آفتاب عالم

آفتاب عالم ‏تمہارا دماغ ہی سب کچھ ہے۔
تم جو سوچتے ہو وہی بن جاتے ہو۔
(1)

05/10/2024
24/08/2024

ریلیف Relif

چور گھر کا سارا سامان لوٹ کر جاتے ہوئے ایک وقت کے کھانے کے پیسے دے جائیں تو اسے " ریلیف" کہتے ہیں۔

14/08/2024

تین لڑائیوں سے ہمیشہ گریز کریں۔
1۔ بچوں کی وجہ سے لڑائی۔
2۔ عورتوں کی وجہ سے لڑائی۔
3۔ سیاست کی وجہ سے لڑائی۔

11/08/2024

پہلے گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے گیندوں سے ٹوٹا کرتے تھے۔
اب گھر والے تیار رہیں محلے میں ہونے والی نیزہ بازی میں کہیں سے بھی آپ کسی نیزے کا شکار ہو سکتے ہیں.

جیو ارشد ندیم

EiD Mubarak to All Friends....   ....
17/06/2024

EiD Mubarak to All Friends....


....

‏جب کوئی انسان ناراضگی دور کرنے میں پہل کرتا ہے۔ تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط تھا۔۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس...
10/09/2023

‏جب کوئی انسان ناراضگی دور کرنے میں پہل کرتا ہے۔ تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ وہ غلط تھا۔۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اسے انا سے زیادہ رشتے عزیز ہیں۔

23/08/2023

ایک بندہ فوج میں بطور رنگ ساز بھرتی ہوا جب ریٹائر ہوا تو جو پیسے ملے اس سے کپڑے رنگنے کی دکان ڈال لی کہ ساری زندگی یہی کام کیا تھا-

پہلے ہی دن محلے سے ایک لڑکی دوپٹہ رنگوانے آگئی اور فرمائش کی “ چاچا دوپٹّے پر آتشی پنک رنگ کر دو”- اس نے ساری زندگی خاکی وردیاں رنگی تھیں اس کے بڑے بھی نہ جانیں کہ آتشی پنک کس بلا کا نام ہے تو کہنے لگا بیٹا جی دفعہ مارو آتشی پنک تم خاکی رنگ کروا لو دوپٹّے پر اچھا لگے گا. لڑکی بولی وہ چچا آتشی پنک نا میرے سوٹ کے ساتھ میچ کرتا ہے -

فوجی تھوڑا چپ رہ کر بولا بیٹا خاکی کروا لو خاکی رنگ ٹھنڈا ہوتا ہے. لڑکی تھوڑی تیز آواز میں “چچا آپ آتشی پنک ہی کرو میری چوڑیاں بھی اسی کلر میں ہیں”

فوجی بولا “دیکھو بیٹا جی یہ جو خاکی رنگ ہوتا ہے نا یہ بڑا پکا ہوتا ہے باقی سارے رنگ کچے ہوتے ہیں”اب لڑکی نے دوپٹہ غصے سے چھین لیا اور بولی” چاچا لگتا ہے تمھیں باتوں کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا میں کہیں اور سے رنگ کروا لوں گی”

فوجی نے غصے سے دوپٹہ واپس چھینا اور غصے سے بولا” لاؤ ادھر میں رنگ آتشی پنک ہی کروں گا مگر یاد رکھنا سوکھ کر اس نے پھر خاکی ہی ہو جانا ہے” 😂😂
_______
سیاست دان جتنے مرضی بڑے جلسے کرلیں ، الیکشن پر رنگ خاکی ہی چڑھے گا !

Great  Imran  Khan
19/08/2023

Great Imran Khan

ایک امیدوار ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہیں 1000 روپے پکڑاتے ہوئے کہا بابا جی اس بار ووٹ مجھے دیں۔ب...
14/08/2023

ایک امیدوار ووٹ مانگنے کیلئے ایک بوڑھے آدمی کے پاس گیا اور انہیں 1000 روپے پکڑاتے ہوئے کہا بابا جی اس بار ووٹ مجھے دیں۔

بابا جی نے کہا:-
بیٹا مجھے پیسہ نہیں چاہیئے پر تمہیں ووٹ چاہیئے تو ایک گدھا خرید کے لا دو۔

