IRPC

IRPC Islamic Research And Propagation Centre (IRPC)
Canal Avenue, Rawalpora, Srinagar
(6)

نئی نسل کو اسلام پر باقی رکھنے کے لئے معیاری اسکولوں کی ضرورتمفکر اسلام  مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ تعا...
13/10/2024

نئی نسل کو اسلام پر باقی رکھنے کے لئے معیاری اسکولوں کی ضرورت

مفکر اسلام مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی رحمہ اللہ تعالی

خبـــردار!!! ہر قــاسمی اصلی قاسمی نہیں ہوتا  فضیل احمد ناصریآج کل اپنی مادر علمی بالخصوص اپنی آخری مادرعلمی کی طرف انتس...
08/10/2024

خبـــردار!!! ہر قــاسمی اصلی قاسمی نہیں ہوتا

فضیل احمد ناصری

آج کل اپنی مادر علمی بالخصوص اپنی آخری مادرعلمی کی طرف انتساب ایک "علامت "بن کر رہ گیا ہے-
کوئی *مفتاح العلوم مئو* کا فارغ ہو تو مفتاحی،
*دارالعلوم فلاح دارین ترکیسر گجرات* یا جامعۃ الفلاح اعظم گڑھ کا فارغ ہو تو فلاحی،
جامعہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہو تو علیگ،
*دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ* کا ہو تو ندوی،
*جامعہ ہتھورا باندہ کا ہو،* تو باندوی،
*جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور* کا ہو تو مظاہری،
اسی طرح *دارالعلوم دیوبند* کا ہو تو قاسمی لگاتا ہے- وغیرہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ نسبت اس بات کی واضح نشانی ہے کہ صاحبِ نسبت نے فلاں ادارے سے اپنے نصابِ عالمیت کی تکمیل کی ہے- یہ نسبت دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کرنے والوں کے لیے خاص ہے- اس نسبت کا استعمال صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ داخلہ لے کر نصابِ عالمیت کی تکمیل کی ہو-
جس شخص کا داخلہ نہیں ہوا، مگر اس نے نصاب کی تکمیل کی ہے تو دیانتاً، قانوناً ً اور قاعدہ کے مطابق اسے اس نسبت کی اجازت نہیں۔
اگر کوئی شخص شعبۂ سماعت سے فراغت پاکر ہی اس "ٹریڈمارک" کو استعمال کرتا ہے تووہ کذاب اور دجال ہے- .......
بعض طلبہ شعبۂ حفظ اور شعبۂ تجوید پڑھ کر ہی یہ نسبت گھسیٹ لاتے ہیں- یہ فراڈ اور جعل سازی ہے- .......

یہاں یہ عرض کر دوں کہ اداروں یا شخصیات کی جانب انتساب کا رجحان ماضی بعید میں نہیں تھا- ہمارے سارے اکابر اپنے وطن کی طرف منسوب ہوا کرتے تھے -
متکلم اسلام مولانا قاسم رحمہ اللہ اپنے گاؤں نانوتہ کی طرف،
حضرت مولانا رشید احمد رحمہ اللہ اپنے گاؤں گنگوہ کی طرف،
*حکیم الامت مولانا اشرف علی رحمہ اللہ اپنے گاؤں تھانہ بھون کی طرف،
مولانا محمد الیاس صاحب قدس سرہ اپنے قصبہ "کاندھلہ" کی طرف،
امام العصر علامہ محمد انور شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ اپنی وادی "کشمیر" کی طرف
مولانا حبیب الرحمن رحمہ اللہ اور مولانا نعمت اللہ صاحب اپنے قصبہ "اعظم گڑھ "کی طرف،
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اپنے قصبہ "کاندھلہ" کی طرف،
مولانا ریاست علی رحمہ اللہ اپنے قصبہ "بجنور" کی طرف،
مفتی سعید احمد رحمہ اللہ اپنے قصبہ "پالنپور" کی طرف،

الغرض سارے ہی اکابر کا یہی حال تھا ....

میری تحقیق کے مطابق حضرت کشمیری کے دور تک دارالعلوم دیوبند کا کوئی فاضل "قاسمی "نہیں لکھتا تھا،
حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب مہتمم دارالعلوم دیوبند "قاسمی "ضرور لکھتے تھے، مگر اپنے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی طرف منسوب ہوکر لکھتے تھے......
قاسمی لکھتے وقت ان کے ذہن میں ادارہ ہرگز نہیں تھا- پھر خدا معلوم کس طرح یہ سلسلہ چل پڑا ؟؟؟
میں نے قدیم دارالعلوم میں تین سال پڑھا ہے، میری فراغت وہیں سے ہے - آغاز میں قاسمی لکھنے کا بڑا شوق تھا، خوب لکھا، لیکن رفتہ رفتہ یہ سودا کافور ہو چکا ہے اور اب میں "ناصری "سے آگے کوئی نسبت نہیں لگاتا، الاماشاءاللہ..
یہ نسبت میرے سترہویں دادا قطب الارشاد"مخدوم شاہ محمد ناصر رحمہ اللہ " کے اسم گرامی کی طرف ہے........
خیر! چالیس سال پہلے تک "نسبت قاسمی" اتنی بھی عام نہیں تھی، چند لوگ ہی لکھا کرتے تھے-....
یہی حال مظاہری اور دیگر علمی نسبتوں کا بھی ہے......

شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی فاضلِ مظاہر تھے، مگر مظاہری نہیں لکھتے تھے.......
یہ نسبتیں لگانے کا رواج صرف ہندوستان میں ہے- باہر ایسا نہیں ہے........
ہمارے فضلا پر انتساب کا جنون اس حد تک غالب ہے کہ اب تو صورت حال ہی بدل چکی ہے.... داخلے کا مقصد ہی "قاسمی" یا "ندوی" ٹائٹل کا حصول بنا رکھا ہے - سچ کہیے تو اب طلبہ "طالبِ علم " کم اور "طالبِ سند " زیادہ ہوتے ہیں - جس ادارے میں "نسبتِ قاسمی " یا "ندوی" کی اجازت ہے، وہاں داخلہ پاتے ہی بعض طلبہ قاسمی یا ندوی لگانا شروع کردیتے ہیں، خواہ وہ اول دوم میں ہوں یا حفظ و تجوید میں .......

