سنڌڙي Sindhri

سنڌڙي Sindhri سنڌڙي پيج کي لائيڪ ڪيو شيئر ڪيو Join Us:

Hit the "Like" button and follow us for daily updates and engaging content that keeps you in the loop. Thank you
(1)

Welcome to my Page,
your ultimate destination for all things entertainment! 🎬🎶

Dive into a world where the latest in movies, music, TV shows, celebrity news, and pop culture trends come to life. Our page is dedicated to keeping you up-to-date with the freshest content, exclusive insights, and engaging discussions about the entertainment industry. Share your thoughts, join conversations, and connect with fellow entertainment enthusiasts.

- ملازمت کرنے والی عورت کا انتخاب کرتے وقت، آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ گھر نہیں سنبھال سکتی۔ - اگر آپ نے ایک گھریلو خ...
21/09/2024

- ملازمت کرنے والی عورت کا انتخاب کرتے وقت، آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ گھر نہیں سنبھال سکتی۔

- اگر آپ نے ایک گھریلو خاتون کا انتخاب کیا ہے جو آپ کی دیکھ بھال کر سکتی ہے اور آپ کے گھر کا مکمل انتظام کر سکتی ہے، تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ پیسے نہیں کما رہی ہے۔

- اگر آپ ایک فرمانبردار عورت کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ وہ آپ پر منحصر ہے اور آپ کو اس کی زندگی کو یقینی بنانا چاہیے۔

- اگر آپ ایک مضبوط عورت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ کو یہ قبول کرنا ہوگا کہ وہ سخت ہے اور اس کی اپنی رائے ہے۔

- اگر آپ ایک خوبصورت عورت کا انتخاب کرتے ہیں، تو آپ کو بڑے اخراجات کو قبول کرنا پڑے گا.

- اگر آپ ایک کامیاب عورت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرتے ہیں، تو آپ کو سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس کردار ہے اور اس کے اپنے مقاصد اور عزائم ہیں۔

کامل جیسی کوئی چیزیں نہیں ہیں۔ ہر ایک کی اپنی پہیلی ہے، جو ہمیں منفرد بناتی ہے۔

لڑکیاں ہمیشہ اچھے لڑکے کے مقابلے میں برے لڑکے سے محبت کرنے کا انتخاب کرتی ہیں کیونکہ وہ کچھ ایڈوینچر ، کچھ تفریح ، کچھ س...
21/09/2024

لڑکیاں ہمیشہ اچھے لڑکے کے مقابلے میں برے لڑکے سے محبت کرنے کا انتخاب کرتی ہیں کیونکہ وہ کچھ ایڈوینچر ، کچھ تفریح ، کچھ سنسنی خیزی کا پیچھا کرنا اور ایسی شخصیت کے مالک کو نزدیک سےجاننا چاہتی ہیں -

لڑکیاں زندگی بھر ہمیشہ ایک اچھے مرد کی تمنا کرتی رہتی ہیں لیکن جب انتخاب کی باری آتی ہے تو وہ ایک بدترین مرد سے ہی محبت کرتی ہیں -

17/09/2024

لکھنے والے نے کیا خوب لکھا ہے !
زندگی جب مایوس ہوتی ہے،
تبھی محسوس ہوتی ہے

اگر نظر لگنے والی بات میں سچائی ھوتیتو تمام عورتوں کو بریسٹ کینسر ھوتا
17/09/2024

اگر نظر لگنے والی بات میں سچائی ھوتی
تو تمام عورتوں کو بریسٹ کینسر ھوتا

15/09/2024

نائيجيريا جي مسلمانن وڏو ڊرامو شروع ڪري ڇڏيو. هنن پنهنجي ملڪ ۾ ڪعبت الله جي شڪل جي هڪ عمارت ڍاهي حج جون رسمون ادا ڪرڻ شروع ڪيون آهن. يعني هاڻي هو اتي ئي حج ادا ڪندا. ڏيو منهن !

مرد اپنے رشتے ختم کرتے ہیں، خاندان کے کسی عزیز کو کھو دیتے ہیں، نوکری سے محروم ہوجاتے ہیں، شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ...
15/09/2024

مرد اپنے رشتے ختم کرتے ہیں، خاندان کے کسی عزیز کو کھو دیتے ہیں، نوکری سے محروم ہوجاتے ہیں، شدید ڈپریشن میں مبتلا ہوجاتے ہیں، جسمانی اور ذہنی اذیت کی آگ میں جلتے ہیں، اور پھر بھی اپنے لبوں پر مسکراہٹ سجائے، کہہ دیتے ہیں: میں ٹھیک ہوں، میں اس کا حل نکال لوں گا۔ یہ مرد کی فطرت ہے کہ وہ اپنے جذبات کو دل کی گہرائیوں میں دفن کر دیتا ہے۔ اندر سے وہ ٹوٹ رہا ہوتا ہے، لیکن باہر سے وہ خود کو مضبوط، غیرمتزلزل اور بے نیاز ظاہر کرتا ہے۔ اس کا دل چیخ رہا ہوتا ہے، مگر زبان خاموش رہتی ہے، کیونکہ وہ نہیں چاہتا کہ اس کی کمزوری دنیا کے سامنے ظاہر ہو۔ اس کا وقار اور خودداری اسے مجبور کرتے ہیں کہ وہ اپنے درد کو بھی اپنی طاقت بنا لے، اور اپنے اندر کےطوفان کو دنیا سے چھپا لے۔🙂♥️

لالچ کے گھوڑےبادشاہ خوش نہیں تھا، وہ خوش رہنا چاہتا تھا اور خوشی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا، اس نے خوشی کے ماہرین ک...
15/09/2024

لالچ کے گھوڑے

بادشاہ خوش نہیں تھا، وہ خوش رہنا چاہتا تھا اور خوشی کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا، اس نے خوشی کے ماہرین کی مدد بھی لی اور سیانوں، دانش وروں اور سمجھ داروں کی پوٹلیوں میں بھی جھانکا مگر خوشی کا فارمولہ ہاتھ نہ آیا، وہ ایک پہاڑ پر چلا گیا، پہاڑ پر ایک درویش رہتا تھا، درویش کے دو مشاغل تھے، صبح صادق کے وقت مشرق کی طرف منہ کرکے بیٹھ جانا اور سورج کو آہستہ آہستہ افق سے ابھرتے ہوئے دیکھنا اور اور اس کے بعد جنگل میں نکل جانا، سارا دن جنگل میں گزار دینا۔

بھوک لگتی تھی تو وہ درختوں سے پھل توڑ کر کھا لیتا تھا، پیاس محسوس ہوتی تو وہ ندیوں، جھرنوں اور آبشاروں کا پانی پی لیتا، درویش کے پاس رہنے کے لیے ایک کٹیا تھی، وہ رات کٹیا میں آ جاتا تھا، سردیوں کے لیے دو کمبل تھے، گرمیوں کے لیے کھلا آسمان اور ٹھنڈی زمین تھی اور کپڑے لتے کی ضرورت زائرین پوری کر دیتے تھے، درویش کے پاس اس کے علاوہ کچھ نہیں تھا لیکن وہ اس کے باوجود خوش تھا، بادشاہ اس خوشی کی وجہ دریافت کرنے کے لیے درویش کے پاس پہنچ گیا، درویش نے سنا، قہقہہ لگایا، لکڑی کی کھڑاویں پہنیں اور بادشاہ سے کہا " بادشاہ سلامت میں اس کا جواب آپ کے دربار میں جا کر دوں گا"

بادشاہ نے درویش کو گھوڑے پر بٹھایا اور دارالخلافہ آ گیا، درویش نے درخواست کی، آپ اب کسی ضرورت مند کو بلایے، بادشاہ نے عرضیوں کی ٹرے سے ایک خط نکالا، وہ خط وزیر کے حوالے کیا اور ضرورت مند کو طلب کرنے کا حکم دے دیا، ضرورت مند کو دربار میں حاضر کر دیا گیا، درویش نے بادشاہ کے کان میں سرگوشی کی " آپ حکم جاری کریں، اے ضرورت مند! تم جائو، میری سلطنت میں دوڑو، تم سورج غروب ہونے تک زمین پر جتنا بڑا دائرہ بنا لو گے وہ زمین تمہاری ہو جائے گی"۔ بادشاہ نے ضرورت مند کو حکم دے دیا، حکم جاری ہونے کے بعد بادشاہ، درویش اور درباری محل کے سامنے کرسیاں بچھا کر بیٹھ گئے۔

