Zakir Malik Bhallesi

Zakir Malik Bhallesi I try to connect people of present generation with Past through my videos on Heritage and History

POSITIVE VIBES ✅
Author of 5 Books
Travel Diary / SAFARNAMA / History
Education Vlogs / Career Guidance
Village Life | Photography
Bharat Gaurav Puraskar -2021
Jury, National Yuva Utsav
Republic Day Parade Delhi - 2001
A, B & C Certificate Holder

قصہ آب گوش کا! گذشتہ ہفتے آب گوش کھانے کا موقع ملا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس ڈش نے کشمیر پہنچتے پہنچتے تاریخی سفر طے ...
09/12/2024

قصہ آب گوش کا!
گذشتہ ہفتے آب گوش کھانے کا موقع ملا۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ اس ڈش نے کشمیر پہنچتے پہنچتے تاریخی سفر طے کیا ہے۔ تاریخی طور پر، کشمیری گھروں میں زمانہ قدیم سے مختلف قسم کے گوشت کے پکوان تیار کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک آب گوش بھی ہے۔ “آب گوش" اصل میں گوشت اور دودھ کو ملاکر پکایا جاتا ہے۔ دودھ میں گوشت پکانے کا خیال صدیوں سے آذربائیجان، ایران اور وسطی ایشیا میں مختلف علاقائی انداز میں پروان چڑھ رہا ہے۔ ان علاقوں میں گوشت غذا کا ایک اہم ذریعہ ہونے کی وجہ سے اسے نرم کرنے اور روزمرہ استعمال کے لیے مناسب طریقے سے پکانے کی ضرورت تھی۔ آب گوش یہ ثابت کرتا ہے کہ ایک "ہلکی مٹن کری" بھی غیر معمولی اور ذائقے میں حیرت انگیز ہو سکتی ہے، چاہے اس میں مصالحوں کی تعداد بہت کم کیوں نہ ہو!
کشمیر میں ازبک حملہ آوروں کی آمد کے ساتھ، قدیم فارسی سلطنت کے نایاب مصالحے اور کھانوں کے انداز بھی کشمیر میں متعارف ہوتے رہے ہیں۔ کھانوں پر اثر ڈالنے کے علاوہ، فارسی فنون نے کشمیری لکڑی کے کاریگروں، بنکروں، معماروں اور خطاطوں کے ساتھ مل کر ایک نئی جہت پیدا کی۔ اس طرح، ایک نادیدہ رشتہ کشمیری پہاڑی دیہاتوں کو دور دراز سمرقند کے راستوں سے جوڑتا رہا۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

09/12/2024

پہاڑوں کا کیا حال ہے۔ فیس بک پر تو برف باری ہورہی ہے۔
ویسے سردی اچانک بڑھ گئی ہے

بدھل شوپیاں روٹ کا تاریخ میں ذکر !صرف مغل روڈ نہیں بلکہ ماضی میں توشہ میدان راستہ، درہال درہ کا راستہ اور بدھل کا راستہ ...
09/12/2024

بدھل شوپیاں روٹ کا تاریخ میں ذکر !
صرف مغل روڈ نہیں بلکہ ماضی میں توشہ میدان راستہ، درہال درہ کا راستہ اور بدھل کا راستہ بھی کشمیر کو پنجاب سے جوڑتا تھا اور یہ راستہ تجارت اورآمد رفت کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔ آج میں جناب محب الحسن کی ایک کتاب “کشمیر انڈر سلطان” پڑھ رہا تھا۔ کتاب کے صفحہ 34اور 35پر پیر پنجال کے دروں کا ذکر ہے اس میں مصنف لکھتے ہیں کہ سداؤ یا بدھل پاس (14,000 فٹ) سری نگر کو اکھنور اور سیالکوٹ کے ساتھ تقریباً سیدھی لکیر میں جوڑتا ہے۔ اپنی بلند چوٹانی سطحوں کی وجہ سے، یہ صرف پیدل سفر کے لیے استعمال ہو سکتا ہے، لیکن اپنی مختصر مسافت کی وجہ سے، یہ ماضی میں کشمیریوں کے لیے ایک پسندیدہ راستہ تھا۔ سداؤ کا نام اس راستے کو کشمیری جانب پہلے گاؤں کے نام پر دیا گیا ہے۔ شری دھر اسے "سدھادیسا" کہتا ہے، جو کلہن کے "سدھاپتھا" کا ایک متبادل ہے۔ اس راستے کے ذریعے جموں سری نگر سے صرف 129 میل کے فاصلے پر ہے۔ یہ راستہ شوپیاں سے کلگام ضلع کے اہربل آبشار اور آگے سرسوٹ علاقے سے اونچی چراگاہوں اور جھیلوں سے ہوتا ہوا بدھل پاس کو پار کرکے راج نگر بدھل پہنچتا ہے۔ بدھل کے لوگ اکثر کشمیر پہنچنے کے لئے اس راستے کو حال تک استعمال کرتے رہے ہیں۔ اب بھی لوگ سیر و تفریح کے کئے بدھل سے نکلتے ہیں ڈونگی مرگ کے پاس یہ راستہ مغل شاہراہ سے ملتا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے اس سڑک کو تعمیر کرنے کا منصوبہ بھی بن گیا ہے جس کو محکمہ تعمیرات نے بنایا ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ یہ سڑک صرف 94کلومیٹر ہے۔ اس وقت مغل شاہراہ سے بدھل والوں کے لئے شوپیاں 200کلومیٹر کے قریب ہے اور جموں کے راستے سرینگر پہنچنا ہو تو510کلومیٹر ہے۔ اس سڑک کا نقشہ، “کشمیر انڈر سلطان” کتاب کے صفحہ 34اور 35 ، مکین احمد کا بدھل گلی پیر پنجال اوربدھل قصبہ کی تصاویر اپلوڈ کررہا ہوں۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

