ہم نا ہوتے تو حادثات جہاں جانے کس کس کے سر گئے ہوتے🖤
زرد رو پھول ہیں
اداس سہمی کونپلیں
گیت بیگانے
اور لفظ بےزار
سر الجھے
بے تال
اور سرگم بےجان ہے
جسم سے روح کا رشتہ نا خوش گوار ہے
کرنیں بجھی سی
ہوا رکی سی
چاندنی ناراض ہے
رنگ سیاہ ہیں سارے
اور صبحیں سرمئی سی
استعارے سارے
سر جھکائے
مایوس سے
چپ چاپ سے
رستے گمشدہ
منزلیں بےنام ہیں
اجنبی سی زندگی ہے
انجان سے سب نام ہیں
حرف بےجان
مضمون سارے ممنوع
پوچھتے ہو
کیا دکھ ہے
جینا دکھ ہے
مرنا دکھ ہے
رونا دکھ ہے
ہنسنا دکھ ہے
تو دکھ ہے
میں دکھ ہے
تمام دکھ ہے
خاموشی کی گونج میں، میرا دل سب سے اداس راگ سنتا ہے، آپ کی محبت کی یادیں غائب ہیں
ہر آنسو ایک کہانی سناتا ہے، اور کھوئے ہوئے پیار کے درد کو بیان کرتا ہے، میری روح کو تیری غیر موجودگی کے سائے میں چھوڑ دیتا ہے
یادوں کی گیلری میں، ہمارے فریم مدھم پڑ گئے ہیں، جس نے مجھے تنہائی کے برش اسٹروک سے دکھ کی تصویر پینٹ کرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے
گزشتہ برسوں کے پرفتن دسمبر میں، اس کی ہنسی ٹھنڈ کی خوشبو سے مہکتی ہوا کے ساتھ رقص کرتی تھی،
جس سے محبت کی سمفنی پیدا ہوتی تھی جو ہمارے حسین لمحات میں گونجتی تھی
جیسے ہی برف کے پہلے تودے آہستہ سے گرتے تھے اسی طرح ہماری دلوں کی محبت بھی موسم سرما کے گلاب کی طرح کھلنے لگتی تھی
مگر اب وہ اپنے پیچھے یادوں کا ایک ایسا منظر چھوڑ کر جا چکی ہے اب چمکتی ہوئی روشنیاں اور کیرول کی دھنیں صرف اس محبت کی تلخ یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہیں
اس اداس دسمبر میں، میں اپنے آپ کو پرانی یادوں کی گلیوں میں گھومتا ہوا پاتا ہوں،
یہ دسمبر کا سرد موسم جو کبھی ہماری محبت کی علامت ہوتا تھا اب دردِ دل کی ایک پُرجوش غزل بن گیا ہے، اور اس کے نام کی گونج خاموش راتوں میں گونجتی ہے، ہمارے ماضی کی شاعری کو ایک سوگوار راگ میں بدل دیتی ہے جسے صرف میرا تنہا دل ہی محسوس کر سکتا ہے
طاھر نیکوکارہ
میری قسمت میں ہی جب خالی جگہ لکھی تھی
تجھ سے شکوہ بھی اگر کرتا تو کیسے کرتا
میں وہ سبزہ تھا جسے رونددیاں جاتا ہے
میں وہ جنگل تھا جسے کاٹ دیا جاتا ہے
میں وہ در تھا جسے دستک کی کمی کھاتی ہے
میں وہ منزل تھا جہاں ٹوٹی ہوئی سڑک جاتی ہے
میں وہ گھر تھا جسے آباد نہیں کرتا کوئی
میں تو وہ تھا جسے یاد نہیں کرتا کوئی
مجھ سے پہلے تجھے جس شخص نے چاہا اس نے
شاید اب بھی تیرا غم دل سے لگا رکھا ہو
ایک بے نام سی امید پہ اب بھی شاید
اپنے خوابوں کے جزیروں کو سجا رکھا ہو
میں نے مانا کہ وہ بیگانہ ٴپیمانِ وفا
کھو چکا ہے جو کسی اور کی رعنائی میں
شاید اب لوٹ کے نا آئے تیری محفل میں
اور کوئی دکھ نا رلائے تجھے تنہائی میں
میں نے مانا کہ شب و روز کے ہنگاموں میں
وقت ہر غم کو بھلا دیتا ہے رفتہ رفتہ
چاہے امید کی شامیں ہوں کہ یادوں کے چراغ
مستقل بُعد بجھا دیتا ہے رفتہ رفتہ
پھربھی ماضی کا خیال آتا ہے گاہے گاہے
مدتیں درد کی لو کم تو نہیں کر سکتیں
زخم بھر جائیں مگر داغ تو رہ جاتا ہے
دوریوں سے کبھی یادیں تو نہیں مر سکتیں
یہ بھی ممکن ہے کہ اک دن وہ پشیماں ہو کر
تیرے پاس آئے زمانے سے کنارہ کر لے
تُو کہ معصوم بھی ہے، زُود فراموش بھی ہے
اس کی پیماں شکنی کو بھی گوارہ کر لے
اور میں جس نے تجھے اپنا مسیحا جانا
ایک دکھ اور بھی پہلے کی طرح سہہ جاؤں
جس پہ پہلے بھی کئی عہدِ وفا ٹوٹے ہیں
اسی دوراہے پہ چپ چاپ کھڑا رہ جاؤں...!
