As-SUNNAH is the FB page associated with Crescent - an Islamic journal & Idara-e-AL-HAYAT
23/02/2025
NOOR-e-RISALAT
Hadith numbers
179---185
| ’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر: 179--185
17/02/2025
NOOR-e-RISALAT
Video number
173--to--178
’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا نیا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر* 173--178
17/02/2025
NOOR-e-RISALAT
Video number
166--to--172
’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا نیا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر* 166--172
10/02/2025
NOOR-e-RISALAT
Hadith numbers
164---165
10/02/2025
"NOOR-e-RISALAT"
Hadith numbers
156 --to-- 163
05/02/2025
05/02/2025
05/02/2025
Hadith numbers : 150 --- 155
| ’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر : 150 - تا - 155
02/02/2025
Hadith numbers : 139 --- 149
| ’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر : 139 - تا - 149
28/01/2025
by : Malik G H
MERAJ-UN-NABI
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عقلمند اور عقل پرست دو مختلف اشخاص ہیں۔ عقلمند ہر ایک معاملے کا تنقیدی جائزہ لیکر ایسا فیصلہ لیتا ہے جسمیں فائدہ ہو اور خسارہ ہونے کا خطرہ نہ ہو جبکہ عقل پرست ہر ایک معاملہ حواسِ خمسہ سے حاصل شدہ معلومات کو عقل کی ترازو میں تولتا ہے اور ہر ایک اُس خبر کا انکار کرتا ہے جو اسکی ناقص عقل سمجھنے سے قاصر رہتی ہے جاہیے وہ ماوراۓ عقل ہو مگر ضدِ عقل نہ ہو۔ مومن عقل کے خلاف نہیں بلکہ عقل کو چراغِ راہ سمجھتا ہے نہ کہ منزل۔ نبوت ایسی عظیم ترین نعمت ہے جس کے سامنے دنیا کی تمام نعمتیں ہیچ ہیں اور مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ یہ نعمت حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوئی اور حضرت محمد ﷺ پر اختتام پزیر ہوئی۔ اگرچہ بظاہر ایک نبی ایک انسان ہی ہوتا ہے مگر ان کی قلبی و ذہنی کیفیت کچھ ایسی لامثال ہوتی ہے جس کا تصور عام انسان نہیں کرسکتا ہے اور تاریخ عالم میں بہت سے عقلمند نظر آتے ہیں جنہوں نے پیغمبروں پر ایمان لایا اور ان کے مِشن کا بھرپور ساتھ دیا اور وفات تک اس پر قائم رہے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے کامیاب قرار پاۓ۔ اسی طرح تاریخ میں بہت سے عقل پرست نظر آتے ہیں جنہوں نے پیغمبروں کے پیغام کا تمسخر اُڑایا اور شدید مخالفت کی بلکہ جان کی بازی بھی لگائی۔ چونکہ رچرڈ فنمین اور اسٹیفن ہاکنگ جیسے سائنسداں یا برٹرانڈ رَسل اور نطشے جیسے فلاسفر اور عقل پرست اللہ تعالیٰ ، مذہب ، نبوت ، وحی ، معجزہ وغیرہ کا انکار کریں گے تو کچھ پروا نہیں مگر دُکھ اور افسوس اس وقت ہوتا ہے کہ جب متعصب مستشرقین اور یورپی علما باقی پیغمبروں کی عظمت اور اُن کے معجزات پر یقین رکھتے ہیں مگر خاتم النبین حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰ ﷺ کے معجزات کا انکار کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ایک اہم اور مشہور معجزہ معراج ہے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے پہلے واقع ہوا جب جناب ابوطالب اور حضرت خدیجتہ الکبریٰ کا انتقال ہوا اور یہ دونوں ہستیاں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ صرف بے حد محبت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ مشرکینِ مکہ کے مقابلے میں آپ ﷺ کے پیچھے چٹان کی طرح کھڑے تھے اور پھر طائف کے سفر میں ابتلاء کی شدید آزمائش اور لامثال صبر کے انعام میں معراج کا واقعہ جسمیں سدرة المنتہیٰ کی سیر اور عرش عظیم پر اللہ تعالیٰ کی میزبانی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کیلئے ایمان میں اضافہ جبکہ عقل پرست ابوجہل اور ساتھیوں کیلئے مذید کفر کا باعث بنا۔ افسوس ان مستشرقین کیلئے جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے مادی تخت کے فضا میں اُڑنے کو صحیح تسلیم کرتے ہیں بلکہ آپ علیہ السلام کے صحابی کے روحانی طاقت کے قائل ہیں جس نے آناً فاناً ملکہ سبا کا تخت حاضر کیا مگر آینسٹائن کی تھیوری کی بنیاد پر روحانی براق کی برق رفتاری کے انکاری ہیں جو مادی جانور کی طرح کسی دانہ پانی کا محتاج نہیں اور نہ اسکی پرواز کسی خلائی جہاز کی طرح ایندھن پر منحصر ہے یا نہ ہی خراب ہونے کا اندیشہ۔ اسی براق پر وہ ہستی سوار ہوئی جس پر مشرکینِ مکہ نے کیا کیا ظلم نہ کیا اور طائف کے سردار نے تمسخر اُڑا کر کہا تھا کہ یہ کیسا رسول ہے کہ ایک گدھا بھی سواری کیلئے میسر نہیں۔ ان کے راستے میں کانٹے بچھاۓ گئے۔ ان کے کمر پر سجدے کی حالت میں مردار اونٹ کی لِد سے بھری اوجھڑی رکھی گئی۔ جن کی حالت مشرکین مکہ میں ایسی تھی جیسے حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علہما السلام کی بنی اسرائیل میں۔ یہ وہی ہستی تھی جسے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنی پڑی جس طرح حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے زمیں پر یا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو عراق سے فلسطین کرنی پڑی۔ یہ وہی ہستی ہے جسے ہجرت کے بعد اسی طرح حکومت ملنے والی تھی جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام کو کنعان سے ہجرت کرکے مصر میں ملی۔ یہ وہی سوار ہے جسکی سواری کی سمت فرشتوں کے سردار حضرت جبریل علیہ السلام طے کررہے تھے۔ یہ وہی سوار ہے جو آیات کبریٰ کا معائنہ کرنے والے تھے۔ یہ وہی سید البشر سوار ہیں جس نے سدرة المنتہیٰ پر سواری کے گائیڈ کو اصلی صورت میں دیکھا اور وہاں ایسے چیز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا جس کا بیان الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پھر روحانی مقام کا ارتقا اتنا اونچا ہوا جس کی معرفت جن و انسان کی بات ہی نہیں بلکہ جس کا ادراک روح الامین علیہ السلام کو بھی نہیں۔ یہ وہی سوار ہیں جنہوں نے تمام انبیا کی امامت مسجد اقصیٰ میں کی اور امام الانبیاء کے لقب سے سرفراز ہوۓ۔ مگر ہماری حالت دیکھو کہ ہمیں اٌس عظیم الشان صاحب معراج ﷺ کے امتی ہونے کا نہ فخر ہے اور نہ ہی احساس بلکہ اس بحث میں پڑے ہیں کہ معراج روحانی تھا یا جسمانی جبکہ ہمیں نہ جسم اور نہ روح کی معرفت ہے کیونکہ بحث میں زیادہ وہ لوگ اُلجھے ہوۓ ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ الیکٹران ، پروٹان ، نیوٹران وغیرہ کیا ہیں اور ان سے کس طرح جسم کے مختلف اعضا تشکیل پاتے ہیں یعنی آنکھ ، کان ، ناک ، جگر ، دل ، گردے ، ہڈی ، گوشت ، پٹھے ، دماغ ، انتڑیاں ، خون ، فضلہ۔ ذرے تو یہی ہیں مگر مختلف جگہوں پر مختلف خاصیت۔ یہی ذرے کبھی آب حیات اور کبھی زہر ہلاہل بنتے ہیں۔
کیا معراج کائنات کے اندر وقوع پزیر ہوا یا اس کائنات سے باہر جسے ہم void کہتے ہیں۔ کچھ بھی ہو مگر اٌس دلِِ مبارک کی کیفیت کیا تھی یا وہ جسمِ اطہر کیا تھا جس نے اللہ تعالیٰ کے دیدار کا تاب لایا جس کا حضرت موسیٰ علیہ السلام جیسا برگزیدہ کلیم اللہ تاب نہ لاسکا تھا یا جس نور کے سامنے حضرت جبریل علیہ السلام کا نور فنا ہوجاتا۔ بیشک اللہ تعالیٰ سبحان ہے اور وہ ہر ایک عیب سے منزہ ہے۔ جس نے کائنات کی تحلیق کی ، اپنے خلیل علیہ السلام کو آگ میں بچایا ، کلیم اللہ علیہ السلام کیلئے سمندر میں راستہ بنایا مگر فرعون کو فوج سمیت غرق کیا ، عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھوں مردے کو زندہ کیا ، وہ اپنے حبیب ﷺ کو عرش پر بلاۓ تو ایمان والوں کیلئے تعجب نہیں مگر تعجب عقل پرستوں کیلئے جو ایمان کی نعمت سے محروم ہیں۔ جو عقل پرست یعنی Rationalists مادی دنیا کے رہنے والے کارل مارکس اور فرائڈ کے مرید ہیں اور جنکی خرد زمان و مکاں کی زناری ہے وہ معراج جیسے خرقِ عادات واقعات پر ایمان نہیں لاسکتے ہیں بلکہ یہ ان باہمت ہستیوں کا کام ہے جن کا مَسکن بقولِ اقبال رح بلالی دنیا ہے یا اٌس طائر کا مقام ہے جسکی اُڑان عالمِ لاہوت میں ہو جہاں کی قلبی کیفیت زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہے۔ مغرب سے مرعوب کچھ اسکالر واقعۂ معراج کو خواب قرار دیتے ہیں تو پوچھا جاسکتا ہے کہ اگر یہ خواب تھا تو کفارِ مکہ نے ابوجہل کی سربراہی میں واویلا مچا کر ہنگامہ کیوں برپا کیا اور مختلف سوالات پوچھ کر اس واقعہ کا تمسخر اُڑایا کیونکہ خواب دیکھنا کوئی انوکھی بات نہ تھی اور ایک فاسق بھی خواب دیکھتا ہے۔ اگرچہ رات کا قیمتی ترین حصہ سَحر ہے مگر معراج کی رات کی گھڑی سَحر سے افضل ہے اور اسی لئے عاشقِ رسول ﷺ اور داناۓ راز علامہ اقبال رح نے کہا
اخترِ شام کی آتی ہے فلک سے آواز
سجدہ کرتی ہے سَحر جس کو، وہ ہے آج کی رات
رہِ یک گام ہے ہمت کیلیے عرشِ بریں
کہہ رہی ہے مسلمان سے یہ معراج کی رات
28/01/2025
Hadith numbers : 133 --- 138
| ’’نورِ رسالت‘‘ | ادارہ الحیاۃ کا سلسلۂ دروسِ حدیث | ۔۔۔۔۔۔۔ شیخ جلیل احسن ندوی ؒ کی کتاب : ’’راہ عمل‘‘میں درج احادیث مبارکہ کے اُردو ترجمے پر مبنی ویڈیو سیریز | ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حدیث نمبر : 133 - تا - 138
25/01/2025
"مجھے امام ابنِ تیمیہ رحمہ اللّٰه کی جن باتوں سے کبھی اتفاق نہ ہوسکا، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ مدینہ طیبہ کا سفر مسجد نبویّ میں نماز پڑھنے کےلئے تو جائز بلکہ مستحسن قرار دیتے ہیں، مگر نبیﷺ کے روضۂ مبارکہ کی زیارت کا اگر کوئی قصد کرے تو اس کو ناجائز ٹھیراتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ چیز کسی مسلمان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ حجاز مقدس جانے کے بعد مدینہ طیبہ کا قصد نہ کرے اور مدینہ طیبہ کا قصد کرتے وقت روضۂ مبارکہ کی زیارت کی تمنا اور خواہش سے اپنے دل کو خالی رکھے۔
صرف مسجد نبویّ کو مقصد سفر بنانا انتہائی ذہنی تحفظ کے باوجود بھی ممکن نہیں ہے۔ بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ اگر وہاں صرف یہ مسجد ہوتی اور نبیﷺ کا روضۂ مبارکہ نہ ہوتا تو کم ہی کوئی شخص وہاں جاتا۔ آخر فضیلتیں تو مسجد اقصٰی کی بھی ہیں، مگر وہاں کتنے لوگ جاتے ہیں؟ اصل جاذبیت ہی مدینہ طیبہ میں یہ ہے کہ وہ آنحضرتﷺ کا شہر ہے، وہاں آنحضورﷺ کے آثار موجود ہیں اور خود آنحضرتﷺ کا روضۂ مبارکہ بھی موجود ہیں۔.. یہاں کی کیفیات نمایاں طور پر مسجد حرام کی کیفیات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مسجد حرام میں محبت پر عظمت و ہیبت کے احساس کا شدید غلبہ رہتا ہے۔ اس کے ساتھ آدمی پر کچھ وہ کیفیات سی طاری ہوتی ہیں، جو کسی بھیک مانگنے والے فقیر کی حالت سے ملتی جلتی ہیں۔ لیکن حرم نبویّ میں پہنچ کر تمام دوسرے احساسات پر محبت کا احساس غالب آجاتا ہے، اور یہ وہ محبت ہے جس کو آنحضورﷺ نے خود ہی جزوِ ایمان فرمایا ہے۔"
(سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ، سفر عرب و حج بیت اللّٰه، صفحہ 65-67)
Be the first to know and let us send you an email when As-SUNNAH posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.