Abdur Rahman rahi

Abdur Rahman rahi
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سنان اول ، طاؤس و رباب آخر

15/01/2024

احمد فراز کے الفاظ میں حکام کا آغاز و انجام ۔۔۔۔
کس رعونت کے تیور تھے آغاز میں
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست و کف در دہاں آئے تھے
طوق در گردن و پابجولاں گئے
احمد فراز

31/12/2023

یہود کی کچھ خاص خصلتیں جنہیں مولانا صفی الرحمان مبارکپوری نے اپنی کتاب الرحیق المختوم میں بیان فرمایا ہے
مولانا رقم طراز ہیں کہ یہ لوگ سازشوں اور جنگ و فساد کی آگ بھڑکانے میں بڑے ماہر تھے ، ایسی باریکی سے ہمسایہ قبائل میں دشمنی کے بیج بوتے کہ ان قبائل کو احساس تک نہ ہوتا تھا ، کمال یہ تھا کہ یہ لوگ قبائل کو لڑا بھڑا کر چپ چپ چاپ کنارے بیٹھ رہتے اور عربوں کی تباہی کا تماشہ دیکھتے ، البتہ بھاری بھر کم سودی قرض دیتے رہتے تاکہ سرمائے کی کمی کے سبب لڑائی رکنے نہ پائے اور اس طرح وہ دوہرا نفع کماتے رہتے
دور حاضر میں بھی شاید یہی ہو رہا ہے لیکن مسلم امہ بجائے اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنے کے آپس میں دست و گریباں ہے
اللہ مسلم امہ کی حفاظت فرمائے آمین

وجود پاکستان کا پس منظر
23/12/2023

وجود پاکستان کا پس منظر

نئی نسل کیلئے مشہور مؤرخ شبنم قیوم کی بہترین نصیحتیں ، جن کا فقدان تاریخ کشمیر میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے  ۔۔۔۔۔۔۔۔
21/12/2023

نئی نسل کیلئے مشہور مؤرخ شبنم قیوم کی بہترین نصیحتیں ، جن کا فقدان تاریخ کشمیر میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

کشمیر میں قبائلیوں کی آمد کا پس منظر
19/12/2023

کشمیر میں قبائلیوں کی آمد کا پس منظر

19/12/2023

ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں جو حقیقت سے عاری ہونے کی وجہ سے کشمیر کی غلامی کا سہرا قبائیلیوں کے سر رکھتے ہیں ، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر قبائلی حملہ نہ کرتے تو کشمیر یا تو آزاد ہوتا یا پاکستان کے ساتھ مل گیا ہوتا لیکن یہ ان کی تاریخ سے ناآشنائی کی ایک بڑی علامت ہے کیونکہ تاریخ کے اوراق پر اگر سرسری نظر بھی ڈال لی جائے تو ایسے انکشافات ضرور ہو جاتے ہیں جن کی مدد سے سچائی پر پڑے ہوئے جھوٹ اور الزامات کے تمام پردوں کو ہٹایا جا سکتا ہے ، در اصل بات کچھ یوں تھی کہ جب ریاستوں کے الحاق کا مسئلہ اجاگر ہوا تو کانگریس کے لیڈران نے ہری سنگھ کو منانے کیلئے بہت سے راجاؤں کو یکے بعد دیگرے بھیجا لیکن ہری سنگھ نے نہرو دشمنی کی وجہ سے اور کشمیر کو دوسرا سویزرلینڈ بنانے کے خواب میں سرشار ہو کر انکار کر دیا ، جس کے بعد آر ایس ایس کے رضاکار بالا بالا صوبہ جموں میں داخل ہوئے اور کرگھسوں کی طرح جموں کے مسلمانوں پر جھپٹ پڑے ، تاکہ پاکستان جب یہ داستان مظالم سنے تو سیخ پا ہو کر معاملۂ کشمیر میں مداخلت کرے اور ہندوستان کو کشمیر پر ہاتھ صاف کرنے کا موقعہ ملے ، پڑوسی ریاستوں سے تلواروں، نیزوں اور برچھیوں سے لیس ہزاروں بلوائیوں کے جتھے صوبہ جموں میں وارد ہوئے اور مسلمانوں کا اجتماعی قتل کیا گیا ، گھروں میں گھس کر لوٹ مار کی گئی ، مکینوں کو نیزوں اور برچھیوں سے چھلنی کر دیا گیا ، سردار پٹیل کی ہدایت پر شہر میں ڈھنڈورا پٹوایا گیا کہ جو بھی مسلمان زندہ بچ گیا ہے وہ اپنے آپ کو پولیس لائن میں پیش کرے تاکہ اسے پاکستان بھیجا جا سکے یہ منادی سنتے ہی حالات وقت سے گھبرائے اور سہمے ہوئے تمام مسلمان مرد اور خواتین پولیس لائن میں جمع ہونے لگے ، ان کو ٹرکوں میں بھر لیا گیا ، ان لوگوں نے شاید بہتری کی امید لئے اپنے آپ کو حالات کے سپرد کیا تھا لیکن ان عادت سے مجبور لوگوں نے ان نہتوں کو بھی جینے کا حق نہ دیا ، یہ قافلہ جب سانبہ پہونچا تو مردوں ، بوڑھی عورتوں اور بچوں کو مشین گنوں سے بھون ڈالا گیا اور نوجوان عورتوں اور بالغ لڑکیوں کو اغوا کر لیا، مردوں کو لائنوں میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا گیا اور عورتوں کو اغوا کر کے عصمت دری کی گئی ، مصنف لارڈ برڈوڈ کے مطابق دس لاکھ مسلمان صوبہ جموں سے ہجرت کرکے سرحد پار چلے گئے لیکن یہ مہاجرین بھی محفوظ نہ تھے راستے میں اگر غنڈوں اور سپاہیوں کے ہتھے چڑھ جاتے تو گولیوں کی بوچھاڑ سے ٹکڑے ٹکڑے کر دئے جاتے ،
میر پور ، پونچھ ، اور مظفرآباد میں لاکھوں لوگوں کے قتل عام ، لوٹ مار ، گھروں کو لوٹنے ، اور مستورات کی بے حرمتی کرنے کے واقعات رونما ہوئے ، سرحد پار جانے والے لوگوں کے توسط سے یہ یہ ظلم و ستم کی داستانیں پاکستان کے مسلمانوں تک بھی پہونچیں جن کو سن کر مسلمانان پاکستان اپنے بھائیوں کی امداد کا مطالبہ کرنے لگے ، یہ ایک فطری جذبہ تھا کیونکہ دنیا کی کوئی بھی قوم اپنے دینی بھائیوں کے قتل عام ، ان کی لڑکیوں کی اغواکاری اور عورتوں کے ساتھ کی گئی بے حرمتی پر خاموش نہیں رہ سکتی ،
کیا کوئی ایسا انسان جس کے سینے میں دل موجود ہو اس بات کا تصور کر سکتا ہے کہ ان لڑکیوں پر کیا گزری ہو گی جن کے والدین اور بھائیوں کو ان کے سامنے بھون دیا گیا اور ان کی عزت لوٹنے کیلئے انہیں زندہ رکھ لیا گیا ہو ، نہیں ، کوئی بھی اپنے گھروں میں آرام و آسائش میں رہنا والا آدمی اس کا تصور نہیں کر سکتا ،
الغرض جب یہ واقعات سرحد پار پہونچنے لگے تو وہاں کے مسلمان سخت جذباتی ہوکر مظاہرے کرنے لگے لیکن جب ان مظاہروں کا کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملا تو وہ خود سرحد عبور کرنے پر مجبور ہو گئے جس سے ہندوستان کو بہانہ ہاتھ آگیا اور اس نے کشمیر میں کشمیر کی حفاظت کی غرض سے اپنی فوج اتار دی جو آج ستر سال بعد بھی واپس جانے کا نام نہیں لے رہی
#کشمیر

" ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن “ منظر اور پس منظر
19/12/2023

" ینگ مینز مسلم ایسوسی ایشن “ منظر اور پس منظر

کشمیر کے مشہور و معروف مؤرخ شبنم قیوم اور ڈوگرہ راج کے آخری وزیراعظم رام چندر کاک کی ایک تاریخی گفتگو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
19/12/2023

کشمیر کے مشہور و معروف مؤرخ شبنم قیوم اور ڈوگرہ راج کے آخری وزیراعظم رام چندر کاک کی ایک تاریخی گفتگو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

13/12/2023

﴾ الفاظ ریختہ
لفظ : سوہان روح
معانی
تکلیف دہ , مضرت رساں ،
کرب ناک ، گراں خاطر

03/12/2023

» پونچھ : نامور چینی سیاح ہیون سانگ نے 623 ء میں کشمیر کا تفصیلی دورہ کیا ، اس نے اپنے سفرنامے میں اس علاقے کا جسے اب پونچھ کے نام سے پکارا جاتا ہے ، تفصیلی ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مقامی باشندے اس کو پنس یا پرونس یا پونچھ کہتے ہیں ،
مختلف تواریخ میں اس کا نام لوہارا یا لوہرکوٹ بھی ملتا ہے ، لوہرکوٹ نام کے کھنڈرات اب بھی پونچھ شہر سے مشرق کی جانب چالیس کلو میٹر کے فاصلے پر موجود ہے ، غالبا یہ قدیم زمانے میں سلطنت لوہار کا صدر مقام تھا ، پنڈت کلہن کے مطابق پونچھ کا شہر للتادت نے 695 عیسوی کی بہار میں تعمیر کیا ،
ایک روایت یہ بھی ہے کہ کشمیر کے راجا نے یہاں گڈریوں کے خاندان کی ایک حسین و جمیل لڑکی سے شادی کی تھی جس کا نام پونچھ تھا ، یہ شہر اسی کے نام پر تعمیر کیا گیا ، چنانچہ اس کے آس پاس کا علاقہ بھی پونچھ کہلانے لگا ،
مفصل تاریخ و تحریک کشمیر جلد اول
مصنف : شبنم قیوم

#پونچھ


#کشمیر

02/12/2023

الفاظ ریختہ
﴾ لفظ : کھسیانا
< رونے کے قریب ہونا
< شرمندہ ہونا
< گھبرایا جانا
< غصے سے دانت پیسنا

02/12/2023

الفاظ ریختہ
﴾ لفظ : مشوش
< حیران ، پریشان ، مضطرب
< گھبرایا ہوا ، پریشان کیا ہوا ، تشویش میں مبتلا

02/12/2023

الفاظ ریختہ
﴾ لفظ : پندار
معانی
< غرور ، تکبر
< خودی ، خود داری ، انا
< خیال ، تصور ، دانست

02/12/2023

﴾ لفظ : مخمصہ
معانی
< الجھن
< تذبذب
< تردد
< مشکل

02/12/2023

معرکہ درپیش ہے جذبات کی تصویر کا
ہو رہا ہے تذکرہ کشمیر میں کشمیر کا
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تھی ، صدیوں کی غلامی سے اکتایا ہوا کشمیر علم بغاوت کی اڑانوں میں اڑتا چلا جارہا تھا ، اسے یقین ہو چکا تھا کہ میری تقدیر کا پانسہ پلٹ چکا ہے ، میری زنجیریں ٹوٹنے والی ہیں ، میرا خون کشمیر کی کھیتی میں زعفران پیدا کرے گا جس کی سرخی میرے چہرے کو سیب کی طرح لال کر دے گی ،
مگر آہ ، بھولا کشمیر یہ نہیں جانتا تھا کہ جو ہاتھ میری غلامی کی گرہیں کھولنے کا تماشہ کر رہا ہے وہی ہاتھ میرے گریبان کی دھجیاں نوچ کر اپنی تن پوشی کا انتظام کر رہا ہے اور پھر اس ضمیر فروشی کو اپنے خوبصورت اور جوشیلے انداز بیاں کی آڑ میں اس طرح چھپا رہا ہے کہ بھولی بھالی عوام اپنی غلامی کو آزادی تصور کر کے خوشیاں منارہی ہے ، عوام کو معلوم ہی نہیں کہ جسے وہ ہیرو تصور کر رہی ہے در اصل وہ کھلنایک ، بہروپیا اور ٹھگ ہے ،
آہ ، او بھولے کشمیر ، آہ
کچھ ایسا ہی کردار شیخ صاحب نے اس خطاب میں بھی ادا کیا ہے جو انہوں نے 1975 کو لال چوک میں دیا ۔