احمد فراز
بارشوں کے موسم میں
دل کی سر زمینوں پر
گرد کیوں بکھرتی ہے؟
اس طرح کے موسم میں
پھول کیوں نہیں کھلتے؟
لوگ کیوں نہیں ملتے؟
کیوں فقط یہ تنہائی
ساتھ ساتھ رہتی ہے؟
کیوں بچھڑنے والوں کی
یاد ساتھ رہتی ہے؟
اتنی تیز بارش سے
دل کے آئینے پر سے
عکس کیوں نہیں دھلتے؟
زخم کیوں نہیں سلتے؟
نیند کیوں نہی آتی؟
بارشوں کے موسم میں
آنکھ کیوں برستی ہے؟
اشک کیوں نہیں تھمتے؟
بارشوں کے موسم میں
لوگ کیوں نہیں ملتے؟
#TeriYaadMein
میں گھر سے بھاگے ہوؤں کا دکھ ہوں
میں آئینوں سے گُریز کرتے ہوئے پہاڑوں کی کوکھ میں سانس لینے والی اداس جھیلوں میں اپنے چہرے کا عکس دیکھوں تو سوچتا ہوں۔
کہ مجھ میں ایسا بھی کیا ہے مریم ۔
تمہاری بے ساختہ محبت زمین پہ پھیلے ہوئے سمندر کی وسعتوں سے بھی ماورا ہے
محبتوں کے سمندروں میں بس ایک بحیرۀ ہجر ہے جو بُرا ہے مریم ۔
خلا نوردوں کو جو ستارے معاوضے میں ملے تھے وہ ان کی روشنی میں یہ سوچتے ہیں
کے وقت ہی تو خدا ہے مریم ۔
اور اس تعلق کی گٹھٹریون میں رُکی ہوئی ساعتوں سے ہٹ کر
میرے لیے اور کیا ہے مریم ۔
ابھی بہت وقت ہے کہ ہم وقت دیں ذرا ایک دوسرے کو مگر ہم ایک ساتھ رہ کے بھی خوش نہ رہ سکے تو معاف کرنا کہ میں نے بچپن ہی دکھ کی دہلیز پہ گزارا
میں ان چراغوں کا دھواں ہوں کہ جن کی لویں شبِ انتظار میں بُجھ گئی مگر ان سے اٹھنے والا دھواں زمان و مکان میں پھیلا ہوا ہے اب تک
میں کوہساروں اور ان کے جسموں سے بہنے والی ان آبشاروں کا دکھ ہوں کہ جن کے گالوں پر رینگتے رینگتے زمانے گزر گئے ہیں
جو لوگ دل سے اتر گئے ہیں
کتابیں آنکھوں پر رکھ کے سوئے ہوئے تھے مر گئے میں ان کا دکھ ہوں
جو جسم خود لذتی سے اکتا کے آئینوں کی تسلیوں میں پلے بڑھے ہیں میں ان کا دکھ ہوں
میں گھر سے بھاگے ہوؤں کا دکھ ہوں
میں رات جاگے ہوؤں کا دکھ ہوں
میں ساحلو
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے
احمد فراز
ہو رہا ہوں میں کس طرح برباد
دیکھنے والے ہاتھ مَلتے ہیں
جون ایلیا
#TeriYaadMein
جدائی
میری زندگی میں جدائی کا مطلب موت بھی ہے اور حیات بھی،ایک جدائی ان کی جن سے میرا مستقبل جڑا ہوا تھا اور ایک جدائی ان کی جن سے میرا ماضی حال اور مستقبل سب کچھ جڑا ہوا ہے، موت سے بڑھ کر سفاک کوئی چیز نہیں مگر موت کے اندر یہ خاصیت بھی ہے کہ وہ اپنی کرنی کر جائے تو پیچھے صبر لازمی چھوڑ جاتی ہے، مگر یہ حیات موت سے کئی گنا زیادہ سفاک ہے زندگی میں کوئی ھم سے دور ہوجائے تو یہی زندگی ھمارے لیئے عذاب بن جاتی ہے، اور زندگی میں بچھڑنے والے زندہ لوگوں