ضرورت مند کو لکیر کھینچ کر ایک مقام پر کھڑا کر دیا گیا، بادشاہ کا رومال ہلا اور ضرورت مند نے دوڑنا شروع کر دیا، ضرورت مند نے دوڑ کے آغاز میں وقت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، صبح سے ظہر تک آگے جانا اور ظہر سے مغرب تک واپسی کا سفر۔ ضرورت مند کا خیال تھا، یوں وہ زمین کا بہت بڑا ٹکڑا ہتھیا لے گا، ضرورت مند سرپٹ بھاگتا رہا، ظہر کے وقت اس نے چار سو ایکڑ زمین گھیر لی، فارمولے کے مطابق ضرورت مند کو اب واپسی کا سفر شروع کرنا تھا لیکن وہ لالچ کا شکار ہوگیا، اس نے سوچا میں اگر اپنی اسپیڈ بڑھا لوں تو میں عصر تک سو ایکڑ زمین مزید گھیر لوں گا اور میں اگر اسی اسپیڈ سے واپسی کے لیے دوڑوں تو میں مغرب تک واپس پہنچ جائوں گا۔

میں آپ کویہاں انسان کی فطرت کی ایک کم زوری بتاتا چلوں، انسان لالچی ہے اور لالچ میں دو درجن خامیاں ہیں لیکن اس کی سب سے بڑی خامی کا تعلق انسانی ذہن کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخمینہ لگانے، کیلکولیشن کرنے کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے، ہم جب بھی کوئی چیز دیکھتے ہیں، ہمارا دماغ فوراً اس کے عرض بلد، موٹائی، وزن اور قیمت کا اندازہ لگاتا ہے اور ہم اس کیلکولیشن کی بنیاد پر اگلے فیصلے کرتے ہیں مگر ہم جب لالچ میں آتے ہیں تو ہمارا دماغ ایک عجیب کیمیکل پیدا کرتا ہے، یہ کیمیکل ہماری کیلکولیشن کی صلاحیت کو تباہ کر دیتا ہے اور یوں ہم غلط فیصلے کرنے لگتے ہیں۔

آپ فراڈیوں کے ہاتھوں عمر بھر کی کمائی لٹانے والے لوگوں کی کہانیاں سنیں، آپ کہانی سننے کے فوراً بعد کہیں گے " تم پڑھے لکھے، سمجھ دار انسان ہو، تم یہ اندازہ نہیں لگا سکے لوہا کبھی سونا نہیں بن سکتا یا جو شخص ٹیکسی پر تمہارے پاس آیا تھا وہ تمہیں پانچ کروڑ کی زمین اڑھائی کروڑ میں کیسے دے سکتا ہے یا جو دکان مارکیٹ میں کروڑ روپے کی ہے وہ دس لاکھ روپے میں کیسے مل سکتی ہے اور مٹھائی سے شوگر کا علاج کیسے ہو سکتا ہے اور اتنی خوب صورت لڑکی امریکا سے پاکستان آ کر تم جیسے میٹرک فیل لڑکے سے کیوں شادی کرے گی؟" وغیرہ وغیرہ۔

فراڈ کا نشانہ بننے والا عموماً یہ جواب دیتا ہے " بھائی جان وہ جادوگر تھا، اس نے میری عقل پر پردہ ڈال دیا تھا" فراڈیاجادوگر نہیں تھا، جادوگر لالچ تھا اور لالچ سے پیدا ہونے والا وہ کیمیکل تھا جو انسان کی عقل سلب کر لیتا ہے اور یوں اچھا بھلا سمجھ دار شخص ماموں بن جاتا ہے، میں واپس زمین گھیرنے والے شخص کی طرف آتا ہوں، لالچ نے اس کی عقل بھی سلب کر لی، اس کی کیلکولیشن بھی غلط ہوگئی، وہ مزید زمین کے لالچ میں عصر تک بھاگتا رہا، سورج نے جب تیزی سے واپسی کا سفر شروع کیا تو اس شخص کو اپنی غلطی کا احساس ہوا، وہ پلٹا اور واپسی کے لیے دوڑ لگا دی لیکن دیر ہو چکی تھی، وہ اب مغرب سے قبل واپس نہیں پہنچ سکتا تھا۔

اس کے پاس اس وقت دو آپشن تھے، وہ اپنی ہار مان لیتا، دوڑنا بند کر دیتا اور چپ چاپ گھر واپس چلا جاتا یا پھر جیتنے کے لیے سرتوڑ کوشش کرتا، وہ دوسرے آپشن پر چلا گیا، میں آپ کو یہاں انسان کی ایک اور خامی بھی بتاتا چلوں، کام یابی میں سرتوڑ محنت ہمیشہ تیسرے نمبر پر آتی ہے، پہلا نمبر پلاننگ اور دوسرا نمبرصلاحیت کو حاصل ہوتا ہے، آپ کی منصوبہ بندی غلط ہے، آپ پہاڑ پر کھجور لگانا چاہتے ہیں یا صحرا میں چاول اگانا چاہتے ہیں تو خواہ کتنی محنت کر لیں آپ کی کام یابی کے امکانات بہت کم ہوں گے، دوسرا آپ میں اگر صلاحیت نہیں، آپ نے اگرباقاعدہ ٹریننگ حاصل نہیں کی، آپ نے اگرٹاسک کے لیے تیاری نہیں کی تو بھی آپ خواہ کتنی ہی سر توڑ محنت کر لیں آپ کام یاب نہیں ہو سکیں گے، زمین گھیرنے والا بھی منصوبہ بندی اور صلاحیت دونوں سے عاری تھا۔

چناں چہ اس نے دوسرا فیصلہ بھی غلط کیا، اس نے سر توڑ کوشش کی ٹھان لی، بھاگنے کی اسپیڈ بڑھا دی، وہ بری طرح تھکاوٹ کا شکار تھا لیکن وہ اس کے باوجود دیوانہ وار دوڑ رہا تھا، وہ وقت پر پہنچنے کی کوشش میں اپنی اسپیڈ بڑھاتا رہا یہاں تک کہ اس کے پھیپھڑے پھٹ گئے، اس کے منہ سے خون جاری ہوگیا لیکن وہ اس کے باوجود بھاگتا رہا، وہ بالآخر بادشاہ تک پہنچ گیا لیکن گول پرپہنچنے کے بعد اس نے لمبی ہچکی لی، زمین پر گرا، تڑپا اور اپنی جان، جان آفرین کے حوالے کر دی، وہ زمین جیت گیا تھا لیکن زندگی ہار گیا۔

درویش اپنی جگہ سے اٹھا، زمین پر گرے شخص کے قریب آیا، ہاتھ سے اس کی کھلی آنکھیں بند کیں، بادشاہ کو قریب بلایا اور اس بدنصیب شخص کی لاش دکھا کر بولا " بادشاہ سلامت حرص کے بیوپاری کبھی خوش نہیں رہ سکتے، یہ شخص مجھ سے بہتر زندگی گزار رہا تھا، میرے پاس کپڑوں کا ایک جوڑا، لکڑی کے جوتے، دو کمبل اور ایک پیالے کے سوا کچھ نہیں، میں شہر سے کوسوں دور پہاڑ پر رہتا ہوں، پھل کھاتا ہوں اور ندیوں کا پانی پیتا ہوں لیکن خوش ہوں، کیوں؟ کیوں کہ میں لالچ نہیں کرتا جب کہ آپ میرے مقابلے میں اس شخص کے اثاثے دیکھیے، یہ شخص مجھ سے ہزار درجے بہتر ہوگا، اس کے پاس مکان بھی ہوگا، بیوی بچے بھی، کپڑے بھی، سواری بھی، دال اناج بھی اور زمین جائیداد بھی لیکن یہ اس کے باوجود زمین پر گر کر مر گیا، کیوں؟ کیوں کہ یہ اپنے اندر کے لالچی انسان کو قابو میں نہ رکھ سکا، یہ دیوانہ وار خواہشوں کے پیچھے بھاگتا رہا، یہ کبھی کسی کو درخواست دے دیتا اورکبھی آپ کو عرضی بھجوا دیتا، قسمت نے یاوری کی اس کی لاٹری نکل آئی، آپ نے اسے زمین گھیرنے کی اجازت دے دی، یہ بھاگا لیکن اس کا لالچ بھی اس کے ساتھ ہی دوڑ پڑا، یہ اگر سمجھ دار ہوتا، یہ اگر درمیان میں قناعت کر لیتا، یہ رک جاتا، یہ جو حاصل ہوگیا اس پر اکتفا کر لیتا، یہ شکر ادا کرتا اور زندگی کو انجوائے کرنا شروع کر دیتا تو یہ نعمت اس کے لیے کافی ہوتی۔