امیدوارکو ووٹ چاہیئے تھا وہ گدھا خریدنے نکلا مگر کہیں بھی 40000 سے کم قیمت کوئی گدھا نہیں ملا تو واپس آ کر بابا جی سے بولا :-
مجھے مناسب قیمت پر کوئی گدھا نہیں ملا گدھا کم سے کم 40000 کا ھے اس لئے میں آپ کو گدھا تو نہیں دے سکتا پر 1000 دے سکتا ھوں۔

بابا جی نے کہا:-
چوہدری صاحب مجھے اور شرمندہ نا کرو۔تمہاری نظر میں میری قیمت گدھے سے بھی کم ھے۔جب گدھا 40000 سے کم میں نہیں بکا۔تو میں 1000 میں کیسے بک سکتا ھوں.
اس لیے اس دفعہ الیکشن میں سوچ سمجھ کر ووٹ دیں۔
اپنی اور اپنے ووٹ کی قدر کروائیں۔

صرف ہاتھ ملانے خیریت پوچھنے حال احوال کرنے چائے کی ایک پیالی پلانےپر ضمیر فروخت مت کریں ووٹ امانت ہے اور امانت کے بارے میں یقینا باز پرس ہوگی۔

14/08/2023

دنیا بھر میں رہنے والے پاکستانیوں کو یومِ آزادی مبارک ہو

76th Independence Day of Pakistan
13/08/2023

76th Independence Day of Pakistan

09/08/2023

‏عمران خان کو کیوں فوراً ہٹایا گیا ہے

انگریزی تحریر : جسٹس ریٹائرڈ ناصرہ جاوید اقبال

میں آپ کو بتاؤں کہ عمران خان نے ایسا کیا جُرم کیا کہ امریکہ کو اُسے فوراً اسکے عہدے سے ہٹانا پڑا اور اگر امریکہ ایسا نہ کرتا تو اسے کس قسم کے نقصانات اٹھانے پڑ سکتے تھے۔
اس کو سمجھنے کے لیے پہلے دو تصورات کا احاطہ کرتے ہیں۔

*1) پیٹرو ڈالر کیا ہے؟ یہ 1974 میں شاہ فیصل اور صدر نکسن کے درمیان ایک معاہدہ ہے*۔

اس معاہدے کے تحت سعودی عرب کی ذمہ داری یہ تھی کہ اوپیک کے تمام ممالک کو تیل امریکی ڈالر میں فروخت کرنے پر راضی کرے اور کوئی دوسری کرنسی یا سونا قبول نہ کرے۔ فروخت سے حاصل ہونے والی تمام آمدنی امریکی بینکوں یا فیڈرل ریزرو میں جمع کی جائے گی جس سے USD کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے کیونکہ کسی بھی ملک کو تیل خریدنے کے لیے پہلے USD خریدنا پڑتا ہے اور یہ انتظام USD کو مضبوط رکھتا ہے۔

بدلے میں سعودی کرنسی ایک ڈالر = 3.75 ریال مقرر کی گئی تھی، سعودی معیشت کی حالت جیسی بھی ہو امریکی ڈالر اور ریال کی شرح یہی رہے گی اور یہی وجہ ہے کہ آج 48 سال بعد بھی ایک ڈالر , تین اعشاریہ پچھتر ریال کے برابر ہے۔ دوسرا امریکہ نے گارنٹی دی کہ آل سعود اقتدار میں رہے گا، حکومت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی۔

امریکہ کی ذمہ داری اس بات کو یقینی بنانا تھی کہ اوپیک ممالک میں سے کوئی بھی اس معاہدے سے کسی صورت بھی باہر نہ نکلے۔ عراق اور لیبیا نے بغاوت کی اور ہم سب جانتے ہیں ان کی حالت کیا ہوئی۔

