Bilal Writes

Bilal Writes بہترین عمدہ تحاریر ،سٹوریز، واقعات ،اسلام کے متعلق واقعات کیلئے ہمیں فالو کریں۔
(41)

*رمضان پیکج کے سلسلہ میں اپنی اہلیت چیک کریں*رمضان المبارک سبسیڈی پیکج کے تحت اپنی اہلیت چیک کریں کہ آپ رمضان المبارک سب...
29/02/2024

*رمضان پیکج کے سلسلہ میں اپنی اہلیت چیک کریں*

رمضان المبارک سبسیڈی پیکج کے تحت اپنی اہلیت چیک کریں کہ آپ رمضان المبارک سبسیڈی کے لیے اہل ہیں یا نہیں اپنا شناختی کارڈ نمبر درج کریں اور اہلیت چیک کرسکتے ہیں۔

https://usc.org.pk/ramazan/subsidy/score/search

آج اگر حلوہ پہن کر گھومنے لگے تو کل یہ لوگ قرآنی آیات بھی پہن کر گھومیں گے۔یہودی پہلے مائنڈ سیٹ بناتے ہیں۔ جب وہ چیز ہم ...
28/02/2024

آج اگر حلوہ پہن کر گھومنے لگے تو کل یہ لوگ قرآنی آیات بھی پہن کر گھومیں گے۔
یہودی پہلے مائنڈ سیٹ بناتے ہیں۔ جب وہ چیز ہم قبول کرنے لگتے ہیں تب اصل وار کرتے ہیں

آج حلوہ کو ایکسیپٹ کر لیا گیا تو کل الفلاح بھی لکھا ملے گا۔ الرحمن بھی لکھا مل سکتا ہے۔ ضرورت کیا ہے ایسے لباس کی جب ہزاروں سال سے نہیں تھا تو اب کیوں؟
اور کوئی بھی ایسی چیز جو اسلام میں مسلمانوں میں کو تضاد پیدا کرتی ہو اس وجہ کو اس چیز کو ہی ختم کرنا چاہیے تا کہ مسلمانوں میں امن قائم و دائم رہ سکے۔

23/01/2024



تین ہفتوں سےجاری مسلسل شدید ترین سردی کےباعث کٸی خود دار / چٹ پوش غریب لوگوں کےگھروں میں فاقے ہیں. متعدد مریضوں کے پاس علاج کے لیٸے وسائل ختم ہوگئے ہیں۔کٸی گھروں میں راشن ختم ھوچکا ھے۔خدارا ان کی خبرگیری کریں۔ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے اور کوئی بھوک سے جان دے دے.

دس باتیں جو بچوں سے کرنی ضروری ہیں1۔بہت خوب! یا شاباشتحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہر بار آپ کے بچے کی جانب سے کوئی نئی بات س...
30/12/2023

دس باتیں جو بچوں سے کرنی ضروری ہیں

1۔بہت خوب! یا شاباش
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ہر بار آپ کے بچے کی جانب سے کوئی نئی بات سیکھنے پر ’’بہت خوب‘‘ یا ’’شاباش‘‘ وغیرہ جیسے عام سے الفاظ کہنابجائے اس میں اعتماد پیدا کرنے کے، آگے بڑھنے کے لئے اسے آپ کی تعریف کا محتاج بنا دیتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچوں کی تعریف مناسب و موزوں مواقع پر کریں اور مختصرالفاظ استعمال کریں یعنی بجائے اسکے کہ ’’بہت اچھا کھیلے‘‘ یہ کہیں کہ ’’اپنے ساتھیوں کا تم نے اچھی طرح ہاتھ بٹایا۔‘‘

2۔محنت کی ترغیب
سچ ہے کہ بچہ جتنا زیادہ وقت سیکھنے میں صرف کرے گا اس کی مہارت اتنی ہی بڑھے گی۔ مگر دوسری جانب یہ پرانی کہاوت اس دباؤ کو بڑھا سکتی ہے جو آپ کابچہ جیتنے یا مہارت حاصل کرنے کے لئے برداشت کررہا ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں، ’’اس سے یہ پیغام جاتا ہے کہ اگر آپ سے غلطی ہوگئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے محنت نہیں کی۔ اکثر ایسے بچوں کودیکھا گیاہے جو اپنے آپ سے یہی سوال کرکے خود کو کوس رہے ہوتے ہیں کہ ’میرے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ میں مسلسل محنت کررہا ہو مگر پھر بھی سب سے بہتر نہیں ‘۔‘‘ اس کے بجائے اپنے بچوں کو مزید محنت کرنے کی ترغیب دیں اور اس کی حوصلہ افزائی کریں۔ اس کی کارکردگی میں بہتری آئے گی اور اس بہتری پر اسے فخر بھی ہوگا۔

3۔تمہیں کچھ نہیں ہوا
آپ کے بچے کو اگر چوٹ لگ جائے اور وہ دھاڑیں مار کر رونا شروع کردے تو یقیناًآپ کا دل اسے یہ تسلی دینے کو چاہے گاکہ اسے زیادہ چوٹ نہیں لگی۔ لیکن یہ کہنے سے کہ ’تمہیں کچھ نہیں ہوا‘ ممکن ہے کہ وہ اور زیادہ برُا محسوس کرنے لگے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ ’’آپ کا بچہ اس لئے رورہا ہے کہ اسے کچھ ہوا ہے۔‘‘ اس صورت حال میں آپ کا کام ہے بچے کو اس کے جذبات سمجھنے اور ان پرقابو پانے میں مدد دیں، ان کی نفی نہ کریں۔ اسے سینے سے لگائیں اور کچھ ایسا کہہ کر کہ’’واقعی تمہیں تو چوٹ لگی ہے،‘‘ اس کے محسوسات کو تسلیم کریں۔ پھر اس سے پوچھیں کہ وہ کیا چاہتا ہے۔۔۔ پٹی کی جائے یا اسے پیار کیا جائے!

4۔ جلدی کرو
اس کے باوجود کہ اسے اسکول کے لئے دیر ہو رہی ہے آپ کا بچہ اپنے جوتوں کے تسمے خود باندھنے کی ضد کررہا ہے (حالانکہ ابھی اسے تسمے باندھنا ٹھیک طرح سے نہیں آئے)۔ مگر اسے جلدی کرنے کو کہنا اس پر دباؤ بڑھا دے گا۔ ایسے موقع پر اپنا لہجہ نرم رکھتے ہوئے کہنا چاہیئے ’’دیر ہو جائے گی بیٹا‘‘ جس سے یہ پیغام جائے گا کہ آپ دونوں ایک ہی مشکل کا سامنا کررہے ہیں۔ کام جلدی کرنے کے عمل کو کھیل میں بھی تبدیل کیا جاسکتا ہے یہ کہہ کر کہ ’’دیکھیں پہلے کون اپنا یونیفارم پہنتا ہے!‘‘

5۔ میں موٹی ہو گئی ہوں
آپ وزن میں کمی کررہی ہیں؟ یہ بات اپنے تک رکھیں۔ اگر آپ کا بچہ ہر روز آپ کو ترازو پر کھڑے ہو کر وزن کرتے اور خود کو ’’موٹی‘‘ کہتے ہوئے سنے گا تو انسانی جسم کے بارے میں وہ غلط تصور تخلیق کرسکتا ہے، اس کی بجائے یہ کہنا بہتر ہوگا کہ ’’میں صحت بخش غذائیں استعمال کررہی ہوں کیونکہ اس سے میں ہشاش بشاش رہتی ہوں۔ ‘‘ یہی طریقہ ورزش کے لئے بھی استعمال کریں کیونکہ ’’مجھے ورزش کرنی ہے،‘‘ سے یہ تاثر مل سکتا ہے کہ یہ ایک بوجھ ہے جبکہ یہ کہنے سے کہ ’’آج کا دن بہت اچھا ہے ۔۔۔ میں ٹہلنے جارہی ہوں‘‘ آپ کی بچی یا بچہ متاثر ہوکر آپ کے ساتھ شامل ہوسکتے ہیں۔