پوسٹ کو شئیر کردیجئے ۔ نوازش

نون چائے کی تاریخ!آج راجوری میں کافی سردی ہے ۔ نون چائے کا پیالہ آگیا ہے۔ آج ماضی کے جھروکے ذاکر ملک بھلیسی سیریز میں نو...
09/12/2024

نون چائے کی تاریخ!
آج راجوری میں کافی سردی ہے ۔ نون چائے کا پیالہ آگیا ہے۔ آج ماضی کے جھروکے ذاکر ملک بھلیسی سیریز میں نون چائے پر ہی بات کرتے ہیں۔ لفظ "چائے" کا مطلب ہے چائے۔ اس لیے "نون چائے" کا مطلب لغوی طور پر نمکین چائے ہے۔ اس مشروب کو گلابی چائے، نمکین چائے اور شیر چائے بھی کہا جاتا ہے۔ زیادہ تر کشمیری پکوانوں کی طرح، اس مشروب کی کشمیر میں ابتدا کے بارے میں کوئی حتمی دستاویزی ثبوت موجود نہیں ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ جموں کشمیر میں چائے کی پیداوار نہیں ہوتی
۔ چونکہ چینی چائے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، وہ اسے وسطی ایشیا کے علاقوں میں برآمد کرتے تھے۔ کشمیر، جو وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، ایک اہم تجارتی مرکز تھا۔ کئی غیر ملکی سیاحوں، جیسے آسٹریا کے فوجی افسر چارلس وان ہیوگل، نے اپنی سفری یادداشتوں میں نون چائے کا ذکر کیا ہے۔ یہ عام طور پر مانا جاتا ہے کہ نون چائے کشمیر میں ترکستان کے علاقے یارقند سے آئی اور اس کو کشمیر میں متعارف کرانے میں حضرت شاہ علی ہمدانی کا اہم کردار ہے۔ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چائے کیساتھ سمووار کو بھی انھوں نے ہی متعارف کرایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کشمیر کے پہلے مسلم سلطان صدرالدین شاہ (رِنچن) جنھوں نے بلبل شاہ (سید شرف الدین شاہ) کے ہاتھوں اسلام قبول کیا تھا وہ بھی ترکستان کے علاقے کاشگر سے تعلق رکھتے تھے۔ ترکستان میں "اٹکن چائے" نمک، دودھ، اور مکھن کے ساتھ بنائی جاتی ہے، جو لداخ کے علاقے میں بننے والی "گُر گُر چائے" سے کافی ملتی جلتی ہے۔ نون چائے کی طرح، قہوا کی ابتدا بھی واضح نہیں ہے۔ عالمی چائے کی تاریخ کے مطابق، یہ بھی ترکستان کے علاقے سے، خاص طور پر یارقند سے، کشان سلطنت کے پہلے اور دوسرے صدی کے دور میں کشمیر پہنچی ہوگی۔
(ماضی کے جھروکے ذاکر ملک بھلیسی کیساتھ)

نمدا  کی تاریخ:  500 ق م یا 16ویں صدی! نمدا کشمیری کلچر کا حصہ ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل جب میں نے مغل شاہراہ سے کشمیر کا سفر کی...
08/12/2024

