل أكثر من ينتمون إلى المذاهب الأربعة من الحنفية والمالكية والشافعية والحنابلة قبورية،
مذاہب اربعہ یعنی حنفیہ شافیہ مالکیہ اور حنابلہ میں بہت سے لوگ بلکہ ان کی اکثریت قبر پرست ہے ۔
(جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية ١/‏٤١٩ )

اور ان قبریوں اور قبر پرستوں کے بارے میں انہی غیر مقلد سلفی موحد صاحب کا فیصلہ یہ ہے کہ :
أن القبورية فرقة مشركة وثنية.
ان قبر پرستوں کا فرقہ مشرکین اور صنم پرستوں کا فرقہ ہے۔
(جهود علماء الحنفية في إبطال عقائد القبورية ١/‏٤٣٩ )

🌻سلفیت کے نام سے خارجیت نے نیا جنم لیا ہے خوارج نے اپنے سوا تمام مسلمانوں کو اسلام سے خارج کر کے دم لیا تھا اور آج یہی سلفی نام کے خوارج کر رہے ہیں کہ ان کے سوا بقیہ تمام مسلمان ایمان و اسلام سے خارج ہیں چوہیا نے اپنے سر پر ملکہ برطانیہ کا تاج رکھا ہوا ہے ۔

*(محسنِ غیرمقلدیت بیدروس)*

رجسٹرڈ غیرمقلد کا اقرار مجدد الف ثانی سے لے کر شاہ ولی اللّه اور انکے بیٹوں تک غیر مقلدین کا وجود نہیں تھا
09/01/2025

رجسٹرڈ غیرمقلد کا اقرار مجدد الف ثانی سے لے کر شاہ ولی اللّه اور انکے بیٹوں تک غیر مقلدین کا وجود نہیں تھا

🔥 مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ اور تصوف سلوک🔥🔥🌻حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ موسس وبانی مسلک اہلحدیث کے متعلق بہت کم ا...
09/01/2025

