21/08/2023
شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی حفظہ اللہ رقم طراز ہیں: "دینی گھرانوں میں "ناولوں"کا مطالعہ اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا؛ لیکن میں نے نسیم حجازی مرحوم کے تمام ناول بھی اس لیے پڑھے تھے، کہ اگر عربی ادب سیکھنے کے لیے "مقامات"، "متنبی" اور "سبعہ معلقات" پڑھے جاسکتے ہیں، تو اردو ادب اور تاریخ کے لیے نسیم حجازی کے ناول ان سے بدرجہا غنیمت ہیں، اور ان سے ادب اردو کا ایک خاص ذوق حاصل ہوتا ہے اور فی الجملہ دینی فکر کو بھی مدد ملتی ہے".
( "یادگارِ زمانہ شخصیات کا احوالِ مطالعہ" ص:١٢٣)
مفتی ناصرالدین مظاہری حفظہ اللہ بھی اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں: "کہ مضمون نگاری کی نیت سے میں نے نسیم حجازی، صادق حسین، طاہر جاوید مغل، عنایت اللہ التمش، ابن صفی وغیرہ کی کتابوں کو کرایہ پر لے کر پڑھا".
حوالہ مذکورہ،ص:٥٨٣
کیا دھن تھی، کیا لگن تھی، کیا دل چسپی تھی کہ اگر کسی کتاب کو خریدنے کے پیسے اور رقم نہ ہوئ، یا وہ کتاب عاریۃً بھی میسر نہ ہوئ تو کرایہ پر لے لی، لیکن آج پہلی بار پڑھا کہ پہلے لوگ کتاب کرایے پر بھی مہیا کردیا کرتے تھے!
صحیح کہا ہے :
کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہے
یہ آخری صدی ہے، کتابوں سے عشق کی