نمدا کی تاریخ: 500 ق م یا 16ویں صدی!
نمدا کشمیری کلچر کا حصہ ہے ۔ کچھ ہفتہ قبل جب میں نے مغل شاہراہ سے کشمیر کا سفر کیا تھا تو سرینگر میں ایک نمدا خریداتھا۔ آج اچانک سے یاد آیا کہ اس روز سفر نامہ ذاکر ملک بھلیسی میں اس پر بات نہیں ہوئی تو چلئے آج ہی کرتے ہیں۔ایک زمانہ تھا جب نمدا کا اچھا خاصا کاروبار ہوا کرتا تھا لیکن کچھ سال سے کاروبار میں کمی آئی ہے۔ وجوہات بہت ساری ہیں۔ نمدا کی ایک خوبصورت تاریخ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جموں کشمیر میں نمدا کا آغاز 16ویں صدی میں ہوا۔ یہ بھی عام روایت ہے کہ جب مغل بادشاہ اکبر نے اپنے گھوڑوں کو سردی سے بچانے کے لیے ایک مخصوص پردے یا چادر تیار کروانے کی خواہش ظاہر کی۔ کہا جاتا ہے جس نے سب سے پہلے نمدا بنائا اس کا نام نوبی تھا اور اسی کے نام سے اس کو نمدا کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ صوفی بزرگ، شاہِ ہمدان، نے کشمیریوں کو نمدا کے فن سے متعارف کرایا۔
ڈاکٹر مدھو شرن اور محترمہ سواتی آریہ مہاراجہ سیاجی راؤ یونیورسٹی آف برودہ گجرات میں کام کرتی ہیں جنہوں نے اس موضوع پر نئی تحقیق کی ہے ۔ ان کی یہ تحقیق میں نے انٹرنیشنل جرنل آف سوشل سائنس میں پڑھی۔ انھوں نے لکھا ہے کہ نمدہ کا لفظ سنسکرت کے لفظ "نمتا" سے ماخوذ ہے، جس کا مطلب ہے اُونی اشیاء۔ اس فن کا آغاز 500 قبل مسیح میں ہوا ہے”۔ آگے جا کر وہ لکھتی ہیں ۔ “نمداکے حوالے سے بھارت میں شواہد چوتھی صدی قبل مسیح کے آخر میں سندھ میں ملے ہیں جوکہ اب پاکستان کا حصہ ہے، ۔بھارت میں ایک شخص "نوبی" نے مغل بادشاہ اکبر کے گھوڑے کو سردی سے بچانے کے لیے پہلا اُونی کپڑا تیار کیا تھا”۔ پہنچتے پہنچے وہ بھی وہیں پہنچ گئے ہیں۔
نمدہ قالین اور چٹائیاں نانے کا لمبا طریقے ہے۔ اُون کو ایک موٹی تہہ کی شکل میں چٹائی پر بچھایا جاتا ہے، پھر اس پر صابن والا پانی چھڑکا جاتا ہے۔ اس کے بعد ایک آلے جسے "پنجرہ" کہا جاتا ہے، کے ذریعے دبایا جا تا ہے۔ اس کے بعد چٹائی کو رول کیا جاتا ہے، رسی سے باندھ کر ہاتھوں اور پیروں کی مدد سے زمین پر گھمایا اور دبایا جاتا ہے۔ یہ عمل تقریباً ایک گھنٹہ لیتا ہے اور اس سے ریشے آپس میں جُڑ جاتے ہیں۔ پھر رسی کھول دی جاتی ہے اور چٹائی کو کھولا جاتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ایک سادہ نمدہ تیار ہوتا ہے۔ اس قالین کو دھوپ میں خشک کیا جاتا ہے اور بعد میں کشمیری کڑھائی کے کام سے سجایا جاتا ہے۔ نمداکے کام کشمیر کے علاقوں جیسے شہر خاص، اننت ناگ، ریناواری، اور بارہ مولہ میں بہت مشہور ہیں۔ نمدا کے نشانات اب مٹ گئے تھے لیکن پھر سے اب دکھنے لگا ہے۔ سرکار کی طرف سے بھی اس کی بازیابی کو لیکر کچھ پالیسیاں بنائی گئی ہیں۔ اس آرٹ کو دوبارہ سے فروغ دینا چاہئے۔
( قسط 1008-ذاکر ملک بھلیسی)

“بینگن بھرتہ” یہ ایک دیسی ڈش ہے جو راجوری کے علاوہ بہت سے دیہی علاقوں میں  بہت پسند کی جاتی ہے۔ یہ گاؤں کے کلچر کا ایک ح...
08/12/2024