لیکن یہ لالچ کے گھوڑے سے نہ اترا، یہ بھاگتا رہا یہاں تک کہ لالچ نے اس کی جان لے لی" درویش نے لمبی سانس لی اور بولا " بادشاہ سلامت! حرص اور خوشی دونوں سوتنیں ہیں، یہ اکٹھی نہیں رہ سکتیں، آپ خوش رہنا چاہتے ہیں تو آپ کو لالچ کو طلاق دینا ہوگی، خوشی خود بخود آپ کے گھر میں بس جائے گی لیکن آپ اگر لالچ کے گھوڑے پر بیٹھ کر خوشی کی تلاش میں سرپٹ بھاگتے رہے تو آپ کا انجام بھی اس شخص جیسا ہوگا، آپ بھی عبرت کا رزق بن جائیں گے" بادشاہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، اس نے گلوگیر لہجے میں عرض کیا "جناب! بادشاہت حرص کی دلدل ہوتی ہے، آپ بادشاہ ہوتے ہوئے خود کو لالچ سے کیسے بچا سکتے ہیں" درویش نے قہقہہ لگایا اور فرمایا " اختیار میں اضافہ بادشاہوں کی حرص ہوتی ہے اور جو بادشاہ زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے اس میں اور زمین پر پڑے اس شخص میں کوئی فرق نہیں ہوتا، آپ اختیارات سمیٹنے کے بجائے اختیارات بانٹنا شروع کر دیں، آپ کو خوشی مل جائے گی"۔

لوگوں کو ان کی زندگی سے نفرت مت دلاؤ!جس کی چھوٹی سی رہائش ہے، وہ اپنی جگہ سے خوش اور مطمئن ہے، اسے ضرورت نہیں ہے کہ تم ج...
15/09/2024

لوگوں کو ان کی زندگی سے نفرت مت دلاؤ!

جس کی چھوٹی سی رہائش ہے، وہ اپنی جگہ سے خوش اور مطمئن ہے، اسے ضرورت نہیں ہے کہ تم جب اس کے گھر جاؤ تو اسے یہ کہو کہ "تم اس میں کیسے رہتی ہو؟" اور اس کی زندگی کو مشکل بنا دو!

جس کا شوہر مشکل مزاج کا ہے، اور وہ اسے جانتی ہے اور اپنے بچوں اور گھر کے لیے اس کے ساتھ نبھا رہی ہے، وہ تمہاری طرف سے یہ سننے کی منتظر نہیں ہے کہ "ارے یہ تو بہت برا حال ہے، میں تمہاری جگہ ہوتی تو اس کا گلا گھونٹ دیتی، یا چھوڑ دیتی" وغیرہ وغیرہ۔

جس کے بچے تعلیمی میدان میں کامیاب نہیں ہیں، وہ تم سے یہ سننا نہیں چاہتی کہ تم اپنے بچوں کی کامیابیوں کو دکھا کر اس کا مذاق اڑاؤ۔

جو عورت کسی جگہ کام کر رہی ہے کیونکہ اسے مالی مشکلات کا سامنا ہے، اور اس کے پاس دوسرا کوئی آپشن نہیں ہے، اسے تمہاری طرف سے یہ سننے کی ضرورت نہیں ہے کہ "یہ کیسی جگہ ہے جہاں تم کام کرتی ہو؟ میں تو کبھی بھی ایسے کام کو قبول نہیں کرتی۔"

کچھ لوگ ہم میں سے بے فکر ہوتے ہیں، وہ اپنی زندگی کو قبول کرتے ہیں، گزارا کرتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں سے خوش ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس کوئی اور متبادل نہیں ہوتا۔ وہ اپنی پریشانیوں کو اللہ کے سپرد کرتے ہیں اور آدھے بھرے گلاس کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔

لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو، ان کی تکلیفوں کو تازہ مت کرو۔ اور ان پر فیصلے مت سناؤ جب تمہاری حالت ان سے مختلف ہو۔ بولنے سے پہلے اپنے الفاظ کو چھان پھٹک لو۔

لوگوں کی زندگی کو آسان بناؤ تاکہ اللہ تمہاری زندگی کو بھی خوبصورت بنا دے۔


‏اگر آپ نے،کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ھے،لکڑی کےلٹو ڈور سے چلائے ہوںبنٹے کھیلے ہوئے ہیں،سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ...
15/09/2024

‏اگر آپ نے،
کپڑے کا بستہ استعمال کیا ہوا ھے،
لکڑی کےلٹو ڈور سے چلائے ہوں
بنٹے کھیلے ہوئے ہیں،
سائیکل کے ٹائر کو چھڑی کے ساتھ گلیوں میں گھمایا ہوا ھے،
شب برات پر مصالحہ لگی "چچڑ" سمینٹ والی دیوار سے رگڑی ہوئی ھے،
دو پیسے کا ٹکہ دیکھا ہو
استاد سے سلیٹ اور سلیٹی پر سوال حل کیے ہوں،
ریاضي کا مسئلہ اثباتی حل کیا ہوا ھے،
عاد اعظم نکا لے ہوئے ہیں،
پٹھو گرم کھیلے ہوئے ہیں،
سکول کی آدھی چھٹی کا لطف اٹھایا ہوا ھے،
تختی کو گاچی لگائی ہوئی ھے،
گھر سے مکئی کی چھلیاں دانے نکال بھنائے ہوں
سکول کی چھٹیوں میں بیل چراۓ ہوں
غلے میں پیسے جمع کیے ہوئے ہیں،
سہ پہر چار بجے اٹھ کر کتاب کہانیاں پڑھی ہوں
میلے میں کبڈی اور بیلوں کی دوڑ دیکھی ہو
گراموفون اور ریکارڈ استعمال کئیے ہوں
اپنے ریڈیو کو لکڑی کے باکس میں تالا لگا کر بند کیا ہوا ھے،
میلے میں تین دن تک سائیکل چلتی دیکھی ھے،
صرف عید میں میلے کی سرکس اور جھولے میں بیٹھے ہوں
بارات میں پیسے لوٹے ہوئے ہوں،
کسی دشمن کی دیوار پر کوئلے سے بھڑاس نکا لی ہو،
پانی کے ٹب میں موم بتی والی کشتی چلائی ہو،
سرکاری ہسپتال سے اپنی ذاتی بوتل میں کھانسی والی دوائی بھروائی ہو،
سردیوں میں رضائی میں گھس کر پریوں کی کہانیاں سنی ہوں،
سرکٹے انسان کی افواہیں سنی ہوں،
کھڑکھڑاتے ریڈیو پر سیلاب کی تازہ صورتحال ستی ہو،
رسی لپیٹ کر لاٹو چلایا ہو،
سمیع اللہ کو ہاکی کے میدان میں ریڈیو کے نشریاتی رابطے پر فتح سے ہمکنار ہوتے ہوۓ کمنٹری سنی ہو،
گھر کے مٹی کا لیپ والے چھت پر چارپائی ڈال کر سویا ہو ،،
گرمیوں میں چھت پر چھڑکاؤ کیا ہو،
جون جولائی کی تپتی دوپہر میں گلی ڈنڈا کھیلا ہو،
پھولوں کی کڑھائی والے تکیے پر سنہرے خواب دیکھے ہوں ،
گھر کے کسی کونے میں خوش آمدید لکھا ھے،
ریڈیو پر غلاف چڑھایا ھے،
لالٹین میں مٹی کا تیل بھروایا ھے،
لڈو کھیلتے ہوئے انتہائی خطرناک موقع پر تین دفعہ چھ آیا ھے،
ڈھیلی تیلیوں والی ماچس استعمال کی ھے،
تختی کے لیے بازار سے قلم خرید کر اسکی نوک بلیڈ سے کاٹ کر درمیاں میں ایک کٹ لگایا ھے،
خوشخطی کے لیے مارکر کی نب کاٹی ھے،
ہولڈر استعمال کیا ھے،
زیڈ اور جی کی نب خریدی ھے،
فلاوری انگلش لکھی ھے،
گھی کے خالی "پیپے" اور رسی سے کنویں سے بالٹیاں بھری ہوں
سر پر تیل جویں مارنے کے لئے کڑوا تیل لگایا ہو۔
سرما لگا کر ہیرو لگنے کی کوشش کی ھے،
غلیل استعمال کی ھو،
پرندوں کے گھونسلے کی تلاشی لی ہو
ٹچ بٹن والی شرٹ پہنی ھے،
اپنے گھر میں بیری والے درخت پر چڑھ کر بیر تڑےہوں
آگ جلا کر چھلیاں بھونی ہوں،
بالٹی میں آم ٹھنڈے کر کے کھائے ہیں،
رف کاپی استعمال کی ھے،
کھلی لائنوں والا دستہ خرید کر اس پر اخبار چڑھایا ھے،
گندھے ہوئے آٹے کی چڑی بنائی ھے،
الارم والی گھڑی کے خواب دیکھے ہیں،
بلی مارکہ اگر بتی خریدی ھے ،
مرونڈے کی لذت سے سرشار ہوئے ہیں،
سائیکل کی قینچی چلائي ھے،
والد صاحب کی ٹانگیں دبائی ہیں،
سردیوں میں ماں کے ہاتھ کا بنا سویٹر پہنا ھے،
امتحانوں کی راتوں میں " گیس پیپرز" کا استعمال کیا ہو
قائد اعظم کے چودہ نکات چھت پر ٹہل ٹہل کر یاد کیے ہیں ،
چلوسک ملوسک، عمرو عیار، چھن چھنگلو، کالا گلاب اور عنبر ناگ ماریا کی کہانیاں پڑھی ہیں،
فرہاد علی تیمور سے متاثر ہو کر موم بتی کو گھور گھور کر ٹیلی پیتھی حاصل کرنے کی کوشش کی ھے،
کاغذ کے اوپر کیل اور لوہ چون رکھ کر نیچے مقناطیس گھمانے کا مزا لیا ھے،
محلے کے لڑکوں کے ساتھ مل کر گڈے لوٹے ہوں
صبح سویرے لسی اور مکئی کی روٹی مکھن ڈال کر کھائی ہو۔
برفی کا سب سے بڑا ٹکڑا باوجود گھورتی نظروں کے اٹھانے کی جسارت کی ھے،
لاٹری میں کنگھی نکلی ھے،
رات کو آسمان کے تارے گنے ہیں،
سائیکل پر نئی گھنٹی لگوائی ھے،
زکام کی صورت میں آستینوں سے ناک پونچھی ھے،
ڈیموں(بھڑ) کو دھاگا باندھ کر اڑایا ہوا ھے،
شہد کی مکھیوں کے چھتے میں پتھر مارا ہوا ھے،
مالٹے کے چھلکے دبا کر اس سے دوستوں کی آنکھوں پر حملہ کیا ہوا ھے،
اور صبح سویرے لسی رڑکنے کی آواز سنی ھے تو ' اسکا ایک ہی مطلب ھے کہ اب آپ بوڑھے ہو رھے ہیں۔
کیونکہ یہ ساری چیزیں اسوقت کی ہیں جب زندگیوں میں عجیب طرح کا سکوں ہوا کرتا تھا لوگ ہنسنے اور رونے کی لذت سے آشنا تھے لڑائی کبھی جنگ کا روپ نہيں دھارتی تھی۔ رشتے اور تعلقات جھوٹی انا کے مقابل طاقتور تھے تب غریب کوئی بھی نہیں ہوتا تھا کیونکہ سب ہی غریب تھے۔ مجھے فخر ھے کہ میرا تعلق اس دور سے ھے جب نہ کسی کے پاس موبائل تھا نہ کوئی اپنی لوکیشن شیئر کر سکتا تھا لیکن سب رابطے میں ہوتے تھے سب کو پتا ہوتا تھا کہ اس وقت کون کہاں ھے کیونکہ سب کا نیٹ ورک ایک ہوتا تھا