*2) 1953 میں ہندوستان اور سوویت یونین (روس) کے درمیان ہندوستانی روپیہ-روبل تجارت کا معاہدہ ہوا*۔
جس کے تحت روس سے ہندوستانی خریداری کے لیے وہ ہندوستانی روپے میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے ہندوستانی روپے کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور کرنسی مضبوط رہے گی -
دوئم ہندوستان سے روسی خریداری کے لیے روسی روبل میں ادائیگی کریں گے۔ اس سے روبل کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کرنسی مضبوط رہتی ہے۔
ایک ہندوستانی بینک روس میں ایک شاخ کھولے گا اور روس کا ایک بینک تجارت کی سہولت کے لیے ہندوستان میں ایک شاخ کھولے گا - یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ معاہدہ 1953 میں ہوا تھا جو 1974 میں پیٹرو ڈالر کے معاہدے سے پہلے ہوا تھا۔

*عمران خان پہلے پاکستانی وزیراعظم تھے جنہوں نے 2019 میں پاکستانی روپے اور چینی یوآن میں لین دین کا چین سے معاہدہ کیا*۔ اس معاہدے میں سیمی کنڈکٹر، ٹرانسفارمرز، نشریاتی آلات اور الیکٹرونکس آلات شامل تھے۔ اگرچہ امریکہ اس سے خوش نہیں تھا، لیکن وہ چپ رہا کیونکہ اس میں تیل کا لین دین شامل نہیں تھا۔

*عمران خان 2022 میں تیل کے لیے پاکستانی روپے اور روسی روبل کا معاہدہ کرنے کے بالکل قریب تھا*۔
یاد رکھیں پیٹرو ڈالر کا معاہدہ 1974 کا ہے۔ اور امریکہ پاکستان کے اس معاہدے کو کبھی قبول نہیں کرسکتا تھا کیونکہ اگر دوسرے ممالک بھی اس کی پیروی کرتے ہیں تو USD کمزور ہو جائے گا اور امریکی معیشت میں گراوٹ آجائے گی اور وہ مزید سپر پاور نہیں رہے گا۔

*اگر عمران خان ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاتا تو اگلے الیکشن ہارنے کی قیمت پر بھی پاکستان امریکی غلامی سے نکل آتا اسی لئے امریکہ کو اسے فوری طور پر ہٹانا پڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا*۔

*عمران خان کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ابھی تک صدام حسین اور معمر قذافی کے پاس نہیں پہنچا جس کی حتی المقدور کوششیں جاری ہیں*.

*اگر عمران خان دوبارہ وزیراعظم منتخب ہوتا ہے اور اپنی دوسری مدت میں وہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو روپے کی مسلسل قدر میں کمی رک جائے گی*.

پاکستان IMF کو ادائیگی کرنا شروع کر دے گا اور تبادلوں کی شرح بحال ہو جائے گی اور پاکستان دو سے تین سال میں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی غلامی کا طوق گلے سے اتار پھینکے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

30/06/2023

The court of Devils.
Slavic fairy tale.

عنوان: شیطان کی عدالت۔
مترجم: جاوید بسام۔
(سلاوی لوک کہانی)

بس ایسا ہی ہوتا ہے۔ جہاں کچھ گڑبڑ ہو، جھگڑا ہو یا کوئی بدقسمتی ہو شیطان فوراً یاد آجاتا ہے، لیکن شیطان دنیا کی سب سے بُری چیز نہیں ہے۔ آپ، شیطان کو کم از کم اس کے سینگ، دو کھروں اور ایک لمبی دم کی وجہ سے فوراً پہنچان لیتے ہیں۔ جب کہ ایک برے شخص کو پہچاننے میں ہمیشہ مشکل ہوتی ہے۔ وہ چہرے پر مسکراہٹ سجائے آپ کے پاس آتا ہے، گرم جوش سے ملتا ہے اور میٹھے لہجے میں بولنا شروع کرتا ہے، کسی فاختہ کی طرح، ہاں ایک بے ضرر فاختہ کی طرح۔

یہاں میں ایک واقعہ سناتا ہوں، اس سرپرست کا جو ایک بیوہ کے پاس گیا اور... مگر نہیں، مجھے سب کچھ ترتیب سے بتانا چاہیے۔