ایک لطیفہ یاد آیا: حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم کی سندِ مسلسلات پر ایک عزیز کے یہاں نظر پڑگئی، دیکھا تو ایک طالب علم کا نام مع قاسمی لکھا تھا-.... مجھے شک ہوا کہ کہیں وہ طالب علم تو نہیں جو فلاں ادارے میں زیر تعلیم ہے؟ اچانک وہی طالب علم آگیا ......
میں نے پوچھا : یہ سند تم نے حاصل کی ہے؟
شرما کر بولا: جی حضرت! ..... یہ دارالعلوم وقف کا طالب علم نہیں تھا اور مزے کی بات یہ کہ ابھی عربی دوم ہی پڑھ رہا تھا..........
اب تو بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام ہی "قاسمی " رکھ ڈالتے ہیں........
بعض لوگ اپنے قاسمی باپ یا دادا کی طرف منسوب ہو کر خود کو قاسمی لکھنے میں ذرا بھی شرم محسوس نہیں کرتے........ ہلدی لگی، نہ پھٹکری، رنگ آے چوکھا ....... یہ درست نہیں ہے.......
اس دور میں ہمارے وطن میں "قاسمی" یا "ندوی" کا مطلب "عالمیت کا نصاب مخصوص اداروں سے مکمل کرنے والا " ہے، لہذا غیر عالم کے لیے یہ نسبت درست نہیں........

اس بات کی ٹھوس دلیل حسب ذیل ہے :-
پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹے کا نام "قاسم "تھا، اسی لیے آپ کی کنیت "ابوالقاسم "بھی تھی.... حضور علیہ السلام کے دور میں ایک شخص نے آواز لگائی: اے ابوالقاسم! ...... پیغمبر علیہ السلام متوجہ ہوے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ ..... وہ صاحب کہنے لگے کہ میں نے آپ کو نہیں، فلاں صاحب کو پکارا تھا.....
آپ علیہ السلام نے منع فرمادیا "لاتکتنوا بکنیتی " میری کنیت استعمال نہ کیا کرو! .......
یہ ممانعت اشتباہ کے پیش نظر تھی.......
یہ بھی خیال رہے کہ اپنے باپ دادا کی طرف منسوب ہو کر بھی قاسمی یا ندوی لکھنا درست نہیں.....
اگر اپنے آبا کی طرف منسوب ہوکر لکھنے کی اجازت ہو تو امت کے ہر فرد کو "قاسمی " لکھنے کا استحقاق ہوگا، کیوں کہ حضور علیہ السلام کا ایک نام قاسم بھی ہے، حدیث رسول ہے: انما انا قاسم واللہ یعطی.........
مگر اس کا کوئی بھی قائل نہیں.................
افادے کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ مفتاحی " کی نسبت دو ادارے سے فارغ طلبہ لگاتے ہیں: مفتاح العلوم مئو اور مفتاح العلوم جلال آباد..... فلاحی کی نسبت کا استعمال دارالعلوم فلاحِ دارین ترکیسر گجرات والے کرتے ہیں اور جامعۃ الفلاح بلیریا گنج والے بھی....
مظاہری کی نسبت جامعہ مظاہر علوم قدیم و جدید کے فضلا لگاتے ہیں... اسی طرح مظاہرعلوم سیلم تملناڈ سے فارغ التحصیل بھی مظاہری لکھتے ہیں.....
مدرسہ معہد ملت مالے گاؤں کی نسبت علمی "ملّی "ہے، قاسمی کی نسبت کئی ادارے سے فارغ طلبہ لگاتے ہیں: دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، جامعہ قاسمیہ کھروڈ گجرات، مدرسہ شاہی مراد آباد اور جامع مسجد امروہہ...... وغیرہ
یہ عجیب بات ہے کہ" علیگ" ایک ہی ہوتا ہے، "ملّی" بھی ایک ہی اور "ندوی" بھی ایک ہی، مگر قاسمی متعدد .......
یاد رکھیے کہ دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم وقف کے علاوہ کسی اور ادارے سے فارغ ہونے والا اپنے آپ کو اگر قاسمی لکھتا ہے تو یہ سراسر ملت اسلامیہ کو دھوکہ دینے کے مترادف ھوگا- نسبت قاسمی کا ان دو اداروں کی طرف منسوب ہونا اس قدر عام ہے کہ "قاسمی " سنتے ہی ذہن کا تبادر صرف انہیں دو اداروں کی طرف ہوتا ہے-
ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ بعض لوگ باپ دادا کی طرف منسوب ہوکر بھی بے تکلف قاسمی لکھتے ہیں...... میں یہ تفصیل ایک پس منظر میں دے رہا ہوں..... واقعہ یہ ہے کہ پرسوں یعنی رمضان کی اکیسویں شب میں میرا موبائل بجا، ریسیو کیا تو انہوں نے اپنا نام "ناظم قاسمی" بتایا...... میں نے وجہِ تخاطب دریافت کی تو کہنے لگے کہ میں سلطان پور سے بول رہا ہوں اور مجھے مسئلہ معلوم کرنا ہے-
میں نے کہا ضرور!!!
انہوں نے پوچھا: "اگر کوئی خاتون بجاے انسان کسی جانور سے جنسی تعلق قائم کرے تو عورت پر غسل واجب ہوگا ؟؟؟ میں نے کہا: جی ہوگا......
وہ صاحب شک کے ساتھ کہنے لگے کہ "فتاویٰ رشیدیہ " میں تو عدمِ وجوب کی بات ہے.....
میں نے پوچھا "کس نے بتایا؟ "
تو کہتے ہیں کہ میں نے خود پڑھا ہے..... مولانا گنگوہی نے ایسا لکھا ہے اور شاید وہ فتاویٰ رشیدیہ ہی تھی.... اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا......
اس نے دوسرا سوال داغا: الافاضات الیومیہ جلد سوم میں مولانا تھانوی کا واقعہ انتہائی بھونڈے انداز میں نقل کیا گیا ہے...... پھر انہوں نے پورا واقعہ سنایا جو شرمناک ہونے کے سبب مجھے بھی اچھا نہیں لگا......
میں نے کہا: جناب عالی! یہ قصہ حضرت تھانوی کا نہیں ہوگا..... سیاق و سباق دیکھیے! کسی اور کا قصہ حضرت نے بیان کیا ہوگا.....
کہنے لگے: یہ "سیاق وسباق " کیا بلا ہے؟
میں نے کہا کہ قصے کا تعلق یا تو اگلی عبارات سے ہے یا پچھلی عبارات سے......
کہنے لگے: آگے پیچھے کسی بندے کا کوئی ذکر نہیں ہے- یہ قصہ تھانوی کا ہی ہے.....
میں نے کہا کہ کتاب کا اسکرین شاٹ لے کر میرے پاس بھیجیے! جواب آیا کہ میرا موبائل سادہ ہے، میرے لیے یہ ممکن نہیں، پھر انہوں نے اپنا درد بیان کیا کہ مولانا! ہمارے علما کیا کیا لکھ ڈالتے ہیں؟ ہمارے لیے جواب دینا بھاری پڑجاتا ہے.... میں نے اس کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی، مگر اس نے فون کاٹ دیا.......
میں سوچ میں پڑگیا کہ "قاسمی" اور ایسی بے تکی باتیں؟؟؟ ٹھیک ہے کہ ہر قاسمی باصلاحیت نہیں ہوتا، پر ایسا بدصلاحیت بھی تو نہیں ہوتا کہ "خیالِ شریف " میں کوئی معمولی بات بھی نہ گھس سکے ......... پھر بیچ بیچ میں حضرت گنگوہی اور حضرت تھانوی سے متعلق اس کا طرزِ کلام انتہائی ناشائستہ بھی تھا....... ایک قاسمی کی زبان ایسی کیوں کر ہونے لگی؟؟؟ ضرور یہ کوئی فراڈی ہے اور شیر کی کھال میں کوئی گدھا آگیا ہے......
میں نے فون ملایا اور پوچھا: جناب! کیا نام بتایا آپ نے؟؟؟؟ کہنے لگا: ناظم قاسمی سلطانپوری.....
میں نے دریافت کیا: آپ کہاں سے فارغ ہیں؟
کہنے لگا: میں ایک عام آدمی ہوں، کسی مدرسے سے پڑھا لکھا نہیں ہوں......
میں نے پوچھا: پھر قاسمی کی وجہ؟؟؟؟
کہنے لگا: بس یوں ہی شوقیہ لگاتا ہوں-
میں نے کہا: شاید آپ کے والد کا نام قاسم ہے....
کہنے لگا: نہیں...
تو پھر دادا کا نام قاسم ہوگا..... اس نے اس سے بھی انکار کردیا...... کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں قاسمی لکھنے کا عام رجحان ہے، پڑھا بے پڑھا سب لگاتا ہے، اس لیے میں بھی لگاتا ہوں......
میں نے کہا: جناب! یہ حرام ہے......
اگر کسی کے والد کا نام "عابد " ہو اور "خالد " نامی کسی شخص کی طرف اپنا انتساب کرتے ہوے "خالدی "لکھے تو یہ "باپ بدلنا "ہوا....... یہ حرام عمل ہے- ایسے شخص پر اللہ، رسول، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت برستی ہے -
بخاری شریف میں ہے "من انتمیٰ الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین.........
پھر میں نے زور دے کر کہا آپ "بریلوی "ہیں، آپ اہلِ حق ہرگز ہرگز نہیں...... اہلِ حق کی زبان ایسی نہیں ہوسکتی............. میرے ان توبیخی جملوں اور سوطی لفظوں کے بعد اس کی زبان لڑکھڑا گئی........ وہ بول بھی نہیں پا رہا تھا ..... بعد میں پتہ چلا کہ واقعی وہ بریلوی تھا.......اس نے کہا تھا کہ "انڈرائڈ موبائل " میرے پاس نہیں، جب میں نے چیک کیا تو اس کا جھوٹ یہاں بھی کھل کر آیا......