“بینگن بھرتہ” یہ ایک دیسی ڈش ہے جو راجوری کے علاوہ بہت سے دیہی علاقوں میں بہت پسند کی جاتی ہے۔ یہ گاؤں کے کلچر کا ایک حصہ ہے۔ یہ ڈش بھنے ہوئے بینگن کے ساتھ تیار کی جاتی ہے اور مسالوں کا بہترین امتزاج ہوتا ہے۔ کافی محنت لگتی ہے اس کو بنانے میں۔ کا کا نے کھائی ہے یہ ڈش اور آپ اسے اپنے علاقے میں کا نام سے جانتے ہیں
(ذاکر ملک بھلیسی)

راجوری کا ڈنی دھار گاؤں
08/12/2024

راجوری کا ڈنی دھار گاؤں

پرانے وقت میں مصالحہ رکھنے کے لیے لکڑی کے خوبصورت اور مضبوط ڈبے استعمال کیے جاتے تھے۔ آج اب پلاسٹک، اسٹیل اور شیشے کے ڈب...
08/12/2024

پرانے وقت میں مصالحہ رکھنے کے لیے لکڑی کے خوبصورت اور مضبوط ڈبے استعمال کیے جاتے تھے۔ آج اب پلاسٹک، اسٹیل اور شیشے کے ڈبے آئے ہیں۔

کیا مرزا  اور پانڈو ں کا کوئی تعلق ہے؟    آج راجوری شہر کا سفر کیا ۔ وہی راجوری جس پر 1194سے لیکر 1846تک جرالوں نے راج ک...
07/12/2024

کیا مرزا اور پانڈو ں کا کوئی تعلق ہے؟
آج راجوری شہر کا سفر کیا ۔ وہی راجوری جس پر 1194سے لیکر 1846تک جرالوں نے راج کیا۔ ان سے قبل پال راجہ تھے اور ان کے بعد ڈوگرہ راجہ۔ ایک جرال نسل کے شخص خواجہ مارکیٹ میں ملے ۔ ان کو پتہ ہے کہ سفر نامہ ذاکر ملک بھلیسی میں اکثر تاریخی چیزوں کا حوالہ ملتا ہے تو انھوں نے ایک سوال کیا۔ جرال کہاں سے آئے؟ کون تھے؟ - مجھے جواب تو معلوم تھا لیکن میں نے ان کو بولا کہ شام کو میرا پوسٹ اسی پر ہوگا۔ ضرور پڑھنا۔ گھر پر کتاب کھولی۔ مرزا ظفر اللہ نے1907 میں “تذکرہ بے مثل راجگان راجور” کتاب لکھی ہے۔ اس میں صفحہ30سے لیکر صفحہ 41تک اس سوال کا جواب دیا ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ مہابھارت کے بعد پانڈؤں کا درالحکومت ہستنا پور تھا۔ “پانڈؤں کی نسل میں سے ایک راجہ جیر راؤ تھا جس کی اولاد جرال کہلائی”۔ مرزا ظفر اللہ خود جرال تھے اور کمشنر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے اور کافی اتھانٹک مصنف مانے جاتے ہیں۔ ان کے اصلی الفاظ آپ بھی پڑھ سکیں اسلئے پیج نمبر 34اپلوڈ کررہا ہوں۔ اسی خاندان کے ایک راجہ شینہ صاحب کہلاتے تھےجو شہاب الدین غوری کیساتھ رہ کے بشرف اسلام ہوئے تھے اور ان کا نامراجہ شیر افگن خان رکھا گیاجن کی وفات کے بعد راجہ نیل سینہ تخت نشین ہوئے۔ ان کا اسلامی نام نور الدین خان رکھا گیا تھا اور وہ کلانور پر حکومت کرتے تھے۔ بعد میں جب حکومت کمزور ہوئی تو کشمیر کا سفر کیا جہاں انھوں نے ایک فقیر مرد کامل الف شاہ کی خدمت کی اور اسی بزرگ نے ان کو بتایا تھا کہ جاؤ اس خچر پر سفر کرو اور جہاں یہ بیٹھ جائے وہیں اپنا راج قائم کرو۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے پنجاب کے لئے سفر شروع کیا تھا لیکن راجوری کے قریب برمنڈل گاؤں میں خچر بیٹھ گیا۔ اس نے پتہ کیا تو معلوم ہوا کہ علاقہ راجوری ہے اور اس پر آمنہ پال کی حکومت ہے۔ بس اس سے جنگ ہوئی، آمنہ پال ہار گیا اور جرالوں کی حکومت 1194میں قائم ہوئی جو1846تک چلی۔ آخری راجہ رحیم اللہ جرال تھے۔ (قسط 1005-سفر نامہ ذاکر ملک بھلیسی)