یہ ایک پرانی کہانی ہے، لیکن لوبلن کے لوگوں کو اب بھی اچھی طرح یاد ہے۔ دو بھائی تھے۔ بڑا اپنے باپ کی تمام دولت کا وارث تھا، اس کا لوبلن میں ایک گھر تھا، دکانیں تھیں، یہاں تک کہ جاگیر اور زمین بھی تھی۔ چھوٹے کو اپنے باپ کی موت کے بعد زیادہ نہیں ملا، لیکن اسے غریب آدمی بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ وہ ایک جوان بیوی اور چھوٹے بچوں کے ساتھ خوشحال زندگی گزار رہا تھا۔ مگر وہ زیادہ عرصے زندہ نہیں رہا، اسے نزلہ زکام ہوا، کچھ دنوں کے لیے بیمار رہا اور مر گیا۔ وہ، بیوی اور بچوں کو بے سہارا چھوڑ گیا تھا۔ وہ بیوہ نہیں جانتی تھی کہ کس طرح کاروبار کرنا ہے اور کس طرح کاروبار کا حساب کتاب سمجھنا ہے۔ تب اس کے شوہر کا بڑا بھائی اس کی مدد کے لیے آگے آیا۔ وہ میٹھی آواز میں، پیار بھری مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ ”میں فلاں فلاں معاملے میں تمھارا خیال رکھوں گا، ساری مشکلات اپنے سر لے لوں گا اور بحسن خوبی تمھارا کاروبار چلاؤں گا۔“

بیوہ نے اس پر بھروسہ کیا۔ اسے اپنا، اپنے بچوں کا اور تمام جائیداد کا محافظ بنا دیا۔ سرپرست نے چارج سنبھال لیا۔ اس نے تین تجارتی بحری جہاز سامان کے ساتھ بیرون ملک بھیجے۔ ایک جہاز چٹانوں میں ٹکرا کر ڈوب گیا۔ تمام سامان برباد ہوگیا۔ یہ معجزہ تھا کہ وہ بیوہ کا جہاز نکلا اور اب تباہ شدہ جہاز کی قیمت بھی بیوہ کو ادا کرنی تھی، باقی دو جہاز بھرپور منافع کے ساتھ واپس لوٹے۔ وہ سرپرست کے تھے۔ ایک دن ان کی زمینوں پر ژالہ باری ہوئی۔ موسم خزاں میں سرپرست نے آمدنی اور نقصان کا حساب لگانا شروع کیا۔ بیوہ کے سبزیوں کے کھیت اور باغات سب طوفان سے ذیادہ متاثر ہوئے تھے اور جہاں اس کی اپنی زمینیں تھی۔ وہ جگہ محفوظ تھی۔ لہذا تمام نقصان بیوہ کو دیے اور آمدنی اپنے لیے رکھ لی۔ بیوہ کی دولت گرم کڑاہی پر پڑے مکھن کی طرح پگھل رہی تھی۔ مزید یہ کہ وہ اپنے سرپرست کی مقروض ہوگئی تھی اور قرض پر سود روز بروز بڑھتا جا رہا تھا۔ بات یہاں تک پہنچی کہ اس کا جیٹھ اسے چھوٹے بچوں سمیت گھر سے نکالنے لگا۔ تمام لوبلن کے لوگ اس کے کالے کرتوتوں کے بارے میں جانتے تھے۔ انھوں نے بہت باتیں کی، لیکن وہ مدد نہ کر سکے۔ بیوہ اپنے تحفظ اور انصاف مانگنے کے لیے ایوان انصاف پہنچ گئی۔ جوں جوں مقدمہ آگے بڑھتا گیا۔اس کی جمع پونجی ختم ہوتی گئی، آخر ایک وقت آیا کہ بیوہ کے پاس کھانے کے لیے روٹی بھی نہیں تھی۔ اگر اچھے لوگ مدد نہیں کرتے تو پورا خاندان بھوک سے مر جاتا۔