🔥 مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ اور تصوف سلوک🔥
🔥

🌻حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ موسس وبانی مسلک اہلحدیث کے متعلق بہت کم احباب یہ جانتے ہیں کہ آپ کا تصوف سے بھی گہرا تعلق تھا زیر نظر تحریر میں آپ کی زندگی کو اس پہلو سے بے نقاب کیا گیا ہے۔
حضرت مولانا سید نذیر حسین دہلویؒ اور احسان وسلوک​
تعارف :۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ ہندوستان کےصوبہ بہار میں واقع ایک گاؤں موضع’’بلتھوا‘‘ میں ۱۸۰۵ ؁میں پیدا ہوئے۔آپکا تعلق سادات خاندان سے تھا۔برصغیر پاک وہند میں آئمہ اربعہ ؒ سے امتیازی فقہ کاوجود قائم کرنےمیں آپکا اہم اور بنیادی کردارہے۔آپکے مسلک ومشرب سے منسوب لوگوں کی پہچان ’’ مسلک اہلحدیث ،وہابی ّغیرمقلدین‘‘کے نام سے کی جاتی ہے۔آپکے مسلک کے پیروکار اس عہد میں اپناا متیاز ’’ سلفی ‘‘ نام سے بھی قائم کرتے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سید جواد علی سے حاصل کی ۔قرآن مجید اور کتب حدیث میں مشکوٰۃ شریف آپ ؒ نے صوبہ بہار کے دارلحکومت پٹنہ(عظیم آباد)کے محلہ تموہیاں میں شاہ محمد حسین صاحب ؒ کے مدرسہ سے حاصل کی پٹنہ میں ہی آپکو امام الصوفیاء ومجاھدین سید شاہ محمد اسماعیل شہدؒ کا واعظ سننے کی سعادت حاصل ہوئی ا س واعظ کے متعلق آپ خود فرماتے ہیں:۔
’’ہم اس واعظ میں شریک تھے،سارا ’’لین ‘‘کا میدان آدمیوں سے بھرا ہوا تھا۔پہلی ملاقات سید صاحبؒ اور مولانا شہیدؒ سے یہی پٹنہ میں ہوئی تھی‘‘۔(الحیات بعد الممات ص ۲۶)
🌻مولانا محمد اسحاق بھٹی فرماتے ہیں:۔
’’ معلوم ہوتا ہے سید صاحب ؒ اور مولانا شہیدؒ کی اس محبت اور واعظ کی برکت سے میاں صاحبؒ کے دل میں دہلی جانے اور وہاں سے تعلیم حاصل کرنے کا خیال پیدا ہوا ۔میں صاحب کا عازم دہلی ہونے کااصل مقصد حضرت شاہ عبدالعزیزؒ کے حضور زانوئے شاگردی تہ کرنا تھا۔‘‘ (تفصیل دیکھے تذکرہ مولانا غلام رسول قلعویؒ ص)
یہ واقعہ ۸۱۲۱ء ؁کا ہے۔اس وقت شاہ عبدالعزیز ؒ مسند شاہ ولی اللہؒ پر متمکن تھے۔شاہ عبدالعزیزؒ مفسرو محدث اور اپنے وقت کے صوفیاء کاملین میں سے تھے،
آپکے ہاں تصوف و سلوک کی تربیت کاوہ سلسلہ جاری وساری تھا،جو شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور انکے پیش رو سے چلا آ رہا تھا۔حضرت سید نذیر حسین ؒ اپنے زمانے کے عظیم صوفی و مجاھدشاہ اسماعیل شہیدؒ کے واعظ سے متاثر ہوکر تحصیل علم کیلئے ۱۸۲۲ء ؁کو دہلی روانہ ہوئے۔غازی پور مولانا محمد علی چڑیا کوٹی کے درس سے مستفید ہوئے۔آپؒ نے پٹنہ سے دہلی کا سفر چھ ماہ میں طے کیا۔اور مختلف جگہوں سے تحصیل علم کرتے ہوئے ۱۸۲۸ء ؁ کو دہلی پہنچے۔آپکی آمد سے تقریباً چار برس قبل ۵جنوری ۱۸۲۴ء ؁ کو حضرت شاہ عبد العزیز ؒ وفات پا چکے تھے ۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ نے پنجابی کٹڑہ کی مسجد اورنگ آباد میں تحصیل علم کا آغاز کیا ،اور مختلف حضرات سے مختلف علوم و فنون کی درسی کتب پڑھیں۔حضرت شاہ عبد العزیزمحدث دہلویؒ کی وفات کے بعد انکی مند پر انکے لائق ترین نواسے حضرت شاہ اسحاقؒ متمکن تھے ۔حضرت سید نذیرحسین ؒ نے ان سے صحاح ستہ کی تکمیل کی ،اور ان سے سند واجازت حاصل کی۔آپکو صیح بحاری اور صیح مسلم پڑھنے کا شرف مولانا عبد الخالق صاحب سے بھی حاصل ہوا۔۱۸۳۳ ؁ء میں آپکی شادی آپکے رفیق ترین استاد مولانا عبد الخالق صاحب ؒ کی صاحبزادی سے ہوئی۔یہ انکے دہلی تشریف لانے کے چار سال بعد ۱۸۳۲ ؁ء کا واقعہ ہے۔اس شادی کے کفیل خود شاہ اسحاقؒ اوربرادر صغیر شاہ یعقوبؒ تھے۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ نے مسند درس کو زینت بخشی۔آپکا علم حدیث پڑھانے کا اسلوب کچھ ایسا تھا،کہ آپکی شہرت ہندوستانسے نکل کر اقطار عالم میں پھیل گئی۔ہندوستان کے علاوہ کئی ممالک کے طلبہء نے آپ سے کتب حدیث پڑھی۔۱۸۶۳ ؁ء میں آپکو برٹش گورنمنٹ نے مقدمہ بغاوت میں گرفتار کرلیا۔بعد ازاں ایک سال کے بعد آپکی بے گناہی ثابت ہونے پر آپکو رہائی ملی۔۱۳۰۰ ؁ھ کو آپ حج کے لئے تشریف لے گئے اور وہاں بھی آپکو مخالفین کی جانب سے کافی تکالیف کا سامنا رہا ۔۱۸۹۸؁ء میں برٹش گورنمنٹ نے آپکو شمس العلماء کا خطاب دیا ۔
🌻حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ کم وپیش ستر برس درسِ حدیث دیااور ۱۳ اکتوبر ۱۹۰۲ ؁ء کو وفات پائی۔انا للہ وانا الیہ راجعون۔