باقی مصنف اس حوالے سے الگ رائے بھی رکھتے ہونگے۔ یہاں میں نے تذکرہ بے مثل کتاب کے حوالے سے بات کی۔ باقی مصنفین کیا کہتے ہیں اس بارے میں آپ اپنی رائے دیجئے۔
اب آپ سے ایک اورسوال جس کا جواب مجھے تو معلوم ہے لیکن پھر بھی ہوسکتا کسی کے پاس اس سے زیادہ مستند حوالہ ہو۔جرالوں کو مرزا لقب کس نے دیا اور کیوں دیا؟ حوالے ضرور دیں کہ آپ نے کہاں پڑھا۔
اس طرح کے پوسٹ آپ کو کیسے لگتے ہیں کمنٹ میں ضرور بتائیں۔
پوسٹ کو شئیر بھی کردیا کریں جناب ۔ نوازش

مسجد عثمان غنی (رض) خواجہ مارکیٹ راجوری جموں و کشمیر (زیر تعمیر)
07/12/2024

مسجد عثمان غنی (رض) خواجہ مارکیٹ راجوری جموں و کشمیر (زیر تعمیر)

راجوری کی چھوٹی ڈنی دھار چوٹی پر موجود دور درشن ریڈیو اسٹیشن۔ اس علاقے میں ڈنی دھار قلعہ بھی ہے۔ یہاں راجوری کی آبادی آہ...
07/12/2024

راجوری کی چھوٹی ڈنی دھار چوٹی پر موجود دور درشن ریڈیو اسٹیشن۔ اس علاقے میں ڈنی دھار قلعہ بھی ہے۔ یہاں راجوری کی آبادی آہستہ آہستہ منتقل ہورہی ہے اور پورا ڈنی دھار علاقہ اب جدید راجوری کی طرف آگے بڑھ رہا ہےذ
(ذاکر ملک بھلیسی)

خواجہ مارکیٹ راجوری کا منظر۔ ماضی قریب تک اس علاقے کو ذبح خانہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں ایک مسجد، درگاہ اور قبرستان...
07/12/2024

خواجہ مارکیٹ راجوری کا منظر۔ ماضی قریب تک اس علاقے کو ذبح خانہ کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں ایک مسجد، درگاہ اور قبرستان بھی موجود ہے۔ یہ مارکیٹ راجوری شہر کی قدیم مارکیٹ کا گیٹ وے بھی ہے جہاں سے داخل ہونے کے بعد پرانی مارکیٹ شروع ہوجاتی ہے جو جرالوں کی طرف سے کھڑی کی گئی چار دیواری کے اندر تھی۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

ڈنی دھار علاقہ ضلع راجوری۔  یہ علاقہ تاریخ میں کافی اہم رہا ہے کیونکہ اس کی چوٹی پر تاریخی ڈنی دھار قلعہ ہے جو جرالوں کی...
07/12/2024

ڈنی دھار علاقہ ضلع راجوری۔ یہ علاقہ تاریخ میں کافی اہم رہا ہے کیونکہ اس کی چوٹی پر تاریخی ڈنی دھار قلعہ ہے جو جرالوں کی حکومت ختم کرنے کے بعد ڈوگرہ گورنر نے تعمیر کروایا تھا۔ اس علاقے سے ہوتے ہوئے سڑک بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کو جوڑتی ہے۔ اسی علاقے میں دور درشن کا اسٹیشن بھی ہے اور کئی سرکاری و نجی سکول موجود ہیں۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

ہزاروں سال سے مسافروں  کی گزر گاہ! چندی مڑھی کلچا۔مغل شاہراہ پر واقع چندی مڑھ کے کلچے پیر پنجال خطے میں کافی مشہور ہیں۔ ...
07/12/2024

ہزاروں سال سے مسافروں کی گزر گاہ!
چندی مڑھی کلچا۔مغل شاہراہ پر واقع چندی مڑھ کے کلچے پیر پنجال خطے میں کافی مشہور ہیں۔ لوگ ہر جگہ سے یہ کلچے منگاتے ہیں۔ چندی مڑھ ہزاروں سال سے مسافروں کو سہولیات پہنچاتا رہا ہے۔ سکندر سے لیکر موجودہ وقت تک بادشاہ، امراء، وزیروں، راجاؤں، تاجروں، صوفیوں کی یہ گذر گاہ رہی ہے اور اس راستے باقی دنیا کیساتھ تجارت بھی کرتا رہا ہے۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

 #چلتے  #چلتے!جب میں نے گاڑی روکی، شیشہ اتارا تو باہر کچھ اس طرح کی آوازیں آرہی تھی۔آؤ بھائی آؤ، جادوئی تیل لے جاؤ!ہڈیوں...
06/12/2024

