Parda Fash Media - پردہ فاش میڈیا

Parda Fash Media - پردہ فاش میڈیا Welcome To Parda Fash Media This Page About Daly Populer News And Great Information On Education Tru
(2)

‏📌 "افغان ستان" واحد مسلم ملک تھا، جس نے ریاض میں منعقد او آئی سی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی!اس بارے میں اف غان حکام...
17/11/2023

‏📌 "افغان ستان" واحد مسلم ملک تھا، جس نے ریاض میں منعقد او آئی سی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی!
اس بارے میں اف غان حکام کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے ہمیں ایک دعوت نامہ بھیجا تھا، جس پر ہمارے سپریم لیڈر نے جواب دیا: "ہمیں اجلاس کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں، ہمیں وہ جگہ اور لوکیشن بتائیں، جہاں مسلم فوجیں جمع ہوں گی۔ وہیں ملاقات ہوگی۔ باقی بیٹھکیں سب فضول کہانیاں ہیں!" پھر سعودیہ نے دعوت نامہ واپس لے لیا۔ (ٹی پی آر ڈی سی)

15/09/2022

خواہش کے مزاروں پہ دیا روز جلا کر
ٹوٹے ہوئے خوابوں سے شرارت نہیں کرتے۔

✍️محسن نقوی

11/02/2022

کرناٹک کا حجاب معاملہ، اصل قضیہ اور کرنے کا کام
ـــــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی

کرناٹک میں حجاب کا معاملہ آج کل چرچا میں ہے، ہر کوئی اپنے طور پر اظہار خیال کررہا ہے، اگرچہ معاملہ عدالت میں ہے مگر دونوں طرف سے دھرنے، جلسے، جلوس، احتجاج وغیرہ ہورہے ہیں ـ ........... ان تمام ہنگاموں کے بیچ میں اصل مسئلہ کیا ہے یہ شاید بہت سے لوگوں کو پتہ نہیں ہوگا ـ

یہ بات سچ ہے کہ ملکی دستور کی دفعہ 14- 19 -25 وغیرہ کے تحت ہمیں اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی پسند کا کھانا کھانے اور اپنی پسند کا لباس پہنے کی آزادی ہے، اسی طرح دفعہ 29 - 30 کے تحت ہمیں اپنے ادارے، اسکول، مدرسے قائم کرنے اور وہاں اپنا نصاب پڑھانے اور اپنا ضابطہ نافذ کرنے کی آزادی ہے، یہ بنیادی حقوق ایسے ہیں جن میں کوئی مداخلت نہیں کرسکتا، نہ کوئی عدالت ان کے خلاف فیصلہ دے سکتی ہے نہ ہی کوئی پارلیمنٹ یا اسمبلی ان کے خلاف قانون بناسکتی ہے ـ

دستور میں دی گئی اسی آزادی کے تحت ہم دینی مدارس اور اپنے ایسے اسکول قائم کرتے ہیں جن میں عصری تعلیم دی جاتی ہے، وہاں کا نصاب، وہاں کا یونیفارم اور دیگر ضابطے بھی ہم بناتے ہیں ـ ہاں اگر ہمارے بچوں کو سرکاری ڈگری لینی ہو تو اس کے لئے اُنھیں سرکاری بورڈ سے امتحان پاس کرنا ہوگا اس کے بعد ہی ہمارے بچے بی اے، ایم اے، ایل ایل بی وغیرہ بن سکیں گے ـ باقی اسکول اور مدرسوں میں کون سی کتابیں پڑھائی جائیں گی کیا یونیفارم ہوگا اس سے حکومت کو کوئی سروکار نہیں ہوتا،........... جو لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کراتے ہیں ان کے لئے ان اداروں کے تمام ضوابط پر عمل کرنا ضروری ہوتا ہے ورنہ اُن اداروں کو یہ حق ہوتا ہے کہ خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ضابطے کی کارروائی کریں، جرمانہ لگائیں یا اخراج کردیں ـ .......... یہ بھی صحیح ہے کہ آج کل حکومتوں کی نیت خراب ہوگئی ہے وہ دستوری آزادی کو چھیننا یا کم از کم محدود کرنا چاہتی ہیں، بار بار مدارس اور اقلیتی اداروں میں بے جا مداخلت کی جاتی ہے، ......... یہ سب غیر قانونی اور غیر دستوری ہے، ہمیں اس کے خلاف احتجاج بھی کرنا چاہیئے اور قانونی کارروائی بھی ـ

اب آتے ہیں کرناٹک کی طرف، ............ کرناٹک حکومت اور اس کالج جس میں تنازعہ ہوا ہے کا کہنا ہے کہ ہمیں اسکول کے باہر کوئی کیا پہنتا ہے اس سے کوئی مطلب نہیں وہ ان کا حق ہے، مگر اسکول کیمپس کے اندر سبھی اسٹوڈنٹ کو یونیفارم کے قانون پر عمل کرنا ہوگا، اگر آپ اس ادارے میں پڑھنا چاہتے ہیں تو کوئی بھی ایسا لباس جو یونیفارم کے علاوہ ہو وہ نہیں چلے گا ـ