#کشمیر

کشمیر اور اہل کشمیر
30/11/2023

کشمیر اور اہل کشمیر

1936 میں قائد اعظم محمد علی جناح کے کشمیر کے دورے پر مسلم کانفرنس کی جانب سے پیش کردہ سپاسنامہ اور قائد اعظم کی جانب سے ...
29/11/2023

1936 میں قائد اعظم محمد علی جناح کے کشمیر کے دورے پر مسلم کانفرنس کی جانب سے پیش کردہ سپاسنامہ اور قائد اعظم کی جانب سے اس کا جواب




#قائداعظم

29/11/2023

ایک پہلو یہ بھی ہے کشمیر کی تاریخ کا
یوں تو بہت سنا تھا کہ کشمیر میں شیخ عبداللہ کی ماتحتی میں اٹھنے والی تحریک، تحریک اسلام نہیں تھی بلکہ صرف تحریک اقتدار تھی لیکن ہر مرتبہ ضمیر اسے ماننے کیلئے راضی نہ ہوتا تھا ، رہ رہ کر یہ خیال آتا تھا کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ، یہ محض کذب بیانی ہے ، کیسے صدیوں سے ظلم کی چکی میں پسنے والی قوم کا ایک ہونہار فرد ضمیر فروش ہو سکتا ہے ، کیسے ایک مظلوم قوم بغیر کسی نظریہ انقلاب کے محض سریلی آواز اور جوشیلے بیان کے سحر میں گرفتار ہو کر اپنے مستقبل کو فراموش کر سکتی ہے ، کیسے ایک قوم اتنے عرصے تک ظلم سہنے کے بعد بھی اتحاد و اتفاق سے عاری نظر آسکتی ہے ، کیسے ایک قوم ہزاروں جانیں قربان کرنے کے باوجود بھی صحیح قائد کا انتخاب نہیں کر پاتی ہے ، کیسے ایک قوم آنکھیں بند کرکے اپنا مستقبل کسی ضمیر فروش انسان کے ہاتھ میں دے سکتی ہے !
ان سب خیالات کے چلتے ان باتوں پر یقین کرنا آسان نہیں تھا اور یہ صرف میرے لئے ہی نہیں تھا ہر وہ شخص جس نے قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ پر سرسری نظر بھی ڈالی ہوگی اس کیلئے اس کا یقین کرنا نہایت ہی مشکل ہو گا !
آخر کار ادراک مطالب کی تشنگی نے مجھے تاریخ کشمیر کی جانب رجوع کرنے کا مشورہ دیا اور اتفاق سے جامعہ کے کتب خانے میں معروف مؤرخ جناب شبنم قیوم کی تصنیف شدہ کتاب " مفصل تاریخ و تحریک کشمیر “ ہاتھ لگ گئی ، اوراق کو پلٹنا شروع کیا ، ہر ورق نے بے یقینی کے بھنور سے نکال کسی نہ کسی حقیقت سے ضرور آشنا کیا ، جانی و مالی قربانی کی ایک لمبی فہرست کے ساتھ ساتھ غداری اور فقدان اتحاد کی حقیر داستانیں پڑھنے کو ملی ، شیر اور بکرا فسادات ، مسلم کانفرنس اور نیشنل کانفرنس کا باہمی جرأت آزمائی کرنا وغیرہ ، ان تمام فسادات و واقعات نے آب دیدہ تو ضرور کیا لیکن پھر بھی کسی شخص کو ضمیر فروش اور کسی ایسی تحریک جس کے ہر جلسے کی ابتدا تلاوت کلام اللہ سے ہوتی ہو کو محض تحریک اقتدار کہنے کی ہمت نہ ہوئی لیکن جب مندرجہ ذیل واقعہ پڑھا تو دل درد سے تلملا اٹھا اور ہر اس بات پر یقین آگیا جس کو کل تک میں محض الزام تراشیوں سے تعبیر کرتا تھا ، اس سے اندازہ ہوا کہ اتنی ناقابل یقین قربانیاں پیش کرنے کے باوجود بھی کشمیر کیوں غلام ہے ، ملاحظہ کریں 👇
"مسلم کانفرنس کا نام و نشان مٹانے کی کاروائی میں نیشنل کانفرنس نے جوش و جنون میں خواجہ بازار چوک کے ایک مکان سے سبز رنگ کا جھنڈا اتارا جس پر خوبصورت خط میں لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ لکھا ہوا تھا ، طلاء سے منقش کیا ہوا یہ کلمہ شہادت کا پرچم نہ صرف ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا بلکہ اس کی دھجیاں گندی نالی میں پھینک کر ایسا شرمناک اخلاق سوز مظاہرہ کیا جس سے مسلمانان شہر کی گردن شرم و ندامت سے جھک گئی ، کئی اطراف سے جب اس قسم کی بد حرکت کی بازپرس کی گئی تو ایسا بھونڈا اور بیہودہ جواب دیا گیا کہ ندامت کے سوا کچھ حاصل نہ ہو سکا
کہا گیا کہ یہ مسلم کانفرنسی کلمہ شہادت تھا ہمارا نہیں اسلئے اسے پھاڑ کر پھینک دیا گیا “
مفصل تاریخ و تحریک کشمیر
جلد دوم ،صفحہ نمبر 340
اس واقعے سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کی غلامی کی واحد وجہ یہی ہے کہ لوگوں میں جذبہ شہادت تو خوب تھا لیکن ادراک معنی شہادت کا بالکل فقدان تھا ، اس لئے میرے عزیزو اپنے بچوں کو شہادت کا جذبہ دینے کے ساتھ ساتھ شہادت کا مطلب بھی سمجھایا کریں تاکہ ہماری نسلیں ان غلامی کی زنجیروں کو پاش پاش کرنے میں کامیاب ہو سکے ، اللہ ہم سب کو شہادت کے صحیح معنی کا ادراک نصیب فرمائے آمین