آخرکار فیصلے کا دن آن پہنچا۔ بیوہ اور سرپرست دونوں ججز کے سامنے پیش ہوئے۔ بیوہ کا خیال تھا کہ عدالت میں ہمیشہ سچائی کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔ غریب عورت نے حق اور سچ، اپنی بے چارگی اور بچوں کے آنسو، ترازو کے پلڑے میں ڈالے۔ وہ روتی رہی، سرپرست ہنستا اور اپنی مونچھیں مروڑتا رہا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کا ہلکا سا سایہ بھی نہیں تھا۔ وہ جانتا تھا، کیسے مقدمہ لڑنا ہے، کیسے چاپلوسی کرنی ہے، کیسے شہد، شراب، گوشت اور طلائی ڈکٹس خرچ کرنے ہیں۔ وہ سرپرست کے پلڑے پر سجے تھے۔ یہ واضح تھا کہ کس کا پلڑا زیادہ اہم ہے۔ عدالت نے تمام جائیداد سرپرست کو دے دی۔ عدالت سے نکلنے کے بعد شہر کے لوگ جو بیوہ سے ہمدردی رکھتے تھے سرپرست کو برا بھلا کہتے ہوئے گھروں کو جانے لگے۔ ان میں سے ایک معزز بوڑھے نے سرپرست کے پاس جاکر اس کے منہ پر کہا۔ ”کیا تم میں ضمیر بالکل مرگیا ہے؟ تم اگرچہ مقدمہ جیت گئے ہو، لیکن تم جانتے ہو کہ یہ حق کی جیت نہیں ہے۔ یہ ناانصافی ہے۔“

سرپرست غصے میں بھر گیا اور بولا۔ ”آپ کی ہمت کیسے ہوئی ججز کے بارے میں ایسے الفاظ ادا کرنے کی؟ اگر شیاطین بھی اس مقدمہ کا فیصلہ کرتے تو بالکل یہی فیصلہ ہوتا۔“

”اوہ، شیطانوں کا ذکر نہ کرو۔ شیطان بہت حساس کان رکھتے ہیں۔ چاہے وہ کتنی ہی دور کیوں نہ ہوں۔“ معزز بوڑھے نے کہا۔

ابھی اندھیرا ہوا ہی تھا کہ ایک برفانی طوفان شہر میں چلا آیا۔ ہر طرف گلیوں اور بازاروں میں برف گرنے لگی۔ برف کی گرتی چادر نے لوگوں کی آنکھوں کو اندھا کردیا۔ وہ اپنے اپنے گھروں میں جا چھپے، کتوں نے سگ خانوں میں پناہ لی، اچانک شہر کے وسط میں برف کا ایک بگولا نمودار ہوا اور تیزی سے گھومتا ہوا مرکزی سڑک پر دوڑنے لگا۔ اس میں سے چیخیں، آہیں، سیٹیاں، سسکیاں اور بڑبڑاہٹیں سنائی دے رہی تھیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ یہ کیسی آوازیں ہیں۔ وہ بگولا اڑتا ہوا ایوان انصاف کی سڑک پر پہنچا۔

لوگ اپنے گھروں کے دروازوں اور کھڑکیوں کی جھیریوں سے چپکے چپکے جھانک رہے تھے۔ انھوں نے ایسا منظر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ انھیں بگولے میں ایک تیز رفتار بگھی نظر آئی۔ جس میں دو گھوڑوں کے ڈھانچے جتے تھے۔ وہ تیزی سے چلی جارہی تھی۔ اسے چاروں طرف سے چھوٹے شیطانوں نے گھیر رکھا تھا۔ ان کے ہاتھوں میں کوڑے تھے۔ جنھیں وہ گھوڑوں پر برسا رہے تھے اور پائپوں کی بجائے ہڈیوں میں پھونک مارتے تھے، دیگر، روشن مشعلیں پکڑے ہوئے تھے۔ جن میں سے ہلکا دھواں اٹھ رہا تھا۔ بگھی ایوان انصاف کے سامنے رک گئی۔ آخر تمام بری روحیں عدالت کے سامنے چوک میں پہنچ گئی تھیں۔ پہلے بگھی میں سے تین بھاری بھرکم اہم شخصیات باہر نکلیں ان کے بعد دو اور مصنوعی بالوں کی وگیں لگائے پتلے دبلے شیطان باہر کودے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ بڑی مشکل سے بگّھی میں پھنسے بیٹھے تھے۔ پھر سب شور مچاتے اور ہنگامہ کرتے ہوئے عدالت میں داخل ہوگئے۔