مزید بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ دوسرے اسکولوں کا کیا ضابطہ ہے، ہم نے اپنے آس پاس ممبئی کے کچھ غیرمسلم پرائیوٹ ٹرسٹ یا کانوینٹ اسکولوں میں معلوم کیا کہ وہاں کیا ہوتا ہے ـ پتہ چلا کہ وہاں بھی کلاس روم میں حجاب کی اجازت نہیں، صرف یونیفارم ہی پہننا پڑتا ہے، ایک کانوینٹ اسکول کے بارے میں پتہ چلا کہ وہاں بچیوں کا یونیفارم اسکرٹ ہے، وہاں شلوار پہن کر آنے والی طالبات کو گیٹ میں داخل ہونے کی بھی اجازت نہیں تھی، سختی کے ساتھ کہا جاتا تھا کہ گیٹ کے باہر اتار کر اندر آو ـ ظاہر ہے چلتی سڑک پر شلوار اتارنا کھلی بے حیائی تھی، اس پر ہنگامہ ہوا، مقامی لیڈران بھی شامل ہوئے، ہزار مشکلوں کے بعد یہ طے پایا کہ بچیاں شلوار پہن کر گیٹ میں داخل تو ہوسکتی ہیں مگر اندر آنے کے بعد ایک گوشے شلوار اتار کر کلاس میں داخل ہوں ـ

اس بات کو ہم دوسری طرح بھی دیکھتے ہیں ـ الحمدللہ ہم لوگ ایک انگلش میڈیم اسلامی اسکول اور جونیئر کالج چلاتے ہیں، جس میں حکومت مہاراشٹر کے نصاب کے مطابق اعلی درجے کی عصری تعلیم اور اپنے مرتب کردہ اسلامی نصاب کے مطابق بہترین دینی تعلیم بھی دیتے ہیں، بلکہ ذہین بچوں کو عصری تعلیم کے ساتھ آٹھویں کلاس تک حفظ بھی مکمل کرادیتے ہیں، الحمد للہ پچھلے دس سال سے مہاراشٹرا بورڈ کے امتحان میں سو فیصد ریزلٹ جس میں تقریبا پچانوے فیصدی بچے فرسٹ ڈویزن اور تقریبا 65 فصد امتیازی نمبرات سے کامیاب ہوتے ہیں ـ ......... ہمارے یہاں بچے بچیوں کے لئے الگ الگ کلاس روم ہیں، غیر نصابی سرگرمیاں اسپورٹس پکنک وغیرہ بھی الگ ہوتی ہیں ـ ہمارا یونیفارم بچوں کے لئے کرتا، پاجامہ، ٹوپی، پچیوں کے لئے شلوار، قمیص، ڈوپٹہ اور چھٹی کلاس سے پچیوں کو مکمل اسلامی حجاب پہن کر اسکول آنا ضروری ہے، ہماری لیڈیز ٹیچرس کے لئے بھی اسکول کیمپس میں مکمل حجاب میں رہنا ضروری ہے ـ ........ اب اگر ہمارے اسکول میں کوئی اپنی بچی کو اسکرٹ میں یا اپنے لڑکے کو ٹائی اور پتلون میں بھیجنے پر اصرار کرے اور کہے ہندوستانی دستور کے تحت مجھے اپنے پسند کا لباس پہننے کی آزادی ہے تو ہمیں کرنا چاپیئے، اسے اجازت دیدینی چاپیئے یا اس سے یہ کہنا چاہیئے کہ اگر آپ کو ہمارے اسکول میں پڑھانا ہے تو آپ کو ہمارے ضابطے پر عمل کرنا ہوگا اس لئے کہ ہمیں بھی دستور نے اپنا ادارہ بنانے اور اپنا ضابطہ نافذ کرنے کی اجازت دے رکھی ہے ـ اسی طرح اگر کوئی لڑکا ہمارے مدارس میں اسلامی وضع قطع نہیں اختیار کرتا، حلق لحیہ یا ہپی کٹ بال رکھنے پر اصرار کرتا ہے تو ہم کیا کریں گے، اسی حالت میں پڑھائیں گے یا رخصت کردیں گے ؟

کرناٹک میں بھی یہی ہوا ہے وہاں حکومت نے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے لئے یونیفارم کا قانون نافذ کیا ہے، ............ مسئلہ صرف یہ ہے کہ اب تک ہماری مسلم بچیاں حجاب میں اسکول جاتی تھیں، مسکان نامی جس بچی کا معاملہ سامنے آیا ہے وہ بچی بارھویں کلاس میں ہے، اس نے گیارھویں بھی اسی کالج سےکیا ہے، تب سے اب تک وہ مکمل حجاب میں کالج جاتی رہی ہے، کسی نے اس کو نہیں روکا، اب اچانک حکومت کیوں یونیفارم پر سختی کررہی ہے کہیں اس کے پیچھے الیکشنی سیاست تو نہیں ہے؟

معاملہ عدالت میں ہے وہاں بھی حجاب کی حمایت میں جو وکلاء بحث کررہے ہیں وہ حجاب کی اسلامی حیثیت پر بحث ساتھ آخری درجے میں یہ بھی مطالبہ کررہے ہیں کہ یہ بحث تفصیلی ہے، کافی وقت لگ سکتا ہے، اب امتحان کا زمانہ ہے، اس موقع پر بچیوں کا ذہن منتشر کرنا بالکل مناسب نہیں اس لئے فی الحال کم ازکم دوماہ امتحان ختم ہونے تک اس کے نفاذ پر روک لگادی جائے، تفصیلی بحث کے بعد عدالت اپنا حتمی فیصلہ سناتی رہے ـ