سنڌڙي Sindhri

14/09/2024

حسن جوانی تے تو ایڈا غرور نا کر🥀

#شیئر سنڌڙي Sindhri

جب کوئی عورت کتاب پڑھتی ہے تو جان لو کہ اس کے خاوند اور اولاد نے بھی وہ کتاب پڑھ لی..
12/09/2024

جب کوئی عورت کتاب پڑھتی ہے تو جان لو کہ اس کے خاوند اور اولاد نے بھی وہ کتاب پڑھ لی..

یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس سے ہر کوئی محبت کرتا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ اس سے شادی کون کرے گا؟کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان...
12/09/2024

یہ ایک لڑکی کی کہانی ہے جس سے ہر کوئی محبت کرتا تھا، لیکن سوال یہ تھا کہ اس سے شادی کون کرے گا؟
کہا جاتا ہے کہ ایک نوجوان نے اپنے والد سے کہا: "میں ایک لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں، جسے میں نے دیکھا ہے اور جس کے حسن و خوبصورتی اور دلکش آنکھوں نے مجھے مسحور کر دیا ہے۔"
والد خوشی سے مسکراتے ہوئے جواب دیتے ہیں: "کہاں ہے وہ لڑکی، تاکہ میں تمہارے لیے اس کا رشتہ مانگوں؟"
جب وہ دونوں لڑکی کو دیکھنے جاتے ہیں تو والد بھی اس کے حسن سے متاثر ہو جاتا ہے اور اپنے بیٹے سے کہتا ہے: "سن بیٹا، یہ لڑکی تمہارے لائق نہیں ہے، تم اس کے قابل نہیں ہو۔ یہ تو ایک ایسے آدمی کے لیے ہے جو زندگی کا تجربہ رکھتا ہو اور جس پر بھروسہ کیا جا سکے، جیسے میں۔"
لڑکا اپنے والد کی بات سن کر حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے: "نہیں، میں اس سے شادی کروں گا، نہ کہ آپ۔"
پھر وہ دونوں جھگڑتے ہوئے پولیس اسٹیشن چلے جاتے ہیں تاکہ مسئلہ حل کیا جا سکے۔ جب انہوں نے پولیس افسر کو اپنی کہانی سنائی تو افسر نے کہا: "لڑکی کو بلاؤ، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ وہ کس کو چاہتی ہے، بیٹے کو یا والد کو؟"
جب افسر نے لڑکی کو دیکھا اور اس کے حسن سے متاثر ہوا، تو اس نے کہا: "یہ تم دونوں کے لیے مناسب نہیں، یہ تو میرے جیسے کسی اہم شخص کے لیے ہے۔"
اب تینوں میں جھگڑا ہوتا ہے اور وہ وزیر کے پاس چلے جاتے ہیں۔ وزیر لڑکی کو دیکھتے ہی کہتا ہے: "یہ لڑکی تو صرف وزیروں کے لائق ہے، جیسے میں ہوں۔"
اسی طرح ان میں جھگڑا ہوتا رہا اور معاملہ امیرِ شہر تک پہنچ گیا۔ جب امیر نے لڑکی کو دیکھا، تو اس نے کہا: "یہ مسئلہ میں حل کرتا ہوں، لڑکی کو لاؤ۔"
لڑکی کو دیکھ کر امیر بھی کہنے لگا: "یہ تو صرف کسی امیر ہی سے شادی کر سکتی ہے، جیسے میں ہوں۔"
پھر سب نے بحث کی، تو لڑکی نے کہا: "میرے پاس ایک حل ہے۔ میں دوڑوں گی اور تم سب میرے پیچھے دوڑو گے، جو بھی پہلے مجھے پکڑے گا، میں اسی کی بن جاؤں گی اور اس سے شادی کروں گی۔"
لڑکی دوڑی اور پانچوں یعنی نوجوان، والد، پولیس افسر، وزیر اور امیر سب اس کے پیچھے دوڑے۔ اچانک دوڑتے دوڑتے پانچوں ایک گہری کھائی میں جا گرے۔
لڑکی اوپر سے انہیں دیکھ کر کہتی ہے: "کیا تمہیں معلوم ہوا میں کون ہوں؟ میں دنیا ہوں!!!
میں وہ ہوں جس کے پیچھے ہر انسان دوڑتا ہے، اور اپنی آخرت اور دین کو بھول جاتا ہے۔ وہ سب میری تلاش میں لگے رہتے ہیں، یہاں تک کہ قبر میں جا گرتے ہیں، اور پھر بھی مجھے حاصل نہیں کر پاتے۔"
کہانی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ دنیا کی چمک دمک کے پیچھے بھاگنے سے بہتر ہے کہ ہم اپنے دین اور آخرت پر توجہ دیں، کیونکہ دنیا فانی ہے اور ہمیں کبھی بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتی

‏خوبصورت عورت محض اک جسم نہیں ہوتی وہ اک تاثر ہے (کرشن چندر)
11/09/2024

‏خوبصورت عورت محض اک جسم نہیں ہوتی وہ اک تاثر ہے (کرشن چندر)

‏انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مڈل کلاس طبقہ بنتا ہے۔ ان کی نظریں آسمان پر اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں۔〰️ کارل مارکس
09/09/2024

‏انقلاب کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مڈل کلاس طبقہ بنتا ہے۔ ان کی نظریں آسمان پر اور پیر کیچڑ میں ہوتے ہیں۔

〰️ کارل مارکس

The shadows of family problems can darken your happiness😭💔😭💔
01/09/2024

The shadows of family problems can darken your happiness😭💔😭💔

عورت کیلئے شادی کیوں ضروری ہے ؟۔ایک عورت ماہر نفسیات کے پاس گئی اور کہا میں شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں پڑھی لکھی ہو...
01/09/2024