تقسیم برصغیر کا پس منظر
28/11/2023

تقسیم برصغیر کا پس منظر

27/11/2023

لفظ : ریجھنا
معانی
< فریفتہ ہونا ، گرویدہ ہونا
< للچانا
< خوش ہونا ، مگن ہونا

ڈوگرہ راج میں کشمیر میں حسن فروشی ماخوذ : از مفصل تاریخ و تحریک کشمیرمصنف : شبنم قیوم
27/11/2023

ڈوگرہ راج میں کشمیر میں حسن فروشی
ماخوذ : از مفصل تاریخ و تحریک کشمیر
مصنف : شبنم قیوم

23/11/2023

زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا
ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا

ہم نے جس جس کو بھی چاہا ترے ہجراں میں، وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا

اب کے کچھ دل ہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا تو ٹھکانہ تُو تھا

یار و اغیار کے ہاتھوں میں کمانیں تھیں فرازؔ
اور سب دیکھ رہے تھے کہ نشانہ تُو تھا

21/11/2023

ہمیں بے رخی کا گلہ نہیں ، کہ یہی وفاؤں کا ہے صلہ
مگر ایسا جرم تھا کونسا ، گئے ہم دعا و سلام سے

نہ کبھی وصال کی چاہ کی ، نہ کبھی فراق میں آہ کی
کہ مرا طریقۂ عاشقی ، ہے جدا طریقۂ عام سے

18/11/2023

نفس ما ہم کمتر از فرعون نیست
آں کہ او را عون ما را عون نیست
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ ہمارا نفس بھی تو فرعون سے کم نہیں ہے ، اس نے انا ربکم الاعلیٰ کا دعویٰ کیا ، اس نے دعویٰ کیا کہ صرف میں ہی ہوں صرف میری ہی بات مانی جائے ، میرے علاوہ کوئی بھی قابلِ اطاعت نہیں ہے ،بالکل اسی طرح ہمارا نفس بھی کچھ ایسے ہی دعوے کرتا ہے ، ہمیں صرف اپنی تابعداری کا درس دیتا ہے ، اللہ کے احکامات سے روگردانی کرنے کے مشورے دیتا ہے ، لیکن افسوس کہ ہم اس کے جال میں پھنس بھی جاتے ہیں
ہاں عزیزو آپ نے صحیح سنا میں نے ہم ہی کہا کیونکہ ہم سب اس کے مرتکب ہیں
ہماری اک غلط فہمی ہے کہ جب بھی ہم کسی وعید یا گناہ کے بارے میں پڑھتے یا سنتے ہیں تو اس کا مصداق کسی غیر مسلم کو سمجھ کر خود کو ایسے بری سمجھتے ہیں جیسے ہمیں جنت کا پروانہ مل چکا ہو ، اس لئے خدارا میرے پیارو اپنی فکر کرو کیونکہ ہم سب اس میں ملوث ہیں
دیکھئے مثال کے طور پر جب اذان صبح کی آوازیں فضاء سے ٹکراتی ہوئی ہمارے کانوں کو مس کرتی ہیں تو نفس ہمیں نیند کی آغوش میں سرمست رہنے کا مشورہ دیتا ہے اور ہم اس کے مشورے پر لبیک کہہ کر سرکتے ہوئے کمبل کو پھر سے اوڑھ لیتے ہیں اور رب کریم کی ندا سے انحراف کر کے نفس کی بات مان کر اس کے دعوۂ ربوبیت کو تسلیم کر لیتے ہیں اور اپنے ایمان کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں ، ایسی کئی مثالیں ہیں جو ہماری روز مرہ کی زندگی میں پائی جاتی ہیں جن میں واضح طور پر ہم اپنے خالق و مالک کے حکم کی خلاف ورزی کر کے ایسے ایسے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کہ ان کے تذکرے سے بھی انسان لرزہ براندام ہو جائے ،
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں نفس کی پیروی سے نکال کر صرف اپنے احکامات کی تابعداری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین

16/11/2023

تاریخ کشمیر مختصراً
از جلال الدین اکبر تا الحاق ہندوستان
حاکم کشمیر یعقوب شاہ نے جو شیعہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا کشمیری سنیوں سے ظلم و زیادتی شروع کی تو کشمیری امراء نے اکبر کو تسخیر کشمیر کی دعوت دی جس پر اکبر نے لبیک کہا اور 1883 میں مرزا قاسم کی سربراہی میں حملے کے لئے فوج روانہ کی جسے کافی جد و جہد اور جانی نقصان کے بعد فتح نصیب ہوئی اور کشمیر دولت مغلیہ کا ایک صوبہ قرار پایا
اکبر کی جانب سے کشمیر کا پہلا صوبیدار مرزا قاسم خان مقرر ہوا اسی کے دور میں اکبر 1587 کو کشمیر آیا مرزا قاسم خان کا انتقال بھی 1587 کو ہی ہوا ،
2 : سید یوسف خان رضوی
1587_90
اس کے دور میں وہ تمام امراء جو مغلوں کے خلاف کوشش جاری رکھے ہوئے تھے یکے بعد دیگرے ہتھیار ڈالتے گئے اور یا تو مارے گئے یا مغلوں کے ساتھ مل گئے اور کشمیر پوری طرح مغلوں کے قبضہ میں آگیا
3 : محمد قلی خان
1590-1601
4 : مرزا علی اکبر
1601_06
نور الدین جہانگیر
1605_27
اکبر کی وفات کے بعد شہزادہ سلیم نور الدین جہانگیر کے نام سے تخت نشین ہوا ، 1610 میں پونچھ پر حملہ ہوا اور اسے فتح کیا گیا ، 1618 میں کشتواڑ پر حملہ کیا گیا خونریز لڑائی کے بعد راجۂ کشتواڑ نے اطاعت قبول کرلی ، اسی سال جہانگیر کشمیر آیا اور بہت سی جگہوں پر تعمیراتی کام کیا ، کشمیر کی سیر کی اور اس کی خوبصورتی سے بے حد متاثر ہوا جس کا ذکر اس نے خود تزک جہانگیر میں کیا ،
اس نے کشمیر کے کافی سفر کئے لیکن آخری سفر اسے راس نہ آیا ، شکار کے دوران اس چوٹ لگی جس کی بناء پر ہمراہیوں نے واپسی کا ارادہ کیا لیکن راجوری ہی پہونچے تھے کہ رات کے پچھلے پہر وہ دار فانی سے کوچ کر گیا ، یہ خبر پوشیدہ رکھی گئی آخر چنگس سرائے پہنچ کر بادشاہ کی موت کا اعلان ہوا ، لاش چیر کر آنتیں چنگس سرائے میں دفن کی گئیں اور لاش لاہور لے جا کر شاہدرہ باغ میں دفنائی گئی ، اس کا انتقال 1627 کو ہوا
اس کے دور میں نواب قبیح خان 1606_1609 تک صوبہ دار رہا ، پھر ہاشم خان 1612 تک ، پھر صفدر خان 1615 تک ، پھر احمد بیگ 1618 تک ، پھر دلاور خان 1620 تک ، پھر ارادت خان 1622 تک پھر اعتقاد خان بنا جو اس کی موت تک رہا
شہاب الدین شاہجہان
اس کے دور میں ظفر خان 1640 تک صوبیدار رہا ، پھر شاہزادہ مراد بخش 1641 تک، پھر نواب علی مردان خان 1642 تک ، پھر دوبارہ ظفر خان 1646 تک ، پھر تربیت خان 1648 تک ، پھر حسن بیگ 1650 تک ، پھر علی مردان خان کو دوبارہ بنایا گیا اور وہ 1657 تک رہا ، پھر لشکر خان نامزد ہوا
1658 کو شاہجہان بیمار ہو گیا ، اورنگزیب تیسرا بیٹا ہونے کے باعث تاج پوشی کا حق نہ رکھتا تھا ، اس لئے اس نے علالت کو غنیمت سمجھا ، شاہجہان کو بیماری کی حالت میں قلعہ اکبرآباد آگرہ میں قید کردیا اور خود تخت سنبھالا
شاہجہان 1669 تک حالت قید میں رہا اور اسی حالت میں دار فانی سے کوچ کر گیا
محی الدین اورنگ زیب عالمگیر
1658_1707
ان کے دور میں کشمیر میں 15 صوبہ دار آئے ، اعتماد خان ، ابراہیم خان ، اسلام خان ، سیف خان ، مبارز خان ، سیف خان بار ثانی ، افتخار خان ، اقوام الدین ، ابراہیم خان ، حفیظ اللہ خان ، مظفر خان ، ابو النصر خان ، فاضل خان ، ابراہیم خان ، نوازش خان
لیکن کوئی بھی طویل مدت عہدہ نہ سنبھال سکا
21 فروری 1707 کو اورنگزیب سلطنت بیٹوں میں بانٹ کر انتقال کر گیا
اورنگزیب کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ خانہ جنگی کا شکار ہو گئی ، چالیس پینتالیس سالوں میں سلطنت کے حصے بکھرے ہو گئے اس کا اثر کشمیر پر بھی پڑا ، 1753میں مغلیہ شہنشاہ احمد شاہ نے علی قلی خان کو صوبیدار بنا کشمیر روانہ کیا لیکن اس نے حکومت اپنے ایک کشمیری نائب میر مقیم کنٹھ کو حکومت سونپ دی ، اس دوران میں ایک سابق صوبیدار ابوالبرکات کے بیٹے ابو القاسم نے بغاوت کر کے خودمختاری کا اعلان کر دیا ، اب میر مقیم کنٹھ احمد شاہ ابدالی کے دربار میں پہونچا اور اسے کشمیر پر حملہ کی تر غیب دی ، ابدالی نے یہ موقع غنیمت جانا اور اپنے سردار عبداللہ خان ایشک اقاصی کو پندرہ ہزار فوج دے کر کشمیر بھیجا اور شوپیان میں لڑائی شروع ہوئی ، کشمیریوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن کچھ دیر بعد کشمیری فوج کا سپہ سالار گل خان خیبری حملہ آوروں سے جا ملا جس سے فوج کا حوصلہ ٹوٹ گیا اور ابو القاسم افغانوں کے ہاتھوں گرفتار ہوا
اب عبداللہ خان ایشک اقاصی فاتحانہ انداز میں کشمیر میں داخل ہوا اور کشمیر میں مغلیہ سلطنت کا چراغ ہمیشہ کے لئے گل ہو گیا
ایشک اقاصی نے افغان تسلط جمانے کے لئے بہت سختی سے حکومت کی ، امیروں اور رئیسوں پر ہزاروں روپے جرمانے کئے اور ہر طرف وحشت پھیلا دی ، وہ پانچ ماہ تک کشمیر رہا ، کہتے ہیں کہ وہ ایک کروڑ روپیہ لے کر افغانستان واپس ہوا اور حکومت عبداللہ خان کابلی کے سپرد کرگیا اور سکھ جیون مل کو اس کا صاحب کار مقرر کیا ،
ایک کشمیری امیر ابو الحسن اور سکھ جیون مل نے مل کر عبداللہ اور اس کے دو لڑکوں کو قتل کر کے افغان حکومت کا تختہ الٹ دیا
سکھ جیون مل نے خود مختاری کا اعلان کر دیا ، پہلے تو وہ مسلمانوں کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہا لیکن جب اس نے مقیم کنٹھ کو بر طرف کر کے پنڈٹ مہانند در کو وزیر مقرر کیا ، تو مہانند در کی باتوں میں آ کر پرانی چال ڈھال کو بدل کر مذہبی تعصب کا جھنڈا بلند کیا ، اہل اسلام کی بے حرمتی کرنے لگا ، مسجد میں اذان کی ممانعت کردی ، گاؤ کشی سنگین جرم قرار دیا ، جس سے عوام مخالفت پر آمادہ ہوگئی اور ایک بلخی شہزادے نے راجہ پر حملہ کر دیا لیکن راجہ کے ہمراہیوں نے بلخی شہزادے اور اس کے ساتھیوں کو قتل کردیا