میں یہ مضمون اسی "جعلی قاسمی " کے واٹس ایپ بکس میں لکھ رہا ہوں-........
کہنے کا حاصل یہ کہ آج کل بھیڑ کی شکل میں بھیڑیے گھوم رہے ہیں..... کسی مضمون میں مصنف کے نام کے ساتھ "قاسمی یا ندوی" دیکھ کر ہرگز یقین نہ کریں کہ اصلی قاسمی یا ندوی کا قلم ہے، بلکہ تحقیق کرلیں کہ وہ کس بناپر قاسمی ہے اور اگر وہ فارغ التحصیل ہے بھی، تو کس ادارے سے اور اس کے اساتذہ کے نام کیا ہیں؟؟؟
اللہ عزوجل تمام مسلمانوں کو "مکر و زور "سے محفوظ رکھے۔

07/10/2024

زمین کو بٹائی پر دینا مطلق حرام ہے؟
قرآن و سنت کی روشنی میں مدلل جواب

Golden opportunity for Brothers.online Tajweed course for Males For registration, contact this number(WhatsApp). 6005687...
07/10/2024

Golden opportunity for Brothers.
online Tajweed course for Males
For registration, contact this number(WhatsApp). 6005687752

05/10/2024
04/10/2024

نِکر اور دیگر غیر شرعی لباس پہننے والے دھیان سے سنیں

Those Who Wear Knickers / Shorts And
Other Un-Islamic Clothing Listen Carefully

مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی
M***i Nazir Ahmad Qasmi DB

04/10/2024

Important Instructions For Those Who Recite The Azaan
اذان پڑھنے والوں کے لیے ضروری ہدایات
مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب
M***i Nazir Ahmad Qasmi

03/10/2024
30/09/2024

Request to parents of girls studying abroad بیرون ریاست تعلیم حاصل کرنے والی بچیوں کے والدین سے گذارش
مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی دامت برکاتہم
Maulana M***i Nazir Ahmad Qasmi