آپؒ کی زندگی پر سب سے مستند کتاب ’’الحیات بعد الممات ‘‘آپکے شاگرد مولانا فضل الدین بہاریؒ نے ۱۹۰۸ ؁ء میں تالیف فرمائی۔آپکے تلامذہ آپکو شیخ الکلؒ ،الکلؒ اور فی الکل ؒ جیسے لقب سے یاد کرتے ہیں۔
تعلق احسان وسلوک:۔صاحب شمس العلماء لکھتے ہیں:۔
’’جن حضرات نے میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کے علمی فضل وکمال کی تصویریں دیکھی ہیں وہ شاید یہ جان کر حیران ہوں کہ میاں صاحبؒ نہایت بلند مقام رکھنے والے صوفی بھی تھے‘‘۔(شمس العلماء )
مولانا فضل الدین بہاریؒ حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کے کمالات کا احاطہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’کہ حضرت کو جس نے دیکھا،وہ ایک خدا رسیدہ عاشق مزاج صوفی اور سچا درویش یا پیر طریقت خیال کرنے پرمجبور ہے‘‘۔
’’صیح بخاری وغیرہ کتب صحاح میں آپ جس وقت کتاب الرقاق اور نکات تصوف فرماتے تو خود کہتے،صاحبوہم تو احیاء العلوم کو یہاں دیکھتے ہیں‘‘۔(الحیات بعد الممات ص۱۲۳)
مولانا بہاریؒ مسمیریزم اورتصوف میں فرق کرتے ہوئے آپ ؒ کے حالات میں لکھتے ہیں:۔
’’میاں صاحب ؒ کو اس مسمیریزم کی خبر بھی نہ ہوگئی،مگر تصوف نبویﷺنے آپکو دلایا تھاکہ سب امور لاشئے ہیں،اسلام کو اس سے کسی طرح کا تعلق نہیں۔(ص۱۴۲)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:۔
’’میاں صاحب کا علم شریعت وطریقت تو مسلمات قطعیہ یقینیہ سے تھا،نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیائے اسلام جس پر شاہد ہے۔‘‘(ص۱۲۳)
اظہار وعبودیت اور احسان وسلوک:۔تصوف کا حصول کثرت ذکر ہے اور سکا حاصل درجہ احسان ہے ۔مولانا بہاری ؒ فرماتے ہیں:۔
’’طہارت کے بعد ہی عبادت ہے،اور طہارت ہے بھی عبادت کیلئے۔جس نے آپکی اقتداء کی ہے،یاساتھ نماز پڑھی ہے،یا پڑھتے ہوئےدیکھا ہے،اگر اسکےسینہ میں دل ہے،اورد ل میں کچھ مذاق تصوف ہے،تو وہ سمجھ سکتا ہے کہ ایسی عبادت تطلع الی لجبروت کے نئے بلند مینار کا کام دے سکتی ہے۔قرات میں خشیعت،مرعوبیت،گریہ تعدیل اور قرۃ العین یہ سب باتیں ایسی تھیں جس سے نعبد اللہ کا انک تراہ کے معنی اچھی طرح سمجھ میں آ جاتے تھے۔غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کی مثال ٹھیک روح اور جسد کی مثال ہے۔اسکے ظاہری صورت بمنزلہ جسد کے ہے،اور کفیت قلبی بمنزلہ جسد کے ہے ،اور کفیت روحانی عبادت (جسکو ہم بالفظ دیگر مراقبہ کہتے ہیں)کا پتہ بھی ہیت ظاہری سے اچھی طرح لگ جاتا ہے،جس کا نام اصطلاح میں خشوع وخصوع ہے‘‘
۔(ایضاً۱۲۵)
آپکے ذوق عبادت ،گریہ تعدیل ارکان جس کو مولانا بہاریؒ نے تطلع الجبروت کا نام دیا ہے،آپ نے یہ درجہ احسان مسلک اہلحدیث کے مشہور صوفی حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ سے حاصل کیا تھا۔اور حضرت سید عبداللہ غزنویؒ علم حدیث میں آپکے شاگرد بھی ہیں۔اور یہ ممکن ہے کہ آپ ؒ نےسید عبداللہ ؒ سے باقاعدہ تصوف وسلوک کی تربیت بھی حاصل کی ہو کیونکہ آپ خود فرماتے ہیں:۔
’’عبداللہ نے مجھ سے حدیث پڑھی اور میں نے عبداللہ سے نماز سیکھی‘‘
قارہین !ایک شیخ الحد یث کا یہ اعتراف حقیقت میں اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ علم تصوف وسلوک کے بغیرحقیقی معنوں میں نماز بھی نصیب نہیں ہو سکتی۔اللہ اکبر۔
🌻عقید ت و احترام صوفیاء عظامؒ:۔حضرت سید نذیر حسین دہلوی ؒ صوفیاء عظام سے بے حد عقیدت ومحبت اور احترام کیا کرتے تھے خاص الخاص شیخ اکبرعلامہ ابن عربیؒ سے تو بہت زیادہ عقیدت تھی۔مولانا بہاریؒ لکھتے ہیں:۔​
’’طبقہ علماء اکرام میں شیخ محی الدین ابن عربیؒ کی بڑی تعظیم کرتے ،اور خاتم الولایہ المحمدیہ فرماتے۔اور بات بھی یہی ہے،کہ علم ظاہر وباطن کی ایسی جامعیت ندرت سے خالی نہیں ہے۔مولانا قاضی بشیر الدین قنوج علیہ الرحمۃ جو شیخ اکبر کے سخت مخالف تھے۔ایک مرتبہ دہلی سے اس غرض تشریف لائے کہ انکے بارے میں میاں صاحبؒ سے مناظرہ کریں ،اور دو مہینے دہلی میں رہے،اور روزانہ مجلس مناظرہ گرم رہی،مگر میاں صاحبؒ اپنی عقیدت سابقہ سے جو شیخ اکبر ؒ کی نسبت رکھتے تھے،ایک تل کے برابربھی پیچھے نہ ہٹے،آخرممدوح جن کو میاں صاحب ؒ سے کمال عقیدت تھی،دومہینے کے بعد واپس تشریف لے گئے ۔​