یہ وہ دور تھا جب احمد شاہ ابدالی لاہور پہنچا تھا ، انہوں نے جیون مل کے ظلم و جور کا حال سنا تو نور الدین بامزئی کو پچاس ہزار سپاہی دے کر راجہ کی گوشمالی کے لئے مقرر کیا جو 1762 توسہ میدان کے راستے وارد کشمیر ہوا ، راجہ مقابلے کے لئے نکلا لیکن عین جنگ کے وقت اس کا ایک افسر بخت مل افغانوں سے جا ملا جس سے راجہ بے حوصلہ ہو کر بھاگ کھڑا ہوا ، اس طرح بھاگنے پر اس کے ہمراہیوں نے اسے پکڑ کر نور الدین کے سامنے پیش کیا
نور الدین اسے سرینگر ساتھ لایا اور سرینگر پہونچ کر استرے سے اس کی آنکھیں نکلوا دیں ، پھر کچھ عرصے بعد نور الدین نے اسے بادشاہ کے پاس بھیج دیا جہاں اس کو ہاتھی کے پیروں تلے کچلوادیا گیا
اور یوں پھر سے کشمیر افغانیوں کی حکومت میں چلا گیا ، احمد شاہ ابدالی کے دور میں سات صوبیدار مقرر ہوئے
(1) نور الدین بامزئی
1762_64
(2) بلند خان
1764_66
(3)خورم خان
1766 _67
(4) میر فقیر اللہ کننٹھ بن میر مقیم نے خورم خان کی مخالفت کا بیڑہ اٹھایا ، خورم خان ایک واقعے سے بد شگونی لے کر بغیر لڑے احمد شاہ کے پاس چلا گیا اور میر فقیر اللہ نے اقتدار سنبھالا
میر فقیر اللہ نے احمد شاہ کی اطاعت گزاری تسلیم کر لی لیکن رعایا پر بہت زیادہ ظلم کرنے لگا ، احمد شاہ نے جب اس کے ظلم کے بارے میں سنا تو نور الدین خان بامزئی کو دوبارہ فوج دے کر روانہ کیا ، نور الدین نے اسے شکست دی اور خود اقتدار سنبھالا
(5) نور الدین خان بامزئی
1767_70
(6) خورم خان .
1770_72
1772 ہی کو احمد شاہ ابدالی کا انتقال ہو گیا اور اس کا بیٹا تیمور شاہ درانی تخت نشین ہوا
اس کے بعد یکے بعد دیگرے افغان حکمران اپنے صوبیداروں کو کشمیر روانہ کرتے رہے
1819 تک کشمیر افغانوں کے تسلط میں رہا لیکن اس سارے دور میں کشمیری عوام ورطۂ مصیبت میں پڑی رہی
1814 کو جب راجہ رنجیت سنگھ نے کشمیر پر حملہ کیا اور سردی اور برفباری کی بناء پر اس کی فوج کو شکست ہوئی اور اسے واپس پنجاب کا رخ کرنا پڑا ،
تو اس وقت کے کشمیری حاکم محمد عظیم خان کو قرائن اور کامل تحقیقات سے معلوم ہوا کہ رنجیت سنگھ کو پنجاب سے کشمیر لانے والے کشمیری پنڈت تھے جو بجائے اسلامی حکومت کے ہندوانی حکومت کو پسند کرتے تھے، تو اس نے ان پر ظلم و ستم کرنے شروع کئے اور ان کو طرح طرح اذیتیں دی ، ان کی پیٹھ پر چڑھ کر ان سے گھوڑوں اور خچروں کا کام لیا گیا ، ان کو رسیوں سے باندھ کر دریائے جہلم اور ڈل جھیل میں ڈبویا گیا ، اس ظلم و ستم کو دیکھ کر کئی پنڈت کشمیر چھوڑ کر ہجرت کر گئے ،
غرض یہ کہ اس نے 1819 تک پنڈتوں پر خوب مظالم ڈھائے ، اور پھر 1819 کو کابل چلا گیا اور اپنے بھائی جبار خان کو کشمیر چھوڑ گیا
جبار خان رحمدل اور منصف مزاج تھا ، قریب تھا کہ وہ ان تمام مظالم کی یادیں بھلادیں لیکن جب عوام کو عظیم خان کے کابل جانے کے بارے میں معلوم ہوا تو پنڈتوں نے رنجیت سنگھ کو تسخیر کشمیر کی دعوت دی ، رنجیت سنگھ کیونکہ ایک مرتبہ شکست کا مزہ چکھ چکا تھا اسلئے جلدی جلدی وہ اس کیلئے تیار نہ ہوا لیکن جب اصرار بڑھا تو وہ تیار ہوگیا اور اس نے کشمیر پر حملہ کر دیا ، جبار خان کو بازو پر ایک ضرب لگی جس کی وجہ سے وہ میدان سے فرار ہوگیا ، اور سرینگر سے مال واسباب سمیٹ کر کابل کی راہ لی
اور کشمیر دولت خالصہ کے تسلط میں چلا گیا
کشمیر میں سکھوں کا دور حکومت
راجہ رنجیت سنگھ
اس کے دور میں کشمیر میں نو صوبیدار آئے
(1) مصری دیوان چند
(2) دیوان موتی رام
(3) سردار ہری سنگھ نلوہ
(4) دیوان موتی رام بار ثانی
(5) دیوان چونی لال
(6) دیوان کرپا رام
(7) بھمان سنگھ اردلی
(8) شہزادہ شیر سنگھ
(9)کرنل میہان سنگھ کمیدان
1839 کو رنجیت سنگھ کا انتقال ہوگیا اور اس کا بیٹا مہاراجہ کھڑک سنگھ تخت نشین ہوا
کھڑک سنگھ صرف ایک سال بعد یعنی 1840 کو انتقال کرگیا اور مہاراجہ شیر سنگھ تخت نشین ہوا
اسی اثناء میں کشمیر کے صوبیدار مہیان سنگھ کو بھی قتل کر دیا اور ان کی جگہ دربار لاہور یعنی دولت خالصہ کی جانب سے غلام محی الدین صوبیدار بن کر وارد کشمیر ہوئے
1842 میں مہاراجہ شیر سنگھ اور اس کے بیٹے کو فوج کے معائنے کے درمیان قتل کردیا گیا
1846کو شیخ غلام محی الدین کا انتقال ہو گیا
اور ان کا بیٹا امام الدین مسند صدارت پر جلوہ افروز ہوا
1842 میں شیر سنگھ کے قتل کے بعد دولت خالصہ اندرونی انتشار کا شکار ہو گئی
اور نو سال کے مہاراجہ دلیپ سنگھ بن رنجیت سنگھ کو تخت پر بیٹھایا اور مہام سلطنت اس کی ماں رانی جنداں کے ہاتھ میں رہی
اس انتشار کے باوجود انگریزوں اور سکھوں کے درمیان جھنگ چھڑ گئی ، جنگ میں انگریزوں کو فتح ہوئی لیکن نقصان بھی کافی ہوا ، انگریزوں نے جنگ کے تاوان میں سکھ حکومت پر ایک کروڑ روپے کا جرمانہ عائد کیا ، کیونکہ سکھ حکومت اتنے بڑے جرمانے کو ادا کرنے سے عاجز تھی اس لئے اس نے اپنے کچھ علاقے کشمیر سمیت انگریزوں کی بالا دستی میں دے دئے ،
راجۂ جموں گلاب سنگھ انگریزوں سے ساز باز رکھتا تھا اور انگریز بھی اسے اس علاقے میں اپنے دوست کی طرح سمجھتے تھے ، جب سکھوں نے جرمانہ ادا کرنے کے بجائے کشمیر انگریزوں کو سونپ دیا تو انگریزوں نے کشمیر راجۂ جموں گلاب سنگھ کو 75 لاکھ کے عوض فروخت کر دیا ، اور ریاست جموں و کشمیر تشکیل دے کر راجۂ جموں گلاب سنگھ کو ایک خودمختار حکمران تسلیم کر لیا
اور یوں کشمیر سکھوں کے تسلط سے نکل کر ڈوگروں کے قبضے میں چلا گیا
( دولت خالصہ کی جانب سے کشمیر میں جتنے بھی حاکم آئے ان سب نے سوائے میہان سنگھ اور غلام محی الدین کے ظلم و جور کی ایسی داستان رقم کی کہ کشمیری افغانوں کے ظلم و ستم کو بھولنے پر مجبور ہوگئے ایسے ایسے جزیے اور محصول عائد کئے کہ عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی لیکن آخر میں میہان سنگھ اور غلام محی الدین کی صورت میں ایسے حکمران وارد کشمیر ہوئے کہ پچھلے تمام ظلم و جور کا ازالہ ہو گیا )