پر صبر تو آ ہی نہیں سکتا نا، میں نے دونوں جدائیاں دیکھی ہیں اور دونوں نے ٹھیک ٹھاک حساب لیا ہے، اور ان دونوں جدائیوں سے بھی بڑی اذیت ناک جدائی ہے وہ جدائی جس میں آپ کو بچھڑنے والا دور ہوجانے والا کبھی ملا ہی نا ہو مگر وہ آپ کیلئے شہ رگ سے بھی قریب ہو ایک عجیب وحشت ناک احساس کہ کوئی آپ کا ہو بھی نا اور اس کے ملنے کی تمنا بھی نا ہو مگر وہ آپ سے دور ہوجائے تو عجیب سی ذہنی روحانی اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے انسان پتہ نہیں قدرت کا کونسا راز ہے کہ یہ تینوں احساس ملے اور خوب ملے، جدائی بذات خود ایک اذیت ہے ایک جھنم ہے ایک آگ ہے جس میں انسان جلتا رہتا ہے تڑپتا رہتا ہے ۔۔۔
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں
نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے
میں وہ ایک مشت غبار ہوں
نہ تو میں کسی کا حبیب ہوں
نہ تو میں کسی کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں
جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں
میرا رنگ روپ بگڑ گیا
میرا یار مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا
میں اسی کی فصل بہار ہوں
پیے فاتحہ کوئی آئے کیوں
کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں
میں وہ بے کسی کا مزار ہوں
نہ کسی کے آنکھ کا نور ہوں
نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
#TeriYaadMein
بے جان دل کو تیرے عشق نے زندہ کیا
پھر تیرے عشق نے ہی اس دل کو تباہ کیا
تڑپ تڑپ اس دل سے آہ نکلتی رہی
مجھکو سزا دی پیار کی
ایسا کیا گناہ کیا
تو لٹ گئے ہاں لٹ گئے
ہم تیری محبت میں
عجب ہے عشق یارا
پل دو پل کی خوشیاں
غم کے خزانے ملتے پھر
ملتی ہیں تنہائیاں
کبھی آنسو
کبھی آنہیں
کبھی شکوے
کبھی نالے
تیرا چہرہ نظر آئے
تیرا چہرہ نظر آئے
مجھے دن کے اجالوں میں
تیری یادیں تڑپائیں
تیری یادیں تڑپائیں
راتوں کے اندھیروں میں
تیرا چہرہ نظر آئے
مچل مچل کے اس دل سے آہ نکلتی رہی
مجھکو سزا دی پیار کی
ایسا کیا گناہ کیا
تو لٹ گئے ہاں لٹ گئے
ہم تیری محبت میں
اگر ملے خدا تو
پوچھو گا اے خدایا
جسم مجھے دے کے مٹی کا
شیشے سا دل کیوں بنایا
اور اس پہ دیا پھر فطرت
کہ وہ کرتا ہے محبت
واہ رے واہ تیری قدرت
واہ رے واہ قدرت
اس پہ دیا قسمت
کبھی ہے ملن کبھی فرقت
کبھی ہے ملن کبھی فرقت
ہے یہی کیا وہ محبت
واہ رے واہ تیری قدرت
سسک سسک کے اس دل سے آہ نکلتی رہی
مجھکو سزا دی پیار کی
ایسا کیا گناہ کیا
تو لٹ گئے ہاں لٹ گئے
تو لٹ گئے ہم تیری محبت میں
#TeriYaadMein