ہم مسلمانوں نے حسب توقع کرناٹک میں حجاب کے قضیئے کے بعد ملک گیر سطح پر جلسے، جلوس، دھرنے وغیرہ شروع کردیئے ہیں، ان ہنگاموں کا کتنا فائدہ ہوگا کتنا نقصان ہوگا اس پر پھر کبھی گفتگو کریں گے، فی الحال اصل مسئلہ کیا تھا اس کی وضاحت کی گئی ہے، ایک بار پھر عرض ہے کہ فی الحال معاملہ حجاب کا نہیں، وہ ہمارا مذہبی اور بنیادی حق ہے، یہی بات کرناٹک سرکار اور دیگر سیاسی پارٹیاں بھی کہہ رہی ہے کہ ہندوستان میں سب کو مذہب کی آزادی ہے، مگر بات یونیفارم کی ہے، فوج کا ایک یونیفارم ہے، پولیس کا ہے، اس کی خلاف ورزی نہیں کی جاسکتی ـ

دراصل کرنے کا کام یہ ہے کہ جس طرح ایک چھوٹی سی اقلیت سکھوں نے اپنی پگڑی، بال اور کڑے وغیرہ کو ہرجگہ کے یونیفارم سے مستثنیٰ کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے ہم اس ملک کی دوسری بڑی اکثریت ہونے کے باوجود کیوں نہیں کراسکے ـ آج سکھ بچہ اسکول میں، کالج میں، یونیورسٹی میں، پولیس میں اور فوج میں اپنی شناخت کے ساتھ داخل ہوسکتا ہے تو ہم کیوں نہیں؟ ؟......... یہ ہے کرنے کا کام کہ ہر جگہ ہم اپنی شناخت کے ساتھ داخل ہوپائیں! ........ یہ کام کیسے ہوگا، اس میں داخلی اور خارجی دشواریاں کیاہیں؟ سوچئے، پارلیمنٹ، اسمبلی سے لے کر سڑک تک اس کے لئے کیا ہوسکتا ہے اس کا منصوبہ بنائیے،.......... موجودہ معاملے میں جو شور ہنگامہ ہو رہا ہے وہ اگر ضروری ہے تو اس کا رخ اگر اپنے اس بنیادی مطالبے کی طرف موڑ دینا چاہیئے ـ

ہاں مسکان کے ساتھ جو کچھ شرپسندوں نے کیا ہے وہ انتہائی خطرناک بلکہ جان لیوا بھی ہوسکتا تھا، اس کے لئے کرناٹک سرکار سے زور دار مطالبہ کرنا چاہیئے کہ ویڈیو دیکھ کر ان غنڈوں کی پہچان کرے اور ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرکے ـ بھلے مسکان نے اپنی طرف سے قانونی کارروائی سے انکار کیا ہے مگر اصل ذمہ داری حکومت کی ہے کہ وہ امن وقانون کو خراب کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نپٹے ـ اگر حکومت کارروائی میں پس وپیش کرتی ہے تو عدالت کا سہارا لینا چاہیئے ـ ......... اسی طرح کالج کے پرنسپل اور وہ اساتذہ جنھوں نے مسکان کو شرپسندوں سے بچایا ہے حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیئے کہ وہ ان کے لئے انعام کا اعلان کرے ، ملت اسلامیہ کو بھی ان اساتذہ کےاعزاز کا اہتمام کرنا چاہیئے تاکہ دیگر انسانیت نواز افراد کا حوصلہ بلند ہو ـ

محمود احمد خاں دریابادی
۱۱ فروری ۲۰۲۲ ء دو بجے شب

10/02/2022

10/02/2022

The Karnataka High Court's temporary decision in the hijab case is negative and against the dignity of the judiciary.

10/02/2022

حجاب معاملے میں کرناٹک ہائیکورٹ کا عارضی فیصلہ منفی اور عدالتی وقار کےخلاف ہے، امن و امان کو برقرار رکھنے کےنام پر مسلم کمیونٹی کو امتحان سے گزارنا انصاف کا مذاق اور عدالتی اتھارٹی کا مضحکہ ہے !

09/02/2022

#حجاب

08/02/2022

سلام عفت پہ ہے تمہاری
نظام باطل لرز اٹھا ہے۔
#حجاب

"ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔ ﺟﺐ ﻣَﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮ...
31/01/2022

"ﻣﯿﺮﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺳﺐ ﺳﮯ ﺑﮍﯼ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺟﯽ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ۔۔ ﺟﺐ ﻣَﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﺋﺶ ﮐﺮ ﮐﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﻮﺍﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻏُﺮﺑﺖ ﮐﮯ ﮈﯾﺮﮮ ﺗﮭﮯ لہٰذا ﺍﮔﺮ ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺘﺎ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﻣﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﻣﺰﯾﺪ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮪ ﺟﺎﺗﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻃﮯ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﺧُﻮﺏ ﻣﺤﻨﺖ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔۔ ﻣﯿﭩﺮﮎ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﮩﺖ ﮐﻢ ﺁﺋﮯ، ﺗﮭﺮﮈ ﮈﻭﯾﺜﺮﻥ ﮐﮯ ﺁﺱ ﭘﺎﺱ۔۔ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﻘﯿﻦ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻧﮧ ﺍﯾﻒ ﺍﯾﺲ ﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﻣﻠﮯ ﮔﺎ، ﻧﮧ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﻦ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎ ﭘﺎﺅﮞ ﮔﺎ۔۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺣﺎﻻﺕ ﻧﮩﺎﯾﺖ ﻣﺨﺪُﻭﺵ ﺗﮭﮯ، ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺳﺎﻟﻦ ﺩﻭ ﺩﻥ ﺗﮏ ﺍﻭﺭ ﮐﺒﮭﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﺗﯿﻦ ﺩﻥ ﺗﮏ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﮨﻢ ﮐﺒﺎﮌﯾﮯ ﮐﻮ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺩﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﺍُﺱ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻟﻮﮒ ﺗﮭﮯ۔۔ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺭکھا ﺟﺎﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣَﯿﺰ ﮨﻢ ﻧﮯ ﮐﺒﺎﮌﯾﮯ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﭻ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﯾﺪﺍ ﺗﮭﺎ۔۔ ﺍُﺱ ﻭﻗﺖ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﭨﺎﻧﮓ ﭨُﻮﭨﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﺑﻌﺪ ﻣﯿﮟ ﻟﮑﮍﯼ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭨُﮑﮍﺍ ﮐِﯿﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﭨﮭﻮﻧﮏ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﯾﮧ ﭨُﮑﮍﺍ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﻭﺍﻟﯽ ﺳﺎﺋﯿﮉ ﭘﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﺎ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﻣﮩﻤﺎﻧﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻣﯿﺰ ﮐﯽ ﺍﭼّﮭﯽ ﺷﮑﻞ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﮯ۔۔ ﻏُﺮﺑﺖ ﮐﮯ ﺍِﺱ ﻣﺎﺣﻮﻝ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ، ﻧﺎﻣُﻤﮑﻦ !!!
ﻣﯿﭩﺮﮎ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﻒ ﺍﮮ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ ﺣﺎﻻﻧﮑﮧ ﻣَﯿﮟ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﺑﻨﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﺍﺑّﺎ ﺟﯽ ﮐﻮ ﺟﺐ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﺎﻟﺞ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﭼﮩﺮﮮ ﭘﺮ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺮﮐﺎﺭﯼ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﯽ ﻓﯿﺲ ﺍﺩﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ، لہٰذا ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﺩﻻﯾﺎ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﭘﺎﺭﭦ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﻮﺋﯽ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﻣﻮﭨﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﻟﻮﮞ ﮔﺎ۔۔ ﺍﺑّﺎ ﺟﯽ ﺗﻮ ﻣُﻄﻤﺌﻦ ﮨﻮ ﮔﺌﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﺳﻤﺠﮫ ﻧﮧ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﮐﺎﻡ ﮐﺮﻭﮞ؟؟ ﮨﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﻧﮧ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺴﮧ ﺩﺭﮐﺎﺭ ﺗﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻣَﯿﮟ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﺗﮭﺎ۔۔ ﺑﺎﻵﺧﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﭘﻤﭗ ﭘﺮ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺷِﻔﭧ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ، ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ 9 ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﻘﺮّﺭ ﮨﻮﺋﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﺳﺎﺭﮮ ﭘﯿﺴﮯ ﻻ ﮐﺮ ﻣﺎﮞ ﺟﯽ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﺎ، ﻭﮦ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﻼﺋﯿﮟ ﻟﯿﺘﯿﮟ، ﭘﯿﺎﺭ ﮐﺮﺗﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﮨﺎﻧﮧ ﺟﯿﺐ ﺧﺮﭺ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﭘﮑﮍﺍ ﺩﯾﺘﯿﮟ۔۔ ﺍِﻧﮩﯿﮟ ﺩﻭ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﻮﮞ ﺳﮯ ﻣَﯿﮟ ﮐﺎﻟﺞ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺲ ﮐﺎ ﮐﺮﺍﯾﮧ ﺑﮭﯽ۔۔ ﻋﺎﻡ ﻃﻮﺭ ﭘﺮ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﺮﻣﯿﺎﮞ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ، ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﮔﺮﻣﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻥ ﺟُﻮﮞ ﺟُﻮﮞ ﮔُﺬﺭﺗﮯ؛ ﻣﺠﮭﮯ ﻧﺸﮧ ﺳﺎ ﮨﻮﻧﮯ ﻟﮕﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﺑﮩﺖ ﺟﻠﺪ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﺷﺮُﻭﻉ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ، ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﺁ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ۔۔ ﺑﮯ ﺷﮏ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﮨﯽ، ﻣﻠﮯ ﮔﺎ ﺗﻮ ﺳﮩﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﯽ؛ ﺍﺗﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺩﻥ ﮈﺑﻞ ﮈﯾُﻮﭨﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﭼﺎﺭ ﭘﯿﺴﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮐﻤﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﻣّﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻮﮞ ﮔﺎ ﮐﺎﻓﯽ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎﺋﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﺟﯿﺴﮯ ﮨﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮫ ﭘﺮ ﭘﯿﺴﮯ ﺭﮐﮭﺘﺎ، ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻣﺎﻟﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮐﮯ ﺣﻞ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷُﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﺮﺗﯽ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯿﮟ، ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﯼ ﮨﻤّﺖ ﻧﮧ ﭘﮍﺗﯽ ﮐﮧ ﻣَﯿﮟ ﺍُﻧﮩﯿﮟ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﮐﮩﻮﮞ۔۔
ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﭘﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﮩﺖ ﭘﺴﻨﺪ ﮨﮯ، لہٰذا ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺳﺴﺘﯽ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎ ﮨﯽ ﻟﯿﺘﯿﮟ؛ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﯽ ﺗﻌﺪﺍﺩ ﺁﭨﮫ ﺗﮭﯽ، ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﻧﺎﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ۔۔ ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ؛ ﮨﻢ ﺳﺐ ﺑﮩﻦ ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺩﯾﺘﮯ ﻭﻗﺖ ﺍﻣّﺎﮞ ﮨﺮ ﺩﻓﻌﮧ ﻣﯿﺮﮮ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﯽ ﮈﻧﮉﯼ ﻣﺎﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ۔۔ ﺑﻈﺎﮨﺮ ﻭﮦ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﺣﻠﻮﮮ ﻭﺍﻻ ﭘﺘﯿﻼ ﺧﺎﻟﯽ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﺭﮐﮫ ﺩﯾﺘﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺘﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﮐﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﭼﮫ ﺳﺎﺕ ﭼﻤﭻ ﺣﻠﻮﮦ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔۔ ﻟﮩﺬﺍ ﺟُﻮﻧﮩﯽ ﺳﺎﺭﮮ ﺍﺩﮬﺮ ﺍُﺩﮬﺮ ﮨﻮﺗﮯ، ﺍﻣّﺎﮞ ﻣُﺴﮑﺮﺍﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮕﭽﯽ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﮐُﮭﭽﺎ ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺳﺎ ﻣﺰﯾﺪ ﺣﻠﻮﮦ ﭼﻤﭻ ﺳﮯ ﮐُﮭﺮﭺ ﮐُﮭﺮﭺ ﮐﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺘﯿﮟ۔۔ ﺍﯾﻒ ﺍﮮ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺹ ﻧﻤﺒﺮ ﻧﮧ ﺁ ﺳﮑﮯ، ﺗﺎﮨﻢ ﺑﯽ ﺍﮮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻠﮧ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﭘﭩﺮﻭﻝ ﭘﻤﭗ ﮐﯽ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺍﯾﮏ ﭘﻼﺳﭩﮏ ﮐﮯ ﺑﺮﺗﻦ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﮐﺮ ﻟﯽ۔۔ ﯾﮩﺎﮞ ﻣﯿﺮﯼ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ 12 ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﻘﺮّﺭ ﮨﻮﺋﯽ، ﺗﺎﮨﻢ ﻣﯿﺮﺍ ’’ﺟﯿﺐ ﺧﺮﭺ‘‘ ﻭﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔۔ ﺍﺏ ﮐﯽ ﺑﺎﺭ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﮨﺮ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮧ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﭘﭽّﺎﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﺿﺮُﻭﺭ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﻭﮞ ﮔﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺟﺐ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﺁﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﻓﺮ ﭘﯿﺴﮯ ﮨﻮﮞ۔۔ ﺍِﺱ ﭘﭽّﺎﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﻭﭘﮩﺮ ﮐﮯ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻗُﺮﺑﺎﻧﯽ ﺩﯾﻨﺎ ﭘﮍﯼ، ﻣَﯿﮟ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﻣﯿﮟ ﮨﺎﻑ ﭨﺎﺋﻢ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮈﮬﯿﺮ ﺳﺎﺭﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯽ ﮐﺮ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﻟﯿﺘﺎ ﺍﻭﺭ ﺑُﮭﻮﮎ ﮐﻮ ﺯﺑﺮﺩﺳﺘﯽ ﺑُﮭﻼ ﺩﯾﺘﺎ۔۔ ﮐﭽﮫ ﺩﻧﻮﮞ ﺗﮏ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﺩﺕ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ، ﻣﺠﮭﮯ ﯾﺎﺩ ﮨﮯ ﺟﺐ ﺍﮐﺘﻮﺑﺮ ﮐﺎ ﻣﮩﯿﻨﮧ ﺷﺮﻭﻉ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﺟﻤﻊ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ ﺗﮭﺎ، ﮨﺮ ﺭﻭﺯ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﻣَﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﻣﯿﮟ ﺳﺒﺰﯼ ﻭﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮔﺎﺟﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺿﺮﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺘﺎ۔۔ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﺁ ﮔﺌﯽ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺑﮭﯽ ﮐﮍﻭﯼ ﮨﯿﮟ، ﻣِﯿﭩﮭﯽ ﮔﺎﺟﺮﯾﮟ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮦ ﺗﮏ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮩﺎﻝ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ، ﮔﻮﯾﺎ ﺍﺏ ﻣﯿﺮﯼ ﺩِﻟﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﭘﻮﺭﯼ ﮨﻮﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺻﺮﻑ ﺍﯾﮏ ﻣﺎﮦ ﺭﮦ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ۔۔ ﻧﻮﻣﺒﺮ ﻣﯿﮟ ﺟﺐ ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺟﻤﻊ ﮐﯿﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﮨﻮ ﭼﮑﮯ ﺗﮭﮯ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﺍﮔﺮ ﺳﺎﮌﮬﮯ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﺳﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﺗﻮ ﯾﻘﯿﻨﺎً ﮨﻢ ﺳﺐ ﮔﮭﺮ ﻭﺍﻟﮯ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﮯ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﭘﮑﮍﺍﺋﮯ ﺗﻮ ﺍُﻥ ﮐﮯ ﺣﻠﻖ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﺁﮦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﭼﻮﻧﮏ ﮔﯿﺎ، ﭘﮩﻠﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺵ ﮨﻮ ﺟﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ، ﺍﺏ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ؟؟ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﺗﻮ ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯿﮟ، ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺑﮩﻦ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺟﺲ ﺟﮕﮧ ﺑﺎﺕ ﭼﻞ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ؛ ﺍُﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﮨﺎﮞ ﮐﺮ ﺩﯼ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻟﻮﮒ ﺩﺳﻤﺒﺮ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺷﺎﺩﯼ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﺎﮦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ۔۔ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺗﻮ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﺗﻨﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﮐﯿﺴﮯ ﮨﻮ ﮔﺎ؟؟ ﻣَﯿﮟ ﺳﺎﺭﯼ ﺑﺎﺕ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﺗﮭﺎ، لہٰذا ﺍﻣّﺎﮞ ﮐﻮ ﺗﺴﻠّﯽ ﺩﯼ ﮐﮧ ﺧﺪﺍ ﺑﮩﺘﺮ ﮐﺮﮮ ﮔﺎ۔۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﻓﯿﮑﭩﺮﯼ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ ﺳﮯ ﺍﯾﮉﻭﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ، ﺧﺪﺍ ﺍُﻥ ﮐﺎ ﺑﮭﻼ ﮐﺮﮮ، ﻭﮦ ﻣﺎﻥ ﮔﺌﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﭻ ﮨﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﻋﻨﺎﯾﺖ ﮐﺮ ﺩﯾﮯ۔۔ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺴﮯ ﺍﻣّﺎﮞ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﺟﻮﮌﮮ ﮨﻮﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﻟﮩﺬﺍ ﺍﻧﺘﮩﺎﺋﯽ ﺳﺎﺩﮔﯽ ﺳﮯ ﺑﮩﻦ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯼ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔۔
ﻣَﯿﮟ ﺑﯽ ﺍﮮ ﺳﮯ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﻣﯿﮟ ﺁ ﮔﯿﺎ، ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯽ ﺗﮭﯽ ﻟﯿﮑﻦ ﮨﺮ ﻣﺎﮦ ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﺍﯾﮉﻭﺍﻧﺲ ﮐﯽ ﻣَﺪ ﻣﯿﮟ ﮐﭧ ﺟﺎﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔۔ ﺍِﺱ ﺩﻭﺭﺍﻥ ﮐﺌﯽ ﺳﺮﺩﯾﺎﮞ ﮔُﺬﺭ ﮔﺌﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﭘﯿﭧ ﺑﮭﺮ ﮐﺮ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﺍﺏ ﺍﯾﮏ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯽ ﺭﮨﺎ۔۔ ﺍﯾﻢ ﺍﮮ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮍﯼ ﮐﻤﭙﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻣﯿﻨﺠﺮ ﮐﯽ ﻧﻮﮐﺮﯼ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ، ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﺮﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﻭ ﺧﯿﺎﻝ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﮍﮪ ﮐﺮ ﺩﺱ ﮨﺰﺍﺭ ﻣﻘﺮّﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺳﯽ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﻨﻮﮞ ﮐﯽ ﺷﺎﺩﯾﺎﮞ ﮐﯿﮟ، ﺑﮭﺎﺋﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ، ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﻮﭨﺮ ﺳﺎﺋﯿﮑﻞ ﺧﺮﯾﺪﺍ۔۔ ﺑﮩﺖ ﺳﺎﺭﺍ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﻧﺪﺭ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺼﺮُﻭﻓﯿّﺖ ﺍﺗﻨﯽ ﺑﮍﮪ ﭼﮑﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺻُﺒﺢ ﮐﺎ ﮔﯿﺎ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﮔﮭﺮ ﺁﺗﺎ ﺍﻭﺭ ﺳﻮ ﺟﺎﺗﺎ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﻮ ﻣﭩﮭﺎﺋﯽ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺧﺮﯾﺪ ﮐﺮ ﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﮭﯽ ﻭﺍﻻ ﺣﻠﻮﮦ ﭘﺴﻨﺪ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ، ﺍﻣّﺎﮞ ﺩﻭﺩﮪ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﻮﯾﺎ ﮈﺍﻝ ﮐﺮ ﺟﻮ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﺗﮭﯿﮟ، ﻭﮨﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺴﻨﺪ ﺗﮭﺎ۔۔ ﭘﮭﺮ ﻗﺴﻤﺖ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﺭُﺥ ﺑﮭﯽ ﺩﮐﮭﺎ ﺩﯾﺎ، ﺍﻣّﺎﮞ ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﭼﺎﺭﭘﺎﺋﯽ ﭘﮧ ﻟﯿﭩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﻗﺒﺮ ﮐﯽ ﻧﺬﺭ ﮨﻮ ﮔﺌﯿﮟ۔۔ ﺍﺑﮭﯽ ﺍِﺱ ﺻﺪﻣﮯ ﮐﯽ ﺷﺪّﺕ ﮐﻢ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﮈﯾﮍﮪ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﻭﺍﻟﺪ ﺻﺎﺣﺐ ﺑﮭﯽ ﭼﻞ ﺑﺴﮯ۔۔ ﺁﺝ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﻭﭘﮯ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﯽ ﺭﯾﻞ ﭘﯿﻞ ﮨﮯ؛ ﻣﯿﺮﯼ ﺑﯿﻮﯼ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﺟﯿﺴﺎ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ؛ ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺑﯿﭩﯿﺎﮞ ﺑﮩﺖ ﺷﻮﻕ ﺳﮯ ﯾﮧ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ، ﻟﯿﮑﻦ ﻣَﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﺎ۔۔ ﻣَﯿﮟ ﺷﻮﮔﺮ ﮐﺎ ﻣﺮﯾﺾ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﮈﺍﮐﭩﺮﺯ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﺨﺘﯽ ﺳﮯ ﻣِﯿﭩﮭﺎ ﻣﻨﻊ ﮐﯿﺎ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ۔۔ ﺟﺐ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﻣَﯿﮟ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﺎ ﺣﻠﻮﮦ ﮐﮭﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ، ﺍﺏ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﮔﺎﺟﺮ ﮐﮯ ﺣﻠﻮﮮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﻤﭻ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﻟﯿﮯ ﺯﮨﺮ ﮨﮯ۔۔۔!‘‘