26/09/2024

" اللقاء المثمر مع الدكتور عبد اللطيف الکندي حفظه الله "
في يوم الأربعاء الموافق ٢٥ سبتمبر ٢٠٢٤، احتشدت مجموعة كبيرة من طلاب العلم بقيادة أستاذ التفسیر والحدیث و علومھما العالیة الشریفة بدار العلوم ندوۃ العلماء الشيخ الفاضل الدکتور فيصل أحمد الندوي البھتکلی حفظه الله في زيارة علمية مهيبة إلى مجلس رئیس جمعیة أھل الحدیث جمو و کشمیر الدكتور عبد اللطيف الكندي حفظه الله ، العالم الجليل والشخصية البارزة في العلوم الإسلامية ۔ كانت هذه الزيارة ضمن سلسلة اللقاءات العلمية التي تهدف إلى ترسيخ أسس العلم الشرعي وتبادل الآراء الفقهية والفكرية ۔
مع دخول الطلاب إلى المجلس، كان المكان يفيض بأجواء روحية سامية، ومشاعر التقدير والاحترام تملأ القلوب ۔ الدكتور عبد اللطيف الكندي، بحكمته وسموّ علمه، استقبلهم بوجه بشوش وابتسامة تعكس تواضع العلماء الكبار ۔
بدأ المجلس بجو من الترحاب الحار، حيث استقبل الدكتور الكندي ضيوفه بعناية كبيرة وتقدير بالغ ۔ وقد تميزت الجلسة بطابعها العلمي الرفيع، حيث تطرق النقاش إلى مسائل دقيقة ومهمة تتعلق مع تقديم رؤى جديدة وتحليلات عميقة لبعض القضايا المعاصرة ۔
كانت الجلسة أشبه بلؤلؤة من لآلئ المعرفة، حيث اختلطت فيها الأفكار النقية والروح العالية، وصارت قاعة المجلس وكأنها صرحٌ من صروح العلم تضيء جوانب العقول وتغذي الأرواح ۔ في ختام اللقاء، ودّع الدكتور عبد اللطيف الكندي طلابه بكلمات ملؤها التشجيع والدعاء، محفزًا إياهم على مواصلة طريق العلم والإبداع، ومؤكدًا على أن العلم لا نهاية له، بل هو بحر كلما غُصت في أعماقه، زادت كنوزه وجواهره ۔
كان هذا اللقاء علامة فارقة في حياة كل من حضره، وخرج الجميع من المجلس وقد امتلأت قلوبهم بالعزم والهمة، وكأنهم قد ارتووا من نهر المعرفة الذي لا ينضب ۔
الشيخ فيصل الندوي، بعلمه العميق وشخصيته الوقورة، لا يُعتبر فقط دليلاً علمياً لطلابه، بل هو مثال يُحتذى به في التواضع والالتزام بآداب طلب العلم. يتميز الشيخ فيصل بسعة صدره وحرصه على مرافقة طلابه في رحلتهم العلمية، ويوجههم دائماً نحو التعمق في العلوم الشرعية مع التمسك بالقيم الإسلامية الأصيلة۔
إضافة إلى ذلك، فإن للشيخ فيصل نظرة ثاقبة فيما يتعلق بربط العلم النظري بالحياة العملية، حيث يشجع طلابه على استنباط الدروس التطبيقية من العلوم الشرعية وتفعيلها في حياتهم اليومية. هذا التوازن بين المعرفة النظرية والتطبيق العملي هو من أبرز صفاته التي تركت أثراً بالغاً في طلابه، مما جعلهم ينظرون إليه كقدوة علمية وروحية ۔
وفي هذا اللقاء مع الدكتور عبد اللطيف الكندي، كان دور الشيخ فيصل الندوی محوريًا، ليس فقط كقائد لهذه الرحلة العلمية، بل أيضاً كحلقة وصل بين طلابه والعلماء الكبار ۔ كان يحرص على أن يستفيد كل طالب من هذا اللقاء الفريد، مما جعله يستحق الإشادة والتقدير على جهوده المتواصلة في خدمة العلم وأهله ۔
لقد أضفى الشيخ فيصل الندوي على هذا المجلس روحاً من الألفة والمحبة العلمية، حيث شعر الجميع بقيمته كعالم فاضل ومعلم مخلص، يعمل بجد لإيصال العلم إلى قلوب طلابه بعناية ورعاية فائقة ۔
ومن أبرز الحاضرين في هذه الجلسة العلمية المتميزة :
الأستاذ إرشاد أحمد تانترے المدنی - عالم شاب متوقد بالعلم والطموح، عرف بتفانيه في طلب العلم وتدريسه .
الأستاذ مصدق الندوي ، شیخ فیضان العمری الکشمیری ، زید الباری الحنبلی ، ابرار الحق الندوی ، الأستاذ ریحان الندوی ، عبد الماجد الکرمانی ، وغیرھم ۔۔۔۔۔۔

انتقاء و إعداد :
شیخ فیضان العمری الکشمیری

23/09/2024

کیا مالدار حج کو بھول گئے ۔
حضرت مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب

20/09/2024

دلہنوں اور ان کے والدین کے لیے ضروری ہدایات

Essential guidelines for brides and their parents

ایک دفعہ ایک مجلس میں دو ساتھیوں کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا موبائل ہاتھ کی گھڑی سے مربوط کیا ہوا ہے، یعنی موبائل فون کو گ...
20/09/2024

ایک دفعہ ایک مجلس میں دو ساتھیوں کو دیکھا کہ انہوں نے اپنا موبائل ہاتھ کی گھڑی سے مربوط کیا ہوا ہے، یعنی موبائل فون کو گھڑی کے ذریعے استعمال کرتے تھے ۔
میں نے کہا بھئی ٹکنالوجی سے فایدہ اٹھاتے اٹھاتے اس کی لت اور غلامی میں کیوں مبتلا ہونا ؟ میرے نزدیک یہ موبائل فون والی گھڑی استعمال کرنا ایسا ہی ہے، اور اس درجہ ٹکنالوجی سے خود کو گھیر لینا بہت ہی خطرناک ہے چاہے آپ کو ابھی سمجھ نہ آئے ۔ ایسی غیر معقولیت دیکھ مجھ سے رہا نہیں جاتا اس لیے کھری کھری سنا دی، البتہ محبت کے ساتھ ۔
خیر ایک ساتھی نے فوراً اسے اتار بھی دیا،
گزشتہ دنوں لبنان میں اسرائیل نے حزب اللہ کے خلاف جنگ کےنام پر انہی الکٹرانک آلات کو ہتھیار بنایا اور کئی لوگوں کا قتل کردیا، جس کے بعد سے پوری دنیا میں یہ تشویش پھیل گئی ہےکہ کیا ہمارے الکٹرانک ٹکنالوجی کے آلات وقت آنے پر ہمارے لیے جان لیوا ہتھیار بھی بن سکتے ہیں ؟ یہ تشویش اس حد تک عام انسانوں میں بڑھ گئی ہے کہ اقوام متحدہ کے ادارے اسرائیل کے اس حملے کا سختی سے نوٹس لے رہے ہیں ۔ تاکہ انسانوں کو لگے کہ کوئی نہ کوئی ادارہ ہمیں ایسے حملوں سے بچانے کے لیے کام کر رہا ہے ۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ۔ ماڈرن ٹکنالوجی کو اتنا ہی استعمال کرنا چاہیے جتنی ضرورت ہو یعنی کہ جہاں ٹکنالوجی کےبغیر کام نہیں چل سکتا ہو وہیں ٹکنالوجی کا استعمال کریں، لیکن زندگی کے ہر قدم پر اپنے آپ کو ٹکنالوجی کا محتاج بنا کر رکھنا یہ اتنی بڑی غلطی ہے جس کا خمیازہ تب بھگتنا پڑے گا جب آپ کو لگےگا کہ میں تو چوطرفہ سرویلینس میں جی رہا ہوں ۔ دنیا میں ایسے واقعات بھی پیش آئے ہیں کہ جن گھروں میں ہائی پاور سیٹیلائٹ ٹکنالوجی کے آلات کی کثرت تھی وہاں بآسانی گھر میں داخل ہوئے بغیر واردات انجام دی جاسکتی ہیں اور جن گاڑیوں کا بیشتر سسٹم الکٹرانک تکنیک پر منحصر ہو ان گاڑیوں کا اغواء بآسانی کیا جا سکتا ہے ۔
احادیثِ فتن اور قرب قیامت کی روشنی میں اگر آج کی ٹکنالوجی کا تجزیہ کیا جائے تو مزید وضاحت ہوگی کہ یہ ٹکنالوجی کیسے فتنوں کی شکل اختیار کر انسانوں کو کارپوریٹ غلامی اور مشینی بے حسی میں جکڑ رہی ہے۔
میں اپنے دوستوں سے بارہا کہتا ہوں کہ اپنی زندگی میں ایسی عادت بھی رکھیے کہ آپ ہر مہینے میں تین دن موبائل کےبغیر رہیں صرف اور صرف قدرت و فطرت کی سرسبز وادیوں میں گزاریں، فطرت کی سرگوشیاں سنیں، پہاڑوں سے باتیں کریں، سمندروں، دریاؤں اور ستاروں بھرے آسمان کا مزاج سمجھنے کی کوشش کریں، آخر زمانے میں ساری ماڈرن ٹکنالوجی دھری کی دھری رہ جائے گی اور ٹکنالوجی سے آزاد ایسے دیہاتی، دقیانوسی اور دہقانی لوگ کامیاب قرار پائیں گے۔ !
افلاس زدہ دِہقانوں کے ہَل بیل بکے، کھلیان بکے
جینے کی تمنّا کے ہاتھوں جینے کے سب سامان بکے
✍️: سمیع اللہ خان
[email protected]