6۔ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں
اپنے بچے کی جانب سے کسی کھلونے کی فرمائش کرنے پر یہ جملہ دہرانا بہت آسان ہے مگر خیال رہے کہ یہ کہنے سے آپ کے بچوں پر غلط تاثر پڑ سکتا ہے جو انہیں احساس محرومی میں مبتلا کرسکتا ہے۔ اور جب آپ کوئی مہنگی گھریلو شے خریدیں تو چھوٹے بچے اپنی معصومیت میں آپ سے استفسار کرسکتے ہیں کہ ’’آپ تو کہہ رہی تھیں کہ آپ کے پاس پیسے نہیں۔ پھر یہ چیز کیسے خرید لی؟‘‘ لہٰذا یہی بات کہنے کا کوئی متبادل طریقہ منتخب کریں جیسے ’’ہم یہ نہیں خرید رہے کیونکہ ہمیں کئی اہم چیزیں خریدنی ہیں۔ اس کے لئے پیسے بچا رہے ہیں۔‘‘اور آپ کا بچہ بحث پر اتر آئے تو آپ کے پاس بچاؤ کا راستہ یہ ہے کہ اسے سمجھا نا شروع کردیں کہ بچت کس طرح کی جاتی ہے۔

7۔ کسی اجنبی سے بات مت کرو
چھوٹے بچوں کے لئے یہ بات سمجھنا مشکل ہوتا ہے۔ وہ اگر کسی کو جانتے نہ ہوں پھر بھی اس کے اچھے رویے کی بنا پر وہ اسے اجنبی نہیں سمجھتے۔ مزید یہ کہ بچے اس بات کا غلط مطلب لے کر پولیس والوں یا فائر فائٹرز کی مدد لینے سے بھی انکار کرسکتے ہیں کیونکہ وہ انہیں پہلے سے نہیں جانتے۔ بجائے اس کے کہ انہیں اجنبیوں سے ڈرایا جائے آپ ان کے سامنے چند مناظر تخلیق کرسکتے ہیں کہ ’’اگر کوئی ایسا شخص جسے تم نہیں جانتے، تمہیں ٹافی دینے کی کوشش کرے تو کیا کروگے؟‘‘اسے بتانے دیں کہ ایسی صورت میں وہ کیا کریں گے پھر انہیں درست عمل سے آگاہ کریں۔ یادرکھیں کہ بچوں کے اغوا کے زیادہ تر واقعات میں اغوا کار کوئی ایسی شخصیت ہوتی ہے جسے بچے پہلے سے جانتے ہیں۔ لہٰذا آپ کو اپنے بچوں کو یہ بات ذہن نشین کرانی ہوگی کہ ’’اگر کسی کو دیکھ کر تمہیں دکھ ہو، ڈر لگے یا الجھن ہو، تو فوراً مجھے بتاؤ!‘‘

8۔ دیکھ بھال کرو یا احتیاط کرو
آپ کے بچے پارک میں منکی بارز پر لٹک رہے ہوں اور آپ انہیں کہیں ’’احتیاط سے کھیلو!‘‘ تو بڑی حد تک ممکن ہے کہ وہ گر جائیں۔ ’’آپ کے الفاظ ان کی توجہ بھٹکا دیں گے، ان کا ذہن منتشر ہوگا‘۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اگر آپ کو تشویش ہے تو بچوں کے قریب رہیں تاکہ اگر وہ لڑکھڑائیں تو آپ انہیں سنبھال سکیں۔

9۔پہلے کھانا ختم کرو، پھر میٹھا ملے گا
یہ جملہ کہنے سے بچے کے نزدیک انعام کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور کھانے کی اہمیت کم ہو جاتی ہے اور وہ کھانے سے لطف اندوز نہیں ہو پاتا۔ اس لیے ایسے مواقع پر کہنا چاہئے : ’’پہلے ہم کھانا کھائیں گے پھر میٹھا۔‘‘ الفاظ بدلیں گے تو خیالات بدلیں گے اور بچوں پر مثبت اثر پیدا کریں گے۔

10۔میں تمہاری مدد کرتی ہوں
آپ کا بچہ اگر بلاک ٹاور بنانے یا کوئی معمہ ختم کرنے کی کوشش کررہا ہو تو فطری طور پر آپ اس کی مدد کرنا چاہیں گی ۔ خبردار ایسا مت کیجئے۔اگر آپ بہت جلدی اس کی مدد کرنے لگیں گی تو بچے کی سوچنے کی صلاحیت پر ضرب پڑے گی اور وہ جواب کے لئے دوسروں کی طرف دیکھے گا۔البتہ آپ اس کی مدد کرسکتی ہیں مگر اس سے ایسے سوالات کرکے کہ ’’اس جگہ بڑا پیس لگے گا یا چھوٹا؟‘‘
یہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو کہ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ان کے کرنے اور نہ کرنے سے بچوں کی شخصیت پر بہت اثر پڑے گا ۔اگر ہم اپنے بچوں کی شخصیت میں کمینہیں دیکھنا چاہتے تو ہمیں اس کا خیال رکھنا پڑے گا۔

29/09/2023

وہیﷺ لامکاں کے مکیں ہوئے
سر عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبیﷺ ہے جس کے ہیں یہ مکاں
وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

سر عرش پر ہے تریﷺ گزر
دل فرش پر ہے تری نظر
ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں
وہ جو تجھﷺ پہ عیاں نہیں

کروں تیرےﷺ نام پہ جاں فدا
نہ بس ایک جاں دو جہاں فدا
دو جہاں سے بھی نہیں جی بھرا
کروں کیا کہ کروڑوں جہاں نہیں

❤️اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍوَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍكَمَاصَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌمَجِيد
اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍوَّعَلَى آلِ مُحَمَّدٍكَمَابَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌمَّجِيد💚💚

04/09/2023

افغانستان میں آج سے ڈاکٹروں کے لئے فیس کی حد بندی کی گئی ہے۔پروفیسرڈاکٹر 200 افغانی۔اسپیشلسٹ 150 افغانی۔عام ایم بی بی ایس 100 افغانی۔سب سے اہم بات جو لکھی گئی ھے وہ یہ ھے کہ جس نے خلاف ورزی کی اسکا کلینک سیل کیا جائے گا۔وہ شکایت کا حق نہیں رکھے گا سفارش تو بہت دور کی بات ھے۔۔۔۔

03/09/2023

. (طلاق کا انوکھا طریقہ)

تقریباً پچاس سال‌ پہلے کی بات ہے، ہمارے گاؤں کے ایک میاں بیوی میں اختلاف ہو گیا، بیوی ناراض ہو کر میکے چلی گئی،
بہن بھائیوں، رشتے داروں نے راضی کرنے کی بہت کوشش کی ( اور تقریباً بارہ سال تک کوشش‌ کرتے رہے ) لیکن ناکام رہے، اور بات طلاق تک پہنچ گئی،
بیٹی والوں کی طرف سے طے پایا کہ ہم‌ کچھ لوگ بیٹے والوں کے گھر جاتے ہیں، ان کا زیور ان کے حوالے کرکے طلاق لے آتے ہیں ( اُس دور میں ہمارے یہاں یہی طریقہ رائج تھا )
اُدھر جب بیٹے والوں کو خبر ملی تو انہوں نے اپنے بیٹے کو بلا کر کہا:
جب آپ کے سسرال والے طلاق لینے آئیں گے اور زیور آپ کی جھولی میں ڈالیں گے تو آپ نے زیور قبضے میں لے کر ننگے پاؤں دوڑ لگا دینی ہے، ہم آپ کو پکڑنے کے لئے پیچھے بھاگیں گے ، اور آپ کو برا بھلا بھی کہیں گے، لیکن آپ نے ہاتھ نہیں آنا ، دوڑتے چلے جانا ہے، جب اپنے گاؤں کی حد سے باہر نکل جاؤ گے تو پھر طلاق کا لفظ منھ سے نکالنا، *ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے گاؤں کی حدود میں کسی کی بیٹی کو طلاق دی جائے اور اس وجہ سے گاؤں برکت سے محروم ہوجائے...
ایسا ہی ہوا...جب لڑکی والے آئے اور انہوں نے لڑکے کی جھولی میں زیور ڈالا تو اس نے دوڑ لگادی،
بڑابھائی‌اُسے برا بھلا کہتا ہوا پیچھے بھاگا ، اور دوسرے دو بھائی‌ بڑے بھائی کو پکڑنے کے لئے پیچھے بھاگے،
جب لڑکی والوں نے یہ منظر دیکھا تو کہنے لگے: اُسے چھوڑ دو ، اُس کے پیچھے نہ بھاگو ، نہیں طلاق دیتا تو نہ دے، آخر وہ واپس لوٹ آئے اور مل بیٹھ کر صلح ہوگئی ، جو بعد میں کامیاب ثابت ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک وہ لوگ تھے جو طلاق کے معاملے میں اِس قدر ڈرا کرتے تھے ، اور ایک آج کے لوگ ہیں جو معاذاللہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر فوراً طلاق دے دیتے ہیں، طلاق دینے کی تین قسمیں ہیں ، جن میں سے ناپسندیدہ ترین قسم اکٹھی تین طلاقیں دے دینا ہے...
رسول پاک ﷺ کو ایک شخص کے متعلق بتایا گیا کہ اُس نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے دی ہیں ، توآپ ﷺ غصے کی حالت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:
’’ میری موجودگی میں اللہ ﷻ کی کتاب کو کھیل بنایا جارہا ہے...!!! ‘‘
حتیٰ کہ ایک شخص نے ( جب آپ کا یہ جلال دیکھا تو ) کھڑے ہو کر عرض کیا...
یارسول اللہ ! کیا میں اسے قتل نہ کر دوں...؟
( سنن نسائی ، ر3430 )

اللہ کریم‌ ہمارے معاشرے کو شعور عطاکرے ، اور نکاح جیسے خوب صورت رشتے کو ہمیشہ نبھانے کی توفیق بخشے...!!!