ان کی آمد سے کچھ قبل دو کاتب عدالت میں موجود تھے۔ وہ موم بتی کی روشنی میں بیوہ کے مقدمے کے حقائق کو مٹانے کی کوشش کررہے تھے۔ شور سن کر انھوں نے کھڑکی سے دیکھا کہ عدالت کے سامنے کیا ہو رہا ہے تو وہ خوف سے ادھ مرے ہوگئے، پھر وہ چھپنے کے لیے ادھر ادھر بھاگے، صرف وہی نہیں بلکہ عدالت میں موجود ہر چیز خوفزدہ ہوگئی تھی، موم بتیاں ایک دم تیر کر باہر جانے لگیں۔ فرش کے تختے اس طرح چرچرانے لگے جیسے ان کے نیچے پاگل گھوڑے دوڑ رہے ہیں۔

کاتب ایک الماری میں چھپنا چاہتے تھے جہاں پرانے کاغذات رکھے جاتے تھے۔ مگر دروازہ بند ہوگیا تھا اور چابی کا سوراخ مکمل طور پر غائب تھا۔ بعد میں کاتبوں نے قسم کھائی کہ وہ بھی ڈر کر بھاگ گیا تھا۔ بلاشبہ، شاید ایسا ہی ہوا ہو، لیکن غالب امکان ہے کہ کاتبوں کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اس لیے انہوں نے چابی صحیح جگہ نہیں لگائی تھی۔ وہ کیا کرتے آخر وہ ججوں کی میز کے نیچے لیٹ گئے اور ساری رات وہاں بیٹھے خوف سے کانپتے رہے۔

اندر آکر تمام شیاطین نے درجہ بدرجہ نشستیں سنھبال لیں۔ بھاری بھرکم ججوں کی کرسیوں پر بیٹھ گئے، دو پتلے دبلے شیطانوں نے وکیلوں کی جگہ لے لی۔ باقی سب ہال میں بنچوں پر بے ترتیبی سے بیٹھ گئے۔ درخواست گزاروں نے قانونی چارہ جوئی شروع کی۔ ایک بیوہ کے لیے بولتا تھا، دوسرا سرپرست کا ساتھ دیتا تھا۔ اگرچہ حقیقی عدالت میں پہلے بیوہ نے اپنی فریاد سنائی، پھر سرپرست نے بات کی تھی، لیکن شیطانوں کی عدالت کا دستور برعکس تھا۔ وہاں سرپرست کے لیے کھڑا ہونے والا سب سے پہلے بولا۔ اس نے سرپرست کی تعریفوں کے پل باندھنا شروع کیے۔ اس نے اپنی ہر چال چلی، معلوم ہوا کہ اس کی ہر بات میں دوسرے شیاطین کے سیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔ کیا ہر شیطان سیاہ کو سفید، سفید کو سیاہ کرنے کی سازش کرتا ہے؟ باقی شیاطین ہنستے رہے، وہ اپنی آوازوں سے سفارشی وکیل کو خوش کررہے تھے اور اپنے خستہ حال کھر لکڑی کے فرش پر مار رہے تھے۔ جج نے انھیں پرسکون رکھنے کے لیے بار بار لکڑی کی موگری (ہتھوڑی) بجائی۔

بہت دیر تک سرپرست کا وکیل بولتا رہا اور اس کی تقریر اختتام ان الفاظ پر ہوا۔” سابقہ عدالت کے معزز جج صاحبان نے ٹھیک فیصلہ کیا تھا اور اب یہ شیطانوں کی معزز عدالت بھی اس فیصلے کو برقرار رکھے گی۔“

شیطانوں نے ہاتھ اٹھا کر اس کی بات کی تائید کی۔ پھر دوسرا پتلا شیطان بیوہ کا وکیل آگے بڑھا۔ اس نے بیوہ کی تمام شکایات بیان کی۔ اس نے چھوٹے بچوں کے دکھ اور تکلیف کو بیان کرنا شروع کیا۔ سب شیطان خاموش ہوگئے، یہاں تک کہ مشعلوں میں موجود رال نے سسکنا اور بلبلانا بند کر دیا۔ وہ اس قدر نرمی سے، اس قدر دکھی لہجے میں افسوس کے ساتھ بات کررہا تھا کہ ججوں نے اپنے پنجوں سے کئی بار آنسو صاف کیے۔ پھر ہال میں پہلے ایک شیطان نے ہلکی سی سسکی بھری اور رونے لگا، پھر دو اور رونے لگے، پھر سب ایک ساتھ رونے لگے۔ آخر میں بیوہ کا ولی خود بھی رونے لگا اور آگے ایک لفظ بھی نہ بول سکا۔ بس اپنا پنجہ لہرا کر بیٹھ گیا۔ یہاں سرپرست کا وکیل چھلانگ لگا کر کھڑا ہوا اور اس کی تقریر کو جھوٹ قرار دیا۔