🌻مولانا مغفور اکثر طلباء کو کتب درسیہ پڑھا کر حدیث پڑھنے کے لئے دہلی بھیج دیتے ،چنانچہ پیشتر شاگرد مولانا مغفور کے میاں صاحبؒ کے بھی شاگرد ہیں۔مگر چونکہ ان لوگوں کے خیالات شیخ اکبر کی طرف سے مولانا مغفور کے سنیچے ہوئے تھے،ان میں بہت کم ایسے تھے جو شیخ اکبر کے ساتھ حسن ظن رکھتے ہوں۔​
مولانا ابوالطیب محمد شمس الحق (جو مولانا مغفور کے تلمیذ خاص اور میاں صاحب ؒ کے شاگرد رشید ہیں)نے بھی میاں صاحب ؒ سے کئی دن متواتر شیخ اکبر کی نسبت بحث کی ،اور فصوص الحکم شیخ اکبر پر اعتراض جمائے۔میاں صاحب نے پہلے سمجھایا ،مگر جب دیکھا کہ ابھی لا تسلم ہی کے کو چہ میں یہ ہیں تو فرمایاکہ:۔​
’’ فتوحات مکیہ‘‘ آخری تصنیف شیخ اکبر کی ہے ،اور اسی لیے اپنی سب تصانیف ما سبق کی یہ ناسخ ہے‘‘​