محترم جناب کنٹرولر الیکٹرک سپلائر پاکستانجناب عالی!          گزارش ہے کہ  تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکس...
26/08/2023

محترم جناب کنٹرولر الیکٹرک سپلائر پاکستان
جناب عالی!
گزارش ہے کہ تمام ملک کے بجلی کے صارفین کو ان 13 نکاتی ٹیکسز کے سلسلہ کی وضاحت کی جائے .......
شکریہ
1.بجلی کی قیمت ادا کر دی تو اس پر کون سا ٹیکس؟
2.کون سے فیول پر کونسی ایڈجسٹمنٹ کا ٹیکس؟
3.کس پرائیس پہ الیکٹریسٹی پہ کون سی ڈیوٹی؟
4 .کون سیے فیول کی کس پرائیس پر ایڈجسٹمنٹ؟
5.بجلی کے یونٹس کی قیمت ( جو ہم ادا کر چکے) پر کونسی ڈیوٹی اور کیوں؟
6.ٹی وی کی کونسی فیس، جبکہ ہم کیبل استعمال کرتے ہیں الگ سے پیسے دیکر .
7.جب بل ماہانہ ادا کیا جاتا ہے تو یہ بل کی کواٹرلی ایڈجسٹمنٹ کیا ہے؟
8. کون سی فنانس کی کاسٹ چارجنگ؟
9.جب استعمال شدہ یونٹس کا بل ادا کر رہے ہیں تو کس چیز کے ایکسٹرا چارجز؟
10.کس چیز کے اور کون سے further ( اگلے) چارجز.
11.ود ہولڈنگ چارجز کس شے کے؟
12. میٹر تو ہم نے خود خریدا تھا اس کا کرایہ کیوں؟
13. بجلی کا کون سا انکم ٹیکس؟

منجانب.. مُحِبِّ وطن پاکستانی




سوشل میڈیا پاور کو استعمال کریں زیادہ سے زیادہ شئیر کرکے

25/08/2023

بیس لاکھ کا سولر لگوانے سے بہتر ہے کہ دس لاکھ دے کر چھوٹے بھائی کو واپڈا میں بھرتی کروا دیں ۔

24/08/2023
السلام وعلیکم پاکستانی عوام بجلی کے بلوں کی ماری عوام۔۔۔خون پسینے کی کمائی ہاری ہوئی عوام۔۔۔مہنگائی کی چکی میں پستی بیچا...
23/08/2023

السلام وعلیکم پاکستانی عوام بجلی کے بلوں کی ماری عوام۔۔۔
خون پسینے کی کمائی ہاری ہوئی عوام۔۔۔
مہنگائی کی چکی میں پستی بیچاری عوام۔۔۔
۔
آئیں۔۔۔ شامل ہوں اس احتجاج میں اس سے پہلے کہ
ہمارا باپ بھائی بہنوئی سسر داماد
خود سوز ی کرلیں۔۔۔
کیونکہ ہم کو معلوم نہیں گھر کے مرد بجلی کے بل کیسے ادا کرتے ہوں گے۔۔۔۔؟؟
آئیں بجلی کے بلوں پر جواب مانگے مہنگے یونٹس پر احتجاج کریں۔۔۔۔
پوسٹ شئیر کریں۔۔۔
اور کمینٹس میں آپ سب اپنی موجودگی کا احساس دلائیں۔۔۔
اگر اب نہیں تو کبھی نہیں۔۔۔
۔

جو لوگ کوٹھیاں بنا کے سیل کرتے ہیں یا جو لوگ اپنے لیے نئے گھر بنا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ گھر کے اندر ایک چھوٹا سا Pra...
18/08/2023

جو لوگ کوٹھیاں بنا کے سیل کرتے ہیں یا جو لوگ اپنے لیے نئے گھر بنا رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ گھر کے اندر ایک چھوٹا سا Pray room عبادت والا کمرہ بھی بنایا کریں
جس طرح بچے 2 گھنٹے Study room میں گزارتے ہیں دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے لیے
اور جس طرح 2 گھنٹے Tv room میں گزارتے ہیں اسی طرح بچوں کا ایک مخصوص ٹائم Pray room کا بھی ہو تو بچوں کو قرآن وحدیث اور دینی تعلیم حاصل کرنے سمجھنے اور سیکھنے میں آسانی ہوجاۓ گی
اور گھر میں نماز و قرآن پاک پڑھنے کے لئے ایک الگ جگہ بھی مختص ہو جائے گی ۔
منقول

17/08/2023

" "دو بیش قیمتی ہیرے"

ایک سوداگر نے بازار میں گھومتے ہوئے ایک عمدہ نسل کا اونٹ دیکھا سوداگر اور اونٹ بیچنے والے کے درمیان کافی دیر تک گفت و شنید ہوئی اور آخرکار سوداگر اونٹ خرید کر گھر لے آیا۔

گھر پہنچ کر سوداگر نے اپنے نوکر کو اونٹ کی زین اتارنے کے لیے بلایا نوکر کو زین کے نیچے ایک مخملی تھیلا ملا جسے کھولنے پر قیمتی ہیروں اور جواہرات سے بھرا ہوا پایا۔

نوکر چلا کر بولا، "آقا آپ نے اونٹ خریدا ہے، لیکن دیکھو مفت میں کیا آیا؟"سوداگر بھی حیران ہوا، اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ میں ہیرے دیکھے جو چمک رہے تھے اور سورج کی روشنی میں اور بھی زیادہ جھلملا رہے تھے۔

سوداگر نے کہا... "میں نے اونٹ خریدے ہیں، ہیرے نہیں، مجھے انہیں فوراً واپس کر دینا چاہیے۔"
نوکر دل میں سوچ رہا تھا کہ میرا آقا کتنا بیوقوف ہے...

بولا مالک کسی کو کچھ پتا نہیں چلے گا ہیرے رکھ لیں لیکن تاجر نے ایک نہ سنی اور وہ فوراً بازار پہنچا اور اونٹ والے کو تلاش کر اس کو مخمل کا تھیلا واپس کر دیا۔

اونٹ بیچنے والا بہت خوش ہوا، کہنے لگا میں بھول گیا تھا کہ میں نے اپنے قیمتی پتھروں کو زین کے نیچے چھپا رکھا ہے۔

اب آپ کسی ایک ہیرے کو بطور انعام منتخب کر سکتے ہیں سوداگر نے کہا کہ میں نے اونٹ کی صحیح قیمت ادا کر دی ہے اس لیے مجھے کسی شکریہ اور انعام کی ضرورت نہیں۔

سوداگر نے جتنا انکار کیا، اونٹ بیچنے والے نے اتنا ہی اصرار کیا۔

آخرکار تاجر مسکرایا اور کہا کہ حقیقت میں جب میں نے تھیلی واپس لانے کا فیصلہ کیا تو میں نے پہلے ہی دو قیمتی ہیرے اپنے پاس رکھ لیے تھے۔
اس اعتراف کے بعد اونٹ بیچنے والے کو غصہ آگیا، اس نے فوراً ہیرے اور جواہرات گننے کے لیے تھیلا خالی کردیا۔

لیکن اس نے بڑی الجھن میں کہا، "میرے سارے ہیرے یہاں ہیں، تو سب سے قیمتی دو کون سے تھے جو تم نے رکھ لیے؟"