18/01/2022

پردیسی مجید چاچا

مجید چاچا بڑے خوش تھے کہ آخر کار 30 سال پردیس کاٹ کر اب وہ ہمیشہ کیلیئے پاکستان واپس جا رہے تھے، ہر کسی سے گلے مل رہے تھے ان کے چہرے پر خوشی نمایاں تھی، میں بھی پردیسی ہوں مجھے 15 سال ہوئے ان کو دیکھ کر مجھے بھی خیال آیا کہ ایک دن میں بھی ہمیشہ کیلیئے پردیس چھوڑ دونگا
مگر فی الحال مجید چاچا کی خوشیوں میں سے ہی خوشیاں بانٹ رہا تھا

ساری رات مجید چاچا نے خوشی سے جاگ کر گزاری اگلی صبح انہیں ائیرپورٹ چھوڑا اور واپس آ گیا، میں اپنے کام کاج میں لگ گیا اور مجید چاچا پاکستان پہنچ گئے، خیریت دریافت کرنے کیلیئے فون کیا انہیں خوش پایا دل کو اور بھی تسلی ہو گئی

ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ میں آفس سے گھر آیا دیکھتا ہوں مجید چاچا بیٹھے ہوئے ہیں، چہرہ مرجھایا ہوا کندھے جھکے ہوئے، میں نے حیران ہو کر پوچھا چاچا آپ یہاں واپس کیسے؟

مجید چاچا نے آٹھ کر مجھے گلے لگایا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، میں اتنا گھبرا گیا تھا کہ میرے ہاتھ پاؤں پھول گئے، میں نے چاچا کو زور سے گلے لگایا اور انہیں چپ کرانے کی کوشش کرنے لگا

چاچا کے آنسو شاید پاکستان میں ہی خشک ہو چکے تھے، میں نے کھانا بنایا مجید چاچا نماز پڑھنے لگ گئے، کھانے سے فارغ ہو کر میں نے دریافت کیا چاچا بتائیں تو سہی ہوا کیا ہے

چاچا نے بتایا کہ ان کے 3 بیٹے 2 بیٹیاں ہیں، دونوں بیٹیوں کی شادی یہاں رہ کر ہی کر دی تھی بیٹے تینوں ابھی کنوارے ہیں اور نوکری وغیرہ کرتے ہیں

چاچا نے کہا جس دن وہ گھر پہنچے سب ٹھیک تھا، انہیں مہمان کی طرح عزت دی گئی، دو دن بعد ہی ایک بیٹے کو رات دیر سے گھر آنے کی وجہ سے ذرا سا ڈانٹ دیا تو جواب میں بیٹے نے کہا آپ آئے ہیں تو عزت سے رہیں زیادہ تحقیقات نہ کیا کریں کہ میں کہاں جا رہا ہوں کہاں سے آ رہا ہوں

چاچا خاموش ہو گئے، اگلے روز چچا نے خود ہی اس بیٹے کو پاس بٹھا کر اس سے معذرت کی اور اس کا موڈ ٹھیک کیا
مزید دو دن گزرے تو دروازے پر دستک ہوئی، باہر کوئی لڑکا ان کے بڑے بیٹے کو بلانے آیا تھا، اسی بیٹے نے دروازہ کھولا، ڈرائنگ روم میں بیٹھے چاچا مجید اپنے بیٹے کی اسکے دوست سے گفتگو سن رہے تھے

دوست کہہ رہا تھا 4 دن ہو گئے ہیں تُو رات کو باہر نہیں آتا ہم تیرا انتظار کرتے رہتے ہیں، بیٹے کا جواب تھا، یار ابا آیا ہوا ہے، یہ چلا جائے تو آزادی ملے گی، جب سے آیا ہے ناک میں دم کر رکھا ہے...