🌻اس جملہ پر یہ بھی سمجھ گئے(الحیات بعد الممات ص ۱۲۳،۱۲۴)
مرزا مظہر جانجاناں ؒ سے عقیدت:۔مرزامظہر جانجاناںؒ ؒ صوفیاء نقشبدیہ میں سے بلند ترین مراتب صوفی گزرے ہیں،قاضی ثناء اللہ پانی پتیؒ مصنف تفسیر مظہری آپ ہی کے شاگرد تھے۔قاضی صاحبؒ نے اپنی شیخ کی عقیدت میں اپنی مایہ ناز تفسیرکا نام ہی’’ تفسیر مظہری‘‘ رکھا۔​
’’حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ کھانے کی تمیز کے خصوص میں حضرت مرزا جانجا ناںؒ علیہ الرحمۃ کی بہت تعریف کرتے،ایک حکایت بیان کی ہے کہ ’’ عبدالاحد خان وزیر نے ایک روز لوزیں نہایت اہتمام سے تیار کر کے میرزا مظہر جان جاناں قدس سرہ کی خدمت میں بھیجی،میرزا صاحب نے ایک لوزیں ذرا سا توڑ کر چبا کر تھوک دیا اور فرمایا ’’ کیا بیلوں کی سانی بھیجی ہے‘‘۔( الحیات بعد لمات۱۵۱)​
خاندان شاہ ولی اللہؒ سے عقیدت ونسبت:۔مولانا بہاریؒ فرماتے کہ :۔​
’’ میاں صاحبؒ اپنے اساتذہ جناب مولانا شاہ ولی اللہؒ جناب مولانا شاہ عبد العزیزؒ ،مولانا شاہ محمد اسحاق قدس سر ہم اور انکے خاندان کا بہت ادب کرتے تھے ،اکثر قرآن وحدیث کے ترجمعے کے موقعہ پر فرماتے:۔​
’’مجھ سے اسکا مقراضی ترجمعہ سنو جو ہمارے بزرگوں سے سینہ بسینہ چلا آتا ہے‘‘​
اور بیان مسائل میں بھی انہیں بزرگوں کے اقوال سے سند لاتے اور فرماتے’’ ہمارے حضرت یوں فرماتے ہیں‘‘​
اس پر کوئی آزاد طبع طالب علم اگر کہہ دیتا حضرت کا کہنا سند نہیں ہو سکتا ،جب تک قرآن وحدیث سے سند نہ دی جائے تو بہت خفا ہو کر فرماتے:۔​
’’ مردود کیا یہ حضرت گھس کٹے تھے،ایسی ہی اڑان گھائی اڑاتے تھے‘‘۔​
مولانا بہاریؒ مزید لکھتے ہیں:۔​
’’ یوں تو خاندان والی اللّہی کے ساتھ نہایت ہی شغف تھا ،اور نسبت بھی نہایت زبر دست رکھتے تھے ،مگر شاہ ولی اللہؒ اور مولانا اسماعیل شہیدؒ کی نسبت اکثر فرمایا کرتے تھے کہ:۔​
’’ میں ان دادا پوتوں کا قائل ہوں جو صرف قرآن و حدیث سے استنباط مسائل کرتے ،اور اپنی رائے پر اعتماد رکھتے تھے۔زید و عمر کسی مصنف سے یا عالم کی پیروی نہیں کرتے۔انکی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ فیضان الٰہی جوش مار رہا ہے‘‘۔​
جناب شاہ عبد لعزیز صاحبؒ کے بارے میں فرماتے :۔​
’’ افسوس ہے کہ زمانہ شباب ہی میں آپکی بصارت جاتی رہی،ورنہ ذہانت تو اس بلا کی تھی کہ اس حالت میں بھی زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے تھے‘‘۔(ایضاص ۱۶۶ تا ۱۶۸)​
مولانا شاہ رفیع الدین قدس اللہ سرہٗ کے ایک صاحبزادے تھےء ،جو خورجہ میں رہتے تھے ہر چند علم کی درسگاہ ان میں بہت کم تھی،مگر دہلیاکثر آتے ،اور میاں صاحب سے ملاقات کرتے ۔مولانا بہاریؒ فرماتے ہیں کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ مسجد میں داخل ہوتے تو میاں صاحب انکے استقبال کیلئے کھڑے ہو جاتے( ایضاص ۱۶۳)​
سید عبد اللہ غزنویؒ او ر د یگر صوفیاء اہلحدیث ؒ سے تعلق و تکریم:۔ عبد اللہ غزنوی ؒ اور مولانا غلام رسول قلعویؒ اور حافظ محمد لکھویؒ مسلک اہلحدیث کے اوّلیں حضرات میں شمار کیے جاتے ہیں،یہ حضرات اس پائے کے لوگ تھے ،کہ جن جگہوں سے گزرے یا قیام کیا تو بستیوں کی بستیاں شرک وبدعت سے پاک کی۔اوربے شمار مخلوق خدا کیلئے ہدایت کا موجب بنے۔ اسکی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ حضرات علم ظاہر وباطن میں کامل واکمل تھے ۔زبر دست روحانی توجہ کے مالک تھے۔ علم حدیث کی سند ان صوفیاء ثلاثہ نے حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے حاصل کی ۔حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے علم حدیث حاصل کرنے کا فیصلہ بھی سید عبد اللہ غزنویؒ کے ایک الہام پر کیا گیا تھا ۔اس واقعہ کی تٖصیل کچھ یوں ہے کہ اللہ کہ ولیوں کا رنگ بھی عجیب ہوتا ہے ،بعض اولیاء اللہ قوت باطنی اور کشف و مشاھدہ کی بدولت اپنے ہم مزاج کو فوری پہچان لیتے ہیں ،بلکہ حلال و حرام حتی کہ موضوع اور صیح حدیث کی پرکھ بھی حدیث مبارکہ کے انوارات کی وجہ سے کر لیتے ہیں ،واقعہ سیر​
سوانح کی کتب کچھ اسطرح ملتا ہے کہ:۔ ​
’’ جب مولانا سید عبداللہ غزنویؒ اور مولانا غلام رسول قلعویؒ ’ ’ کوٹھہ‘‘ سے واپسی پرگجرات کے قریب پہنچے تو حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ نے فرمایا’’ مجھے یہاں ایک مجذوب کی خو شبو آتی ہے جو ملنے کے قابل ہے‘‘ ​
سید عبد اللہ غزنوی ؒ بہت تیز کشف ومشاھدات کے مالک تھے ،اکثر فیصلے کشف والہام کی بنیاد پر کیا کرتے تھے اور وہ عموماً درست ثابت ہوتے تھے ۔ ​
’’ رستے میں ہی دونوں حضرات ؒ نے ارادہ حدیث پڑھنے کا بھی کر لیا تھا،اور یہ بھی قصد کیا تھا کہ دہلی جا کر حدیث پڑھی جائے۔سو اسی خیال کو دل میں لئے ہوئے مجذوب کی طرف روانہ ہوئے،تا کہ اس سے دریافت کر لیں کہ حدیث کا علم کہاں سے پرھیں،اس مجذوب بزرگ کا نام جگنو شاہ تھا۔جب آپ اس کی طرف روانہ ہوئے،تو وہ اپنے حاشیہ نشینوں سے کہنے لگا،دیکھو دو شخص محمدیﷺ نمونہ صحابہ اکرام چلے آ رہے ہیں،مجھے کوئی کپڑا پہنا دو،اور ان دونوں کے لئے فرش کرو،جب آپ اس بزرگ کے قریب پہنچے،تو سائیں جگنو شاہ نے اٹھ کر استقبال کیااور بٹھا لیا،دہلی کی طرف اشارہ کر کے کہا،جنت اس طرف ہے۔یہ سن کر اس کے پاس کے لوگ بھی حیران تھے،کہ یہ کبھی کسی مخاطب نہیں ہوا ہے،آج ہوش و ہواس کی باتیں کر تا ہے،جب حضرت سیدعبداللہ صاحبؒ اور مولانا غلام رسول واپس آنے لگے ،تو کہنے لگے کہ لباس دیکھ کر بھول نہ جانا ،وہ شخص مسکین صورت ہے،اور اسکا نام سید نذیر حسین دہلویؒ ہے اس سے پڑھنا۔یہ سن کر ان کو تسلی ہو گئی۔پھر وہاں سے چل کر قلعہ میاں سنگھ پہنچے اور آتے ہی مولوی صاحب عبد اللہ صاحبؒ نے فرمایاکہ مجھ کو اللہ کی طرف سے معلوم ہو ا ہے کہ ​
چند ماہ ٹھہر کر پڑھنے کو جاؤں‘‘۔(سوانح حیات مولانا غلام رسول قلعویؒ ص۵۲)​