عورت کیلئے شادی کیوں ضروری ہے ؟

۔
ایک عورت ماہر نفسیات کے پاس گئی اور کہا میں شادی نہیں کرنا چاہتی کیونکہ میں پڑھی لکھی ہوں، خود کماتی ہوں اور خود مختار ہوں اس لئے مجھے خاوند کی ضرورت نہیں ہے مگر میں بہت پریشان ہوں کیونکہ میرے والدین شادی کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں۔
میں کیا کروں ؟
ماہر نفسیات نے کہا بےشک تم نے بہت کامیابیاں حاصل کرلی ہیں لیکن بعض دفعہ تم کوئی کام کرنا چاہو مگر نا کر سکو، کبھی تم سے کچھ غلط ہوگا، کبھی تم ناکام ہوجاؤ گی، کبھی تمھارے پلان ادھورے رہ جائیں گے، کبھی تمھاری خواہشیں پوری نہیں ہوں گی۔۔ تب تم کس کو قصوروار ٹھہراؤ گی ؟ کیا اپنے آپ کو قصور دو گی ؟
لڑکی۔ نہیں بالکل نہیں، اپنے آپ کو کیوں دوں گی ؟

ماہر نفسیات۔ بالکل یہی وجہ ہے کہ تمھیں ایک خاوند کی ضرورت ہوگی جسے اپنی غلطیوں کا زمہ دار ٹھہرا سکو۔😌

فلم کا نام: کام چالو ہے سنہ: 2024 لیڈ ایکٹر: راجپال یادیو https://youtube.com/channel/UC1vQ8pvHnrJDGBaUhhYn8aQ?si=sD0Dc4...
29/08/2024

فلم کا نام: کام چالو ہے
سنہ: 2024
لیڈ ایکٹر: راجپال یادیو
https://youtube.com/channel/UC1vQ8pvHnrJDGBaUhhYn8aQ?si=sD0Dc4J3z-rKmPfX
یہ فلم مہاراشٹر کے رہنے والے منوج پانڈے کی حقیقی زندگی پر بنائی گئی ہے جس میں راجپال یادیو نے کمال کی اداکاری کی ہے۔ فلم ایک باپ کے اپنی بیٹی سے بےلوث محبت پر مشتمل ہے۔
اس فلم میں سیکھنے کو بہت کچھ ہے اور یہ ایک نہایت ہی زبردست پیغام دیتی ہے۔۔
فلم تین کرداروں کے گرد گھومتی ہے، ایک دوسرے سے پیار کرنے والے میاں بیوی اور دونوں کی ایک بہت ہی لاڈلی بیٹی۔ فلم میں دکھایا جاتا ہے کہ اپنے اولاد کی اچھی تربیت کیسے کی جاتی ہے (امارات میں ہوتے ہوئے انڈیا کے لوگوں کی اپنے اولاد کی اچھی تربیت کا میں بذات خود عینی شاہد ہوں) ۔ ماں اپنی بیٹی کی پڑھائی پر دھیان دیتی ہے اور باپ اس کے کرکٹ کھیلنے کی شوق میں بھر پور ساتھ دیتا ہے۔ بیٹی پڑھائی اور کرکٹ دونوں میں اوّل نمبر پر ہوتی ہے۔ ہنسی خوشی زندگی گزر رہی ہوتی ہے۔۔
کرکٹ کلب کی طرف سے انڈر 15 میں بیٹی کی سلیکشن ہوجاتی ہے، باپ سکوٹر پر خوشی خوشی اسے نزدیک کے ریلوے اسٹیشن پر لےجانے نکل پڑتا ہے، راستے میں روڈ پر بنے پانی سے بھرے ہوئے ایک کّھڈے میں اس کی بائک گر جاتی ہے, بیٹی کا سر ایک پتھر سے لگ کر لہولہان ہو جاتا ہے جس سے اسکی موت واقع ہوجاتی ہے ۔۔
باپ یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتا اور پاگلوں کی طرح کبھی اسکول میں اور کبھی کرکٹ کلب میں ڈھونڈنے نکل پڑتا ہے۔۔ ایک دن اُسی کّھڈے سے اس کا گزر ہو پاتا ہے، اور اسے وہی ایکسڈنٹ یاد جاتا ہے اور زاروں قطار رونے لگتا ہے۔۔گھر آ کر بیٹی کا راکھ اٹھاتا ہے اور سیدھا پولیس اسٹیشن رپورٹ لکھنے چلا جاتا ہے, پولیس اسے سمجھاتا ہے کہ ہم ایسے کّھڈے کے خلاف رپورٹ درج نہیں کر سکتے آپ جس کی وجہ سے یہ کّھڈه بنا ہے اسے تلاش کریں، وہاں سے نکل کر سرکاری دفتر میں چلا جاتا ہے پتہ کرنے۔ پورے 4 مہینوں کے بعد سرکاری افسر سے مل پاتا ہے، وہاں اسے بتایا جاتا ہے کہ جس ٹھیکیدار نے یہ روڈ بنانے کا ٹھیکہ لیا تھا یہ سراسر اس کی غلطی ہے، اس کا نام پتہ لے کر اُس کے بنگلے میں جاتا ہے ۔ ٹھیکیدار اسے کہتا ہے کہ اگر میں تم جیسے سڑک چاپ لوگوں کی فکر کروں تو کیسے اتنے بنگلوں کی مالک بن پاؤنگا۔۔بات ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی ہے، گارڈ اسے اٹھا کر بنگلے کے باہر پھینک دیتا ہے ۔۔ رات ہو جاتی ہے بیوی اسے سمجھاتی ہے کہ آپ سسٹم سے نہیں لڑ سکتے، وہ طیش میں آ کے چُری اٹھاتا ہے اور سیدھا ٹھیکیدار کے بنگلے میں چُپکے سے گھس جاتا ہے جیسے ہی سوتے ہوئے ٹھیکیدار کے سینے میں چری مارنے آگے بڑھتا ہے، ٹھیکیدار کی ننھی سی بیٹی پاپا پاپا کہتے ہوئے راجپال یادیو سے لپٹ جاتی ہے، اسے اس میں اپنی بیٹی دکھائی دینے لگتی ہے وہ چری پھینک کر گھر واپس آجاتا ہے اور صبح سویرے سب سے پہلے وہی کّھڈا اپنی مدد آپ بھرنے لگ جاتا ہے اور پھر ایک ایک کر کے کّھڈے بھرتا رہتا ہے تاکہ کسی اور کی لاڈلی ایسے کسی حادثے کا شکار نہ ہو جائے ۔۔
آخر میں منوج پانڈے اور راجپال یادیو دونوں کو ساتھ دکھایا جاتا ہے، جس میں منوج پانڈے اپنی زبان میں کُچھ کہتا ہے جس کا راجپال یادیو ترجمہ کر دیتا ہے کہ
" اس کے بعد میں نے رونا چھوڑ دیا اور زندگی بھر میں نے کّھڈے بھرے تاکہ جو میرے ساتھ ہوا وہ کسی اور کی بیٹی کے ساتھ نہ ہو، اور جب تک میں جیوت(زندہ) ہوں لگاتار یہ بیماری دور کرتا رہونگا"۔

In the late 19th century, Ahmed Abdul Majid, the 31st Sultan of the Ottoman Empire, made a decision that changed Masjid ...
28/08/2024

In the late 19th century, Ahmed Abdul Majid, the 31st Sultan of the Ottoman Empire, made a decision that changed Masjid an-Nabawi, the Prophet’s Mosque, in Medina.

The Sultan of Ottoman introduced electricity to the mosque, bringing light to the Prophet’s mosque that had been illuminated solely by oil lamps and natural sunlight for centuries.

During the reign of Sultan Abdul Majid the world was rapidly advancing into the modern age. Born in Istanbul in 1839, he ascended to the throne in 1876, during a period of great challenge for the Ottoman Empire.

He grew up in the Topkapi Palace. His education was steeped in both Islamic teachings and the modern sciences.

Before the installation of electric lights, the Prophet’s mosque in Medina relied on the dim glow of oil lamps.

The introduction of electricity in the late 19th century was a great improvement, providing brighter, more reliable lighting that enhanced the mosque’s atmosphere, especially during evening prayers.

This modernization allowed for more flexibility in worship times and created a more inviting environment for the thousands of pilgrims who visit the mosque each year.

Among the first bulbs installed by Sultan Abdul Majid in Masjid an-Nabawi is one that has become a symbol of his legacy—a light bulb that has been shining for over 120 years.

This bulb, located within the mosque, still functions today, a remarkable feat that speaks to the quality and care taken during its installation.

Sultan Abdul Majid passed away in 1909, but his legacy lives on, particularly in the glowing light of that 120-year-old bulb in Masjid an-Nabawi.