اسکے الفاظ چچا مجید کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہو رہے تھے، شاید چاچا کے کانوں نے ہی مزید سننے کی طاقت گنوا دی

چاچا بیہوش ہو گئے، وہ کئی گھنٹے اسی کمرے کے فرش پر گرے پڑے رہے جب ہوش آیا تب بھی خود کو اکیلے ہی پایا، چچا کی بیوی اپنی محلے کی چند خواتین کے ساتھ شاپنگ کرنے گئی ہوئی تھی اور بیٹے گھر سے باہر تھے

چچا اپنے خالی مکان کی دیواروں سے عجیب باتیں کرنے لگے، کبھی کہتے میں کہاں غلط ہوں؟ کیا میں اتنا غلط ہوں؟ میں نے کیا نہیں کیا؟ کیا میں اتنا غیر اہم ہوں؟

اسی رات چچا نے کھانے کی ٹیبل پر صرف اپنے لئے کھانا دیکھا، باقی سب باہر سے کھا کر آئے تھے، چچا نے گلہ کرنا چاہا کہ انکے ساتھ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ ہی جاتے، مگر مزید تکلیف دہ جواب نہ سننے کا حوصلہ تھا نہ ہی سوال کیا، کھانا کھایا اور لیٹ گئے

اگلی صبح چچا نماز کیلیئے اٹھے وضو کر رہے تھے کہ بیٹے کی زوردار گرجتی آواز آئی، کون شور کر رہا ہے اس وقت؟

چچا معصوم سے بچے کی طرح ڈر سے گئے اور وضو ادھورا چھوڑ کر مسجد چلے گئے وہیں وضو کیا اور نماز پڑھی، نماز کے بعد دعا مانگتے ہوئے چچا رونے لگ گئے تبھی امام مسجد نے چچا کو پوچھا کیا ہوا بڑے میا روتے کیوں ہو؟

چچا نے سارا ماجرا بیان کیا، اور امام صاحب سے پوچھا کہ آپ ہی بتائیں مجھے اب کیا کرنا چاہیئے

امام صاحب جو بہت بزرگ تھے فرمانے لگے، اب تُو کچھ نہیں کر سکتا سوائے برداشت کے یا ان کیلیئے ہدایت کی دعا کرنے کے، جو وقت تیرے بچوں کی تربیت کا تھا وہ تُو نے پردیس میں گزار دیا، اب وہ بچے نہیں رہے، انہیں جس طرح کی پرورش ملی وہ ویسے بن چکےاب یا برداشت کر یا ان سے الگ ہو کر کہیں اور رہ لے

چچا واپس گھر گئے، بیوی سے تمام حال بیان کیا، بیوی نے بھی کہہ دیا میں تو پہلے ہی کہتی تھی کہ واپس آ کر کیا کرو گے، وہاں تو پھر بھی نوکری تھی پیسہ تھا یہاں فارغ رہ کر بچوں سے طعنے ہی سننے ہیں

چچا کو اپنے کانوں پر تیسری بار یقین نہ آیا کہ یہ ان کا وہم ہے کوئی ڈراونا خواب ہے یا کڑوی حقیقت

غرض چچا نے بینک میں رکھی ہوئی رقم سے واپسی کا ٹکٹ خریدا اور بنا کسی کو بتائے وہ اپنے گھر کے دروازے کو چوم کر یہ کہتے ہوئے نکلے کہ اے میرے وہم کے تو میرا گھر ہے، میں تجھ میں تو رہنا چاہتا ہوں پر وہم میں نہیں...

چاچا کی باتیں سن کر میری آنکھوں سے نکلتے آنسو میرے سینے تک کو تر کر گئے تھے، سناٹے کو توڑتے ہوئے مجید چاچا کی ہلکی سی آواز نکلی، جہانزیب، میں اب پاکستان کبھی نہیں جاؤں گا، جب میں نہ رہا تو مجھے یہیں پردیس میں ہی دفن کردینا

میں چچا کے ساتھ لپٹ کر زور زور سے رونے لگا، کیونکہ میرا دل بھی ڈرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہیں پاکستان میں بنایا گیا میرا گھر بھی وہم تو نہیں؟

تحریر: جہانزیب پاکستانی

Follow my Page
16/11/2021

Follow my Page

01/12/2020

My balog is abaut beautiful and motivational stories and it,s about the people of the past who are remembered by the whole world.

تیری رحمتوں کا دریا سرعام چل رہا ہے مجھے بھیک مل رہی تیرا کام چل رہا ہے میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے شریک؛نام تیرااسی نام ک...
06/04/2020

تیری رحمتوں کا دریا سرعام چل رہا ہے
مجھے بھیک مل رہی تیرا کام چل رہا ہے

میرے دل کی دھڑکنوں میں ہے شریک؛نام تیرا
اسی نام کی بدولت میرا کام چل رہا ہے

سر عرش بات تیری سر حشر نام تیرا
کہیں بات چل رہی ہے کہیں نام چل رہا ہے

29/03/2020

🖍🖍🖍🖍🖍آپ ہمارے اس فیسبک پیج میں شامل ہوں.🖍🖍🖍🖍

Address

Purnia
854315

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Parda Fash Media - پردہ فاش میڈیا posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Parda Fash Media - پردہ فاش میڈیا:

Videos

Share


Other News & Media Websites in Purnia

Show All