20/09/2024

نابالغ بچوں کو سگریٹ فروخت کرنے والے دکانداروں کے لیے ضروری پیغام

Important message to shopkeepers selling ci******es to minors

18/09/2024

مصیبت زدہ انسان کو دیکھ کر کیا کرنا چاہیے
حضرت مفتی نذیر احمد قاسمی صاحب مدظلہ

Jummah Bayaan of Hazrat Maulana M***i Nazir Ahmad Qasmi Sahib at Masjid Arqum Fair Banks Colony Rawalpora Srinagar.( Ins...
10/09/2024

Jummah Bayaan of Hazrat Maulana M***i Nazir Ahmad Qasmi Sahib at Masjid Arqum Fair Banks Colony Rawalpora Srinagar.( Insha Allah )
Date: 13-09-2024
Time: 12:30 p.m

08/09/2024

یوم اساتذہ کے موقع پر اساتذہ کرام سے درد مندانہ اپیل
A painful appeal to teachers on the occasion of Teachers' Day.

مولانا مفتی نذیر احمد قاسمی دامت برکاتہم

07/09/2024

A painful appeal to teachers on the occasion of Teachers' Dayٹیچرز ڈے کے موقع پر اساتذہ کرام سے درد مندانہ اپیلMaulana M***i Nazir Ahmed Qasmiمولانا مفتی نذی...

شیخ الاسلام ڈاکٹر مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہمامریکہ کی بین الاقوامی تئیزم یونیورسٹی (فلوریڈا) نے شیخ الاسلام مفتی ...
05/09/2024

شیخ الاسلام ڈاکٹر مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم

امریکہ کی بین الاقوامی تئیزم یونیورسٹی (فلوریڈا) نے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ کو "اسلامی نظام قانون وفقہ" کے موضوع پر آپ کی اعلیٰ ترین خدمات کے اعتراف میں پی ایچ ڈی (ڈاکٹریٹ) کی اعزازی ڈگری جاری کردی ۔ نیز آپ کو یونیورسٹی کے بورڈ آف اسٹڈیز کا چیئرمین بھی مقرر کردیا گیا ۔

26/08/2024

جب میں 1996ء تک اہلحدیث تھا ، تو میں بھی دوسروں کی طرح جماعت اہلحدیث کا زبردست حامی اور اس کا دفاع کرنے والا تھا ، بڑے بڑے علماء سے بحث و مباحثہ کرتے تھا ، جن میں مولانا یاسین ہمدانی اور مولانا غلام احمد کاملی وغیرہ شامل تھے ، اس طرح کے واقعات کا زیادہ تر تعلق 1985ء سے پہلے ہے ، جس کی وجہ سے میں چودہ پندرہ سال کی عمر سے ہی بہت سے علماء اور واعظین کی آنکھ کو بھی میں برداشت نہیں تھا ، اور پھر آگے جاکر سحر کا شکار ہوگیا ، کیونکہ کشمیر میں جب کسی شخص کو علمی میدان میں ہرانا مشکل ہوتا ہے ، تو پھر اسے جادو کے ذریعہ اس کو گرانا آسان ہوتا ہے ، اور وہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا ، اور آج تک میں ایسے درندہ صفت لوگوں کی دی ہوئی تکلیفوں اور اذیتوں کا سامنا کر رہا ہے ، اور اس دوران کچھ میر جعفر اور میر صادق دوست بھی تھے ، جو میری کامل بربادی کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے ۔
لیکن اس سب کو برداشت کرتے ہوئے مجھ میں ایک عادت تھی ، جو اہلحدیثوں کو پسند نہیں تھی ، وہ عادت یہ تھی کہ میں صحیح کو صحیح کہنے کے ساتھ ساتھ غلط کو غلط کہنے کی بھی ہمت ، جرئت ، طاقت اور حوصلہ بھی رکھتا تھا ، اور میں کسی لومت لائم سے ڈرتا نہیں تھا ، اور ڈنکے کی چوٹ پر حق بات کہتا تھا ، اور جس سے میں ہر وقت اپنے دشمنوں میں اضافہ کرتا تھا ، اور میرے خلاف بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا ، مگر اللہ تعالی کی مدد اور نصرت شامل حال تھی کہ میں ان تمام بحرانوں اور بیشمار نقصانات سے باہر تو آیا ہوں ، مگر جو قلب و ذہن پر کاری ضرب لگے ہوئے ہیں ، وہ ابھی مندمل نہ ہوسکے ، اور شاید ہوں گے بھی نہیں ، اور سب سے بڑی دکھ کی بات یہ تھی کہ اپنوں نے نہ تب ساتھ دیا ، جب میں اہلحدیث تھا اور نہ اس کے بعد ساتھ دیا ، جب میں اس دلدل سے باہر آیا تھا ۔
لیکن میں نے اہلحدیث ہونے کے دوران یہ بھی محسوس کیا کہ جو اپنے مکتب فکر کے بعض نظریات سے اختلاف رائے کرتا ہے ، دلیل اور علم کی زبان میں اپنی بات پیش بھی کرتا ہے ، لیکن اس بات کی سنی جاتی ہے ، اور نہ اس کا صحیح جواب دیا جاتا ہے ، اور ایسے شخص کو جماعت میں مشکوک کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ، اور اہلحدیث بھی نہیں سمجھتا ہے ۔
میری فطرت اس تعصب ، تنگ نظری اور گھٹن جیسے ماحول میں رہنے سے ابا کرتی ہے ، اور اس میں رہنا موت کے برابر سمجھتی ہے ، اور میں یہ بھی دیکھا کہ اس جماعت کا مبلغ علم چند مسائل کے رد و قدح اور بحث و تکرار تک محدود ہے ، مثال کے طور پر دین‌ رفع الیدین ، آمین بالجہر ، فاتحہ خلف الامام ، رکعات تراویح ، رکعات وتر ، رفع سبابہ ، سہ طلاق ، وسیلہ، اجتماعی دعا ، تکبرات نماز عیدین ، ایصال ثواب ، رسم چہارم وغیرہ ، اس سے آگے اس جماعت کی کوئی سمجھ اور نہ کوئی دنیا ۔