ججوں نے کوئی جرح نہیں کی، انھوں نے آپس میں کوئی مشورہ نہیں کیا۔ سب کچھ پہلے سے واضح تھا کہ معاملے کو کیسے نمٹایا جائے گا۔ چیف جج نے حکم دیا۔”وہ چیز لائی جائے۔ جس پر فیصلہ لکھنا ہے۔“

شیطان کاتبوں میں ہلچل مچ گئی۔ انہوں نے میز پر سیاہ بیل کی ایک کھال بچھا دی، اتنی بڑی کہ اس نے پوری عدالتی میز کو ڈھانپ لیا اور اس کھال پر شیاطین نے گرم جلتے ہوئے تارکول سے اپنا فرمان لکھنا شروع کیا۔ ”ہم شیطان، آپ کی عدالت کا فیصلہ غلط تسلیم کرتے ہیں۔ ہم نے خود اس مقدمے کا منصفانہ جائزہ لیا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ بیوہ کے تمام قرضوں اور نقصانات کا ازالہ سرپرست کو کرنا ہوگا اور تمام جائیداد بچوں اور بیوہ کو دینا ہوگی۔ جیسا ہم نے حکم دیا ہے، ویسا ہی ہوگا۔“

سزا کے اختتام پر کھال پر مزید تارکول انڈیل دیا گیا اور چیف جج نے عدالتی مہر کے بجائے اس پر اپنے پنجے کا نشان لگایا۔ تب ہی کراکو شہر کے ٹاور نے آدھی رات کا گجر بجایا۔ شیاطین جلدی جلدی اٹھ کر باہر بھاگے۔ ایک بار پھر برفانی بگولا لوبلن کی گلیوں سے گزرا اور پھر تاریک جنگل میں غائب ہوگیا۔

صبح جج عدالت میں آئے تو دیکھا کہ میز پر ایک کالی چمڑی پڑی ہے اور اس پر انگاروں کی طرح سلگتے ہوئے بڑے بڑے حروف لکھے ہیں۔ وہ رات بھر جلتے رہے تھے۔ جج کھال کو ہٹانے کے لیے بڑھے۔ مگر وہ میز پر مضبوطی سے چمٹی ہوئی تھی۔ وہ کچھ نہیں کرسکے۔ ان کے ہاتھ جل گئے اور تارکول سے گندے ہوگئے۔ اسی دوران شہر کے لوگ عدالت میں بھاگے چلے آئے۔ پہلے تو وہ حیران ہوئے پھر ججوں پر ہنسے اور اونچی آواز میں انھیں لعن طعن کرنے لگے۔ اسی دوران کاتب میز کے نیچے سے رینگتے ہوئے باہر آئے اور لوگوں کے درمیان گھل مل گئے اور رات کو جو کچھ دیکھا اور سنا تھا اس کے بارے میں بتانے لگے جج اب بھی گڑبڑ کررہے تھے۔ وہ مقدمے کو چپ چاپ ختم کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے مل کر میز کو کھال سمیت باہر نکالنے کی کوشش کی، لیکن کوئی اسے اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکا، ایسا لگتا تھا کہ جیسے فرش نے میز کو جکڑ لیا ہے۔ پھر انھوں نے میز کو دوسرے کپڑے سے ڈھانپ دیا، لیکن کپڑے میں سے حروف ابھر آئے اور وہ ایک لمحے میں جل کر راکھ ہوگیا۔ ججوں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ جلدی سے جج کی کرسی پر بیٹھ جائیں اور تمام لوگوں کے سامنے اپنے کل کے فیصلے کو منسوخ کریں اور نئے طریقے سے مقدمہ کا فیصلہ کریں، جیسا کہ شیطانوں نے لکھا تھا۔ جوں ہی انھوں نے اس پر عمل کیا۔ اسی لمحے آگ کے حروف غائب ہوگئے اور کھال جل کر راکھ ہوگئی۔