💕کبھی بهولے سے بهی عورت کے اوپر ہاتھ نہ اٹهانا کیوں کہ عورت کی یہ فطرت ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اندر سے مرد کی عزت کرنا چهو...
27/08/2024

💕کبھی بهولے سے بهی عورت کے اوپر ہاتھ نہ اٹهانا کیوں کہ عورت کی یہ فطرت ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اندر سے مرد کی عزت کرنا چهوڑ دیتی ہے👇
ایک نیک سیرت عورت نے جب اپنے بیٹے کا نکاح کیا تو اسکو اکیلے میں کچھ ___ نصیحتیں کیں
💕جو کہ سونے کے قلم سے لکھنے کے قابل ہیں وہ نصیحتیں کیا تهیں؟ آپ بھی غور سے پڑھیئے!
💕اے میرے پیارے بیٹے! یاد رکھ کوئی ہمارے کهانے کا محتاج نہیں ہوتا فقیر بھی 2 وقت کی روٹی با آسانی کها لیتا ہے.
💕کوئی ہمارے پیسے کا بهوکا نہیں ہوتا کہ یہ سوچا جائے کہ ہم ہی سے سامنے والے کا گزارا ہے۔
💕بیوی رکهیل یا ملازمہ نہیں ہوتی کہ جو چاہے اسکے ساتھ سلوک کرلو وہ گوارا کرلے گی اللہ پاک نے یہ قانون رکها ہے کہ اگر مرد عورت کی توہین پے توہین کرے تو عورت اس مرد کو چهوڑ دے تو اسکو کوئی گناہ نہیں۔
💕اگر کوئی تمہیں تمہاری بیوی کے عیب بتائے تو کچھ کرنے سے پہلے بیوی سے اس شخص کے بارے میں سارا کچا چهٹا کهول دو کسی کو اپنی بیوی سے کهیلنے نہ دو اور نہ خود کهیلو۔
💕وہ کوئی کهلونا نہیں اللّٰہ نے اس کو حلال کرکے تمہارے حوالے کرا ہے وہ جب چاہے اسکو تمہارے اوپر حرام کرکے کسی دوسرے کے لئے حلال کر سکتا ہے۔
💕تمہارے خراب روییے کو عورت بس اس وقت تک برداشت کرتی ہے جب تک وہ تمہیں چاہتی ہے محبت ختم ہونے کے بعد وہ فوراً راستہ بدل لیتی ہے یہ عورت کی فطرت ہے۔
💕کبھی بهولے سے بهی عورت کے اوپر ہاتھ نہ اٹهانا کیوں کہ عورت کی یہ فطرت ہے کہ ایسا کرنے سے وہ اندر سے مرد کی عزت کرنا چهوڑ دیتی ہے۔
💕کبهی بیوی کو احساس کمتری کا شکار کرنے کے لئے اپنے بچوں کو اسکے آگے نا کرنا ورنہ یہ بچے آگے جا کر تجهے ذلیل کریں گے اور تو بس دیکهتا رہ جائے گا کیونکہ ایک ماں ہی بچے کو سکهاتی ہے کہ کس کے ساتھ کیسے بات کرنی ہے، اگر تو اپنی بیوی کے ساتھ اچها رویہ رکهے گا تو وہ اسکو تیرے لئے ایسا ہی بنا دے گی ورنہ الٹ کے لئے تیار ہوجا ۔
💕میرے پیارے بیٹے بعض دفع مرد اس کے ساتھ انتہائی سفاکی کا سلوک کر رہا ہوتا ہے اور یہ سوچ رہا ہوتا ہے کہ اب اسکا میرے سوا کوئی نہیں میں کچھ بهی کرلوں یہ کہیں نہیں جاسکتی...
💕 اسکی یہ سوچ بلکل غلط ہوتی ہے عورت اپنے شوہر سے محبت کرنے والی ہوتی ہے وہ اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوتی ہے اپنی محبت چهٹائے نہیں چهٹتی لیکن جس وقت چهٹ جاتی ہے تو مرد اگر اسکے آگے ہاتہ باندھ کر بھی کھڑا ہوجائے تو وہ نہیں ٹکتی اسے چھوڑ دیتی ہے یہ ایسا فیصلہ ہوتا ہے جو وہ پہلی مرتبہ دماغ سے کرتی ہے۔
💕جب مرد عورت سے نفرت کرنے لگتا ہے تو وہ پہلے دن ہی سے بهانپ لیتی ہے پھر وہی بات کہ دل کے آگے مجبور ہوتی ہے لیکن روز قطرہ قطرہ کرکے اسکی محبت دل سے نکالنے لگتی ہے پهر مرد نے بھی اس شدت سے عورت کو اپنے دل سے نا نکالا ہوگا کہ جس شدت سے وہ مرد کو اپنے زندگی سے نکال دیتی ہے...
💞پوسٹ اچھی لگے تودوسروں کی بھلائ کے لئے شیئر ضرور کریں💞

*کبھی آپ نے سوچا ہے کہ* _____یہ _ایڈمنز_ بغیر کسی اجرت کے        بغیر کسی مطلب کےاپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے ۔۔۔۔۔۔طرح طر...
26/08/2024

*کبھی آپ نے سوچا ہے کہ* _____

یہ _ایڈمنز_
بغیر کسی اجرت کے
بغیر کسی مطلب کے
اپنے قیمتی وقت کو صرف کرکے ۔۔۔۔۔۔
طرح طرح کی مصروفیات کے باوجود
صرف آپ کیلئيے ۔۔۔۔۔۔
حسین لفظوں کے گلدستے
بنا کر
کیوں پیش کرتے ہیں ۔۔۔؟؟

کیوں جڑے رہتے ہیں آپ لوگوں سے ۔۔۔۔۔۔؟!

تاکہ آپ اکیلے میں تھوڑا مسکرا سکیں کچھ اچھے لفظوں سے اپنے اندر کی فیلنگز کو جانچ سکیں کسی کو یاد کر سکیں کسی کو دعا دے سکیں اور اپنا کچھ وقت اچھا گزار سکیں۔۔۔۔۔۔۔۔

اس دنیا میں کوی کسی کو کچھ نہیں دے سکتا سواۓ پیار عزت واحترام اور دعا کہ
کوٸ کسی کے لیے اہم نہیں ہوتا سب اپنے اپنے مفاد کی خاطر اچھے ہونے کا احساس دلا کر اپنا کچھ وقت سنوارتے ہیں ہمیں بھی آپ سے کوئی غرض نہیں بس انسانیت کے ناطے سے تھوڑا بہت آپ تک پہنچاتےتاکہ کوئی بہت کچھ نہیں تو تھوڑا سا تو سیکھ لیں۔۔۔

اسکے عوض آپ اپنے ایڈمنز کو بس عزت دے دیا کریں _______!

دعائيں دے دیا کریں ____🤲🏻

اور گروپ میں اپنی موجودگی کا احساس دلا دیا کریں۔

یہی آپکی اعلٰی ظرفی کا ثبوت ہوگا ۔۔۔۔۔💕
*

                دوسری اور آخری قسطدوستو انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی۔ منظر پہلے سے زیادہ ص...
26/08/2024


دوسری اور آخری قسط

دوستو انیسویں صدی کے آغاز میں کیمرہ ٹیکنالوجی میں مزید بہتری آئی۔ منظر پہلے سے زیادہ صاف اور معیاری ریکارڈ ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ہی فرانس اور دیگر یورپی ممالک نے سرکاری سطح پر پورن تھیٹر کھول دیئے۔ جہاں پورن اداکاروں کی پیداوار کا سلسلہ شروع ہوا .....!

1920 تک یورپی تہذیب پورن گرافی کے اس زہر میں ڈوب چکی تھی ۔ عوام سر عام سڑکوں کو بیڈ روم بنائے اپنا شوق پورا کرنے لگی۔ ساحل سمندر عیاشی کے اڈے بن گئے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کی ذمہ داریوں سے بھاگنے لگے .....!

1970 میں پورن گرافی کا زہر برصغیر میں داخل کرنے کی کوشش کی گئی ۔ پہلے پہل یہ صرف تصاویر پر مشتمل تھا۔ اسے ویڈیو دکھانے کیلئے یورپی کمپنیز نے پاکستان و بھارت میں پورن سینما کی اجازت چاہی۔ اس کے جواب میں صرف انکار ہی نہیں کیا گیا بلکہ پورن گرافی کو باقاعدہ ایک جرم قرار دیا گیا .....!

دوسری طرف یورپی ممالک میں سیکس ویڈیوز کی ڈیمانڈ کم ہونا شروع ہوئی، کیونکہ ایک ہی سین ہر فلم میں دیکھ کر عوام بور ہونے لگی ۔ دوسرا بذات خود انکا معاشرہ اتنا آزاد ہوچکا تھا کہ ویڈیو دیکھنے کی ضرورت روز بروز کم ہونے لگی۔اسی صورتحال سے پریشان ہوکر پورن انڈسٹری نے پورن گرافی کی نئے انداز پر کام کرنے کے بارے میں سوچا ۔ یوں پورن کیٹیگری پراجیکٹ کا آغاز ہوا ۔ اس پورن کیٹیگری پراجیکٹ میں سیکس کو کئی اقسام میں تقسیم کر دیا گیا ۔ ہر قسم کا اپنا ایک منفرد انداز ہوتا تھا .....!