🌻اسطرح کے مجذوب لوگوں کے متعلق معاشرے میں طرح طرح کی باتیں پائی جاتی ہیں ۔بعض ان کو بڑا کامل و اکمل سمجھتے ہیں،اور بعض انکی تو ہین تنقیص کرتے ہیں،لیکن ضروری ہے کہ مجذوب کی پہچان کے لئے ان لوگوں سے رائے لی جائے ،جو علم ظاہر و باطن میں کامل اکمل ہیں صاحب دلائل السلوک فرماتے ہیں:۔​
’’ مجذوب سالک ظاہراً متبع شریعت نہیں ہوتا،اسکے قوی باطنی جل چکے ہوتے ہیں،اسکی مثال ایسی ہے جیسے کسی نابینا کو یابینا کو اسکی آنکھوں پر پٹی باندھ کر موٹر میں بٹھا کر پشاور سے لاہور لے جائیں،پھر اس سے راستے کی تفصیلات یا نشان راہ پوچھے جائیں تو وہ کچھ نہ بتاسکے گا۔اس لئے مجذوب سالک سے کسی کو فیض نہیں مل سکتا،کیونکہ وہ راستہ سے واقف نہیں ہوتا،مگر سالک المجذوب منازل منازل طے کر کے جاتا ہے،اسے رستے کی تفصیل معلوم ہوتی ہیں ،یہ منازل بہت اونچے ہیں ،مگر عوام جہلا تو ہر مجنون اور پاگل کو مجذوب ہی خیال کرتے ہیں،اور کامل واکمل سمجھتے ہیں ۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اس سے بعد عجیب باتیں صادر ہوتی ہیں۔حلانکہ ایسی باتیں مجنون سے صادر ہو سکتی ہیں،کیونکہ اسے یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ایسے آدمی کے متعلق احتیاط لازم ہے،نہ تو اسے برا کہا جائے نہ ولی سمجھ لیا جائے۔قرآن کریم نے اصول بتایا ہے ۔ولاتقف ما لیس لک بہ علم۔اس لئے ہر مجذوب نما آدمی کے بارے میں توقف مطابق قرآن ہو گا۔اگر عارفین میں سے کوئی صاحب نظر بتا دے کہ وہ بد کار ہے ،تو مردود سمجھا جائے گا۔کامل اکمل سمجھ تصور کر کے شریعت کی تو ہین نہ کی جائے۔(ص۸۰)​
کنز الطالبین میں ہے:۔​
’’(مجذوب ہونا) کمزوری کی دلیل ہے،کوئی نبی مجذوب نہیں ہوا۔اگر یہ کمال ہوتا،تو انبیاء کو ملتا۔ ہاں جو سالک جس قدر طاقتور ہوگا۔اسکی زندگی حال دل کیساتھ اسی قدر عام انسانوں کی زندگی ہو گی۔یہ مشکل کام ہے،اوریہ طاقت انبیاء کو عطا ہوتی ہے،جبھی تو ہرآدمی انکی اطاعت کا مکلف ہے ۔کہ انکی زندگی کا طریقہ بہت ہی عام سا ہوتا ہے ،مشکل زندگی نہیں ہوتی‘‘۔ (ص ۲۲)​
دہلی جانے سے پیشتر سید عبد اللہ غزنوی ؒ خواب بھی دیکھا تھا، جس میں حضرت سید نذیر حسین دہلویؒ سے علم حدیث حاصل کرنے کی طرف اشارہ تھا۔اللہ کی شان دیکھے کہ وہ اپنے بندوں کو ضائع نہیں ہونے دیتا ،اور کیسے کیسے رہنمائی فرماتا ہے۔کیو نکہ اسکا وعدہ ہے ۔یھدی الیہ مینیب ۔ تبرکاً وہ خواب بھی یہاں نقل کر دیتا ہوں ۔فرماتے ہیں:۔​
’’ یعنی میں نے دیکھا کہ میں ایک سیڑھیوں والے مکان کے نیچے اترا ہوں اسکے صحن میں پہنچا ہوں تو ایک چراغ جل رہا تھا ۔اس وقت میری بغل میں کتاب صیح بخاری تھی ۔چراغ کے سامنے بیٹھ کرمیں نے یہ کتاب کھولی تو دیکھتا ہوں کہ کتاب شروع سے آخر تک سیاہ ہو گئی ،اور اس پرقدر دھوئیں کی تہہ جمی ہوئی ہے کہ حرف نظر نہیں آتے ۔بالآخر میں نے رومال پکڑ ا اور صفحہ اوّل سے کتا ب صا ف کرنا شروع کی ،اور ایک ایک صفحہ صاف کرتا ہوا ،آخرکتاب کے قریب پہنچ گیا ۔کچھ اوراق ابھی باقی تھے ،بہت خراب تھے،ٹھنڈی آہ بھر کر میں نے کہاں ،اللہ اکبر۔ میں نے کتنی تکالیف برداشت کی ہے ۔ اس خواب میں مجھے اپنا چہرہ نظر آ رہا تھا،اور میں دیکھ رہا تھا کہ کتاب کی گرد میرے دانتوں پر نمودار ہو ئی ہے۔​
اس خواب کی تعبیر کے لئے میں حیران تھاکہ اچانک دہلی کا سفر پیش آیا،اور یہ وہ شہر تھا جو ہمارے شہروں کی نسبت بہت نشیب میں ہے۔ وہاں خاتم المحد ثین شیخ سیّد نذیر حسین دہلویؒ کی خدمت میں حاضر ہوا،اور ان سے کتاب صیح بخاری پڑھنی شروع کی ،اسی اثناء میں دہلی​
۱۸۵۷ ء کا ہنگامہ شروع ہو گیا ،شدید ہنگامے کے دوران میں،جب کے ہر شخص کو اپنی جان کا خطرہ تھا،میں صیح بخاری پرھنے میں مشغول تھا۔​
پھر صورتحال یہ پیدا ہو گئی کہ اس ملک پر انگریز غالب آ گئے،اور باشند گان دہلی ادھر ادھر منتشر ہو گئے۔ان دنوں کتاب صیح بخاری ختم ہونے کے قریب تھی،مگر اہل شہر کے انتشار اور پراگندگی کی وجہ سے میرے اور سید نذیر حسین دہلویؒ کے درمیان بھی جدائی ہو گئی،اور کتاب پوری پڑھی نہ جا سکی۔میرے اس خواب کی تعبیر یہ تھی کہ ’’زیر خانہ‘‘ سے مراد شہر دہلی تھا۔’’چراغ روشن‘‘ سید نذیر حسین دہلویؒ تھے‘‘۔​
ان صوفیاء ثلاثہ ؒ نے دہلی کا سفر کیسے کیا ،اور سیدنذیر حسین دہلویؒ کی نظر میں ان حضرات کا کیا مقام اور رتبہ تھا،اسکا کچھ اندازہ اس واقعہ سےہو تا ہے۔ان اصحاب ثلاثہ ؒ کا دہلی کا سفر مولانا محی الدین احمد قصوری ؒ اس طرح بیان فرماتے ہیں:۔​