یہ وہی کہانی ہے جو قدیم شہر لوبلن میں پیش آئی۔ کاتبوں نے یہ سب مہر والے سرکاری کاغذ پر سرخ روشنائی سے درج کیا تھا اور وہ دستاویز جج کی الماری میں رکھی گئی اور آج تک موجود ہے۔

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیںجون ایلیا
08/04/2023

اس گلی نے یہ سن کے صبر کیا

جانے والے یہاں کے تھے ہی نہیں

جون ایلیا

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہولالہ مادھو رام جوہر
08/04/2023

جو دوست ہیں وہ مانگتے ہیں صلح کی دعا

دشمن یہ چاہتے ہیں کہ آپس میں جنگ ہو

لالہ مادھو رام جوہر

05/11/2022

دنیا کا امیر ترین حکمران
معروف ميگزین ’منی‘ نے موسیٰ منسا کو تاریخ کا امیر ترین شخص قرار دیا ہے۔ ان کا تعارف یہ ہے کہ وہ ٹمبکٹو کے فرمانروا تھے۔ انھوں نے مالی کی سلطنت پر اس دور میں حکومت کی جب وہ معدنیات اور بطور خاص سونے کے ذخیرے سے مالا مال تھاکی سلطنت کی حد کسی کو معلوم نہیں تھی۔
آج کے موریطانیہ، سینیگال، گیمبیا، گنی، برکینا فاسو، مالی، نائیجر، چاڈ اور نائجیریا وغیرہ کا علاقہ اس وقت موسیٰ کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ منسا موسیٰ نے کئی مساجد کی تعمیر کرائی جن میں سے بعض ابھی تک موجود ہیںمنسا موسیٰ کی دولت کا آج کے دور میں تخمینہ لگانا مشکل ہے۔ پھر بھی ایک اندازے کے مطابق ان کی دولت چار سو ارب امریکی ڈالر کے برابر تھی
امیزون کے بانی جیف بیزوس کو حال ہی میں دنیا کا امیر ترین شخص قرار دیا گيا ہے جن کی دولت کا تخمینہ 106 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے، جبکہ منسا موسیٰ کے پاس جیف بیزوس سے کہیں زیادہ دولت تھی
اگر افراط زر کو خاطر میں نہ لایا جائے تو اس وقت جیف بیزوس کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے۔ لیکن اگر افراط زر کو ذہن میں رکھا جائے تو بھی منسا موسیٰ کی دولت تاریخ کسی بھی زندہ یا مردہ دولت مندوں سے زیادہ ہے۔ دولت مندوں کا موازنہ کرنے پر ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ روتھ چائلڈ خاندان کے پاس ساڑھے تین سو ارب امریکی ڈالر دولت تھی جبکہ جان ڈی راک فیلر کے پاس 340 ارب ڈالر دولت تھی

۔منسا موسیٰ کے دور حکومت کی مشہور ترین کہانی ان کا دورۂ حج ہے۔ یہ سنہ 1324 کا واقعہ ہے۔ اس سفر میں منسا موسیٰ نے تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب منسا موسیٰ کو دیکھنے کی خواہش رکھنے والے ان سے ملنے گئے تو ان کے قافلے کو ہی دیکھ کر دنگ رہ گئے۔
حج کے اس سفر میں موسیٰ کے ہمراہ 60 ہزار فوجی اور 12 ہزار غلام تھے جنہوں نے چار چار پاونڈ سونا اٹھا رکھا تھا۔ اس کے علاوہ 80 اونٹوں پر بھی سونا لدا ہوا تھا۔ اندازہ ہے کہ موسیٰ نے 125 ٹن سونا اس سفر میں خرچ کیا۔ اس سفر کے دوران وہ جہاں سے بھی گزرا، غربا اور مساکین کی مدد کرتا رہا اور ہر جمعہ کو ایک نئی مسجد بنواتا رہا۔منسا موسیٰ اس قدر فراخ دل تھے کہ جب مصر سے گزرے تو یہ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے غریبوں کو اتنے عطیات دیے کہ علاقے میں افراطِ زر ہو گیا۔

Address

Village Zoormandi P/O Heroshah Tehsil Dargai District Malakand Agency
Dargai Fort
23061

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when آفتاب عالم posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to آفتاب عالم:

Videos

Share


Other Digital creator in Dargai Fort

Show All