#چلتے #چلتے!
جب میں نے گاڑی روکی، شیشہ اتارا تو باہر کچھ اس طرح کی آوازیں آرہی تھی۔
آؤ بھائی آؤ، جادوئی تیل لے جاؤ!
ہڈیوں کے درد کا پکا علاج، جوڑوں کے درد کو بھگائے پل میں!
کمزور ہڈیوں کو مضبوط کرے، عمر بھر کی گارنٹی!
بزرگوں کے لیے خاص، نوجوانوں کے لیے خاص!
آزماؤ، ایک بار لگاؤ اور فرق دیکھو!
جوڑوں کا درد، کمر کا درد، گھٹنوں کا درد سب ختم!
جادوئی تیل، سستا اور بہترین!
خالص جڑی بوٹیوں سے تیار شدہ، بغیر کسی سائیڈ ایفیکٹ کے!
آج ہی لے جاؤ، آزما کے دیکھو، خوش ہو جاؤ!
جلدی کرو، جلدی کرو، موقع ہاتھ سے نہ جانے دو!"
یہ ایک صاحب تھے جو فراٹے دار آواز میں اپنا تیل بیچ رہے تھے۔ اس کے تیل کی نہ تو میں گارنٹی دیتا ہوں اور نہ میں نے خریدا لیکن اس کے الفاظ برتنے کا طریقہ اچھا لگا اسلئے سوچا کہ اس کی اس آواز کو تحریر میں بدل لیتے ہیں۔ ہڈیوں کے درد یا کمزوری کے لیے تیل بیچنے والے یہ لعگ عام طور پر سڑکوں پر اپنی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لیے منفرد اور پرکشش انداز میں آواز لگاتے ہیں۔ یہاں تک کہ بنگال اور اترپردیش کے یہ تاجر گوجری اور پہاڑی میں بھی آواز لگاتے ہیں تاکہ موامی آبادی کو اپنی طرف کھینچا جاسکے۔ ان بیچاروں کا کاروبار ہے۔ ہوسکتا ان کے دعوے درست بھی ہوں۔ ویسے تو جڑی بوٹیاں کا تیل سب سے اچھا ہوتا ہے مگر ان میں کتنی جڑی بوٹی ہوتی ہے اس کا مجھے کوئی پتہ نہیں۔
(ذاکر ملک بھلیسی)

کیا کسی نے خریدا ہے اور کیا اثر ہوا؟

قصہ ادرک کا👍-ادرک ہم روز خریدتے ہیں۔ میں نے بھی آج خریدا ۔ اس کے فوائد تو سبھی کو معلوم ہیں لیکن میں نے اس کی تحقیق کی ک...
06/12/2024