اگر آج ہم کسی پورن ویب سائٹ کو اوپن کریں تو ہمارے سامنے ایک لسٹ اوپن ہو جاتی ہے ۔ جس میں سیکس کی مختلف کیٹگریز نظر آتی ہیں۔ جب کیٹیگری پراجیکٹ یورپی عوام کے سامنے لایا گیا تو دیکھنے والوں کا ازدھام مچ گیا ۔ کیونکہ اس دفعہ فحاشی کے مناظر روایتی طریقوں سے ہٹ کر ریکارڈ کیے گئے تھے، یہ پراجیکٹ پورن انڈسٹری کیلئے آب حیات کی صورت اختیار کر گیا ۔ کیونکہ اسی کی بدولت ہر شخص کی جنسی نفسیات ابھر کر سامنے آئیں ۔ مثلا ایک شخص دھواں دار جنسی مناظر کے بجائے ریلیکس پورن دیکھنا پسند کرتا ہے، تو اس کیلئے الگ کیٹیگری موجود ہوگی ۔اور یقینا ًپانچ سال بعد بھی وہ ریلیکس پورن دیکھنا ہی پسند کرے گا ۔ یوں ہر شخص کی جنسی خواہش کے مطابق اسے پورن گرافی کا نشہ ملنے لگا .....!

1980 میں وی سی آر ٹیکنالوجی برصغیر میں عام ہوئی ۔ اگرچہ ستر کی دہائی میں کمپیوٹر بھی پاکستان میں اکا دکا جلوہ گر ہوچکے تھے ۔ لیکن عام لوگ اس سے نا آشنا تھے۔ لہذا لوگ پردہ سکرین سے ہٹ کر وی سی آر کی طرف متوجہ ہوئے ۔ اسی دوران پاکستان فلم انڈسٹری بھی پوری شان سے ابھر کر سامنے آئی۔ یورپی کمپنیز نے جب ایشیائی لوگوں کا وی سی آر کی طرف رجحان دیکھا تو ان کی آنکھوں میں لالچ کی چمک پیدا ہوئی۔ یوں فحش فلمیں پاکستان، بھارت اور دیگر ایشیائی ممالک میں بلیک ہوکر بکنے لگیں .....!

1998 میں یورپی پورن انڈسٹری نامعلوم ہاتھوں میں چلی گئی ۔پہلے یہ صرف جنسی کاروبار کے طور پر استعمال ہوتی تھی ۔ لیکن پھر اسے پوری دنیا کو جنسی دہشت گردی کیلئے چنا گیا ۔ پورن انڈسٹری میں ایک ایسا جنسی طریقہ متعارف کروایا گیا ۔ جو براہ راست آتشک ، گھنوریا اور دیگر تباہ کن بیماریوں کا موجب ہے ۔ اس طریقہ کار کو اورل سیکس کہتے ہیں ۔ آپ نے ایک چیز اکثر نوٹ کی ہوگی ۔ پورن فلم کی چاہے کوئی بھی کیٹیگری ویڈیو دیکھ لیں ۔ فلم کے سٹارٹ میں اورل سیکس کا مظاہرہ ضرور کیا جاتا ہے ۔ ایسے لگتا ہے جیسے یہ بھی ایک باقاعدہ جنسی عمل کا حصہ ہے .....!

سائنسی میڈیکل رپورٹ کے مطابق ہمارے جسم میں ایک مادہ منی کے ساتھ خارج ہوتا ہے ۔ جو ڈی این اے میں اکثر خرابی کا باعث بنتا ہے۔ اگر وہ منہ کے ذریعے معدے میں چلا جائے یا دانتوں میں اسکی کوئی باقیات رہ جائیں۔ تو وہ منہ کے خلیات میں p16 پروٹین نامی مادہ پیدا کر دیتا ہے۔ جو منہ کے کینسر اور بلڈ پرابلمز کو جنم دیتا ہے اور یہ وہ بیماریاں ہیں جن کا علاج یہودی لیبارٹریوں کے علاوہ کہیں نہیں ملتا۔ ان بیماریوں کی تمام دوائیاں اسرائیلی کمپنیز سے نہایت مہنگے داموں فروخت کرتی ہیں ۔ ان بیماریوں سے متاثرہ مریضوں کے چہرے بدل جاتے ہیں اور موت سسک سسک کر آتی ہے ۔ لہذا اورل سیکس کے شوقین شوق پورا کرنے سے پہلے چشم تصور میں اپنا انجام بھی سوچ لیں .....!

اورل سیکس دراصل خفیہ یہودی ایجنسیز کا ذریعہ آمدنی ہے ۔ اسی کے ذریعے لوگ ان کا شکار بنتے ہیں اور انھیں لاکھوں ڈالر لٹاتے ہیں۔ اورل سیکس کے ساتھ سکیٹ ایٹنگ اور پس ڈرنکنگ سیکس کی ویڈیوز بھی منظر عام پر آرہی ہیں ۔ جو کہ یہودی ایجنسیز کی سازش کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ان پورن ویڈیوز میں کام کرنے والے اداکاروں کو شوٹنگ کے فوری بعد، ان کے منہ میں مخصوص سپرے کیے جاتے ہیں جو منہ میں گری غلاظت کے تمام جراثیم ختم کر دیتے ہیں ۔ ہمارے عام علماء کا خیال ہے کہ پورن ویڈیوز صرف مسلمانوں کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوتی ہیں۔حقیقتا ایسا نہیں ہے۔ یہودی ایجنسیز کا ٹارگٹ پوری دنیا کے مذاہب ہیں۔ کیونکہ تمام مذاہب ان کے انتہا پسند نظریات کو ہر صورت رد کرتے ہیں .....!

یہودی نہایت مہارت سے شاطرانہ چال چلتے ہوئے ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں۔جنھیں ون ورلڈ آرڈر کہتے ہیں ۔ یعنی ایک ایسی دنیا جہاں کسی خدا کا تصور نہ ہو، جہاں کوئی تہذیب نہ ہو، جہاں کوئی قانون نہ ہو۔ بس ایک ہی اصول ہو اور وہ ہے یہودی غلامی، اس مشن کی تفصیلات بہت چشم کشا اور دل آویز ہیں .....!

بس اتنا کہوں گا کہ پوری دنیا پر یہودی راج کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ آزمایا جا رہا ہے جو آج کی تاریخ میں ممکن ہے ۔ لوگوں کو ہر طرف سے جنسی، نفسیاتی، سیاسی، سماجی اور مذہبی غرض ہر طرف سے پھنسایا جا رہا ہے۔ اور ہم لوگ بے خبر پھنس رہے ہیں ۔یہودی ایجنسیز کے خفیہ ہتھکنڈوں پر حقیقت کا چاقو چلانے کیلئے یوٹیوب پر الماس یعقوب نام سے ایک چینل موجود ہے۔ اسکا مطالعہ ضرور کیجئے اور اسے سبسکرائب کیجئے ۔ اس کے ساتھ اس بھائی کا شکریہ بھی ادا کیجئے ۔ جو نہایت محنت سے یہودی ہتھکنڈوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں .....!

دوستو .....!
بیسویں صدی کا سورج طلوع ہوا ۔ ایشیا میں ابھی دھندلے معیار کی ویڈیو ٹیکنالوجی کا دور ختم نہیں ہوا تھا ۔ جبکہ یورپی ممالک میں HD ٹیکنالوجی منظر عام پر آچکی تھی ۔ ہالی وڈ فلم انڈسٹری بے مثال فلمیں پروڈیوس کر رہی تھی ۔ اس کے علاوہ یورپی ممالک انٹرنیٹ کی ٹیکنالوجی سے بھی بھر پور فائدہ اٹھا رہے تھے ۔ جبکہ پاکستان میں پہلی بار انٹرنیٹ سروس 1992 میں آئی ۔ اسے ایک یورپی کمپنی برین نیٹ نے پاکستان میں پرائیویٹ طور پر لانچ کیا تھا ۔ اس کے پہلے انجینئر منیر احمد خان تھے ۔ جنھوں نے پاکستان میں انٹرنیٹ سرور کو کنٹرول کیا ۔ اسکی ابتدائی سپیڈ 128k تھی .....!