سوداگر نے کہا... "میری ایمانداری اور میری خُدداری۔"

16/08/2023

ہم اگر بات چھپا کر ہی اپناتے تجھ کو
تو یہ بھی خود سے ہی دھوکہ کرتے

ایک بات سکھا دی ہے محبت نے ہمیں
جانے والوں کا راستہ نہیں روکا کرتے

15/08/2023

مسجد سے ایک انوکھا اعلان ہوا اور سننے والا ہر بندہ دنگ رہ گیا۔

اعلان یوں تھا کہ مسجد کے قریب ہی ایک ریڑھی پہ مختلف ریسٹورنٹ کے گاہکوں کا بچا ہوا سالن دستیاب ہے. وہ غریب اور نادار لوگ جو سالن پکانے کی استطاعت نہیں رکھتے وہ اپنے برتن لے آئیں اور سالن فی سبیل اللہ لے جائیں۔

مارے تجسس کے میں بھی مسجد کی طرف چل دیا کہ دیکھوں آخر ماجر کیا ہے. میں جیسے ہی وہاں پہنچا تو مرد و زن کا ایک ہجوم برتن لے کر پہنچا ہوا تھا. کوئی سالن لے کے گھر کو جا رہا تھا تو کوئی حاصل کرنے کی تگ و دو میں تھا.

ریڑھی پہ تین پتیلے پڑے ہوۓ تھے. ایک پتیلے میں دال دوسرے میں قورمہ اور تیسرے میں مختلف اقسام کی مکس سبزیوں کا سالن رکھا ہوا تھا. تھوڑی ہی دیر میں اس کے تینوں پتیلے خالی ہو گئے۔ سالن لے جانے والوں کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی اور وہ سب دعائیں دیتے ہوۓ جا رہے تھے.

میں سالن بانٹنے والے کے پاس کھڑا ہو گیا اور اس سے استفسار کیا کہ یہ آئیڈیا اس نے کہاں سے لیا تو اس نے کہا کہ بس جی ایک دن ہوٹل میں کھانا کھایا تو آدھے سے زیادہ سالن بچ گیا. میں نے سوچا کہ انہوں نے ویسے ہی ضائع کر دینا ہے. چنانچہ ایک ویٹر کو بلا کر سالن بیگ میں ڈلوایا اور کسی ضرورتمند کے گھر دے آیا.

اس کام سے دل کو بہت خوشگوار راحت حاصل ہوئی اور یقین کریں سالوں سے نیند کی گولی کھا کر سونے کا عادی تھا لیکن حیرت انگیز طور پر اس رات بغیر گولی کھاۓ بہت پرسکون ہو کر سویا.

بس پھر اس سلسلے کو بڑھانے کا تہیہ کرلیا. پانچ بڑے ریسٹورنٹ مالکان سے رابطہ کیا تو بہت مثبت جواب ملا اور پھر ہر ریسٹورنٹ پر تین تین برتن رکھوا دیے. اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میری وجہ سے بہت سے غریب گھروں میں بہترین کھانا پہنچتا ہے۔ وہ بتاتے ہوۓ ایسے خوش ہو رہا تھا جیسے اس کی لاکھوں کی لاٹری نکل آئی ہو.

لیکن میں سوچ رہا تھا کہ واقعی اس کی لاکھوں کی لاٹری تو نکل چکی تھی اور وہ لاٹری تھی بے پناہ اجر و ثواب کی۔۔۔!!

اللہ کے ہاں مقرب ہونے کیلئے ضروری نہیں کہ آپ کروڑوں روپے خرچ کریں یا سالوں سال مراقبے کریں. بعض اوقات ایک چھوٹی سی نیکی بھی ان سب نیکیوں کو مات کر دیتی ہے جن کیلئے ہم عمر بھر ریاضت میں گزار دیتے ہیں. آپ بھی اللہ کی مخلوق کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر کوئی چھوٹی سی نیکی کرکے دیکھیں ، شاید یہی نیکی آپ کا جنت کا پلڑہ بھاری کر دے۔“

13/08/2023

تعلیمی اداروں کے سربراہان سے گزارش ہیں
کہ 14اگست کی تقریبات میں بچیوں سے ڈانس نہ کروائیں
یہ ملک اس چیز کےلئے آزاد نہیں ہوا تھا

05/08/2023

توشہ خانہ فوجداری کیس

ملزم عمران خان کو 3 سال قید کا حکم، فیصلہ

ملزم عمران خان 5 سال کے لیے نااہل قرار، فیصلہ

جرمانہ 1لاکھ روپے

29/07/2023

واقعہ کربلا....😢

(چوتھا حصہ)

مختصر سی مبارزت طلبی کے بعد عمرو بن سعد کی فوج لشکر حسین ؓ پر ٹوٹ پڑی۔ ہر طرف جنگ کا میدان گرم ہوگیا اور خون کے فوارے اُبلنے لگے۔ سیدنا حسین ؓ کے شیردل سپاہی جس طرف رخ کرتے، صفوں کو اُلٹ دیتے تھے۔ مگر کثیر تعداد دشمن ذرا سی دیر میں پھر ہجوم کر آتا تھا۔ چند گھنٹوں میں لشکر ِحسین ؓ کے بڑے بڑے نامور بہادر مسلم بن عوسجہ، حُر اور حبیب بن مظاہر شہید ہوگئے۔ جب دشمن کے سپاہی سیدنا حسین ؓ کے قریب پہنچے تو نماز کا وقت قریب تھا۔آپ نے ابوثمامہ سے فرمایا: دشمنوں سے کہو کہ ہمیں نماز کی مہلت دیں ۔ مگر دشمن نے یہ درخواست منظور نہ کی اور لڑائی بدستور جاری رہی۔

اہل بیت کو صبر کی تلقین
سیدنا حسین ؓ کے سب رفقا یکے بعد دیگرے شہید ہوچکے تو بنی ہاشم خاندانِ نبوت کی باری آئی۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے چاہا کہ اس خاندان سے میں آغاز کروں ،تلوار اٹھائی ،لیکن حضرت علی اکبر میدان میں آ گئے عرض کرنے لگے ابا جان ! بیٹا آپ کا جوان ہے اور جوان بیٹوں کے ہوتے ہوئے باپ کو ایسی تکلیف کی ضرورت نہیں ۔میدان میں پہنچے، جہاد شروع کیا ۔آپ کی تلوار جس سمت اٹھتی یزیدی فوج کے ٹکڑے اڑا دیتی۔آپ نے انہیں گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا،پھر آپ کا گھوڑا زخمی ہو گیا ۔حیدری خون اور حسینی شجاعت نے یزیدی لشکر کو مصیبت اور مشقت میں ڈال دیا۔اور ان کے پر خچے اڑا دئیے ، امام حسین ؑ چاہتے تھے کہ اپنے جوان بیٹے کو، شباب کے ماہ کامل کو، حسن کے ماہ تمام کو،اپنی آنکھوں سے لڑتا ہوا دیکھیں ۔لیکن میدان کرب و بلا کی گرد نے ان کو چھپا لیا تھا کچھ خبر نہ تھی کہ وہ کہاں ہیں اور ان پر کیا بیت رہی ہے بس اتنا اندازہ ہوتا تھا کہ جس سمت یزیدی لشکر کی بھیڑیں بھاگتیں، امام حسین رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کے لوگ سمجھ لیتے کہ حسین رضی اللہ عنہ کا لاڈلہ بیٹا اس سمت جا رہا ہے۔یہ علی حیدر کرار کا پوتا اور حضرت محمد ؐ کا نواسہ دیر تک یزیدیوں کو واصل جہنم کرتا رہا۔پیاس کی شد ت نے آ گھیرا،جسم پر بیسیوں زخم لگ گئے پانی کا ایک گھونٹ بھر کر دوبارہ تازہ دم ہو نے کے لیے آئے تو عرض کیا ابا جان !اگر پانی کا ایک گھونٹ مل جائے تو پھر تازہ دم ہو کر حملہ کروں ۔فرمایا ! علی اکبر ! پانی تو میسر نہیں ۔لیکن اپنی سوکھی ہوئی زبان تیرے منہ میں ڈال سکتا ہوں ،حضرت علی اکبر نے امام عالی مقام کی سوکھی ہوئی زبان چکھی اور اس سے پھر تازہ دم ہو کر میدان میں پہنچے ،دیر تک لڑنے کے بعد بے اندازہ زخم کھا کر زمین پر گر پڑے ایک نیزہ آپ کے سینہ اقدس میں پیوست ہو گیا ۔اچانک زبان سے آواز آئی یا ابتاہ!اے ابا جان ،امام حسین ؑ بے ساختہ دوڑ پڑے جا کر اپنے بیٹے کو گود میں لے کر اٹھا لیا ۔بیٹا ایک عجیب انداز سے اپنے باپ کو تک رہا ہے عر ض کی ۔ابا جان اگر آپ نیزے کا یہ پھل جسم سے نکال دیں تو میں ایک بار پھر میدان میں جانے کے لیے تیار ہوں ۔آپ کا بیٹا دشمن کی کثرت کے باوجود ہمت ہارنے والا نہیں ۔امام حسین ؑ نے گود میں جوان بیٹے کو، اس ماہ تمام کو، اس حسن کے پیکر کو لیا ۔سر سے پاؤں تک جسم زخموں سے چور تھا آپ نے نیزے کا پھل نکالا۔خون کا فوارہ ابل پڑا سب سے پہلے علی اکبر ؓ شہید ہوئے۔ حضرت حسین ؓ نے علی اکبرؓ کی لاش اُٹھائی اور خیمہ کے پاس رکھ دی۔ اس کے بعد حضرت حسین ؓ میدانِ جنگ سے قاسم بن حسن ؓ کی لاش اُٹھا کر خیمہ کے پاس لائے اور علی اکبرؓ کی میت کے پہلو میں لٹا دیا۔ اہل بیت کے رونے کی آواز آپ کو سنائی دی تو آپ نے اہل بیت کو مخاطب کرکے فرمایا:

'' اے اہل بیت! صبر کرو۔ اے میرے چچا کی اولاد! صبر کرو۔ اس کے بعد کوئی تکلیف نہ دیکھو گے۔''

جس وقت عبداللہ بن حسن ؓ نے اپنے چچا سیدنا حسین ؓ پر دشمن کو وار کرتے دیکھا تو اُس پیکر وفا نے لپک کر اپنے ہاتھ پر تلوار کے وار کو روکا، اس کا دایاں بازو شانے سے کٹ کر جدا ہوگیا۔ سیدنا حسین ؓ نے اپنے نوجوان بھتیجے کو چھاتی سے لگایا اور فرمایا:

''اے بھتیجے! جو مصیبت اس وقت تم پر آئی ہے، اس پر صبر کرو اور ثواب کے اُمیدوار رہو۔ بہت جلد خدا تجھے تیرے صالح باپ دادا سے ملا دے گا۔''

اس کے بعد سیدنا حسین ؓ کا صاحبزادہ علی اصغر رحمة اللہ علیہ جب شدتِ پیاس سے تڑپنے لگا تو آپ اس کو گود میں اُٹھا کر لائے اور دشمنوں کو مخاطب کرکے فرمایا:
''تمہیں مجھ سے تو عداوت ہوسکتی ہے، لیکن اس معصوم بچے کے ساتھ تمہیں کیا دشمنی ہے؟ اس کو تو پانی دو کہ شدتِ پیاس سے دم توڑ رہا ہے۔''

اس کے جواب میں دشمن کی طرف سے ایک تیر آیا جو اس بچے کے حلق میں پیوست ہوگیا اور وہ معصوم وہیں جاں بحق ہوگیا۔ حضرت حسین ؓ نے اس قدر ہوشربا سانحہ پر بھی کمالِ صبر وسکون کا مظاہرہ کیا یعنی اس کے خون سے چلو بھر کر آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا:

یا اللہ! جومصیبت اس وقت اس پرنازل ہے، اس کو تو آسان کر۔ مجھے اُمید ہے کہ اس معصوم بچے کا خون تیرے نزدیک حضرت صالح کی اونٹنی سے کم نہیں ہوگا۔

نواسہ ٔ ؓ رسولﷺ کا بے مثال صبر و استقلال
جب اہل بیت ایک ایک کرکے شہید ہوئے تو حضرت سید ِشہدا کی باری آئی اور دشمن کی تلواریں نواسۂ رسولؐ کے جسم اطہر پر ٹوٹ پڑیں ۔ آپ نے نہایت صبرو استقامت سے دشمنوں کے حملوں کا مقابلہ کیا۔ بے شمار دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔ تن تنہا ہزاروں کا مقابلہ کررہے تھے۔ شدتِ پیاس سے زبان سوکھ کر کانٹا ہوچکی تھی، تین روز سے پانی کی ایک بوند لبوں تک نہ پہنچی تھی، اوپر سے جھلسا دینے والی دھوپ، نیچے سے تپتی ہوئی ریت، عرب کی گرمی موسم کی سختی اور بادِ سموم کا زور۔ ریت کے ذرّوں کی پرواز جو چنگاریاں بن کر جسم سے لپٹتے تھے۔ حضرت سعد بن وقاصؓ (فاتح ایران) کا بدنہاد بیٹا حکومت کے لالچ سے اندھا ہوکر اَب خاندانِ رسالت کے آخری چراغ حضرت حسین ؓ کی شمع حیات کوبھی بجھانے کیلئے بے تاب نظر آرہا ہے۔ آپؓ کے جسم اطہر میں تیروں ، تلواروں اور نیزوں کے ۸۰ زخم پڑچکے تھے۔ تمام بدن چھلنی بنا ہوا تھا مگر آپؓ پھر بھی نہایت شجاعت اور ثابت قدمی سے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے۔

شمر بن ذی الجوشن حضرت حسین ؓ کی پامردی اور استقامت دیکھ کر بہت حیران و سراسیمہ ہوگیا اور اس نے سیدنا حسین ؓ کی توجہ میدانِ جنگ سے ہٹانے کیلئے یہ چال چلی کہ فوج سے ایک دستہ علیحدہ کرکے اہل بیت کے خیموں کا محاصرہ کرلیا، اس پر آپؓ نے جھلا کر فرمایا:

''اے لوگو شرم کرو! تمہاری لڑائی مجھ سے ہے یا بے کس و بے قصور عورتوں سے ۔کم بختو! کم از کم میری زندگی میں تو اپنے گھوڑوں کی باگیں اِدھر نہ بڑھاؤ۔''

شمر نابکار نے شرمندہ ہوکر خیمہ اہل بیت سے محاصرہ اُٹھا لیا اور حکم دیا کہ آخری ہلہ بول دو۔ آخر پوری کی پوری فوج درندوں کی طرح سیدنا حسین ؓ پرٹوٹ پڑی۔ آپؓ صفوں کو چیرتے ہوئے فرات پر پہنچ گئے اور یہ کہہ کر گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا کہ میں بھی پیاسا ہوں اور تو بھی پیاسا ہے ۔ جب تک تو اپنی پیاس نہ بجھائے گا، میں پانی کو ہاتھ نہ لگاؤں گا۔ گھوڑا پانی پی چکا تو آپؓ نے پینے کے لئے پانی چلو میں لیا اور چاہتے تھے کہ اس سے اپنا حلق تر کریں کہ یکایک ایک تیر سامنے سے آکر لب ہائے مبارک میں پیوست ہوگیا۔ آپ نے پانی ہاتھ سے پھینک دیا، تیر کھینچ کر نکالا اور منہ خون سے لبریز ہوگیا۔ آپ خون کی کلیاں کرتے ہوئے باہر نکلے اور فرمایا:
''بارِ الٰہا! تو دیکھ رہا ہے کہ یہ لوگ تیرے رسولؐ کے نواسے پرکیا کیا ظلم کررہے ہیں ۔''

اتنے میں آوازآئی کہ ''حسینؓ دور نکل گئے اور اہل بیت کی بھی خبر نہ رہی۔'' یہ آواز سنتے ہی سرعت سے آپ خیموں کی طرف پلٹے۔ راستہ میں دشمنوں کے پَرے کے پَرے لگے کھڑے تھے۔ آپ اُنہیں چیرتے ہوئے خیموں میں پہنچ گئے۔ حضرت حسین ؓ کو مجروح اور خون میں شرابور دیکھ کر خیموں میں کہرام مچ گیا۔ آپ نے اُنہیں صبر کی تلقین کی اور باہر نکل آئے ایک تیر آپ کی پیشانی پر لگا جس سے سارا چہرہ مبارک لہولہان ہوگیا۔ چند لمحوں کے بعد ایک تیر سینہ اطہر میں آکر پیوست ہوگیا جس کے کھینچتے ہی ایک خون کا فوارہ جاری ہوگیا۔ آپؓ نے اس خون کو اپنے چہرہ پر مل لیا اور فرمایا کہ اسی حالت میں اپنے جدامجد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا۔