قصہ ادرک کا👍-ادرک ہم روز خریدتے ہیں۔ میں نے بھی آج خریدا ۔ اس کے فوائد تو سبھی کو معلوم ہیں لیکن میں نے اس کی تحقیق کی کہ سب سے پہلے ادرک کو کہاں استعمال کیا گیا اور دنیا میں کون سی سب سے تاریخی پرانی کتابیں ہیں جن میں ادرک کے بارے میں لکھا گیا ہے۔ ان کتابوں کا پہلا صفحہ کا فوٹو بھی اپلوڈ کررہا ہوں۔ ان سب کے ترجمے ہوئے ہیں۔ذاکر ملک بھلیسی
ادرک (Ginger) کے استعمال کی قدیم ترین مثالیں ایشیا کی تہذیبوں میں ملتی ہیں، خاص طور پر بھارت اور چین میں۔ اس کے ابتدائی استعمال کا ذکر قدیم طب اور روایات میں پایا جاتا ہے۔ چینی طب میں ادرک کا ذکر کتاب “شنناگ بین کاؤ” کتاب میں ہے - یہ چینی طب کی ایک قدیم کتاب ہے، جسے تقریباً 2000-3000 سال پرانا سمجھا جاتا ہے۔ اس کتاب میں ادرک کو ایک "گرم" جڑی بوٹی کے طور پر بیان کیا گیا ہے جو ہاضمے کو بہتر بنانے اور سردی سے تحفظ فراہم کرنے میں مددگار ہے۔ اس کتاب میں ادرک کو بیماریوں کے علاج کے لیے اہم جزو قرار دیا گیا ہے۔
قدیم بھارت میں 300قبل مسیح میں ایک کتاب “!چراکا سامیتا” لکھی گئی ہے۔ یہ آیورویدک طب کی ایک بنیادی کتاب ہے جس میں ادرک کو ہاضمے اور جوڑوں کے درد کے لیے ایک اہم دوا کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ادرک کو آیوروید میں "وشووا بھیشج" (عالمی دوا) کہا گیا ہے۔
عربی میں ایک کتاب “کتاب الادویہ المفردہ” ہے جس کو مشہور مسلمان طبیب ابن بیطارنے لکھا ہے جس میں ادرک کے طبی فوائد کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اسلامی طب میں ادرک کو ہاضمے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
اسی طرح قدیم یونانی اور رومی متن میں لکھی گئی کتاب “ڈی میٹیریا میڈکا” ہے جو کو ایک یونانی طبیب ڈائیوسکورائیڈس نے پہلی صدی عیسوی میں لکھی۔ اس میں ادرک کو معدے کے مسائل اور زخموں کے علاج کے لیے استعمال کیا گیا۔ ادرک کے ذکر سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تجارت کے ذریعے یونان اور روم تک پہنچ چکا تھا۔
قدیم مصری کتاب “ایبرس پیپیرس” 1500 قبل مسیح کی ہے۔ اس میں مختلف جڑی بوٹیوں کا ذکر ہے، جن میں ادرک بھی شامل ہے۔مصری اسے ہاضمے کی دوا اور خوشبو کے لیے استعمال کرتے تھے۔
اب اس کے فوائد بھی جان لیجئے۔
بھارت میں ادرک کو "ادویات کی ماں" کہا جاتا تھا۔ آیورویدک طب میں اسے قوت مدافعت بڑھانے، معدے کے مسائل، اور بلغم ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
ادرک ہاضمے کے نظام کو بہتر بناتا ہے اور معدے کی گیس یا بدہضمی سے نجات دلانے میں مددگار ہے۔ کھانے کے بعد ادرک کا استعمال بھاری پن اور معدے کی جلن کو کم کرتا ہے۔ اس سے الٹی کو دور کرنے کے لیے قدرتی علاج کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ادرک میں موجود سوزش کم کرنے والی خصوصیات جوڑوں کے درد، گٹھیا، اور پٹھوں کی سوجن کو کم کرنے میں مدد دیتی ہیں۔ اس کو گرم تاثیر کی وجہ سے سردی، زکام، اور گلے کی سوزش کے لیے ایک بہترین علاج کے طور استعمال کیا جاتاہے۔ ادرک کی چائے یا قہوہ مدافعتی نظام کو مضبوط کرتا ہے اور گلے کی خراش کو دور کرتا ہے۔ ادرک جسم میں چربی کو تیزی سے جلانے میں مدد کرتا ہے اور میٹابولزم کو بہتر بناتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اسے وزن کم کرنے والی غذا میں شامل کیا جاتا ہے۔ یہ خون میں شوگر کو قابو میں رکھنے اور دل کی بیماریوں کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ہے۔ ادرک کا رس جلد کو چمکدار بناتا ہے اور جھریاں کم کرتا ہے۔ یہ بالوں کی صحت کے لیے بھی مفید ہے اور خشکی کو ختم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ ادرک قدرت کا انمول تحفہ ہے جو ذائقے کے ساتھ ساتھ صحت کے لیے بے شمار فوائد فراہم کرتا ہے۔
(ذاکر ملک بھلیسی)
پوسٹ کو شئیر کردیجئے۔ نوازش

راجوری میں کچھ لوگ بٹن مشروم (Button Mushroom) کی پیداوار کرکے منافع بخش کاروبار کررہے ہیں جو اچھی بات ہے۔ میں نے سبزی د...
06/12/2024

