معرکہ درپیش ہے جذبات کی تصویر کا
ہو رہا ہے تذکرہ کشمیر میں کشمیر کا
بیسویں صدی کی چوتھی دہائی تھی ، صدیوں کی غلامی سے اکتایا ہوا کشمیر علم بغاوت کی اڑانوں میں اڑتا چلا جارہا تھا ، اسے یقین ہو چکا تھا کہ میری تقدیر کا پانسہ پلٹ چکا ہے ، میری زنجیریں ٹوٹنے والی ہیں ، میرا خون کشمیر کی کھیتی میں زعفران پیدا کرے گا جس کی سرخی میرے چہرے کو سیب کی طرح لال کر دے گی ،
مگر آہ ، بھولا کشمیر یہ نہیں جانتا تھا کہ جو ہاتھ میری غلامی کی گرہیں کھولنے کا تماشہ کر رہا ہے وہی ہاتھ میرے گریبان کی دھجیاں نوچ کر اپنی تن پوشی کا انتظام کر رہا ہے اور پھر اس ضمیر فروشی کو اپنے خوبصورت اور جوشیلے انداز بیاں کی آڑ میں اس طرح چھپا رہا ہے کہ بھولی بھالی عوام اپنی غلامی کو آزادی تصور کر کے خوشیاں منارہی ہے ، عوام کو معلوم ہی نہیں کہ جسے وہ ہیرو تصور کر رہی ہے در اصل وہ کھلنایک ، بہروپیا اور ٹھگ ہے ،
آہ ، او بھولے کشمیر ، آہ
کچھ ایسا ہی کردار شیخ صاحب نے اس خطاب میں بھی ادا کیا ہے جو انہوں نے 1975 کو لال چوک میں دیا ۔
#Kashmir
#شیخ_عبداللہ
#کشمیر
فاتح اندلس طارق بن زیاد
بطور سفیر اسلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
#Khudii || #Urduadab || #poetry
|| #Urdupoetry
#Abdurrahmanrahi