طاقت جواب دے چکی تھی، چاروں طرف سے تلواروں اور نیزوں کی بارش ہورہی تھی۔ آپؓ گھوڑے پر نہ سنبھل سکے ۔ تپتی ہوئی ریت پرگر پڑے۔ دشمن اگر چاہتا تو آپؓ کو اس سے بہت پہلے شہید کردیتا مگر کوئی شخص نبیرۂ رسول کا خون اپنے ذمہ نہیں لینا چاہتا تھا۔ اب شمر بن ذی الجوشن چلایا اور زرعہ ابن شریک تمیمی نے آگے بڑھ کر آپ کے دائیں ہاتھ کو زخمی کیا پھر شانہ پر تلوار ماری۔ آپ ضعف سے لڑکھڑائے تو سنان بن انس نخنی نے آگے بڑھ کر نیزہ مارا اور آپ بے ہوش ہوکر گرپڑے۔

آپ کے لئے جنت الفردوس کے تمام دروازے کھل چکے تھے۔ حورانِ فردوس آپ کو فردوس کے جھونکوں سے جھانک رہی تھیں ۔ حاملانِ عرش آپ کی آمد کے منتظر تھے۔ صالحین، صدیقین اور انبیاے علیہم السلام کی روحیں استقبالِ نواسۂ سرورِ انبیائ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تیار تھیں ۔ ملاے اعلیٰ میں ایک شور برپا تھا، جنت کی تزئیں و آرائش کی جارہی تھی کہ جوانانِ جنت کا سردار آنے والا ہے۔ آپ نے وفورِ انتشار حواس میں کروٹ بدلی اور آنکھ کھول کر دیکھا تو نمازِ عصر کا وقت تھا۔ فوراً سرسجدے میں جھک گیا اور نمازِ عصر ادا کی۔ اس کے بعد شمر نے حکم دیا کہ سرکاٹ لو۔ مگر اس وقت بھی آپؓ کے چہرہ پررعب و جلال کی یہ کیفیت تھی کہ کسی کو سرکاٹنے کی جراء ت نہ ہوئی۔ شیث بن ربیع آگے بڑھا مگر اس پر بھی ہیبت و رعب طاری ہوگیا، اس کے بعد سنان بن انس آگے بڑھا، اس کی بھی یہی حالت ہوئی۔ آخر شمر دوڑ کر آپ کے سینہ اطہر پر سوار ہوگیا اور جسم اوندھا کرکے سرتن سے جدا کردیا۔ دنیا نے شقاوت، ظلم اور بربریت کے بہت سے مناظر دیکھے ہوں گے، لیکن ایسا خوفناک سانحہ نہ دیکھا اور نہ دیکھے گی۔ إنا ﷲ وإنا إلیہ راجعون!

قتل حسینؓ اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

برادرانِ اسلام
سیدنا حسین ؓ کی حیاتِ طیبہ پر غور کیجئے کہ اُنہوں نے کس صبرواستقلال،اولوالعزمی اور جوانمردی سے دنیا کے سخت سے سخت مصائب و نوائب کا مقابلہ کیا۔ آخری دم تک حوصلہ نہ چھوڑا۔ قیامِ عدل وانصاف اور حصولِ آزادی کے لئے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے عزیزوں کو خاک و خون میں تڑپتے دیکھا اور آخر خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ آخر وقت میں بھی نماز کو ادا کیا اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہے۔
اے جوانانِ ملت! سیدناحسین رضی اللہ تعالے عنہ کی یہ عظیم الشان شہادت ہمارے لئے ایک دائمی اُسوہ حسنہ ہے۔ وہ اس مظلومیت کے علمبردار ہیں جس سے آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی مرصع ہے۔ جب بھی فرزندانِ اسلام پرظلم و استبداد اور غلامی کا ابر ِ غلیظ مسلط ہوگا۔ حضرت سیدنا حسین ؓ کا اُسوہ حسنہ رہنمائی کرے گا۔
کاش!اہل بیت کی خصوصی محبت کا دم بھرنے والے ماتم اور تعزیہ وغیرہ مشرکانہ بدعات چھوڑ کر حضرت حسین ؓ کی عظیم الشان قربانی کے اصل مقصد پر غور کریں ۔ اللہ تعالیٰ سب کلمہ گو مسلمانوں کو حضرت حسینؓ کے دلیرانہ نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین..

Indeed ❣️
29/07/2023

Indeed ❣️

29/07/2023

یزید کے 14 بیٹے اور 5 بیٹیاں تھیں جبکہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا صرف ایک بیٹا زین العابدین کربلا کے واقعے میں زندہ بچا تھا۔
(انا اعطینک الکوثر) کے خالق کا احسان دیکھئیے حُسین پاک کی نسل دنیا کے ہر کونے میں مل جاتی ہے۔
مگر آج تک کوئی ایک بھی انسان آپ کو ایسا ملا ؟ جو یہ کہتا ہو کہ میں یزید کی نسل سے ہوں ـ؟
گویا یزید (ان شانئک ھو الابتر) کی عملی تصویر ہے۔ جس بدبخت نے رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ والہ وسلم کی نسل کو ختم کرنے کی کوشش کی اسکی اپنی نسل الله پاک نے ختم کر دی۔

فراتِ وقتِ رواں ! دیکھ سوئے مقتل دیکھ
جو سر بلند ہے اب بھی وہ سر حسینؑ کا ہے۔

حضرت انس  ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت حسن بن علی  ؓ  سے بڑھ کر اور کوئی شخص نبی ﷺ سے زیادہ مشابہت نہیں رکھتا تھ...
29/07/2023

حضرت انس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: حضرت حسن بن علی ؓ سے بڑھ کر اور کوئی شخص نبی ﷺ سے زیادہ مشابہت نہیں رکھتا تھا۔
3752صحيح البخاري

28/07/2023

حضرت عمرؓ اپنے حجرہ حاص میں بیٹھے تھے کچھ مہمان آئے ہوئے تھے حضرت عمرؓ کے اپنے بیٹے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ ملنے آئے فرمایا میں ملنے آیا ہو حضرت عمرؓ نے کہا وہاں باہر کھڑے ہو جاٶ میں فارغ نہیں اور کوئی بھی آئے تو اندر نا بھیجنا حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ تھوڑی دیر گزری تو امام حسنؓ آگئے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو کھڑے دیکھا تو پوچھا امیرالمومنین کہاں ہے فرمانے لگے وہ تو اندرہے مہمانوں سے باتیں کر رہےہیں انہوں نے بولا تھا کہ کوئی آئے تو اندر نہیں بھیجنا عبداللہ بن عمرؓ نے کہا شہزادے آپ اندر جانا چاہیں تو میں نہیں روکتا آپ جانا چاہیں توآپ جا سکتے ہیں انہوں نے کہا کیا ضرورت ہے ابھی ظہر کی نماز ہوگی مسجد جاؤں گا اور عمرؓ سے ملاقات ہوگی تو مل لونگا اندر جانا ضروری تو نہیں جناب سیدنا امام حسنؓ واپس چلے گئے جب بات چیت ختم ہوگئی مجلس برحاست کی تو حضرت عمر فاروقؓ باہر تشریف لائے عبداللہؓ سے کہا کہ کیا کام ہے کیوں آئے ہو
تو عبداللہ ڈرتے ہوئےکہنے لگے کہ حضور میری تو خیر ہے امام حسنؓ آئے تھے تو کہا پھرکیا ہوا تو نے روکا تو نہیں حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہنے لگے میں نے تو کہا تھا آپپ جانا چاہے تو اندر چلے جائے لیکن اس نے کہا کہ ظہر کے وقت مسجد میں مل لونگا کہتے ہے حضرت عمرؓکے چہرے کا رنگ ہی بدل گیا سارے کام چھوڑ کر دوڑے گئے میں پیچھے پیچھے تھا امام حسنؓ کے دروازے پر دستک دی امام حسنؓ باہر آئے کہنے لگےشہزادے ملنے آئے تھے ملے کیوں نہیں واپس کیوں آگئے حضرت امام حسنؓ کہنے لگے امیر المومنین آپ کیوں تشریف لائے مجھے چھوٹا سا کام تھا مسجد میں ظہر کے وقت ملاقات ہو جاتی اور ویسے بھی آپ کا اپنا بیٹا دروازے پہ کھڑا تھا حضرت عمرؓ نے جب یہ لفظ سنے تو چیخ ہی نکل گئی رو پڑے کہنے لگے میرے بیٹے اور اپکا کیا مقابلہ شہزادے کیا اس کے باپ کانام علیؓ ہے اس کی ماں کا نام فاطمہؓ ہے کیا اس کی نانی کا نام حدیجہؓ ہے کیا اس کے نانا کا نام بھی محمد مصطفیﷺ ہے اور پھر جوش وجذبات میں اپنے سر سے پگڑی اتار دی اور کہنے لگے بیٹا میں مکہ کی صحراو ں میں اونٹ چرایا کرتا تھا اور مجھ سے دس اونٹ نہیں سنبھالے جاتے تھے میرے والد خطاب مجھے ڈنڈوں سے مارا کرتے تھے یہ جو میرے سر پر عزت کے بال ہیں یہ تیرے نانا محمدمصطفیﷺ کے اگائے ہوئے ہے آپ ایسا نا کریں۔
(الصواعق المحرقة، ج:2، ص: -(521)