اس کے علاوہ چند اہم باتیں یہ بھی ہیں ۔

(1) اس جماعت کا زبانی دعویٰ توحید تو ہے ، لیکن جہاں تک اس جماعت کے ساتھ تقریباً تیس سال ، بچپن ، لڑکپن اور جوانی گزارنے کے دوران میں نے اس جماعت کا توحید کا جو اعلامیہ سمجھا ہے ، اس کی حقیقت پاکستان کے نواز شریف ، شہباز شریف اور آصف علی زرداری کے سیاسی بیانیہ سے کچھ زیادہ نہیں ہے ۔
اس جماعت کے مولوی حضرات توحید توحید کی جو رٹ منبر و محراب پر لگاتے رہتے ہیں ، اس میں کوئی قرآنی ، علمی اور سائینٹیفک استدلال نہیں ہوتا ہے ، بلکہ ایک مخصوص بریلوی مکتب فکر کو نشانہ بنانا اور مناظرانہ اسلوب اور لب و لہجہ کے ساتھ بیان بازی کرنا ہوتا ہے ۔
وہ صرف زبان تک محدود ہے ، جبکہ ان کے گھر ، ان کی معاشی و معاشرتی زندگی توحید سے مکمل خالی اور ویران ہوتی ہے ، وہاں وہ وہی کچھ کرتے ہیں ، اور انہی جیسا طرز عمل اپناتے ہیں ، جن کو وہ مسجدوں کے منبر و محراب پر مشرک اور بدعتی کہتے رہتے ہیں ۔

(2) اس جماعت کے پاس کوئی سیاسی منشور بھی نہیں ہے ، کوئی سیاسی شعور بھی نہیں ہے ، امت مسلمہ کے حوالے سے تشخص بھی نہیں ہے ، بلکہ اگر کشمیر کے حوالے سے اس جماعت کے ماضی قریب کی بات کی جائے تو اس جماعت سے وابستہ لوگوں میں سے کچھ نیشنلی ، کچھ پی ڈی پی ، کچھ بی جے پی اور کچھ کانگریسی ہوتے تھے ، اور اس جماعت کے پاس نظام حیات کے حوالے سے کوئی منظم اور طاقتور لٹریچر سرے سے موجود ہی نہیں ہے ۔ بلکہ اس معاملہ میں یہ جماعت مکمل طور پر خالی اور تہی دامن ہے ۔

(3) اس جماعت سے وابستہ افراد میں حقیقی معنوں میں دعوت الی اللہ کے حوالے سے کوئی قابل ذکر جذبہ نہیں پایا جاتا ہے ، کیونکہ اس جماعت کے پاس علمی ، فکری ، دعوتی ، تعمیری ، اصلاحی اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے حوالے سے بھی کوئی لٹریچر دستیاب نہیں ہے ، اور قرآن تو یہ لوگ پڑھتے نہیں ، اور کتب احادیث کے حوالے سے صحت اسناد اور تعدیل و تخریج میں الجھ کر رہ گئے ۔

(4) اس جماعت سے جو تعلیم یافتہ نوجوان جڑے ہوئے ہیں ، ان سے تفہیم قرآن اور اشاعت قرآن کے حوالے سے بھی کوئی قابل ذکر کام نہیں ہو رہا ہے ، وہ اس لئے کہ ان کا سارا فوکس اسناد حدیث ، جرح و تعدیل اور ھذا حدیث صحیح اور ھذا حدیث ضعیف وغیرہ پر رہتا ہے ، اور ان کو اسی میں الجھا دیا جاتا ہے ، اگر کسی مضمون نگار نے کوئی حدیث نقل کی ، اور اس کو اس جماعت کے کسی محدث جدید نے اسے ضعیف قرار دیا ہو ، تو وہ نوجوان گوگل سرچ کرکے ریڈیمیڈ اور نقل شدہ تحقیق و تخریج کو کمنٹ میں ڈال دیتے ہیں اور بد دیانتی کی انتہا یہ ہے کہ اس بات کا ذکر بھی نہیں کرتے ہیں کہ اس تحریر کو کہاں سے چرا کر لائے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ نقلی دینی جماعت کے افراد کے پاس اسی طرح کے نقلی کار نامے ہوتے ہیں ، اور المیہ یہ ہے کہ ان کو اس حرکت پر افسوس اور شرمندگی بھی نہیں ہوتی ہے ۔

(5) جماعت اہلحدیث کی مساجد کے منبر و محراب پر جو خطباء و واعظین براجمان ہوتے ہیں ، ان میں مناظرہ باز زیادہ ہوتے ہیں ، جو دینی علوم و فنون اور زمانی بصیرت سے یکسر محروم نظر آتے ہیں ، چنانچہ اس جماعت کی مساجد میں جن خطیبوں کو متعین کیا ہوا ہے ، ان میں اکثر خود کو مدنی اور سلفی کہتے ہیں ، لیکن ان خطیبوں کو تحریر و تصنیف سے کوئی شغف و تعلق نہیں ہوتا ہے ، کیونکہ جب وہ اپنی جماعت کے کسی مدرسہ سے فارغ ہوکر آتے ہیں ، تو وہ مطالعہ و تحقیق اور تحریر و تصنیف کے شعبہ میں کام کرنے کے بجائے وہ فی الفور اور کسی تاخیر کے بغیر کسی اہلحدیث مسجد میں خطبہ جمعہ کے لئے درخواست دائر کر دیتے ہیں ، اور ان کو جمعہ کی وعظ خوانی کا جاب مل جاتا ہے ، اور پھر علم و آگہی سے تہی دامن ہونے کی وجہ سے آناپ شناپ کہنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ظاہر ہے کہ جب اس طرح کے نیم ملا خطبہ جمعہ کے لئے منبر و محراب پر کھڑے ہوجائیں گے ، تو ان سے عام لوگوں کی کیا تربیت ہوگی ؟ وہ جگ ظاہر ہے ۔

(6) اس جماعت سے وابستہ اکثر نوجوانوں کو وعظ خوانی سننے کے مرض میں مبتلا کر دیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے ان کا مطالعہ و کتب بینی کے ذوق سے محروم کر دیا جاتا ہے ، اور ان میں اکثر نوجوان داڑھی کے عشق میں اس قدر فریفتہ ہوگئے ہیں کہ انہوں نے آٹھ آٹھ دس دس انچ تک اپنی داڑھی بڑھا دی ہے ، جس کا حقیقی سنت نبوی سے کوئی تعلق نہیں ہے ، خود ان کے علماء کی داڑھی بہت کم نظر آٹی ہے ، جیسے شیخ ناصر الدین البانی اور دوسرے عرب علماء کی داڑھی ایک یا دو انچ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے ، جبکہ ان کے ظہیر احسان الہی کی داڑھی برائے نام ہی ہوتی تھی ۔
لیکن نوجوانوں کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ، وہ پورا اسلام داڑھی میں تلاش کر رہے ہوتے ہیں ، جبکہ ان کو یہ بات معلوم نہیں کہ اسلام میں داڑھی رکھنا سنت ضرور ہے ، مگر یہ سوچ غلط ہے کہ داڑھی میں ہی اصل اسلام ہے ۔