’’ شیخ عبد اللہ غزنوی ؒ کے روابط مولانا غلام رسولؒ قلعہ والوں اور حافظ محمد صاحب لکھوکی والوں کیساتھ بہت بڑھ گئے تھے،اور تینوں بزرگوں نے فیصلہ کیا کہ حدیث کی سند حضرت میاں نذیر حسین دہلویؒ سے لی جائے،چنانچہ تینوں نے لکھ کر حضرت میاں صاحب سے اجازت مانگی۔اور اجازت ملنے پر فوراًروانہ ہو گئے۔اس وقت تک ابھی ریل جاری نہیں ہوئی تھی،لوگ گاڑیوں کے اڈہ پر پڑاؤ ہوتے ہوئے دہلی پہنچتے تھے۔جس وقت تینوں بزرگ دہلی گا ڑیوں کے اڈہ پر پہنچے،تو ایک بزرگ آدمی کو موجودپایا،جس نے ان سے پوچھ کر کہ کہاں کا مقصد ہے،انکا سباب اٹھا لیااور کہا میں آپ لوگوں کو وہاں پہنچا دوں گا۔وہ بزرگ ان تینوں بزرگوں کا سامان اٹھا کر میاں سید نذیر حسین دہلویؒ کی مسجد میں لے گیا،انکا اسباب وہاں رکھا،اور خود غائب ہو گیا۔یہ حیران کے اس مزدور نے پیسے بھی نہیں لئے،اور کہاں چلا گیا۔ جب کافی وقت گزر گیا،تو انہوں نے کسی صاحب سے دریافت کیا کہ میاں صاحب کہاں ہیں ،اور کب آئے گے،تو اسنے جواب دیا کہ یہ میاں صاحب ہی تھے،جو آپکا ساما ن لا ئے ہیں۔اب وہ غالباً گھر تمھارے کھانے کا کہنے گئے ہونگے۔یہ تینوں بزرگ دل ہی دل میں بڑے نادم ہوئے،چنانچہ جب حضرت میاں صاحبؒ واپس تشریف لائے،اور کھانا بھی لے آئے،تو انہوں نے بہت معذرت شروع کی،تو میاں صاحب نے فرمایا،آپ تحصیل حدیث کے لئے تشریف لائے ہیں،تو حدیث بجز اسکے کیا ہے کہ خدمت خلق۔پہلی حدیث کا پہلا سبق​
ہے‘‘۔​
حضرت سید عبد اللہ غزنویؒ نے نہ صرف خود بلکہ ٓپکی نسبی اولاد نے بھی میاں صاحب ؒ سے علم احادیث میں سند وا جازت حاصل کی ،خودسید عبد اللہ غزنویؒ کو اپنی زندگی میں اس بات کی بشارت مل گئی تھی،فرماتے ہیں:۔​
’’میں نے خواب دیکھا ہمارے شیخ محترم سید نذیر حسین دہلویؒ کے دہن مبارک سے شریں شربت کا چشمہ جاری ہے،اور وہ شربت میرے دونوں ہاتھوں پر گر رہا ہے،اور میں اسے پی رہا ہوں ،جسکا مطلب یہ ہے کہ اس شربت کا چشمہ ہمارے شیخ کا دہن مبارک ہے۔میرے دونوں ہاتھ اسکے جاری ہونے کی جگہ اور اسکا مدخل میرا منہ ہے،میں اس خواب کی تعبیر میں حیران تھا۔کہ اتفاق سے میرا بیٹا عبد الجبار شیخ مذکورہ کی خدمت میں پہنچا،اور ان سے اس نے علم حدیث کی تحصیل کی۔تو گویا وہ چشمہ شریں علم حدیث ہے ،جو ان احباب سے جاری ہوااور میرے فرزندکا ان سے علم حدیث حاصل کرنا ،میرا اس چشمہ شریں سے شربت پینا ہے اسلئے میرا مذکورہ فرزند میرا ہی ایک حصہ ہے۔​
اور میری باقیات صالح سے ہو گا‘‘۔؂۱​
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور میاں سید نذیر حسینؒ کے درمیان تا حیات گہرے روابط رہے۔جب سید عبد اللہ غزنویؒ نے دارفانی سے کوچ فرمایا تومیاں صاحب کے تعزیتی خط کا تذکرہ الحیات بعد الممات میں یو ں ملتا ہے:۔ ’’مولانا عبد اللہ قدس سرہ چونکہ متشرع صوفی تھی انکی تعزیت میں خط انکے بیٹوں کو لکھا وہ یہ ہے :۔​
از عاجز محمدسید نذیر حسین بامطالعہ گرامی مولوی عبد اللہ ،مولوی احمد ،مولوی عبد الجبار سلمہم ا للہ تعالیٰ با لخیر۔بعد ازا سلام علیکم و رحمۃ اللہ برکا تہ واضح باد کہ از خبر انتقال جامع خیر و برکات موجب تاسف و الم کمال روداد انا للہ وا نا الیہ راجعون۔اللھم اغفر لہ وا رحم وادخلہ جنت ​
الفردوس ​
دا عبد اللہ فنا فی اللٰہ شد از جناب باریش تسلیم باد​
چشمہ فی کرامت شان او رونق افزا چشمہ تکریم باد​
الرحم الراحمین آں صاحبان را بر جادہٗ شریعت بمیراث پدری فائز کناد وا یں عاجز و بدعا عافیت ​
دارین شما بدر گاہ کبریا مستد عی می باشد قبول فرما یند زیادہ سلام خیر الختام‘‘؂۲ ​
مکتوب میں دئے گئے اشعار کے متعلق مولانا بہاری فرماتے ہیں:۔ ​
’’یقینی طور پر یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ آپ شعر بھی کہتے تھے،مگر حضرت عبد اللہ غزنوی ؒ کی تعزیت پرجو خط انکے صاحبزادوں کے نام بھیجا تھا،اس میں غالباً یہ قلم برداشتہ تھا۔ ‘ ‘ ؂۳ ​
سید عبد اللہ غزنوی ؒ اور سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے درمیان بہت محبت وعقیدت تھی،اس لیے میاں صاحب فرمایا کرتے تھے :۔​
’’ہزاروں شا گردوں میں بس دو عبد اللہ ملے جو اپنی نظیر آپ تھے،ایک عبد اللہ غزنوی اور دوسرے عبد اللہ غازی پوری‘‘۔ ؂۴​
قارہین !صوفیاء عظام پر ؒ اللہ کی کس قدر خصوصی رحمت ہوتی ہے۔ حضرت میاں صاحبؒ حافظ محمد لکھویؒ کی ذہانت اور قابلیت کے بے حد ​
مداح تھے۔فرمایا کرتے تھے:۔​
میرے حلقہ درس میں ایک طالب علم حافط محمد پنجابی ہے،جو میرے منہ سے بات نکلنے سے پہلے ہی سمجھ جاتا ہے۔قوت حافظہ کا یہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ جو کتاب دیکھ لیتے،اسکے حوالہ جات اور صفحوں کے صفحے عبارتیں زبانی یاد ہوجاتی۔اس بناء پر حضرت میاں صاحب ؒ ازراہ تفنن طبع آپکو مہتمہم کتب خانہ کے لقب سے یاد فرمایا کرتے تھے۔‘‘ ​