کشمیر میں ڈوگرہ راج
(1) 16/ مارچ / 1846 کو کشمیر انگریزوں نے گلاب سنگھ کو سونپ دیا ، مہاراجہ کشمیر پر تخت نشین ہوا اور کسی جونک کی طرح کشمیریوں کا خون چوسنے لگا ، سخت ترین ٹیکس عائد کئے ، گاؤ کشی پر پابندی لگا دی ، انگریزوں کو دئے گئے پیسوں میں سے بیس لاکھ اس نے کسی راجہ سے قرض لیا تھا جو عوام پر بھاری ٹیکس لگا کر ادا کیا گیا
1856 میں سلطنت اپنے ولی عہد رنبیر سنگھ کو سونپ کر خود گورنر کشمیر کی حیثیت سے سرینگر آگیا
1857 میں بیمار ہو گیا اور 4 اگست 1857 کے روز موت کی آغوش میں چلا گیا
(2) مہاراجہ رنبیر سنگھ
1856 میں تخت نشین ہوا ، یہ خود تو ایک مدبر اور سادہ زندگی بسر کرنے والا انسان تھا ، رعایا کی بہبودی کے لئے بہت جد و جہد کرتا تھا ، لیکن اس کے اہلکاروں نے اس کے باوجود بھی عوام کا خوب خون چوسا جس کے چلتے تاریخ کشمیر میں پہلی مرتبہ 29 /اپریل / 1885 میں صنعتی مزدوروں نے جمع ہو کر اپنے مطالبات منوانے کیلئے جلوس نکالا لیکن اس تحریک کے رہنماؤں کو پکڑ کر پہلے تازیانے لگائے گئے اور پھر بیڑیوں میں جکڑ کر جیل میں ڈال دیا گیا اور یوں تحریک آزادی کی پہلی چنگاری کو بجھا دیا گیا
رنبیر سنگھ 15 / ستمبر / 1885 کو انتقال کر گیا اور اس کی جگہ اس کا بیٹا پرتاب سنگھ گدی پر بیٹھا
مہاراجہ پرتاب سنگھ
1885 میں تخت نشین ہوا لیکن دو سال بعد ہی اس کے بھائی امر سنگھ نے خود راجہ بننے کے لئے انگریزوں سے ساز باز کر کے اس کو معزول کروادیا لیکن انگریزوں نے امر سنگھ کو راجہ بنانے کے بجائے ایک کونسل تشکیل دی ، امر سنگھ کو کونسل کا پریزیڈنٹ بنایا اور ریاست میں اپنا ایک ریزیڈنٹ مقرر کیا جس سے ریاست نے اپنی خودمختاری کھو دی
پرتاب سنگھ نے اختیار چھننے کے بعد پرزور احتجاج کیا جس کی وجہ سے دو سال کی جد و جہد کے بعد پرتاب سنگھ کو کونسل کا پریزیڈنٹ بنایا گیا اور امر سنگھ وائس پریزیڈنٹ مقرر ہوا
1921 تک پرتاب سنگھ کونسل کے پریزیڈنٹ کے طور پر کام کرتا رہا ، لیکن 1921 میں اسے پھر سے مکمل اختیارات دے دئے گئے
اس کے دور میں ریاست میں اردو زبان سرکاری زبان کے طور پر متعارف کروائی گئی ،
رہی بات ظلم و ستم کی تو وہ مسلمانوں پر اس دور میں بھی کم نہ ہوا ، وہ سابقہ ادوار کی طرح اس دور میں بھی بدستور قائم رہا
1925 میں اس کا انتقال ہوا اور اس کا بھتیجا یعنی امر سنگھ کا بیٹا ہری سنگھ حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالنے لگا
مہاراجہ ہری سنگھ
اس کا راج تلک 18 فروری 1926 کو شروع ہوا اور 9 مارچ تک جاری رہا ، اس موقعے پر ایک عالیشان اور بے مثال جشن کا انعقاد کیا گیا
ہری سنگھ نے انگریز ریزیڈنٹ کو ( جو ریاست میں برٹش کا نمائندہ تھا ) ریاست سے نکال باہر کیا ، یہ منصف مزاج شخص تھا ، لیکن اکثر سیر و تفریح کے سلسلے میں ریاست سے باہر رہتا تھا اور ریاست کے امور سے غافل رہتا تھا ، جس کی وجہ سے ریاست کی راکھ میں چنگاریاں پنپنے لگیں ، نتیجہ یہ نکلا کہ جب یہ چنگاریاں باہر آئیں تو تو یہ اک آگ بنکر پھیل گئیں ، اس آگ کی تپش سے بچنے کیلئے ہری سنگھ کو 26 اکتوبر 1947 کو مع اہل و عیال جموں روانہ ہونا پڑا ، جموں میں اس کا قیام آٹھ ماہ تک رہا ، اس دوران وہ خود کو مہاراجہ اور شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم مان کر اہم معاملات میں ہدایات دیتا رہا ، آٹھ ماہ بعد جب اس پر بھارت کے ساتھ الحاق کرانے کا دباؤ ڈالا آگیا تو اس نے اس پر انکار کر دیا جس پر شیخ عبداللہ ناراض ہو کر دہلی روانہ ہو گئے اور وہاں جواہر لعل نہرو سے ملکر ہری سنگھ کو ریاست چھڑوانے کا مشورہ دیا تاکہ مہاراجہ الحاق میں رکاوٹ نہ بن سکے ،
جواہر لعل نہرو نے سردار پٹیل کو ہدایت دی کہ وہ مہاراجہ ہری سنگھ کو ریاست بدر کرنے کے احکامات کے ساتھ خاموش رہنے کے لئے کہیں ، سردار پٹیل کی ہدایت پر مہاراجہ نے حکمرانی کے تمام اختیارات یوراج کرن سنگھ کو تفویض کئے اور خود ممبئی روانہ ہوگیا ، اور وہیں 26 اپریل 1961 کو اسے دل کا دورہ پڑا اور اسی دورے سے وہ انتقال کر گیا
اور یوں جموں و کشمیر کے آخری تاجدار کی زندگی کا سفر تمام ہوا
اور کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق شیخ عبداللہ کی سربراہی میں عمل میں آیا ، جس کی پاداش میں آج تک کشمیر خون کے آنسو رو رہا
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ کشمیر کو ایک مرتبہ پھر اپنی خودمختارانہ حکومت عطا کرے تاکہ کشمیریوں کو سر اٹھا کر جینے کا حق حاصل ہو ، آمین