1995 میں پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن لمیٹڈ یعنی پی ٹی سی ایل نے انٹرنیٹ آل پاکستان کیلئے خرید لیا، سن 2000 میں انٹرنیٹ پاکستانی عوام میں مقبول ہونا شروع ہوا ۔ اس کے ساتھ ہی پورن گرافی کا زہر بھی سرحدیں پھلانگتا ہوا داخل ہوا ۔یورپی ممالک میں پہلے پہل پورن گرافی سینما میں دکھا کر یا جنسی تصویروں کے ذریعے پیسہ کمایا جاتا تھا ۔ لیکن انٹر نیٹ نے یہ جھنجھٹ ختم کردیا ۔ انٹر نیٹ نے باقاعدہ خود آن لائن مارکیٹنگ پروسیس کھول کر پورن گرافی کو بطور پراڈکٹ پیش کیا ۔ جسے عوامی طور پر اتنی پزیرائی ملی کہ سب ریکارڈ ٹوٹ گئے ۔ یورپی پورن انڈسٹریز کو سب سے زیادہ آن لائن ٹریفک ایشیا سے ملی .....!

2015 کی گوگل رپورٹ کے مطابق روزانہ نوے لاکھ پاکستانی پورن ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں ۔ جبکہ بھارت سے روزانہ چھ کروڑ لوگ فحش ویب سائٹس کا وزٹ کرتے ہیں، جس سے پورن انڈسٹری روزانہ کروڑوں ڈالر کا منافع کماتی ہے۔ یہ وہ تعداد ہے جو ویب سائٹس بلاک ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح مطلوبہ سائٹس تک پہنچ ہی جاتی ہے ۔ جبکہ گوگل پر پورن تصاویر دیکھنے والوں کی تعداد پاک و بھارت میں کروڑوں میں ہے .....!

دوستو .....!
کہتے ہیں ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے ۔ لہذا دو صدیوں سے پورن گرافی دیکھنے والی عوام اکتا گئی ۔ کیونکہ پورن فلم میں کام کرنے والے اداکار اور اداکارائیں نہایت خوبصورت ہوتی ہیں ۔ اور ان کی جنسی پاور بھی زبردست ہوتی ہے۔ لیکن جب لوگ اس فعل کو حقیقت بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ تو زیادہ تر انھیں اپنے پرانے ساتھی پر گزارا کرنا پڑتا ہے ۔ جو کہ عرصہ پہلے اپنی جنسی کشش کھو چکا ہوتا ہے۔ نفسیات کے اس دھارے نے پورن انڈسٹری مالکان کو ایک بار پھر سوچ کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ۔ یوں 2014 میں ایک منفرد ٹیکنالوجی وجود میں آئی۔ اس ٹیکنالوجی کو سلیکون سیکس گرل کہتے ہیں ۔ اس ٹیکنالوجی میں سلیکون دھات سے ایک نہایت خوبصورت لڑکی کا وجود تراشا جاتا ہے۔ پھر اسے اس قدر حقیقی بنایا جاتا ہے کہ اصل وجود اور اس مجسمے میں کوئی فرق نظر نہیں آتا ۔ایسے لگتا ہے جیسے یہ ابھی بول پڑے گی ۔ اس کا جسم اتنا نرم و نازک بنایا جاتا ہے کہ زندہ وجود کی نزاکت کو رد کرتا ہے ۔ ان کی خوبصورتی، جسم کی نرمی اور بناوٹ کا انداز ایسا ہے کہ بس جان ڈالنے کمی رہ گئی ہے ۔ انھیں دیکھ کر آنکھیں بار، بار دھوکہ کھاتی ہیں ۔ ان سلیکون گرلز کو جنسی خواہش کیلئے استعمال کیا جاتا ہے ۔ ان کے مخصوص اعضا میں ایسے مصالحے استعمال کیے گئے ہیں کہ فحاشی کا سکون تین گنا بڑھ جاتا ہے ۔اسی طرح خواتین کیلئے سلیکون بوائز کے نہایت خوبصورت مجسمے بنائے گئے ۔ ان مجسموں کی ایک اہم خاصیت یہ بھی ہے کہ آپ انکی جسمانی لچک کو کسی بھی زاویے کیلئے استعمال کر سکتے ہیں .....!
لیکن یاد رکھیے ....! ان سلیکون جنسی مجسموں میں کچھ ایسے راز بھی چپکے ہیں جو آپکو دائمی جنسی مریض بنا سکتے ہیں ۔ کیونکہ تمام سیکس میڈیسن بھی انھیں مجسموں کے خالق بنا رہے ہیں ۔ ایک طرح سے یہ لوگ بیماری لگانے کے بھی پیسے لیتے ہیں۔علاج کے نام پر مستقل گاہک بنا کر بھی لوٹتے ہیں .....!

2015 میں سلیکون مجسموں کو یورپی مارکیٹ میں لانچ کیا گیا ۔ جیسے ہی یہ مجسمے مارکیٹ میں آئے تو خریداروں کے ہجوم لگ گئے ۔ انہیں مجسموں کی بدولت مرد و عورت کا آپسی جنسی تعلق بھی کمزور ہوگیا ۔ جس سے شرح پیدائش میں واضح کمی واقع ہوئی ۔ اسی کے ساتھ ورچول رئیلٹی ڈیوائس نے رہی سہی کسر پوری کردی .....!

یورپی ممالک میں شرح پیدائش تو اٹھارویں صدی سے ہی کمزور پڑ گئی تھی ۔ لیکن 2010 کے بعد یہ کمی شدید تر ہوگئی ۔ البتہ مسلم کمیونٹی برابر شرح پیدائش پر برقرار رہی ۔ اسی صورتحال سے گھبرا کر بعض ممالک میں چلڈرن ہاؤس قائم کردئیے گئے ہیں ۔ جہاں عورت و مرد کو بھاری رقم دے کر بچہ پیدا کیا جاتا ہے ۔ بچے کی تمام افزائش چلڈرن ہاؤس کے ذمہ ہوتی ہے ۔ ہالینڈ میں بچہ پیدا کرنے والی عورت کو دس ہزار ڈالر دیئے جاتے ہیں ۔ جبکہ عورتوں نے انکار کیا تو رقم انکی مرضی پر متعین کی گئی ۔ہمارے علماء حضرات چاہے جو بھی خیال رکھتے ہوں، لیکن یہ سچ ہے پورن گرافی کا زیادہ نقصان خود انہیں کا ہوا جن کی ایجاد تھی .....!

آج اگرچہ مسلمان بھی اسکا شکار ہیں ۔ لیکن پھر بھی ہم اپنے مذہب ،ثقافت اور نسل کو لیے برابر چل رہے ہیں ۔ جبکہ مغربی معاشرہ اس قدر ٹوٹ چکا ہے کہ آرٹیفشل بچے پیدا کرنے پر غور کیا جا رہا ہے .....!

2013 میں امریکی پارلیمنٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا تھا کہ 2050 تک اسلام کی افرادی پاور پورے یورپ پر حاوی ہو جائے گی ۔ لہذا اسلام کو ہر طرف سے گھیر کر محدود کیا جائے ۔ لوگوں کے دلوں میں اسلام کیلئے نفرت پیدا کر کے انہیں اپنے آزاد معاشرے کا حصہ بنایا جائے .....!

یہی وجہ ہے آج پوری دنیا میں اسلامی شدت پسندی دکھائی جا رہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر ملحد اسلام کو نوچ رہے ہیں ۔ سیاست میں بڑے بڑے لبرل داخل کیے جا رہے ہیں ۔ مقبوضہ علاقوں مسلمانوں کا قتل عام کروایا جارہا ہے ۔ کیونکہ دشمن جان چکا ہے کہ اسکا ہتھیار خود اسکی قوم کو ختم کرچکا ہے لیکن جاتے جاتے مسلمان پر آخری وار ضرور کرتے جاؤ ......!

میرے معزز دوستوں آپ لوگوں کا اپنا قیمتی وقت دے کر اس تحریر کو مطالعہ کرنے کا بےحد شکریہ، بس ایک آخری مہربانی یہ کرتے جائیے کہ جاتے، اگر کبھی کوئی ویڈیو، قول، واقعہ، کہانی یا تحریر وغیرہ اچھی لگا کرے تو مطالعہ کے بعد مزید تھوڑی سے زحمت فرما کر اپنے دوستوں سے بھی شئیر کر لیا کیجئے، یقین کیجئے کہ اس میں آپ کا بمشکل ایک لمحہ صرف ہوگا لیکن ہو سکتا ہے اس ایک لمحہ کی اٹھائی ہوئی تکلیف سے آپ کی شیئر کردا تحریر ہزاروں لوگوں کے لیے سبق آموز ثابت ہو سکتی ہے، اور اسے شیئر کریں
یہ معمولی حقیقت اپنے دوستوں تک پہنچا کر نجانے کتنے نادانوں کو رہ راست پر لانے کا سبب بن سکتے ہیں
(ان شاءاللہ تعالٰی)

Address

Dadu
DADU

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when سنڌڙي Sindhri posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to سنڌڙي Sindhri:

Videos

Share


Other Digital creator in Dadu

Show All