28/07/2023

واقعہ کربلا 😢

( حصہ سوم....)😢

یکم محرم کو اور بعض روایتوں کے مطابق دو محرم کو اسی میدان میں اترے اور ساتھیوں سے پوچھا یہ کونسا میدان ہے؟اس کا نام کیا ہے؟انہوں نے بتایا کہ حضرت اس کا نام کربلا ہے ۔فرمانے لگے پس یہیں خیمے لگا دو ۔یہی ہمارے سفر کی آخری منزل ہے اس جگہ پہنچتے ہی آپ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وہ فرامین یاد آگئے جو آپ نے کربلا کے متعلق فرمائے تھے ۔اور بچپن کے زمانے کی یادیں اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دی ہوئی بشارتیں سامنے آ گئیں وہ بچپن کا لمحہ یاد آ گیا کہ جب امِ سلمہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق حضرت امِ سلمہ کی گود میں امام عالی مقام حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کھیل رہے تھے کہ آقا دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشمان مقدس پر آنسو آگئے ام المومنین نے پوچھا ! یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا بات ہے؟آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ہیں؟فرمایا۔(ترجمہ):۔اے امِ سلمہ!میرے پاس حضرت جبریل علیہ اسلام آیا ہے اور اس نے شہزادے کی طرف اشارہ کر کے مجھے بتایا ہے کہ آقا! آپ کے بعد امت کا ایک ظالم گروہ، آپ کے بیٹے حسین کو غریب الوطنی کے عالم میں شہید کر دے گا اور عراق کے جس میدان میں ان کی شہادت ہو گی اس کا نام کرب و بلا ہے اور یہ اس زمانہ کی سرخ مٹی ہے حضور صلی اللہ ولیہ وآلہ وسلم نے اس مٹی کو سونگھ کر فرمایا۔’’ریح کرب و بلا‘‘حقیقت یہ ہے کہ اس مٹی سے بھی رنج و الم اور دکھ اور درد کی بو آ رہی ہے۔یہی وہ میدان ہے جس کی نسبت میرے بابا علی نے خبر دی تھی کہ یہاں میرے حسین اور اس کے قافلے کے خیمے لگیں گے یہاں ان مسافروں کے کجاوے رکھے جائیں گے ۔یہاں ان کا مقدس خون بہایا جائے گا ۔اور آلِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک مبارک گروہ بے دردی کے ساتھ یہاں شہید کر دیا جائے گا ۔ایسی شہادت کہ جس پر زمین بھی روئے گی اور آسمان بھی آنسو بہائے گا ۔اسی میدان کی مٹی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت امِ سلمہ رضی اللہ عنہاکو عطا کی تھی اور فرمایا تھا !’’جب یہ مٹی خون میں تبدیل ہو جائے تو جان لینا میرا بیٹا شہید کر دیا گیا‘‘

اے امِ سلمہ اس مٹی کو سنبھال کر رکھنا ۔مجھے معلوم ہے کہ جب میرے بیٹے حسین کی شہادت کا وقت آئے گا ۔تو اس وقت تو زندہ ہو گی جب یہ مٹی سرخ ہو جائے تو سمجھ لینا کہ میرا بیٹا حسین شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ ساری بشارتیں پہلے سے دی جا چکی تھیں اس لیے امام عالی مقام نے اسی میدان کو اپنے سفر کی انتہا سمجھ کر خیمے لگائے اور یہ خیال فرمایا کہ دریا قریب ہے پانی میسر آئے گا۔لیکن ان ظالموں نے آپ کو پانی سے محروم کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔

جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ ابن زیاد کی طرف سے حُر کوحکم دیا گیاکہ قافلہ اہل بیت کو ایک ایسے میدان میں گھیر کر لے جاؤ جہاں کوئی قلعہ اور پانی کا چشمہ نہ ہو۔ اس حکم کے بعدحُـرّ نے مزاحمت کی۔ یہ ۲ محرم ۶۱ہجری کا واقعہ ہے کہ قافلۂ اہل بیت اپنے آخری مستقر یعنی نینوا کے میدان کرب و بلا میں خیمہ زن ہوگیا۔ زہیر بن قیسؓ نے کہا: یا ابن رسول اللہؐ! آئندہ جو وقت آئے گا، وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوگا۔ ابھی لڑنا آسان ہے، اس دستہ کے بعد جو فوجیں آئیں گی، ہم اُن کے ساتھ لڑ نہ سکیں گے، لیکن اس مجسمۂ ؓ شرافت و ایثار نے جواب میں فرمایا کہ ''میں اپنی طرف سے لڑائی کی ابتدا نہ کروں گا۔''

محرم ۶۱ہجری کو عمرو بن سعد چار ہزار فوج کے ساتھ آپ کے مقابل آکھڑا ہوا۔ عمروبن سعد نے قرہ بن سعد حنظلی کو ملاقات کے لئے بھیجا تو سیدنا حسینؓ نے فرمایا کہ مجھے تمہارے شہر والوں نے خطوط لکھ کر بلایا ہے، اب اگر میرا آنا تم کو پسند نہ ہو تو میں لوٹ جاتا ہوں ۔

ابن سعد اس جواب سے بہت متاثر ہوا اور تمام واقعہ ابن زیاد کو لکھ کر بھیجا۔ اس نے جواب دیا کہ تم حسینؓ اور اس کے ساتھیوں سے یزید کی بیعت لو۔ اگر وہ بیعت کرلیں تو پھر دیکھا جائے گا۔

اس کے بعد ہی دوسرا حکم یہ پہنچا کہ قافلہ اہل بیت پر پانی بند کردیا جائے۔ اس حکم پر ابن سعد نے پانچ سو سواروں کا ایک دستہ دریاے فرات پر پانی روکنے کے لئے متعین کردیا۔ اس دستہ نے ساتویں محرم سے پانی روک دیا۔ عبداللہ بن ابو حسین شامی نے سیدنا حسینؓ سے مخاطب ہوکر کہا: حسینؓ پانی دیکھتے ہو، کیسا آسمان کے جگر کی طرح جھلک رہا ہے ،لیکن خدا کی قسم تمہیں ایک قطرہ بھی نہیں مل سکتا، تم اسی طرح پیاسے مروگے!جب لشکر ِحسین ؓ پر پیاس کا غلبہ ہوا تو حضرت حسین ؓ کے سوتیلے بھائی حضرت عباس بن علی بیس سواروں اور بیس پیادہ افراد کے ساتھ گئے اور پانچ سو شامیوں کا مقابلہ کرکے پانی کی مشکیں لے آئے۔

رات کے وقت ابن سعد اور سیدنا حسین ؓ کے درمیان بڑی دیر تک گفتگو ہوتی رہی۔ روایت ہے کہ سیدنا حسین ؓ نے تین تجویزیں پیش کیں :

اوّل: یہ کہ یزید کے پاس بھیج دیا جائے۔
دوم : واپس جانے کی اجازت دی جائے۔
سوم: کسی سرحدی مقام پربھیج دیا جائے۔

عمر بن سعد نے آپ کی بات کو پسند کیا اور عمر بن سعد نے عبیداللہ بن زیاد کی طرف پیغام بھیج دیا۔۔۔