پھانسی کی رسی جو موت کا اژدھا ہے ، اس زندگی سے بدرجہا بہتر ہے جس میں انساں کو غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا پڑے ، خواہ آزاد...
15/11/2023

پھانسی کی رسی جو موت کا اژدھا ہے ، اس زندگی سے بدرجہا بہتر ہے جس میں انساں کو غلامی کا طوق گلے میں ڈالنا پڑے ، خواہ آزادی کے میدان میں خون کی ندیاں ہی کیوں نہ ہوں
آہ اے آزادی تجھ میں کیا جادو ہے کہ ہم نے تمام زنجیروں کو توڑ کر پھینک دیا مگر تیری غلامی کا طوق خوشی سے گلے میں ڈال دیا

14/11/2023
13/11/2023

کب بلاتے ہیں شاہِ امم دیکھئے
کب مدینے کو جاتے ہیں ہم دیکھئے

دل یہ کہتا ہے آنکھیں بچھا دیجئے
جس جگہ اُن کے نقش قدم دیکھئے

آپ کے ہاتھ ہے لاج یا مصطفٰی
حشر میں کھل نہ جائے بھرم دیکھئے

بابِ جنت پہ روکے ہیں رضواں مجھے
دیکھئے یا شفیعِ امم دیکھئے

ذکرِ خیر البشر کا یہ اعجاز ہے
ہو گئے دور دنیا کے غم دیکھئے
(اعجاز رحمانی)

12/11/2023
12/11/2023

یہ داڑھیاں یہ تلک دھاریاں نہیں چلتیں
ہمارے عہد میں مکاریاں نہیں چلتیں

قبیلے والوں کے دل جوڑئیے مرے سردار
سروں کو کاٹ کے سرداریاں نہیں چلتیں

برا نہ مان اگر یار کچھ برا کہہ دے
دلوں کے کھیل میں خودداریاں نہیں چلتیں

چھلک چھلک پڑیں آنکھوں کی گاگریں اکثر
سنبھل سنبھل کے یہ پنہاریاں نہیں چلتیں

جناب کیفؔ یہ دلی ہے میرؔ و غالبؔ کی
یہاں کسی کی طرف داریاں نہیں چلتیں
(کیف بھوپالی ) ..........................

Address

Poonch
185101

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Abdur Rahman rahi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Contact The Business

Send a message to Abdur Rahman rahi:

Videos

Share

Nearby media companies