راجوری میں کچھ لوگ بٹن مشروم (Button Mushroom) کی پیداوار کرکے منافع بخش کاروبار کررہے ہیں جو اچھی بات ہے۔ میں نے سبزی دکان سے مشروم خریدا تو پتہ چلا کہ راجوری کے کئی کسان مشروم کی کاشت کرتے ہیں۔ میں نے مشروم کلٹی ویشن پر سال 2007میں ایک کتابچہ ترتیب دیا تھا جو بایو ریسورس پراجیکٹ کا حصہ تھا اور راجوری میں پہلی بار ہم نے 60کسانوں کو اس کاشت کے بارے میں بتایا، سکھایا اور آج وہ بہترین روزگار کما رہے ہیں۔ میں آپ کو تھوڑی سی جانکاری دیتا ہوں کہ یہ کاروبار کیسے شروع کیا جاسکتا ہے۔ اس پوسٹ کو شئیر بھی کردیں تاکہ کسی بے روزگار کو روزگار کا راستہ مل سکے۔
اس کی کاشت کے لیے ایک خاص ماحول اور مخصوص طریقہ کار درکار ہوتا ہے۔ بٹن مشروم کی پیداوار کے لیے درجہ حرارت18-25 ڈگری سیلسیس اور نمی65-85 فیصد ہونی چاہئے۔اس کو براہ راست روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی، لہٰذا نیم تاریک جگہ موزوں ہے۔ مشروم کی کاشت کے لیے اب اے پہلےخاص کمپوسٹ تیار کرنا پڑتا ہے۔ گندم یا چاول کی بھوسی، بھوسہ، یا گھاس استعمال کرکے یوریا،گوبر، اور چونے کا محلول بنانا پڑتا ہے۔یہ مواد 2-3 ہفتے کے لیے ڈھیر لگا کر رکھنا ہوتا ہے اور ہر 4-5 دن بعد اس کو پلٹنا بھی ہوتا ہے تاکہ مناسب خمیر پیدا ہو۔اس کے بعد مشروم کے بیج، جنہیں اسپون کہتے ہیں، کمپوسٹ میں شامل کیے جاتے ہیں۔ کمپوسٹ کو لکڑی یا پلاسٹک کی ٹرے میں بھر کر اسپون کو کمپوسٹ میں برابر پھیلا دیا جاتا ہے۔ ٹرے کو ایک بند جگہ میں رکھنا ہوتا ہے جہاں درجہ حرارت اور نمی کا مناسب انتظام ہو۔ 12-14 دن کے بعد کمپوسٹ کے اوپر مٹی کی ایک پتلی تہہ لگانی ہوتی ہے۔ ۔ روزانہ نمی کو برقرار رکھنے کے لیے پانی کا اسپرے بھی کرنا پڑتا ہے۔ 30-40 دن کے اندر مشروم مکمل طور پر تیار ہو جاتے ہیں۔
بٹن مشروم کو تازہ یا خشک شکل میں بیچا جا سکتا ہے۔اس کو پیک کرکے مناسب مارکیٹنگ سے بہتر قیمت حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ کاروبار کافی منافع بخش ہے اور اس کو سیکھنے میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ جو بے روزگاری سے پریشان ہیں ان کو اس میدان میں قسمت آزمائی کرنی چائیے۔
آپ کی کیا رائے ہے
(ذاکر ملک بھلیسی)

آج سبزی کی دکان سے ال خریدی۔ اس سبزی کو ہم “ال” کہتے ہیں۔ ایسا کیوں کہتے ہیں اسکی جانکاری نہیں ہے۔ عام طور پر اسے کدو او...
06/12/2024

آج سبزی کی دکان سے ال خریدی۔ اس سبزی کو ہم “ال” کہتے ہیں۔ ایسا کیوں کہتے ہیں اسکی جانکاری نہیں ہے۔ عام طور پر اسے کدو اور انگریزی میں پمپکن کہتے ہیں۔ راجوری میں اس کا بہت استعمال ہوتا ہے اور یہاں کے لوگ اس سبزی کو کافی پسند کرتے ہیں۔ یہ اپنی غذائیت، ذائقے اور طبی فوائد کے باعث بہت مقبول ہے۔یہ وٹامنز، منرلز، اور فائبر سے مالا مال ہوتی ہے۔ اس میں وٹامن اے، سی، اور ای کے علاوہ پوٹاشیم اور میگنیشیم بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے بیج پروٹین اور اومیگا تھری فیٹی ایسڈ کا بہترین ذریعہ ہیں، جو دل کی صحت کے لیے مفید ہیں۔ وٹامن اے کی موجودگی کی وجہ سے یہ آنکھوں کی صحت کے لیے مفید ہے۔اس میں کم کیلوریز ہوتی ہیں اور فائبر سے بھرپور ہونے کے باعث وزن کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس میں موجود وٹامن سی اور اینٹی آکسیڈنٹس جسم کی قوت کو بڑھاتے ہیں۔ اس کااستعمال بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ہم اس والی ال کو سبزی کے طور ہی استعمال کرتے ہیں لیکن تھوڑی پیلی رنگ والی کو ابال کر پکایا جاتا ہے۔ کچھ کدو کو دودھ میں پکا کر کھایا جاتا ہے۔
آپ اسے کی کہتے ہیں ضرور بتائیں
(ذاکر ملک بھلیسی)

Address

Jammu

Website

Alerts

Be the first to know and let us send you an email when Zakir Malik Bhallesi posts news and promotions. Your email address will not be used for any other purpose, and you can unsubscribe at any time.

Videos

Share

Category


Other Video Creators in Jammu

Show All