ھ ؁میں مولانا حافظ عبد المنان محد ث وزیر ٓبادی ؒ حضرت مولانا شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلویؒ سے ملاقات کیلئے دہلی تشریف لے گئے۔حا فط عبد المنان صاحبؒ میاں صاحبؒ کے پاس السلام علیکم کہہ کر بیٹھ گئے،اور میاں صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے پہچانا ہے،میاں صاحب ؒ نے فرمایا،ہاں پہچان لیا ہے،،تم عبد المنان وزیرآبادی ہو،اسکے بعد میاں صاحب نے حافظ عبد المنان ؒ سے فرمایا:۔
’’ عبد الجبار غزنویؒ ،حافط محمد لکھویؒ اورتم پنجاب میں توحید و سنت کی اشاعت کر کے میرے دل کو ٹھنڈک پہنچائی ہے،اور مجھے اللہ کی جانب
سے امید ہو گئی ہے کہ وہ مجھے نجات دے گا‘‘’(ص)
قارہین!سید نذیر حسین دہلویؒ جسی عظیم اقامت لوگوں کا ان صوفیاء کے کاموں سے خوش ہونا،اور اپنے لئے توشہ آخرت قرار دینا کوئی
معمولی بات نہیں۔
شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ اور بیعت و ارشاد:۔مولانا غلام رسول ؒ قلعوی اور سید عبد اللہؒ غزنوی علم حدیث میں شیخ الکل سید نذیر حسین دہلویؒ سے فیض یافتہ تھے۔حضرت سیدنذیر حسین دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی مبارک سوانح سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض لوگ آپ سے اقتباسِ علم کے بعد سید عبداللہ غزنویؒ سے بیعت ہوا کرتے تھے اس ضمن میں ایک واقعہ بھی ملتا ہے کہ :۔
’’مولوی شاہ ممتاز الحق صاحب مرحوم صاحب جب حضرت مولانا عبداللہ صاحب غزنوی کے حضور میں بغرضِ بیعت و ارشاد حاضر ہوئے تو عبداللہ صاحب نے فرمایا کہ تم دہلی جاکر وہاں رہو اور شرفِ صحبت شیخ سے مستفید ہوکر ان سے اجازت لیکر یہاں آؤ،چانچہ ایسا ہی ہوا،وہ دہلی آئے اور یہاں بہت دنوں تک رہئے،پھر جب میاں صاحب کے حظ کے ساتھ امر تسر پہنچے،تب عبداللہ صاحب نے ان سے بیعت لی اور مسترشدین میں اپنے داخل کیا‘‘
( الحیات بعد الممات ص۱۳)
مولانا فضل الدین بہاری ؒ جو کے شیخ الکل سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے شاگر د رشید تھے ،اور ٓپ کے ساتھ سفر وحضر میں رہے ،آپ نے شیخ الکلؒ کی سوانح حیات ’’ الحیات بعد الممات ‘‘ میں بیعت اور اقسام بیعت پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے ، جو کہ کئی صفحات پر مشتمل ہے ،پھر بیعتِ تصوف سلوک کو مشروع ثابت کرکے حضرت میاں سید نذیر حسین دہلوی ؒ کے متعلق لکھتے ہیں
’’ حضرات ناطرین جب آپ شریعت وطریقت کی حقیقت پڑھ چکے ہیں ،تو اب ہم کو یہ دکھانا ہے کہ ہمارے میاں
صاحب کیسے بیعت لیتے تھے،سوائے بیعت خلافت ا وربیعت جہاد ،بیعت ثبات فی القتال ،بیعت ہجرت کے آپ باقی جملہ اقسام بیعت میں سے مناسب حال بیعت مریدوں سے لیتے تھے،مولوی ابومحمد حفاظت اللہ امرتسری آپکے سفر بنگالہ تشریف فرماہوئے تو ہم اورآپکے پوتے حافظ عبداللہ السلام اور حاجی محمد حسین صاحب ساکن میرٹھ آپکے ہمراہ تھے ۔جس راز آپ بمقام دیپ کنڈ رونق افراز تھےآپکی شہرت سن کر اس قدر لوگ جھک پڑے ،جنکی گنتی ناممکن تھی،سب کے سب نے ٓآپ سے شرف بیعت حاصل کیا۔
ایک صاحب اپنی بیعت کی کفیت لکھتے ہیں کہ رحیم آباد میں بعد المغرب ہم میاں صاحب ؒ کے حضور بیعت کیلئے حاضر ہوئے
اس وقت تین چار آدمی قریب بیٹھے ہوئے تھے،لیٹے،لیٹے اپنے دائیں ہاتھ سے میرے دائیں ہاتھ کو پکڑا ،سورہ احزاب کے پانچویں رکوع کو ان المسلمین والمسلمات سے اجراً عظیما۔تک تلاوت فرما کر انکے معنی اور مطالب بووضاحت تمام سمجھاتے رہے،اسکے بعد فرمایا اگر تم ان سب اعمال کے ہمیشہ عامل رہو گے تو میں تمھاری گواہی دوں گا ،ورنہ میں کہاں اور تم کہاں۔‘‘
(الحیات بعدلممات س۴۶)
سفر پنجاب میں لوگوں نے آپکے دست مبارک پر بیعت کی ،مداہنت سے آپکو سخت نفرت تھی،مریدوں اور طلبہ کو اکثر اسکی نصحیت کرتے ،کوئی شاگرد اگر اپنا ارادہ بیعت کا ظاہر کرتا تو فرماتے کہ ’’تم شاگرد ہی کافی ہو ‘‘اسکے بعد اگر اصرار کرتا تو ٓپ بیعت لے لیتے ،جس مجمع میں
آپ کسی سے بیعت لیتے تقریباً جملہ حاضرین شریک بیعت ہو جاتے ( الحیات ص ۱۴۸)

Address

Daska

Telephone

+923020798383

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Umair Ahmed posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Umair Ahmed:

Videos

Share