(7) اس جماعت کے پاس اتحاد ملت کا تصور تو دور کی بات ہے ، بلکہ منہج سلف کا دعویٰ کرنے والی یہ جماعت داخلی طور پر۔ مکمل ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے ، اور حد یہ کہ ایک دوسرے کو باغی تک ہونے کا فتویٰ چسپاں کر دیتے ہیں ، ایک دوسرے کی مساجد اور ایک
دوسرے کے خطیبوں کا خطبہ سننے سے بائیکاٹ بھی کرتے ہیں ۔
غالباً دو سال پہلے کی بات ہے کہ دفاع جمعیت اہلحدیث کے مولوی مقبول آکھرنی صورہ میں مرحوم شیخ محمد عبد اللہ کی تعمیر کردہ مسجد میں ان کو بعض اہلحدیث نے وعظ و تبلیغ کے لئے دعوت دی تھی ، لیکن میں حیران ہوا کہ دوسری جمعیت اہلحدیث کے ایک بھی فرد نے اس مجلس وعظ میں شرکت نہیں کی ، کیونکہ شاید اوپر سے جمعیت اہلحدیث کی اسٹبلشمنٹ کی طرف سے حکم تھا کہ اس مجلس وعظ میں شرکت نہ کی جائے ۔
میں ذاتی طور پر پندرہ بیس منٹ تک اس مجلس وعظ میں بیٹھا تھا ، لیکن جب میں مولوی مقبول آکھرنی کا اوٹ پٹانگ وعظ سن رہا تھا ، تو میں اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا اور مجھے سر درد کی شکایت ہونے لگی ، اور میں اس تضیع اوقات مجلس سے باہر آگیا ، اور سوچا کہ کیا اس مولوی صاحب کی علمی طور پر واقعی میں کسی جماعت کے امیر اعلیٰ بن سکتے ہیں ، لیکن بہر حال جمعیت اہلحدیث یا دفاع جمعیت اہلحدیث ہو ، ان کو اس جیسے امیر ہی مناسب ہوتے ہیں ۔
حقیقت یہ ہے کہ جمعیت اہلحدیث ہو یا دفاع جمعیت اہلحدیث ، ان کے اکثر خطباء و واعظین کا یہی حال ہے ، چونکہ علم محض نصابی کتابیں پڑھنے یا کسی مدرسہ سے ڈگری حاصل کرنے سے حاصل نہیں ہوتا ہے ، بلکہ اس کے لئے وقت کا موسیٰ بن کر وقت کے خضر کو بھی تلاش کرنا پڑتا ہے ، اور اس کی شاکردی کرنی پڑتی ہے ۔

(8) اس جماعت سے وابستہ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ ہم قرآن و حدیث اور منہج سلف مانتے ہیں ، اور تقلید کے قائل نہیں ہیں ، ہم صرف اللہ کو مانتے ہیں ، اور ہم بارش کی دعا کے لئے ہاتھ اور کپڑے الٹا کرکے دعا مانگتے ہیں ، خدا کے سامنے ثبوت کے طور پر ویڈیو ریکارڈنگ بھی اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں ، سوشل میڈیا پر اس کی تشہیر بھی کرتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو پتہ چلے کہ ہم نے بارش کی دعا کی ، اور اللہ سے رابطہ بھی ہوگیا ، مگر بد قسمتی سے اللہ تعالی ایسی دعاؤں کو مسترد کر دیتا ہے ، اور پھر محکمہ موسمیات سے حسب عادت معلوم کر لیتے ہیں کہ کب بارش پڑنے والی ہے ، اور کب نہیں پڑنے والی ہے ؟
ایک دفعہ میرے سامنے ایک اہلحدیث نے ایک بریلوی کا طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب آپ کو کیا حاصل ہوا آستانوں میں شیئا للہ پڑھ پڑھ کے ، تو پھر اس بریلوی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اب آپ کو کیا حاصل ہوا مسجدوں میں چٹائیاں گھسا گھسا اور ہماری مخالفت کر کر کے ؟

(9) جمعیت اہلحدیث کے پاس وسائل کی بھر مار ہے ، دھن دولت کے اعتبار سے بڑی بختاور جماعت ہے ، اس کے پاس عالیشان مدارس اور دوسرے تعمیرات کی کوئی کمی نہیں ہے ، مگر دعوت الی اللہ کے شعور اور مشن سے یہ جماعت مکمل طور خالی ہے ، کیونکہ کسی بھی دینی جماعت کے پاس اردو ، انگریزی اور ہندی میں دعوتی لٹریچر کی پہلی ترجیح ہونی چاہئے تھی ، خاص کر قرآن مجید کا بھی اردو ، انگریزی اور ہندی ترجمہ ہونا چاہئے ، تاکہ ان کو سیاحتی مقامات پر غیر مسلموں کو مفت میں تقسیم کیا جائے ، لیکن اس جماعت کے ذمہ داران سال بھر کے بجٹ بنانے ، تنظیم کو فروغ دینے اور مختلف علاقوں ، شہروں اور ریاستوں میں خالی خولی دوروں کے سوا کچھ نہیں کرتے ہیں ۔

(10) اس جماعت کے پاس ابھی تک ایک معیاری ماہ نامہ بھی نہیں ، تاکہ لوگ اس کے ہر شمارہ کا انتظار کرتے ، اسے خریدتے اور اسے شوق سے پڑھتے ، اس وقت اس جماعت کی طرف سے جو ماہ نامہ مسلم شائع ہوتا ہے ، اس کا معیار اس قدر سطحی ، گرا ہوا اور روایتی قسم کا ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوان اس کو پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ہیں ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا جو ایڈیٹر ہے ، وہ ایک روایتی قسم کا ادیب و منشی اور مسخرے مزاج کا ہے اور غیر سنجیدہ ہونے کی وجہ سے چھٹکلے سنا سنا کر ہنساتا رہتا ہے ، مگر تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس کو اسلام کے بارے میں الف با بھی پتہ نہیں ہے ، اور وہ اپنی تقریروں اور جمعہ کے خطبوں میں زیادہ تر جھوٹی حدیثیں اور مسخروں کی طرح چھٹکلے سناتا رہتا ہے ، اور بعض اوقات لوگ قہقہہ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ ہم خطبہ جمعہ نہیں ، بلکہ ٹی وی چینل پر کپیل شرما شو دیکھ رہے ہوتے ہیں ، میں نے اتفاق سے اس کا چند ایک بار خطبہ جمعہ سنا ہے ، اس کو کسی قرآنی آیت کا ترجمہ بھی کرنا نہیں آتا ، وہ لوگوں کو ان پڑھ سمجھ کر ترجمہ آیات میں فاس غلطیاں کرتا ہے ۔
جب شعبہ تحریر و تصنیف میں اس طرح کے افراد ہوں ، تو رسالہ کے معیار کا کیا حال ہوگا ؟ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے ، اور رسالہ کے مدیر کے مبلغ علم کا بھی پتہ چلتا ہے ۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔

دور ہی کچھ ایسا آگیا ہے ، بے ہنر خطیب ہو گئے
زاغ عند لیب ہوگئے ، مسخرے ادیب ہو گئے

(11) اس جماعت نے مسجدوں پر مسجدیں تعمیر کرکے افتراق امت کا بڑے پیمانے پر کام کیا ہے ، اور اس مسجدی سیاست سے سادہ لوح مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے ، اور توحید و سنت اور منہج سلف کے خالی خولی بیانیہ سے شرک و بدعات گھٹے نہیں ، بلکہ اس میں اضافہ ہوگیا ۔

(12)جماعت اہلحدیث کے جو خطیب حضرات ہیں ، وہ ایک سوا گھنٹہ خطبہ جمعہ دیتے ہیں چار پانچ منٹ میں نمازجمعہ پڑھا دیتے ہیں ، اور کیا یہ طرز عمل اس حدیث کے منافی اور بدعت نہیں کہلاتا ؟

عَنْ وَاصِلِ بْنِ حَيَّانَ ، قَالَ : قَالَ أَبُو وَائِلٍ : خَطَبَنَا عَمَّارٌ ، فَأَوْجَزَ وَأَبْلَغَ، فَلَمَّا نَزَلَ قُلْنَا : يَا أَبَا الْيَقْظَانِ، لَقَدْ أَبْلَغْتَ وَأَوْجَزْتَ، فَلَوْ كُنْتَ تَنَفَّسْتَ . فَقَالَ : إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : إِنَّ طُولَ صَلَاةِ الرَّجُلِ، وَقِصَرَخُطْبَتِهِ ، مَئِنَّةٌ مِنْ فِقْهِهِ ، فَأَطِيلُوا الصَّلَاةَ، وَاقْصُرُوا الْخُطْبَةَ، وَإِنَّ مِنَ الْبَيَانِ سِحْرًا ۔
( مسلم كتاب الجمعه : رقم الحديث 869)
ابو وائل نے کہا کہ ہمارے سامنے سیدنا عمار نے خطبہ دیا جو نہایت مختصر اور نہایت بلیغ تھا ، جب وہ منبر سے اترے تو ہم نے عرض کیا اے ابو الیقطان ( یہ عمار کی کنیت تھی ) آپ نے نہایت مختصر اور بلیغ خطبہ دیا ، کاش کہ آپ تھوڑا سا لمبا کرتے ، سیدنا عمار نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ آدمی کی نماز لمبی ہونا اور اس کے خطبہ کا مختصر پڑھنا ، اس کی سمجھداری کی علامت ہے ، اس لئے نماز لمبی کرو اور خطبہ مختصر کرو ، کیونکہ بعض بیان جادو کی تاثیر رکھتے ہیں ۔

اس طرح اس جماعت کے کارناموں کی ایک طویل فہرست ہے ، اور اس جماعت وابستہ آج کے علماء اپنے متاخرین علماء کے نقش قدم سے بھی ہٹ گئے ہیں ، مثال کے طور پر مولانا داؤد غزنوی ، مولانا عبد الرحمٰن کیلانی ، اور مولانا ثناء اللہ امرتسری وغیرہ جیسے اعتدال پسند علماء آج اس جماعت میں نہیں پائے جاتے ہیں ، بلکہ میں کہتا ہوں کہ سرینگر سے لیکر بانیھال تک جو جماعت اہلحدیث ہے ، وہ محض ایک تنظیم ہے ، جس کو سعودی عرب فنڈ کرتا ہے ، اور سعودی مسلک و مذہب کی آبیاری کرتی ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔

حال ہی میں سعودی عرب میں خطبہ و نماز جمعہ کے لئے پندرہ کا وقت مقرر کیا گیا ، اور یہ اعلامیہ واقعی میں سنت نبوی کے مطابق تھا ، لیکن کشمیری اہلحدیث مولوی سعودی عرب کی تقلید میں فلسطین کے جیسے مسئلہ پر خاموش رہ سکتے ہیں ، مگر خطبہ جمعہ کو مختصر نہیں کرسکتے ہیں ، کیونکہ وہ خطبہ جمعہ کے آغاز میں مولوی انور شوپیانی اور مولوی عبد الغنی شیوپیانی کی غزلیں ہی ترنم کے ساتھ پندرہ منٹ تک پڑھتے رہتے ہیں ، اور ان کی دال لمبی و لایعنی تقریر کے بغیر گھلنے والی نہیں ہوتی ہے ۔

میں نے جب 1990ء کے بعد باضابطہ اور منظم طریقہ سے مطالعہ کرنا شروع کیا ، تو میں نے جماعت اہلحدیث کے علماء سے باہر رہ کر بڑے بڑے علماء ، جیسے امام ابن تیمیہ ، امام ابن قیم ، امام غزالی ، ابن خلدون ، ابن رشد ، امام رازی ، جمال الدین افغانی ، مولانا حمید الدین فراہی ، سید قطب ، حسن البنا ، علامہ اقبال ، مولانا شبلی نعمانی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا سید سلیمان ندوی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا عبد الماجد دریابادی ، مولانا سید مودودی ، مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ، ڈاکٹر یوسف القرضاوی ، شیخ محمد غزالی ، مولانا امین احسن اصلاحی ، مولانا شمس پیرزادہ اور مولانا وحید الدین خان وغیرہ جیسےچوٹی کے علماء کی تصانیف کا مطالعہ کیا ، جس سے میری دنیا ہی بدل گئی ، اور مجھے ایسا لگا کہ میں ابھی تک کسی تنگ و تاریک کنویں میں گرا پڑا تھا ، اور مجھے اس اندھیر نگری میں کچھ سجھائی نہیں دے رہا تھا ، اور پھر خدا کی عنایت کیا ہوئی کہ ادھر سے علماء کا ایک قافلہ آیا اور انہوں نے کنویں میں پانی سمجھ کر اتفاق سے مجھے اس تنگ و تاریک کنویں سے باہر نکالنے میں میری مدد کی ، اور ان کی وجہ سے اللہ تعالی نے میری ایک نئی علمی ماحول کی زندگی نصیب فرمائی ۔
اس طرح میں اللہ تعالی کا اس پر جتنا بھی شکر کروں ، کم ہے ، بلکہ میں تو شاعر کی زبان میں یہی کہنا چاہوں گا ؛

ہے عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا
کس طرح شکر کروں اے مرے رحماں تیرا
_______________________

غلام نبی کشافی
آنچار صورہ سرینگر

Address

Srinagar

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when IRPC posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to IRPC:

Videos

Share


Other Srinagar media companies

Show All