جب قاصد عبیداللہ کے پاس پہنچا اور اُسے خبر دی کے حضرت حسین رضی اللہ عنہ تمہیں تین باتوں میں سے کسی ایک بات قبول کرنے کا اختیار دیتے ہیں تو عبیداللہ بن زیاد راضی ہوگیا اور کہا حضرت حسین رضی اللہ عنہ جو بات پسند کریں وہ مجھے قبول ہے۔۔۔

اس وقت اس کے پاس شمربن ذی الجوش (نامی ملعون ومردود) بیٹھا ہوا تھا اور وہ ابن زیاد کا بڑا مقرب تھا اس نے کہا!۔۔۔ اللہ کی قسم ایسا نہیں ہوسکتا، بلکہ اسے چاہئے کے وہ اپنے آپ کو تمہارے سپرد کردے۔۔۔

چنانچہ ابن زیاد اس ملعون کی (خوشامدانہ) بات سے دھوکہ کھا گیا اور کہنے لگا ہاں وہ اپنے آپ کو میرے سپرد کردے (یعنی وہ میرے پاس کوفہ میں حاضر ہوں اور میں اُسے شام بھیجوں یا سرحدوں پر روانہ کروں یا مدینہ واپس بھیجدوں)۔۔۔

اسی دوران ابن زیاد کا دوسرا حکم پہنچا کہ تم حسین ؓ کے سفارشی بنتے ہو، اُ نہیں ڈھیل دیتے ہو، اگر وہ میرا حکم نہیں مانتے تو حملہ کرکے میدان صاف کردو۔ اگر تم اس کے لئے تیار نہیں ہو تو فوج کی کمان ذی الجوشن کے حوالے کردو۔

اس کے بعد ۹ محرم کو عصر کے وقت اس نے فوج کو تیاری کا حکم دے دیا۔ حضرت حسین ؓ نے فرمایا کہ میں نماز و دعا کے لئے ایک رات کی اجازت چاہتا ہوں ۔

رات کے وقت حضرت حسین ؓ نے اپنے ساتھیوں کو ایک دردناک خطبہ دیا۔ آپؓ نے فرمایا:

''الٰہی! تیرا شکر ہے کہ تو نے ہمارے گھرانے کو نبوت سے مشرف فرمایا اور دین کی سمجھ اور قرآن کا فہم عطا فرمایا۔ لوگو! میں نہیں جانتا کہ آج روئے زمین پرمیرے ساتھیوں سے افضل اور بہتر لوگ بھی موجود ہیں یا میرے اہل بیت سے زیادہ ہمدرد و غمگسار کسی کے اہل بیت ہیں ۔ اے لوگو! خدا تمہیں جزاے خیر دے۔ کل میرا اور اُن کا فیصلہ ہوجائے گا۔ غوروفکر کے بعد میری رائے ہے کہ رات کے اندھیرے میں تم سب خاموشی سے نکل جاؤ اور میرے اہل بیت کو ساتھ لے جاؤ۔ میں خوشی سے تمہیں رخصت کرتا ہوں ۔ مجھے کوئی شکایت نہ ہوگی۔ یہ لوگ صرف مجھے چاہتے ہیں اور میری جان لے کر تم سے غافل ہوجائیں گے۔''

حضرت سیدنا حسین ؓ کے ان الفاظ سے اہل بیت فرطِ بے قراری سے تڑپ اُٹھے اور سب نے بالاتفاق آپ سے وفاداری اور جاں نثاری کا عہد کیا۔ جب وفاداروں کی گرم جوشیاں ختم ہوئیں تو نماز کے لئے صفیں آراستہ کی گئیں ۔ سیدنا حسین ؓ اور ان کے رفقا ساری رات نماز، استغفار، تلاوتِ قرآن،دعا و تضرع میں مشغول رہے اور دشمن کے تیغ بکف سوار رات بھر لشکر حسینؓ کے گر چکر لگاتے رہے۔

10 محرم 61 ہجری کوجمعہ کے دن نمازِ فجر کے بعد عمرو بن سعد چار ہزار سواروں کو لے کر نکلا۔ حضرت حسین ؓ نے بھی اپنے اصحاب کی صفیں قائم کیں ۔ لشکر حسینؓ محض گنتی کے سواروں اور چند پیدل افراد پر مشتمل تھا۔

جب دشمن کی فوج نے پیش قدمی کی تو اس مجسمۂ ایثار و قربانی اور صبر واستقامت کے پیکر نے ان کے سامنے بہ آوازِ بلند مندرجہ ذیل خطبہ ارشاد فرمایا
:
''لوگو! میرا حسب نسب یاد کرو۔ سوچو! میں کون ہوں ۔ پھراپنے گریبانوں میں نظر ڈالو اور اپنے ضمیر کا محاسبہ کرو۔ کیا تمہارے لئے مجھے قتل کرنا اور میری حرمت کا رشتہ توڑنا جائز ہے؟ کیا میں تمہارے نبیؐ کی لڑکی کا بیٹا، ان کے چچیرے بھائی علی ؓ کا فرزند نہیں ہوں ۔ کیا سید ِشہدا حمزہؓ میرے باپ کے چچا نہیں تھے۔ کیا ذوالجناحین جعفر طیارؓ میرے چچا نہیں ؟ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میرے اور میرے بھائی کے حق میں یہ فرماتے ہوئے نہیں سنا:
سیدا شباب أہل الجنة (جوانانِ جنت کے سردار)

اگر میرا بیان سچا ہے اور ضرور سچا ہے، کیونکہ واللہ میں نے ہوش سنبھالنے سے لے کر اب تک جھوٹ نہیں بولا تو بتاؤ کیا تمہیں برہنہ تلواروں سے میرا مقابلہ کرنا چاہئے؟ کیا یہ بات بھی تمہیں میرا خون بہانے سے نہیں روک سکتی؟ واللہ اس وقت روے زمین پر بجز میرے، کسی نبی کی لڑکی کا بیٹا موجود نہیں ۔ میں تمہارے نبیؐ کا بلا واسطہ نواسہ ہوں ۔ کیا تم مجھے اس لئے ہلاک کرنا چاہتے ہو کہ میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے؟ کسی کا مال چھینا ہے۔ کہو کیا بات ہے... آخر میرا قصور کیا ہے؟''

آپؓ نے بار بار پوچھا مگر کسی نے جواب نہ دیا پھر آپ نے بڑے بڑے کوفیوں کو نام لے کر کر پکارنا شروع کیا: اے شیث بن ربیع! اے حجار بن بجر! اے قیس بن اشعث! اے یزید بن حارث! کیا تم نے مجھے نہیں لکھا تھا کہ پھل پک گئے ، زمین سرسبز ہوگئی، نہریں اُبل پڑیں ۔ اگر آپ آئیں گے تو اپنی جرار فوج کے پاس آئیں گے سو جلد آ جائیے۔

اس پر اُن لوگوں نے انکار کیا تو آپؓ نے چلا کر کہا : واللہ! تم ہی نے لکھا تھا۔ آخر میں آپ نے کہا: اگر مجھے پسند نہیں کرتے تو چھوڑ دو میں یہاں سے واپس چلا جاتا ہوں ۔
قیس بن اشعث نے کہا: آپ اپنے آپ کو اپنے عم زادوں کے حوالے کردیں ۔ اس کے جواب میں آپؓ نے فرمایا: واللہ! میں ذلت کے ساتھ کبھی اپنے آپ کو اُن کے حوالے نہیں کروں گا۔''

جس وقت ابن سعد نے فوج کو حرکت دی تو حُر اُن سے کٹ کر علیحدہ ہونے لگا تو مہاجر بن اوس نے اس سے کہا: مجھے تمہاری حالت مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔ حُر نے سنجیدگی سے جواب دیا: خدا کی قسم! میں جنت یا دوزخ کا انتخاب کررہا ہوں ۔ بخدا میں نے جنت منتخب کرلی ہے۔ یہ کہا اور گھوڑے کو ایڑ لگا لشکرحسینؓ میں پہنچ گیا اور نہایت عاجزی اور انکساری سے معافی کا خواستگار ہوا، آپؓ نے اُسے معاف فرما دیا۔

اس واقعہ کے بعد عمرو بن سعد نے کمان اُٹھائی اور لشکر ِحسین ؓ کی طرف یہ کہہ کر تیر پھینکا کہ گواہ رہو، سب سے پہلا تیر میں نے چلایا ہے۔(جاری ہے)

Address

Bhakkar

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Bilal Writes posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Bilal Writes:

Videos

Share

Category